اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب0%

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 391

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ شھید باقر الصدر طاب ثراہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 391
مشاہدے: 104658
ڈاؤنلوڈ: 3732

تبصرے:

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 391 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 104658 / ڈاؤنلوڈ: 3732
سائز سائز سائز
اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

کیاگیاہے کہ اگر دنیا میں اسلامی نظام قائم ہوجائے تو اسلام کے اصول وآئین کیاہوں گے۔وہ اس میدان کو کیونکر سرکرے گا اور اپنی تنظیم کسی طرح قائم کرے گا۔

اس جلد میں ماقبل پیداوار کے ان خام مواد کو بھی مرکزیت دی گئی ہے۔جنہیں اشتراکیت وراسمالیت نے بالکل نظرانداز کر دیاہے۔اور ان سے بحث کرنے کو معاشیات کے مسائل سے الگ کوئی مسئلہ سمجھ لیاہے۔

زمینوں کی تقسیم اور ان کی نوعیتوں کو واضح کرکے یہ بتایاگیاہے کہ محنت کی بنیاد پر تقسیم کا نظریہ اپنانے کے بعد بھی اسلام میں اسٹیٹ کے پاس ایسی ملکیتیں رہ جاتی ہیں جو غریب وناتوان،عاجزوبیکس افراد کی کفالت کرسکیں اور اجتماعی توازن کے قیام میں مدد پہنچاسکیں۔

پیداوار کے بعد کے مسائل کو بھی نہایت ہی شرح وبسط کے ساتھ بیان کیاگیاہے اور یہ واضح کردیاگیاہے کہ بساطِ ارض کے بسنے والے انسانوں کے لئے اسلام سے بہتر کوئی نظام معاش نہیں ہے جو انسان کی انسانیت،حریت اور شرافت اخلاق کا بھی احترام کرے اور اس کے معاشی مشکلات کو بھی حل کردے۔مشین کے کل پرزوں کی طرح آدمی سے کام لینا آسان ہے اور اس کی حریت وکرامت کا اعتراف کرکے اسے خدمت کی راہوں پر لگادینا بہت مشکل ہے۔یہ کام اسلام ہی نے انجام دیاہے اور یہ شرف اسی کو حاصل ہے۔

کتاب ایک سمندر ہے جسے کوزہ کے بجائے قطرہ میں سمویاگیاہے اور ایک گلستان ہے جسے پھول کے بجائے کلی میں بندکیاگیاہے۔خدا وندعالم سے دعاہے کہ وہ استاد محترم کے سایہ کو قائم ودائم رکھے۔ان کے قلم کی جولانیاں برقراررہیں۔کتاب مرکز توجہ واستفادہ بنے اور حیران وسرگردان انسانیت اسے اپنے مستقبل کے لئے مشعل راہ بنا سکے۔ وہی ہمارامالک ہے اور اسی سے ہماری امیدیں وابستہ ہیں۔

۱۰۱

والسلام

سید ذیشان حیدرجوادی

26نومبر1970ئ

افسوس صدافسوس کہ آج جب کتاب کا دوسرا ایڈیشن شائع کیا جارہاہے تو استاد علام کی چوتھی برسی منائی جارہی ہے اور ان کی شمع حیات عراق کے ظالم حکمراں بے دین صدام کے ہاتھوں خاموش ہو چکی۔رب کریم اس قبراطہر پر بیشمار رحمتیں نازل کرے جس کا نشان بھی معلوم نہیں ہے اور کتاب کی افادیت کے ساتھ عراق میں وہ اسلامی نظام نافذ کردے جو استاد شہید کی پہلی اور آخری آرزو تھی۔

جوادی

۱۰۲

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

کلمۂ مؤلف(برائے طبع دوم)

''اقتصادنا''کے دوسرے ایڈیشن پر مقدمہ لکھتے ہوئے مجھے اس بات کی مسرت ہورہی ہے کہ امت اسلامیہ حقیقی پیغام کی طرف متوجہ ہوگئی ہے جو اسلام کی شکل میں مجسم ہوکر آیاتھا اور استعمار کے گوناگوں ضلالت آمیز پروپیگنڈوں کے باوجود اس بات کا احساس کر رہی ہے کہ اسلام ہی وہ واحد وسیلہ ہے جس سے امت مصائب وآلام سے چھٹکاراپاسکتی ہے اور یہی وہ منفرد نظام ہے جس کے زیر سایہ زندگی کی طاقتوں کو ابھرنا چاہئے اور اسی کی بنیاد پر اس کی عمارت تعمیر ہونی چاہئے۔

دل چاہتاتھاکہ اس مرتبہ کتاب کے بعض موضوعات پر اور بھی تفصیلی بحث کرتااور مخصوص نکات پر اور بھی روشنی ڈالتالیکن حالات کی ناسازگاری نے موقع نہ دیا۔اب اس کے علاوہ اور کوئی چارہ کارنہیں ہے کہ چند کلمۂ اصل کتاب کے موضوع کے بارے میں تحریر کردئے جائیں تاکہ موضوع کی اہمیت اور مشاکل حیات سے اس کے رابطے کی کچھ وضاحت ہوجائے اور عام انسانی سطح کے ساتھ ساتھ اسلامی سطح پر بھی معاشیات کی قدروقیمت کا اندازہ کیاجاسکے۔

۱۰۳

اس سطح پرامت مسلمہ کا یہ حال ہے کہ وہ اپنی پسماندگی اور ذلت کے خلاف مسلسل جہاد میں مشغول ہے۔ اس کے سامنے وہ سیاسی اور اجتماعی حرکت ہے جس سے بہتر حالات پیداہوسکیںاور بارسوخ وجود حاصل ہوسکے وہ بارفاہیت زندگی اور بے نیاز اقتصادکی طالب ہے۔اسے یہ معلوم ہے کہ ان اچھے برے مسلسل تجربات کے بعد حرکت کا ایک ہی راستہ رہ جائے گا۔جس کے زیر اثرمشاکل ذلت ورسوائی کا علاج کیاجائے گا اور انسانیت کو اعلیٰ درجہ کمال تک پہنچایاجائے گا اور اسی کانام اسلام ہے۔

بشری میدان میں انسانیت دو عالمی نظاموں کے درمیان پس رہی ہے۔ اسے انتہائی قلق واضطراب اور انتشار وتذبذب کا سامنا کرنا پڑرہاہے وہ ایٹم وہائیڈروجن کے مسلح نظاموں کے باوجود یہ محسوس کر رہی ہے کہ مستقبل میں ان مصائب وآلام سے چھٹکارے کا ذریعہ صرف اسلام ہوگاجو آسمانی برکتوںکا کھلاہوادروازہ ہے۔

اسلامی سطح

جب سے عالم اسلام نے یورپ کی زندگی کا جائزہ لینا شروع کیاہے اور تہذیب وتمدن کے قافلہ میں اسے میرکارواں کی حیثیت دے کر اپنے حقیقی پیغام اور آسمانی نظام کو نظرانداز کردیاہے اسے بھی یورپ جیسی تقلیدی تقسیم کا احساس ہونے لگاہے اور وہ بھی یہ سوچتاہے کہ اقتصادی سطح پرممالک دنیا دوحصوں پربٹے ہوئے ہیں۔ترقی یافتہ اور پسماندہ اور چونکہ اسلامی ممالک کا شمار پسماندہ ممالک میں ہوتاہے۔اس لئے یورپ کی منطق کے اعتبار سے اس کا فرض ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی رہنمائی پر ایمان لاکر اس کے لئے راستے

۱۰۴

کھول دے اور وہ اپنی روح پھونک کر سطحی ارتقاء کے راستے ہموار کرے۔

یہی وہ طرزفکر تھاجس نے عالم اسلامی کو مغربی تہذیب وتمدن کی گود میں ڈال دیا ہے اور اسے یہ باورکرادیاہے کہ توترقی کے راستوں میں پسماندہ ہے اور تجھے اس یورپ کے افکار کو اپنانا چاہئے جس نے اقتصادی میدان میں اپنے کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لا کھڑاکر دیاہے۔وہ ممالک اسلامیہ کو ارتقاء کی راہوں پر لگاکرایک حاوی اور ہمہ گیر اقتصادی نظام دے سکتاہے۔اس نے قیادت کے تجربے کئے ہیں اور اس کے پاس ان تجربات کے خطوط اور نشانات محفوظ ہیں۔

یورپ کی قیادت اور اس کے تجربات کی رہنمائی کا تصور عالم اسلام میں ایک مدت سے چلا آرہاہے اور اس سلسلے میں ممالک اسلامیہ مختلف ادوار میں یورپ کے مختلف تجربات زندگی کو اپنا چکے ہیں اور آج بلاداسلامیہ کے مختلف گوشوں میں یہ تینوں تجربات پھیلے ہوئے ہیں۔کل یہ تجربات تدریجی اور زمانی تھے اور آج سب بیک وقت مکانی ہوگئے ہیں۔

یورپ کے اتباع کی سب سے پہلی شکل سیاسی تھی۔یورپ ممالک اسلامیہ کے مختلف گوشوں پر حکومت کررہاتھا اور مسلمان اس کی قیادت میں رفاہیت وارتقاء کے خواب دیکھ رہے تھے۔

دوسری شکل یہ ہوئی کہ سیاسی اعتبار سے مستقل حکومتیں قائم ہوجائیں لیکن اقتصادی اعتبار سے یورپ کو عمل دخل کا موقع دیاجائے تاکہ وہ ان ممالک میں مختلف کارگزاریاں کرکے ان کے خام مواد سے استفادہ کرے اور اس کی جگہ پر خارج سے مواد درآمد کرے۔اقتصادی زندگی کے مختلف گوشے اس کے قبضہ میں ہوں اور وہ ابناء ملک کو ارتقاء کے منازل طے کرانے کی مشق کرائے۔

تیسری شکل طریقِ کار کی پیروی ہے جس کی کار فرمائی مختلف اسلامی حکومتوں میں رہی ہے۔ان حکومتوں کا ابتدائی مطمح نظریہ تھا کہ سیاسی اعتبار سے یورپ سے آزاد ہوکر

۱۰۵

معاشی میدان میں اپنی ابتری کا خود علاج کریں لیکن جب اقتصادی مشکلات کو سمجھنے کے لئے آگے بڑھے تو اپنے ذہن کو یورپ کے طریقِ فکر سے آگے نہ بڑھاسکے اور یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہوگئے کہ اقتصادی بدحالی کو دور کرنے کے لئے بہترین ذریعہ یہی ہے کہ یورپ کے انداز فکر اور طریقِ کارکو اپنا لیاجائے۔

طریقِ کار اور تطبیق کے سلسلہ میں عظیم نظریاتی اختلافات کے باوجود عالم اسلام یورپ ہی کے تجربات کا دلدادہ رہاہے۔اور اسی کے طریقِ کار کو مختلف شکلوں میں اختیار کرتا رہاہے یہاں تک کہ آج کے یورپ کی رفتار ترقی پر اتفاق ہوگیا اور یہ بات محل نزاع میں آگئی کہ یورپ کے کس انداز فکر کو اپنایاجائے۔

آج کا مغرب دو مختلف اقتصادی نظریات پر بٹاہواہے ایک راسمالیت جس کی بنیاد آزاد اقتصادی نظام پر ہے اور ایک اشتراکیت جس کی بنیاد محدود اقتصادی نظام پر ہے۔

عالم اسلام نے یہ فیصلہ کرلیاکہ ہماری معاشی بدحالی کا علاج مغرب کے اتباع میں ہے ہماری سیاسی سربراہی کا حق مغرب کو ہے لیکن یہ طے کرنے سے عاجز ہے کہ مغرب اقتصاد کی کون سی شکل ہمارے حق میں مفید ہوگی اور کون سی مضر۔یورپ میں دونوں کے خدمات ہیں۔دونوں نے اقتصادی معیارکے ارتقاء میں حصہ لیاہے اور معاشی بدحالی کو دور کیاہے۔لیکن ہمارے لئے کون سی شکل اصلح ہوگی اور ہم کس طرح اقتصادی قصر کو تیار کرسکتے ہیں یہ محل فکر ہے۔

تاریخی اعتبار سے عالم اسلام میں پہلے راسمالیت کا عمل دخل ہواہے اور نتیجہ میں سرمایہ دارانہ نظام حکومت کو جگہ ملی ہے اس لئے کہ راسمالیت ان ممالک کے ذہن سے زیادہ قریب تھی۔اور اسے مرکزیت حاصل کرنے میں سہولت تھی لیکن دھیرے دھیرے جب امت نے استعمار سے اپنی سیاسی لڑائیوں کا آغاز کیااور استعمار کے اس نظام سے نجات حاصل کرنے کا فیصلہ کر لیاتو اس کے سامنے یورپ کا یہ نقشہ آیاکہ وہاں سرمایہ داری سے

۱۰۶

نجات حاصل کرنے کا واحد راستہ اشتراکیت ہے اور یہ سوچ کر وہ اسی کی طرف مائل ہوگیا۔ اسلامی ممالک میں اشتراکیت کی طرف رجحان دو مختلف کشمکشوں کا نتیجہ تھا۔

ایک طرف استعمار سے سیاسی جنگیں جاری تھیں جو آزادی کا مطالبہ کررہی تھی اور دوسری طرف یورپ کا ذہنی رعب اور سیاسی تجربہ تھا جو اعلان کر رہاتھاکہ راسمالیت سے بچنے کا واحدراستہ اشتراکیت ہے۔عالم اسلام نے اس راستہ کو اختیار کرلیااور اس وقت تک اختیار کئے رہے گا جب تک اس کے ذہن ودل ودماغ پر یورپ کا تسلط ہے اورر اسمالیت واقعی حالات سے ہم آہنگ وہم رنگ نہیں ہے۔

راسمالیت واشتراکیت دونوں اپنے اندر ایک جذب رکھتی ہیں اور دونوں کے پاس اپنے نظر یات کی کشش کے لئے دلائل ہیں۔راسمالیت کی دلیل یہ ہے کہ یورپ کے سرمایہ دار ممالک کا یہ ارتقاء ان میں پیداوار اور صنعت کی یہ بلندی اسی آزاد معاشی نظام کے اپنانے کا نتیجہ ہے۔

پسماندہ ممالک کا فرض ہے کہ وہ اسی طریقۂ کا رکواپنا کر اپنی بدحالی کا علاج کریں اور ترقی یافتہ ممالک کی صف میں آجائیں۔آج اعلیٰ سطح تک پہنچنے کے لئے اتنے تجربات اور زمانے کی ضرورت نہیں ہے جتنی کل تھی۔آج سرمایہ داری کے تمام تجربات رہنمائی کے لئے موجود ہیں۔آج سینکڑوں سال کی محنت ومشقت سے ایجاد کئے ہوئے وسائل پیش پا افتادہ ہیں۔آج راسمالیت کے اعلیٰ درجہ تک پہنچنے میں کوئی دقت یا دشواری نہیں پیش آئے گی۔

اشتراکیت کی دلیل یہ ہے کہ آزاد معاشی نظام یورپی ممالک میں ضرورفائدہ مند ہوسکتاہے وہاں ٹیکنیک، پیداوار اور اضافہ ثروت کے وسائل ضرور مہیاکرسکتاہے اور کیابھی ہے لیکن دوسرے پسماندہ ممالک میں یہ کارنمایاں نہیں انجام دے سکتا۔ان ممالک کے سامنے مغربی ممالک کی ہولناک ترقی ہے اور ان کے بے پناہ وسائل پیداوار ہیں جوان کو دعوت مقابلہ دے رہے ہیں۔ان کے پاس کوئی اسلحہ نہیں ہے۔کل کے انسانی نظام میں ایسا

۱۰۷

کوئی مقابلہ نہ تھا۔کل کی راسمالیت ان مشکلات سے دوچارنہ تھی۔اس نے فضاکو خوشگوار اور زمین کو ہموار پایاتھا اس لئے آزاد نظام معاش کو اپناکرآگے بڑھ گیاتھا۔اور آج پسماندہ ممالک کو بے شمار پیداواری وسائل وآلات کی ضرورت ہے جن کا مہیاکرنا اشتراکی طرزِ فکر کو اپنائے بغیر ناممکن ہے۔

واضح لفظوں میں یوں کہا جائے کہ دونوں نظاموں نے ابتلاء ات ومصائب کا سہارا لیتے ہوئے اسے یہ باور کرادیاہے کہ استعمار کے پیداکئے ہوئے ماحول کا حال راسمالیت و اشتراکیت کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور وہ بھی گھروندے میں چکر لگاتارہاہے۔ حالانکہ اس کے سامنے ان دونوں علاجوں کے علاوہ سماجی امراض کا ایک مکمل علاج موجود ہے جو نظریات وعقائد کی حد تک ہمیشہ امت اسلامیہ کے ساتھ رہاہے۔یہ اور بات ہے کہ انطباق کے میدان میں اس کی سربراہی نہیں تسلیم کی گئی۔

ہمارامقصد اسلام اور راسمالیت واشتراکیت کا تقابل نہیں ہے۔یہ بات تو کتاب میں مفصل طور پر موجود ہے۔ہمارا مقصد صرف یہ ظاہر کرناہے کہ دنیاکے ان تینوں نظاموں میں کون سا نظام مسلمانوں کے پسماندہ ممالک کی سربراہی کرسکتاہے اور مسلمان کس طرزِفکر کو اپنا کر معاشی دنیا میں قدم آگے بڑھاسکتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ہماری بحث ان نظاموں کے فلسفی افکار سے نہ ہوگی بلکہ واقعی حالات سے ہوگی۔

فلسفی افکار نظریہ کی صحت وخطاکا فیصلہ کرتے ہیں اور انطباق کا مرحلہ اس سے بالکل اجنبی ہے۔ایک صحیح وصالح نظریہ بھی میدان انطباق میں اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک اس کے لئے حالات سازگارنہ ہو ں اور معاشرہ کی نفسیاتی اور تاریخی کیفیت کا مطالعہ نہ کرلیاجائے۔خودیورپ میں راسمالیت یاشتراکیت کی کامیابی اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اس کے نظریات وافکار میں معاشرہ کی ارتقاء کے عناصر پائے جاتے ہیں بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ حالات کی سازگاری نے اثردکھلایاہو اور یہ نظام ایک تاریخی کڑی بن کر منظر

۱۰۸

عام پر آئے ہوں۔ظاہر ہے کہ اگر ایسا ہوگاتو اس تاریخی تسلسل اور اس ماحول سے الگ کرنے کے بعد ان نظاموں کی تاثیر اور فعالیت خود بخود ختم ہوجائے گی۔

ایسے حالات میں اسلام اور اشتراکیت وراسمالیت کی صلاحیتوں کا جائز لیتے ہوئے اس حقیقت کا واضح کردینا ضروری ہے کہ اقتصادی خوشحالی کے لئے کسی اقتصادی نظام کے اپنانے کی ضرورت اس لئے نہیں ہے کہ ہر حکومت کو ایک اجتماعی نظام چاہئے اور یہ بھی ایک نظام ہے بلکہ اس نظام کی ضرورت اقتصادی حالات کو خوشگوار اور معاشی ابتری کو دور کرنے کے لئے ہے۔ اور یہ کام اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک پوری امت عمل درآمد پر آمادہ نہ ہوجائے اور ایسا نظام رائج نہ کیاجائے جس کے ساتھ چلنے کی اسپرٹ سماج کے اندر بھی ہو۔

سماج کا ارتقاء اور اس کے ارادوں کا استحکام اور فکری صلاحیتوںکی کارکردگی ہی کا دوسرا نام معاشی ارتقاء اور اقتصادی خوشحالی ہے۔رعایا فعال، ارادے مستحکم اور سماج مطمئن نہیں ہے تو معاشی خوشحالی کچھ بھی نہیں ہے۔خارجی ثروت اور داخلی اطمینان کو ایک لائن پر چلنا چاہئے جس کی واضح دلیل خود یورپ کا موجودہ معاشرہ ہے جہاں اقتصادی نظاموں نے اضافہ پیداوار کا وسیلہ بن کر کام نہیں کیاہے بلکہ ان قبائل واقوام کے جہد عمل اور ان کی فعالیت سے فائدہ اٹھایاہے۔نظام طرزِعمل معین کرتارہاہے اور قوم اس کے مطالبات کو پورا کرنے کے لئے نفسیاتی قربانیاں دیتی رہی ہے۔

عالم اسلام کے اندر کسی اقتصادی ارتقاء کا منہاج ودستور معین کرتے وقت ہمیں یورپ کے ان تجربات سے فائدہ اٹھانا پڑے گا اور ان کی روشنی میں ایک ایسے تمدن کو ایجاد کرنا ہوگاجو امت کی تحریک عمل کا باعث ہواور اسے پستی رزبوں حالی کے خلاف جنگ کرنے کے لئے آمادہ کرسکے اور ایسے حالات کے لئے امت کے تصورات واحساسات اور عقائد وتخیلات کابھی جائزہ لینا پڑے گا تاکہ اس کی قدیم تاریخ کی روشنی میں عوامل ومحرکات

۱۰۹

کی تعین کی جاسکے۔

اکثر علماء اقتصاد نے اس مقام پر یہ اشتباہ کیاہے کہ انہوں نے یورپ کے نظام ارتقاء کو پسماندہ ممالک کے لئے صالح قرار دے دیا اور اس نکتہ کو قابل توجہ نہیں بنایاکہ یہ نظام ان ممالک کے باشندوں کے مزاج سے ہم آہنگ ہوسکتاہے یا نہیں اور ان ممالک کی رعایا اس نظام کی متحمل ہوسکتی ہے یا نہیں؟

امت اسلامیہ ایک خاص نفسیاتی شعور رکھتی ہے۔اس کا مزاج استعماری مزاج سے بالکل مختلف ہے۔استعمار کی بنیاد شک وخوف واتہام پر ہے اور امت اسلامیہ نے اپنی برسہابرس کی تاریخ میں بڑے سخت حالات سے مقابلہ کیاہے اس کے دل میں یورپ کے تنظیمی مقاصد کی طرف سے ایک کدورت ونفرت پیدا ہوگئی ہے اور اس کے خلاف شدید قسم کی حساسیت ابھرآئی ہے۔

یورپ کا اقتصادی نظام سیاسی اعتبار سے استعماری طاقتوں سے الگ اور صلاحیتی اعتبار سے کافی ووافی بھی ہوجائے تو امت کی طاقتوں کو ابھارنہیں سکتا اور تعمیر کے معرکہ میں اس کی قیادت نہیں کرسکتا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ امت اسلامیہ اپنے ان نفسیاتی عوامل اور نفرت آمیزجذبات کی بناء پر اپنے اقدام کی بنیاد ایک ایسے صالح اجتماعی نظام پر رکھے جس کا کوئی رابطہ استعماری ممالک سے نہ ہو۔

یہی وہ تلخ حقیقت تھی جس کی بناپرعالم اسلام کے بہت سے سیاسی اجزاء نے قومیت کو اپنانے کا خیال قائم کیا۔ان کے ذہن میں یہ تصورراسخ تھا کہ قومیت ہی زندگی کا فلسفہ اور تمدن کی بنیاد ہے۔وہ اس بات سے قطعی غافل تھے کہ قومیت صرف ایک تاریخی رابطے اور لسانی ارتباط کا نام ہے۔

اس کی کوئی فلسفی بنیادیاعقائدی اصل نہیں ہے۔یہ نتیجہ کارمیں کسی نہ کسی نظریہ کی محتاج ہوجائے گی اور حیات وکائنات کے بارے میں کسی نہ کسی تصور کو اپنالے گی اور اس

۱۱۰

طرح اس کی انفرادی حیثیت ختم ہوجائے گی۔

قومیت کی بہت سی تحریکات نے اس کمزوری کا احساس کرلیااور ان کو یہ اندازہ ہوگیا کہ قومیت صرف ایک خام مواد ہے جس کی تکمیل کے لئے ایک اجتماعی فلسفہ اور سماجی تنظیم کی ضرورت ہے۔اسی لئے اس نے اس بنیادی ضرورت کو استعمار کے خلاف استقلالی نعروں کے ساتھ جمع کرنے کی یہ صورت نکالی کہ نظام زندگی کا نام''عربی اشتراکیت''رکھ دیا۔عربی اشتراکیت کا تصورخودہی آواز دے رہاہے کہ قومیت تنہا مصلح عالم نہیں ہوسکتی اس کے لئے ایک سماجی نظام کی ضرورت ہے جس کا نام اشتراکیت ہے لیکن اس اشتراکیت پر بھی عربیت کی چھاپ ہونی چاہئے تاکہ قومیت کا تصور زندہ رہے اور استعمار کے ساتھ انضمام نہ ہونے پائے۔

خارجی تنظیم کی یہ قومی پردہ پوشی بھی ایک مغالطہ سے زیادہ اہمیت پیدانہ کرسکی اور امت اسلامیہ بہت جلد اس نکتہ کی طرف متوجہ ہوگئی کہ یہ صرف ظاہر رنگ وروغن ہے جس میں اجنبی تصورکو چھپایاگیاہے۔ورنہ اشتراکی تنظیم کے کاروبار میں یہ قومی تصور کیادخل اندازی کرسکتاہے یاعربی عامل کے موقف میں یہ اشتراکی تصورکیا انقلاب لاسکتاہے؟بھلا اس لفظ کے کیامعنی ہیں کہ عربیت ایک زبان،تاریخ خون یا جنس ہونے کے اعتبار سے اجتماعی تنظیم کے پورے فلسفہ کو متغیر کرسکتی ہے۔

ہم نے توانطباق کی منزل میں یہی دیکھاہے کہ عربی ذہن نے سماجی میدان میں عربیت کے ان تمام تصورات کو ترک کرد یاہے جو اشتراکیت کے منافی اور مخالف تھے اور جہاں تغیرو تبدل کا امکان نہ تھا۔وہاں عقیدۂ توحید روحانی مسائل اشتراکیت میں کوئی ایسی تازہ روح نہیں پھونک سکے جو اسے استعماری ممالک کی اشتراکیت سے الگ کرسکے۔اتنا ضرور ہواہے کہ ان مسائل کو استثنائی حیثیت دے دی گئی ہے لیکن کھلی ہوئی بات ہے کہ استثناء حقیقت واقعہ کو نہیں بدل سکتاجو ہر جوہر رہے گا اور پردہ،پردہ۔

۱۱۱

اشتراکیت عربیہ کے پرستاروں کے لئے یہ بات ناممکن ہے کہ وہ عربی اشتراکیت، فارسی اشتراکیت اور دوسری اشتراکیتوں کے درمیان کوئی خط فاصل کھینچ سکیں اور یہ بتاسکیں کہ مختلف قومیتوں کی چھاپ لگ جانے سے اشتراکیت کے مفہوم میں کیا فرق پیدا ہوجاتاہے۔

اور جب ایسا نہیں ہے تواس کا مطلب یہ ہے کہ اشتراکیت ایک اشتراکیت ہے جسے قومیت کے ناقص اور محدود تصور کا غلاف اڑھادیاگیاہے اور ہر قوم اپنے قدیم عقائدو نظریات کے تحت اشتراکی قوانین میں استثناء پیدا کرنا چاہتی ہے۔جو ہر سب کا ایک ہے شکلیں بدلی ہوئی ہیں اور شکلوں کے اختلاف کے ساتھ جوہر کا اتحاد خود اس بات کی زندہ دلیل ہے کہ قومیت اشتراکیت کے مقابلہ میں کوئی نظریہ اجتماعی نظام نہیں ہے۔استعمار سے بچنے کے لئے قومیت کاسہارالینا انتہائی مہمل کام ہے۔

حیرت کی بات تویہ ہے کہ قومیت کے علمبردار اشتراکیت سے الگ تصور قائم کرنے سے عاجز ہوجانے کے باوجود ببانگ دہل اس بات کا اعلان کر رہے ہیں کہ ہم نے قومیت کا تصور صرف اس لئے اپنایاہے کہ امت اسلامیہ استعمار کے مظالم کے خلاف شدید حساسیت کی بناپر کسی استعماری نظام کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔وہ ایک ایسا نظام زندگی اور دستور حیات چاہتی ہے جس کا کوئی رابطہ استعماری ممالک سے نہ ہو اور جس پر کوئی چھاپ اجنبی افراد کی نہ لگ سکی ہو۔

یہیں سے امت اسلامیہ کے سامنے یورپ کے اقتصادیات کے جملہ نظام چاہے ان کی شکل کسی قسم کی کیوں نہ ہو،اسلام کے اس مستحکم نظام سے الگ ہوجاتے ہیں جس کا تعلق اس کی تاریخ اور اس کے ذاتی کمالات سے ہے۔امت اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ اسلام ہی اس کی ذاتی تعبیر اور اس کی شخصیت وعظمت کا عنوان ہے۔اسی سے اس کی اصالت و واقعیت اور اسی سے اس کی تاریخی عظمت وبلندی وابستہ ہے اور یہی وہ بات ہے

۱۱۲

کہ جو اس کوزبوں حالی کے خلاف ہر معرکہ میں کھڑاکر سکتی ہے اور ارتقاء وعروج کی ہر تحریک میں اس کے قدم آگے بڑھاسکتی ہے بشرطیکہ اس کا طریقۂ کار اسلام کے حقیقی قوانین سے لیاگیا ہواوراس کی حرکت کاعنوان''قیام اسلام''ہو۔

استعمار واستعماریت کے خلاف امت اسلامیہ کا یہ شعور واحساس ہی کیاکم تھاکہ استعمار ظالم ہے اور مظلوم کبھی اپنے ملک میں ظالم نظام کو رائج نہ ہونے دے گا کہ ایک اور عظیم مصیبت سامنے آگئی جو استعماری نظام کے خلاف سد سکندری کی حیثیت رکھتی ہے اور وہ ہے استعماریت وعقائد کی مخالفت وضدیت میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ میں استعماراور اسلام کے عقائد وافکار کا تذکرہ کرکے ان کاتقابلی مطالعہ کروں اور آخرمیں یہ ثابت کروں کہ اسلام استعمار کے افکار سے بلند وبالا اور بہتر وبرتر ہے اس لئے اس طرح یہ بحث خالص مذہبی اور عقائدی ہوجائے گی۔میراعقیدہ تو صرف یہ ہے کہ یورپ کے تصورات مرد مسلم کے عقائد کے ساتھ جمع نہیںہوسکتے۔

عقیدہ عالم اسلام کے اندر کار فرماطاقت کا نام ہے جو استعماری تبلیغات کی وجہ سے بڑی حد تک ضعیف ومضمحل ہوگئی ہے لیکن اس کے باوجود انسان مسلم کے سلوک زندگی ایجاد، احساس اور تجدید نظریات پر بہت زیادہ اثرانداز ہے اور یہ پہلے ثابت ہوچکا ہے کہ اقتصادی ارتقاء کا کام کوئی ایسا کام نہیں ہے جسے حکومت براہِ راست قانون سازی کے ذریعہ انجام دے سکے بلکہ اس کے لئے عوامی جذبات اور قومی خدمات کی ضرورت پرتی ہے جو نظام وعقیدہ کے تناقض واختلاف کی صورت میں ممکن نہیں ہے۔عقیدہ امت کا سرمایۂ افتخار اور زندگی کے اکثر شعبوں میں اس کا نشان زندگی ہے۔اس کے ہوتے ہوئے کوئی مخالف نظریہ اس کی قوتِ عمل کو تیز نہیں کرسکتااور اس طرح ارتقاء وعروج کا عمل بھی انجام نہیں پاسکتا۔

اس کے برخلاف اسلام دشواریوں کا شکار نہیں ہے۔اس کی راہ میں یہ تضاد

۱۱۳

وتناقض حائل نہیں ہے۔وہ اس عقیدہ ونظریہ کو میدان عمل میں بہترین معاون ومددگار تصور کرتاہے۔اس کے لئے یہ نفسیت وروحیت بہترین سند اور اعلیٰ ترین حامل ومحرک ہے۔اس کے نظام کی بنیادہی اسلامی شریعت وتعلیمات ہے جسے مرد مومن پہلے سے اپنے گلے لگائے ہوئے ہے اور اس کی تقدیس وعظمت کا قائل ہے۔

وہ یہ سمجھتاہے کہ اسلام ایک سماوی دین اور الٰہی نظام ہے جس کی تطبیق انسانیت کا اولین فرض اور اسلام کی بنیادی مسئولیت ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کسی نظام کے انطباق کے لئے اس کے نفسیاتی احترام اور عقائدی اعزاز سے بالاتر کوئی طاقت نہیں ہے۔ یہی طاقت اس کے جذبۂ ایمان کو آمادہ کرتی ہے اور یہی حقیقت اس کے احساس تطبیق کو بیدار بناتی ہے۔

میں نے ماناکہ یورپین انداز اقتصاد نے معاشرہ کو عروج وارتقاء دے کر اکثرانسانی ذہنوں کو اس بات کی طرف مائل کر لیاہے کہ دین کوئی طاقت نہیں ہے وہ ان تنظیمات کے مقابلہ میں قیام نہیں کرسکتالیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس طرح چودہ صدیوں سے زیادہ مدت میں عقیدہ کی بنیاد پر قائم ہونے والی ہر تعمیر کو مہمل تصور کر لیاجائے اور اس کی پائیداری کا اعتراف نہ کیاجائے بلکہ اس نے عالم اسلام کے انسانوں کے ذہن ودماغ میں عظیم فکری انقلاب پیداکردیاہے اور انہیں اپنے سانچہ میں ڈھال لیاہے اور اگریہ تسلیم کر ہی لیاجائے کہ یورپین نظام اقتصادنے عقیدہ کو بالکل مہمل وبیکار بنادیاہے تو بھی اس بات کا قرار توبہرحال نہیں کیاجاسکتاکہ مسلم معاشرہ میں وہ ذہنیت پیداہوگئی ہے جو یورپ میں وہاں کے نظام اقتصاد کے رواج کے لئے موجود تھی۔مسلم معاشرہ میں یورپین روح کا سرایت کرجانا تقریناً محال ہے اور اس کے بغیر اس نظام کا اس معاشرہ پر نافذ ہونا بھی محال ہے۔

اسلامی معاشرہ میں پیدا ہونے والی اخلاقیت اور ہے اور پورپ کی آغوش میں

۱۱۴

پلنے والی اخلاقیت اور ۔دنوں میں نظریات، اقدار ،انداز وسلیقہ وغیرہ کے اعتبار سے بنیادی امتیازات پائے جاتے ہیں اور جب تک اختلافات موجود رہیں گے یورپین ذہن جس قدر یورپی نظام اقتصاد کے لئے سازگار رہے گا اسی قدر اسلامی ذہن اس نظام کے لئے مضر اور غیر موافق رہے گا اور یہ وہ جڑیں ہیں جو عقیدہ کی کمزوری کی وجہ سے اکھاڑی نہیں جا سکتیں اور ان کا استیصال ان معمولی ذرائع سے ناممکن ہے۔

مقصد یہ ہے کہ پسماندگی اور زبوں حالی کے خلاف جہاد کرنے کے لئے جس طرح ملک کی طبیعی کے استحکام کی ضرورت ہے تاکہ وسائل پیداوار سے سازگاری پیدا ہو سکے اسی طرح انسانی عنصر کے استحکام اور اس کے مفروضہ نظام ودستور سے ہم آہنگ ہونے کی بھی ضرورت ہے جو موجودہ صورت حال میں قطعی مفقود ہے۔یورپ کا انسان صرف زمین کو دیکھنا چاہتا ہے اس کا مسیحی مذہب سینکڑوں سال کا دین وآئین ہونے کے باوجود یورپ کے جذبات پر قابو نہ پا سکا اور ذہن انسان کو زمین سے بلند کرکے آسمان تک پہنچانے کے بجائے اللہ ہی کو آسمان سے زمین پر اتارلایا اور اسے ایک خاکی مخلوق کی شکل دے دی۔

یورپ میں عام حیوانات کے درمیان انسانی آباء و اجداد کی تلاش اور انسان کو حیوانات کی ترقی یافتہ شکل قرار دینے کا فلسفہ عالم انسانیت کی پیداواری وسائل کی بنیاد پر تعمیر اس بات کی شاہد ہے کہ یورپ نے آسمان والے کو زمین پراتار لیا ہے اور انسان اکبر کو حیوانات کی بزم میں بٹھا دیا ہے۔ اس کی نفسیات اور اخلاقی قدریں انسان کو خاک سے مربوط کرنا چاہتی ہیں۔

اگر چہ ارتباط کی شکلیں اور اس کے انداز واسلوب بدلے ہوئے ہیں۔

یورپ میں زمین کی یہی وہ عظمت تھی جس نے مادہ، ثروت اور ملکیت کے ایسے مفاہیم جنم دئیے جو اس نظریہ سے ہم آہنگ ہو سکیں اور دھیرے دھیرے ان مفاہیم وتصورات نے یورپین ذہن پر قبضہ کر لیا۔لذت ومنفعت جیسے مذاہب پیدا ہوئے اور

۱۱۵

اخلاقیات کا فلسفہ میدان سے ہٹا دیا گیا۔ لذتیت مقامی پیداوار تھی اس لئے اسے سازگار فضائلی اور اخلاقیات دوسرے ماحول کے پروردہ تھے ۔ اس لئے انہیں سانس لینے کا موقع نہ مل سکا۔

جدید تصورات نے عوام کی طاقتوں کی ابھارنے میں بہت اہم رول ادا کیا اور ارتقاء وعروج کا سارا کاروبار انہیں کے زیر سایہ ہونے لگا۔امت کی رگ رگ میں ایک نشاط انگیز حرکت پیدا ہو گئی اور ہر ایک کی ذہنیت یہ طے پائی کہ جب تک مادہ اور اس کے خیرات ملکیت اور اس کے برکات سے سیری نہ ہو جائے رفتار عمل کو سست نہ ہونا چاہئے۔

دوسری طرف یورپین انسان کے ذہن سے تصور الٰہ کا محوہو جانا اور اس کا آسمان کے بجائے زمین سے رشتہ قائم کر لینا اس کے ذہن ودل کی گہرائیوں سے ہر بلند وبالا اخلاقی قدر کو نکلا پھینکنے کا باعث ہو گیا اور اس نے یہ طے کر لیا کہ مجھ سے بالا تر کوئی ایسی طاقت نہیں ہے جو میرے لئے قوانین وضع کر سکے۔نتیجہ کے طور پر حریت و آزادی کا عقیدہ مستحکم ہو گیا اور احساس شعور نے استقلال وانفرادیت میں غرق کر دیا اور جب اسی خود پرستی کو فلسفہ کے سانچہ میں ڈھالنا ہوا تو یورپ کی تاریخ کا سب سے اہم فلسفہ ''وجودیت''منظر عام پر آگیا۔ اس فلسفہ نے یورپ کے خیالات کو علمی رنگ دے دیا اور اس کی روشنی میں یورپین انسان اپنے تمام احساسات وجذبات کی تکمیل کا جلوہ دیکھنے لگا۔

حریت وآزادی نے یورپین اقتصادیات میں بہت بڑا کار نمایاں انجام دیا۔ اس نے یورپ کے ذہن میں استقلال و انفرادیت کے چھپے ہوئے جذبات سے بے حد فائدہ اٹھایا اور اسے یہ باور کرادیا کہ انسانی خواہشات وجذبات کی تکمیل کا واحد سہارا یہی آزاد اقتصاد اور فلسفہ حریت ہے۔الٰہیات کی منزل میں ذہنی آزادی یورپ کے دل و دماغ میں یوں سرایت کر گئی تھی کہ وہ خود پرستی کے علاوہ کچھ سوچنا ہی نہیں چاہتا تھا۔ اس کے یہاں وہی نظام کامیاب تھا جس میں تسکین نفس کے اسباب اور احساس انفرادیت کے وسائل موجود

۱۱۶

ہوں یہی وجہ ہے کہ یورپ میں سرمایہ داری کی جگہ پر آنے والی اشتراکیت نے اس جذبہ سے ٹکر نہیں لی اور عوام کو خود پرستی ہی کی تعلیم دی ۔ فرق صرف یہ تھا کہ پہلے کی انفرادیت تھی اور اب طبقاتی ہو گئی ۔ اب ہر طبقہ ایک فرد ہے اور ہر جماعت ایک شخص۔

کھلی ہوئی بات ہے کہ یہ تمام امور اتفاقی نہ تھے بلکہ ایک سمجھے بوجھنے فلسفہ کا نتیجہ تھے ۔حریت کے عقیدہ نے میدان عمل میں بہت کچھ سہارا دیا تھا اورمسئولیت کے احساس کے فقدان نے ہر میدان عمل میںتیز قدم بنا دیا تھا جو ایک اقتصادی تحریک کے لئے بڑی حد تک ضروری تھا وہاں سماجی تناقض وتصادم کو سمجھانے کے لئے کسی فلسفہ کی ضرورت نہ تھی۔

خود حریت ہی اس بات کا احساس دلا رہی تھی کہ ہر آدمی کو اپنے میدان میں مطلق العنان اور آزادد ہونا چاہئے۔اور یہ بات اس وقت تک باقی رہے گی جب تک کوئی دوسرا مقابلے میں آکر اس کی حریت کو محدود نہ بنا دے۔مقابلہ و تصادم کے اسی تصور نے اسے سماجی ٹکراؤ پرآمادہ کر دیا .....اور وہ بغیر کسی خارجی تحریک کے مقابلہ کے میدان میں اتر آیا۔

ضرورت اس بات کی تھی کہ اس نفس پرستی کو بھی کوئی فلسفی رنگ دیا جائے اور اس تصادم کے جواز کی بھی کوئی عملی شکل تلاش کی جائے ۔چنانچہ دوسرے ماحول زدہ تصورات کی طرح '' تنازع للبقائ'' کا فلسفہ منظر عام پر آ گیا اور یہ طے پا گیا کہ '' بقاء کے لئے نزاع حیات کا طبیعی قانون ہے ۔'''' سماج میں طبقاتی تصادم فطری بات ہے۔''دنیا کا سارا نظام تین چیزوں کی بنیاد چل رہا ہے۔''

(1)اثبات

(2)نفی

(3)نتیجہ

یورپ کے پورے فلسفہ کا یہ تجزیہ بتاتا ہے کہ اس کے فلسفہ کے پیچھے کوئی علمی بنیاد یا فلسفی تقاضہ نہیں ہے ۔وہ موجودہ معاشرہ کی ایک آواز عوام کے ذہنوں میں راسخ جذبات کی

۱۱۷

علمی تعبیر ہے۔

یورپین اقتصاد اور اس کے کاروباری ترقی میں اس تصادم نے بھی بڑا کام کیا ہے چاہے اس کی شکل انفرادی رہی ہو جہاں ٹکراؤ ذاتی کارخانوں اور ملوں کے مالکوں ہیں ہوتا ہے اور ہر ایک بقاء کے لئے نزاع کرتا ہے یا اس کی شکل طبقاتی ہو جہاں انقلابی جماعتیں پیداوار کے کلیدی امور پر قبضہ کرکے ملک کی پوری پیداواری طاقت کو اقتصادی صلاح پر صرف کرتی ہیں۔

یورپ کی یہی اخلاقی اور نفسیاتی صورت حال ہے جس کی بناء پر اس کے اقتصادیات نے قدم آگے بڑھائے اور آخر میں ترقی کرکے بڑے بڑے فوائد حاصل کر لئے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ صورت حال عالم اسلام کے حالات سے بالکل مختلف ہے۔ یہاں کی پوری تاریخ دینی ہے ۔یہاں کا انسان آسمانی رسالتوں کا پروردہ اور سماوی ممالک کا باشندہ ہے۔ اس کی تربیت دین کے ہاتھوں اسلام کی آغوش میں ہوئی ہے ۔ اس نے زمین سے پہلے آسمان پر نظر ڈالی ہے اور عالم مادہ احساس سے پہلے عالم غیب پر اعتماد کیا ہے۔

غیب کا یہی عقیدہ اور غیبات سے یہی عشق تھا جس نے مسلمانوں کی زندگی کی فکری سطح بڈل ڈالی اور وہ ہر مسئلہ پر محسوسات سے بلند ہو کر عقلی پہلوؤں پر غور کرنے لگے ۔ مزاجی طور پر اتنا انقلاب پیدا ہو گیا کہ مادہ کی ابھارنے والی طاقتیں ممدود ہو گئیں اور معنوی اعتبار سے مادہ سے ہم آہنگ وہم رنگ نہ ہو سکنے کی صورت میں منفی موقف اختیار کرنا پڑا۔ جس کا نام کبھی زہد پڑا،کبھی قناعت اور کبھی کسلمندی اور سستی۔

ایمان بالغیب کا دوسرا اثر یہ تھا کہ انسان ذہنی طور پر ایک غیبی نگرانی سے متاثر رہنے لگا جسے صاحب تقویٰ مسلمان کے الفاظ میں رب العالمین کے سامنے احساس مسئولیت سے تعبیر کیا جاتا ہے اور آزاد خیال مسلمان کے الفاظ میں ضمیر کے محاسبہ سے یاد کیا جاتا ہے اور دونوں صورتوں میں یہ مسلم ہے کہ مسلمان ذہن اس احساس حریت سے کوسوں دور ہے جو

۱۱۸

یورپی معاشرہ کا سرمایۂ افتخار ہے اور اس کے اخلاقیات اس اقدار سے بالکل مختلف ہیں۔

مرد مسلم کا یہی غیبی شعور جو اسے اخلاقی احکام کی بناء پر داخلی طور پر مفید وممدود بنا دیتا ہے۔ اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ اس جماعت کے مفاد کے بارے میں غور وفکر کرے جس کے درمیان زندگی گذارتا ہے اور جس سے ایک داخلی وابستگی رکھتا ہے۔ اس کے ذہن پروہ تنازع وتصادم مسلط نہیں ہونے پاتا جسے یورپ کے افکار نے پیدا کیا ہے اور جس کی بنیاد داخلی حریت و آزادی پر ہے۔

مرد مسلم کی جماعتی فکر نے اسلامی پیغام کے عالمی ڈھانچہ کو اتنا معزز بنا دیا ہے کہ اب ہر مسلمان اپنے اوپر ایک عالمی مسئولیت محسوس کرتا ہے جو حدود زمان ومکان سے بالاتر ہے مسلمانوں نے ہر دور میں عالمی رسالت کا کام انجام دیا ہے اور پوری انسانی جماعت کا پاس ولحاظ رکھا ہے۔

اس اخلاقیت نے اس کے دل ودماغ پر ایسا قبضہ کیا ہے کہ امت کے پورے وجود میں سرایت کر گئی ہے اور ظاہر ہے کہ ایسی حقیقت اقتصادی نظام کو آگے بڑھانے میں بھی کافی کار آمد ہو سکتی ہے اور اسے بھی اپنے سانچہ میں ڈھال سکتی ہے۔ اخلاقی قدریں مسلم معاشرہ میں ویسی ہی فعال ومحرک ہی جیسی فعالیت حریت وآزادی کو یورپ معاشرہ میں حاصل ہے۔

مسلمان کا زمین سے پہلے آسمان پر نظر رکھنا اور شہود سے پہلے غیب سے متاثر ہونا زمین و مادہ کے مقابلہ میں اس کے ذہن کو منفی پہلو بھی عطا کر سکتا ہے اور یہ بہت ممکن ہے کہ زمین کے آسمان سے الگ ہو جانے کی صورت وہ زہد و قناعت یا کسلمندی کا راستہ اختیار کر لے اور ان خیرات وبرکات کو خیرباد کہہ دے ۔ ہاں اگر زمین کو آسمانی رنگ دے دیا جائے اور عمل کو واجب کا درجہ یا عبادت کا تصور دے دیا جائے تو غیبی نظریہ سے بالاتر کوئی ایجابی طاقت بھی نہیں ہے ۔ یہی طاقت میدان عمل میں جد وجہد پر آمادہ کر سکتی ہے اور یہی طاقت اقتصادی سطح کو بلند تر بنا سکتی ہے۔

۱۱۹

مسلمان را سمالیت واشتراکیت کے زیرسایہ جس نفسیاتی قلق واضطراب کا احساس رکھتا ہے اور مذہب کے مسئلہ میں سہل انگاری اور لا پروائی کے باوجود جس کشمکش کا شکار ہے اس کا حل اس کی اخلاقی قدروں کے علاوہ کہیں اور نہیں ہے ۔ مسلمان جب تک اسلامی ذہن اور یورپین نظام کو ہم آہنگ بنانے کی کوشش کرتا رہے گا اس وقت تک اس الجھن اور اضطراب سے نجات نہیں پا سکتا ہے۔

اضطراب وانتشار سے نجات کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ اسلام کے نظام اقتصاد کو بروئے کار لایا جائے اور ذہنی کشمکش کی جگہ ذہنی توافق وتناسب کو دی جائے۔جیسی زمین ہو ویسی تخم ریزی اور جیسی ذہنیت ہو ویسا ہی نظام داخلی۔ مسئولیت اور غیبی نگرانی جہاں یورپین نظام کو کامیاب نہیں بننے دیتی وہاں مسلمان میں اس نظام سے پیدا ہونے والے مصائب کے مقابلہ میں جذبۂ قربانی بھی پیدا کر دیتی ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مسلمان صرف اس دستور نظام کو پانا چاہتا ہے جو اس کے عقیدۂ مسئولیت ونگرانی سے ہم آہنگ ہو اور اس کی اخلاقی قدروں کا تحفظ کرتا ہو۔

اسی کے ساتھ ساتھ مسلمان میں پوری جماعت کے مفاد کا تصور زبوں حالی اور پسماندگی کے خلاف معرکہ آرائی کے لئے طاقتیں بھی فراہم کرتاہے۔خصوصیت کے ساتھ اس وقت جب معرکہ کا شعار اس کے مخصوص عقائد ونظریات سے ہم آہنگ ہوجائے اور جدوجہد کو تحفظ امت کے لئے جہادفی سبیل اللہ کا درجہ دے دیاجائے جیساکہ قرآن کریم نے اعلان کیاہے''دشمنوں کے مقابلہ کے لئے ہر قسم کی قوت مہیارکھو۔''

مقصد یہ ہے کہ پیداوار کی سطح بلندکرنے کے لئے اقتصادی طاقتوں کو بھی ابھارتے رہو۔اس لئے کہ یہ بھی امت کے تحفظ وبقاء کے بہترین جہاد اور اس کی سیادت وشرافت کو قائم ودائم رکھنے کے لئے بہترین معرکہ ہے۔

در حقیقت یہی وہ حالات ہیں جن سے مسلم معاشرہ میں اسلامی اقتصادیات

۱۲۰