اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب0%

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 391

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ شھید باقر الصدر طاب ثراہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 391
مشاہدے: 104463
ڈاؤنلوڈ: 3731

تبصرے:

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 391 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 104463 / ڈاؤنلوڈ: 3731
سائز سائز سائز
اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ساتھ بیان کر دیاہے اور یہ ثابت کر دیاہے کہ افکار کو اجتماع کی پیداوار قرار دینا ایک فاش غلطی ہے یہاں بھی اس کی توضیح یوں کی جاسکتی ہے کہ اگر جدید وسائل کو قدیم تجربوں کی پیداوار تسلیم کرلیاجائے تو اس کا مطلب یہ ہوگاکہ تجربہ محسوس حالات کے تصورکے علاوہ کوئی اور شیء ہے۔حالانکہ تجربہ کا مفہوم صرف یہ ہے کہ انسان جس چیز کو سامنے دیکھے اسے ذہن میں محفوظ کرلے۔

ظاہر ہے کہ خارجی حالات کا ذہنی تصور کسی جدید شیء کو اس وقت تک ایجاد نہیں کرسکتا جب تک کہ اس تصور میں کوئی تصرف نہ کیا جائے اور اسے جدید تقاضوںکے مطابق نہ ڈھال لیاجائے اور کھلی ہوئی بات ہے کہ یہ کام تجربات سے حاصل نہیں ہوسکتا۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ وسائل انسان کے ذہن میں اپنے تصورات قائم کرتے ہیں اور وہ اپنی نفسیاتی صلاحیتوں کی بناپر ان میں تصرف وتغیر وتبدل کرکے ان سے ایک نئی شکل ایجاد کرتاہے۔جس کے بعدان وسائل کو سابقہ وسائل کا معلول نہیں قرار دیاجاسکتااور نہ انہیں تجربات ہی سے کوئی ربط ہے۔تجربات توصرف فکری کی راہیں ہموار کرتے ہیں۔انہیں فکرکی ایجادمیں کوئی دخل نہیں ہوتاہے۔

اب تک توہماراسوال یہ تھاکہ ان پیداواری طاقتوں کا ارتقاء کیونکر وجود میں آیا؟ اور آپ نے دیکھاکہ مارکسیت اس کے جواب سے قاصر رہی۔اب ہم اس سوال کو ذرااور بھی دقیق بنائے دیتے ہیں تاکہ مارکسیت کی فکری راہیں اور بھی دشوار گزار ہوجائیں۔ہمارا تازہ سوال یہ ہے کہ پیداوار کی فکر صرف انسان کے ذہن میں کیوں پیداہوئی دیگر حیوانات میں یہ صلاحیت کیوں نہیں ہے؟

ظاہر ہے کہ مارکسیت اس مقام پر سکوت کرے گی۔اس لئے کہ اس نے تمام عالم کو پیداوار کا نتیجہ قرار دیاہے اور یہ سوچنے کی زحمت نہیں کی کہ اگر تمام عالم انسان کے دست وبازو پرچل رہاہے تو خودانسانی صلاحیت کا منشا کیاہوگا؟

۱۸۱

ہم مارکسیت کی نظرمیں پیداوار کے معنی معلوم کرنے کے بعد اس کا صحیح جواب پیش کریں گے خواہ وہ خود اس جواب سے راضی نہ بھی ہو مارکسیت کا کہنا ہے:

پیداواراس اجتماعی عمل کا نام ہے جس کے ذریعہ عالم طبیعت سے مقابلہ کرکے اپنی ضرورت کی چیزیں مہیا کی جاتی ہیں اور اس طرح طبیعت کے رخ کو ضرورت کی طرف موڑدیاجاتاہے۔

ظاہر ہے کہ اجتماعی عمل دوچیزوں کا محتاج ہے۔ان کے بغیر اس کا عالم وجود میں آنا محالات میں سے ہے:

(1)فکر:

طبیعت کا موجودہ حال سے دوسری حالت کی طرف موڑدینا مثلاً گندم سے آٹا اور آٹے سے روٹی بنادینا یہ وہ عمل ہے جسے فکر کے بغیر انجام نہیں دیاجاسکتا۔انسان جب تک ذہن میں اس آنے والی صورت کا نقشہ قائم نہیں کرے گا اس وقت تک عالم طبیعت کو مس بھی نہیں کرے گا اور یہی وجہ ہے کہ حیوانات اس پیداوار سے محروم ہیں اس لئے کہ ان میں اس فکر کا مادہ نہیں ہے۔

(2)زبان:

ایسے اجتماعی اعمال کے لئے ایک ایسی زبان کی ضرورت ہے جس سے تمام لوگ باہمی گفت وشنید کاکام لے سکیںاس لئے کہ جب تک ان کے درمیان باہمی مفاہمت کا کوئی وسیلہ نہیںہوگا وہ کوئی اجتماعی عمل انجام نہیں دے سکتے۔

ہمارے اس بیان سے واضح ہوگیاکہ انسانی معاشرہ میں فکر ولغت دونوں کا درجہ پیداوار سے مقدم ہے اور پیداوار کا عمل ان کے بغیر انجام نہیں پاسکتالہٰذا تاریخی مادیت کا یہ کہنا کہ فکر ولغت اقتصادی حالات اور پیداواری طاقتوں کا نتیجہ ہیں ایک نہایت ہی مہمل اور بے معنی قول ہے۔

۱۸۲

ہمارے دعویٰ کی ایک نہایت ہی مستحکم دلیل یہ ہے کہ تاریخ میں زبان کی رفتار پیداوار سے ہمیشہ الگ رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ بقول مارکسیت روس کے اقتصادی حالات نے وہاں اجتماعی انقلاب توپیداکردیالیکن اب تک وہاں کی زبان میں کوئی فرق نہیں آیا۔اسی طرح بخاری آلات نے انگریز اجتماع میں ایک ہیجان تو برپاکر دیالیکن اس کی بناپر انگریزی زبان پر کوئی اثر نہیں پڑا۔

معلوم ہوتاہے کہ اجتماعی انقلاب کو زبان کے تغیر وتبدل سے کوئی تعلق نہیں ہے ورنہ اس انقلاب کے ساتھ ہی لغت میں بھی ایک انقلاب برپا ہوجاتا۔

اب سوال یہ رہ جاتاہے کہ اگر ان امور کا سبب اقتصادی حالات نہیں ہیں تو پھر کیاہے؟

یہی وہ مسئلہ ہے جس کی گہرائیوں تک پہنچنے سے مارکسیت قاصر ہے اور ہم اسے بیان کرنا چاہتے ہیں۔

فکر اور ماکسیت

مارکسیت کی تاریخ مادیت میں سب سے اہم اور خطرناک موقف وہ ہے جہاں اس نے فکر اور اقتصاد میں رابطہ قائم کرکے یہ فیصلہ کیاہے کہ انسانی فکر کسی قدربلند کیوں نہ ہوجائے۔وہ اپنی بنیادی طاقت سے الگ ہوکر کسی قدرتلون وتنوع کیوں نہ پیداکرلے آخر کار اسے اقتصادی حالات کا نتیجہ ہی کہاجائے گا اور اس کی پیدائش کو انہیں کیفیات کی طرف منسوب کیاجائے گا۔

۱۸۳

ظاہر ہے کہ یہ بحث ایک طویل فلسفی اور تجرباتی گفتگوکی طالب ہے اس لئے کہ اس کے اثرات فلسفہ وتاریخ دونوں پر پڑتے ہیں اور ہم نے اسی ضررت کا احساس کرتے ہوئے اپنی سابقہ کتاب''ہمارافلسفہ''میں اس مطلب کوپوری وضاحت کے ساتھ بیان کیاہے اور اب چند قسم کے افکار پر مزید روشنی ڈالنا چاہتے ہیں۔ہماری گفتگو کا تعلق صرف دینی، فلسفی، تجربیاتی اور اجتماعی افکار سے ہوگالیکن ان تفصیلات سے پہلے آپ کو انگلز کی ایک عبارت سنادیناچاہتے ہیں کہ جو اس نے فرانز مہرنج کے خط میںلکھی تھی وہ یہ لکھتاہے کہ:

فکری عمل وہ ہے جسے مفکراپنے فکر وشعور کی بناپر انجام دیتاہے اور وہ اس لئے باطل ہوتاہے کہ اسے اس کے صحیح علل واسباب سے واقفیت نہیں ہوتی ورنہ اگرایسا ہوتاتو وہ عمل فکری نہ کہاجاتا۔فکری عمل میں ظاہری اور سطحی اسباب پر نظرکی جاتی ہے اور مادراء فکر حقیقی افکار سے غفلت برتی جاتی ہے۔

(تفسیر اشتراکی تاریخ ،ص122)

انگلز نے اپنے بیان میں تمام مفکرین کو جاہل ثابت کرنا چاہاہے صرف اس لئے کہ ان کا عمل فکری ہوتاہے اور وہ ان اسباب تک نہیں پہنچ پاتے ہیں جہاں تک تاریخی مادیت کی رسائی ہوگئی ہے۔

ہم اس مقام پر انگلز سے صرف یہ سوال کرنا چاہتے ہیں کہ اگر عمل کے فکری ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے اسباب نامعلوم ہوں تو جناب کو یہ معجزہ کیسے حاصل ہوگیاکہ آپ کے افکار بھی باقی رہے اور آپ کو صحیح اسباب بھی معلوم ہوگئے؟خیراب آپ ان تفصیلات کی طرف توجہ فرمائیں۔

۱۸۴

دین

افکار کی سرزمین پر دین نے جو کارنامے انجام دیئے ہیں وہ کسی باعقل وشعور انسان سے مخفی نہیں ہیں۔

دین نے انسان کی عقلی زندگی کی تنظیم میں بڑانمایاں حصہ لیاہے اور خود بھی مختلف ادوار تاریخ کے اعتبار سے مختلف رنگ اختیار کرتارہاہے۔

افسوس کہ مارکسیت نے اپنی مادیت کے تحفظ کے لئے اس کے جملہ حقائق وحی، نبوت صانع وغیرہ سب کا انکار کر دیا اور مادی حلقوں میں یہ بات مشہور ہوگئی کہ دین انسان کی کمزوری اور اس کے احساس کمتری کا نتیجہ ہے۔اس کا خیال انسان کے ذہن میں اس وقت پیداہوتاہے جب وہ طبیعی قوتوں کے مقابلہ سے عاجز ہوجاتاہے۔

مارکسیت نے دیکھاکہ یہ شہرت اس کے بنیادی اصولوں سے ہم آہنگ نہیں ہے لہٰذا اس نے ایسی توجیہ کی فکر شروع کر دی جو تاریخی مادیت پر منطبق ہوسکے کو نستانیتوف لکھتاہے:

لینن کی مارکسیت ہمیشہ تاریخی مادیت کے افکار کو مسنح کردینے والے عناصر کی مخالف رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس نے سیاسی حقوقی، اجتماعی اور دینی افکار کا سرچشمہ اقتصادی حالات کو قرار دیاہے۔ (دور الافکار التقدمیہ،ص40)

مارکسیت نے جب دین کی نشود نما کے بارے میں اپنے نظریات کو منطبق کرنے کی فکر شروع کی تواسے طبقاتی نزاع کا سہارا لینا پڑااور اسی کے بھروسے پر اس نے یہ اعلان کردیاکہ دین معاشرہ کے مظلوم طبقہ کی مایوس ذہنیت کا نتیجہ ہے جس سے وہ اپنادل بہلایا کرتاہے مارکس کا کہنا ہے کہ:

۱۸۵

دینی افلاس درحقیقت واقعی افلاس کا آئینہ دار ہے۔دین رنجیدہ محزون انسان کی آہ ہے۔دین عالم بے روح کی روح اور مفکر بے شعور کی فکر ہے،دین اقوام عالم کے لئے ایک افیون ہے،اس آنسوؤں میں ڈوبی ہوئی وادی کی اصلاح کا پہلا قدم دین کی تنقید ہے۔ (مارل مارکس،ص16،17)

مارکسیت کے بیانات اگرچہ اس نقطہ پر متفق ہیں کہ دین طبقاتی نزاع کا نتیجہ ہوتاہے لیکن اس کے بعد ایک اختلاف بھی شروع ہوتاہے جس میں بعض افراد کا یہ خیال ہے کہ دین وہ افیون ہے جسے حاکم طبقہ محکوم طبقہ کو استعمال کراتاہے تاکہ وہ اپنے مطالبات سے غافل ہوکر اس کے ہر تقاضے پر لبیک کہتارہے گویاکہ یہ محکوم طبقہ کو اپنے اغراض ومصالح میں گرفتار کرنے کا ایک بہترین جال ہے جسے اسی مقصد کے لئے تیار کیاجاتاہے۔

مارکسیت کے ان پرستاروں نے یہ بیان دیتے ہوئے تاریخ سے اس طرح منہ موڑلیاجیسے انہیں اس سے کوئی لگاؤ ہی نہ تھا ورنہ اگر وہ تاریخ کے صفحات کا سرسری مطالعہ بھی کرتے تو انہیں معلوم ہوجاتاکہ دین غالباً فقراء ومساکین اور کمزور طبقہ کے افراد کی آغوش میں پلا ہے۔اس کی شعاعیں کا شانۂ فقر کے دماغوں سے پھوٹی ہیں ۔مسیحیت کے افکار قصررومان تک انہیں مرسلین نے پہنچائے ہیں۔جن کے پاس اس روحانی شعلہ کے علاوہ اور کچھ نہ تھا جو ان کے سینے میں بھڑک رہاتھا۔صدر اول میں اسلام کی پرورش گاہ مکہ کے فقراء ومساکین کے علاوہ کس کا دل ودماغ تھا؟کیا ان حقائق کے باوجود دین کو حاکم طبقہ کا جال قرار دینا تاریخ سے جہالت نہیں ہے۔

مارکسیت کے دیگر پرستاروں نے دین کو مظلوم ومجبورطبقہ کی آہ قراردیاہے ۔ان کا خیال ہے کہ دین کو مظلوم وعاجز انسان اپنی تسلی کا ایک وسیلہ سمجھ کر اپناتاہے اور پھر اسی سے اپنی فقیرانہ ذہنیت کو تسکین دیتاہے۔

اس نظریہ کا جواب دینے کے لئے پہلے ایک عام بات پر توجہ دینا زیادہ مناسب

۱۸۶

ہے او روہ یہ کہ حسن اتفاق سے دین ان معاشروں میں بھی رائج رہاہے جنہیں مارکسیت نے اپنے آنے والے دور کا نمونہ قرار دیاہے اور یہ بتایاہے کہ تاریخ کے یہ ادوار طبقاتی نزاع سے مبراتھے۔سوال یہ پیداہوتاہے کہ اگر ان لاطبقاتی ادوار میں دین کا وجود مختلف اشکال میں ثابت ہوجاتاہے تو پھراسے طبقاتی نزاع کا نتیجہ قرار دینا کہاں تک درست رہتاہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اگر ان لوگوں کے خیال کے مطابق دین کو ضعیفوں او ر مظلوموں کی تسکین کا سہارا مان لیاجائے تو پھراسے کسی ایسے معاشرہ میں نہ ہونا چاہئے جہاں افلاس وتنگ دستی نہ ہو اور کسی ایسے انسان کو اختیار نہ کرناچاہئے جو مادی ثروت کے اعتبار سے بلندو بالا درجہ پر فائز ہو۔حالانکہ مارکسیت اس حدتک ہمارا ساتھ ضروردے گی کہ یہ دین ان دماغوں میں بھی رہ چکاہے اور رہتاہے جن میں اس کی خاطر ساری ثروت قربان کردینے کا جذبہ ہوتاہے اور ان میں اقتصادی حیثیت سے کسی قسم کی کمزوری نہیں ہوتی۔

کیا اس کے بعد آپ یہ تسلیم نہ کریں گے کہ دین ایک زندہ عقیدہ اور محکم نظام ہے جسے ثروتمند عقلیت نے بھی پسند کیاہے اور فقیر ذہنیت نے بھی اور دونوں نے ہی اپنے قلب وجگر میں جگہ دی ہے۔

مارکسیت کی ایک زیادتی یہ بھی ہے کہ اس نے اقتصادیات کو فقط دین کی نشوونما کا منشاء قرار نہیں دیابلکہ دین کے جملہ تغیرات کو اقتصادیات کا ممنون کرم قرار دے دیاہے اس کا خیال یہ ہے کہ تاریخی ادیان میں چھوٹی چھوٹی حکومتیں ایک قومی خدابنالیتی تھیںاور جب وہ حکومت ترقی کرکے ایک عالمی حکومت میں منضم ہوجاتی تھی تو اس کا خدا بھی عالمی ہو جایاکرتا تھا۔

اس کی واضح مثال مسیحیت کی تحریک ہے کہ وہ رومان میں پیداہوئی لیکن اپنی پیدائش کے 250برس بعد ایک حکومتی مذہب کی شکل اختیار کر گئی پھر اس نے جاگیردارانہ صورت بدلی اور پھر جب سرمایہ داری سے ٹکرائی تو پروٹسٹانٹ ازم تحریک وجود میں آگئی۔

۱۸۷

(لارڈفیج فیور باخ،ص103تا105)

ہماراخیال ہے کہ اگر مارکسیت کے نظریہ کے مطابق مسیحیت یاپروٹسٹانیٹ کا تعلق مادی اغراض سے ہوتاتوا س کی نشوونمارومانی حکومت میں ہوتی جو اس وقت عالمی قیادت کی حامل تھی اورپھر اصلاحی تحریک بھی سرمایہ پرست جماعت کے علاوہ کسی اور معاشرہ سے اٹھتی حالانکہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔

مسیحیت رومانی حکومت سے بہت دورایک مشرقی اقلیم میں پیداہوئی جو رومان کا استعماری علاقہ تھا اور پھر اس کی تربیت بھی ایک یہودی اور فقیر قوم میں ہوئی جس کی نظرمیں رومانی قائد( PAMPAY )کی پیدائش سے6 صدی قبل کے استعمار کے بعد سے قومی استقلال کے علاوہ اور کوئی شے نہ تھی۔

اس نے اسی کی خاطر انقلاب برپاکئے تھے اور اسی کے لئے جانیں قربان کی تھیں اور لطف یہ ہے کہ اسی فقیرانہ دین کو آخرکار جابرحکومت نے بھی تسلیم کرلیا۔

یہی حال یورپ کو دینی اصلاحی تحریک کا ہے جسے یورپ میں آزادی کے نمائندوں نے اٹھایاتھا اور اس کا کوئی تعلق سرمایہ پرست افراد سے نہ تھا۔یہ اور بات ہے کہ اس تحریک سے اس طبقہ نے بھی فائدہ اٹھایالیکن اس کا یہ مطلب ہرگزنہیں ہے کہ اس تحریک کا بنیادی تعلق اس طبقہ سے تھاورنہ اگر ایسا ہوتاتو اس تحریک کے لئے یورپ کے تمام شہروں سے بہتر انگلینڈہوتاجہاں کی بورژوادیت دیگر شہروں سے بہتر تھی اس لئے کہ 1215ء کے بعد کے انقلاب کے باعث اس شہر کی حالت بڑی حدتک اچھی ہوگئی تھی لیکن اس کے باوجود لوتھر( M.LUTHEIR ) انگلینڈ سے ظاہر نہیں ہوتابلکہ اس سے بہت دور جرمنی میںاپنی تبلیغ کرتاہے جس طرح کہ کالون( CALWN ) فرانس میں اپنی تحریک چلارہاتھا۔

جس کے نتیجہ میں کیتھولک اور پروٹسٹانیتٹ کی جنگیں ظہور میں آئیں اور آخر کار ولیم ادرنج نے اپنے بہادر لشکر کے ذریعہ اس طوفان کو روکا، یہ درست ہے کہ انگلینڈنے بھی

۱۸۸

پروٹسٹنٹ تحریک کو اپنالیاتھالیکن اس کی نشودونما کو انگلینڈ سے کوئی تعلق نہ تھا بلکہ اس کی نشوو نما جاگیردار ممالک میں ہوئی تھی۔

اگرمارکسیت کے اس نظریۂ ارتقاء کو عالم کے تیسرے عظیم المرتبت دین اسلام پر منطبق کیاجائے تو نظریہ وانطباق کااختلاف اور بھی نمایاں طور پر سامنے آجائے گا اس لئے کہ یورپ کی عالمی حکومت اگر ایک عالمی خدا کی طالب ہوسکتی ہے تو جزیرة العرب میں توکوئی عالمی حکومت نہ تھی وہاں تو طوائف الملو کی کادور دورہ تھا وہاں تو ہر قوم ایک جداگانہ خدا کی پرستار تھی۔

آخر اس پس افتادہ ملک میں ایک رب العالمین کا تصور کیسے پیداہوگیا؟اگر خدائی کا تصور قومیت سے ملکیت اور ملکیت سے عالمیت کی طرف منتقل ہوتاہے تو پھرسوال یہ پیداہوتاہے کہ جزیرة العرب میں اس تصورنے قومیت سے عالمیت کارخ کیونکر اختیار کرلیااور مختلف خداؤں کے پرستار توحید کے پلیٹ فارم پر کس طرح جمع ہوگئے۔

ب:فلسفہ

مارکسیت کا خیال ہے کہ فلسفی افکار بھی اپنے اقتصادی اور مادی حالات کا نتیجہ ہوتے ہیں جیساکہ( CAUSTRNTINOFE )لکھتاہے:

وہ قوانین جو ہر اجتماع کی تنظیم میں شریک ہوتے ہیں اور خصوصیت کے ساتھ اشتراکی معاشرہ کے لئے ضروری ہیں۔ان میں سے ایک قانون یہ بھی ہے کہ اجتماعی ادراک اجتماعی حالات کا تابع ہوتاہے۔چنانچہ انسان کے تمام اجتماعی سیاسی،حقوقی اور فلسفی افکار اس کے مادی حالات کے ذہنی انعکاس اور

۱۸۹

پرتوہیں۔(دورالافکار المتقدمیہ فی تطویر المجتمع،ص8)

ہم جس طرح فکر واقتصاد کے ارتباط کے بالکلیہ منکر نہیں ہیں۔اسی طرح ایک فکری نظام کے بھی قائل ہیں جو قانون علیت کی بناپر اپنے خاص اسباب کے سہارے چل رہاہے یہاں( IDEALOGE )عمل اپنے علل واسباب سے اسی طرح مربوط ہوتاہے جیسے کہ ہر معلول اپنی علت کے ساتھ لیکن کلام صرف اس بات میں ہے کہ اس فکری نظام کے علل واسباب کیاہیں؟

مارکسیت کی نظرمیں اس کے اسباب اقتصادیات ہیں اور اس کے علاوہ کسی شے میںعلت بننے کی صلاحیت نہیں ہے اور ہماری رائے اس سے بالکل مختلف ہے۔ہم مارکسیت کے اس خیال کو اس کے قول کے مطابق تاریخ پر منطبق کرکے دیکھتے ہیں تو ہمیں عجیب منظرنظرآتاہے۔یہی مارکسیت کبھی ان افکار کو پیداواری قوتوں کا نتیجہ قرار دیتی ہے اور کبھی طبیعی علوم کا،کبھی اقتصادی حالات کا انعکاس کہتی ہے اور کبھی طبقاتی نزاع کا۔ایک برطانوی فلسفی مورلیس کا نفورث لکھتاہے کہ:

قابل ملاحظہ یہ شیء ہے کہ ٹکنیکل ایجادات اور علمی اکتشافات نے فلسفی افکار کے ظہور میں کس قدر حصہ لیاہے۔ (المادیة الدیا للتکیہ،ص40)

اس فلسفی کا مقصد یہ ہے کہ فلسفی افکار کو پیداوار کا نتیجہ قراردے کر تاریخی اعتبار سے دونوں کے تکامل میں ایک توازن قائم کرے اور یہ ثابت کرے کہ فلسفہ ہمیشہ اقتصادیات کے ساتھ چلتاہے۔چنانچہ وہ خود بیان کرتاہے:

انقلابی مفہوم اور ذاتی تغیر وتطور کا تصوراٹھارہویں صدی کے صنعتی کاروبار کے ساتھ ترقی کررہاتھا اور یہ اتفاقی حادثہ نہ تھا بلکہ ان میں ایک علیت قائم تھی اور وہ اس طرح کہ بورژوایت پروسائل پیداوار کے مسلسل انقلابات نے اجتماع میں تغیر کا مفہوم ظاہر کیا اور اسی سے فلسفہ نے اپنے یہاں ذاتی تغیر کا مفہوم پیداکرلیاگویاکہ یہ فلسفہ کسی عملی انکشاف کا تابع نہ تھا بلکہ پورے معاشرہ

۱۹۰

میں تغیر وتبدل کا نتیجہ تھا۔ (المادیة الدیاللتکیہ،ص908)

مقصد یہ ہے کہ وسائل پیداوار ارتقاء وتکامل کی راہیں طے کرتے ہوئے فلاسفہ کے ذہنوں میں تغیر وتطور کے مفاہیم پیداکرتے چلے گئے اور اس طرح وہ قدیم فلسفہ کو برباد کرکے نئے افکار کی بنیادیں ڈالتے رہے لیکن مشکل یہ ہے یہ تمام پیداواری انقلابات تو بقول اس فلسفی کے اٹھارہویں صدی کے آخر میں رونماہوئے ہیں۔جبکہ 1764ء میں بخاری آلات نے ایجاد ہوکر پیداوار میں ایک عظیم تغیر پیداکر دیاتھا حالانکہ ذاتی تغیر کا خیال فلسفہ مادیت کے امام دیدورٹ کے ذہن میں آچکاتھااور یہ اٹھارہویں صدی کے ابتدائی حصہ کا فلسفی ہے۔اس کی ولادت 1713ء میں ہوئی اور وفات 1784ء میں اور اس نے اپنے مادی بیانات 1745ء میں نشر کئے۔

اس کا واضح نظریہ یہ تھاکہ مادہ خود بخود متغیر ہوتاہے۔جاندار پہلے ایک خلیہ کی شکل میں ہوتاہے پھر بقدر ضرورت اعضابنتے ہیں پھر اعضاسے ضرورت پیداہوتی ہے اور اسی طرح ایک مسلسل نظام قائم رہتاہے۔

کیاایسے افکار کو ان پیداواری ترقیوں کا تابع قرار دیاجاسکتاہے جو اس وقت تک عالم وجود میں نہ آئی تھیں؟

یہ صحیح ہے کہ اگریہ مادی انقلابات نہ ہوتے تولوگ اس خالص فلسفی نظریہ کو آسانی سے قبول نہ کرتے اور اس کے ظاہر ہوجانے سے بآسانی قبول کرنے لگے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ فکر ان حالات سے پیداہوئی ہے اس لئے کہ اس کا وجود تاریخی اعتبار سے ان انقلابات پر مقدم تھا۔

اس کے علاوہ یونانی فیلسوف انکسمندر(ولادت 610 وفات 547 )کو دیکھ لیجئے کہ وہ ان تغیرات کا اسی طرح قائل تھاجس طرح آج کے مادی پرست لوگ قائل ہیں حالانکہ اس کی تاریخ مسیح سے چھ سو سال قبل کی ہے۔اس کا نظریہ یہ تھاکہ کائنات اول دور

۱۹۱

میں بہت پست تھی اس کے بعد اس نے ترقی شروع کی اور اپنے داخلی عوامل کی بناپر اپنے حالات سازگارکرنے لگی۔چنانچہ انسان پہلے ایک دریائی جانور تھا۔جب پانی کم ہواتو وہ خارجی زندگی کا عادی بنااور اس طرح حسب ضرورت اعضا پیداکرے انسان بن گیا۔

ایک دوسرے فلسفی کے حالات ملاحظہ کیجئے جسے مارکسیت مادی کا شارع اعظم تصور کرتی ہے اور وہ ہے ہرقلیطس(2ولادت 540 ق،م وفات475 ق،م)یہ شخص میلادسے پانچ صدی قبل پیداہواتھا اور اس نے اپنے فلسفہ کی پوری عمارت اسی ذاتی تغیر کی بنیاد پر قائم کی تھی۔ اس کی نظرمیں کائنات جدلی قوانین کی تابع ہے۔اس لئے ہر شیء آن واحد میں موجود بھی ہے اور غیر موجود بھی۔

اگرچہ یہ شخص اپنے زمانہ میں نہایت ہی پست طبقہ کا فلسفی تھا اس کا خیال تھاکہ آفتاب کا قطرہ ایک قدم کے برابر ہے اور وہ شام کو پانی میں ڈوب جاتاہے لیکن اس کے باوجود اس کا نظریۂ تغیر مارکسیت کے انطباق کے لئے کافی ہے۔اس لئے کہ اس نے یہ نظریہ اس وقت اختیار کیاتھا جب وسائل پیداوار انتہائی انحطاط کی منزل میں تھے اورآج کے وسائل کا تصور بھی نہ تھا۔

قدیم تاریخ سے قطع نظراگر آپ آج کی قریب العہد تاریخ کا مطالعہ کریں گے تو آپ کو معلوم ہوگاکہ آج سے دو صدی قبل ستر ہویں صدی میں اسلامی فیلسوف حضرت صدرالدین الشیرازی نے بھی نظریہ تطور کو اختیار کرکے حرکت جوہری پر ٹھوس دلائل وبراہین قائم کئے تھے۔حالانکہ ان کے دور میں پیداوار کے آلات اپنی قدیم حالت پر باقی تھے اور اجتماعی زندگی سکون وجمود کی منزل سے گزررہی تھی۔یہ حالات اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ ان افکار کو ان وسائل وآلات سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ ان کا ایک مستقل نظام ہے جن کی بناپر یہ اپناکام کررہے ہیں۔

اس مقام پر ایک یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگر مارکسیت اپنے قول میں سچی

۱۹۲

ہوتی تو اس کا نتیجہ یہ ہوتاکہ اقتصادیات اور فلسفہ دونوں کی رفتار مساوی ہواور جدید افکار صرف اس ماحول میں پیداہوں جہاں کے اقتصادی حالات اچھے ہوں حالانکہ تاریخ اس کے بالکل برخلاف ہے۔

آپ یورپ ہی کو دیکھ لیجئے کہ جس وقت یورپ کے افق پرفکری انقلاب کی کرنیں پھوٹی تھیں اس وقت انگلینڈ اقتصادی اعتبار سے بہت اچھاجارہاتھا، فرانس وجرمن تک اس سے پیچھے تھے۔سیاسی حالات ترقی یافتہ تھے۔بورژوایت آگے بڑھ رہی تھی۔اجتماعی حالات ہر اعتبار سے بہتر تھے اور انگلینڈ ترقی کے آخری زینہ پر تھا جس کا مارکسی ثبوت یہ ہے کہ وہاں پہلا انقلاب 1215 ء میں ہوااور دوسرا عظیم انقلاب کرمویل کے ہاتھوں 1648ء میں ہوگیاجبکہ فرانس میں انقلاب کی قوت 1789ء میں آئی اور جرمن کو یہ نعمت 1848ء میں نصیب ہوئی۔

کیا یہ حالات مارکسی نظریہ کی بناپر اس بات کے مقتضی نہیں تھے کہ فلسفہ کے تمام جدید افکار انگلینڈ سے ظاہرہوں اس لئے کہ افکار اقتصادیات سے پیداہوتے ہیںاور اقتصادکی ترقی کی محکم دلیل انقلاب ہے۔چنانچہ مارکس نے بھی آنکھ بندکرکے یہ فیصلہ کر دیاکہ مادیت انگلینڈ میں فرانسس بیکون اور اسمین کے ہاتھوں میں پیداہوئی ہے۔

(التفسیر الاشتراکی للتاریخ،ص76)

لیکن صاحبان بصیرت جانتے ہیں کہ بیکون مادی فیلسوف نہ تھا بلکہ وہ مثالیت کا پرستار تھایہ اور بات ہے کہ وہ تجربہ کی اہمیت کا قائل تھا لیکن اسے مادیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

یہی حال اسمین کا ہے اس لئے کہ اگر اسمیت کو مادیت کی اصل مان لیاجائے تو اس قسم کے ارشادات توچودہویں صدی کے دومفکر (دوران دی سان پورسان)اور(پیرا در یول)کے کلام میں بھی پائے جاتے ہیں بلکہ اس قسم کا مواد اسمیت سے پہلے لاتینی رشویت

۱۹۳

میں بھی ملتاہے جو فرانس میں تیرہویں صدی میں ظاہر ہوئی تھی اور اس کا اتباع پیرس یونیورسٹی کے اکثر پروفیسروں نے کیا تھا جس کے نتیجہ میں دین کو فلسفہ سے الگ تصور کرلیا گیاتھا۔

اگرچہ انگلینڈ میں مادیت کی ابتداء ہوبز( HOBBES )جیسے لوگوں سے ہوگئی تھی لیکن ظاہر ہے کہ ان لوگوں نے فلسفہ کے میدان پر قابو نہ پایاتھا اور یہی وجہ تھی کہ جب فرانس ولٹیر( YOLTAIR )اور''دیدورڈ''جیسے مادی فلاسفہ کی تخلیق کررہاتھا اس وقت انگلینڈ برکلے اور دویڈہیوم ( DHUME ) جیسے مثالیت پرست فلاسفہ پیداکررہاتھا اور اس طرح نتائج مارکسیت کی توقع کے خلاف برآمد ہورہے تھے جو معاشرہ اقتصادیات میں آگے تھا اس میں مثالیت کا دوردورہ تھا اور جومعاشرہ معاشیات کی پست منزلوں میں تھا اس میں مادیت کی ترقی یافتہ فکر رینگ رہی تھی بلکہ اس سلسلے میں تو یہاں تک کہا جاسکتاہے کہ خود جدلیت کا مفہوم جرمنی میں انگلینڈ سے پہلے پیداہوچکا تھا حالانکہ اقتصادیات میں وہ انگلینڈ سے کافی پیچھے تھا۔کیا ان حالات کے باوجود مارکسیت کے نظریہ کی تائید کی جاسکتی ہے۔

بہت ممکن ہے کہ مارکسیت ان حالات کو استثنائی حیثیت دے دے اور پھر اپنے قاعدہ کے استحکام کا دعویٰ کرے لیکن اس وقت اتنا توضرور ہی کہاجائے گا کہ استثناء قانون کے ثابت ہونے کے بعد کی منزل ہے اور یہاںقانون کا ثابت ہوجانا ہی محل کلام ہے اس لئے کہ اس سلسلہ میں تاریخ نے کسی منزل پر مکمل تائیدوتصدیق نہیں کی۔

۱۹۴

فلسفہ اور طبیعی علوم

یہ واضح کیاجاچکاہے کہ مارکسیت نے فلسفی افکار کی پیدائش کے بارے میں مختلف توجہیں کی ہیں۔ کبھی انہیں اقتصادیات کا نتیجہ قرار دیاہے اور کبھی طبیعی علوم کا، اقتصادیات کے بارے میں مفصل بحث ابھی ابھی تمام ہوچکی ہے، طبیعی علوم سے ارتباط کی مکمل گفتگو ''حصہ فلسفہ''میں کی جاچکی ہے لیکن اس کتاب میں بھی بطور اشارہ اتنا کہاجاسکتا ہے کہ فلسفہ اور طبیعی علوم میں کوئی ضروری ارتباط نہیں ہے۔اور یہی وجہ ہے کہ ان دونوں کی تاریخی رفتار میں تفاوت پیداہوجاتاہے۔کبھی فلسفہ آگے بڑھ جاتاہے اور کبھی طبیعات۔

اس سلسلہ میں ایک واضح مثال ذرہ کی تشریح ہے کہ اس نظریہ کو دیمقراطیس(یہ فیلسوف 470 ق، میں ابدایرا میں پیدا ہوا۔اپنی نظرمیں بہت بڑاسیاح مہندس اور صاحب نظرتھا۔ اجسام ونفوس کو ذرات سے مرکب سمجھتاتھا۔یہ ذرات اس کی نظرمیں قدیم بالذات تھے اور چونکہ خلامحال تھا اس لئے ان کے لئے حرکت بھی محال تھی۔اس لئے حرکت ایک خالی مکان کی محتاج ہے۔351 ق،م میں اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔) نے ایجاد کیا اور اکثر مکاتیب خیال نے قبول بھی کیالیکن اس کی حیثیت صرف فلسفی تھی۔اس پر تجرباتی استدلال نہ ہوسکا تھا یہاں تک کہ 1805ء میں ڈالٹن( DALTAN ) نے کیمیا کے سلسلہ میںاس کی تحقیق کی اور یہ نظریہ فلسفی حیثیت سے نکل کر تجرباتی حدود میں آگیا۔

۱۹۵

فلسفہ اور طبقاتی نزاع

فلسفی افکار کی پیدائش کے سلسلہ میں ایک خیال یہ بھی ہے کہ افکار طبقاتی نزاع کا نتیجہ ہوتے ہیں۔چنانچہ ہر فلسفی ایک خاص طبقہ کی حمایت کرتاہے اور اسی کے مصالح کا تحفظ کرتاہے مدرس کا نفورس کا کہنا ہے کہ:

فلسفہ ہمیشہ طبقاتی انداز کو بیان کرتاہے۔یہی وجہ ہے کہ ہر فلسفی خاص طبقہ کے مقاصد کی تعبیر کرتاہے۔وہ یاتوممتاز طبقہ کا ترجمان ہوتاہے یا کسی طبقہ کو ممتاز بنانے کا خواہاں۔ (مادیت دیالکٹیک،ص32)

مارکسیت اس مسئلہ کو اسی طرح مجمل نہیں چھوڑنا چاہتی بلکہ اس کی توضیح یوں کرتی ہے کہ:

مثالیت یعنی غیرمادی فلسفہ حاکم طبقہ کی حمایت کرکے اس کی بقاکے اسباب مہیاکرتاہے اور مادی فلسفہ اس کے خلاف مظلوم طبقہ کی حمایت کرکے ڈیموکریسی اور قومی حکومت کی امداد کرتاہے۔(دراسات فی المجمتع،ص81)

مارکسیت نے اس مقام پر انسانی علم ومعرفت کے دوشعبوں کو اس طرح مخلوط و مشتبہ بنادیاہے کہ اب ان کے درمیان امتیاز قائم کرنا انتہائی دشوار گذار مسئلہ ہوگیاہے۔ اس کا خیال یہ ہے کہ عالم وجود میں مطلق اور غیر متغیر قسم کے حقائق کا قائل ہوجانا اس بات کا مقتضی ہے کہ اجتماعیات میں بھی ایسے ہی نظریات کی پابندی کی جائے اور چونکہ مثالیت عالم وجود میں ایسے مطلق افکار کی قائل ہے۔لہٰذا اجتماعیات میں بھی وہ حاکم نظام کو مطلق اور غیر متغیر سمجھ کر ہمیشہ اس کی حمایت کرے گی۔

حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برخلاف ہے۔ارسطوجو الہیات کا رئیس اول ہے۔ وہ بھی اس بات کا قائل ہے کہ صحیح حکومت حالات کے اعتبار سے ہمیشہ بدلتی رہے گی۔یعنی

۱۹۶

خدا کا مطلق مفہوم اس بات کا متقضی ہے کہ حکومت کا مفہوم بھی مطلق ہو۔

ہم نے اس بحث کی تفصیل کو''حصہ فلسفہ''سے متعلق کر دیاہے اور وہاں اس بات کا جائزہ لیاہے کہ فلسفہ کی یہ طبقاتی توجیہ تاریخی حیثیت سے کہاں تک صحیح ہے یہاں تو صرف دومادی فلسفیوں کے افکار کا تجربہ کرنا ہے تاکہ اس کی روشنی میں مارکسیت کی صداقت کا اندازہ ہو سکے اور وہ دونوں فلسفی ہیں۔ہر قلیطس(یہ شخص 540 ق،م میں پیدا ہوا اور 475 ق،م میں چل بسا اور مختصر تعارف اس کتاب میں موجود ہے۔) اور ہوبز۔

ہر قلیطس اس قومی روح سے بہت دور تھا جسے مارکسیت اس کے لئے لازم قرار دیتی ہے وہ شہر کے حکمران اور شریف خاندان سے تھا اور آخر امر میں قسمت سے خودبھی حاکم شہر ہوگیا تھا وہ اپنی فطرت سے مجبور ہوکر حاکمانہ تصرفات کیاکرتاتھا۔قوم کی توہین اس کا خاس مشغلہ تھاوہ یہ کہاکرتاتھاکہ عوام ان جانوروں کا نام ہے جو گھاس کو سونے پر مقدم کرتے ہیں یایہ وہ کتے ہیں جو ہر ایک کو دیکھ بھونکنے لگتے ہیں۔

ظاہر ہے کہ اس جدلی مادیت کی ہر توجیہ ممکن ہے لیکن اسے ڈیموکریسی اور قومیت کا آئینہ دار قرار دینا بالکل غلط اور مہمل ہے۔

اس کے برخلاف یونان میں مثالیت پرست مفکرافلاطون ایسے فکری انقلابات برپا کررہاتھا جس کی شکل بالکل اشتراکی تھی۔وہ شخصی ملکیت کی بھی شدت سے مخالفت کیاکرتا تھا۔ تو کیا ان حالات میں اشتراکیت کو مثالیت کا متضاد عنصر قرار دیا جاسکتاہے۔

بالکل یہی حال ہوبز کا تھا۔یہ ڈیکارٹ کے مقابلہ میں مادیت کا علمبردار تھا۔ ابتداء میں انگلینڈ کے ایک امیر کا استاد تھا جس کو 1660ء میں چارلس دوم کا لقب ملا اور اس نے اپنے خاندانی تعلق کی بناپر کرومویل کے اس قومی انقلاب کا شدید مقابلہ کیاجو اس نے انگریز فوج کے زوربازو پر کیاتھایہاں تک کہ جب ملوکیت کی بنیادیں ہل گئیں اور کرو مویل کے زیر اثر جمہوریت قائم ہوگئی تو ہمارے مادی فلاسفر کو جلاوطن ہوکر فرانس چلاجانا پڑا اور اس

۱۹۷

نے وہاں پہنچ کر آزاد ملکیت کی تائید میں کتاب(تنین)تالیف کی جس میں اپنے سیاسی فلسفہ کو بیان کرتے ہوئے اس امر پر بڑازور دیا کہ قوم سے اس کی آزادی کو سلب کرکے اسے شدید استبداد میں گرفتار کیاجائے۔

حالانکہ اسی ماحول میں الٰہیاتی فلسفہ بالکل اس کا مخالف تھا او رہوبز کا معاصر فلسفی باروخ اسپینوازا( B.SPENOTHA )حکومت کے خلاف قوم کے حقوق کی حمایت کرکے ڈیموکریسی کی دعوت دے رہاتھا اور اس کا نعرہ تھاکہ جس قدر حکومت میں عوام کا ہاتھ ہوگا اسی قدر محبت واتحاد کی فراوانی ہوگی۔

اب آپ ملاحظہ کیجئے کہ کون سافلسفی قوم کی حمایت کرہاتھااو رکون حاکم وقت طبقہ کا ہم آواز تھا، کون مادی تھا اور کون مثالی۔

اس مقام پر ایک بات اور بھی قابل غور ہے اور وہ یہ کہ مارکسیت نے فلسفی افکار کو طبقاتی نزاع کا نتیجہ قرار دے کر اس بات کااعتراف کرلیاہے کہ اب کوئی بحث جذبات ونفسیات سے پاکیزہ نہیں ہوسکتی۔

لہٰذا یہ کیونکر ممکن نہیں کہ ہم مارکسیت کے اس خیال کو بھی کسی طبقہ کی ترجمانی کا نتیجہ قرار دے دیں جب کہ وہ خود بھی پاکیزہ بحث کی شدید مخالف ہے اور اسے بورژدازی مزعومہ خیال کرتی ہے جیساکہ چاغین نے بیان کیاہے:

لینن نے نہایت پامردی کے ساتھ افکار کی پاکیزگی اور بورژائی قسم کی غیرجانب داری کا مقابلہ کیا چنانچہ 1890 ء میں لینن نے مارکسی لوگوں کے اس خیال کا سدباب کر دیا کہ فلسفہ کو پارٹی بندی سے آزادہونا چاہئے اور اس نے اعلان کردیاکہ مارکسی نظریہ کے لئے مزدوروں کی حمایت انتہائی ضروری ہے۔ ہم اگر کسی حادثہ کی صحیح نوعیت معلوم کرنا چاہیں تو ہمارا فرض ہوگاکہ اس پر مزدور طبقہ کے مصالح کے زاویہ سے نظرکریں اس لئے کہ جماعتی روح ہی مزدور طبقہ سے پرولٹیریر یاڈکٹیٹر شپ قائم کراسکتی ہے۔

۱۹۸

(الروح الخربیہ فی الفلسفة والعلوم،ص71،72)

خودلینن نے بھی یہی اعلان کیاتھاکہ:

مادیت جماعتی موقف کو فریضہ سمجھتی ہے اس لئے کہ وہ ہر حادثہ میں ایک خاص پارٹی بندی پر مجبور کرتی ہے۔ (حول تاریخ تطور الفلسفہ،ص21)

یہی وجہ تھی کہ جدانوف نے کسندروف کی کتاب پر شدید تنقید کی ہے کہ اس کے مصنف نے غیر جماعتی پہلو پر زور دیاہے۔چنانچہ جدانوف کا کہناہے کہ:

میری نظرمیں سب سے اہم بات یہ ہے کہ مولف ''تشرنیشفکی'' کے کلام سے استدلال کرکے یہ ثابت کرنا چاہتاہے کہ فلسفی نظام کے بانیوں پرتساہلی واجب ہے اور چونکہ اس نے کوئی اعتراض نہیں کیا اس لئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ بھی اس کا ہم خیال ہے اور اگر یہ صحیح ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جماعت بندی کا انکار کرتاہے حالانکہ یہی لینن کی مارکسیت کی روح وجان ہے۔

(حول تاریخ تطور الفلسفہ،ص18)

ہم ان عبارتوں کی روشنی میں یہ سوال کرسکتے ہیں کہ مارکسیت کی جماعتی افکار سے کیا مراد ہے؟اور کسی ایک طبقہ کی حمایت کا کیا مقصد ہے؟

اگر اس کا یہ مطلب ہے کہ فلسفہ کو مزدور طبقہ کے مصالح کامعیار ومقیاس قرار دینا چاہئے خواہ اس کے خلاف ہزارہا دلائل وبراہین کیوں نہ قائم ہوجائیں تو پھر ہمیں مارکس کے جملہ افکار میں شک کرنا پڑے گا اور یہ کہنا پڑے گا کہ مارکس کا یہ پورا فلسفہ مزدور طبقہ کی حمایت میں تھا اور اسے حقیقت واقع سے کوئی تعلق نہ تھا۔

اگر جماعت بندی کا مفہوم یہ ہے کہ ہر شخص ایک خاص طبقہ کی طرف منسوب ہوتاہے اور وہ اپنے افکار میں ان ذاتی رجحانات سے جدا نہیں ہوسکتاتو اس کا مطلب یہ ہوگاکہ مارکس اشیاء کی حقیقت کے بارے میں نسبیت کا قائل ہے حالانکہ یہی وہ نکتہ ہے جس کی مارکس نے بارہامخالفت کی ہے۔

۱۹۹

شاید آپ کو یاد ہوکہ ہم نے حصۂ فلسفہ میں اس ذاتی نسبیت کے مفہوم کو واضح کرتے ہوئے یہ بتایاہے کہ نسبیت کسی واقعہ کی حقیقت کو اس کے خیال سے مطابق ہونے کے معنی میں قرار دیتی ہے۔اس کی نظرمیں واقعہ کی کوئی حیثیت نہیں ہے بلکہ تمام تراہمیت انسان کے داخلی کیفیات کی ہے لہٰذا ہوسکتاہے کہ ایک ہی چیزکے لئے مختلف افراد کے اذہان کے اعتبار سے مختلف حقیقتیں ہوں۔

مارکس نے اس ذاتی نسبیت کی مخالفت کرتے ہوئے یہ بیان کیاہے کہ ہر شے کی ایک واقعیت ہوتی ہے اور اسی سے مطابقت کا نام ہے حقیقت۔یہ اور بات ہے کہ عالم کی ہر شے متغیر اور متطور ہے اس لئے حقیقت کبھی ثابت وجامد نہیں رہ سکتی بلکہ حالات کے اعتبار سے بدلتی رہے گی۔

گویاکہ اشیاء عالم میں نسبیت محفوظ ہے لیکن واقعہ کے اعتبار سے نہ کہ افراد واشخاص کے لحاظ سے۔اب اگر مارکس کے اس قول کی تصدیق کردی جائے کہ انسانی ذہن طبقاتی مصالح سے الگ نہیں ہوسکتاتو اس کا کھلاہوا مقصد یہ ہوگاکہ حقیقت''انسانی ذہن '' کے اعتبار سے بدل جائے گی اور واقعہ کا صحیح ادراک غیر ممکن ہوگا۔ہر شخص اپنے مخصوص زاویۂ نگاہ سے دیکھے گا اور اپنے مخصوص نقطۂ نظرسے سوچنے کی کوشش کرے گا اور اس وقت یہ بدگمانی قائم ہوجائے گی کہ مارکسیت حقیقت کا سراغ لگانے سے قاصر ہے۔وہ صرف مزدور طبقہ کے مصالح کی نشاندہی کرسکتی ہے۔

اتنا ضرورہوگاکہ مارکس کی یہ نسبیت اس ذاتی نسبیت سے قدرے مختلف ہوگی جس کاتذکرہ فلسفہ میں کیاگیاہے اس لئے کہ اس نسبیت کا تعلق انسان کے ذاتی کیفیات سے تھا اور اس کا تعلق اس کے طبقاتی رجحانات سے ہے۔

۲۰۰