اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب0%

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 391

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ شھید باقر الصدر طاب ثراہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 391
مشاہدے: 104412
ڈاؤنلوڈ: 3731

تبصرے:

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 391 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 104412 / ڈاؤنلوڈ: 3731
سائز سائز سائز
اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

شہید اسلام آیت اللہ سید محمد باقر الصدر طاب ثراہ

کی معرکۃ الآراء کتاب

اسلامی اقتصادیات

اور

جدید اقتصادی مکاتب

۱

شناسنامہ کتاب

نام کتاب:اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

مصنف: آیة اللہ شہید سید محمد باقر الصدر طاب ثراہ

مترجم: علامہ سید ذیشان حیدر جوادی

کمپوزنگ : زیر نظر شبکہ امامین الحسین علیھما السلام

پیشکش : امام حسین علیہ السلام فاونڈیشن

۲

فہرست

گفتار مترجم (اقتصادی مسئلہ کی اہمیت) 9

اقتصادی کشمکش کے اسباب 13

مساوات یامواسات 18

اقتصادی تاریخ کا ایک خاکہ 28

فنون لطیفہ 37

آثار قدیمہ 38

مخطوطات ومطبوعات 39

سپلائی اور ڈیمانڈ 40

مارکس اور سرمایہ داری 43

مارکس ازم پر ایک نظر 46

سرمایہ داری پر ہماری ایک نظر 50

آزادی؟ 60

اسلامی معاشرہ(معیارِ قیمت) 65

تقسیم 69

انفرادی ملکیت 71

سرمایہ داری کا فساد 73

ذخیرہ اندوزی 75

۳

سود 76

بینک 78

حیات وکائنات 81

انشورنس 85

فیملی پلاننگ 87

کلمۂ مؤلف (برائے طبع دوم) 103

ابتدائیہ 125

مارکسیت کے ساتھ 132

نظریۂ مادیت تاریخ 133

یگانہ محرک تاریخ 135

اقتصادی محرک یا تاریخی مادیت 136

تاریخی مادیت اور واقعیت 140

طریقۂ جدلیت 145

تاریخی جدلیت کی کمزوری 147

دلیل ونتیجہ کا تضاد 149

مادیت تاریخ کی روشنی میں 151

مادیت تاریخ(ایک عام نظریہ کی حیثیت سے) 155

مادیت تاریخ کے دلائل 156

فلسفی دلیل 156

تجربیاتی دلیل 166

کیا مارکسیت پوری تاریخ پر محیط ہے 176

۴

پیداواری قوتوں کا ارتقاء اور مارکسیت 180

فکر اور ماکسیت 183

دین 185

ب:فلسفہ 189

فلسفہ اور طبیعی علوم 195

فلسفہ اور طبقاتی نزاع 196

تجربیاتی علوم 201

مارکسی طبقیت 206

مارکسیت اور طبیعی عوامل 209

مارکسیت اور فنون لطیفہ 213

مارکسی نظریہ کے تفصیلات 217

غلام معاشرہ 224

جاگیردار معاشرہ 226

وقت انقلاب پیداوار میں ترقی نہ ہوئی تھی 229

اقتصادی حالات نے ترقی نہیں کی 230

آخرکار سرمایہ دار معاشرہ پیداہوگیا 232

مارکس کا اعتراف 238

سرمایہ دار نظام کے قوانین 243

قیمت کی بنیاد عمل 244

مارکس نے اقتصادی بنیادکس طرح قائم کی؟ 247

مارکسی بنیاد پرنقدونظر 249

۵

مارکسی مذاہب 272

اشتراکیت واشتمالیت کیاہیں؟ 273

مارکسی مذہب پر عمومی تنقید 275

اشتراکیت 276

اشتمالیت 286

ارکان سرمایہ داری 293

(1)سرمایہ دار تنظیم کا عملی قوانین سے ارتباط 296

(3)سرمایہ داری کے علمی قوانین کا تنظیمی رنگ 298

(4)مذہبی سرمایہ داری کے افکار واقدار پر نقد ونظر 303

حریت مصالح عامہ کا وسیلہ ہے 307

آزادی پیداوار کی زیادتی کا ذریعہ ہے 311

حریت انسان کا فطری حق ہے 313

اسلامی اقتصادیات کے ارکان 321

1۔اسلامی اقتصادیات کا خاکہ 323

(1)مرکب ملکیت 324

(2)محدود آزادی 326

(3)اجتماعی عدالت 330

(2)اسلامی اقتصادایک مجموعہ کا جزء ہے 334

عقیدہ، مفاہیم واقدار ، جذبات واحساسات 336

(1)اقتصادکا ارتباط عقیدہ سے 338

(2)اقتصادیات ومفاہیم 339

۶

(3)اقتصادیات وجذبات 340

(4)اقتصادیات اور مالی سیاست 340

(5)اقتصادیات اور سیاسی نظام 341

(6)سودخوری اور اجتماعی عدالت 341

(7)انفرادی ملکیت اور جہاد 342

(8)اقتصادیات اور تغریرات 345

(3)اسلامی اقتصاد کا عمومی اسلوب 345

طبیعی علوم اس مسئلہ کے حل کرنے سے قاصر ہیں 350

مادیت تاریخ اور مشکل 352

اسلامی اقتصادکوئی علم نہیں ہے 358

(5)تقسیم پیداوار سے الگ شکل میں 362

(6)اقتصادی مشکلات اور ان کا حل 371

طریق تقسیم(تقسیم میں عمل کا حصہ) 373

تقسیم میں ضرورت کا حصہ 377

ضرورت اسلام واشتمالیت کی نظر میں 378

ضرورت اسلام واشتراکیت کی نظر میں 378

ضرورت اسلام وسرمایہ داری کی نظر میں 380

انفرادی ملکیت 381

ملکیت بھی ذریعۂ تقسیم ہے 383

تبادلہ 385

۷

۸

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

گفتار مترجم(اقتصادی مسئلہ کی اہمیت )

ٹھنڈے دل اور گہری نظرسے دیکھاجائے تو اقتصادی مسئلہ انسانی زندگی میں ایک نبیادی حیثیت رکھتاہے۔یہ مسئلہ کل کے انسان کے لئے اتنااہم نہیں تھا جتنا آج کے انسان کے لئے اہم ہوگیاہے۔''ضرورت ایجاد کی ماںہے''کل تک انسان کے ضروریات محدود تھے اور کائنات کی فیاضیوں پر انسان کی جابرانہ دست درازیوں کابھی اثرنہیں ہواتھا۔ اس لئے ہرشخص اپنی ضرورت کے مطابق سامان فراہم کرلیاکرتاتھالیکن آج کا انسان اور آج کے ضروریاتعَیَاذاًبِاللّٰهِ

ہرشخص کی خواہش ہے کہ پوری کائنات پربلاشرکت غیرے قابض ہوجائے اور ہر ایک کی تمنا ہے کہ پورے عالم کو ضروریات زندگی میں شامل کرلے۔ایسے حالات میں دماغی کشمکش اور ذہنی انحطاط کا پیداہونا ناگزیر تھا جیساکہ ہوا !

اقتصادی مسئلہ کی اہمیت کا اندازہ اس واقعہ سے لگایاجاسکتاہے کہ کسی بھوکے سے

۹

پوچھا گیا:''ایک اور ایک''تواس نے کہا دو روٹیاں۔اس مثل کو ہمارے ملک میں ہمیشہ مثل ہی کادرجہ دیاگیاہے اور اس کی پشت پر کام کرنے والے فلسفہ کو درخورِ اعتناء نہیں سمجھاگیا۔ حالانکہ یہ واقعہ اقتصادی مسئلہ کی اہمیت کابہترین عکاس وترجمان ہے۔اس سے صاف اندازہ ہوتاہے کہ اقتصادی کشمکش انسان کے ذہن کو کس درجۂ انحطاط تک پہنچادیتی ہے اور اس کے افکار ونظریات میں کتنا تغیر پیداہوجاتاہے۔وہ علم ریاضیات کے مسلم مسائل ''ایک اور ایک دو''جیسے حسابات کو بھی صحیح طریقہ سے نہیں جوڑسکتااور ان میں بھی اپنی معاشی حالت کو شامل کر دیتاہے اور زبان حال سے یہ اعلان کرتاہے کہ معاشی اعتبار سے خوشحال انسان کی زبان وفکر اور ہوتی ہے اور معاشی بدحالی کے شکار انسان کی زبان وفکر اور ! وہ ایک اور ایک کو دوسمجھتاہے اور یہ دوروٹیاں۔

اس واقعہ کے خصوصیات پرگہری نظرڈالی جاتی ہے تو دور حاضرکے جملہ نقائص وعیوب بیک وقت نگاہوں کے سامنے آجاتے ہیں۔دورِ حاضر میں علم معاشیات کی اتنی اہمیت اور کمیونزم وسوشلزم کے اتنے چرچے اس لئے نہیں ہیں کہ انسان نے کوئی نئی حقیقت دریافت کرلی ہے اور وہ اپنے انکشاف کا ڈھنڈوراپیٹنا چاہتاہے بلکہ یہ سارا شورقیامت صرف اس لئے ہے کہ معاشی مشکلات نے اس کے دل ودماغ کو معطل کر دیاہے اور وہ روٹی، کپڑے سے ہٹ کر کچھ سوچنے کے لئے تیارنہیں ہے۔اس بوکھلاہٹ میں کبھی مذہب کو براکہتاہے،کبھی اخلاقی اقدار کو قابل مذمت ٹھہراتاہے۔کبھی تہذیب وتمدن کا مذاق اڑاتا ہے ،کبھی دولت وسرمایہ کی مخالفت میں کھوکھلے اور بے جان نعرے بلندکرتاہے اور اس حقیقت سے بالکل غافل ہوجاتاہے کہ یہ ہنگامے مسئلہ کا واقعی حل نہیں ہیں۔مرض کا پروپیگنڈا علاج نہیں ہواکرتا۔حالات کا رونا انقلاب نہیں لاسکتا۔کھوکھلے نعرے جاندارنہیں ہوسکتے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کشمکش کے پیچھے کام کرنے والے عناصر کا پتہ لگائیں اور ان کا قلع قمع کرنے کی کوشش کریں۔ہم نے یہ تواندازہ کرلیاہے کہ معاشی بدحالی کے پیچھے چند

۱۰

افراد کی ہوس رانی اور ان کے بیجااستحصال کا دخل ہے لیکن یہ بھول گئے کہ استحصال کی جڑیں سرمایہ داری میں نہیں بلکہ نفس کی خباثت میں ہیں نتیجہ یہ ہواکہ سرمایہ داری کے خلاف اتنا بڑاپرزور نعرہ بلند کیاکہ مذہب کی تہذیب نفس کی تبلیغ بھی نقارخانہ میں طوطی کی آواز ہوگئی اور دین کی بے معنی مخالفت نے خباثت نفس کو بڑھنے اور پنپنے کا موقع دے دیا اور ہر نعرہ اپنے ساتھ ایک نئی مصیبت لے کر سامنے آیا۔مرض بڑھتاگیاجوں جوں دواکی۔

اقتصادی کشمکش نے جہاں انسان کے ذہن کو فکر ونظر کے میدان میں ماؤف ومفلوج بنادیاہے وہاں چند مصیبتیں اوربھی پیداکی ہیں جن سے نجات حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہوگیاہے۔

پہلی مصیبت یہ ہے کہ سماج میں ظلم عام ہوگیاہے اور معاشرہ دوطبقوں میں تقسیم ہوگیاہے۔ایک طبقہ کاخ وایوان کی زینت ہے اور دوسرا ڈیروں اور چھولداریوں کی رونق۔ جذبۂ انتقام کی فراوانی کایہ عالم ہے کہ پہلا طبقہ دوسرے طبقہ کے خون کا آخری قطرہ تک چوس لینا چاہتاہے اور دوسرا طبقہ پہلے طبقہ کی شہ رگ حیات تک قطع کر دینا اپنا فرض اولین سمجھتاہے۔عزت ودولت کے واقعی اقدار کے ساتھ انتقام کے تصورمیں بھی فرق آگیاہے اور ہر شخص اپنے علم کو انتقام کا نام دے کر اس میں حسن پیداکررہاہے۔ذہنی بوکھلاہٹ کسی طبقہ کو یہ سوچنے کا موقع نہیں دیتی کہ اس طبقاتیت کی نبیادیں کہاں ہیں اور معاشرہ میں اتناشدید ووسیع ظلم کہاں سے آگیاہے؟

اسی اقتصادی کشمکش نے افراد معاشرہ کو مختلف لاعلاج امراض کا شکار بھی بنارکھا ہے دواؤں کی فراوانی اورایجادات وانکشافات کی کثرت بھی مرض کا علاج نہیں کرسکتی۔ہر دوا ایک دولت کی طلبگار ہے اور ہر علاج ایک بڑے سرمایہ کامتقاضی غریب غربت کی نبیاد پر علاج سے قاصر ہے اور امیرامارت کی نبیاد پر غربت کو قابل توجہ نہیں سمجھتا۔روٹی،کپڑے کے سوال سے آسودہ ڈاکٹراس مریض کی طرف رخ بھی نہیں کرتاجس

۱۱

سے خاطرخواہ آمدنی کی امید نہ ہو۔نتیجہ یہ ہوتاہے کہ مریض توراہی عدم ہوجاتاہے لیکن پسماندگان میں ایک عظیم ذہنی کشمکش چھوڑجاتاہے۔وہ ڈاکٹر کی لاپرواہی کے پیش نظریہ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ یہ لاپرواہی دولت اور سرمایہ کے نتیجہ میں پیداہوئی ہے۔ان کا ذہن اس طرف جانے کی اجازت ہی نہیں دیتا کہ دولت سرمایہ کے علاوہ غلط تربیت اور نا مناسب نفسیات بھی سیکڑوں برائیوں کی جڑ ہیں او ر اس کا واضح اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ شخص کے بجائے صنف اور فرد کے بجائے جماعت سے انتقام لینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں اور اس طرح ذاتی عناد جماعتی اختلاف کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور سماج مزید مشکلات سے دوچار ہو جاتا ہے۔

اقتصادی بدحالی نے دور حاضر کے انسان پر سب سے بڑا ظلم کیا ہے کہ اس سے دو عظیم طاقتیں سلب کر لی ہیں۔ انسان کے پاس دو ایسے جو ہر تھے جن پر وہ اپنی پوری کائنات قربان کر سکتا تھا ایک اس کا مذہب اور اس کی آبرو۔دنیا کے لاکھوں اور کروڑوں قربانیوں کے قصے اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ انسان نے ان دو بے بہا جواہرات پر کتنی بھینٹ چڑھائی ہے اور کس قدر قربانیاں دی ہیں لیکن معاشی بد حالی نے اسے اس منزل پر پہنچا دیا کہ وہ آبرو کو ایک ڈھونگ اور مذہبی رسومات کی بجا آوری کو تضییع اوقات سمجھتا ہے ۔ ایک مسلمان کی نظر میں ایک گھنٹہ مسجد میں بیٹھنے سے کہیں زیادہ بہتر ایک گھنٹہ بازار میں بیٹھنا ہے۔ حج پر رقم خرچ کرنے سے بہتر قومی فنڈ میں دولت لگا دینا ہے ۔ عزت و آبرو جیسے تصورات سرمایہ داری اور جاگیر داری کے فرسودہ خیالات کا درجہ حاصل کر چکے ہیں ۔ عورتیں دولت کے پیچھے ہوس پرستوں کی جنسی پیاس کا بجھا دینا اپنے لئے باعث فخر سمجھنے لگی ہیں اور اس طرح انسان سے اس کے بیش بہاجواہرات تقریباً سلب ہو چکے ہیں۔

یہ حالات اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ اقتصادی مسئلہ صرف روٹی کے میدان تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس کی وسعتیں اخلاقیات ، نفسیات، مذہبیات، اجتماعیات

۱۲

اور فلسفی افکار کو بھی اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ معاشی انتقام سے بھرپور انسان فکری کجروی کی بنیاد پرمرض کے واقعی اسباب کو تلاش کرنے سے عاجز ہو گیا ہے اور ذہنی دیوالیہ پن ہر شے کی پشت پر اسی بد حالی کو کار فرما دکھاتا ہے ۔ اس کے لئے یہ سوچنا تقریباً نا ممکن ہو گیا ہے کہ روٹی کپڑے کے علاوہ کچھ اور عوامل ومحرکات بھی ہیں جن کی اصلاح معاشی اصلاح سے ماورا ہے اور جن کی اصلاح کے بغیر سماج کی اصلاح نا ممکن ہے۔

اقتصادی کشمکش کے اسباب

عالم اقتصادیات میں جب سے اونچ نیچ کی طبقاتی کشمکش پیدا ہوئی ہے اسی وقت سے انسان نے اس کشمکش کو دور کرنے کے ذرائع پر غور کرنا شروع کیا ہے لیکن عجیب اتفاق ہے کہ سیکڑوں اور ہزاروں عقلاء کی عقل صرف ہونے کے باوجود آج تک یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکا بلکہ یہ کہنا بھی بالکل بیجا نہ ہوگا کہ جیسے جیسے علاج معاش کیا گیا مرض میں اضافہ ہوتا گیا اور ہر دور اپنے ساتھ ایک نیا درد لے کر آئی ۔

دور حاضر کے انسان کا آخری فیصلہ یہ ہے کہ معاشی کشمکش سے سرمایہ داری پیدا ہوتی ہے اور سرمایہ داری ذاتی ملکیت کا نتیجہ ہے اس لئے ذاتی ملکیت کے سلسلے کو ختم کر دینا ہچائے ۔ اس کے ختم ہوتے ہی جملہ مشکلات حل ہو جائیں گے اور دنیا ایک نئے صالح اقتصادی نظام سے ہمکنار ہو جائے گی ۔ لیکن غور وفکر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس مسئلہ کے پیچھے بھی انتقامی جذبہ کا م کر رہا ہے۔ انسان نے سرمایہ داروں کے مظالم کو دیکھنے کے بعد یہ نتیجہ نکال لیا ہے کہ ان کے خاتمہ کے بعد ہر کشمکش ختم ہو سکتی ہے اور یہ سوچنے کی زحمت نہیں کی

۱۳

کہ بنیادی طور پر سرمایہ داری کا جذبہ ابھرتا کہاں سے ہے؟ سرمایہ دار ظلم و تشدد کو کیوں پسند کرتا ہے ؟ وہ دولت میں روز افزوں اضافہ کیوں چاہتا ہے اور اس غور نہ کرنے کا سبب صرف یہ ہے کہ ان لوگوں کے فلسفہ میں دنیا کا آخری محرک و عامل اقتصاد ہے ۔ اخلاقیات ، فلسفہ، افکار کی کوئی بنیادی حیثیت نہیں ہے۔حالانکہ یہ خود ایک بے بنیاد فکر ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اقتصادی حالات انسانی افکار و نظریات کو متاثر کر دیتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اقتصادیات سے ہٹ کر ان کی کوئی بنیاد ہی نہیں ہے۔اس کی بہترین دلیل آپ کو گذشتہ مثال میں مل سکتی ہے ۔ اقتصادیات نے بھوکے کو دو روٹیاں کہنے پر مجبور کر دیا لیکن شدت گرسنگی کے باوجود وہ ایک اور ایک کے مجموعہ کو تین روٹیاں نہیں کہہ سکا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ریاضیات کی اپنی ایک بنیاد ہے جس سے اقتصادیات کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اقتصادیات ان افکار پر اثر انداز ہو کر ان کے فیصلوں کو مخلوط اور مبہم بنا دیتے ہیں لیکن انہیں بدل نہیں سکتے ۔ریاضیات ہی کی طرح فلسفہ کے دیگر الٰہیاتی اور مذہبی مسائل ہیں جن پر اقتصادیات کی اثر اندازی مسلم ہے لیکن اقتصادیات کی بنیادی حیثیت مسلم نہیں ہے ۔ مقصد یہ ہے کہ دنیا کے اہم بنیادی مسائل پر غور کرتے وقت اقتصادیات کے علاوہ دوسرے اساسی تصورات کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے تاکہ ان مسائل کے حل کرنے میں سہولت بھی ہو اور مرض کے ساتھ اس کی جڑوں کا بھی اندازہ ہو جائے ۔

اس سلسلے میں اس مثال کا ذکر کرنا بے محل نہ ہوگا کہ ایک فٹ پاتھ پر پڑے ہوئے فقیر سے یہ سوال کیا گیا کہ تم فقر وفاقہ کی زندگی کیوں گذار رہے ہو؟ تمہارا قیام فٹ پاتھ پر کیوں ہے؟تو اس نے بر جستہ جواب دیا کہ ملک کے جملہ مکانات اور سارے محلے پر سرمایہ داروں نے قبضہ کر لیا ہے تو اب ہم غریبوں کا ٹھکانا فٹ پاتھ کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے ؟ مطلب یہ ہے کہ اگر سرمایہ داروں نے مکانات پر قبضہ نہ کیا ہوتا تو ہم بھی انہیں مکانات میں ہوتے جن میں یہ لوگ زندگی گذار رہے ہیں۔

۱۴

انسانی نفسیات کی یہی کمزوری ہے جس کا علاج کسی قانون نے نہیں کیا۔ معاشی اونچ نیچ کو تو محل بحث قرار دیا لیکن اس جذبہ کو یکسر نظر انداز کر دیا جو اس فقیر کے دل میں کروٹیں لے رہا ہے اور جن کی بنا پر یہ بھی محلوں کے خواب دیکھ رہا ہے ۔ ایسا خواب جو کسی وقت بھی شرمندۂ تعبیر ہو سکتا ہے لیکن نتیجہ میں ایک نئی کشمکش ہی لا سکتا ہے ۔ کشمکش کا علاج نہیں لا سکتا یعنی محل کا رہنے والا فٹ پاتھ پر تو آ سکتا ہے لیکن فٹ پاتھ کا خاتمہ نہیں ہو سکتا ۔

اس تجزیہ پر نظر کرنے کے بعد ایک سطحی ذہن بہت جلد اس نتیجہ پر پہنچ جاتا ہے کہ معاشی مسئلہ کا پورا حل فٹ پاتھ کے خاتمہ اور معاشی مساوات میں ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ معاشی میدان میں مساوات کا تصور انتہائی خوش کن اور مہمل ہے اس کی کسی واقعیت کا خیال بھی دور از عقل بات ہے۔معاشی مساوات کا تصور ایسا ہی ہے جیسے کہ تمام انسانوں کے بیک وقت گورے یاکالے یا لمبے یا کوتاہ قامت ہوجانے کا تصور ہوکہ جس طرح یہ ناممکن اور محال ہے اسی طرح وہ بھی''خیال است ومحال است وجنوں''کا مصداق ہے۔قرآن مجید نے اس نکتہ کی طرف اشارہ کیا تھاکہ تخلیقی میدان میں اختلاف رنگ ونسل ہماری نشانی ہے اور معاشی میدان میں اختلاف طبقات ہماری مقرر کی ہوئی فطرت کا نتیجہ ۔''من آیاتہ اختلاف السنتکم والوانکم''''نحن قسمنآ بینہم معیشتہم ورفعنآ بعضہم فوق بعض درجآت''

فرق صرف یہ ہے کہ ہم نے معاشی طبقاتیت کو کسی عزت وذلت کا معیار نہیں بنایا اور تم نے دولت وغربت کو ہی عزت وذلت کا معیار بنالیاہے۔ہمارا کھلا ہوا اعلان ہے کہ انسانیت کو مختلف شعوب وقبائل،مختلف الوان والسنہ میں تقسیم کرنے کاکام ہماراہے۔ تمہاری عظمت وبزرگی کاراز اس تقسیم وتفریق میں نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق تمہارے ذاتی تقویٰ اور کردار سے ہے۔تخلیق پر فخرکرنادلیل عاجزی اور ذاتی کسب وکار پرمباہات کرنا دلیل ہمت مرداں ہے۔

۱۵

اس مقام پر یہ نہ سوچاجائے کہ جب طبقاتی تقسیم کاکام خود خالق فطرت نے انجام دیاہے توکسی سرمایہ دار پر ظلم کا الزام رکھنے کے کیا معنی ہیں؟یہ تصور توہر ظالم و جابر کی بد اعمالی کا بہترین بہانہ ہے اور اس کے ذریعہ توہر انسان دائرہ مذہب میں رہ کر غصب وسلب، ظلم وستم،قہرواستبداد سے کام لے سکتاہے اس لئے کہ یہ تقسیم وتفریق قانون کے میدان میں نہیں ہے بلکہ تخلیق کی منزل میں ہے اور تخلیق کی منزل قانون کے میدان سے الگ ہوتی ہے۔تخلیقی اعتبار سے طبقاتیت ناگزیر ہے اور طبقاتیت کے نتیجہ میں معاشی طبقاتیت بھی لازم ہے لیکن قانونی اعتبار سے اس طبقاتیت کو صرف کرنے کا کہاں تک اختیار ہے اس کا کوئی تعلق تخلیقی طبقاتیت سے نہیں ہے۔

فلسفۂ جدید کی روشنی میں یوں کہاجائے کہ ہماری زمین ابتداء میں آفتاب سے متصل اسی کا ایک جزوتھی۔اس میں اتنی ہی حرارت وتمازت پائی جاتی تھی جتنی آفتاب میں پائی جاتی ہے۔وہ اسی سرعت رفتار سے چکر لگایاکرتی تھی جس سرعت سے آفتاب کی گردش ہوتی ہے لیکن مدتوں کے بعد ایک وہ وقت بھی آیاجب کسی دست غیب کی جنبش کے سہارے آفتاب کا یہ ٹکرااسے داغ فراق دے کر رخصت ہوگیا۔فطرت نے اسے کروڑوں میل دور جا پھینکا ۔اب اس میں نہ تو وہ توانائی رہ گئی ہے نہ رعنائی۔نہ وہ چمک رہ گئی ہے نہ دمک نہ وہ تپش رہ گئی ہے نہ سوزش نہ وہ حرارت باقی رہی ہے نہ تمازت۔ایک نئی فضا ہے اور ایک نیاماحول نتیجہ یہ ہواکہ زمین اپنے نئے ماحول کے اثر سے ٹھنڈی ہونے لگی اور ٹھنڈی ہوتے ہوتے ایک دن اس منزل پر آگئی کہ اس میں جاندار سکونت اختیار کرسکیں۔چنانچہ خالق فطرت نے اسے انسانوں اور حیوانوں کا مسکن بنایا۔اب بچوں کا گہوارہ ہے تو یہی زمین اور جوانوں کا میدان ہے تو یہی زمین،بوڑھوں کی قبر ہے تو یہی زمین اور دانۂ گندم کی تربیت گاہ ہے تو یہی زمین آغاز وانجام کا یہ تقاوت بھی قابل صدعبرت ہے:

آگ تھے ابتدائے عشق میں ہم ہوگئے خاک،انتہا یہ ہے

۱۶

جاندار کا روئے زمین پر قدم رکھنا تھاکہ ہر حصۂ زمین نے اس کی تخلیق پر اثرکرنا شروع کر دیا۔آفتاب سے قریب تر حصہ کا اثر اور ہوا اور آفتاب سے دورتر حصہ کا اثر اور۔ چاندگہن، سورج گہن نے اور بھی تغیرات وتصرفات پیدا کئے۔سطح وعمق کی طبقاتیت نے اور گل کھلائے اور نتیجہ میں فطرت کا ہفت رنگ مرقع انسان کی صورت میں ہمارے سامنے آگیا۔ زمین کے اندرونی اختلاف پرایک جملہ تغیرآب وہوا، قرب وبعد، خط استوا، عروج وزوال آفتاب، اتصال وانفصال قلب شمالی وجنوبی،جزرومدبحار کا ہوااور نتیجہ میں زمینی مخلوقات مختلف رنگ ولون کا شکار ہوگئی اور یہ بات ناگزیر ہوگئی کہ زمین کے رہنے والے انسان مختلف طبقات اور مختلف خطوں کے اعتبار سے اپنی استعداد وصلاحیت وقابلیت میں بالکل مختلف ہوں اور اگراس پرنسلی اثرات کا اضافہ ہوجائے تو یہ اختلاف اور بھی شدید تر ہوجائے جس کے بعد یہ بات یقینی ہوجاتی ہے کہ اگر معاشیات کے میدان میں انسانی جدوجہد اور ذاتی محنت ومشقت کو بھی معیار بنایاجائے گاتو طبقات کا پیدا ہونا ضروری ہوگا۔ نہ ہر شخص کی طاقت برابر ہوگی نہ ہر شخص کا حوصلہ اور جب طاقت وحوصلہ میں یکسانیت نہ ہوگی تونتیجہ میں بھی یکسانیت ناممکن ہوگی۔

اسلامی احادیث میں اسی نکتہ کی طرف اشارہ کیاگیاہے:

لایزال الناس بخیر ماتضا ضلوافان تساو واهلکوا

''جب تک معاشرہ میں باہمی تفاوت باقی رہے گی خیر بھی باقی رہے گا اور جب یہ تفاوت مساوات سے بدل جائے گا معاشرہ ہلاک ہوجائے گا۔''

اس لئے کہ تفاوت میدان عمل میں آگے بڑھنے کی دعوت دیتاہے۔نئی نئی ایجادات کی طرف متوجہ کرتاہے اور مساوات کا تصور غفلت وبے حسی کی بنیاد ہے۔تفاوت ضروری ہے اور مساوات مہمل۔

۱۷

مساوات یامواسات

اقتصادی دنیا میں مساوات کے نعرے اتنے زیادہ بلند ہوئے ہیں کہ اب کانوں کو ان آوازوں سے نفرت ہونے لگی ہے اور انسان یہ سوچنے پر مجبور ہوگیاہے کہ اگر معاشی برابری انہیں نعروں کا نام ہے توہماری عدم مساوات ہی بھلی ہے۔کم از کم چین سے زندگی گذارنے کا امکان تورہ جاتاہے۔دور حاضر میں اقتصادی میدان میں ایک ہی منظم نظریہ ہے جو ہر ملک میں ترقی بھی کررہاہے اور اسے خوش آمدیدبھی کہاجارہاہے۔یعنی''نظریۂ اشتراکیت''سرمایہ داری اوردوسرے معاشی نظریات اپنی پشت پرکوئی منظم فکر نہیں رکھتے۔ان کی بنیاد''اقتصادی آزادی''پر ہے اور اسی کے تحت وقتی ضروریات کے مطابق قوانین ڈھال لئے جاتے ہیں۔

اشتراکیت کی ابتدائی مقبولیت کا راز اس کا نعرۂ مساوات ہی ہے جس پرتمام غریب ومسکین،فقیرولاوارث،کسان اور مزدور افراد لبیک کہنے کے لئے کھڑے ہوجاتے ہیں اور ہر ایک کے ذہن میں حسین مستقبل کا خواب گردش کرنے لگتاہے۔اب ہمارے دروازے موٹرکھڑارہے گا۔ہم بنگلہ میں رہیں گے۔ہماری غذائی صورت حال بہتر ہوجائے گی۔ہماری تعلیم اعلیٰ پیمانہ پرہواکرے گی وغیر ہ ان بیچاروں کو اس بات کی خبر نہیں ہوتی کہ مساوات کے یہ معنی ہرگزنہیںہیں۔یہ مساوات صرف لغت کے حدود تک محدود ہے۔ اقتصادی میدان میں مساوات کا مفہوم یہ ہے کہ کسی کی محنت کا حق نہ ماراجائے۔جو جتنی پیداوار میں حصہ لے اسے اتنی اجرت دی جائے۔مزدوری کا معیار محنت کو قرار دیاجائے۔

۱۸

کسی ایک طبقہ کو ایسا جاگیرداریاسرمایہ دار نہ بننے دیاجائے کہ دوسرے غریب طبقہ کی قسمت اس کی جوتیوں کے تلے سے ٹانک دی جائے اور اس کی ترقی پستی سب سرمایہ دار کے رنج ومسرت سے وابستہ ہو۔دوسرے الفاظ میں اشتراکی مساوات ایک غیر طبقاتی نظام کا نام ہے جس میں سماج دوحصوں میں تقسیم نہ ہوسکے اور سب اپنی اپنی محنت کی کمائی کھائیں۔جس میں جتنی محنت کی صلاحیت اور سوجھ بوجھ ہووہ اتنا ہی پیداکرسکے اور ویسی ہی زندگی گذار سکے۔ حکومت ذہانت وہوش مندی اور خوشحالی،محنت ومشقت کا نتیجہ ہو۔پیدائشی زمیندار یاوراثتی جاگیردار صفحۂ ہستی سے نیست ونابود ہوجائیں۔

تھوڑے عرصہ کی بات ہے کہ میرے ایک کرم فرماروس کے ایک ثقافتی دورے سے واپس آئے تو انہوں نے ایک ایٹ ہوم کے موقع پرانٹرویو دیتے ہوئے روس کی اشتراکیت کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا:

وہاں خاندان بہت چھوٹے ہوتے ہیں۔اس لئے نہیں کہ وہاں ہندوستان جیسی کوئی پلاننگ چل رہی ہے اور دس دس روپیہ پرنسل کشی ہو رہی ہے بلکہ اس نبیاد پر کہ وہاں پانچ سال تک کا بچہ ماں باپ کے ذمے رہتاہے، اس کے بعد اسے حکومت کے حوالے کر دیاجاتاہے۔اٹھارہ برس تک حکومت اس کی تربیت کرتی ہے اور اس کے بعد وہ کسی نہ کسی کام سے لگادیاجاتاہے۔ماں باپ کی ذمہ داریاں بڑی مختصر ہوتی ہیں۔وہ اپنے حالات میں مست ومگن رہتے ہیں۔انہیں صرف اپنے کاموں سے کام ہوتاہے اور باقی ذمہ داریاں حکومت کے سرہوتی ہیں۔

دوسری بات یہ بھی ہے کہ وہاں کارکردگی میں عورت اور مرد کاکوئی امتیاز نہیں ہے بلکہ دونوں صنفیں برابر سے کام کرتی ہیں۔ہوٹلوں میں عام طور سے عورتیں ملازم ہوتی ہیں۔ نازک کاموں کے لئے عورتوں کو مقدم کیاجاتاہے اور زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جہاں مردوعورت کا امتیاز برتاجاتاہو۔

۱۹

سواریوں کا انتظام مفت ہے۔جو جہاں چاہے سفر کر سکتاہے۔کسی کرائے وغیرہ کا سوال نہیں ہے۔عمارتیں حسین اور خوبصورت ہیں۔لوگ خوشحال نظرآتے ہیں اور ہر وقت ایک غیر طبقاتی زندگی کانقشہ نگاہوں کے سامنے رہتاہے۔

''شروع شروع میں ذاتی ملکیت کا تصور مٹادیاگیاتھا لیکن بعد میں اپنی اپنی محنت کے اعتبار سے ذاتی ملکیت کا خیال قائم کر دیاگیا ہے۔فرق صرف اتنا ہے کہ ہمارے ملک میں ذاتی ملکیت کو فروخت کیا جا سکتا ہے ۔مکانات کو کرایہ پر اٹھایا جا سکتا ہے لیکن وہاں سے سب باتیں غیر ممکن ہیں اور اس سے ان کی زندگی پر کوئی خاص اثر بھی نہیں پڑتا ۔ وہ معاشی حالات کے اعتبار سے مطمئن ہوتے ہیں ۔ انہیں کسی خاص خرچ کی ضرورت ہی نہیں ہوتی کہ اس کے لئے خرید وفروخت یااجارہ داری سے کام لیں۔تعلیم کا انتظام مفت ہے ضروری اسباب زندگی بے قیمت تو کسی اور چیز کی ضرورت ہی کیا ہے ۔''

ایک اشتراکی ملک کا یہ لفظی نقشہ یقینا خوش رنگ بھی ہے اور خوش آئند بھی ۔لیکن اس مقام پر ایک بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر عالم انسانیت کے سکون و اطمیان اور انسانی ارتقاء کے لئے یہی شکل وصورت مناسب ہے تو چین اور امریکہ کو اس سے اختلاف کیوں ہے ؟ کیا چین ایک اشتراکی ملک نہیں ہے ؟ کیا امریکہ اپنے ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی نہیں چاہتا ؟ اوراگر یہ دونوں باتیں ہیں تو یہ با ہمی اختلاف کیوں ہے؟

کہا یہ جاتا ہے کہ چین انتہا پسند ہے اور روس روا دار امریکہ سرمایہ پرست ہے اور روس اشتراکی اس لئے ان کے نظریات میںشدید اختلاف پایا جاتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ نظریات ہی کے اختلاف کی کیا ضرورت ہے ؟بلکہ اس سے بالاتر انسانی زندگی کے لئے اصل نظریات وافکار ہی کی کیا ضرورت ہے ؟ جب چین اور امریکہ کی نظر میں فاسد نظریے سے بھی نظام مملکت استوار اور رعیت خوشحال ہو سکتی ہے تو انتہا پسندی یا سرمایہ داری کا کلمہ پڑھنے سے کیا فائدہ ؟ معلوم یہ ہوتا ہے کہ چین کی نظر میں وہ آخری صورت نہیں

۲۰