اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب0%

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 391

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ شھید باقر الصدر طاب ثراہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 391
مشاہدے: 104425
ڈاؤنلوڈ: 3731

تبصرے:

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 391 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 104425 / ڈاؤنلوڈ: 3731
سائز سائز سائز
اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

نفسیاتی دلیل

اس دلیل کی بنیاد اس امر پر قائم ہے کہ انسان کے افکار اس کے اجتماعی حالات سے پیدا ہوتے ہیں یعنی تاریخی وجود کے اعتبار سے معاشرہ فکر پر مقدم ہوتا ہے لہٰذا کسی معاشرہ کی علت کا درجہ فکر کو ہرگز نہیں دیا جا سکتا ۔

علت کو اپنے معلول سے مقدم ہونا چاہئے اور فکر معاشرہ کے بعد وجود میں آتی ہے اور ظاہر ہے کہ جب فکر کی علیت باطل ہو گئی تو اب وسائل پیداوار کے علاوہ اور کوئی چیز اس قابل نہیں ہے جسے علت قرار دیا جا سکے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیونکر ثابت کیا جائے گا کہ معاشرہ فکر کی پیداوار نہیں ہے بلکہ فکر معاشرہ کے حالات سے پیدا ہوتی ہے۔

مارکس پرست افراد نے اس سوال کا جواب دینے کے لئے زبان کا سہارا لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فکر بغیر لغت کے ناممکن ہے اور لغت معاشرہ کے حالات میں سے ایک حالت اور اس کے مظاہر میں سے ایک مظہر ہے ۔ چنانچہ اسٹالین نے اس مقصد کو اس طرح بیان کیا ہے :

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ افکار روح انسانی کے تکلم سے پیدا ہوتے ہیں اور انہیں لغت سے کوئی تعلق نہیں ہے حالانکہ یہ نظریہ سراسر غلط ہے۔انسان کسی قدر فکر کیوں نہ کرے سب کی بینادلغت پر ہوگی، بغیر الفاظ کے سوچنا غیر ممکن ہے ۔

۱۶۱

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فکر ایک ذہنی تاثر اور انعکاس ہے اور لغت کا جو ہمارے درمیان رائج ہوتی ہے ۔ (مادیت ومثالیت فلسفہ ،ص77، G.POLITZER )

(اس مقام پر یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ یہ خود جارج کی تالیف نہیں ہے بلکہ اسے دو مارکسی اہل قلم JAMS اور M.KAFIG نے تالیف کیا ہے لیکن چونکہ ان دونوں نے اسے جارج کا نام دے دیا ہے لہٰذا ہم بھی اسی کی طرف منسوب کر رہے ہیں۔)

اسٹالین نے اپنے اس بیان میں فکر ولغت میں ایک ایسا رابطہ پیدا کر دیا ہے جس کی بناء پر بغیر الفاظ کے فکر کرنا محال ہو گیا ہے اور الفاظ کو افکار کی علت کا درجہ مل گیا ہے۔ لیکن اس کے بعد جب جارج مذکور کا دور آیا تو اس نے اس دعویٰ کو علم النفس کی رو سے مدلل ومحکم بنانے کی مکمل کوشش کی اور I.P.BOULOO مکے کلام کا سہارا لیتے ہوئے اسٹالین کے کلام پر اس طرح حاشیہ تحریر کیا:

PHYSIALAGY کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے طبیعیات میں جدلی مادیت کے لئے بہت بڑا مواد کر دیا ہے اور یہ بھی BOULOO کے تحقیقات کا نتیجہ ہے اس لئے کہ اسی نے یہ انکشاف کیا ہے کہ انسان کے جملہ دماغی افعال اس کے ظاہری حالات کا پرتو ہوتے ہیں جو ان احساسات کی بناء پر پیدا ہوتے ہیں جنہیں وہ اپنے حالات سے حاصل کرتا ہے ۔پھر اس نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ لغت کے الفاظ وکلمات کو انہیں احساسات کا درجہ دیا جا سکتا ہے جو افکار کی پیدائش کاسبب بنتے تھے لیکن ان کی حیثیت ثانوی ہوگی اور احساسات کا درجہ اولیٰ ۔ خلاصہ یہ ہے کہ انسانی افکار کا منشاء اس کے داخلی کیفیات نہیں ہیں بلکہ ان کا تمام تر تعلق اس کے اجتماعی حالات سے ہے جن کے احساس سے فکر کی تولید ہوتی ہے۔

جارج مذکورنے باولوف کے کلام سے جو نتیجہ نکالاہے وہ یہ ہے کہ انسان کے جملہ دماغی افعال چند معین اشارات کے انعکاس وتاثر کا نام ہیں۔ابتدائے امرمیں یہ اشارے

۱۶۲

احساس کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں اور اس کے بعد ان کی جگہ الفاظ وکلمات کو مل جاتی ہے جو بجائے احساس ظاہری کے خود ہی وہ تاثرات پیدا کردیتے ہیں جو احساس سے پیداہوتے ہیںاور یہی وجہ ہے کہ انسان کوئی غیر مادی فکر کرنے سے قاصر ہے۔اس لئے کہ احساس کسی مجردشیء سے متعلق نہیں ہوتااورجب تمام کام احساس سے متعلق ہوگیا تو احساس خارجی حالات سے تاثر کانام ہے لہٰذا فکر بھی انہیں حالات کے تاثر کا نتیجہ ہوگی اور یہ واضح ہوجائے گاکہ اجتماعی حالات پہلے ہیں اور افکار بعد میں۔

ہم اس مقام پر یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیایہ صحیح ہے کہ افکار لغت سے پیدا ہوتے ہیں؟کیا لغت سے آزادکوئی فکر انسانی دماغ میں نہیں آسکتی ؟کیا الفاظ ان افکار کے ذوقِ ظہور کا نتیجہ ہیںجو انسانی فطرت میں تڑپ رہے تھے؟

حقیقت یہ ہے کہ ان مسائل کو حل کرنے سے پہلے ہمیں خود باولوف کے فلسفہ پر نظرکرنی چاہئے تاکہ اس کا مقصد واضح ہوسکے اور یہ معلوم ہو سکے کہ جارجنے اس کلام سے کس طرح استفادہ کیاہے۔

باولوف کا کہناہے کہ دنیا کی ہر شیء کے لئے ایک طبیعی محرک ہوتاہے جو فطرت پر ایک خاص اثرڈالتاہے لہٰذا اگر کوئی چیزاس محرک سے ارتباط پیداکرلے تو اسے بھی وہی موثریت کامرتبہ مل جائے گا۔

اس کی مثال یہ ہے کہ اگر کتے کے سامنے کھانالایاجائے تو اس پر ایک خاص اثر پڑے گا اور اس کے دہن سے لعاب جاری ہوجائے گا۔اب اس کے بعداگر ہم یہ طریقہ اختیار کرلیں کہ کھانالانے کے ساتھ جرس بجادیاکریں تو رفتہ رفتہ کتا اس بات کا عادی ہوجائے گا کہ گھنٹی کی آواز سنتے ہیں اس کی رال بہنے لگے۔چاہے اسے کھانانہ بھی دیاجائے اس لئے کہ اب فرضی اور جعلی محرک نے طبیعی اور واقعی موثر کی جگہ لے لی ہے۔

اس کے بعد اس نظریہ کو انسانی افکار پر منطبق کیاگیااور یہ کہاگیاکہ انسانی افکار بھی

۱۶۳

دیگر اشیاء کی طرح چند طبیعی محرکات کا داخلی نتیجہ ہیں جن کا نام احساس وادراک رکھا گیاہے۔

یہی محرکات ہیں جو انسان کے دماغ میں فکر کی ایجاد کرتے ہیں اور یہی وہ موثرات ہیں جن کے پرتوکانام علم ومعرفت،فکر ونظرہے۔اب جس طرح کتے کے یہاں گھنٹی نے طبیعی محرک کی جگہ لے لی تھی اور وہی اثرکرنا شروع کردیاتھا جو کھانا پیش کرنے سے حاصل ہوتاتھا۔اسی طرح انسان کے یہاں بھی ایک جعلی محرک ہے جو اصلی محرک کا کام کرتاہے اور وہ ہے زبان۔آپ تجربہ کرکے دیکھ لیں آپ کے نفس پر لفظ پانی سے وہی اثر پڑے گا جو خود پانی کو دیکھ کر قائم ہوتاہے۔

باولوفنے اپنی اس تحقیق کی بناپر دو مستقل نظام بناڈالے ہیں۔ایک کی بنیاد طبیعی محرکات پر ہے اور دوسرے کی بنیاد فرضی اشارات پر۔پھر ہر ایک کے ترتیبات وتفصیلات معین کئے ہیں اور ان کے آثار کا تعین کیاہے جس کا واضح نتیجہ یہ ہے کہ نہ فکر بغیر احساس کے ممکن ہے اور نہ غیبی اشیاء کے متعلق سوچناممکن ہے۔اس لئے کہ ان کا احساس غیر ممکن ہے۔

ہم باولوفکے ان تمام انکشافات کو تسلیم کرتے ہوئے یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا ان تمام مفروضات کے بعد یہ ثابت ہوجاتاہے کہ فکر لغت وزبان سے پیداہوتی ہے ۔ہمارا جواب اس سلسلہ میں نفی کی صورت میں ہوگا۔اس لئے کہ طبیعی محرکات کے علاوہ جعلی محرکات کی بھی دو قسمیں ہوتی ہیں۔کبھی یہ محرکات طبیعی طور پر پیداہوجاتے ہیں جس طرح کہ انسان پرپانی کی صورت دیکھ کر ایک خاص حالت طاری ہوجائے تو ظاہر ہے کہ پانی خودطبیعی محرک ہوگا اور وہ حالت جعلی محرک،لیکن یہ جعلی محرک وہ ہوگا جسے ہم نے نہیں بنایاہے بلکہ وہ طبیعی طور پر پیداہوجاتاہے۔

اس کے برخلاف کبھی ایسا ہوتاہے کہ یہ جعلی محرکات ہمارے اجتماعی فرض کے محتاج ہوتے ہیں جس طرح کہ ہم بچہ کو دودھ دیتے وقت باربار لفظ دودھ کا استعمال کریں تو یہ لفظ

۱۶۴

جعلی محرک ضرور ہے لیکن ہمارے استعمال کی بناپر۔

معلوم ہوتاہے کہ الفاظ کی تحریک اور ان کی اشاریت جعلی ہے اور وہ اس قسم کی ہے جس میں اجتماعی عمل کی ضرورت ہوتی ہے اور اس بنیاد پر یہ کہاجاسکتاہے کہ انسان کے ذہن میں افکار کی تڑپ موجود تھی اور اس کی خواہش تھی کہ ان افکار کو دوسروں تک منتقل کیاجائے اور اس کے لئے کوئی دوسرا وسیلہ سوائے لغت کے نہ تھا۔اس لئے اس نے لغت کا سہارالیااور اس نے اپنے رازوں کا اظہار شروع کردیاکہ انسانی اجتماع میں پہلے افکار تھے اس کے بعد لغت کا وجود ہوا۔اس کا ایک شاہد یہ بھی ہے کہ حیوانات کے پاس کوئی مرتب لغت نہیں ہے اس لئے کہ ان کے پاس مختلف افکار نہ تھے جن کی تغیر کے لئے انہیں لغت کی ضرورت پیش آتی ۔

انسان نے اپنی زندگی میں لغت کا استعمال اس لئے شروع کیاہے کہ اس نے دنیا کے مختلف محرکات پر نظرکرکے یہ دیکھ لیاہے کہ اکثر جعلی محرکات طبیعی محرکات کی جگہ لے لیتے ہیں۔چنانچہ اس نے بھی طے کر لیاکہ مجھے ایسے فرضی محرکات کا بنانا انتہائی ضروری ہے تاکہ ان کے ذریعہ اپنے مافی الضمیر کو دوسرے افراد نوع تک پہنچایاجاسکے۔ظاہر ہے کہ یہ تمام باتیں اسی وقت صحیح ہوں گی جب احساس وفکرکادرجہ لغت سے پہلے ہو،لغت کے بعد نہ ہو۔ورنہ اگر احساس لغت کے بعد پیداہوتاتو لغت کے اختیار کرنے کی کوئی علت نہ ہوتی اور پھر اس کا انسانوں ہی کے ساتھ مخصوص ہونا بالکل بے معنی ہوتا۔

ہمارے اس بیان سے یہ بھی واضح ہوجاتاہے کہ معاشرہ کا وجود فقط انسانوں میںکیوں ہے حیوانات میں ایسے اجتماعات کیوں نہیں ہیں۔حقیقتاً اس کاراز صرف یہ ہے کہ چونکہ انسانی افکار لغت واحساس سے مافوق ہیں لہٰذا وہ اپنے افکار کے ذریعہ مختلف معاشروںکی تشکیل دے سکتاہے لیکن حیوانات میں یہ قوت نہیں ہے۔ان کے علوم احساس کے تابع ہوتے ہیںاور احساس کا تعلق صرف موجودہ حالات سے ہوتاہے اس کو حالات کے

۱۶۵

بدل دینے سے کوئی ربط نہیں ہوتا۔

دوسری بات یہ بھی ہے کہ واقعات کابدل دینایہ ایک ایسا کام ہے جو اکثرا جتماعی عمل کا محتاج ہوتاہے اسی سے انسانوں میں باہمی تعلقات پیداہوتے ہیں اور ان سے ایک معاشرہ وجود میں آجاتاہے۔حیوانات میں چونکہ یہ طاقت نہیں ہے لہٰذا ان کے یہاں معاشرہ کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔حقیقت امر یہ ہے کہ واقعات کا تغیر وتبدل ہی ایک ایسا اجتماعی کام تھا جس کے لئے انسان کو لغت کی ضرورت پڑی۔یہ کام احساس ومشاہدہ سے نہیں ہوسکتاتھا احساس کا تعلق موجودہ حالات سے ہوتاہے۔اس میں انقلابی حالات کی عکاسی کی قوت نہیں ہوتی ہے۔حیوانات میں اسی فکری سرمایہ کے نہ ہونے کی بناپر ان میں کسی منظم لغت کا وجود نہیں ہے۔

تجربیاتی دلیل

کسی مطلب پر تجربیاتی دلیل قائم کرنے کا طریقہ یہ ہوتاہے کہ پہلے اس کے تمام احتمالات جمع کئے جاتے ہیں۔اس کے بعد انہیں ایک ایک کرکے باطل کیاجاتاہے۔یہاں تک کہ آخر میں جب ایک احتمال باقی رہ جاتاہے تو اسی کو اس واقعہ کی واقعی علت تسلیم کرلیاجاتاہے۔

اس کی مثال یوں سمجھ لیجئے کہ اگر کسی شخص کو روزانہ ایک مخصوص سمت میں جاتے ہوئے دیکھیں تو آپ کے ذہن میں چنداحتمالات پیداہوں گے۔ممکن ہے کہ یہ شخص اپنی کسی خاص ضرورت کی بناپر جاتاہے۔

۱۶۶

ممکن ہے کہ اس کا مدرسہ اس طرف ہو،ممکن ہے کہ کسی ایسے طبیب کا علاج کراتا ہوجس کا مکان اس سمت میں ہو،ممکن ہے کہ کوئی اور ضرورت ہو۔ ایسے موقع پر اگر آپ یہ ثابت کرنا چاہیں کہ وہ کسی مخصوص ضرورت ہی کے لئے جاتاہے تو آپ کا فریضہ ہوگاکہ طبیب اور مدرسہ جیسے احتمالات کو باطل کریں اس لئے کہ جب تک یہ احتمالات باطل نہ ہوں گے کوئی ایک احتمال قابل قبول نہ ہوگا۔

مارکسیت کی تاریخی مادیت کے بارے میں بھی ہماراقول یہی ہے کہ اگر مارکس تمام تاریخی حادثات کو اقتصادی حالات کا نتیجہ قرار دینا چاہتاہے تو اس کا فرض ہوگاکہ ا س سلسلہ میں پیداہونے والے تمام احتمالات کا سدباب کردے کہ جب تک ایسا نہ ہوگا منطقی اعتبار سے اس کا قول قابل قبول نہ ہوگا۔یہ اور بات ہے کہ عقیدت مندلوگ اسے تسلیم کرلیں گے۔

مثال کے طور پر حکومت کی نشودنما کو لیجئے۔مارکسیت کا خیال ہے کہ حکومت کا تصور بھی اقتصادی حالات کی بناپر پیداہوتاہے جب ایک طبقہ کی ثروت زیادہ ہوتی ہے اور دوسرے کی کم،تو ثروت مند طبقہ اپنے اغراض ومصالح کے تحفظ کے لئے چند قوانین بنالیتا ہے اور پھر اسی کا نام حکومت ہوجاتاہے۔

ہماراکہنا یہ ہے کہ مارکسیت کی یہ توجیہ اسی وقت قبول کی جائے گی جب حکومت کے بارے میں دیگر نظریات باطل قرار دے دیئے جائیں ورنہ جب تک ان نظریات کو تاریخی مدد ملتی رہے گی مارکسیت کا کوئی وزن نہ رہے گا۔جیسا کہ قدیم مصر کے بارے میں کہاجاسکتا ہے کہ وہاں کی اجتماعی زندگی انتہائی خراب تھی زراعت کے لئے نہروں کی شدید ضرورت تھی۔اب جو شخص بھی ان تکالیف ومصائب کو برداشت کرکے ان کے لئے نہروں کا انتظام کردیتاحکومت کرنا اسی کا حق ہوجاتا،چاہے اس کی اقتصادی حالت کیسی ہی کیوں نہ ہو۔چنانچہ مصر قدیم میں اکلیروس کی تمام تربزرگی اسی ہنرمندی کا نتیجہ تھی کہ ان لوگوں نے

۱۶۷

مصریوں کو زراعت کی سہولتیں بہم پہنچائیں اور پھر کرسی ٔ ریاست پر متمکن ہوگئے۔

اس طرح سے یونان میں اہل کنیسہ کی عظمت وسلطنت بھی کسی اقتصادی خوشحالی کا نتیجہ نہ تھی بلکہ جرمان کے یونان پر حملہ کے نتیجہ میں یونان کی ثقافتی حالت اس قدر خراب ہوگئی تھی کہ اب وہ ہر شخص کے سامنے ثقافت کی بھیک مانگنے کر تیار تھا۔اتفاق وقت کہ وہاں کتابت وقرأت سے آشنا اہل کنیسہ کے علاوہ کوئی دوسرا نہ تھا۔چنانچہ ان لوگوں نے اپنی علمیت کا سہارالے کر قوم کے حالت سدھارنے کا بیڑااٹھالیا۔اب کیاتھا ریاست ان کے قدم چوم رہی تھی اور جرمانی سیاہی سوراور بارہ سنگھے کے شکار میں مشغول تھے۔

ظاہر ہے کہ ان کنیسہ کی یہ اجتماعی اہمیت کسی ثروت مندی کا نتیجہ نہ تھی بلکہ یہ ان کا فکری اور علمی سرمایہ تھا جس کی برکت سے ان کی اقتصادی حالت بھی سدھرگئی اور وہ ثروت مندوں کے طبقہ اول میں شمار ہونے لگے۔

اسی طرح سے اور بہت سی حکومتیں ایسی ہیں جن کی بنیاد دین ومذہب پر قائم تھی اور ان کی تعمیرمیں اقتصادیات کاکوئی ہاتھ نہ تھا۔

اس کے علاوہ ایک احتمال یہ بھی ہے کہ حکومت نفسیات کی بنیاد پر قائم ہو،اس لئے کہ ذی استعداد انسان میں ہمیشہ تفوق وبرتری کا جذبہ ہوتاہے۔ہوسکتاہے کہ یہی جذبہ ایک دن اس کے لئے راستہ ہموار کر دے اور وہ ایک حکومت کی تشکیل پرقادر ہوجائے۔

اس قسم کے اور متعدد احتمالات ہیں جن کے تاریخی ثبوت موجودہیں اور ان کا باطل کرنا مارکسیت کا فرض اولین ہے ورنہ اس کے بغیر اس کی توجیہ کی کوئی قدر قیمت نہیں ہوگی۔

دیکھایہ ہے کہ مارکسیت نے اس سلسلہ میں کون سی دلیل مہیا کی ہے؟

اس مطلب کو سمجھنے کے لئے ایک بات کو پیش نظررکھ لینا انتہائی ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ ہماری بحث تاریخی ہے طبیعاتی نہیںہے اور تاریخ کی بحثیں طبیعات کی بحثوں سے بالکل مختلف ہواکرتی ہے۔ان دونوں بحثوں میں دواہم بنیادی فرق ہوتے ہیں:

۱۶۸

(1) طبیعات کا ماہر جب یہ تجربہ کرناچاہتاہے کہ حرارت کیسے پیداہوتی ہے؟نور کی علت کیاہے؟تو اس کے سامنے تحقیق وتجربہ کے تمام عناصر ومواد موجود ہوتے ہیں۔ وہ تجربہ گاہ میں تمام اسباب کا مشاہدہ اپنی آنکھوں سے کرتاہے۔

لیکن تاریخ کا ماہر جب کسی مطلب پر تاریخی استدلال قائم کرنا چاہتاہے تو اس کے پاس دلیل کے مواد میں سے کوئی شیء اپنی نہیں ہوتی ہے بلکہ وہ سابق کے روایات اور ماضی کی ان داستانوں پر اعتماد کرتاہے جن کا مشاہدہ خود اس نے نہیں کیاہے بلکہ انہیں لوگوں کی زبانی حاصل کیاہے۔

ظاہر ہے کہ تاریخی استدلال کے لئے یہ بہت بڑانقص ہے جس سے ہر مورخ کو دوچار ہوناپڑتاہے۔چنانچہ آپ ملاحظہ کریں گے کہ خودانگلز نے بھی اپنی کتاب''اصل خاندان''میں استدلال کی پوری بنیاد ایک سیاح یعنی مورغانکے بیانات پر قائم کی ہے۔

(2) ماہر طبیعات کے لئے ایک سہولت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ کسی واقعہ کے مختلف احتمالات کو اپنی نظروں کے سامنے لاسکتاہے۔اس کی قدرت کسی ایک صورت سے مخصوص نہیں ہوتی۔ اس میں اتنی صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ ایک ہی حادثہ کو پچاس شکلوں میں ڈھال کریہ اندازہ کر لے کہ اس حادثہ کی صحیح علت کیاہے۔

وہ جس وقت یہ طے کرناچاہتاہے کہ''حرکت سے حرارت پیداہوتی ہے''تو پہلے حرکت کے ساتھ جتنی چیزیں ہوتی ہیں انہیں ایک ایک کرکے الگ کرتاہے اور یہ دیکھتاجاتا ہے کہ ابھی حرارت باقی ہے۔اس کے بعد ان تمام چیزوں کو جمع کرکے حرکت کوالگ کر لیتا ہے اور یہ دیکھتاہے کہ اب حرارت ختم ہوگئی ہے تو اس طریقۂ جمع و تحقیق سے یہ طے کر لیتاہے کہ حرارت کی علت یہی حرکت ہے جس کے وجود سے حرارت کا وجود ہے اور جس کے عدم سے حرارت کا عدم ہوجاتاہے۔

۱۶۹

ماہر تاریخ کے لئے یہ کوئی بات ممکن نہیں ہے۔ وہ اس قدرمجبور ہوتاہے کہ تاریخ کے کسی ایک حادثہ کے کسی ایک معمولی سے معمولی جزو میں بھی تغیر نہیں پیداکر سکتاوہ یہ تو کرسکتاہے کہ حکومت کی تشکیل کا سبب اقتصادی حالات کو فرض کرلے لیکن اس کے امکان میں یہ ہرگز نہیں ہے کہ وہ کسی اقتصادیات کی بنیاد پر قائم ہونے والی حکومت سے اقتصادی حالات کو ایک کرکے سیاست یا ثقافت کو اس کی جگہ پر رکھ دے اور پھر وہ دیکھے کہ اب حکومت قائم ہوتی ہے یا نہیں

مورخ کی یہی وہ مجبوری ہے جو اسے ہر قطعی دلیل کے قائم کرنے سے روک دیتی ہے او رنتیجہ کا ر میں اس کی بنیاد وروایات واوہام پر قائم ہوجاتی ہے۔ نہ اس کی بحث کے عناصر اس کے مشاہدہ میں آتے ہیں اور نہ اس میں تغیر وتبدل کی کوئی صلاحیت ہوتی ہے۔مورخ کے پاس صرف ایک صورت رہ جاتی ہے کہ وہ مختلف حوادث کا جائزہ لے کر انہیں کی بنیاد پر کوئی نتیجہ برآمد کرلے چاہے وہ غیر یقینی ہی کیوں نہ ہو۔

چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ مارکسیت نے بھی اپنے تاریخی مفہوم پر استدلال کا یہی طریقہ اختیار کیاہے اور اس نے بھی چند حوادث وواقعات کا مشاہدہ کرکے تاریخ کی ایک عمارت کھڑی کر دی ہے۔

بلکہ اس نے تو ایک غضب یہ بھی کر دیاہے کہ چند واقعات کو ملاحظہ کرکے پوری تاریخ انسانیت کی توجیہ انہیں چند واقعات کی بناپر کردی ہے۔چنانچہ انگلز کہتاہے:

چونکہ تمام ادوارتاریخ میں حرکات تاریخ سے بحث کرنا تقریباً محال ہے اس لئے کہ ان کے تعلقات اور ان کے ردفعل سب ہم سے مخفی ہوچکے ہیںلیکن اس کے باوجود زمانہ کے حالات کو دیکھتے ہوئے ہم اس معمہ کو حل کرسکتے ہیں۔ انگلینڈمیں بڑی صنعتوں کی ترقی نے یہ بات بالکل واضح کر دی ہے کہ سیاسی جنگ کی ساری بنیاد دو طبقوں کی خواہش جاہ طلبی پر ہوتی ہے۔ایک طبقہ

۱۷۰

کاشتکاروں کاہوتاہے اور ایک سرمایہ داروں کا۔ (لاڈفیج فیور باخ،ص90)

اس عبارت کا کھلا ہوا مطلب یہ ہے کہ مارکسیت کی نظر میں یورپ یا جاپان کی زندگی کے چند لمحات کا مشاہدہ کرلینا اس فیصلہ کے لئے کافی ہے کہ طبقاتی نزاع اور اقتصادی حالات ہی پوری تاریخ انسانیت کے محرک وموثر رہے ہیں۔اس کے نزدیک اٹھارہویں یا انیسویں صدی کے تاریخی مناظرمیں سے کسی ایک منظر کا دیکھنا اس بات کے لئے کافی ہے کہ وہی حکم پوری تاریخ بشریت پر نافذ کردیاجائے جب کہ اس کے حالات ہمارے نگاہوں سے اوجھل بلکہ بقول انگلز ان کے اسباب کا معلوم کرنا تقریباً محال ہے۔

اس وقت مناسب یہ معلوم ہوتاہے کہ انگلز کی اس عبارت کوبھی نقل کردیاجائے جس میں اس نے جدلیت کی ہمہ گیری کا اعلان کیاہے۔چنانچہ اس کا بیان ہے کہ:

یہ کھلی ہوئی بات ہے کہ میراارادہ ریاضیات اور طبیعات کے بارے میں مختصر طریقہ پر بیان دینے کا تھا تاکہ تفصیلی طور پر اس بات کو بیان کروں جس میں شک کی گنجائش نہیں ہے اور وہ یہ کہ جدلیت کے قوانین تاریخی حوادث کے لئے بنائے گئے تھے اور وہ خود بخود طبیعات تک راہ پیداکئے چلے جارہے ہیں۔

(ضددوہرنگ،ج2،ص193)

اگر آپ اس عبارت کو سابقہ عبارت سے ملاکردیکھیں گے تو آپ کو واضح طور پر یہ معلوم ہوجائے گا کہ مارکسیت نے پہلے تو ایک حادثۂ تاریخ سے پوری تاریخ کے اسباب ومحرکات طے کئے اور پھر انہیں قوانین کو طبیعات میں بھی راستہ دے دیا اور اس طرح ایک حادثہ سے پوری کائنات تاریخ وطبیعات کے علل واسباب کا فیصلہ ہوگیا اور کائنات ایک داخلی نزاع کا نتیجہ قرار پاگئی۔

۱۷۱

کیاکوئی اعلیٰ معیار موجودہے

مارکسیت کی نظر میں کسی نظریہ کی صحت کا سب سے اچھا معیار یہ ہے کہ اسے انطباق کے میدان میں آزماکر دیکھاجائے اگر تاریخ پر اس کا انطباق صحیح ہے تو نظریہ بھی صائب ہے لیکن اگر تاریخی انطباق اس کا ساتھ نہ دے سکے تو پھر اسے باطل ہی خیال کرنا چاہئے۔چنانچہ اس سلسلہ میں مادزی تنگ MAD TSETUNG لکھتاہے:

جدلی مادیت میں نظریۂ معرفت تطبیق کو سب سے اونچا مقام عطا کرتاہے۔اس کی نظرمیں کوئی نظریہ تطبیق سے جدانہیں ہوسکتا بلکہ انطباق سے الگ ہونا ہی نظریہ کے باطل ہونے کی دلیل ہے۔ (حول التطبیق،ص4)

جارج پولتیزر لکھتاہے:

سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم نظریہ اور انطباق کے اتحاد کو سمجھیں اور اس سلسلہ میں قابل غوربات یہ ہے کہ جو شخص بغیر نظریہ کے چلے گا اس کی رفتار نابینا جیسی ہوگی اور جو تطبیق کو ترک کردے گا وہ جمود میں گرفتار ہوکر رہ جائے گا۔

(مادیت ومثالیت فلسفہ،ص114)

ہمارافریضہ ہے کہ ہم مارکسیت کو بھی اسی بنیاد پر آزمائیں تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ وہ تاریخ کے مختلف ادوار پرکس طرح منطبق ہوتی ہے۔

ظاہر ہے کہ مارکسیت کی تمام ترتوجیہ اس معاشرے کی طرف ہے جس میں تاریخ سرمایہ داری سے اشتراکیت کی طرف آرہی ہے اسے ان تمام معاشروں سے کوئی تعلق نہیں ہے جو اس کی پیدائش سے پہلے عالم وجود میں آکر ختم ہوچکے ہیں۔اس لئے ہم اسی ایک معاشرہ کا جائز لینا چاہتے ہیں تاکہ مارکسیت کی صداقت وحقانیت کا صحیح اندازہ ہوسکے۔اس لئے کہ یہ نظریۂ امتحان بھی اسی کا ایجاد کردہ ہے۔

۱۷۲

اس مقام پر ہم اشتراکی ممالک کو دوقسموں پر تقسیم کردیتے ہیں۔بعض ممالک وہ ہیں جن میں اشتراکی نظام خونی انقلاب کا ممنون احسان ہے جیسے بولونیا، یوگوسلاویکیا، ہنگری وغیرہ کہ ان مقامات پر انقلاب اشتراکیت کو جدلی قوانین سے کوئی تعلق نہ تھابلکہ اس کا تمام تردارومدار مسلح طاقت او رفوجی قوت پر تھا اور یہی وجہ تھی کہ جرمنی دوحصوں پر تقسیم ہوگیا۔ جہاں تک انقلاب کے شرارے پہنچ گئے اشتراکی ہوگیا اور جہاں یہ آگ نہیں پہنچی وہ سرمایہ داریت پر باقی رہ گیا ورنہ یہ کیسے معقول تھاکہ ایک ہی ملک کے وسائل پیداوار اسے دو حصوں پر تقسیم کر دیتے ایک اشتراکی ہوتااور ایک سرمایہ دار۔

اس کے برخلاف بعض اشتراکی ممالک وہ ہیں جہاں اشتراکیت داخلی انقلابات کی بناپر بروئے کار آئی ہے لیکن جدلی قوانین کے انداز پر نہیں بلکہ دیگر ضرورتوں کے زیر اثر جیسے روس جو آج اشتراکیت کا اعلیٰ نمونہ خیال کیاجاتاہے کہ وہ اقتصادی اعتبار سے یورپ کے تمام ممالک سے پیچھے تھا،صنعتی کمزوری آخری نقطہ تک پہنچی ہوئی تھی،انقلاب کی مارکسی صلاحیتیں بالکل مفقود تھیں اور فرانس وبرطانیہ ان انقلابی جراثیم سے مالامال تھے لیکن اس کے باوجود ان میں انقلاب کا تصور بھی نہ تھا اور شاید یہی وجہ ہے کہ روس میں انقلاب آگیا، صنعتوں کو فروغ حاصل ہوگیا،اقتصادی حالات سدھر گئے اور فرانس اپنی حالت پر باقی رہ گیا۔ درحقیقت یہ بھی اشتراکیت کی بدنصیبی تھی کہ خوشحال ممالک انقلاب سے محروم رہے اور پس ماندہ ملک اس نعمت سے بہرہ ورہوگیا۔

حقیقت امر یہ ہے کہ جب ہم وسائل پیداوار کو انقلاب کے ساتھ ملاکر روس کے آئینہ میں دیکھتے ہیں تو ہمیں مارکسیت کا نظریہ بالکل الٹا نظرآتاہے اور ہم یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ انقلاب سے وسائل پیداہوتے ہیں نہ کہ وسائل سے انقلاب۔

روس کے انقلاب میں تمام ترموثر ومحرک وہاں کی معاشی حالت کا خراب ہونا اور صنعتی اعتبار سے اس کا پس ماندہ اور دور افتادہ ہونا تھا کہ اگر یہ معاشی بحران نہ ہوتا اور اسے

۱۷۳

اس بات کا احساس نہ ہوتاکہ اگر آج اپنی حالت کی اصلاح نہ کی گئی تو کل زورآور ممالک اپنا لقمۂ اجل بنالیں گے اور میری شخصیت فنا کے گھاٹ اتر جائے گی تووہاں اس انقلاب کا تصور بھی نہ ہوتا۔

معلوم ہوتاہے کہ اس معاشی زبوں حالی اور اسی صنعتی کمزوری نے روس کو انقلاب سے آشنا بنایا۔ورنہ اسے مارکسی اصولوں کی بناپر انقلاب سے دورکا بھی لگاؤ نہ تھا۔

مارکسیت میں انقلاب اس وقت ہوتاہے جب جدید وسائل قدیم نظام سے ٹکرا جاتے ہیں اوردونوں میں داخلی تصادم ہوجاتاہے اور ظاہر ہے کہ روس میں جدید وسائل کا سوال ہی نہ تھا۔وہاں تو سارامسئلہ انہیں وسائل کا فقدان تھا جس نے انقلاب کو برپاکر دیا۔

حقیقت یہ ہے کہ تاریخ روس میں ہم نے کوئی بات ایسی نہیں دیکھی ہے جسے مارکسیت کے جدلی قوانین پر منطبق کیاجاسکے اور جس کی بناپر یہ تسلیم کیاجاسکے کہ تاریخ نظام داخلی نزاع پر قائم ہے۔

روس ہی کی طرح کا دوسرااشتراکی ملک چین ہے یہاں کا تغیر وتبدل بھی اگرچہ انقلاب کے زور پر ہواہے اور یہاں بھی اشتراکیت انقلاب کے اثرمیں پھیلی ہے لیکن اس کے باوجود یہاں بھی مارکسیت تشنہ انطباق ہے اور اس کے اصول محتاج استدلال۔

چین کے بارے میں یہ بات قابل غور ہے کہ یہاں کے انقلاب میں تصادم و تنازع طبقہ حاکم ومحکوم میں نہ تھا کہ آخرکار محکوم طبقہ کی فتح ہوتی اور قانون جدلیت کی بناپر حکومت قائم ہوجاتی بلکہ یہاں کا انقلاب بھی اسی خارجی حملہ کا نتیجہ ہے جس کی تاب حاکم طبقہ میں نہ تھی اور جس کی بناپر وہ شکست خوردہ ہوگیااور محکوم طبقہ کو اتنا موقع مل گیاکہ وہ حکومت سنبھال سکے بلکہ روس میں بھی قیصریت کی تباہی اسی مسلح حملہ کا نتیجہ تھی اور وہاں بھی کسی داخلی تصادم کا کوئی ذکرنہ تھا۔

خلاصہ یہ ہے کہ ہم نے کسی مقام پر بھی انطباق کے آئینہ میں مارکسی نظریہ کی شکل

۱۷۴

نہیں دیکھی ہے۔ہمیں توصرف اتنا نظرآتاہے کہ معاشرہ میں ایک انقلاب آیا۔حاکم طبقہ معزول ہوا۔محکوم نے زمام حکومت سنبھال لی لیکن اس کے اسباب کا تعلق وسائل پیداوار یا داخلی نزاع سے نہ تھا بلکہ اس کے پس منظرمیں خارجی طاقتیں اور مسلح حملے تھے جنہوں نے ملک کی حالت بدل دی اورنئے نظام کی بنیاد پڑگئی۔

آپ تاریخ کا جائزہ لیں گے تو آپ کو انقلاب روس کے ساتھ عالمگیر جنگ کے طفیل میں متعدد انقلابات نظرآئیں گے اور ان سب کا محرک اور موثر ایک ہی احساس ہوگاکہ اگر آج قافلۂ تاریخ سے ملحق نہ ہوگئے تو کل تباہی کا سامنا ہوگا۔عوام کو اس احساس نے ابھارا اور مسلح حملوں نے مزید سہارادیا،ملک کا نظام بدل گیا اور جدید قوانین حکومت کرنے لگے۔

حقیقت یہ ہے کہ اگر نظریہ کی صحت کا دارومدار انطباق پرہے تو مارکسیت آج تک تشنۂ دلیل ہے اس لئے کہ ہم نے تاریخ کے کسی دور میں بھی اس کا انطباق نہیں دیکھاہے بلکہ یہی احساس خودلینن کے دل میں بھی تھا اور یہی وجہ ہے کہ اس نے روس کے انقلاب کے نتائج کا اعلان اس وقت تک نہیں کیا جب تک کہ انقلاب منزل آخر پر نہیں آگیا۔وہ دیکھ رہا تھاکہ مارکسی قوانین ابھی انقلاب کے مقتضی نہیں ہیں ہوسکتاہے کہ انقلاب ناکامیاب ہو جائے۔چنانچہ اس نے سولیراکے نوجوانوں کوخطاب کرتے ہوئے انقلاب فروری سے ایک ماہ اور انقلاب اکتوبرسے دس ماہ قبل یہ کہاتھاکہ:

شاید ہم اس وقت تک زندہ نہ رہیں جب اشتراکی انقلاب اپنے قطعی تنائج کو پیش کرے لیکن آثارکی بناپر اتنا کہہ سکتے ہیں کہ سولیراکے نوجوان اس انقلاب سے بڑافائدہ اٹھائیں گے۔وہ صرف انقلاب میں حصہ نہیں لیں گے بلکہ اس کے بعد بھی کامیاب رہیں گے۔

عجیب پرلطف بات ہے کہ جہاں لینن نے اعلان کی جرأت نہیں کی وہاں تو دس

۱۷۵

مہینہ کے بعدانقلاب آگیااور جن سولیراکے نوجوانوں کو بشارت دی تھی وہ غریب آج تک لینن کے خواب کی تعبیر کا انتظار کررہے ہیں اور ان فوائد کی آس لگائے بیٹھے ہیں جن کی بشارت لینن نے دی ہے۔

کیا مارکسیت پوری تاریخ پر محیط ہے

یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ مارکسیت تاریخ کی توجیہ کے سلسلہ میں پیداہونے والے احتمالات میں سے ایک احتمال کانام ہے جس کے ثبوت کے لئے چند مختلف واقعات جمع کرلئے گئے ہیں اور یہ دعویٰ کیاگیاہے کہ مارکسیت ان تمام واقعات پرپوری طرح منطبق ہوتی ہے۔لہٰذا پوری تاریخ کو اقتصادی حالت اور وسائل پیداوار کا نتیجہ قرار دینا چاہئے۔

حقیقت امریہ ہے کہ مارکسیت کی توجیہ میں یہی وہ جاذب نظرنکتہ ہے جس نے تمام توجیہات کو ناقابل اعتنا بنادیاہے۔ہر انسان یہ خیال کرتاہے کہ نظریہ پوری تاریخ کو شامل ہے اس کے قوانین حتمی اور یقینی ہیں اس کی نظرمیں تاریخ میں ایک تسلسل اور اس کے حوادث میں ایک ارتباط ہے جس کی بناپر ہر موجودہ واقعہ اپنے مستقبل کی خبر دے رہاہے۔

جدلی قوانین اس کی پشت پناہی کررہے ہیں اور تاریخ اس کی ہمنوائی میں سرگرم ہے اور سب سے لطیف بات یہ ہے کہ یہ عوامی توہمات کی ترجمانی بھی ہے اسے فقط علماء وفضلاء کی ترجمانی سے ارتباط نہیں ہے۔

مارکسیت کی تاریخ مادیت کی بنیاد ایک تعمیری تسلسل پرہے جس کی پہلی کڑی

۱۷۶

وسائل پیداوار دوسری کڑی اقتصادی حالات اور آخری کڑی اجتماعی کیفیات ہیں۔ اقتصادی حالات محرک اور متحرک کے درمیان ایک ایسا واسطہ ہیں جووسائل کی تاثیر کو معاشرہ تک پہنچا رہے ہیں۔جیساکہ بلخانوفنے اعلان کیاہے:

ہرقوم کے اقتصادی حالات اس کے معاشرہ کو تشکیل دیتے ہیں اور پھر اسی معاشرہ سے سیاسی اور دینی حالات پیداہوتے ہیں۔اب اگر یہ سوال کروکہ اقتصادی حالات کاکیاسبب ہے؟تویادرکھو کہ اس کا بھی ایک سبب ہے اور وہ ہے انسان کا عالم طبیعت سے مقابلہ یعنی پیداوار۔(الفہوم المادی للتاریخ،ص46)

پیداواری حالات لوگوں کے درمیان اجتماعی تعلقات قائم کرتے ہیں اور خودوسائل انتاج کے ذریعہ عالم وجود میں آتے ہیں۔ (کتاب مذکور،ص48)

مارکسیت کے مخالفین عام طور سے اس پردو اعتراض وارد کرتے ہیں:

(1) اگرتاریخ اقتصادی عوامل ومحرکات کا نتیجہ ہے اور وہ فطری طورپر اسے سرمایہ داری سے اشتراکیت کی طرف لے جارہے ہیں توپھر مارکسی اہل نظرانقلاب کی اتنی کوششیں کیوں کر رہے ہیں اور انہیں اشتراکی انقلاب کی اتنی زیادہ فکر کیوں لاحق ہے۔

(2) ہرانسان فطری طور پر اس بات سے واقف ہے کہ اس کے نفس میں اقتصادیات کے علاوہ دیگر جذبات وخواہشات بھی پائے جاتے ہیں جن کی خاطر وہ پوری اقتصادی زندگی کو قربان کردینے پر آمادہ ہوجاتاہے کیا ایسے جذبات کے ہوتے ہوئے تاریخی موثر کا درجہ صرف اقتصادی حالات کو دیاجاسکتاہے؟

ہماری نظرمیں انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم ان اعتراضات کے بارے میں بھی اپنا موقف صاف کر دیں اور یہ بات اسی وقت ہوسکتی ہے جب مارکسیت کی نظرمیں انقلاب کا مفہوم واضح ہوجائے۔

پہلے اعتراض کے بارے میں یہ کہاجاسکتاہے کہ مارکسیت پرست حضرات کی نظر

۱۷۷

میں انقلاب کی کوششیں تاریخ سے علیحدہ کوئی حیثیت نہیں رکھتیں وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم اپنی کوششوں سے ایک تاریخی ضرورت کو پورا کررہے ہیں اور ایک آنے والے انقلاب کی فطری راہیں ہموار کررہے ہیں۔

مارکسیت اگرچہ اس جواب پر اکتفا کرلیتی ہے لیکن افسوس کہ وہ اس کے تقاضوں سے صحیح طریقہ سے واقف نہیں ہے چنانچہ خوداسٹالین کا کہناہے:

معاشرہ قوانین کے مقابلہ میں بالکل عاجز نہیں ہوتاہے بلکہ اس کے امکان میں یہ بات بھی ہوتی ہے کہ وہ ان قوانین کے دائرہ کو محدود کرکے انہیں اپنے مصالح سے ہم آہنگ بنالے اور ان کے ساتھ وہی معاملہ کرے جو طبیعی قوانین کے ساتھ کیاجاتاہے۔(دورالافکار المتقدمیہ فی تطویر المجتمع،ص32)

پولتیزرلکھتاہے:

مادی جدلیت اگرچہ اجتماعی قوانین کو بڑی اہمیت دیتی ہے لیکن اسی کے ساتھ وہ افکار کی اہمیت کی بھی شدت سے قائل ہے۔اس کی نظرمیں افکار ان قوانین کو مقدم وموخر کرسکتے ہیں بلکہ انہیں بے سود بھی بناسکتے ہیں۔

(مادیت ومثالیت فلسفہ،ص22)

ظاہر ہے کہ افکار بشری کی اتنی اہمیت کہ وہ اجتماعی اور جدلی قوانین کو مقدم وموخربناسکیں۔مارکسی نظریہ سے بنیادی اختلاف رکھتی ہے وہ افکار جو بقول مارکسیت تاریخی حادثات کے اجزاء میں شمار ہوتے ہیں اور جن پر جدلیت کے قوانین پوری طرح سے اثرانداز ہوتے ہیں ان میں اتنی طاقت کہاں سے آگئی کہ وہ ان قوانین میں ردوبدل اور تقدم وتاخر سے کام لے سکیں؟

اوراسٹالین کا انہیں طبیعی قوانین پر قیاس کرنا تواور بھی مضحکہ خیز ہے اس لئے کہ عالم طبیعیات جن قوانین میں تقدم وتاخر اور ردوبدل کرتاہے خود ان قوانین کا محکوم نہیں ہوتاہے اور یہاں مارکسیت نے افکار کوتاریخی قوانین کا محکوم فرض کیاہے تو کیا اس کے بعد

۱۷۸

بھی یہ ممکن ہے کہ ان قوانین میں ترمیم وتنسیخ کی جاسکے؟

حقیقت یہ ہے کہ مارکسیت نے پہلے اعتراض سے بچنے کے لئے ایک جواب دے دیاتھا اور افکار کو تاریخ کا ایک جزوقرار دے کر نجات حاصل کرلی تھی لیکن اسے یہ خبر نہیں تھی کہ ایک دن انہیں افکار کو تاریخ میں موثر بھی قرار دینا ہے جو اپنی بنیاد فکر سے بالکل متضادبات ہوگی۔

دوسرے اعتراض کے بارے میں مارکسیت کا سیدھا سادہ جواب یہ ہے کہ ان جذبات و خواہشات کو تاریخی موثر ومحرک کادرجہ اسی وقت دیا جاسکتاتھا جب یہ اقتصادی عوامل سے الگ کوئی شے ہوتے لیکن مارکسیت نے یہ تو ثابت کردیاہے کہ انسانی شعور بھی اس کے اقتصادی حالات کا باطنی انعکاس ہے لہٰذا اب اس شعور کو مستقل حیثیت دے کر اقتصادی عوامل کے مقابلہ میں پیش کرنا ایک بنیادی غلطی ہوگی۔

مارکسیت کا یہ جواب کسی حدتک سنجیدہ ہوتااگر ہمارے سامنے اس کے وہ ارشادات نہ ہوتے جن میں اس نظریہ کی صریحی مخالفت کی گئی ہے اور اقتصادیات کو وسیلہ ومحرک ہونے سے نکال کر انہیں غرض وغایت کا درجہ دے دیاگیاہے۔چنانچہ انگلز لکھتاہے:

قوت ہر کام کے لئے فقط وسیلہ ہوتی ہے لیکن اقتصادی منفعت تو غرض وغایت بھی ہے اور ظاہر ہے کہ غایت قوت سے زیادہ درجہ رکھتی ہے۔لہٰذاتاریخ میں اقتصادیات کو سیاسیات سے بلنددرجہ حاصل ہونا چاہئے اس لئے کہ سیاست توفقط پیٹ بھرنے کا وسیلہ ہے۔

ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ انگلزنے اپنا یہ بیان نہایت لاپروائی کے ساتھ دیاہے ورنہ اس میں یہ جرأت کسی وقت بھی ممکن نہ تھی کہ سیاسی افکار کو اقتصادی حالات سے الگ ایک شے تصور کرے اور پھر سیاست کو محرک بناکر اقتصاد کو غرض وغایت بنادے جبکہ ہم نے یہ بھی دیکھاہے کہ بعض اوقات پیٹ بھرنے والے بھی اچھے اچھے کام کرجاتے ہیں خواہ

۱۷۹

ان کا مقصد کچھ ہی کیوں نہ ہو۔

مارکسیت پر یہ اعتراضات اگرچہ کافی اہمیت رکھتے ہیں لیکن ہم اعتراضات سے قطع نظرکرکے ان مشکلات کو پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں جن کو حل کرنے کی توفیق مارکسیت کو اب تک حاصل نہیں ہوئی اور نہ مادیت تاریخ انہیں تاابدحل کر سکتی ہے۔

ان مشکلات کی تفصیل یہ ہے

پیداواری قوتوں کا ارتقاء اور مارکسیت

مارکسیت کے بارے میں سب سے پہلے ہمارا سوال یہ ہے کہ ان پیداواری طاقتوں میں جنہیں پوری تاریخ کا موثر ومحرک قراردیاگیاہے کیونکہ تغیروتبدل ہوتاہے اور پھر ان کے اسباب ارتقاء کو تاریخی محرک کا درجہ کیوں نہیں دیاگیا۔

مارکسیت کے دلدادہ حضرات عام طور پر اس سوال کا جواب یہ دیاکرتے ہیں کہ یہ قوتیں انسان کے ذہن میں تجربات کی وجہ سے جدید افکار تشکیل دیتی ہیں اور پھر انہیں جدید افکار سے نئی قوتیں وجود میں آتی ہیں گویاکہ قوت کی ایجاد جدلی عنوان سے قوت ہی کے ذریعہ ہوتی ہے۔

مارکسیت کا خیال ہے کہ معاشرہ میں جدلی قوانین کے انطباق کا اس سے بہتر کوئی نمونہ نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس نے اقتصادیات او رافکار کو علت ومعلول کا درجہ دے دیا ہے تاکہ یہ کہاجائے کہ معلول اپنی علت سے ٹکراکرنئے وسائل کی ایجاد کرتاہے۔

ہم نے فلسفی بحث کے موقع پر اپنی پہلی کتاب میں اس مسئلہ کو پوری تفصیل کے

۱۸۰