اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب0%

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 391

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ شھید باقر الصدر طاب ثراہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 391
مشاہدے: 104446
ڈاؤنلوڈ: 3731

تبصرے:

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 391 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 104446 / ڈاؤنلوڈ: 3731
سائز سائز سائز
اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

اسلامی اقتصادیات کے ارکان

1۔اسلامی اقتصادیات کا مختصر خاکہ

2۔اسلامی اقتصاد ایک مجموعی نظام کا جزء ہے

3۔اسلامی اقتصاد کوئی علمی قانون نہیں ہے

4۔تقسیم، پیداوار سے الگ صور ت میں

5۔اقتصادی مشکلات کے اسلامی حل

۳۲۱

۳۲۲

1۔اسلامی اقتصادیات کا خاکہ

اسلامی اقتصادیات کے وہ بنیادی ارکان جن کی بناپر وہ تمام اقتصادی نظاموں سے ممتاز اور ممیز ہوتاہے حسب ذیل تین نکات ہیں:

(1) مرکب ملکیت

(2) محدود آزادی

(3) اجتماعی عدالت

ہمارے گفتگو کا تعلق فی الحال انہیں نکات کی تشریح وتوضیح سے ہے اور اس کے بعد ان کی تفصیلات پر تنقیدی نگاہ ڈالی جائے گی۔

تاکہ اسلامی اقتصادیات کا ایک مکمل نقشہ انسان کے ذہن میں آسکے اور وہ یہ اندازہ کرسکے کہ اسلام کا اقتصادی مزاج کیاہے۔

۳۲۳

(1)مرکب ملکیت

اسلام اپنے نظریۂ ملکیت میں سرمایہ داری اور اشتراکیت دونوں سے جداگانہ موقف کا حامل ہے۔سرمایہ داری نظام کا خیال ہے کہ معاشرہ میں انفرادی ملکیت کو مرکزی نقطہ قرار دینا چاہئے اور کسی شیء کی اجتماعی ملکیت کا اس وقت تک اعتراف نہ کرنا چاہئے جب تک کہ حکومتی ضرورت اس امر پر مجبور نہ کردے۔

گویاکہ بنیادی نکتہ انفرادی ملکیت ہے ا ور استثنائی صورت اجتماعی ملکیت۔

اشتراکیت نے اس سے بالکل متضادموقف اختیارکیاہے۔اس کا خیال یہ ہے کہ اجتماعی ملکیت کو مرکزی حیثیت دی جائے اور انفرادی ملکیت کو صرف ان مواقع پر جائز قرار دیاجائے جب حکومتی حالات اس بات پر مجبور کر دیں۔

یعنی اجتماعی ملکیت اصل ہے اورا نفرادی ملکیت استثنائی۔

دین اسلام نے اپنے لئے ان دونوں سے الگ ایک راستہ نکالاہے۔اس کی نظرمیں مرکزیت نہ اسے حاصل ہونی چاہئے اور نہ اسے۔بلکہ ملکیت کی ایک ایسی شکل قرار دینی چاہئے جس میں تنوع اور ہمہ گیری ہوتاکہ جملہ قواعداپنے اپنے حالات سے مخصوص رہیں۔ اور کسی قسم کے استثنائی کی نوبت نہ آئے۔وہ انفرادی ملکیت کا بھی قائل ہے اور اجتماعی وحکومتی ملکیت کا بھی لیکن ان سب کے میدان اس طرح الگ الگ کر دیئے ہیں کہ ایک دوسرے پر اثرانداز نہیں ہوسکتا۔

اسلامی نظام کو سرمایہ دارانہ نظام قرار دینا۔

اسی طرح غلط ہے جس طرح اسے اشتراکی نظام سے تعبیر کرناہے۔

۳۲۴

سرمایہ داری فقط انفرادی ملکیت کے اعتراف کا نام نہیں ہے اور نہ اشتراکیت ہی فقط اجتماعی ملکیت کا نام ہے بلکہ ان دونوں میںایک قیدیہ بھی ہے کہ اسی ملکیت کو اصل اور بنیادقرار دیاجائے اور دوسری قسم کو استثناء اور یہی وہ بات ہے جسے اسلامی اقتصاد کا مزاج برداشت نہیں کرسکتا۔

اسلامی نظام کو دونوں کا مجموعہ قراردینا بھی ایک فاش غلطی ہے جیساکہ بعض تحدید پسند مفکرین کا خیال ہے۔وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام نے اشتراکیت اور سرمایہ داری دونوں سے ایک ایک جزء کو لے لیاہے اور اس طرح دونوں کی خوبیوں کا مجموعہ بن گیاہے۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ بات اسلامی نظام کے تجزیہ کے وقت انتہائی مہمل معلوم ہوگی اس لئے کہ وہ نہ سرمایہ داری کی انفرادیت کا قائل ہے اور نہ اشتراکیت کی اجتماعیت کا۔ اس کا اپنا ایک انداز نظرہے جس پر اس نے اپنی پوری عمارت قائم کی ہے۔اور اس کی صحت کی دلیل یہ ہے کہ دونوں نظاموں نے ایک ایک قسم کو اپناکر اپنے کو ایسی مصیبت میں مبتلا کردیاہے جس کے بعد انہیں استثنائی حالات کا اعتراف کرناپڑرہاہے۔

سرمایہ داری میں اجتماعی ملکیت کی تحریک تو ایک عرصہ سے چل رہی تھی۔ اشتراکیت جو ابھی طفل نوزائیدہ کے مانند ہے۔اس میں بھی انفرادی ملکیت کے قوانین بننے لگے ہیں۔

چنانچہ سودیت دیس کے قانون کی دفعہ7میں یہ بات کہہ دی گئی ہے:''جو لوگ باہمی زراعت کرتے ہیں انہیں ہر خاندان کے حساب سے کچھ زمین،ایک رہائشی مکان، کچھ جانور اور کچھ زراعتی آلات دے دیئے جائیں۔''

اسی طرح دفعہ9میں یہ قانون بنادیاگیاہے کہ کاشتکاروں اور چھوٹے کاریگروں کو معمولی کارخانوں کی ملکیت کا حق دے دیاجائے اگرچہ اشتراکی ملکیت کاقانون محفوظ ہے۔

۳۲۵

(2)محدود آزادی

اسلامی اقتصاد کا دوسرا اہم رکن یہ ہے کہ افراد کو اقتصادی آزادی دی جائے لیکن ان پر ایسی پابندیاں بھی عائد کی جائیں جو ان کے روحانیت اور اخلاقیات کا نتیجہ ہوں اور ان کو بالکل مطلق العنان نہ چھوڑاجائے۔

اس مقام پربھی اسلام نے دونوں نظاموں سے ہٹ کر ایک نیاراستہ نکالاہے۔ وہ نہ بالکل پابندی کا قائل ہے اور نہ مطلق آزادی کا،وہ ایک ایسی آزادی دینا چاہتاہے جس سے اس کے مسلم اقدار وافکار پر کوئی برااثر نہ پڑے بلکہ وہ اسی آزادی کے ذریعہ اپنے فریضہ کو ادا کرکے انسانیت کی صحیح رہنمائی کرسکے۔

اسلام نے اس تحدید اور پابندی کے دو طریقے اختیار کئے ہیں:

(1)داخلی تحدید: جس کے قیود نفس کی گہرائی سے پیداہوتے ہیں اور جس کی پابندی روحانیت اور اخلاقیات کی بنیادوں پر ہوتی ہے۔

(2)خارجی تحدید: جس کے قیدوبند کا ذمہ دار نظام زندگی ہوتاہے اور جو انسان پر اس کے خارجی حالات سے بار کی جاتی ہے۔

داخلی تحدید اس معاشرہ کا لازمی نتیجہ ہے جو اسلام کے زیر سایہ تربیت پارہاہو جس کی پرورش کی ساری ذمہ داری اسلام کے اصول وقوانین نے لے لی ہو اس لئے کہ اسلام کے روحانی افکار اپنے اندر ایک ایسی تاثیر رکھتے ہیں کہ اگر انہیں تاریخ میں تصرف کرنے کا موقع دے دیاجائے تووہ مہذب اور صالح انسان ڈھال سکتے ہیں۔وہ ایک ایسا انسان

۳۲۶

بناسکتے ہیں جسے اپنے داخلی حالات وکیفیات کی بناپر ان حدود دقیود کا احساس بھی نہ ہو اور وہ اس حدبندی کو روحانی فرحت تصور کرکے صدق دل سے قبول کرلے۔

یہ تحدید اور پابندی نہیں ہے بلکہ انسان میں ایک ایسا صالح شعور پیداکرانے کا نام ہے جس کے تحت اس کے تمام افعال صالح اور شائستہ ہوں۔

آپ تاریخ پر نظرڈالیں گے تو آپ کو معلوم ہوگاکہ اسلامی تجربہ اگرچہ بڑی قلیل مدت کے لئے صفحۂ تاریخ پر ظاہر ہواہے اور اس کو پورے طریقے سے کارکردگی کا موقعہ نہیں ملا لیکن اس نے اتنے ہی عرصہ میں ایسی ذہنیتیں ایجاد کر دیں جن سے خیروبرکت،عدل واحسان کے چشمے پھوٹ پھوٹ کر نکلنے لگے۔

اب اگر اس تجزیہ کی مدت کچھ زیادہ ہوجاتی اور اسلام کو مکمل تربیت کا موقع مل جاتاتو کیا وہ یہ ثابت نہ کر دیتاکہ انسان ہی زمین پر الٰہی خلافت کا حقدار ہے اور وہی اس کرہ خاکی کو عدل و رحمت سے معمور اور ظلم وجور سے خالی کراسکتاہے۔

اسلام کی اس مختصر ذہنی تربیت کا ایک نمایا اثریہ ہے کہ آج کے وہ مسلمان جو بظاہر اسلام کی حقیقی رہنمائی سے محروم ہوچکے ہیں۔خلافت الٰہیہ کے صحیح مفاہیم ان کی نظروں میں نہیں ہیں۔زمانی اعتبار سے صدراسلام ان سے بالکل الگ ہوچکاہے۔سماج کے اعتبار سے وہ دوسرے قوانین کے زیر سایہ جی رہے ہیں۔

لیکن ان تمام باتوں کے باوجود زکوٰة جیسے الٰہی حقوق پابندی سے ادا کرتے ہیں اور خیر وبرکت کے وہ راستے جن پر اسلام انہیں چلانا چاہتاتھا۔بغیر کسی خارجی پابندی کے چل رہے ہیں اور زبان حال سے اس امر کا اعلان کر رہے ہیں کہ اگراسلام کو اس سے زیادہ موقع ملاہوتاتو سارا کرہ ارض خیر واحسان سے معمور ہوجاتا۔

خارجی تحدید یعنی وہ پابندی جو اسلام نے معاشرہ پر اپنے تشریعی اصول اور شرعی احکام کے ذریعہ عائد کی ہے اور اس طرح ہر اس کیف ونشاط کو ممنوع قرار دے دیاہے۔

۳۲۷

جس سے اس کی اعلیٰ قدروں پر غلط اثر پڑتاہو۔اس پابندی کے نفاذ کے لئے بھی اس نے حسب ذیل طریقے اختیار کئے ہیں:

(1) اس اقتصادی طرب ونشاط کو حرام قرار دے دیاہے جس سے اسلامی قدریں متاثر ہورہی تھیں جیسے سود خوری،ذخیرہ اندوزی وغیرہ۔

(2) عام اجتماعی حالات پرولی امر کو نگراں قرار دیا اور اس کو اتنا اختیار دیا کہ اگر افراد کے جائز تصرفات بھی معاشرہ کے حق میں مضر ہوتو ان کے ان تصرفات پر پابندی لگادے اور اس طرح اجتماعی مفاد کا تحفظ کرے۔

اسلام نے اس طریقۂ کار کو صرف اس لئے اختیارکیاکہ اس کا نصب العین سماج میں اجتماعی عدالت اور توازن کا قائم کرنا تھا اور ظاہر ہے کہ زمانہ کے حالات اور مکانات کے تغیرات سے عدالت کے تقاضے بدل جایاکرتے ہیں۔ایک ماحول کا عدل دوسرے ماحول کے حق میں ظلم ہوجاتاہے ایک زمانہ کی عدالت دوسرے زمانہ کے لئے عذاب بن جاتی ہے۔زمانہ کے حالات اور تغیرات بھی اتنے رنگارنگ اور گوناگوں ہیں کہ ان غیر متناہی تغیرات کے لئے دفعات واحکام کا وضع کرنا غیر ممکن ہے۔

ضرورت اس بات کی تھی کہ کچھ بنیادی اصول مقررکرکے ایک ایسی حکومت قائم کردی جائے جو انہیں اصولوں کے ماتحت زمانہ کے حالات کی نگرانی کرے اور ہر دور تاریخ میں ایسے احکام نافذ کرے جو اس دورمیں اجتماعی عدالت کی بنیادیں مضبوط کرسکتے ہوں۔

قرآن کریم نے(َطِیعُوا اﷲَ وَأَطِیعُوا الرَّسُولَ وَاُوْلِی الْأًمْرِ مِنْکُمْ) میں اسی سلطنت اور اقتدار کی طرف اشارہ کیاہے اور یہ واضح ہے کہ اقتدار اعلیٰ کو اس قسم کی دخل اندازی کا پوراپورا اختیار ہے۔مسلمانوں میں اگرچہ اولی الامر کے اوصاف وشرائط کے بارے میں اختلاف ہے لیکن اتنا مسلم ہے کہ ان حضرات کو اسلامی نظام میں اقتدار اعلیٰ کا مالک تصور کیاجائے گا۔

۳۲۸

یہ اور بات ہے کہ ان کے اقتدار کا دائرہ بھی کلی احکام اور بنیادی اصول کے ساتھ تنگ ہو جایاکرے گا۔یہ امت کے مصالح عامہ کی خاطر معاملات میں دخل اندازی کرسکتے ہیں۔لوگوں کی آزادی پر پابندی لگاسکتے ہیں۔لیکن ان کے اختیار میں یہ بات نہیں ہے کہ سودخوری اور خیانت کو جائز کردیں۔قانون ملکیت کو باطل کردیں اس لئے کہ ان کے اختیارات انہیں اصولوں کے تخفظ کے لئے وضع کئے گئے ہیں اب یہ کیسے ممکن ہے کہ انہیں اختیارات سے اصولوں کوباطل کردیاجائے۔

ان کاکام یہ ہے کہ زمین کی آبادکاری،کانوں اور نہروں کی کھدائی جیسے مباح اور جائز کاموں کی نگرانی کریں۔جب تک لوگوں کے تصرفات مصالح عامہ کے لئے مضر نہ ہوں انہیں پوری آزادی سے استفادہ کرنے دیں۔اور جب یہ دیکھ لیں کہ اب یہ آزادی عمومی مفاد کے حق میں مضرہوئی جارہی ہے تو فوراً اس پر پابندی لگادیں تاکہ اجتماعی عدالت کے قیام میں کوئی دشواری نہ پیش آسکے۔

اقتدار اعلیٰ کے یہ وہ اختیارات تھے جنہیں سرکار دوعالم نے خود بھی صرف فرمایاہے۔جیساکہ بعض روایات میں ہے کہ آپ نے مدینہ کے نخلستانوں کی چھوٹی چھوٹی نہروں کے بارے میں یہ حکم فرمایاہے کہ اپنی ضرورت سے زیادہ پانی پر قبضہ نہ جمایاجائے بلکہ دوسروں کو استفادہ کا موقع دیاجائے اس کے علاوہ ایک مستقل اعلان کر دیاتھا۔ لاضرر ولا ضرار (وسائل الشیعہ کتاب احیاء الموت)

فقہاء اسلام سے یہ بات مخفی نہیں ہے کہ پانی سے روک دینایاگھاس سے استفادہ کرنے کا موقع نہ دینا کوئی فعل حرام نہیں ہے۔

ہر شخص اپنے مال میں پورے پورے اختیارات رکھتاہے لیکن اس کے باوجود سرکار رسالت کی یہ نہی اور ممانعت اس بات پر صاف طریقہ سے دلالت کرتی ہے کہ آپ بحیثیت رسول کوئی کلی یا عام قانون نہیں بیان کررہے تھے بلکہ اقتدار اعلیٰ کے دیئے ہوئے

۳۲۹

اختیارات کو صرف کرکے مباح اور جائز اقدام پر پابندی لگارہے تھے۔اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ روایت میں لفظ نہی نہیں ہے بلکہ قضاوت کا لفظ ہے جس سے کسی حکم خاص کا اظہار ہوتاہے۔

(3)اجتماعی عدالت

اسلامی اقتصادیات کا تیسرا رکن ہے اجتماعی عدالت۔

اس کا مقصد اسلام کی نظرمیں یہ تھاکہ ملکی ثروت کی تقسیم عادلانہ انداز سے ہواور اسلام کے وہ اعلیٰ اقدار بھی محفوظ رہیں جن کے لئے یہ سارے قوانین بنائے گئے ہیں۔

یادرہے کہ اسلام جب بھی عدالت کا ذکرکرتاہے تو اس سے مراد عدالت کا تجریدی مفہوم نہیں ہوتااور نہ یہ کوئی ایسا مبہم لفظ ہوتاہے کہ ہر شخص کو اس کی تشریح و تفسیر کرنے کا حق حاصل ہوبلکہ اس نے اپنی دعوت کے ساتھ ساتھ عدالت سے اپنا مقصد بھی واضح کردیاہے اور اس بات کی کوشش کی ہے کہ عدالت انسان کے رگ وپے میں اس طرح سرایت کرجائے کہ ہر شخص کی رفتار سے عدالت کی آواز سنائی دے۔اسلام نے اپنی اس عدالت کی بنیاد دوچیزوں پر رکھی ہے اور دونوں کے الگ الگ تفصیلات بیان کئے ہیں۔

پہلی بنیاد ہے باہمی کفالت۔

اور دوسری بنیاد ہے اجتماعی توازن

یہی دونوں باتیں ہیں جن سے اسلامی اقدار نمایاں ہوتی ہیں۔اورانہیں سے اجتماعی عدالت کی نشان دہی ہوتی ہے۔

اسلام نے انسانی معاشرہ کی ایجاد میں جواقدامات کئے ہیں ان میں یہ پہلو ایک

۳۳۰

نمایاں حیثیت رکھتاہے۔خود سرکاررسالت نے اپنے اعلان حکومت کے ساتھ جس نکتہ کا اعلان کیا تھا وہ یہی تھا۔''َیُّہَا النَّاسُ'' اپنے لئے کچھ پیشگی روانہ کر دو تمہیں معلوم ہے کہ ایک ایسا موقع بھی آئے گا ۔جب تم گھبراکر اپنے جانوروں کو بغیر کسی نگرانی کے چھوڑدوگے اور پروردگار تم سے سوال کرے گا۔

کیا تمہارے پاس ہمارا رسول نہیں آیاتھا؟کیا ہم نے تمہیں مال کثیر نہیں دیاتھا؟ پھر تم نے کیاکیا؟

اس وقت سوائے یمین ویسار نظرکرنے کے اور کیاچارہ ہوگا۔سامنے عذاب جہنم ہوگا اب اگر کوئی شخص اپنے کو اس عذاب سے بچانا چاہتاہے تو اسے چاہئے کہ اس امر کی کوشش کرے خواہ ایک دانہ خرماسے کیوں نہ ہو بلکہ یہ بھی ممکن نہیں ہے تو ایک کلمۂ طیب ہی سے سہی۔ایک نیکی کا عوض دس سے سات سو تک چلاجاتاہے۔والسلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ

اس کے بعد جب سیاسی اعمال کی ابتدا کی توسب سے پہلے مواخات(باہمی برادری)کی بنیادڈالی اس لئے کہ باہمی امداد وکفالت کا اس سے بہتر کوئی وسیلہ نہیں ہوسکتا تھا۔

اسلامی اقتصادیات کے بنیادی ارکان یہ ہیں:

(1) مرکب ملکیت جس کی روشنی میں ثروت کی تقسیم ہو۔

(2) محدود آزادی جس سے پیداوار، تصرف،صرف وغیرہ کی نگرانی کی جائے۔

(3) اجتماعی عدالت جس کی بناپر باہمی کفالت اور اجتماعی توازن کے اصول قائم کئے جائیں۔

اسلامی اقتصاد کی دو بنیادی صفتیں اس کے جملہ احکام وقوانین میں نمایاں طور پر نظرآتی ہیں۔ایک واقعیت اور ایک خلاقیت۔

اسلام نے اپنے اصولوں میں واقعیت کے ساتھ اخلاقی پہلو کا بھی لحاظ رکھاہے اور یہ لحاظ صرف نتیجہ کے اعتبار سے نہیں ہے بلکہ طریقے بھی ایسے ہی اختیار کئے ہیں جن میں

۳۳۱

واقعی اوراخلاقی دونوں پہلو نمایاں ہوں۔

نتیجہ کے اعتبار سے واقعیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے نظام سے ایسے مقاصد حاصل کرنا چاہتاہے جو انسانی طبع وضمیر کے موافق ہوں۔

نہ احکام کی زنجیروں سے جکڑکر قوانین سے پامال کرنا چاہتاہے اور نہ لفظوں کی بازی گری سے ہوائی فضامیں پرواز کرناچاہتاہے۔اشتمالی حکومت یہ خیالی پلاؤ پکاسکتی ہے کہ ایک دور ایسا آئے گا جب انسان اپنے تمام داخلی کیفیات اور باطنی جذبات واحساسات سے الگ ہوکر ایک ایسی شکل اختیار کر لے گا جس سے اپنی پوری آمدنی کو بلاکسی جبروکراہ کے پورے سماج پر تقسیم کر دے گا لیکن اسلام اس قسم کے خواب نہیں دیکھتااور نہ امت کو ایسے سبزباغ دکھاناچاہتاہے۔وہ وہی معاشرہ قائم کرناچاہتاہے جس میں انسان اسی زمین کا انسان رہے اور پھر اعلیٰ اقدار کا تحفظ کرے۔

طریقہ کی واقعیت کا عالم یہ ہے کہااس نے اتنے اہم مقصد کو حاصل کرنے کے لئے صرف واعظوں اور مرشدوں کی بیانات پر اکتفا نہیں کی بلکہ ایسے قوانین بھی وضع کردیئے جو ایک ایسے ہی معاشرہ کی ایجاد کے پورے پورے ضامن ہوں۔وہ باہمی کفالت کو قضاو قدر کے حوالے نہیں کرتابلکہ اس کے اسباب اپنے احکام وقوانین میں تلاش کرتاہے۔وہ اجتماعی عدالت وتوازن کو اتفاقی حادثہ نہیں قرار دیتابلکہ اپنے احکام کا حتمی نتیجہ تصور کرتاہے۔

اخلاقی اعتبار سے واقعیت کا مطلب یہ ہے کہ اسلام اپنے اقتصادی نظام کے رواج میںان طریقوں کا قائل نہیں ہے جن کا انسان سے کوئی تعلق نہ ہو اور جن سے قدرتی طور پر نتیجہ حاصل ہوجائے بلکہ وہ اپنے مقاصد ونتائج کو اخلاقی رنگ سے حاصل کرنا چاہتاہے۔

اس کا یہ مقولہ نہیں ہے کہ مزدوروں کی زندگی ذرائع پیداوار کے ذمہ ہے جو حتمی طور سے اسے زندہ رکھیں گے۔بلکہ اس کا نظریہ یہ ہے کہ ان کی زندگی معاشرہ کا ایک اخلاقی

۳۳۲

فریضہ ہے جسے ادا کرنا سب پر لازم ہے اور جس کا ایجاد کرنا ہر صاحب صلاحیت کے لئے ضروری ہے۔

طریقہ کی اخلاقیت کا یہ عالم ہے کہ اس نے اپنے مقاصد میں فقط واقعیت پر اکتفا نہیں کی۔وہ یہ نہیں چاہتاکہ میرامقصد حاصل ہوجائے۔خواہ کوئی طریقہ بھی استعمال کیاجائے بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ ان طریقوں میں بھی ایک اخلاقی اندازہو۔

وہ اپنے مقصد کی تحصیل کے لئے یہ بھی کر سکتاتھاکہ امت سے اموال کو سلب کرکے فقراء پر تقسیم کردے۔اور اس طرح اجتماعی توازن قائم ہوجائے لیکن اسے یہ کسی طرح بھی پسندنہیں ہے وہ تو اس عمل کو انسان ہی کے ہاتھوں سے دیکھنا چاہتاہے۔

یہی وجہ ہے کہ اس نے اکثرطریقوں کی عبادت قرار دے دیاہے تاکہ اس کی ادائیگی اندرونی جذبات اور داخلی احساسات کی بناپر ہواور اس طرح انسان اقتصادی ہونے کے ساتھ ساتھ اخلاقی بھی ہو اور مذہب واقعی ہونے کے ساتھ ساتھ مفاہیم واقدار کا معترف بھی ہو۔

نفسیاتی عوامل کے لئے اسلام کا یہ اہتمام واحترام کوئی عجیب بات نہیں ہے بلکہ ہر صاحب بصیرت انسان یہ جانتاہے کہ انسان کی شخصیت کی تشکیل میں اس کے نفسیات کو بہت بڑادخل ہوتاہے اور یہی شخصیت اس کے اجتماعی اور سماجی حالات پراثرانداز ہوتی ہے۔اب اگر اس شخصیت کی اصلاح کرلی گئی اور اسے اپنے سانچے میں ڈھال لیاگیاتو پھر اجتماعی سدھاربھی بآسانی ممکن ہوجائے گا۔

دنیا جانتی ہے کہ آج یورپ میں اقتصادی فریاد اسی نفسیاتی اصلاح کے نہ ہونے کی بناپر ہے۔

نفسیات کے اقتصادیات سے گہرے تعلق کا اندازہ اس بات سے بھی ہو سکتاہے کہ اقتصادیات کے عرض وطلب کے مسائل انہیں نفسیاتی رغبت وکراہت سے پیداہوتے

۳۳۳

ہیں پیداوار کا اضافہ ونقصان مزدور کی انہیں نفسیاتی کیفیات ہی کا نتیجہ ہوتاہے۔وغیرہ وغیرہ

یہی وجہ توہے کہ اسلام اپنے تعلیمات میں فقط انسان کے ظاہر پر نظرنہیں رکھتابلکہ اس کے نفس کی گہرائی میں اترجاتاہے تاکہ اس کی داخلی زندگی کا علاج کرکے اسے اپنے ماحول کے لئے سازگار بنائے اور اس کے بعد اپنے احکام کو اس پرنافذ کرے تاکہ وہ بلا تکلف انہیں قبول کر سکے۔

وہ حصول مقصد کے لئے ہر ایک طریقہ کو نہیں اپناتاہے بلکہ صرف ان طریقوں سے کام لیتاہے جن میں ہدف ومقصد کی جھلک دکھائی دیتی ہو۔جن میں نفسیاتی محرکات کا جلوہ نظرآتاہو۔جن کے خمیر میں ضمیر کے جذبات واحساسات ہوں تاکہ اس طرح داخلہ وخارجہ سیاستوں میں یک رنگی اور واقع واخلاق میں یگانگت پیداہوسکے۔

(2)اسلامی اقتصادایک مجموعہ کا جزء ہے

اسلامی اقتصادپر گفتگوکرتے وقت یہ کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے کہ اس کے ہر حکم کو الگ الگ مستقل طور سے زیر بحث لایاجائے۔سودخوری کی حرمت اور انفرادی ملکیت جیسے تمام احکام کو مذہب سے جداگانہ حیثیت دے دی جائے اور پھر ان کے بارے میں گفتگو کی جائے بلکہ یہ بھی مناسب نہیں ہے کہ اقتصادیات کو دیگر اجتماعی اور سیاسی مسائل سے الگ کرکے دیکھاجائے۔

اس سلسلہ کا صحیح طریقۂ بحث یہ ہے کہ اقتصادیات کے مسئلہ کو اس سانچہ میں ڈھال کر دیکھیں کہ جو حیات انسانی کے تمام شعبوں پر حاوی ہواس لئے کہ اس قسم کی محیط

۳۳۴

نظرعام کوتاہ نظروں سے مختلف ہوتی ہے۔آپ ایک ہی خط کو دو طریقوں سے دیکھیں تو اس کی حیثیتیں مختلف ہوجائیں گی۔

ممکن ہے کہ وہ مستقل طریقہ پر طویل معلوم ہولیکن ایک نقشہ کے ضمن میں آکر کوتاہ نظر آئے گا۔بعینہ یہی حال اقتصادی مسائل اور دیگر مسائل زندگی کا ہے کہ جب تک اقتصادیات کو حیات کے تمام شعبوں کے ساتھ ملاکر نہ دیکھیں گے ان کی صحیح نوعیت معلوم نہ ہوسکے گی۔

اسلامیات پرگفتگو کرنے کے لئے ایک دوسرا فریضہ یہ بھی ہے کہ اس ماحول اور سر زمین کا بھی جائزہ لے لیاجائے۔جن پر ان احکام نے جنم لیاہے اور اپنی زندگی کے دن گذارے ہیں۔اس لئے کہ کسی بھی نظام زندگی کو اگر اس کے ماحول سے الگ کر لیاجائے گا تو اس کی صحیح حیثیت معلوم نہ ہوسکے گی۔

اسلام کے احکام وقوانین نے بھی ایک خاص فکری سرزمین پر اپنی نشودنما کے دن گذارے ہیں ہمیں اس سرزمین کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔

اسلام کے جملہ اقتصادی احکام باہم مربوط ومتحد ہیں۔انہیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کرنا چاہئے۔

پھر پورا اقتصادی نظام ایک مذہب سے مربوط ہے جس میں متعدد شعبے پائے جاتے ہیں اور پھر یہ مذہب بھی ایک خاص سرزمین اور ایک مخصوص ماحول سے تعلق رکھتاہے جس پر اس کے احکام وقوانین نے پرورش پائی ہے۔لہٰذا اقتصادیات کی بحث کو مذہبی طورپر اور احساسی وجذباتی ماحول سے الگ کرکے محل بحث میں نہیں لایاجاسکتا۔

اسلامی معاشرہ کا ماحول چند عناصر سے مرکب ہوتاہے۔

۳۳۵

عقیدہ، مفاہیم واقدار ، جذبات واحساسات

(1)عقیدہ

وہ مرکزی قاعدۂ فکر جو مرد مسلم کی آفاقی نظرکے حدود معین کرتاہے۔

(2)مفاہیم واقدار

جو کائنات کے بارے میں عقیدہ کی روشنی میں اسلامی افکار کی عکاسی کرتے ہیں۔جن سے یہ معلوم ہوتاہے کہ بنیادی عقیدہ کو پیش نظررکھتے ہوئے کائنات کے موجودات کا مفہوم کیاہوسکتاہے اور ان کی قدریں کیاہیں؟

(3)جذبات واحساسات

جو انہیں مفاہیم واقدار کی بناپر نفس انسانی میں ابھرتے ہیں۔صرف اس لئے کہ کائنات کا اسلامی مفہوم مرد مسلم کے دل میں ہر شیء کی طرف سے ایک خاص شعور واحساس کی بنیاد ڈالتاہے اور اسی کے اعتبار سے جذبات و عواطف پیداکرتاہے۔

مقصد یہ ہے کہ جذبات وعواطف مفاہیم واقدار سے پیداہوتے ہیں اور مفاہیم عقیدہ کی روشنی میں معین ہوتے ہیں لہٰذا کسی ایک نکتہ پر بھی نظر کرنے کے لئے ان تمام

۳۳۶

جہات کا پیش نظررکھنا ضروری ہے۔

ہمارے اس بیان کی ایک واضح سی مثال ہے تقویٰ اس کا مفہوم اسلامی عقیدۂ توحید کے زیر اثرپیداہوتاہے اور پھر تمام شرافتوں اور کرامتوں کا منبع ومرکزبن جاتاہے اور مرد مسلم کے دل میں اہل تقویٰ کی طرف سے ایک خاص جذبہ کی ایجاد کرتاہے جس کا نام ہے جذبۂ احترام و تعظیم، گویاکہ اسلامی احکام کی سرزمین اور اس کا ماحول۔عقیدہ ومفاہیم اور مخصوص احساسات وعواطف سے مل کر مرکب ہوتاہے اور انہیں اسباب وموثرات کی بناپر مذہب ایک ایسا قابل تجزیہ مجموعہ ہوجاتاہے جس کے کسی ایک جزء پر بھی اس وقت تک گفتگو نہیں ہوسکتی جب تک باقی اجزاء کو ساتھ نہ ملایاجائے اور پھر جب یہ تمام اجزاء ایک جگہ جمع ہوکر ایک مجموعہ کی شکل اختیار کرلیں گے تو اسلام کو اس بات کا یقین پیداہوجائے گا کہ وہ اپے عالمی پیغام کو صحیح طریقہ سے پہنچاسکے گا۔اور وہ انسان کو اسی سانچے میں ڈھال سکے گا جس میں ڈھالنے کے لئے اس نے اس دنیا میں قدم رکھاتھا۔سعادت مندی اور رفاہیت کی فراوانی ہوگی اور انسانی معاشرہ کو اس سے مکمل استفادہ کا موقع ملے گا۔

اب اگر ہم تمام اجزاء کو الگ الگ رکھ کر اس بات کی امید کریں کہ اسلام اپنے پیغام کو منزل مقصود تک پہنچادے گا اور اپنی مہم میں کامیاب ہوجائے گا تو یہ ایک موہوم خیال ہوگا جس کی کوئی واقعیت نہ ہوگی اس لئے کہ کسی انجینئر کے نقشہ کا حسن اسی وقت ظاہر ہوتاہے جب اس کے مطابق مکمل عمارت تیار ہوجائے لیکن اگر کوئی شخص صرف ایک گوشہ تعمیر کرکے اسی کے مطابق حسن کی امیدکرے تو اس کی یہ امیدایک وہم وخیال وجنون سے زیادہ وقعت نہ رکھے گی۔

اسلام نے اپنے نقشۂ تعظیم سے انسانی فلاح وبہبود کی ضمانت ضرورلی ہے لیکن یہ اسی وقت جب اس نقشہ کے مطابق مکمل تعمیر عالم وجود میں آجائے اور اس کو کامل شکل میں سماج پر منطبق کردیاجائے۔اب اگر اس کے شیرازہ کو منشر اور اس کے اجزاء کو پریشان کر

۳۳۷

دیاجائے تو اس سے یہ توقع بالکل غلط ہوگی اور اس میں نظام زندگی کا کوئی قصور نہ ہوگا۔ ساری کوتاہی انطباق کی ہوگی۔

علوم طبیعیہ بھی اس بات کے شاہد ہیں کہ عالم کی ہر شیء ایک خاص فائدہ اور خاصہ کی حامل ہوتی ہے لیکن یہ فائدہ انہیں مخصوص حالات میں حاصل ہوتاہے جن میں یہ فائدہ رکھاگیاہے اب اگر کوئی شخص حالات کی پرواکئے بغیر وہی استفادہ کرنا چاہے تو سوائے خسارت اور ناامیدی کے کوئی شیء حاصل نہ ہوگی۔

اس تمہید کے بعد ضرورت تھی کہ ہم اسلامی اقتصادیات کے ان تمام تعلقات و روابط کو ظاہر کرتے جو انہیں عقیدہ،ماحول، جذبات سیاست، اجتماعیت یادیگر شعبہ ہائے زندگی سے حاصل ہیں۔لیکن ظاہر ہے کہ اس مختصر بیان میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔نمونہ کے طورپر صرف چند روابط کا اظہار کرنا چاہتے ہیں تاکہ اس سے یہ واضح ہوجائے کہ ان احکام کے متصل اور منفصل کی صورت میں نتائج کس قدر مختلف ہوجاتے ہیں۔

(1)اقتصادکا ارتباط عقیدہ سے

عقیدہ مذہب کی روحانیت کا مرکز اور اس کا سرچشمہ ہے اسی زمین سے اس کے احکام وقوانین کے سوتے پھوٹ کر نکلتے ہیں اور یہی مردمسلم کی نفسیت کو مذہبی سانچہ میں ڈھال کر اسے مسلم انسان بناتاہے۔

۳۳۸

عقیدہ ہی انسان کے اعمال کو ایمانی رنگ دے کر اس میں ایک معنوی قیمت پیداکرتاہے۔

ان تمام نتائج کے علاوہ جو خارجی طورپر ہمارے مشاہدہ میں آتے رہتے ہیں۔ عقیدہ ہی مردمسلم کے دل میں سکون واطمینان کی دولت ایجاد کرتاہے اس لئے کہ اس کا مذہب اسی عقیدہ کا تفصیلی پرتوہے۔

مختصر یہ ہے کہ اسلام میں احکام کے نفاذ کی ضمانت،اعمال کا ایمانی رنگ و روپ اور سکون واطمینان وہ خصوصیات ہیں جو اسلامی اقتصادیات کو عقیدہ کی برکت سے حاصل ہوئے ہیں۔اب اگر اقتصادیات کو عقیدہ سے الگ کر دیاجائے تو اس کے جملہ خصوصیات کا خون ہوجائے گا اور اس کا صحیح نقشہ ذہن میں نہ آسکے گا۔

(2)اقتصادیات ومفاہیم

کھلی ہوئی بات ہے کہ کائنات کے موجودات کے بارے میں اسلام نے جن مفاہیم کو اختیارکیاہے ان کا اثر اس کے اقتصادیات پر بھی پڑے گا۔

مثال کے طور پر اس نے انفرادی ملکیت کو سلطنت مطلقہ کے بجائے ایک خاص مسئولیت اور ذمہ داری کا رنگ دیاہے۔

فائدہ کے مفہوم کو عام عادی مفاہیم سے نکال کر روحانیت اور آخرت کا رنگ دیاہے جس کی بناپر عام نقصان بھی فائدہ بن سکتاہے۔

اس طرز فکر کا لازمی نتیجہ یہ ہوگاکہ انفرادی ملکیت کا مالک اپنے تصرفات میں ایک مسئولیت کا احساس رکھے گا اور اس طرح اس کی آزادی محدود ہوجائے گی۔

فائدہ کا طالب اپنا مطمح نظرصرف مادی فائدہ کو نہیں قرار دے گا بلکہ وقت ضرورت

۳۳۹

ان مادی فوائد کو قربان بھی کردے گا اور اس طرح اقتصادیات ان مفاہیم واقدار سے پورا پورا فائدہ اٹھائیں گے لیکن اگر دونوں کو الگ الگ کر دیاجائے گا تو پھر رنگ ہی دوسرا ہوجائے گا اور مذہب کا مکمل فائدہ حاصل نہ ہوسکے گا۔

(3)اقتصادیات وجذبات

یہ ایک بالکل واضح حقیقت ہے کہ اسلامی مفاہیم سے وجود میں آنے والے جذبات واحساسات بھی اس کے اقتصادیات پربڑی اچھی طرح سے اثرانداز ہوں گے۔

ایک جذبۂ اخوت کا حامل مسلمان جب ایک دوسرے سے محبت اور ہمدردی کرے گا تو اقتصادی زندگی میں کفالت وضمانت کے اصول بڑی آسانی سے رواج پاسکیں گے اور ان کے لئے کسی جبری اور قہری طاقت کی ضرورت نہ ہوگی۔

(4)اقتصادیات اور مالی سیاست

دین اسلام نے اپنی مالی سیاست کو اقتصادیات سے الگ حیثیت نہیں دی۔اس کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ حکومت کو کسی نہ کسی طرح مال ملتارہے اور وہ اس میں خاطر خواہ تصرف کرتی رہے بلکہ اس نے اس سیاست کو اقتصادی اغراض ومصالح کے حاصل کرنے کا وسیلہ وذریعہ قرار دیاہے اس کا مقصد یہ ہے کہ ان مالیات سے باہمی کفالت اور اجتماعی

۳۴۰