اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب0%

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 391

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ شھید باقر الصدر طاب ثراہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 391
مشاہدے: 104421
ڈاؤنلوڈ: 3731

تبصرے:

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 391 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 104421 / ڈاؤنلوڈ: 3731
سائز سائز سائز
اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

امتیاز کے مواقع اس پارٹی کو جاگیرداروں اور سرمایہ داروں سے بھی زیادہ حاصل ہیں۔

اگر ہم مارکس کی اصطلاحوں میں گفتگو کرنے کے عادی ہوتے تویہ کہتے کہ اس نظام میں حقیقی ملکیت اس حاکم جماعت کی ہے اور لفظی یاقانونی ملکیت تمام افراد معاشرہ کی اور یہ بات خود ہی ایک تضاد وتناقض کا سرچشمہ ہے اس لئے کہ ملکیت تصر ف میں آزادی چاہتی ہے اور یہ بات صرف حکام کو حاصل ہے۔عوام اس سے بالکل محروم ہیں۔

حکام کی مالکیت اور عام مالکوں کی ملکیت میں اتنا فرق ضرور رکھاگیاہے کہ عام افراد اپنے کو مالک کہہ سکتے ہیں لیکن حکام کو یہ اختیار نہیں ہے۔ان کا فریضہ ہے کہ اپنی ملکیت کو حقوق وامتیازات سے تعبیر کریں۔

میر اخیال ہے کہ تایخ میں ایسے شرمیلے مالک کم پیداہوئے ہوں گے جو اپنے کو مالک بھی نہ کہہ سکیں۔

یادرکھنا چاہئے کہ ملکیت کی عمومیت کا قانون اشتراکیت کے دور کا جدید حادثہ نہیں ہے بلکہ تاریخ میں اس سے پہلے بھی اس کا تجربہ ہو چکاہے۔چنانچہ بعض بیلنیٹ ممالک اور قدیم مصر نے بھی اپنے یہاں اس قانون کو رائج کیاتھا۔پیداوار کی نگرانی اپنے ذمہ لی تھی اور اس کے نتیجہ میں بے شمار فائدے حاصل کئے تھے لیکن چونکہ اس نظام پر فرعونیت غالب تھی اس لئے وہ اپنے راز کو پوشیدہ نہ رکھ سکی اور آخر کار یہ بھی ظاہر ہوگیاکہ حکومت کے زیر اثر اجتماعی ملکیت دراصل حکومت ہی کی ملکیت کا دوسر نام ہے اور یہ بھی واضح ہوگیا۔کہ ایسے نظام میں خیانیت بے حد ہوتی ہے۔چنانچہ حکومتی اقتدار واستبداد نے اسے اس منزل پر پہنچا دیاکہ بادشاہ نے خدائی کا لباس اختیار کرلیا اور پھر ساری دولت اس خدائی پر صرف ہونے لگی،کبھی عبادت گا ہوں پر توکبھی قصوروقبور پر۔

آپ اسے اتفاق نہ سمجھیں کہ ان دونوں معاشروں میں پیداوار کی رفتار تیز ہوگئی اور مملکت کو کافی منافع حاصل ہوگئے۔اس لئے کہ یہ ہر اس معاشرہ میں ہوگا جہاں کام لینے

۲۸۱

والا مطلق العنان ہو اور کام کرنے والا مجبور محض، اخلاقیات نام کو نہ ہوں اور روحانی اقدار بے معنی ہوں۔

مادیت پوی زندگی کا مقصد ہواور اقتصادیات سارے اقتدار کا ہدف۔

اب چونکہ دونوں معاشروں میں یہی اسباب جمع ہوگئے تھے اس لئے پیداوار کی رفتار کا تیز ہوجانا ضروری اور لازمی تھا۔

یہ بھی کوئی تعجب خیز بات نہیں ہے کہ ہم نے دونوں تجربوں میں حاکم جماعت پر خیانت کا الزام سنا ہے۔جیساکہ اسٹالین نے خود بھی اعتراف کیاتھا کہ''آخری جنگ کے دوران حاکم جماعت کو اتنا موقع مل گیاکہ اس نے اپنے لئے بے پناہ اموال جمع کر لئے۔''

بظاہر مملکت میں یہ بات اس قدر عام ہوچکی تھی کہ اسٹالین نے برسراعلان کہہ دینے میں کوئی عیب نہیں محسوس کیا۔

ان بیانات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ دونوں تجربے اگرچہ حالات اور زمانہ کے اعتبار سے بالکل مختلف تھے لیکن اس کے باوجود آثار ونتائج کے اعتبار سے بالکل یک رنگ اورمتحد تھے۔جس کا مطلب یہ ہے کہ اس طریقہ کی عمومیت اگرچہ پیداوار کے حق میں مفید ہوتی ہے لیکن اسی کے ساتھ ساتھ ان نتائج میں بھی مبتلا ہوجاتی ہے جس میں فرعونیت اور اشتراکیت دونوں کومبتلا ہونا پڑا۔

اشتراکیت کا چوتھا رکن ہے تقسیم ثروت بحسب عمل اس کی توجیہ تاریخی مادیت کی بناپر یوں کی جاتی ہے کہ جب سرمایہ داری کے خاتمہ کے ساتھ مالک ومزدور کے امتیازات ختم ہوجائیں گے اور معاشرہ یک رنگ ہوجائے گا تو اس وقت ملکیت کی کوئی بنیاد سوائے عمل کے باقی نہ رہے گی۔اس لئے کہ عمل ہی قیمت کی بنیاد ہوتاہے۔اب جو شخص زندگی چاہے گا وہ عمل کرے گا اور جو شخص جس قدر زیادہ عمل کرے گا یعنی قیمت پیداکرے گا اسی قدر اس کا استحقاق بھی ہوگا۔اس لئے کہ معاشرہ میں ''زائد قیمت''کا سرقہ نہیں ہوتا۔

۲۸۲

ایک حقیقت یہ ہے کہ قانون خود ہی ایک طبقیت کی بنیاد ہے اس لئے کہ تمام انسانوں کے اعمال ایک جیسے نہیں ہوتے۔ان میں خود واضح حد تک اختلاف ہوتاہے۔ایک شخص تواناہے وہ آٹھ دس گھنٹے کام کرے گا۔ایک ناتواں اور لاغر ہے وہ چھ گھنٹے سے زیادہ کام نہ کرسکے گا۔

ایک میں فطری صلاحیتیں ہیں وہ کام میں ندرت پیداکرے گا ایک تقلیدی حیثیت رکھتاہے۔اس کے کاموں میں بھی تقلیدی انداز ہوگا۔ایک ماہر فن ہے وہ برق وکہرہاء کے کام کر سکتاہے۔ایک سادہ لوح ہے وہ فقط حمالی کرے گا۔

ظاہرہے کہ اعمال کے اس اختلاف سے قیمتوں میں اختلاف ہوگا اور قیمت کے اختلاف سے ملکیتوں میں تفاوت ہوگا اور اس طرح ایک طبقاتی معاشرہ وجود میں آجائے گا۔

مارکسیت کو اپنے اس انجام کا احساس تھا اس لئے اس نے عمل کو بسیط ومرکب کی شکلوں میں تقسیم کر دیا تھا لیکن ظاہرہے کہ اس کے باوجود اس کے پاس دو ہی قسم کے حل ہیں:

(1) اپنی بنائی ہوئی تنظیم پر عمل درآمد کرے اور اس طرح ایک نئے طبقاتی معاشرہ کی ایجاد کردے جس کے خاتمہ کے لئے برسوں سے جنگ وجدل قائم رہی ہے۔

(2) اپنے قانون سے دستبردار ہوکر اچھے مزدوروں کی اجرت کا ایک حصہ قطع کرے تاکہ تقسیم مساوی حیثیت سے ہواور طبقات وجود میں نہ آسکیں اور اس طرح سرمایہ داران سرقہ کا شکار ہو۔

مارکسیت نے اس مقام پر نظریہ اور اس کے انطباق میں شدید اختلاف سے کام لیا ہے انطباق یعنی اشتراکی معاشرہ کی موجودہ حالت سے معلوم ہوتاہے کہ وہاں اعمال کی اجرتوں میں اختلاف ہے اور ظاہرہے کہ اگر ایسا نہ ہوتا اور ایک حمال کو ایک فوجی، سیاسی، عالم وماہر فن کے برارکر دیاجاتاتو کوئی شخص بھی دشوار گذار اور مشکل علمی مشاغل کو اختیار نہ کرتا سب معمولی معمولی کاموں کی طرف متوجہ ہوتے اور برابر کی اجرت لیتے اور اس طرح

۲۸۳

معاشرہ چند ہی دنوں میں تباہی کے گھاٹ اترجاتا۔

یہی وجہ تھی کہ اجرتوں میں تفادت رکھاگیا اور اس طرح کی نگرانی کے لئے ایک زبردست خفیہ پولیس کا محکمہ قائم کیاگیاتاکہ وہ ان اعمال اور اجرتوں کی نگرانی کرے مگر افسوس کہ ان تمام باتوں کے باوجود جب پردۂ ظلمت چاک ہواتو سوائے طبقاتی نظام کے اور کچھ نظرنہ آیا۔

نظریہ کے اعتبار سے مارکسیت نے جو حل پیش کیاہے وہ انگلز کے لفظوں میں (صند دو ہرنگ )سے سماعت فرمایئے۔

سوال یہ ہے کہ مرکب اعمال کی زیادہ اجرت کا مسئلہ کیسے حل ہوگا۔یہ تو بڑا اہم مسئلہ ہے؟

اس کا حل یہ ہے کہ آزاد(سرمایہ دار)معاشرہ میں اس عمل کی مہارت کی ذمہ داری خود افراد پر ہوتی ہے۔اس لئے کہ اس کا معاوضہ انہیں ملنا چاہئے۔اور اشتراکی معاشرہ میں یہ ذمہ داری حکومت کے سرہوتی ہے۔لہٰذا اس مہارت کے صلے میں جو اجرت ملنے والی ہوگی اس کا استحقاق حکومت کو ہوگا افراد کو نہیں؟ (صنددوہر نگ،ج2،ص92)

انگلز نے اپنے اس بیان میں یہ فرض کیا ہے کہ مرکب اعمال کی خصوصیات کو اس ٹریننگ کے مقابلہ میں قرار دیاجائے گا جس کے نتیجہ میں یہ صلاحیت پیداہوئی۔اب چونکہ سرمایہ دار معاشرہ میں ٹریننگ افراد کے ذمہ ہے اس لئے استحقاق ان کا ہوگا اور اشتراکی معاشرہ میں یہ کام حکومت اپنے ذمہ لے گی لہٰذا اس زیادتی کا استحقاق بھی اسی کا ہوگا۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ بیان حقیقت سے پوری پور ی مخالفت رکھتاہے۔دنیا جانتی ہے کہ سرمایہ دار معاشرہ میں ماہر انسان اس مقدار سے کہیں زیادہ کمالیتاہے جو اس نے اس مہارت کے حاصل کرنے میں صرف کی ہے۔

علاوہ اس کے انگلز نے یہ بیان دیتے وقت مارکسی اصولوں کا بھی بغورمطالعہ نہیں

۲۸۴

کیا ورنہ وہ یہ دیکھتاکہ مارکسیت میں ماہر فن انسان کی اجرت میں اس لئے اضافہ نہیں ہوگا کہ اس نے مہارت حاصل کی ہے بلکہ وہاں موجودہ عمل کے ساتھ اس مقدار عمل کا اضافہ کر دیا جاتاہے جو اس نے اس زمانہ مہارت میں صرف کیاہے۔

اس بنیاد پر ہم یہ فرض کرتے ہیں کہ ایک شخص نے دس سال ٹریننگ حاصل کی اور اس کی اس تربیت پر ایک ہزار دینار خرچ کئے توظاہر ہے کہ یہ ایک ہزار اس تربیت کی قیمت ہیں لیکن اس عمل کی قیمت سے کہیں کم ہیں جو اس نے ٹریننگ کے زمانہ میں کیاہے جس طرح کہ قوت پیداکرنے کی زحمت نتیجہ میں ظاہرہونے والے عمل سے کہیں زیادہ کم ہوتی ہے۔

ایسی صورت میں اگرمزدور پر صرف ہونے والا عمل مقدار کے اعتبار سے اس عمل سے کم ہوجائے جو اس نے زمانہ تربیت میں کیاہے تواس باقی اجرت کا حقدار کون ہوگا۔ظاہر ہے کہ حکومت کو اس کا حق نہیں ہے۔اس لئے کہ اس نے اگر ایک ہزار صرف کئے ہیں تو اس سے زیادہ کام لے لیاہے۔اب اگر اس اجرت کو بھی لے لے تو یہ وہی حرکت ہوگی جو سرمایہ دار لوگ کیاکرتے تھے۔اور اگر دے دے تو طبقات کی بنیاد قائم ہوجائے گی۔

ایک دوسری بات جو انگلزکے ذہن سے نکل گئی تھی یہ ہے کہ عمارت کی شائستگی اور خوبی ہمیشہ تربیت ہی سے نہیں پیداہوتی ہے۔بلکہ کبھی کبھی اس میں انسان کی صلاحیت بھی دخل اندازہوتی ہے۔با صلاحیت انسان ایک ساعت میں اتنی ہی قیمت ایجاد کردیتاہے۔

جتنی قیمت بے صلاحیت مزدور دو ساعت میں ایجاد کرتاہے۔اب ایسی صورت میں مارکسیت اس زیادتی کو دے گی یا نہیں۔اگر دے دے گی تو طبقیت اور اگرنہ دے تو ظلم۔ دونوں صورتیں اچھے معاشرہ کے مطلوب کے خلا ف ہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ مارکسیت کے سامنے دوہی راستے ہیں جن میں سے کسی ایک کا اختیار کرنا ناگزیر ہے:

(1) اپنے نظریہ کو منطبق کرکے ہر شخص کو بقدر عمل اجرت دے اور اس طرح ایک جدید

۲۸۵

طبقاتی معاشرہ کی بنیاد ڈال دے۔

(2) اپنے نظریہ سے دست بردار ہوکر بسیط ومرکب،عادی اور دقیق اعمال کو مساوات کی نظر سے دیکھے اور اس طرح ماہر فن مزدور کے عمل سے ایک حصہ سرقہ کرلے جیسا کہ سرمایہ داری کے دور میں ہواکرتاتھا اور جس سے پناہ حاصل کرنے کے لئے اشتراکیت کا انقلاب برپاکیاگیاتھا۔

اشتمالیت

اشتراکیت کے بعد سلسلۂ بحث اس آخری مرحلہ تک پہنچ جاتاہے جسے مادیت تاریخ کی زبان میں دنیوی جنت سے تعبیر کیاجاسکتاہے۔جہاں پہنچ کر قافلۂ تاریخ ایک منزل پرتوقف کرے گا اور انسان اشتمالیت کی حسین اورمطمئن زندگی بسر کرے گا۔اس اشتمالیت کے دواہم رکن ہیں:

(1) انفرادی ملکیت کا انکار

(2) حکومت کا خاتمہ

(1) انفرادی ملکیت کے بارے میں اس کا خیال یہ ہے کہ اس معاشرہ میں اس کا نام بھی نہ لیاجائے گا۔تمام املاک خواہ وہ سرمایہ دارانہ ہوں یا شخصی، سب کو عوام کی ملکیت قرار دیاجائے گا۔اور پھر ایک معین ضابطہ کے ساتھ تقسیم کیاجائے گا۔

(2) خاتمۂ حکومت کے بارے میں یہ خیال ہے کہ اشتراکی دور کی مختصر حکومت کابھی خاتمہ کردیاجائے گا اور لوگوں کے ذہن سے حکومت کا تصور ہی مٹادیاجائے گا۔

یادرہے کہ اشتراکیت میں انفرادی ملکیت کا انکار''زائد قیمت''کے قانون پر مبنی

۲۸۶

تھا لیکن اس مقام پر اس انکار کا کوئی علمی مدرک نہیں ہے بلکہ اسے اس فرض پر تسلیم کیاگیاہے کہ اشتراکیت کے دور میں پیداوار ثروت اور اموال کی اس قدر فراوانی ہوجائے گی کہ ہر شخص کو اس کی ضرورت کے مطابق مال مل جائے گا۔تقسیم میں عمل کے بجائے حاجت ہی کو معیار قرار دیاجائے گا۔ظاہرہے کہ بقدر ضرورت مال مل جانے کے بعد انسان انفرادی ملکیت کانام بھی نہیں لے گا۔

انصاف تویہ ہے کہ ہم نے آج تک اس سے بہتر نہ کوئی خواب دیکھاہے اور نہ سناہے اس لئے کہ اس بیان کے مطابق تومارکسیت دہرے دہرے معجزے کرے گی۔

اول تو انفرادی ملکیت کے چھن جانے سے دکھے ہوئے دلوں میں پیداوار کی امنگ پیداکرے گی اوروہ پوری دلچسپی سے کام کریں گے۔

پھر عالم طبیعت میں اتنی وسعت پیداکرے گی کہ ہر شیء ہوااور پانی کے مانند بقدر کفایت پیداہوتاکہ اموال کی تقسیم بقدر ضرورت ہو۔نہ کوئی مزاحمت ہواور نہ کسی کوشوق ملکیت۔

ہم نے اپنی بدقسمتی سے آج تک یہ معجزہ نہیں دیکھاااور نہ مارکسیت کے پرستاروں ہی نے دیکھاہے۔اسی لئے ان کو بھی یہ اعتراف کرنا پڑاکہ فی الحال اشتمالیت کا قیام غیر ممکن ہے خودلینن نے پہلے تو اشتمالیت قائم کرنے کے لئے زمینداروں سے زمینیں لے لیں،کاشتکاروں سے ان کے آلات چھین لئے۔ لیکن جب سب نے عمل سے انکار کر دیا اور ملک میں قحط شروع ہوا تو پھر انہیں حق ملکیت دے دیا اور ملکت کو پہلی حالت کی طرف پلٹا دیا۔یہاں تک کہ 3837ء تک دوسرا انقلاب کیاگیاتاکہ اس ملکیت کو ناجائز قرار دیاجائے لیکن کاشتکاروں نے بھوک ہڑتال کر دی اور کشت وخون پر آمادہ ہوگئے۔ قیدخانے چھلکنے لگے، قربانیاں ایک لاکھ تک پہنچ گئیں اور 32 ء تک بھوک سے مرنے والوں کی تعداد 40 لاکھ تک پہنچ گئی اور حکومت نے اپنا طرز عمل بدل دیا، کاشتکاروں کو تھوڑی سی زمین

۲۸۷

اور کچھ حیونات دے دیئے تاکہ انہیں کلخوذپارٹی کا ممبر بنایا جائے اور حکومت اس کی نگرانی کرتی رہے۔

خاتمۂ حکومت کے بارے میں مارکسیت کا کہناہے کہ حکومت طبقاتی نظام کا نتیجہ ہوتی ہے۔لہٰذا جب یہ طبقات ختم ہوجائیں گے اور اشتراکی نظام بروئے کارآجائے گا تو پھر حکومت کا سوال ہی نہ رہے گا۔

ہمارا سوال یہ ہے کہ اشتراکی قید وبند سے اشتمالی آزادی کیسے پیداہوگی؟کوئی نیا انقلاب برپاہوگایا خود بخود حکومت کا تصور مضمحل ہوجائے گا؟اگرانقلاب ہوگا تو انقلابی کون ہوگا؟یہاں تو انقلاب حکومت کی مخالف جماعت کیاکرتی ہے توکیا مزدوروں کے علاوہ کوئی جماعت پھر پیداہوگی۔اور گرتدریجاً خود بخود ختم ہوگی تو یہ جدلیت کے خلاف ہے اس لئے کہ وہاں کیفیت اور نوعیت کا انقلاب دفعتاً ہوتاہے۔تدریج کا کوئی تصور نہیں ہوتا۔

پھر یہ کہ حکومت روز بروز ترقی کرتی ہے۔یہ اشتراکیت کیسے کمزور ہوجائے گی۔

ہر اشتراکیت میں ایک مطلق العنان حکومت ہوتی ہے اور اس سے بعید ہے کہ مستقبل کے لئے اپنی منزل سے انکار کردے اور عام افراد کے مثل ہوجائے اور اگر ایسا ہوبھی جائے تو کیا بقدر ضرورت تقسیم میںضرورت کی تعین کے لئے یادو ضرورتوں کی مزاحمت میں ترجیح دینے کے لئے یا صحیح تقسیم کی نگرانی کے لئے کسی حاکم طبقہ کی ضرورت نہ ہوگی؟

۲۸۸

سرمایہ داری کے ساتھ

(1)سرمایہ دار تنظیم کے بنیادی نکات

(2)سرمایہ دار تنظیم کا علمی قوانین سے ارتباط

(3)سرمایہ دار تنظیم علمی قوانین میں بھی دخیل ہے

(4)سرمایہ دار تنظیم کے افکار واقدار پر نقد ونظر

۲۸۹

۲۹۰

سرمایہ دار تنظیم کے بنیادی نکات

تمہید

ابتدائے کتاب میں اس امر کی طرف اشارہ کیاجاچکاہے کہ اقتصادکے دو شعبے ہیں۔علم ومذہب،علم سے مراد ان قوانین طبیعت کومعلوم کرناہے جو بلاکسی شخص کی دخالت کے اپنا کام انجام دے رہے ہیں اور مذہب سے مراد وہ تنظیم ہے جس کے انطباق سے معاشرہ کی اصلاح اور سدھار کا دعویٰ کیاجاتاہے۔سرمایہ داری میں بھی یہی دونوں شعبے پائے جاتے ہیں لیکن اکثراہل فکروقلم حضرات نے اس نکتہ سے غفلت کرکے یہ خیال کرلیا ہے کہ علم ومذہب دونوں ایک چیزہیں اور اسی لئے ان لوگوں نے ایک کے مطالب کو دوسرے میں داخل کرکے اصل مفہوم کو بعیداز قیاس بنادیاہے حالانکہ ایسا ہونا نہ چاہئے تھا۔

اس مقام پر سرمایہ داری اور اشتراکیت میں ایک فرق پایاجاتاہے اور وہ یہ کہ اشتراکیت کے جملہ تنظیمات اس کے علم الاقتصاد یعنی تاریخی مادیت سے ماخوذ ہیں۔وہ اپنے نظام کو حرکت تاریخ کا حتمی نتیجہ قرار دیتی ہے لیکن سرمایہ داری میں ایسا نہیں ہے۔اس کی تنظیم علم سے اس قدر متحد نہیں ہے اوریہی وجہ ہے کہ اس مقام کی ہماری گفتگو گذشتہ گفتگو سے مختلف ہوگی ہم پہلے سرمایہ داری کے بنیادی نکات پیش کریںگے۔اس کے بعد علم الاقتصاد سے ان کا ارتباط و تعلق دیکھیں گے اور آخر میں علمی قوانین کی روشنی میں ان تنظیمات کا جائزہ لیں گے۔

۲۹۱

۲۹۲

ارکان سرمایہ داری

ان نظام میں تین ایسے اصول پائے جاتے ہیں جن کی بناپر یہ جملہ نظام ہائے زندگی سے ممتاز اور جداگانہ حیثیت رکھتاہے:

(1)آزادیٔ ملکیت:

اس نظام کاقانون یہ ہے کہ ہرفرد کو ملکیت میں مطلق العنان ہوناچاہئے۔اس پر کسی قسم کی پابندی نہ ہونی چاہئے۔حکومت کا فرض صرف یہ ہے کہ اس کی اس آزادی کی حمایت کرے۔ہاں اگر کسی وقت اجتماعی مصالح کی بنا پر کسی ملکیت کو عام کرنے کی ضرورت پڑجائے تو اسے مملکت پر صرف کیاجاسکتاہے۔

درحقیقت یہ نظام،اشتراکیت سے پوراپورا تضاد رکھتاہے۔وہاں اصلی حیثیت اجتما ع کو حاصل تھی۔افراد کو املاک،استثنائی حالت میں دی جاتی تھیں اور یہاں اصل حیثیت افراد کو حاصل ہے۔اجتماع پر ان کے اموال کو صرف بعض ضروری حالات میں صرف کیاجاسکتاہے۔

(2)آزادیٔ تصرف:

ہر شخص کو اس بات کا ختیار ہوگاکہ اپنے اموال میں اضافہ کرنے کے لئے پیداوار کے مختلف ذرائع استعمال کرے۔اپنی زمین میں چاہے تو خود زراعت کرے چاہے اسے کرایہ پردے دے یا بیکا رپڑارہنے دے۔حکومت کو دخل اندازی کا اختیارنہ ہوگا۔

۲۹۳

اس قانون کا منشا یہ ہے کہ ہر شخص اپنے مصالح کو بہترجانتاہے اور اس کے لئے بہتر سعی کرسکتاہے۔لہٰذا اگر نظام اقتصادی کو اسی محور پر چلادیاجائے تو قہری طور پر پیداوار میں اضافہ ہوگا اور معاشرہ کی حالت سدھر جائے گی۔

(3)آزادیٔ صرف:

ہر شخص کو اپنے اموال کو صرف کرنے کا اختیار ہونا چاہئے جس طرح جس راہ میں چاہے صرف کرسکتاہے۔ہاں اگر کسی اجتماعی مصلحت کی بناپر حکومت رد کردے تو پھر اسے رک جانا پڑے گا اس لئے کہ اجتماعی مصلحت ایک اہم درجہ رکھتی ہے جیسے منشیات کا کاروبار۔

سرمایہ داری کے ان اصول وقوانین کا خلاصہ تین الفاظ ہیں:

(1)آزادیٔ ملکیت

(2)آزادیٔ تصرف

(3)آزادیٔ صرف

سرمایہ داراوراشتراکیت کا تناقض تویہیںسے واضح ہوجاتاہے کہ دونوں کا مرکز نظربالکل بدلاہواہے۔اشتراکیت میں بنیادی ملکیت معاشرہ کی ہے۔افراد کو اموال صرف استثنائی حالت میں دیئے جاتے ہیں۔اور سرمایہ داری اس کے بالکل برعکس ہے یہاں ملکیت کا براہ راست تعلق افراد سے ہے۔جماعت کے اختیارات صرف استثنائی حالت کے لئے ہیں۔

لیکن بعض اہل نظرنے ایک دوسرا فرق بھی قائم کیاہے جو اسی بنیادی فرق سے پیداہوا ہے اور وہ یہ کہ سرمایہ دارانہ نظام کی نظرفرد پر ہوتی ہے۔وہ اس کی مصلحت کا خواہاں ہوتاہے اور اسی کو اپنے نظام اقتصاد کا محور قراردیتاہے۔

اشتراکی نظام میں افراد پر نظرنہیں ہوتی ہے بلکہ پورے اجتماع کو ایک نظر سے

۲۹۴

دیکھا جاتاہے انہیں کے نفع ونقصان کو معیار قرار دیاجاتاہے۔یعنی سرمایہ دارانہ نظام افرادی ہے اور اشتراکی نظام اجتماعی۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ انکشاف بالکل ہی غلط ہے اور اس کامنشا ایک بڑا حسین فریب ہے جو اشتراکیت کی طرف سے استعمال ہوتاہے اور عام اہل نظراسے نہیں سمجھ سکتے ورنہ در اصل دونوں نظام افرادی ہیں اور دونوں ہی میں افراد کو محورومرکز قرار دیاگیاہے۔

فرق یہ ہے کہ سرمایہ داری کی نظرنیک بحث اور ثروت مند افراد پر ہوتی ہے۔ وہ انہیں کی خیر خواہی کرتی ہے اور انہیں کے مصالح کو معیار قرار دیتی ہے۔اور اشتراکیت کا مطمح نظروہ پسماندہ طبقہ ہوتاہے جو ثروت مندوں کے مظالم سے پامال ہوتارہتاہے وہ اس طبقہ کے افراد کو سرمایہ داروں کے خلاف ابھارکر ان میں یہ شعور پیداکرتی ہے کہ یہ تمہاری ''زائد قیمت''کے چور ہیں۔

ان کے مظالم پر سکوت تمہاری حمیت وغیرت کے خلاف ہے اور یہ کوشش اس وقت تک جاری رہتی ہے جب تک کہ انقلاب کے تمام جراثیم مہیا نہ ہوجائیں اور معاشرہ میں انقلاب نہ آجائے۔

ظاہرہے کہ اس تحلیل کی بناپر دونوں کا مرکز نظروہی فرد ہے چاہے وہ ترقی یافتہ ہویا پسماندہ ۔

اجتماعی مذہب تو وہ ہوگا جس کی نظراس طرح سے افراد پر نہ ہوبلکہ انہیں اپنی مسئولیت اور ذمہ داری کا احساس دلائے تاکہ وہ از خود اپنے املاک کو اجتماعی مصالح پر قربان کریں نہ اس تصور کے ساتھ کہ انہوں نے دیگر افراد کا مال چرایاہے۔اور اب اسے واپس کر رہے ہیں بلکہ اس احساس کے ساتھ کہ وہ اپنے انسانی اور اخلاقی فریضہ کو اداکررہے ہیں اور اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہہ رہے ہیں۔

سوال صرف یہ رہ جاتاہے کہ وہ اجتماعی مذہب کون ساہے؟یہی وہ مقصد ہے جس

۲۹۵

کی تحقیق کے لئے یہ کتاب تالیف کی گئی ہے۔

(1)سرمایہ دار تنظیم کا عملی قوانین سے ارتباط

تاریخ اقتصادیات کی صبح اول جب اس علم کا سنگ بنیاد رکھا جارہاتھا تو علماء اقتصاد کے ذہن میں دو فکریں گونج رہی تھیں:

(1) اقتصادی زندگی چند طبیعی قوتوں کا نتیجہ ہے جو معاشرہ کے جملہ شعبوں پر اسی طرح حکومت کرتی ہیں جس طرح دوسرے طبیعی قوانین ۔علم الاقتصاد کا فریضہ ہے کہ ان قوتوں کے قوانین اور ان کے تقاضے معلوم کرے تاکہ انہیں کی روشنی میں تاریخ اقتصاد کا تجزیہ کیاجائے۔

(2) یہی طبیعی قوانین اگر اپنی آزادی پر باقی رہیں اور کھلی فضا میں کام کریں تو انسان پوری پوری رفاہیت سے زندگی بسر کر سکتاہے۔بشرطیکہ آزادی کا تعلق ملکیت، تصرف اور صرف تمام شعبوں سے ہو۔

پہلی فکر پر علم الاقتصاد کی بنیاد رکھی گئی تھی اور دوسری پر اقتصادی مذہب و تنظیم کی۔

بظاہر اس وقت کے مفکرین نے یہ طے کرلیاتھاکہ یہ دونوں فکریں باہم متحدہیں اور یہی وجہ ہے کہ آزادی پر ہر قسم کی پابندی کو عالم طبیعت سے مقابلہ خیال کرتے تھے اور اسے ایک ناقابل تلافی جرم قرار دیتے تھے۔ان کی نظرمیں اس پابندی کے پس منظر میں پورے سماج کی تباہی مضمر تھی۔

حالانکہ آج کے دور میں یہ فکر بالکل مضحکہ خیز ہے ۔آج طبیعی قوانین کی مخالفت

۲۹۶

جرم نہیں ہوتی بلکہ ان قوانین کے باطل ہونے کی دلیل ہوتی ہے ورنہ یہ کیونکر ممکن ہے کہ کوئی شخص عالم طبیعت کے قوانین وقواعد کی مخالفت کرسکے۔جب کہ وہ تمام انسانوں کی دسترس سے بالاتر ہیں ۔اور اپنے مخصوص شرائط وحالات کے ساتھ اپنے اعمال انجام دے رہے ہیں۔

انسان کے امکان میں فقط اتنی سی بات ہے کہ ان حالات میں تغیر پیداکردے اور پھر ان قوانین کے دیگر آثارسے فائدہ اٹھائے جیساکہ فزکس میں ہواکرتاہے۔

لہٰذا ان قوانین پر اس انداز سے نظرنہ ہوئے گی کہ یہ عالم طبیعت کے قوانین کے حتمی نتائج ہیں بلکہ ان کو مستقل حیثیت دے کر دیکھاجائیگاکہ یہ انسان کی سعادت ونیک بختی کے اسباب کہاں تک مہیاکرسکتے ہیں جیساکہ آخری دور کے نقادوں نے کیاہے۔

یہیں سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اشتراکیت اور سرمایہ داری پر تبصرہ کی نوعیت بالکل مختلف ہے۔

اشتراکی نظام تاریخی مادیت کا حتمی نتیجہ ہے اس لئے وہاں مرکز بحث ونظر اس مادیت کو قرار دیاجائے گا اور سرمایہ دار نظام اخلاقی اور عملی افکار کی بنیادوں پرقائم ہواہے اس لئے یہاں ان افکار واقدار سے بحث کیجائے گی۔

ہم بحیثیت ایک مسلم نقاد کے جب اشتراکیت کے سامنے آتے ہیں تو ان بنیادوں پر بھی نظرکرتے ہیں جن کا لازمی نتیجہ اشتراکیت کو قرار دیاگیاہے اور اسی لئے ہم نے پہلے مادیت کا تجربہ کرکے اسے باطل کیاہے اور پھر اس کے بعد نظام پر قلم اٹھایاہے۔

لیکن جب ہمارا سامنا سرمایہ داری سے ہوتاہے تو ہم اس کے علمی قواعد کو نہیں دیکھتے اس لئے کہ یہ ہمارے موضوع سے خارج ایک شیء ہے ہم ان عملی اور اخلاقی اقدار پر نظرکرتے ہیں جن پر اس نظام کی بنیاد ہے۔

یہی وجہ ہے کہ یہاں ہم نے علمی بنیادوں پر تبصرہ ترک کر دیاہے اور اب براہ راست تنظیمی اصولوں پر تنقید شروع کر رہے ہیں۔یہ اور بات ہے کہ اثناء گفتگو اگر کوئی علمی مسئلہ

۲۹۷

سامنے آگیاتو اس پر بھی بقدر ضرورت تبصرہ کریں گے۔

سرمایہ دارانہ نظام میں بھی علم الاقتصاد سے کسی حد تک بحث اس لئے ضروری ہے کہ ہم بغیر اس بحث کے سرمایہ داری کا صحیح نقشہ نہیں کھینچ سکتے اور نہ بتاسکتے ہیں کہ ایسے نظام کے رواج کا انجام کیاہونا چاہئے۔

دوسرا فائدہ یہ بھی ہوگاکہ ان علمی قوانین کو معلوم کرکے انہیں ان تنظیمات پر بھی منطبق کریں گے جو مذہب نے پیش کئے ہیں۔اور ان کے ان قوانین سے ہم آہنگ ہونے کا دعویٰ کیاہے۔

یہیں سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جن علماء اقتصاد نے سرمایہ دار تنظیمات کو علمی قوانین پر منطبق کرنے کی کوشش کی ہے اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ اس کے ہر قانون کو علم الاقتصاد کے کسی قانون سے ہم رنگ کردیاجائے۔وہ انتہائی خطا کی منزل میں ہیں۔وہ اپنی اسی غلطی کی بناپر یہ خیال کرتے ہیں کہ جس طرح''جنس کی زیادتی سے قیمت کی کمی'' ایک علمی ونظری قانون ہے اسی طرح ''آزادی کی فراوانی''بھی کوئی علمی قانون ہوگا حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔اس کی بنیاد چند خود ساختہ اخلاقی اقدار پر ہے اس کو نظری اقتصاد سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ اس کی بنیاد پر اس کے بارے میں کوئی فیصلہ کیاجاسکتاہے۔

(3)سرمایہ داری کے علمی قوانین کا تنظیمی رنگ

یہ تو پہلے ہی واضح کیاجاچکاہے کہ سرمایہ دار نظام نہ کسی علمی قانون کا حتمی نتیجہ ہے اور نہ اس کی پشت پر کوئی فکری اصول ہے۔اب ہم ایک اس سے زیادہ گہرے نکتہ کی طرف اشارہ کرناچاہتے ہیں اور وہ یہ کہ سرمایہ داری کی تنظیم اگرچہ علمی قوانین سے متاثر نہیں ہے

۲۹۸

لیکن اس کے علمی قوانین مذہب سے ضرورمتاثر ہیں گویاکہ یہ قوانین بظاہر تو علمی ہیں لیکن واقعہ کے اعتبار سے ان کا رنگ تنظیمی اور مذہبی ہے۔لہٰذا یہ صرف اس معاشرہ پر منطبق ہو سکتے ہیں جو ان تنظیمات کا قائل اور ان کے افکار واقدار کا معترف ہو۔اب اگر کوئی معاشرہ ان کے افکار سے الگ اور ان تنظیمات سے بیگانہ ہوگا تو اس میں ان قوانین کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا۔

وضاحت مطلب کے لئے یہ سمجھنا چاہئے کہ علم الاقتصاد کے قوانین دو قسم کے ہیں:

(1) وہ قوانین جن کا تعلق براہ راست عالم طبیعت سے ہے اور انسانی ارادہ کو ان میں کوئی دخل نہیں ہے جیسے یہ قانون کہ''جو پیدا وار بھی زمین اور اس کے ابتدائی خام مواد پر موقوف ہوگی۔ وہ زمین ہی کی مقدار کے برابر ہوسکتی ہے۔''یا یہ قانون کہ''پیداوار کے اضافہ سے فائدہ میں اضافہ ہوتارہے گا یہاں تک کہ زمین کی صلاحیت جواب دے جائے تو اب مزید پیداوار کی کوشش کرنابے سود ہوگا اور غلہ بجائے زیادتی کے کمی کا رخ اختیار کرلے گا۔''

ظاہر ہے کہ ان فطری قوانین کو انسان کے ارادہ واختیار سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ اس کے افکار واقدار،سماج واخلاق کے بدل جانے سے ان میں تغیر ہوجائے بلکہ ان کا تمام تر تعلق عالم ارض سے ہے لہٰذا جب تک زمین رہے گی اس وقت تک پیداوار کا یہ قانون بھی یوں ہی رہے گا انسان کے افکار اچھے ہوں یا برے اس کا سماج سرمایہ دار ہویاغیر سرمایہ دار۔

(2) وہ قوانین جن میں انسانی ارادہ اختیارکودخل ہوتاہے اور وہ اپنے مخصوص انداز و معاشرہ کی بناپر ان میں تغیر پیداکردیتاہے۔جیسے یہ قانون کہ''جب غلہ بقدر ضرورت نہ ہوگا اور مانگ زیادہ ہوگی توقیمت بڑھ جائے گی۔''

ظاہرہے کہ اس قانون کو عالم طبیعت سے کوئی ربط نہیں ہے کہ غلہ کی کمی سے خود بخود قیمت بڑھ جائے بلکہ اس کا تعلق انسان کے ارادہ واختیار سے ہے اور یہ صرف اس

۲۹۹

لئے ہوتاہے کہ انسان اپنے ذوق فطرت کی بناپر جنس کی کمی کو دیکھ کر زیادہ راغبت ہوتاہے۔

اور ظاہرہے کہ جب خریدار کی رغبت زیادہ ہوگی تو دکاندار کو قیمت بڑھادینے کا موقع بھی مل جائے گا۔

بعض علماء اقتصاد کا خیال ہے کہ دوسری قسم کے قوانین کو علم الاقتصاد کے قوانین میں شمار کرنا چاہئے۔اس لئے کہ عالم کے قوانین حتمی اور ان کے نتائج لازمی ہوتے ہیں۔وہ کسی کے ارادہ واختیار،رضا ورغبت کا انتظار نہیں کرتے اور ان قوانین میں یہی باتیں فرض کی گئی ہیں۔جس سے معلوم ہوتاہے کہ یہ قوانین علمی نہیں ہیں۔بلکہ مذہبی اور تنظیمی ہیں۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ خیال غلط ہے کہ ان حضرات نے انسان واقتصاد کے ارتباط پر غور نہیں کیا۔ورنہ یہ بات واضح تھی کہ اقتصادیات انسانی زندگی کا ہی ایک شعبہ ہیں اس کے قوانین میں انسانی شعور کا لحاظ ضروری ہے ایسا نہیں ہوسکتاکہ اس کے اصولوں کو انسان کے نفسیات سے کوئی تعلق ہی نہ ہو۔

اور جب یہ بات واضح ہے تو یہ کہاجاسکتاہے کہ علم الاقتصاد کا یہ قانون کہ''طلب کی زیادتی سے قیمت میں زیادتی ہوجاتی ہے۔''در حقیقت انسانی فطرت کی ترجمانی ہے۔ یہ ارادہ واختیاریا عالم طبیعت کے خلاف کوئی قانون نہیں ہے کہ ان دونوں میں تناؤ۔ اورٹکراؤ پیدا ہوجائے۔

اتنا ضرور ہے کہ قسم دوم کے قوانین ایک اعتبار سے قسم اول کے قوانین سے مختلف ہیں کہ پہلے قوانین حالات، سماج اور افکار کے بدلنے سے نہیں بدل سکتے۔اور دوسرے قسم کے قوانین ان میں سے ہر ایک کے بدل جانے سے بدل جائیں گے اور کبھی کبھی توایسا ہوگاکہ پورا عالم اقتصادہی منقلب ہوجاے گا۔

ظاہر ہے کہ ایسے حالات میں ایک مستقل اور مطلق قانون وضع کر دینا غیر ممکن

۳۰۰