اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب0%

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 391

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ شھید باقر الصدر طاب ثراہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 391
مشاہدے: 104456
ڈاؤنلوڈ: 3731

تبصرے:

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 391 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 104456 / ڈاؤنلوڈ: 3731
سائز سائز سائز
اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

اپنی تاریخ کے سلسلہ میں پیش کیاہے؟اور آیایہ شکل مارکسی نظریات سے ہم آہنگ ہے یا نہیں؟

تاریخ کہتی ہے کہ جاپان جاگیرداری کے خواب میں محواستراحت تھا کہ ایک مرتبہ خارجی خطرات کے جرس نے اسے اس عالم میں بیدار کیاکہ وہ انتہائی خوفزدہ تھا۔وقت وہ تھا جب 1853ء مین امریکی اسطول نے خلیچ اور اجاپر حملہ کر دیا تھا اور لشکری حاکم نے اس سے ملاقات کا سلسلہ شروع کر دیاتھا۔جاپان نے اس وقت یہ طے کر لیاکہ در حقیقت یہ ایک اقتصادی جنگ ہے جس کے نتیجہ میں اسے بربادی کا شکار ہوجاناپڑے گا اور اب نجات کی فقط یہ صورت ہے کہ کاروبار شروع کرکے جاپان کو دیگر ترقی تافتہ ممالک کا ہمدوش بنادیاجائے۔ چنانچہ جاگیرداروں نے خودہی اس فکر کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی فکر کی اور لشکری حاکم کو نکال باہر کرکے 1868ء میں شہنشاہی قائم کر دی تازہ حکومت نے صنعتی انقلاب پر پوراپورا زور دیا۔بڑے طبقہ نے اس کی مکمل حمایت کی،تاجر اورکاریگر طبقہ جو معاشرہ کا پست ترین طبقہ تھا بلندی کی سطح پر آگیا اور اس طرح دیکھتے دیکھتے جاپان یورپ ممالک کا ہم دوش ہونے لگا۔ 1871ء میں جاگیرداروں نے اپنے تمام خصوصیات اورامتیازات سے دست برداری اختیار کرلی اور حکومت نے بھی انہیں املاک کی بجائے کا غذات دے دیئے اور اس طرح نہایت ہی صلح و آتشی اور صبراور سکون کے ساتھ صنعتی سرمایہ داری عالم وجود میں آگئی۔جاپان کو اچھی خاصی مرکزیت بھی حاصل ہوگئی اور کوئی داخلی یا خارجی نزاع بھی سامنے نہیں آئی۔

آب آپ ہی غور فرمائیں کہ کیایہ نتائج وحالات تاریخی مادیت پر منطبق ہوتے ہیں :

(1) مارکسیت کا خیال ہے کہ معاشرہ کا تغیر انقلاب کے بغیر ناممکن ہے اس لئے کہ معاشرہ میں تدریجی طور پر مقداری تغیر ہوتاہے اور پھر یہ مقدار بڑھتے بڑھتے دفعتاً نظامی تغیر کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔

حالانکہ جاپان میں ایسا کچھ نہیں ہوابلکہ سرمایہ داری سکون و صبر کی فضامیں عالم وجود میں آئی۔انقلاب کا تونام بھی نہیں آسکااور نہ جاپان کا1871ء فرانس کا 1789ء ہی

۲۴۱

بن سکا۔

(ب) مارکسیت کا کہنا ہے کہ معاشرہ میں کوئی ترقی بغیر طبقاتی نزاع کے غیر ممکن ہے۔

حالانکہ جاپان یہ کہتاہے کہ ترقی تمام طبقات کے اتحاد سے پیداہوتی ہے باہمی نزاع کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ہمارے یہاں جاگیرداروں نے خود بھی جدید نظام کی تشکیل میں حصہ لیاہے۔

(ج) مارکسیت کا اصرار ہے کہ سرمایہ کی فراوانی سنجیدگی کے ساتھ ناممکن ہے اس کے لئے غصب وسلب لوٹ مار لازمی اشیاء ہیں۔

جاپان کی تاریخ بآواز بلند پکاررہی ہے کہ اس کے لئے کسی جنگ وجدل کی ضرورت نہیں ہے کوئی لوٹ مارلازم نہیں ہے۔یہ کام نہایت آسانی سے ہوسکتاہے بشرطیکہ پورا ملک متوجہ ہوا ور مقصد کی کامیابی کے لئے خاطرخواہ قربانی پیش کرے۔

آخرہمارے ملک میں یہی تو ہواکہ تمام طبقات بروقت متوجہ ہوگئے اور انہیں کے سیاسی افکار کے نتیجہ میں ہم نے ترقی کی اور ہمارے اقتصادیات سدھر کرسرمایہ داری کی شکل میں آگئے۔

ہمارے یہاں ایسا کبھی نہیں ہواکہ اقتصادیات کے زیر اثرسیاسیات پیداہوں۔ہم نے سیاسیات ہی سے اپنی اصلاح کی ہے اور اپنے کودیگر ترقی یافتہ ممالک کے دوش بدوش چلایاہے۔

۲۴۲

سرمایہ دار نظام کے قوانین

اگر سرمایہ دار نظام کے قوانین کو تاریخی مادیت کی رو سے دیکھنا چاہیں تو ہمیں ضرورت اس امر کی ہوگی کہ اس کے اقتصادی رخ کوو اضح کریں اس لئے کہ مارکسیت کی نظرمیں یہی سب سے اہم نکتہ ہے اور اس نے اسی نظام کے بارے میں اپنے نظریہ کو واضح طور پر بیان کیاہے مارکسیت کا خیال ہے کہ اس نظام کے داخل میں بھی ایسے جراثیم پائے جاتے ہیں جو ایک دن اسے موت کے گھاٹ اتاردیں گے اور اس طرح مارکس کا خواب اشتراکیت کی شکل میں شرمندۂ تعبیر ہوجائے گا۔

۲۴۳

قیمت کی بنیاد عمل

مارکس نے سرمایہ داری کے تجزیہ کی ابتدااس بات سے کی ہے کہ پہلے جنس کی بازاری قیمت کا معیارمعلوم کیاجائے اور یہ صحیح بھی ہے جیساکہ تمام اقتصادی مفکرین کا وطیرہ رہاہے کہ وہ حضرات اس موضوع پر سب سے پہلے اسی نکتہ سے بحث کرتے ہیں۔

مارکس نے اس میدان میں کسی جدید نظریہ کی بنیاد نہیں ڈالی بلکہ ریکارڈوکے اسی تقلیدی نظریہ کو اپنا لیاہے جس میں عمل کو قیمت کا معیار قرار دیتے ہوئے یہ بتایاگیاہے کہ ایک گھنٹے کے کام کی پیداوار کی قیمت اس شیء کی آدھی ہوگی جس کی پیداوار میں دو گھنٹے کا وقت صرف ہواہے۔

ریکارڈو نے اس نظریہ کو عملی حیثیت ضرور دی ہے لیکن اس سے پہلے اس کی طرف جان لاک نے بھی اشارہ کیاتھا جس پر آدم سمتھ نے یہ تبصرہ کیاتھاکہ یہ نظریہ صرف ابتدائی معاشروں کے لئے ہے اس کے علاوہ دیگر سماجوں کا نظام اور معیار کچھ اور ہونا چاہئے۔ ریکارڈونے آدم سمتھ کی اس رائے سے اختلاف کرکے اسی معیار کو تمام معاشروں کے لئے صحیح وصائب قرار دیاہے۔

مارکس نے بھی اسی نظریہ کو قبول کیاہے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ اس نے اس میدان میں کچھ نہیں کیابلکہ حقیقت امر یہ ہے کہ اس نے اس میں بہت سے اضافے کئے ہیں اور اس کے علاوہ پورے نظریہ کو ایک خاص رنگ دیاہے جو اس کی فکر سے ہم رنگ تھا۔

۲۴۴

ریکارڈو کا خیال تھاکہ یہ نظریہ ان حالات پر منطبق نہیں ہوسکتاجن میں لوگ احتکار(ذخیرہ اندوزی)پر آمادہ ہوجائیں اس طرح کہ رسدکم ہواور مانگ زیادہ۔اس لئے کہ ایسے حالات میں جنس پر عمل کی زیادتی نہ ہوگی لیکن قیمت میں خاطر خواہ اضافہ ہوجائے گا۔ مارکس نے اس استثنائی صورت کو بھی قبول کیاہے اور احتکار کو اپنے قانون سے خارج کردیاہے۔

ریکارڈونے یہ بھی دیکھاکہ اعمال کی حیثیت میں کام کرنے والوں سے بھی فرق ہوجاتاہے ایک ہوش مند نوجوان کا ایک گھنٹہ ایک بیوقوف لاغرکے ایک گھنٹے سے کہیں زیادہ قیمت رکھتاہے اس لئے اس نے اس بات کی فکر کی کہ عمل کا ایک معیار بنالیاجائے تاکہ اسی اعتبار سے چیزوں کی قیمت لگائی جاسکے۔چنانچہ اس نے اس قسم کے عمل کا نام''معیاری ضروری محنت''رکھااور یہ اعلان کر دیاکہ''ہر عمل کی مناسب قیمت معیاری ضروری محنت کے معیار پر لگائی جائے۔''

ریکارڈونے ایک مزید فکر یہ کی کہ قیمت کے معیار سے زمین،آلات،سرمایہ وغیرہ کو خارج کردیاجائے اس لئے کہ ان چیزوں کو قیمت کی پیداوار میں کوئی دخل نہیں ہوتا۔ چنانچہ اس نے زمین کے متعلق یہ فیصلہ کردیاکہ زمین کی خوبی احتکار کا نتیجہ ہے۔جن لوگوں کے پاس اچھی زمین ہوتی ہے وہ اس کی خوبی کی وجہ سے زیادہ منفعت حاصل کرلیتے ہیں اور اس طرح دوسرے افراد کو معمولی آراضی میں کاشت کرنا پڑتی ہے لہٰذا اس کو احتکار میں داخل کرکے معیار سے الگ کردیاجائے حالانکہ اس سے قبل علماء اقتصاد کا خیال تھا کہ زمین کی صلاحیت اللہ کا ایک عطیہ ہے جو انسانی محنت کے بعد عطاہوتاہے۔

سرمایہ کے متعلق اس نے یہ رائے قائم کی کہ سرمایہ بہت سے اعمال کے مجموعہ کا نام ہوتاہے۔اس کی مستقل کوئی حیثیت نہیں ہوتی ہے۔آپ جب یہ دیکھیں کہ کوئی ایک ساعت کا پیداکردہ سرمایہ کسی ایک ساعت کے کام میں لگادیاگیاتو یہ خیال نہ کریں کہ اس

۲۴۵

مقام پر ایک سرمایہ ہے اور ایک ایک ساعت کا عمل بلکہ یہ دیکھیں کہ ایک ساعت کے عمل پر ایک ساعت کے نتیجۂ عمل کا اضافہ کردیاگیاہے اور ظاہرہے کہ اس طرح جنس کی قیمت میں اضافہ ہوجائے گا حالانکہ معیار اپنے مقام پر محفوظ رہے گا۔

ریکارڈوکے ان نظریات سے یہ توقع کی جاتی تھی کہ وہ سرمایہ دارانہ منافع کی مذمت کرے گا اس لئے کہ اس صورت میں سرمایہ دار قیمت زیادہ لگاتاہے اور عمل میں کوئی اضافہ نہیں ہوتالیکن ایسا کچھ نہیں ہوابلکہ اس نے ان منافع کو جائز قرار دیتے ہوئے یہ فیصلہ کیاکہ ہر شخص کو اپنے مال کے بارے میں اختیارہے۔وہ جس قدرقیمت چاہے وصول کرسکتا ہے یہ اور بات ہے کہ یہ صرف اسی وقت ہوگاجب کہ جنس بازار تک نہ پہنچ سکی ہو۔

ریکارڈو نے اس ایک جزو کا اضافہ کرکے اپنی پوری عمارت کو مہندم کردیااور اپنے اس بیان سے زمانہ کو بھی قیمت کا معیار بنادیاکہ ایک زمانہ میں قیمت کم ہوگی جب جنس زیادہ ہو اور دوسرے زمانہ میں زیادہ ہوگی جب جنس کم ہوحالانکہ وہ شروع سے عمل کے علاوہ کسی شیء کو بھی معیاری حیثیت دینے کے لئے تیار نہ تھا۔

مارکس نے ریکارڈو کے ان تمام نظریات کو دیکھتے ہوئے ان میں بعض مقامات پر اصلاح کی ہے اور بعض مقامات پر جدید اضافے کئے ہیں۔اصلاح کے سلسلہ میں یہ بتایا ہے کہ ریکارڈونے زمین کی صلاحیتوں کو پوری طرح احتکار میں حساب کر لیاہے حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ صلاحیت کی دو قسمیں ہیں ایک صلاحیت زمینوں کے اعتبار سے ہے اور ایک صلاحیت خودذاتی کمزوری کی بناپر ہوتی ہے اس لئے کہ زمین پیمائش کے اعتبار سے بھی تو ایک محدود حیثیت ہی رکھتی ہے۔ (راس المال،ص1186)

۲۴۶

مارکس نے اقتصادی بنیادکس طرح قائم کی؟

مارکس نے عمل کے معیار قیمت ہونے پر اس طرح استدلال کیاہے کہ ہر شیء میں دو قسم کی قیمتیں ہوتی ہیں،استعمالی قیمت، تبادلہ کی قیمت۔

استعمالی قیمت سے مراد وہ منافع ہیں جو عالم کی تمام اشیاء سے مختلف صورتوں میں حاصل ہوتے ہیں۔آپ کے پاس ایک تخت ہے،ایک چمچہ ہے، ایک روٹی ہے۔ ظاہر ہے کہ سب کے منافع مختلف ہوں گے۔اس لئے کہاجائے گا کہ ان کی استعمالی قیمت مختلف ہے لیکن اسی کے ساتھ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ انسان ایک تخت کو ایک ریشمی کپڑے کے عوض دے دیتاہے تو سوال یہ پیداہوتاہے کہ اس تخت کو اس کپڑے کے برابرکس شیء نے کردیا اور وہ کون سی مشترک شیء ہے جو ان دونوں کی مساوات کا باعث بنی۔ ظاہرہے کہ وہ نہ تخت ہے اور نہ لباس۔ اس لئے کہ یہ دونوں ذاتی اعتبار سے مختلف ہیں۔ان کومشترک نہیں قرار دیا جاسکتا۔

اسی طریقہ سے وہ شیء مشترک استعمالی فائدہ بھی نہیں ہے اس لئے کہ استفادہ بھی تخت سے اور ہوتاہے اور لبا س سے اور۔

۲۴۷

معلوم ہوتاہے کہ ان کے درمیان کوئی اور شیء ہے جس نے دونوں کو تبادلہ کے مقام پر برابر بنادیاہے اور ظاہرہے کہ وہ شیء عمل کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ہے یعنی چونکہ دونوں کی ایجاد میں برابر کا وقت صرف ہواہے اس لئے دونوں کی قیمت بھی برابر ہے اور یہ تبادلہ صحیح ہے۔ (راس المال،ج1،ص44تا49)

جب یہ واضح ہو گیا کہ جنس کی قیمت عمل کے ذریعہ معین ہوتی ہے تو یہ بھی یادرکھنا چاہئے کہ بازاری قیمت کبھی کبھی اس واقعی قیمت سے مختلف ہوجایاکرتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ جنس کی کمی کے موقع پر اس کی قیمت میں اضافہ ہوجاتاہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ واقعی قیمت ختم ہوگئی۔ایسا ہرگز نہیں ہواوہ اپنی جگہ باقی ہے اور یہی وجہ ہے کہ قیمت اپنے حدود سے زیادہ نہیں بڑھ سکتی۔رومال کی قیمت ترقی کرسکتی ہے لیکن ایک موٹر کے برابر نہیں ہوسکتی جس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں کے درمیان اصلی قیمت کا معیار محفوظ ہے۔

مارکس اور یکارڈو دونوں نے اس بات کا احساس کیاہے کہ ان کا بنایاہواقانون احتکاری حالات پر منطبق نہیں ہوتاہے اس لئے کہ وہاں جنس سامنے نہیں آتی ہے اور مانگ بڑھ جاتی ہے جس کا فطری نتیجہ یہ ہوتاہے کہ قیمت ضرورت سے زیادہ ہوجاتی ہے۔

اسی طرح اس قانون کا انطباق''آثار خطوط''پر بھی نہیں ہوتا۔آپ زمانہ قدیم کے کسی نقاش کے نقشہ کو لے لیجئے وہ آج کی کتاب سے زیادہ قیمتی ہوگاحالانکہ اس پر عمل زیادہ صرف نہیں ہواہے۔

اسی لئے دونوں نے اس بات کا اعلان کردیاکہ ہمارا قانونِ قیمت دو باتوں پر موقوف ہے:

(1) جنس ذخیرہ اندوزی کا شکارنہ ہو، جتنی مانگ ہواسی مقدار میں جنس یازمین موجود ہو۔

(2) متاع اجتماعی عمل کی پیداوار ہو، شخصی فنکار یوں سے اس کا کوئی تعلق نہ ہو۔

عجیب بات یہ ہے کہ جو مارکس مادی فلسفی ہونے کی حیثیت سے مقام پر پر تاریخی

۲۴۸

حوادث سے استدلال کرتاتھا اس مقام پر پہنچ کر ایسا ارسطو نما الہٰیاتی فیلسوف بن گیا جیسے اسے آفاق سے کوئی تعلق ہی نہ ہو اور وہ کسی دوسرے عالم کے بارے میں گفتگو کررہا ہو۔ اس نے اپنے مطلوب پر عقلی حیثیت سے استدلال کرنا شروع کر دیا اور اس بات پر نظربھی نہیں کی کہ تاریخ اس استدلال کے خلاف شہادت دے رہی ہے۔

اس استدلال کا نتیجہ تویہ ہے کہ دوکارخانوں کی نکلی ہوئی مصنوعات میں قیمت کے اعتبار سے کوئی فرق اس وقت تک نہ ہوجب تک کہ اس پر صرف ہونے والی محنت میں اختلاف نہ ہوچاہے دونوں کے آلات اور پرزے برابر ہوں یا ان آلات ووسائل میں کوئی فرق ہو حالانکہ تاریخ اقتصاد اس بات کی شاہد ہے کہ کارخانے کی ضرورت کے مطابق جس قدر آلات زیادہ ہوں گے اسی قدر اس سے استفادہ بھی زیادہ ہوگا۔

یہی وہ بات تھی جس کے پیش نظرمارکس نے تاریخ کونظرانداز کر دیا اور عقلی حیثیت سے استدلال کرکے اپنے مطلب کوثابت کرنا چاہاتاکہ بعد میں تاریخی آثار اس کے خلاف پائے جائیں توانہیں سرمایہ داری کے سرڈال دیاجائے اور اس کی نحوست وبدبختی پر محمول کردیاجائے۔ (راس المال،ص1185)

مارکسی بنیاد پرنقدونظر

اب ہم مارکس کے قانون کا اسی کی دلیل کی روشنی میں جائزہ لینا چاہتے ہیں، مارکس نے تخت اور لباس کے تبادلہ کو دیکھ کر یہ سوال اٹھایاہے کہ تبادلہ کے اعتبار سے یہ دونوں برابر ہیں تو اس مساوات کا راز کیاہے؟اس کے بعد جواب میں عمل کو پیش کرکے اسی کو معیار

۲۴۹

قرار دیاہے حالانکہ یہی سوال ہم اجتماعی اور انفرادی کاموں کے بارے میں بھی اٹھاسکتے ہیں او ریہ کہہ سکتے ہیں کہ ان قدیم خطی آثار کی کوئی تبادلی قیمت ہے یا نہیں؟اور اگر ہے اور اسے ایک جلد تاریخ کا مل سے بدل سکتے ہیں تو پھر ان دونوں کے درمیان بھی ایک مشترک امر ہونا چاہئے جس طرح کہ تخت ولباس کے درمیا ن ایک مشترک امر تھا اگر یہ کہاجائے کہ وہ مشترک شیء عمل ہے تو ظاہر ہے کہ یہ بات خلاف واقع ہوگی اس لئے کہ ایک خط یا ایک رسالہ کا عمل ایک جلد کتاب سے یقیناکم ہوگااور اگریہ کہاجائے کہ وہ عمل نہیں ہے تو پھر سوال یہ ہوگاکہ وہ کیاشیء ہے؟

شاید اسی ناواقفیت کا انجام تھا کہ مارکس نے اس قسم کے آثار کو اپنے قانون سے مستثنیٰ کردیا۔

ہم مارکس سے اس استثنا کے بارے میں کوئی بحث نہیں کرنا چاہتے۔ہمارا سوال توصرف یہ ہے کہ اگریہ تبادلہ صحیح ہے تو پھر آپ کے قول کے مطابق دونوں کے درمیان ایک مشترک شیء ہونی چاہئے اور اگروہ عمل نہیں ہے تو جو شیء بھی ہے آپ اس کی نشاندہی کریں؟

اگر آپ اس کا تعین نہیں کرسکتے تو اتنا بہرحال تسلیم کریں کہ کوئی امر مشترک ایسا بھی جو انفرادی اور اجتماعی اعمال کے درمیان بھی پایاجاتاہے جس کے بعد سوال یہ پیدا ہوگا کہ اسی شیء کو اصلی معیار کیوں نہیں قرار دیتے کہ قانون کی عمومیت اور شمولیت محفوظ رہے؟

ہماری اس تحقیق کا ایک واضح سا نتیجہ یہ ہے کہ عمل کے علاوہ بھی کوئی مشترک شیء ہے جو تخت ولباس اور آثار ومطبوعات کے درمیان پائی جاتی ہے لہٰذا اگر اس کا سراغ مل جائے تو اسی کو معیار قرار دینا چاہئے اور عمل کی معیاری حیثیت ساقط کر دینی چاہئے۔

قانون قیمت کے سلسلہ میں مارکس کے سامنے ایک مسئلہ اور بھی ہے جس کا حل کرنا دشوار ہے اس لئے کہ اس کا یہ قانون تاریخ سے مطابقت نہیں کرتااور ظاہرہے کہ جو شیء تاریخ کے خلاف ہوتاریخ اس کی توجیہ سے معذور ہے۔

۲۵۰

مارکسیت کی اس دشواری کو واضح کرنے کے لئے زمین کو مثال میں پیش کرتے ہیں ظاہرہے کہ تمام زمینیں ایک جیسی نہیں ہوتیں بلکہ صلاحیت کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہیں تو ہر زمین میں اتنی صلاحیت ضرورہوتی ہے کہ اس میں گندم،جو، چاول جیسی اجناس کی زراعت کرلی جائے لیکن اسی کے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بعض رمینیں بعض اجناس کے لئے زیادہ مناسب ہوتی ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ عمل کی ایک ہی مقدار اگر مناسب جنس پر صرف کر دی جائے تو اس سے کہیں زیادہ غلہ پیدا ہوجائے گا جب یہی عمل غیر مناسب جنس پر صرف کیاجائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس کھیت کے تمام غلہ کو دوسرے کھیت کے غلہ سے تبدیل کرلیں خواہ ان کی مقدار میںکسی قدرتفاوت کیوں نہ ہو صرف اس لئے کہ دونوں پر صرف ہونے والے عمل کی مقدار ایک ہے۔ظاہرہے کہ یہ کبھی نہیں ہوسکتا اور نہ سودیت دیس ہی اسے اپنے لئے پسند کر سکتاہے اس لئے کہ اس کے نتائج عالمی اقتصاد کے لئے انتہائی خطرناک ہیں۔

اور جب یہ معاملہ صحیح نہیں ہے تو سوال یہ ہے کہ وہ کون سا معیار ہے جس کی بنیاد پر ان جنسوں کاتبادلہ کیاجائے جبکہ دونوں کا عمل برابر ہے۔

میرے خیال میں مارکس کا یہ بھی فریضہ تھاکہ جس طرح مختلف اعمال والے نتائج کا معیار معین کیاتھا۔مختلف صلاحیتوں کے نتائج کا معیار بھی مقرر کرتالیکن اس نے اس موضوع کو تشنہ چھوڑدیا۔

ممکن ہے کہ مارکسیت اپنے قانون کی توجیہ میں یہ کہے کہ ایک سیرروٹی اگر ایک مقام پر ایک گھنٹہ کی محنت سے پیداہوتی ہے اور دوسرے مقام پر دو گھنٹہ کی محنت سے تو ہمیں اس کا اوسط نکال کر ایک سیر کو 11/2 گھنٹہ کا نتیجہ قرار دینا چاہئے اور اسی اعتبار سے اجناس کی قیمت مقرر کرناچاہئے۔

یہیں سے زمین کی صلاحیت کا راز بھی واضح ہوجائے گا۔اچھے کھیت میں آپ کا

۲۵۱

عمل بظاہر ایک گھنٹہ ہوگالیکن واقع کے اعتبار سے اس کی اہمیت11/2گھنٹہ کی ہوگی اسی طرح سے خراب زمینوں کا گھنٹہ 4 / 3 کے برابر ہوگا اور معاملہ کی تمام دشواریاں دور ہوجائیں گی۔

لیکن ہمارا سوال پھر یہ ہوگاکہ اچھی زمین کے ایک گھنٹہ کو11/2 گھنٹہ کس نے بنایا؟ یہ انسان کا کام تو نہیں تھا اس لئے کہ وہ معجزہ سے قاصر ہے اور طاقت کاکام بھی نہیں تھا اس لئے کہ وہ ایک گھنٹہ سے زیادہ صرف نہیں ہوئی تھی۔اس آدھے گھنٹہ کوسوائے زمین کی صلاحیت کے اور کسی طرف کی منسوب نہیں کرسکتے لہٰذا اگر اس آدھے گھنٹے کو قیمت پر اثرانداز قراردیں گے تو اس کا مطلب یہ ہوگاکہ زمین بھی قیمت کی تحدید میں دخیل ہے حالانکہ حساب سے خارج کرچکے ہیں اور اگر اس آدھے گھنٹہ کا قیمت پر کوئی اثرتسلیم نہ کریں گے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگاکہ اچھی زمین کی ایک سیرروٹی خراب زمین کی 11/2سیرروٹی سے تبدیل کرلیں اور مارکس کو کوئی اعتراض نہ ہوگا۔

مارکسیت کے لئے تیسرا دشوار گذار مرحلہ وہ حادثہ ہے جو ہر ملک میں پیش آتارہتا ہے اورجس سے قیمت کی کمی وزیادتی پر ایک نمایاں اثرپڑتاہے یعنی رغبت کی کمی اور زیادتی، ہم روزانہ اس بات کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ اجتماعی رغبت جنس کی قیمت کو دوبالا کردیتی ہے اور جمہور کاا عراض جنس کو بے ارزش بنادیتاہے۔

معلوم یہ ہوتاہے کہ جنس کی قیمت میں عمل کے ساتھ ساتھ اجتماعی ضرورت کو بھی دخل ہوتاہے۔

لیکن مارکسیت اس مسئلہ سے نظربچاکراسے رسدوطلب پر محمول کرنا چاہتی ہے اس کا خیال ہے کہ قیمت کا تعلق صرف عمل سے ہوتاہے۔یہ اور بات ہے کہ جب پیداواری حالات خراب ہوجاتے ہیں اور جنس پر دوہری محنت صرف ہوتی ہے تو اس کی قیمت بھی دوگنی ہوجاتی ہے جس طرح کہ پیداواری حالات سازگاری کی صورت میں محنت کی کمی سے قیمت میں تخفیف ہوجاتی ہے۔

۲۵۲

ہمیں مارکس کے اس بیان سے کوئی اختلاف نہیں ہے اس لئے کہ ایسا ہوتابھی ہے اور ہوبھی سکتاہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس حادثہ کی توجیہ صرف عمل کی نیاد پر کیوں کی جاتی ہے جبکہ اس کے لئے رغبت ،ضرورت وغیرہ جیسے احتمالات بھی موجود ہیں۔اور ظاہر ہے کہ جب تک یہ احتمالات باقی رہیں گے اس وقت تک کسی ایک رخ کو حتمی نہیں قرار دیاجاسکتا۔

اس مقام پر ایک بڑااہم نکتہ ہے جس سے مارکسیت نے اعراض کر لیاہے اور وہ یہ ہے کہ تمام اعمال ایک جیسے نہیں ہوتے۔بعض اعمال اچھی خاصی مہارت کے محتاج ہوتے ہیں۔اور بعض کے لئے کسی مہارت کی ضرورت نہیں ہوتی، مزدور کا ایک گھنٹہ انجینئر کے ایک گھنٹہ سے الگ حساب رکھتاہے۔نہر کھودنے والے کا کام بجلی کے کاریگر سے جداگانہ نوعیت رکھتاہے اس لئے کہ ایک مہارت ومشق کا طالب ہے اور دوسرا صرف مشقت کا۔

اس کے علاوہ چند مزدور کے ذاتی اوصاف بھی عمل کی نوعیت کو بدل دیاکرتے ہیں ایک انسان کو عمل سے دلچسپی ہے اور وہ کام کا ذوق رکھتاہے توا س کا گھنٹہ اور ہوگا اور اگر بددلی سے کام کرتاہے تو اس کا گھنٹہ اور ہوگا۔پھر حالات کی خوشگواری اور ناخوشگواری کی اثر اندازی بھی ناقابل انکار ہے۔

ایسے حالات میں صرف عمل کی مقدار کا حساب کرلینا اور اس کی نوعیت،کیفیت عامل کے خصوصیات واوصاف سے قطع نظرکرلینا ایک ایسی واضح غلطی ہے جس کا تدارک غیر ممکن ہے۔

یہ ضرور ہے کہ ان امور کو قیمت کی پیداوار میں دخیل مان لینے کے بعد ایک دشواری یہ پیش آئے گی کہ مقدار کو معلوم کرنے کے لئے توعمدہ سے عمدہ گھڑی ایجاد ہوجائے گی لیکن کیفیت ونوعیت وہ باطنی اور غیبی امور ہیں جن کے امتحانات کے لئے کوئی گھڑی ایجاد نہیں ہوئی اور اس کا معیار معلوم کرنا انتہائی دشوار گذار مرحلہ ہے۔

دیکھنا یہ ہے کہ مارکسیت کے پاس ان دونوں مشکلات کا کیاحل ہے اس نے

۲۵۳

فنکاری اور سادگی میں کیا فرق کیاہے ذاتی اوصاف وکیفیات کے معلوم کرنے کے لئے کون سا آلہ ایجاد کیاہے؟

پہلی مشکل کے سلسلہ میں مارکسیت کا بیان یہ ہے کہ عمل کی دو قسمیں ہیں: بسیط اور مرکب۔

بسیط اس عمل کو کہتے ہیں جس میں صرف جسمانی ظاقت کی ضرورت ہو۔اس کے علاوہ کسی قسم کی ذہنی او رفکری صلاحیت درکار نہ ہو،جیسے مزدوری،حمالی وغیرہ۔

مرکب اس عمل کانام ہے جس کے لئے معلومات اور مہارت کی ضرورت پڑتی ہے جیسے ڈاکٹری، انجینئرنگ وغیرہ۔

ظاہرہے کہ قیمت کا معیار بسیط عمل ہی کو قرار دیاجائے گا اس لئے کہ مرکب عمل بسیط سے زیادہ ہوتاہے اس کی پشت پر وہ زحمتیں بھی ہوتی ہیں جو اس کی تحصیل میں صرف ہوتی ہیں مزدور کا ایک ہفتہ انجینئر کے ایک ہفتہ کے برابر نہیں ہوسکتااس لئے کہ انجینئر کے ایک ہفتہ کے ساتھ وہ مدت بھی ضمیمہ کی جائے گی۔جو اس نے ٹریننگ کے دوران گنوائی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا اس تفرقہ سے اصل مشکل کا علاج ہوجائے گا؟ ہمارے خیال میںتو ایسا نہیں ہوگا۔

اس لئے کہ اس بیان کا لازمہ تو صرف یہ ہے کہ اگر کوئی انجینئر بیس سال تک ٹریننگ حاصل کرے اور اس کے بعد 20 سال کام کرے تو اس کی مزدوری 40 سال مزدور کے کام کے برابر ہونی چاہئے۔حالانکہ ایسا ہرگزنہیں ہے۔

واضح لفظوں میں یہ کہاجائے کہ مارکسی قانون کے لحاظ سے انجینئر کا ایک دن مزدور کے دو دن کے برابر ہوگا۔لہٰذا اس کی اجرت دو روز کے برابر ہونی چاہئے۔

آپ انصاف سے بتائیں کیادنیا کے کسی معاشرہ میں ایسا ہوتاہے،کیا کوئی صاحب عقل اسے قبول کرسکتاہے؟

۲۵۴

حسن اتفاق کی بات ہے کہ سودیت دیس نے بھی اپنے یہاں اس قانون کو نافذ نہیں کیا ورنہ اب تک تباہی کے گھاٹ اترگیاہوتا۔

آپ روس کے حالات کاجائزہ لیں وہاں بھی انجینئر کی تنخواہ مزدور سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے۔حالانکہ وقت کے اعتبارسے وہ اتنا زیادہ وقت نہیں صرف کرتا۔

وہاں انجینئروں کی قلت بھی نہیں ہے کہ اسے احتکاری حالات میں داخل کرکے اس کی قیمت بڑھادی جائے۔

حقیقت امر یہ ہے کہ مارکس کا معیار قیمت کے بارے میں اتنا غلط ہے کہ اس کا انطباق ان تمام صورتوں پر ذراناممکن سا نظرآتاہے۔

دوسری مشکل یعنی مزدور کے ذاتی اوصاف کے بارے میں مارکسیت نے یہ حل پیش کیاہے کہ اوسط درجہ کے مزدور کے اعمال کو معیار قرار دیاجائے۔جیساکہ خود مارکس نے لکھاہے:

کسی شیء کی پیداوار کے لئے ضروری وقت وہی ہے جو اس عمل کے لئے ضروری ہواور اوسط درجہ کی قوت ومہارت پر ہورہاہو۔ بنابریں ہر معاشرہ میں قیمت کا تعین عمل کے وقت یا اس کے مقدار سے ہوگابلکہ اسی طرح ہر خاص چیز اپنی نوع کے اوسط درجہ سے شمار ہوگی۔ (راس المال،ج1،ص49،50)

اس عبارت کا مطلب یہ ہے کہ عامل کے ذاتی اوصاف اگر اسے اوسط درجہ کے افراد سے بلند کردیں تو اس کی پیداکردہ قیمت بھی زیادہ ہوجائے گی۔اس لئے کہ معیار اوسط درجہ کاعمل ہے اور اس کا عمل اپنی خصوصیات کے ا عتبار سے اوسط درجہ سے بلند ہے۔

مارکسیت کی سب سے بڑی کوتاہی یہی ہے کہ وہ انسانی عمل پر صرف مقدار کی حیثیت سے نظرڈالتی ہے اس کے علاوہ اس کی نظرمیں کوئی شیء اور نہیں سماتی اس کا خیال یہ ہے کہ اعلیٰ درجہ کے ذاتی حالات بھی صرف عمل کی مقدار پر اثرانداز ہوسکتے ہیں اس کے

۲۵۵

علاوہ ان کا بھی کوئی نتیجہ نہیں ہے۔

اوسط درجہ کا آدمی ایک گھنٹہ میں ایک گز کپڑا بنے گا تو اعلیٰ درجہ کا مزدور دو گزبن دے گا۔اس کے علاوہ اس کے ان صفات کا کوئی اثر نہیں ہے۔

حالانکہ یہ بات انتہائی مہمل ہے اس لئے کہ اکثر اوقات تو ایسا ہوتاہے کہ اعلیٰ درجہ کا باذوق انسان اوسط درجہ کے انسان کے وقت کے برابر ہی کام کرتاہے اور پیداوار کی مقدار بھی برابر ہی ہوتی ہے لیکن یہ اپنے ذاتی ذوق کی بناپر اس میں ایسی خصوصیات پیدا کردیتاہے کہ اس کی قیمت بازار کے لحاظ سے کہیں زیادہ ہوجاتی ہے۔

ظاہرہے کہ ایسے وقت میں نہ عمل میں کوئی تفاوت ہے اور نہ نتیجہ میں لیکن اس کے باوجود قیمت میں تفاوت پیداہوگیاہے۔

آپ نے ملاحظہ کیاہوگاکہ اگر دونقاش ایک ہی گھنٹہ کے اندر ایک ایک نقش تیار کریں تو زیادہ باذوق نقاش کا نقش کہیں زیادہ قیمتی ہوگاحالانکہ وقت بھی ایک ہی ہے اور نقشہ بھی ایک اور بڑے نقاش کے ذوق نے مقدار میں بھی کوئی اضافہ نہیں کیاہے اور یہی وجہ ہے کہ چاربدذوق مل کر بھی ویسا نقش تیار کرنے سے عاجز ہیں۔

معلوم یہ ہواکہ معیار کے موقع پر صرف عمل کی مقدار پر نظر رکھنا اور دیگر خصوصیات سے قطع نظرکرلینا ایک فاش غلطی ہے جس کا ارتکاب ذوق سلیم کے لئے غیر ممکن ہے۔

اس بیان سے یہ بھی واضح ہوگیاکہ عمل کو معیار قرار دیناہمیشہ اس دشواری سے دوچار رہے گا کہ اس کی مقدار اچھی گھڑی سے معلوم ہوجائے گی۔

لیکن اس کی باقی خصوصیات کے لئے کوئی پیمانہ نہ ہوگا۔جس کا نتیجہ یہ ہوگاکہ اس کی واقعی قیمت ہمیشہ مجہول اور نامعلوم رہے گی۔

یہی وہ مشکلات ہیں جو مارکس کے معیار کو مہملات کا درجہ دے دیتے ہیں لیکن میں اسے اس بیان میں معذور خیال کرتاہوں اس لئے کہ اس نے شروع ہی سے ایسا طریقۂ

۲۵۶

استدلال اختیار کیاہے جس کا یہ نتیجہ ناگزیر تھا۔اس نے سب سے بڑی غلطی یہ کی کہ تخت ولباس کے تبادلہ سے بحث کرتے ہوئے دونوں کی استعمالی قدر وقیمت کوبالکل نظراندازکر دیا۔حالانکہ قیمت کی تشکیل میں اس کو بہت زیادہ دخل ہوتاہے۔

ضرورت ہے کہ ایک ایسا امر مشترک تلاش کیاجائے جس کی بنیاد پر عمل کو معیار قرار دینے کے مفاسد بھی رفع ہوجائیں اور استعمالی منفعت کی قدر وقیمت بھی محفوظ ہوجائے۔

اس کی تفصیل یہ ہے کہ کہ تخت اور لباس اگرچہ اپنے استعمالی فائدوں کے اعتبار سے مختلف ہیں لیکن ان دونوں فائدوں کے درمیان ایک نفسیاتی اثرپایاجاتاہے جو واقعی حیثیت سے ان کے تبادلہ کا باعث بنتاہے اور وہ ہے اجتماعی رغبت۔

رغبت کے اعتبار سے دونوں برابر ہیں اس لئے تبادلہ صحیح ہے۔استعمالی فائدے کس قدر مختلف کیوں نہ ہوں ان کا کوئی اثر قیمت پر نہیں پڑتا۔

سماجی رغبت ہی وہ واقعی معیار ہے جس کی بناپر مارکسیت سے پیداہونے والے تمام مشکلات حل ہوجاتے ہیں اور نتیجہ تاریخ کے موافق برآمد ہوتاہے۔

اسی معیار کے پیش نظر کہاجاسکتاہے کہ ایک آثاری خط کا تبادلہ ایک جلد کتاب سے صرف اس لئے صحیح ہوجاتاہے کہ اجتماعی حیثیت سے قدیم خطاطی کی طرف رغبت زیادہ ہوتی ہے اور جدید مطبوعات کی طرف کم۔ورنہ عمل اور وقت کے اعتبار سے کتاب پر زیادہ وقت صرف ہوتاہے۔

استعمالی فائدے کو پیش نظررکھنے کی ضرورت اس بات سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ کسی عمل پر کئی گھنٹے کا وقت صرف کردیاجائے لیکن ایسا فائدہ نہ حاصل ہوسکے جس سے اجتماعی رغبت پیداہوتو کوئی شخص اس کی خریداری کے لئے تیار نہ ہوگا۔اگرچہ عمل کی کافی مقدار صرف ہوگئی ہے۔

۲۵۷

مارکس ا س مشکل کا احساس رکھتاہے لیکن اپنے بنائے ہوئے قانون کی بناپر اسے حل کرنے سے معذور ہے۔وہ استعمالی فائدے کو پہلے ہی نظرانداز کر چکاہے۔

ہمارے قانون کی بناپر اس مشکل کا حل بھی واضح ہوجاتاہے کہ اجتماعی رغبت کا منشا استعمالی فائدہ ہے اور جب یہ فائدہ ہی نہیں ہوگا تو رغبت کیا ہوگی اور جب رغبت نہ ہوگی تو قیمت بھی نہیں لگ سکے گی۔اس لئے کہ قیمت کا معیار رغبت ہے عمل نہیں ہے۔

یہ بھی یادرکھنے کی ضروت ہے کہ رغبت کی بنیاد استعمالی فائدہ پر ضرورہے لیکن اس میں جمود نہیں ہے بلکہ اپنے مخصوص اسباب کی بناپر کمی زیادتی رہتی ہے جتنا زیادہ فائدہ ہوگا اتنی زیادہ رغبت ہوگی۔جتنی قلیل جنس ہوگی اتنی زیادہ رغبت ہوگی۔ اور ظاہرہے کہ جس قدر رغبت زیادہ ہوتی جائے گی اسی قدروقیمت میں اضافہ ہوتاجائے گا اور رسد وطلب بھی صاف ہوجائے گا۔

سرمایہ داری پر مارکسیت کی تنقید

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سرمایہ داری پر مارکسیت کے اعتراضات نقل کرکے ان کو ردکرنے سے ہمار مقصود سرمایہ داری کی حمایت ہے اس لئے کہ وہ اسلام سے ہم آہنگ ہے اس میں بھی سرمایہ دارانہ منافع کا جواز ہے اور اسلام میں بھی ۔اس میں بھی انفرادی ملکیت کا اعتراف ہے اور اسلام میں بھی۔

حالانکہ یہ بالکل غلط ہے۔اسلام ہماری نظرمیں ایک مکمل ضابطۂ حیات اور دستور زندگی ہے۔اس کے اپنے اصول وقوانین ہیں جنہیں نہ سرمایہ داری کے مفاسد سے کوئی تعلق ہے اور نہ اشتراکیت کے محاسن سے۔

۲۵۸

ہمار امقصود صرف یہ ہے کہ مارکس نے اپنی تنقید میں صحیح طریقہ سے نبض پر ہاتھ نہیں رکھااور نہ مرض کی واقعی تشخیص کی ہے اس کا یہ خیال بالکل غلط ہے کہ سرمایہ داری کے جملہ مفاسد کا سرچشمہ انفرادی ملکیت ہے۔

ہمارا فرض ہے کہ مرض کی صحیح تشخیص کرکے شخصی ملکیت کے دامن سے اس دھبہ کو مٹادیں اس کے علاوہ ہمارا کوئی مدعا نہیں ہے۔

ہم تو ان مسلم قلم کاروں کو بھی غلط انداز سمجھتے ہیں جو اشتراکیت کی عداوت میں مغرب کی سرمایہ داری کی حمایت کرنے لگتے ہیں اور اپنی دانست میں یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ اس طرح دین اسلام کی خدمت کررہے ہیں۔

صاحب نظرکا فریضہ ہے کہ اقتصادیات پر قلم اٹھانے سے پہلے دوباتوں پر نظرکر لیاکریں:

(1) مسلم قلمکار کا یہ فرض نہیں ہے کہ وہ مغربی سرمایہ داری کی حمایت کرے اور اس پر وارد ہونے والے صحیح اعتراضات کوبھی غلط تصور کرکے ٹھکرادے صرف اس لئے کہ اسلام بھی انفرادی ملکیت کا حامی ہے

(2) سرمایہ دارمعاشرہ کی موجودہ حالت کی ابتری کا کوئی تعلق شخصی ملکیت سے نہیں ہے۔ یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ جس جس نظام میں ایسی ملکیت کا تصورہووہاں یہ مفاسد ضرور پائے جائیں۔ جیساکہ مارکسیت نے خیال کیاہے اور فقر وفاقہ، احتکارو استعمار ، بے کاری اور بے عاری سب کو اسی ملکیت کا نتیجہ قرار دے دیاہے۔

مارکسیت کے اس خیال پر ہمارے دو بنیادی اعتراضات ہیں:

(1) مارکسیت نے سرمایہ دار نظام کے سیاسی، اقتصادی اور فکری اصول پر غور کئے بغیر اسے شخصی ملکیت کا مترادف قراردے کر اس کی ساری خرابیوں کو اسی ملکیت کے سرڈال دیاجو کسی طرح بھی روا نہ تھا۔

۲۵۹

(2) سرمایہ داری کے ارتقاء وتناقض کے بارے میں اس کے وضع کردہ اصول وقوانین غلط اور خلاف واقع ہیں۔

سرمایہ داری کی سب سے اہم نقیض جس پر اس طبقاتی نزاع کی بنیاد ہے جس کے نتیجہ میں سرمایہ دار نظام کا خاتمہ ہوگااور اشتراکیت وجود میں آئے گی۔مارکس کی نظرمیں وہ ''زائد قیمت''ہے جسے سرمایہ دار مزدور سے غصب کرلیتاہے۔

اس مسئلہ کی تفصیل یہ ہے کہ ہر شیء کی قیمت اس کے اندر صرف شدہ عمل اور محنت سے لگائی جاتی ہے۔

اگرکوئی شخص ایک دینار کی لکڑی خرید کر اس کا تخت بنوائے اور پھراسے دو دینار میں فروخت کردے توظاہرہے کہ اس ایک دینار کا اضافہ صرف عمل کی بناپر ہوگا جو مزدور نے اس میں صرف کیاہے۔

تقاضائے انصاف تویہ ہے کہ سرمایہ دار وہ پورا دینار مزدور کے حوالے کر دے اس لئے کہ یہ اسی کے عمل کا نتیجہ ہے اس طرح کسی قسم کا ظلم بھی نہ ہوگا،سرمایہ دار کا دیناربھی محفوظ رہے گا اور مزدور کا دینار بھی اسے مل جائے گا۔

لیکن ظاہرہے کہ سرمایہ دار ایسا نہیں کرتاوہ مزدور کو اجرت دے کر روانہ کردیتاہے اور اس کو اپنی پوری ملکیت نہیں ملتی بلکہ اس میں سے ایک حصہ غصب ہوجاتاہے یہی حصہ ہے جس کو اصطلاحی اعتبا رسے''زائد قیمت''کہاجاتاہے۔اس لئے کہ یہ وہ قیمت ہے جسے سرمایہ دار نے اپنے حق سے زیادہ لے لیاہے۔دوسرے لفظوں میں یوں کہاجائے کہ مزدور قیمت زیادہ پیدا کرتاہے اور اجرت اسے کم ہی ملتی ہے جس کے نتیجہ میں چھوٹی چھوٹی اجرت جمع کرکے سرمایہ دار ایک ثروت کا مالک ہوجاتاہے اور مزدور اپنے حق سے محروم ہوجاتا ہے۔

مارکس فائدہ کے سلسلہ میں اپنی اس تشریح کو پوری سرمایہ داری کا راز خیال کرتاہے اور اس کا نظریہ یہ ہے کہ ہم جس وقت پیداوار کا تجزیہ کرتے ہیں تو اس کے علاوہ

۲۶۰