اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب0%

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 391

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ شھید باقر الصدر طاب ثراہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 391
مشاہدے: 104662
ڈاؤنلوڈ: 3732

تبصرے:

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 391 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 104662 / ڈاؤنلوڈ: 3732
سائز سائز سائز
اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

جانفشانی سے پیداوار کاکام کرتاحالانکہ اسی کے مقابلہ میں ترقی یافتہ ذرائع پیداوار زیادہ سے زیادہ وقت اور محنت کے طالب تھے نتیجہ یہ ہوا کہ تاریخ نے ان سہل انگار لوگوں کو مجبورکرکے ان سے کام لینے کی طرف متوجہ کیا اور اس طرح ایک ایسا نظام عالم وجود میں آگیاجو لوگوں سے زبردستی کام لے تاکہ اس طرح .......وسائل پیداوار کی مانگ پوری کی جاسکے اور ترقی کی راہیں بندنہ ہوسکیں اسی جابرانہ نظام کانام تھا نظام عبودیت یاغلام معاشرہ۔

اس نظام کا آغاز اس طرح ہواکہ لوگ میدان جنگ سے گرفتار شدہ مخالفوں کو قتل کرنے کے بجائے اپنا غلام بنالیا کرتے تھے تاکہ ان سے حسب ضرورت کام لیاجاسکے ظاہرہے کہ ان غلاموں کی خوراک ان کی پیداوار سے کم ہوگی تو اس طرح مالک کا ایک متعدبہ فائدہ بھی ہوجائے گا لیکن جب یہ سلسلہ کچھ آگے بڑھ گیاتو لوگوں نے اپنے ہی قبیلے کے زیردست افراد کو غلامی کا بھیس دینا شروع کردیااور نتیجہ یہ ہواکہ سارا معاشرہ غلام اور آقا کی شکل میں تبدیل ہوگیا۔

ہمیں اس مقام پر مارکسیت سے صرف اتنا پوچھناہے کہ ان تفصیلات کے بعد غلام معاشرہ اقتصادیات کی پیداوار رہایا اسے انسان کے دیگر جذبات سے ربط حاصل ہوگیا؟ ہمیں تو اس بیان سے ایسا معلوم ہوتاہے کہ اس معاشرہ کو اقتصادیات سے کوئی ربط نہ تھابلکہ اس کی بنیاد انسان کے داخلی جذبات پر تھی۔

بڑھتے ہوئے ذرائع پیداوار انسان سے صرف اس بات کا مطالبہ کررہے تھے کہ وہ ان پر زیادہ سے زیادہ وقت اور محنت صرف کرے۔ان کا یہ مطالبہ ہرگزنہ تھا کہ یہ محنت غلاموں کی ہو۔ان کا مطالبہ تو اس وقت بھی پورا ہوسکتاتھا جب غلاموں کی جگہ آزاد مزدور اجرت لے کر کام کرتے بلکہ اس وقت پیداوار زیادہ ہوتی اس لئے کہ غلاموں کے کام مایوسانہ ذہنیت کا نتیجہ ہوتے ہیں اور آزاد کے کام میں حریت کا نشہ ونشاط ہوتاہے۔

ظاہرہے کہ عمل کے لئے نشاط ایک انتہائی ضروری عنصر ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ

۲۲۱

اس دور کے انسان نے اس طریقۂ کار کو ترک کرکے غلامی کا طریقہ کیوں اختیار کیا؟

ظاہر ہے کہ اس کا جواب ذرائع پیداوار کے پاس کچھ نہیں ہے اس لئے کہ یہ مسئلہ اقتصاد کا نہیں رہابلکہ انسانیت کا ہوگیا۔

حقیقت امریہ ہے کہ انسان اپنی داخلی کمزوری کی بناپر ہمیشہ کم کام اور زیادہ فائدہ کا طالب رہتاہے وہ ہرشیء کے لئے آسان سے آسان طریقہ اختیار کرتاہے اور یہ اقتصادیات کا اثر نہیں ہے بلکہ اس کی افتاد طبع کا اثر ہے اور یہی وجہ ہے کہ متعدد معاشروں کے بدل جانے کے بعدبھی آج یہ فطرت انسان میں باقی ہے اور وہ اس کے تقاضوںپر عمل درآمد کررہاہے۔

اب چونکہ آزاد مزدور کے ذریعہ کام لینے سے وہ منافع اور سہولتیں بہم نہیں پہنچ سکتی تھیں جو غلاموں کے ذریعہ ممکن تھیں اس لئے انسان نے اس طریقہ کوترک کرکے غلام معاشرہ کی بنیاد ڈال دی۔

وسائل پیداوار کی مثال اس تلوار کی ہے جسے کسی کے حوالے کرکے دوسرے شخص کے قتل کی دعوت دی جائے۔ظاہر ہے کہ ایسے وقت میں قتل کی نسبت تلوار کی طرف نہ ہوگی بلکہ اس انسان کی طرف ہوگی جس نے اپنے طبیعی تقاضوں سے مجبور ہوکر کسی شخص کو قتل کیا ہے۔ ذرائع پیداوار اگرچہ جدید محنت کا تقاضہ کرتے ہیں لیکن محنت کا غلامانہ انداز صرف انسانی فطرت کا نتیجہ ہے اسے ان وسائل سے کوئی سروکار نہیں ہے۔

حقیقت امریہ ہے کہ غلام معاشرہ کی ایجاد کا ایک اہم بنیادی سبب تھا جس کا اظہار مارکسیت کے لئے مناسب نہ تھا اسی لئے اس نے اس قسم کی تاویلوں سے کام لیاہے۔

وہ بنیادی سبب یہ تھاکہ اس دور کے انسان اشتراکی نظام کی وجہ سے کام سے جان چرانے لگے تھے اور اس طرح ذرائع پیداوار کی مانگ پوری نہ ہورہی تھی اور وہ انسان کو مجبور کرنے پر آمادہ کررہے تھے۔جیساکہ لوسکی نے ہندی قبائل کے بارے میں لکھاہے کہ:

وہ لوگ سستی کے مارے کام نہ کرتے تھے بلکہ اس امید پر گھرمیں بیٹھے

۲۲۲

رہتے تھے کہ دیگر کاشتکار ہمیں ہمارے حق سے محروم نہ کریں گے اور چونکہ کاریگر اور بیکار سب کا حصہ برابر ہوتاتھا اس لئے نتیجہ یہ ہوگیاکہ سب نے کام سے غفلت برتنا شروع کر دی اور اس طرح پیداوار سال بسال کم ہوتی چلی گئی۔

اشتراکیت کی یہی وہ بنیادی کمزوری ہے جس کے اظہار کی طاقت مارکسیت کے دل میں نہیں ہے وہ یہ دیکھ رہی ہے کہ اس طرح اس کے تمام منصوبے ناکام ہو جائیں گے اور لوگ ایسے نظام سے متنفرہو جائیں گے۔

ہمارے اس بیان سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ روس میں اشتراکی نظام کے انطباق میں جو زحمتیں اور دشواریاں پیش آئی ہیں ان کا کوئی تعلق سرمایہ دارانہ طبقاتی افکار سے نہ تھا بلکہ اس کا تمام تر تعلق انسان کی اس فطرت اور ذہنیت سے تھا جسے وہ اپنے ہمراہ لے کر عالم وجود میں قدم رکھتا ہے یعنی '' سہولت سے کھانا مل جائے تو زحمت کرنے کی کیا ضرورت ہے؟''

۲۲۳

غلام معاشرہ

ابتدائی اشتراکیت کے مادیت تاریخ کا دوسرا مرحلہ غلام معاشرہ کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے اوریہیں سے طبقات کی بنیاد پڑتی ہے اور پھر جدلیاتی قانون کے اعتبار سے وہ طبقاتی نزاع شروع ہوتی ہے جو تا ابد ختم نہیں ہو سکتی ۔

ہمارے سامنے جب طبقاتی نظام کا تذکرہ آتا ہے تو سب سے پہلے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اس نظام میں یہ طبقات کس طرح پیدا ہوئے ایک جماعت کو غلام اور ایک کو آقا کس نے بنایا، غلام آقا اور آقا غلام کیوں نہ بنا؟

مارکسیت اس مسئلہ کو اس طرح حل کرتی ہے کہ یہ اقتصادی حالات کا نتیجہ ہے کہ جو لوگ ثروت مند تھے وہ آقا بن گئے اور جو لوگ فقیر ومفلس تھے انکی قسمت میں غلامی آ گئی۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ مسئلہ اس طرح حل ہوتا نظر نہیں آتا بلکہ سوال اس شکل میں ابھرتا ہے کہ آخر ایک طبقہ کے پاس ثروت کہاں سے آئی اور دوسرا اس نعمت سے کیونکر محروم رہا جب کہ دونوں اشتراکیت کی آغوش میں پل رہے تھے اور دولت آسمان سے نہیں برس رہی تھی ؟

مارکسیت اس معمہ کو بھی اس طرح حل کرتی ہے کہ اس کی دو وجہیں ہو سکیں ہیں:

(1) وہ لوگ جو فوجی عہدہ رکھتے تھے انہوں نے اشتراکیت کے دور میں بھی آہستہ آہستہ دولت جمع کرنا شروع کی اور آخرکار اپنی قوت کے زور پر اپنی مرکزیت قائم کرکے

۲۲۴

الگ طبقہ کی شکل میں آگئے باقی افراد چونکہ ان امتیازات سے محروم تھے اس لئے وہ ناکام رہے اور ان کی قسمت میں غلامی لکھ گئی۔ (تطورالملکیتہ الفردیہ،ص32)

(2) بعض لوگوں نے جنگ سے گرفتار شدہ لوگوں کو غلام بنالیاتھا اور ان کے ذریعہ پیداوار کی فراوانی پرقادر ہوگئے تھے اور چونکہ یہ پیداواران کی ضرورت سے زیادہ ہوتی تھی اس لئے رفتہ رفتہ انہوں نے اپنے افراد قوم کو بھی غلام بنالیا صرف اس لئے کہ وہ لوگ ان کے مقروض تھے اور قرض کی ادائیگی پر قادرنہ تھے۔ (تطور الملکیتہ الفردیہ)

حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں جوابات مارکسیت کے لئے شایان شان نہ تھے ان لئے کہ ان میں اقتصادیات کے علاوہ دیگر عوامل کو بنیادی مقام دے دیا گیاہے۔

پہلے جواب میں یہ کہاگیاہے کہ قوم کے لیڈراور رئیس افراد نے اپنا سیاسی رنگ جمالیاتھا اور اس کے ذریعہ بڑی بڑی املاک پر قابض ہوگئے تھے جس کے نتیجہ میں ان کا شمار بڑے طبقہ میں ہونے لگاتھا۔جس کے بعد مسئلہ سیاست سے متعلق ہوگیا۔اقتصادیات سے متعلق نہیں رہا۔اقتصادیات کی حیثیت تو صرف ثانوی رہ گئی۔

دوسرے جواب میں فقط یہ بتایاگیاہے کہ غلامی کے اعتبار سے جنگ کے اسیر خاندان کے مقروض لوگوں پر مقدم تھے لیکن یہ نہیں بتایا گیاکہ اسیروں کو غلام بنانے کا موقع صرف اس جماعت کو کیسے ملا اور دوسری جماعت اس شرف سے کیونکر محروم رہی جبکہ اشتراکی دور میں دونوں برابر تھے۔

مارکسیت پیداوار کی بنیاد پر ان سوالات کا جواب دینے سے قاصر ہے اس لئے کہ اس معاشرہ کی پیداوار میں اقتصادیات سے کہیں زیادہ انسان کی بدنی،فکری ،عسکری، نفسیاتی،حیاتی،تشریحی صلاحیتوں کا دخل ہے۔

۲۲۵

جاگیردار معاشرہ

غلام معاشرہ کے بعد داخلی نزاعات نے جاگیردار معاشرہ پیداکیا اس معاشرہ کی بنیاد اس داخلی نزاع پر قائم تھی جو غلام معاشرہ اور ترقی یافتہ ذرائع پیداوار کے درمیان جاری ہوئی تھی اور اس طرح یہ معاشرہ جدید ذرائع کی راہ میں دودجہوں سے حائل ہوگیا:

(1) غلامی نے آقاؤں کو ایسی وحشت وبربریت پر آمادہ کر دیا جس کے نتیجہ میں کام کی زیادتی سے ہزاروں غلام تلف ہوئے اور ترقی یافتہ ذرائع پیداوار کو بقدر ضرورت طاقت نہ مل سکی۔

(2) غلام معاشرہ نے اکثرآزاد مزدوروں اور کاشتکاروں کو غلامی کا رنگ دے دیا اور عالم یہ ہواکہ قوم اس لشکر جرار سے محروم ہوگئی جس کی بنیاد پرمید ان جنگ سے غلام لائے جاتے تھے اور دوسری طرف ذرائع پیداوار کونئی طاقتوں کی ضرورت درپیش تھی جس کا نتیجہ یہ ہواکہ جاگیردارنظام عالم وجود میں آگیا۔

مارکسیت نے اپنے اس بیان میں جس غفلت سے کام لیا ہے اس کی طرف اشارہ کرنا انتہائی ضروری ہے اس لئے کہ اس کے نظریہ کے مطابق نظام میں تبدیلی بغیر انقلاب کے غیر ممکن ہے۔اور رومان میں غلامی کے بعد جاگیرداری بغیر کسی انقلاب کے پیداہوئی ہے۔

دوسری بات یہ بھی ہے کہ انقلاب کے لئے ذرائع پیداوار کی ترقی ضروری تھی

۲۲۶

حالانکہ اس دور میں ایسا کچھ نہ ہواتھا۔

تیسری بات یہ تھی کہ اس تغیر وتبدل سے معاشرہ کی کوئی ترقی نہیں ہوئی تھی حالانکہ انقلاب کے لئے ترقی ضروری تھی اور قانون جدلیت کا آگے کی طرف بڑھناناگزیر تھا۔

یہ وہ بنیادی نکات تھے جن کی طرف اشارہ کیاگیااب ان کے تفصیلات بیان کئے جاتے ہیں تاکہ اس غفلت کا صحیح اندازہ ہوسکے۔

تغیر کی پشت پرکوئی انقلاب نہ تھا

اگرچہ جدلیاتی منطق کی رو سے تاریخ کے ہرتغیر کی پشت پر ایک انقلاب کا ہونا ضروری ہے اس لئے کہ اس کی نظرمیں معاشرہ میں مقدار کے اعتبار سے تغیر ہوتارہتاہے یہاں تک کہ مخالف عناصر بڑھتے بڑھتے اس حد تک پہنچ جاتے ہیں جس کے بعد کیفیت میں انقلاب آجاتاہے اور معاشرہ کا رنگ بدل جاتاہے۔

لیکن اس کے باوجود رومان میں جاگیردارانہ نظام کے قیام کے لئے کوئی انقلاب رونما نہیں ہواجیساکہ خودمارکسیت نے بھی اعتراف کیاہے کہ:

رومان کا تغیر خودآقاؤں کی طرف سے برپاہواتھا اس میں غلاموں کا کوئی ہاتھ نہ تھا اور اس تغیر کا سبب یہ تھا کہ غلامی سے ان کے مقاصد پوری طرح حاصل نہیں ہورہے تھے اس لئے ان لوگوں نے چاہاکہ غلاموں کو آزاد کرکے ان سے کام لیاجائے۔ (تطورالملکیتہ الفردیہ،ص53)

اس بیان سے صاف واضح ہوجاتاہے کہ اس تغیر میں بنیادی حصہ مالک طبقہ کا تھا اور جرمان کی جنگ نے اس کی مزید تائید کی تھی۔

۲۲۷

تعجب خیز بات تویہ ہے کہ جس انقلاب کی مارکسیت کو ضرورت تھی وہ جاگیردار نظام کی پیدائش سے صدیوں قبل رونما ہوچکا تھا۔چنانچہ تاریخ شاہد ہے کہ اسپرطہ کی 4 صدی قبل میلاد کی تحریک میں غلاموں نے بڑاحصہ لیاتھا او رہزاروں افراد نے جمع ہوکر شہر پر حملہ کر دینے کا قصد کرلیاتھاجس کے بعد رئیس طبقہ کو ہمسایہ ممالک سے مددطلب کرناپڑی تھی اور چند سال کے بعد حالات پر قابو حاصل ہواتھا۔

اسی طرح رومان میں سترسال قبل میلاد کی تحریک تھی جس میں سپرتاکوس کی قیادت میں ہزاروں غلاموں نے مل کر شہنشاہی کی بنیادیں ہلادی تھیں۔

ظاہر ہے کہ یہ حالات جاگیردار نظام کی پیدائش سے بہت پہلے رونما ہوچکے تھے انہوں نے نہ تومارکسیت کی لاج رکھنے کی فکر کی تھی اور نہ ذرائع پیداوار کی ترقی کا انتظار کیا تھا نتیجہ یہ ہواکہ مارکسیت کا نظریہ باطل ہوتانظرآیا اور تاریخ اپنے مخصوص انداز سے رواں دواں دکھائی دی۔

ہماری اس تحقیق کی روشنی میں انگلز کے اس بیان کو بھی دیکھ لیجئے کہ:

جب تک پیداوار کے طریقے تکامل اور ترقی کی راہ پر لگے ہیں اس وقت تک ہراس نظام کا استقبال کیاجائے گا جس میں طریقۂ تقسیم پیداوار سے ہم آہنگ ہوخواہ کسی خاص شخص کی حالت بدتر ہی کیوںنہ ہوجائے۔

انگلز کا یہ کلام صریحی طور سے اس بات پردلالت کرتاہے کہ ذرائع پیداوار طریقۂ تقسیم سے ہم آہنگ ہوں تو نظام کا استقبال کیاجائے گااس میں انقلاب کا کوئی سوال پیدانہ ہوگاحالانکہ تاریخ صاف صاف بیان کرتی ہے کہ غلاموں نے جاگیرداری کے رونما ہونے سے چھ سوسال قبل بھی بڑے بڑے انقلابات پر پاکئے تھے۔

اب اگر مارکسیت کا دعویٰ یہ ہے کہ مظلومین کے جذبات طریقۂ پیداوار کی ترقی سے ابھرتے ہیں اور ان میں انسان کے نفسیات کو کوئی دخل نہیں ہوتاہے تو سوال یہ ہے کہ

۲۲۸

طریقۂ پیداوارکی ترقی سے پہلے غلاموں میں یہ احساس کیسے پیداہوگیا اور ان کے جذبات اس طرح کیونکر برانگیختہ ہوگئے کہ انہوں نے رومان کا تختہ الٹنے کا ارادہ کر لیا؟

وقت انقلاب پیداوار میں ترقی نہ ہوئی تھی

کھلی ہوئی بات ہے کہ مارکسیت کے نزدیک معاشرہ کے تمام تر تعلقات پیداواری حالات کے تابع ہوتے ہیں لہٰذا کسی اجتماعی تعلق اور معاشرتی نظام میں اس وقت تک تغیر نہیں ہوسکتا جب تک کہ پیداوار کے حالات نہ بدل جائیں اور ذرائع پیداوار مزید ترقی یافتہ نہ ہوجائیں چنانچہ مارکس کا کہنا ہے کہ:

کوئی اجتماعی نظام اس وقت تک مردہ نہیں ہوسکتاجب تک کہ ذرائع پیداوار اتنی ترقی نہ کر جائیں جن سے اس نظام کی موت حتمی ہوجائے۔

(فلسفة التاریخ،ص47)

لیکن اس کے باوجود تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ جاگیر دار نظام کی پیدائش کے وقت ذرائع پیداوار میں کوئی تغیر نہ ہوا تھا وہی زراعت اور دستکاری جو غلام معاشرہ میں تھی اسی کا دور دورہ جاگیردار معاشرہ میں بھی تھا یہ او ربات ہے کہ اجتماعی نظام بدل گیاتھا۔

مزید لطف یہ ہے کہ اسی کے مقابلہ میں ایسے معاشرہ بھی نظرآتے ہیں جہاں ذرائع پیداوار نے سیکڑوں کروٹیںبدل ڈالیں لیکن اجتماعی نظام پر کوئی حرف نہ آیا۔

چنانچہ خودمارکسیت اعتراف کرتی ہے کہ ابتداء تاریخ میں انسان نے پتھروں سے کام لینا شروع کیا اس کے بعد انہیں پتھروں سے آلات بنائے اور آگے بڑھاتو آگ کا انکشاف کرکے اس سے تیغ وتیربنائے،مزید ترقی کی تومعد نیات کا پتہ لگایا اوراس طرح تیر

۲۲۹

وکمان وجود میں آئے پھر زراعت کا سلسلہ شرو ہوا، پھر حیوانات سے کام لیاگیا لیکن ان تمام تغیرات کے باوجود پوری تاریخ کو ابتدائی اشتراکیت کا دور کہاجائے گا۔

سوال صرف یہ ہے کہ اگر ذرائع پیداوار میں ان تغیرات کے بعدبھی ایک ہی نظام باقی رہ سکتاہے تو کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ نظام میں تبدیلی ہوجائے اور ذرائع پیداوار اپنی اصلی حالت پرباقی رہیں؟اور اگرایسا ہے تو پھر مارکسیت کے قوانین کا کیا حشر ہوگا؟

مارکسیت کو اس سلسلہ میں یہ بیان دینا چاہئے تھاکہ اجتماعی نظام ان عملی افکار کا نتیجہ ہوتاہے جو معاشروں کے تجربات سے حاصل ہوتے ہیں اور ذرائع پیداوار ان عملی فکروں کا اثر ہیں جو طبیعی تجربات سے انسانی ذہن میں نشوونماپاتی ہیں اور ظاہر ہے کہ معاشرہ کا تجربہ طبیعات کے تجربہ سے کہیں زیادہ وقت کا طالب ہوتاہے اس لئے کہ طبیعات کا تجربہ ایک وقت کا طالب ہوتاہے اور معاشرہ کا تجربہ ایک تاریخ کے مطالعہ کا۔

لہٰذا اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگاکہ ذرائع پیداوار کی رفتار اجتماعی نظاموں سے کہیں زیادہ تیز ہوگی۔نظام دیر میں بدلیں گے اور ذرائع جلدی ترقی کرجائیں گے۔یہ اور بات ہے کہ اس طرح مارکسیت کا وہ دعویٰ غلط ہوجائے گا جس میں دونوں کو برابر سے لازم وملزوم کی حیثیت دی گئی ہے۔

اقتصادی حالات نے ترقی نہیں کی

سابق بیان میں کہاگیاہے کہ مارکسیت نے غلام معاشرہ کے زوال کو اس انداز سے بیان کیاہے کہ بڑھتے ہوئے ذرائع پیداوار جدید تقاضے کررہے تھے اور اس معاشرہ

۲۳۰

کے پاس ان تقاضوں کے پوراکرنے کے اسباب موجود نہ تھے اس لئے اسے تباہ ہوجانا پڑا اور ایک نئے نظام کو عرصۂ وجود میں قدم رکھنے کا موقع مل گیا۔

دیکھنایہ ہے کہ تاریخ اس بیان کی کہاں تک تائید کرتی ہے اور وہ کون سے ترقی یافتہ ذرائع تھے جن کے تقاضے غلامی سے نہ پورے ہوسکے اور جاگیرداری کی ضرورت محسوس ہوئی کیا جاگیردار نظام ان جدید وسائل کے لئے زیادہ سازگار تھے؟کیا تاریخ اس نظام کے قیام سے آگے کی طرف بڑھ رہی تھی جیساکہ مارکسیت کا قانون ہے کہ تاریخ ہمیشہ ترقی کی راہوں پرگامزان رہتی ہے؟

حقیقت تویہ ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔آپ رومان کی اقتصادی زندگی کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگاکہ وہاں بعض اطراف کی اقتصادی حالت اتنی بلند ہوگئی تھی جوایک بڑے بلند اقتصادی ملک کی ہوتی ہے۔تجارتی سرمایہ داری کا فروغ تھا۔غیر ممالک کے ساتھ ہموار راستوں اور کشتیوں کے ذریعہ بڑے زوروں پر تجارت ہورہی تھی۔داخلی تجارت نے اور بھی چارچاند لگادیئے تھے۔

اٹلی کے مٹی کے برتنوں نے عالمی بازار پر قبضہ کر لیاتھا اور ان کی مانگ شمال میں برطانیہ سے لے کر مشرق کے ساحل بحراسودتک ہوگئی تھی ادکسیاکی پن تمام شہروں میں چل رہی تھی۔بحراسود کے ساحل تک اس کا رواج بڑھ گیا تھا۔اٹلی کے گراں قدر چراغ پورے ملک میں رائج ہوگئے تھے۔

یعنی تمام حالات وہ تھے جو ایک ترقی یافتہ مملکت کے لئے ہونے چائیں لیکن اسے مارکسیت کی بدقسمتی کے علاوہ اور کیا کہاجائے کہ تجارتی سرمایہ داری صنعتی سرمایہ داری تک نہ پہنچ سکی اور اس کے لئے اٹھارہویں صدی کے نصف کا انتظار کیاجانے لگا۔حالانکہ تجار کے پاس سرمایہ کی فراوانی تھی اور غریب طبقہ کام کرنے کے لئے تیار تھا۔

آپ خود ہی سوچیں کہ اگر مادی حالات تن تنہانظام کے بدل دینے کے لئے کافی

۲۳۱

ہوتے اور ان میں انسان کے نفسیاتی اور حیاتی اعمال کی ضرورت نہیں پڑتی تو پھر اس نظام میں ترقی کیوں نہیں ہوئی اور تجارتی سرمایہ داری نے صنعتی سرمایہ داری کی شکل کیوں اختیار نہیں کی؟

ہمیں تو اس جاگیرداری سے ایک عجیب تلخ تجربہ حاصل ہواہے اور وہ یہ کہ اس نے تاریخ کو آگے بڑھانے کے بجائے مارکسیت کے اعلیٰ الرغم اور پیچھے ہٹادیا۔اس لئے کہ جاگیرداروں کے پاس زمینوں کی فراوانی ہوگئی اور انہوں نے اسی سے اپنے معاشیات کا انتظام شروع کردیا۔تجارت سے دلچسپی کم ہوتی گئی اور وہ وقت بھی آگیا جب معاشرہ اسی گھریلوزندگی کی طرف پلٹ آیا جس پر اس ترقی سے پہلے قائم تھا۔

کیا جرمان کے داخلہ کے بعد رومان کے یہ اقتصادی حالات ترقی یافتہ کہے جاسکتے ہیں؟

کیاانہیں حالات کی بنیاد پرمارکسیت کی اس جدلیت کی تصدیق کردی جائے جس میں کاروان تاریخ ہمیشہ آگے کی طرف چلتاہے۔

آخرکار سرمایہ دار معاشرہ پیداہوگیا

جب تاریخی مشکلات اور پیداواری دشواریوں نے نئے حل کا مطالبہ کیاتو سرمایہ داری جدید حل کی صورت میں اجتماعی میدان میں آکھڑی ہوئی اس لئے کہ یہی وہ نقیض تھی جس کے ہاتھوں جاگیرداری کی موت مقدر ہوتی تھی۔مارکس نے سرمایہ داری کی تاریخ کو اس انداز سے بیان کیاہے کہ:

۲۳۲

''سرمایہ دار نظام'' جاگیرداری کے شکم سے متولد ہواہے اس طرح کہ ایک کی تباہی دوسرے کی آبادی کا سبب بن گئی۔

(راس المال ،ق2،ج3،ص1053)

مارکس نے جب بھی سرمایہ داری کا جائزہ لینا شروع کیاہے توپہلے سرمایہ کی فراوانی کے موضوع کو اہمیت دے کر اس کا تجزیہ کیاہے۔اس کی نظرمیں اس پورے نظام کی بنیاد اسی ایک نکتہ پر قائم ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ اس نظام کے تجزیہ کے لئے سرمایہ کے موضوع پر بحث کرنا انتہائی ضروری ہے۔اس لئے کہ جب بھی تاریخ میں یہ دیکھاجائے گاکہ ایک طبقہ نے کثیر سرمایہ اور پھر اس کو مزید ترقی دینے کے لئے مزدوروں کی محنت کو مہیاکر لیاہے تو فوراً یہ سوال پیداہوگاکہ یہ سرمایہ اور یہ عملی طاقتیں کن عوامل واسباب کی بناپر ایک طبقہ کے ساتھ لگ گئیں۔یعنی سرمایہ کی فراوانی اور مزدوروں کی زیادتی کا حقیقی راز کیاہے؟

مارکس نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے پہلے اس تقلیدی نظریہ کو بیان کیاہے جو سلف سے چلا آرہاتھا اور جس میں اس فراوانی اور ارزانی کا راز ایک جماعت کی ہوش مندی اور حسن تدبیر کو قرار دیاگیاتھا اور پھر اس کے بعد حسب عادت اس نظریہ کا استہزا کرکے اپنے طورپر اس کا تجزیہ کیاہے اس کا کہناہے کہ:

سرمایہ دار نظام ایک ایسے دستور کا مظہر ہے جس میں ایک طرف سرمایہ دار ہوتاہے جو تمام ذرائع پیداوار کا مالک ہوتاہے اور دوسری طرف وہ مزدور ہوتاہے جو ملکیت کے تمام حقوق سے عاری ہوتاہے اس کے پاس عمل کے علاوہ کوئی سرمایہ نہیں ہوتا۔نتیجہ یہ ہوتاہے کہ مالک تمام وسائل وآلات سے استفادہ کرتاہے اور مزدور اپنی مجبوری کی بناپر اس کا اجیر ہوجاتاہے واضح الفاظ میں یہ کہاجائے کہ سرمایہ داری مزدور اور اس کی پیداوار کے درمیان جدائی کانام ہے لہٰذا اس نظام میں اس جدائی کا ہونا انتہائی ضروری ہے اور یہ نظام اسی وقت تک

۲۳۳

قائم رہے گا جب تک کہ یہ جدائی باقی رہے گی اور ان کے تمام وسائل کو غصب کرکے مالکوں کے پاس جمع کردیاجائے گا نتیجہ یہ ہے کہ سرمایہ کی فراوانی کا راز ان عوامل واسباب مین منحصر ہے جو مزدور کو اس کی پیداوار سے جداکردیں اور سرمایہ دار کے گھران ثروتوں کو جمع کریںاور وہ عوامل تاریخی اعتبار سے غصب وسلب، لوٹ مارکے علاوہ کچھ نہیں ہیں ہوش مندی اور تدبر کو اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ (راس المال،ج3،ص1050تا1055)

سوال یہ رہ جاتاہے کہ کیا مارکس سرمایہ کی فراہمی کے اسباب بیان کرنے میں کامیاب ہوگیا۔

اس مسئلہ کو حل کرنے سے پہلے یہ بتادینا انتہائی ضروری ہے کہ مارکس اس مقام پر سرمایہ داری کو لوٹ مارکا نتیجہ قرار دے کر اس کی توہین وتحقیر نہیں کرناچاہتاہے اس لئے کہ اس کی نظرمیں اشتراکیت تک پہنچنے کے لئے سرمایہ داری ایک تاریخی ضرورت تھی اور اخلاقیات کا معیار بھی یہی ہے کہ جو وقتی ضرورت سے ہم آہنگ ہووہ اخلاقی امر ہوتاہے۔چنانچہ انگلز کہتاہے کہ:

اگرمارکس سرمایہ داری کے بڑے پہلوؤں کو ظاہر کرے تو اس کا مطلب یہ ہوتاہے کہ معاشرہ کو ان چیزوں کی ضرورت تھی تاکہ یہ ذرائع پیداوار کو ترقی دے کر اس منزل سے ہمکنار کردیں جہاں اخلاقی اقدار بھی ترقی یافتہ ہوں۔

(راس المال ملحقات،ص1168)

مارکس کا واقعی مقصد یہ ہے کہ اپنے تجزیہ کو تاریخ پر منطبق کرکے اس کی صحیح تشریح کرے تو اب پھر وہی سوال پیداہوگاکہ کیا وہ اپنے مقصدمیں کامیاب ہوگیا؟

مارکس نے واضح طور پر اس بات کو ملاحظہ کیاکہ سرمایہ داری میں ایک طبقہ ثروتمند ہوتاہے اور ایک ایسا محتاج ہوتاہے کہ وہ اپنی پیداوار کو سرمایہ دار کے حوالے کرنے پر مجبور ہوجاتاہے اور اسی سے یہ نتیجہ اجذ کر لیاکہ سرمایہ دار نظام مزدور کے پاس ذرائع پیداوار کے نہ

۲۳۴

ہونے پر موقوف ہے اور اس کی صرف یہی صورت ہے کہ ثروت مند مزدور کے جملہ وسائل کو بزور اس سے سلب کرلے۔

اس نے یہ بھی خیال نہیں کیاکہ میں نے ابتداء امر میں صرف اتنا بیان کیاتھاکہ سرمایہ داری ایک طبقہ کے پاس وسائل معیشت کے نہ ہونے کا نام ہے اس کا کوئی ذکر نہیں کیاکہ یہ وسائل کیونکر مفقود ہوجاتے ہیں اور آخرکلام میں اس کو بھی بڑھادیااور اس طرح اپنا مطلب حاصل کرلیا۔حالانکہ یہ بات عقل ومنطق کے خلاف تھی۔

شایدمارکسیت یہ کہے کہ اگرچہ سرمایہ داری کا راز ایک طبقہ کی ثروت مندی اور دوسرے کی تہی دستی ہی میں مضمر ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ہم اس تہی دستی کی کوئی توجیہ سوائے اس لوٹ مارکے اور کیاکرسکتے ہیں؟اس بناپر ہم مجبور ہیں کہ اس ٹکڑے کا اضافہ کریں۔

لیکن یادرکھئے کہ اگر مارکسیت اس اضافہ کا حق رکھتی ہے تو پھر ہمارے بھی چند اعتراضات سنناپڑیں گے۔

(1) مارکس کا بیان جرمنی جیسے ممالک پر منطبق نہیں ہوتا جہاں سرمایہ داری جاگیردوری کے بل بوتے پرپروان چڑھی ہے اس وقت جب کہ خود جاگیرداروں نے اپنی دولت کے سہارے بڑے برے کارخانے کھول دیئے اور ان کو ترقی دینا شروع کر دی یہاں تک کہ ان کا شمار سرمایہ داروں میں ہونے لگا۔ظاہر ہے کہ اس طریق کارمیں نہ غصب کا سوال تھا نہ لوٹ مار کا۔بلکہ جاگیرداروں کی اپنی مرضی کا سوداتھا جسے انہوں نے اپنے قوت بازو سے تمام کیا۔

بعینہ یہی اعتراض اس صنعتی سرمایہ داری پر بھی ہوگاجس کا قیام تجارتی سرمایہ داری کی بنیاد پر ہواہے جیساکہ اٹلی کے ممالک بند قیہ، جنیوا،فلورنسہ وغیرہ میں تھا کہ یہاں تاجروں کا طبقہ اس وقت بھی موجود تھا جب اصطلاحی طور پر مارکسی صنعت کار مزدور نہ پیداہوئے تھے۔ لوگ اپنے گزربسر کے لئے کام کرتے تھے اور اس طرح اپناپیٹ

۲۳۵

پالتے تھے لیکن تاجروں نے صلیبی جنگ کے نتیجہ میں ترقی یافتہ مشرق سے تجارت کرکے مصر وشام کے بادشاہوں سے تعلقات کی بناپر اتنا سرمایہ جمع کرلیا کہ اپنے کو جاگیرداری سے آزاد کرکے بڑے بڑے کارخانے کھولنے لگے اور نتیجۂ کار میں دستکاری کا خاتمہ ہونے لگا اور اس طرح صنعتی سرمایہ داری عالم وجود میںآگئی۔ظاہر ہے کہ ان حالات میں مزدوروں سے ان کے ذرائع معیشت کو غصب نہیں کیا گیاتھا بلکہ ایسے حالات پیداہوگئے تھے کہ وہ خود بخود میدان سے ہٹ گئے اور سرمایہ دارانہ نظام وجود میں آگیا۔

(2) مارکسیت کے ان بیانات کو تسلیم بھی کرلیاجائے تو اصل مشکل حل ہوتی نظرنہیں آتی اس لئے کہ سرمایہ داری کا ایک طبقہ کے رئیس اور دوسرے کے محتاج ہونے کی بناپر موقوف ہونا صحیح ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ اس طبقہ کے پاس سرمایہ کیسے آیااور اس طبقہ کو ان تمام نعمتوں سے کس نے محروم کردیا؟

(3) مارکس نے سرمایہ دار کی ثروت کے سلسلہ میں جس غصب وسلب اور قوت وطاقت کا حوالہ دیاہے وہ اس کی شان کے لئے قطعاً سزاوار نہیں ہے۔قوت وطاقت کو اقتصادیات سے کوئی تعلق نہیں ہے اور مارکسیت کی نظرمیں پوری تاریخ کو اقتصادی ہونا چاہئے۔

ہماراخیال یہ ہے کہ مارکس اسی تقلیدی نظریہ کو قبول کرلیتاجو سابق سے چلا آرہاتھا تو زیادہ بہتر تھا اس لئے کہ وہ نظریہ اقتصادیات سے زیادہ قریب تر تھا لیکن افسوس کہ ایسانہ ہوا اور مارکسیت کے گھرکو گھر ہی کے چراغ سے آگ لگ گئی۔

یہ بھی قابل توجہ بات ہے کہ مارکس نے اس مقام پر لوٹ مارکے جتنے واقعات بھی نقل کئے ہیں وہ سب انگلستان کے ہیں اور اس وقت کے جب جاگیرداروں نے کاشتکاروں کو زمینوں سے نکال کر ان اراضیات کو چراگاہ کی شکل میں تبدیل کردیاتھا اور ان

۲۳۶

غریبوں کو بورژوابازاروںکے حوالے کر دیاتھا۔

ظاہر ہے کہ یہ اعمال جاگیردار اپنے جاگیردارانہ معاملات کے لئے کرہے تھے۔ انہیں تجارت سے کوئی تعلق نہیں تھا کہ انہیں کو سرمایہ دارانہ تجارت کی تمہیدقرار دے دیاجائے۔

یہ بھی نظراندازنہ ہوناچاہئے کہ مارکس نے اس لوٹ مارکو سرمایہ داری کی تمہید ثابت کرنے کے لئے متعدد صفحے سیاہ کرڈالے ہیںلیکن اس کے علاوہ کچھ نہ لکھاکہ لوگوں نے کاشتکاروں کی زمینوں کو چراگاہ توبنالیالیکن کاشتکاروں کے ایک عظیم لشکر کی کوئی پروانہ کی۔

سوال یہ پیداہوتاہے کہ جاگیردار وں کے ذہن میں یہ بات کہاں سے آئی اور انہوں نے زمینوں کو چراگاہ بنانے کی فکرہی کیوں کی؟مارکس کے پاس اس سوال کا جواب یہ ہے کہ :

چونکہ فلاندروغیرہ میں ادن کے کارخانے ترقی کررہے تھے اور اس طرح اس کا بازار ترقی پر تھا اس لئے ان لوگوں کے ذہن میں یہ بات پیداہوئی کہ اب ادن کی پیداوارزیادہ کی جائے تاکہ دولت سے زیادہ سے زیادہ استفادہ ہو سکے۔ (راس المال ،ق2،ج3،ص1059)

حقیقت یہ ہے کہ مارکس کے اس جواب میں ایک ایسا تاریخی نکتہ پایاجاتاہے جسے اس نے درخور اعتناء نہیں قرار دیاحالانکہ اس کو بقدر ضرورت اہمیت دینی چاہئے تھی۔ نکتہ یہ ہے کہ:

فلمنکی شہروں اور بالخصوص بلجیک کے جنوبی علاقوں میں صنعتی ترقی اور ادن کی سرمایہ دارانہ پیداوارنے جاگیرداروں کو اس سے فائدہ اٹھانے کی طرف متوجہ کیااور انہوں نے کھیتوں کو چراگاہوں کی شکل میں بدل دیاتاکہ ان شہروں تک ادن سپلائی کرکے ان کے بازاروں پر قبضہ جمایاجائے اس لئے کہ اس وقت انگریزی ادن کی قدر وقیمت بہت زیادہ بڑھ گئی تھی۔

۲۳۷

(تاریخ انگلستان،ص56)

اس بیان کی کیفیت ہی یہ بتاتی ہے کہ مارکس اپنے تاریخی استنتاج میں ناکام رہاہے اور اس طرح اس نے جس شیء کو واقعی سبب قراردیاہے وہ سبب نہیں ہے بلکہ اس کے علاوہ دوسرے عوامل ہیں جو اس وقت کارفرماتھے جب سرمایہ داری وجود میں آرہی تھی اور جاگیرداری کا خاتمہ ہورہاتھا۔

وہ عوامل کیاتھے؟

خارجی تجارت کا فروغ اور انگلستان ادن کی ترقی۔

ظاہر ہے کہ بیرون ملک تجارت کے فروغ کو ملک کی داخلی نقیض نہیں قرار دیاجا سکتاجبکہ جدلیت کا اصرار ہے کہ ہر انقلاب کو داخلی تضادوتناقض کی بناپر پیداہوناچاہئے۔

مارکس کا اعتراف

آخرکار مارکس نے یہ محسوس کرلیاکہ ہمارے یہ تمام بیانات صرف اس بات کو واضح کرسکتے ہیں کہ کاشتکار افراد مزدوروں کی طرح کام کرنے پر کیونکر آمادہ ہوگئے لیکن سرمایہ کی فراوانی جس کے متعلق بحث ہورہی ہے اس کی کوئی توجیہ اس لوٹ مارکی بنیادپر نہیں ہوسکتی ہے۔

چنانچہ اکتیسویں فصل سے اس نے ایک نئے استدلال کا آغاز کیا۔اور یہ بیان کیاکہ:

امریکہ میں سونے چاندی کی کانوں کا برآمد ہوجانا،مقامی لوگوں کا غلامانہ زندگی بسرکرنا اور پھر ان کانوں میں دفن ہوجانا،مشرقی ہند کے جزیروں

۲۳۸

میں لوٹ مار،افرایقہ سے حبشیوں کی بے ڈھب گرفتاری وہ حسین اسباب ہیں جنہوں نے سرمایہ داری کی بشارت دی تھی اور جن کے زیر اثر یہ نظام وجود میں آیاتھا۔ (راس المال،ص1116)

عجیب بات یہ ہے کہ مارکس نے اپنے اس اقدام میں بھی طاقت وقوت،غصب وسلب کے علاوہ کسی اور شیء کی نشان دہی نہیں کی ہے جبکہ ہم باربارواضح کرچکے ہیں کہ ان امور کو اقتصادیات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

شاید یہی وجہ تھی کہ مارکس نے اپنے بیان کی اس کمزوری کا بھی احساس کیااور پھر یہ بیان دیاکہ:

قدیم معاشرے قوت ہی کے زور پر عالم وجود میں آئے ہیں اور قوت بھی ایک اقتصادی ہی عامل وموثر ہے۔

اس مقام پر مارکس نے اقتصاد کے مفہوم کو اتنا وسیع کر دیاہے کہ اس میں دنیا کے ہر موثر کو شامل کرلیاہے۔ورنہ ظاہر ہے کہ قوت کو اقتصاد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

یہی وجہ ہے کہ انگلز نے اپنے بیان میں اس نکتہ کی شدید مخالفت کی ہے۔وہ کہتا ہے کہ:

ہم ان تمام حالات کی خالص اقتصادی توجیہ کر سکتے ہیں جہاں قوت اور سیاست کا نام تک نہ آنے پائے۔رہ گئی حکومت کی دخل اندازی تو اس کی بناپر ملکیت کو قوت کا نتیجہ نہیں قرار دیاجاسکتا،قوت کا تذکرہ وہی شخص کرے گا جو حقائق کے سمجھنے سے محروم ہویا ان پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتاہو۔

(صنددو ہرنگ،ج2،ص32)

جب ہم سرمایہ داری کے مارکسی تجزیہ کے سلسلہ میں انگریزی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیںاور مارکس کے بتائے ہوئے نکات پر نظرڈالتے ہیں تو ہمیں اس تاریخ سے نہ کوئی ہمدردی پیداہوتی ہے اور نہ نفرت۔اس لئے کہ ہمارا موضوع یورپ کی تاریخ سے سیاہ

۲۳۹

اوراق کو صاف کرنانہیں ہے اور نہ ہی ہم سرمایہ داری کے زیر اثرپیداہونے والے نتائج کو طشت ازبام کرنا چاہتے ہیں ہماری تمام تردلچسپی اس تاریخ سے صرف اس ضرورت کے تحت ہے جس کا مارکسیت نے دعویٰ کیاہے کہ قانون جدلیت کی رو سے بغیر ان ہنگامہ آرائیوں کے سرمایہ دار نظام صفحۂ وجود پر نہیں آسکتاتھا۔

ہمیں اس سلسلہ میں انگلستان کے ساتھ دیگر ممالک کی تاریخ کا بھی جائزہ لینا پڑے گا۔ہم صرف انگلستان کی تاریخ پر اکتفا نہیں کرسکتے اس لئے کہ مسئلہ انگلستان کا نہیں ہے بلکہ تاریخ بشریت کا ہے۔اور اس کے حدود چاردانگ عالم تک پھیلے ہوئے ہیں۔

اس سلسلہ میں ہماری نظرسب سے پہلے فلاندرز اور اٹلی پر پڑتی ہے جہاں سرمایہ دار نظام تیرہویں صدی میں عالم وجود میں آیا۔بڑے بڑے کارخانے قائم کئے گئے۔ ہزاروں مزدوروں نے کام کیااور اتنی جنس پیداکردی کہ عالمی بازار پر قبضہ کرلیالیکن اس کے باوجود وہ تمام حالات پیش نہیں آئے جنہیں مارکس نے انگلستان کے سلسلہ میں بیان کیاہے۔

ظاہرہے کہ اگر یہ حالات سرمایہ داری کے لئے ضروری ہوتے تو ان ممالک میں یہ نظام کامیاب نہ ہوسکتا حالانکہ تاریخ کہتی ہے کہ یہ نظام قائم ہوااور اس طرح مارکسیت کو کھلی ہوئی نظریاتی شکست سے دوچار ہوناپڑا۔

ہمارے سامنے دوسری مثال جاپان کی ہے جہاں انیسویں صدی میں جاگیردار نظام سرمایہ دارکی شکل میں مبدل ہواجیساکہ خود مارکس نے بھی اشارةً بیان کیاہے کہ:

جاپان خالص جاگیردارانہ نظام ہونے کے باعث یورپ کی درمیانی صدیوں کے بارے میں مختلف جہتوں سے ایسی شکل پیش کرتاہے جو بورژوا تاریخ کی کتابوں سے کہیں زیادہ معتبر ہے۔ (راس المال،ج3،ص1058)

دیکھنا یہ ہے کہ مارکس کے اعتراف کے مطابق وہ صحیح شکل کیاہے جسے جاپان نے

۲۴۰