اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب0%

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 391

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ شھید باقر الصدر طاب ثراہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 391
مشاہدے: 104440
ڈاؤنلوڈ: 3731

تبصرے:

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 391 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 104440 / ڈاؤنلوڈ: 3731
سائز سائز سائز
اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

توازن کی ایجاد کی جائے اور معاشرہ کو اس کے اعلیٰ مرتبہ تک پہنچادیاجائے۔ظاہر ہے کہ ان حالات میں اقتصادیات کو سیاست سے الگ کرکے محل بحث میں نہیں لایاجاسکتاہے۔

(5)اقتصادیات اور سیاسی نظام

دین اسلام نے حکومت کو جس قدر اقتصادی اختیارات دیئے ہیں اگر ان کو سیاست سے الگ کر لیاجائے تو وہ ایک ظلم کی حیثیت رکھتے ہیں۔لیکن انہیں اختیارات کو اگر سیاست کے آئینہ میں دیکھا جائے اور یہ اندازہ کر لیاجائے کہ اسلام ہر کس وناکس کو عوامی قسمت کا مالک نہیں بناتابلکہ اس کے لئے عصمت یاکم از کم عدالت کو شرط قرار دیتاہے(جیسا کہ بعض مسلمانوں کا خیال ہے)تو یہ اعتراض رفع ہوجائے گا اور انسان سمجھ لے گاکہ عدالت وعصمت کے بعد ظلم کا تصور مہمل ہے۔

(6)سودخوری اور اجتماعی عدالت

اسلامی احکام میں اگر سودکی حرمت اورممانعت کو تمام احکام سے الگ کرکے دیکھاجائے تو اس سے بہت سے ایسے مشکلات پیدا ہوتے ہیں جن کا حل کرنا بظاہر ناممکن ہے لیکن اگر اس ایک حکم کو باقی احکام کے ساتھ منضم کرلیاجائے اور یہ دیکھاجائے کہ اسلام نے ان تمام مشکلات کو باہمی کفالت اور اجتماعی توازن اور مضاربہ(1)مضاربہ کامطلب یہ

۳۴۱

ہے کہ انسان کسی شخص کو سرمایہ دے کر اس سے اس شرط پر تجارت کرائے کہ فائدہ میں دونوں افراد کسی ایک مقررہ نسبت سے شریک رہیں گے۔خواہ وہ آدھی ہویاچوتھائی یا کچھ اور)جیسے معاملات میں حل کر لیاہے تو پھر کوئی دشواری باقی نہ رہ جائے گی۔

رہ گیا یہ سوال کہ ان مشکلات کو کہاں اور کس طرح حل کیاگیاہے؟تو اس کے جواب کا انتظار کیجئے۔

(7)انفرادی ملکیت اور جہاد

اسلام نے معرکۂ جنگ میں ولی امر کو یہ اختیار دیاہے کہ وہ اسیروں کو غلام بناکر مال غنیمت کی طرح مجاہدین پر تقسیم کر دے۔

مسیحیت پرست، اسلام دشمن افراد نے یہ خیال کرلیاکہ اسلام بھی انہیں غلام پسند مذاہب میں سے ہے جو تاریخ کے تنگ وتاریک دور میں حکومت کررہے تھے اور انسانیت کو ذلت ورسوائی کی زندگی گذارنے پر مجبور کر رہے تھے۔جن کے پنجۂ استبداد سے صرف یورپ نے نجات دلائی ہے ورنہ وہ آج تک اسی تحقیر وتذلیل کا شکار رہتے۔

حالانکہ انہیں اسلام کے اس حکم پر تنقید کرنے سے پہلے یہ دیکھنا چاہئے تاکہ اس کی نظرمیں مال غنیمت کیاہے؟اور ولی امر کو اسیروں کوغلام بنانے کے اختیارات ماحول میں دئے گئے ہیں؟اور پھر وہ حاکم اور ولی امر کون ہے جسے اتنے اہم اختیارات دے دئے گئے ہیں۔

جب یہ تمام گوشے نظرآجائیں گے تو اسلام پر صحیح تنقید کا حق حاصل ہوگا اور غنیمت کے بارے میں اس کا واقعی موقف معلوم ہوسکے گا۔

۳۴۲

غنیمت کے بارے میں اسلام کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ صرف جائز قسم کے جہاد اور عقائدی جنگ میں حاصل شدہ مال کا نام ہوتاہے۔اگر جنگ کو عقائد سے کوئی تعلق نہ ہواور وہ غارتگری ،ملک گیری کا وسیلہ ہوتواس میں ھاصل شدہ مال کو غنیمت نہیں کہاجاسکتا۔

یعنی مال کے غنیمت میں داخل ہونے کی دوشرطیں ہیں:

(1) جنگ ولی امر کے حکم سے اسلام کی دعوت کے سلسلہ میں ہو۔جاہلیت کی طرح لوت مار اور غارت گری کو اسلامی جہاد نہیں کہاجاسکتاجیساکہ سرمایہ دارممالک میں آج بھی رائج ہے۔

(2) اسلامی قائد پہلے دلائل وبراہین کی روشنی میں اپنے عقائد کو پیش کرکے فریقِ مخالف کو ان کے قبول کرنے کی دعوت دے اور جب اتمام حجت ہوجائے اور مقابل منطقی جوابات سے عاجزآکر برسرپیکار ہوجائے تو پھر مادی قوت سے کام لے کر ان مفسد عناصر کا استیصال کردے جن کے پاس عنادوتکبر،جہالت وغرور کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ایسے وقت میں معرکہ جہاد سے جو مال حاصل ہوگااسے غنیمت کہاجائے گا۔

مال غنیمت میں جو لوگ گرفتار ہوکر آئیں گے ان کے ساتھ تین قسم کے برتاؤ کئے جائیں گے:

(1) انہیں بالکل معاف کرکے آزاد کر دیاجائے۔

(2) ان سے فدیہ لے کرانہیں چھوڑدیاجائے۔

(3) انہیں غلام بنالیاجائے۔

ظاہر ہے کہ غلامی تین صورتوں میں سے صرف ایک صورت کا نام ہے جس پرعمل صرف انہیں حالات میں ہوگا جب ولی امر کی نظرمیں یہ صورت باقی دونوں صورتوں سے زیادہ مفید اور صالح ہو(جیساکہ علامہ حلی اور شہید ثانی وغیرہ نے فتویٰ دیاہے)اور پھر ولی امر بھی وہ شخص ہوگا جو زیورعصمت وطہارت سے آراستہ وپیراستہ ہو۔

۳۴۳

اس کا کھلا ہوامطلب یہ ہے کہ اسیر باقی دونوں صورتوں کے نامناسب ہونے کی صورت میں ایک معصوم اور بے خطا انسان کی صوابدید کے مطابق عمل میں آئے گی اور اس طرح ان تمام اوہام واشکالات کا دفعیہ ہوجائے گا جو اسلام کی اسیری کے بارے میں پیش کئے جارہے ہیں۔

سوال یہ رہ جاتاہے کہ غلام بناناکن حالات میں زیادہ مناسب ہو سکتاہے۔

اس کا ایک مختصر جواب یہ ہے کہ جب فریقِ مخالف ان افرادمیں سے ہو جواپنے اسیروں کے ساتھ یہی سلوک کرتارہاہو اب اسے بھی غلام بنایا جائے تاکہ اسے اپنے عمل کی زشتی اور قساوت کا صحیح احساس ہوسکے۔اس کے علاوہ اسلام نے دستوری طور پر ان تفاصیل کو صرف اس لئے واضح نہیں کیاکہ اس نے ان تمام باتوں کا ذمہ دار ایک معصوم شخص کو قرار دیاہے اور ظاہر ہے کہ معصوم اپنی فکر ونظرمیں خطاکار نہیں ہوسکتا۔اس کی صوابدید ہمیشہ حق و واقع کے مطابق ہی رہے گی۔لہٰذا اس کے واسطے مزید ہدایات کی ضرورت ہی نہیں ہے۔

اس کے علاوہ اگر اسلامی احکام کا وہ دور بھی دیکھیں جس میں یہ احکام انطباق کی منزلوں سے گذررہے تھے اور اسلام واقعی جہاد میں مشغول تھا تو ہمیں یہی نظرآئے گا۔

اسلام نے غلامی کا حکم صرف ان افراد پر منطبق کیاہے جو خود اپنے اسیروں کے ساتھ یہ سلوک کر رہے تھے ظاہر ہے کہ ایسے افراد کے حق میں ان کے عناد و تکبر کے بدلے میں اس سے زیادہ مناسب سلوک کیاہوسکتاہے؟

۳۴۴

(8)اقتصادیات اور تغریرات

اسلامی اقتصادیات کے قانون''باہمی کفالت''اور''اجتماعی توازن''پر باقاعدہ نظرکرلینے کے بعد بہت سے وہ اعتراضات رفع ہوجاتے ہیں جن کا تعلق اسلامی تغریرات سے ہے،سرمایہ داری کی نظرسے چورکا ہاتھ کاٹ دینا ایک بہت بڑاسنگ دل اور تشدد آمیزا اقدام ہے اس لئے کہ وہاں اکثریت اپنے مقدر پر گریاں اور سرمایہ داری سے دست وگریباں ہے لیکن وہ ماحول جہاں اجتماعی عدالت کی بناپر ہر شخص کی زندگی کے متوازن اسباب مہیا کردیئے گئے ہوں اس میں ایسے بدکار انسان کے ساتھ اس سے بہتر اور کیا سلوک ہوسکتاہے؟

(3)اسلامی اقتصاد کا عمومی اسلوب

اسلامی اقتصاد اپنے دینی رنگ کی بناپر تمام دیگر نظام ہائے زندگی سے ایک ممتاز اور جداگانہ حیثیت رکھتاہے دین اس کی نظرمیں زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی اور اس کے تمام مشکلات کا معالج ہے۔اسلام جب کسی بھی شعبۂ زندگی کی اصلاح کرے گاتو اس کو دینی سانچے میں ڈھال کراللہ اور روز آخرت سے مربوط کردے گا۔

اس کا یہی دینی رنگ ہے جو اس کے اجتماعی مصالح کے حصول کا ذریعہ ہے اور اس کے بغیر ان مصالح کا حاصل کرناناممکن اور غیر معقول ہے۔

اس اجمال کو سمجھنے کے لئے پہلے یہ دیکھنا پڑے گاکہ انسانی زندگی کے اجتماعی

۳۴۵

مصالح کیاہیں اور ان کی کس حدتک ضمانت لی جاسکتی ہے تاکہ اسی تحقیق کی روشنی میں یہ دیکھاجائے کہ اس ضمانت کے اسباب کیاہوں گے؟اور پھرہم یہ ثابت کرسکیں کہ دین کے علاوہ اس کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔

انسانی مصالح کو دوقسموں پر تقسیم کیاجاسکتاہے:

(1) وہ مصالح جن کا انتظام عالم طبیعت کے ذمہ ہے جیسے طبی ادویہ ظاہر ہے کہ ان مصالح کا کوئی تعلق اجتماعی نظام سے نہیں ہے بلکہ یہ انسان کا ذاتی مسئلہ ہے جو اسے خودہی حل کرناہے۔وہ اپنے اندرجراثیم رکھتاہے یہ جراثیم مرض پیداکرتے ہیں۔اب اس کافرض ہے کہ ان طبی ادویہ کا انکشاف کرکے انہیں استعمال کرے چاہے اسکی زندگی کسی اجتماع میں ہویا اجتماع سے باہرتن تنہازندگی کے دن گذاررہاہو۔

(2) وہ مصالح جن کی ذمہ داری اجتماعی نظام کے سرہے صرف اس بناپر کہ انسان ایک اجتماعی مخلوق ہے وہ دوسروں سے تعلقات رکھتاہے اور ان تعلقات سے کچھ مشکلات پیداہوتے ہیں جن کا حل کرنا ضروری ہے جیسے وہ مصالح جنہیں انسان اجناس کے تبادلہ سے حاصل کرتاہے یاوہ مصالح جو بیکار اور عاجز افرادکی کفالت سے متعلق ہوتے ہیں۔پہلی قسم کانام ہے طبیعی مصالح اور دوسرے کا نام ہے اجتماعی مصالح۔

اب اگرانسان ان تمام طبیعی اور اجتماعی مصالح سے استفادہ کرناچاہتاہے تواس کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ان مصالح کا انکشاف کرے اور کوئی ایسی طاقت پیداکرے جو اسے ان مصالح کی ایجاد کی دعوت دے۔

ٹی، بی کی دواانسان اسی وقت معلوم کرتاہے جب اسے یہ اندازہ ہوجائے کہ اس مرض کی ایک دواہے اور اس کے حاصل کرنے کا ذریعہ ہے اور پھر اس تحصیل کا کوئی محرک بھی ہو۔

بیکاروں کی معیشت کی ضمانت بھی اسی وقت ہوسکتی ہے جب انسان اس کے فوائد

۳۴۶

سے واقف ہو اور اس کی ایجاد کے محرکات اپنے نفس کے اندر پاتاہو۔

ان دونوں شرطوں کے بغیر ان مصالح سے استفادہ کرنا غیر ممکن ہے۔

انسانی مصالح کے بارے میں اس کے دوفرائض ہیں:

(1) ان مصالح کے ادراک کے طریقے معلوم کرے۔

(2) ان کی ایجاد کے اسباب پیداکرے۔

طبیعی مصالح کا تجزیہ بتاتاہے کہ انسان ان کی طرف سے بالکل مطمئن پیداہواہے وہ اپنے اندر اتنی صلاحیت رکھتاہے کہ ان مصالح کا علم حاصل کرسکے۔اس کی فطرت تجربات کی طرف راغب ہے اور تجربہ ہمیشہ بلند پروازی سکھاتاہے جیسے جیسے تجربات بڑھتے جائیں گے وہ اپنے مقصد سے قریب ترہوتاجائے گا۔

اسی صلاحیت کے ساتھ وہ ایک نفسیاتی جذبہ بھی رکھتاہے۔جو اسے ان مصالح کی ایجاد پر آمادہ کرتاہے۔اس لئے کہ طبیعی مصالح نفسانی محرک کے ساتھ ہمیشہ ہم آداز ہوتے ہیں۔

ٹی،بی کی دواکاایجاد کرنا کسی ایک آدمی کی مصلحت سے متعلق نہیں ہے بلکہ اس میں ہر شخص کی مصلحت ہے اور انسان فطری طور پر ان مصالح کی تحصیل پرمجبور ہے یہی وجہ ہے کہ سارے انسان ہمیشہ ان مصالح کی فکر میں رہتے ہیں۔

اجتماعی مصالح بھی طبیعی مصالح ہی کے مانند ہیں یہاں بھی ادراک کے لئے محرکات اور ان کی ایجاد کے لئے عوامل کی ضرورت ہے لیکن سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیا انسانی فکر میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ ان اجتماعی مصالح کا ادراک بھی کرے او رپھر ان کی ایجاد کی طرف متوجہ بھی ہو۔

عام طور سے یہ مشہور ہے کہ انسان ایک ایسی اجتماعی تنظیم کے ادراک ہی سے قاصر ہے جو اس کے اجتماعی مصالح کی ذمہ داراور اس کی افتاد طبع سے ہم رنگ ہو اس لئے کہ

۳۴۷

یہ ادراک انسان کے تمام اجتماعی خواص کے علم وعرفان پر موقوف ہے اور تنا وسیع علم انسان کے اختیار سے باہر ہے۔

اس بیان سے ان حضرات کا مقصد یہ ہے کہ اجتماعی نظام انسان کے لئے مافوق طاقت کی طرف سے بننا چاہئے وہ خود اپنی محدود معرفت کی بناپر اس کے اسرار ورموز معلوم کرنے سے عاجز ہے اور یہی وہ مقام ہے جہاں سے دین کی ضرورت کا آغاز ہوتاہے اور انبیاء ومرسلین کی احتیاج ثابت ہوتی ہے۔

انبیاء ومرسلین وحی والہام کے ذریعہ اجتماعی مصالح کی تحدید کرتے ہیں اور ربوبی اشارے سے انسان کے نظام حیات کو تشکیل دیتے ہیں۔

لیکن ہم یہ پوچھ سکتے ہیں کہ کیا ان مکمل اجتماعی مصالح کی طرح انسان طبیعی مصالح سے بھی ناواقف نہیں تھا؟تو کیا ان مصالح کے انکشاف کے لئے بھی انبیاء ومرسلین کی ضرورت تھی۔

نہ جانے کتنے افراد سل دوق کا شکار ہوکر چل بسے۔

نہ جانے کتنی مدت تک انسانیت اپنی لاعلمی کی بناپر ان مصائب وآلام میں مبتلا رہی۔

نہ جانے کتنے عرصہ کے بعد انسان میں یہ صلاحیت پیداہوئی کہ وہ ان امراض کی دواؤں کا انکشاف کرکے اپنی نوع کا تحفظ کرسکے تو کیا ان سابق ادوارمیں کوئی ایسا انتظام ہواتھا۔

ظاہر ہے کہ نہیں ہواتھا اس لئے کہ خالق کائنات نے انسان کو جس صلاحیت اور استعداد سے نوازاتھا اس پر اعتماد کرکے اسے اس معرکۂ زندگی میں ڈال دیا تھا کہ وہ اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر تجربہ کرتے کرتے ایک دن اپنے امراض کی صحیح دوادریافت کرلے گا اس کے لئے نہ کسی نبی کی ضرورت ہوگی اور نہ کسی مرسل کی۔

یہی حال اجتماعی مصالح کا بھی ہے ۔انسان فی الحال ان صحیح تنظیمات کے ادراک

۳۴۸

سے قاصر ہے جو اس کے واقعی مصالح کے حصول میں مددگار ثابت ہوسکیں لیکن اسی کے ساتھ ساتھ اس میں اتنی صلاحیت بھی پائی جاتی ہے کہ وہ اپنی عملی طاقت صرف کرکے مسلسل تجربات کرے اور پھر ایک ایسے نظام تک پہنچ جائے جو اس کے حق میں صالح اور مناسب ہو، انسان کا موجودہ نقص واضح ہے کہ اس کے نظام آئے دن بدلتے رہتے ہیں لیکن پھر بھی اس کا مستقبل اتنا تاریک نہیں ہے اور اس سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ طبیعی مصالح کی طرح ایک دن ان مصالح کو بھی معلوم کرلے گا اور اس طرح انسانیت خیر وسعادت اور فلاح وبہبود کے ساحل تک پہنچ جائے گی۔

اس بیان کی روشنی میں یہ کہاجاسکتاہے کہ انسان طبیعی مصالح کی طرح اجتماعی مصالح کے ادراک کی بھی صلاحیت رکھتاہے۔اور اسے اس ادراک کے لئے کسی نبی ومرسل کی ضرورت نہیں ہے۔

وہ ہر اعتبار سے ناقص تھا اور رفتہ رفتہ کامل ہوتاگیا، کسی منزل کو حاصل کرچکاہے اور کسی منزل کو مستقبل میں حاصل کرسکتاہے۔لہٰذا دین کی احتیاج کی یہ بنیاد بالکل بے بنیاد ہے۔

حقیقت امریہ ہے کہ انسانیت کے لئے اجتماعی مصالح کے بارے میں جو مشکل پیش آتی ہے وہ ان کے علم وادراک سے متعلق نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق اس عامل ومحرک سے ہے جس کی بناپر وہ صالح نظام عالم وجود میںآئے گااور انسانیت اس کے برکات سے استفادہ کرے گی اور یہی وہ نکتہ ہے جہاں طبیعی اور اجتماعی مصالح میں فرق ہوجاتاہے۔

طبیعی مصالح ہمیشہ اس کے ذاتی مفاد سے متعلق تھے اس لئے ان کی تحصیل کے لئے وہ خود کوشش کیاکرتاتھا اس کے لئے کسی خارجی محرک کی ضرورت نہ تھی لیکن اجتماعی مصالح کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے وہ کبھی اس کے ذاتی مفاد کے خلاف ہوجاتے ہیں۔ایسے حالات میں سوال یہ پیداہوگاکہ ان کا محرک کون ہوگا۔نفسانی جذبات تو مخالفت

۳۴۹

ہی کریں گے ان کی ایجاد کی کوشش نہ کریں گے۔اس لئے کہ یہ غیر ممکن ہے کہ فقیروعاجز افراد کی ذمہ داری کے قانون وہ لوگ نافذ کریں جن کے پاس سرمایہ ہے اور انہیں کے سرمایہ سے ان کا رزق مہیاکیاجاتارہے گا؟یازمین کی قوی ملکیت کی حمایت وہ افراد کریں جو انفرادی ملکیت کے دلدادہ اور اپنی ممتاز شخصیت کے خواہاں ہیں؟

سوال پھر سامنے آئے گاکہ ایسے اوقات میں ان مصالح کی ایجاد کا وسیلہ کیاہوگااور کن اسباب کی بناپر انہیں معاشرے میں رائج کیاجائے گا؟انسان کی نفس پرستی اور خودپسندی کا خاتمہ کیونکر ہوگا؟اس میں اجتماعی مفاد کی صلاحیتیں اور ایثار کے جذبات کیوں کرپیداکئے جائیں گے۔

انسان کے اجتماعی مصالح ایک ایسے عظیم محرک کے محتاج ہیں جو انہیں عالم وجود میں لے آئے اور ہر شخص کو ان کے ایجاد کی ذمہ داری محسوس کرائے خصوصاًان ناخوشگوار حالات میں جب ان میں اور ذاتی مفاد ومصالح میں تضادپیداہوجائے اور وہ ان کی مخالفت پر آمادہ ہوجائیں۔

طبیعی علوم اس مسئلہ کے حل کرنے سے قاصر ہیں

بعض زبانوں پریہ الفاظ چڑھے ہوئے ہیں کہ جس علم نے یہ بے پناہ ترقیاں کرلی ہیں۔

جس نے فکروحیات وکائنات کے میدانوں میں ایسے ایسے اقدامات کئے ہیں جن کی بناپر وہ اسرار کائنات کی گہرائیوں میں اترگیاہے۔

۳۵۰

جس نے عالم کے پیچیدہ سے پیچیدہ معموں کو حل کر لیاہے۔

جس نے ذرہ کاشکم چاک کرکے اس میں سے طاقت نکال لی ہے۔افلاک کو اپنی زدمیں لاکر ان پر راکٹ اڑادیئے ہیں۔جہاز ایجاد کرکے فضاؤں کومسخر کرلیاہے اور طبیعت پرقابو حاصل کرکے ہزاروں میل کی آوازوں کواپنے سامنے حاضر کرلیاہے۔

جس نے اتنی قلیل مدت میںاتنے زیادہ فتوحات کرلئے ہیں کیا اس کے امکان میں یہ بات نہیں ہے کہ اپنے وسیع معارف اور محیط معلومات کی بنار ایک ایسا معاشرہ ایجاد کردے جو عالم بشریت کے لئے صالح اور اس کے اجتماعی مصالح کے لئے مناسب ومفید ہو۔اور اگر ایسا ممکن ہے تو پھر کیاوجہ ہے کہ وہ تمام معرکے تواپنے دست وبازو کی قوت سے سرکرے اور صرف اس میدان میں دوسرے افراد کا دست نگر ہوجائے؟

حقیقت یہ ہے کہ یہ ناقص خیال علوم کی ذمہ داریوں سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔علم ہزار ترقی کے بعد بھی انکشاف ہی کا ایک ذریعہ ہوتاہے اس کا کام اسرار ورموز کا ظاہر کر دینا ہوتاہے۔

اس کا فرض یہ ہے کہ وہ کائنات کے ہر مسئلہ کی بہتر سے بہتر تفسیر اچھے سے اچھے پیرایہ میں کرے۔وہ یہ بہتر بتاسکتاہے کہ سرمایہ دار نظام کیسے رائج ہوتاہے۔وہ یہ بخوبی اظہار کرتاہے کہ فلاں کیمیاکے استعمال سے کیسے مہلک امراض پیداہوں گے۔لیکن اس کی ذمہ داری اسی اعلان کے ساتھ ختم ہوجائے گی۔

اب اس کا فرض یہ نہیں ہے کہ انسان کا ہاتھ پکڑکراسے کیمیاکے استعمال سے روک دے توسوال یہ پیداہوگا کہ پھر وہ کون سی طاقت ہے جو ایسے سرمایہ دار نظام کو توڑدے یا انسان کو اس کیمیاسے پرہیز کرنے کے طریقے سکھائے۔

کیمیاکے بارے میں تویہ کہابھی جاسکتاہے کہ انسان اپنی ذات سے محبت کی بناپر ذاتی طورپر اس سے اجتناب کرے گا اور اپنی نجات کے اسباب مہیا کرے گا لیکن سرمایہ

۳۵۱

داری کے متعلق یہ بات نہیں کہی جاسکتی اس لئے کہ علم اس کی برائی کا اظہار کرکے الگ ہو چکا ہے۔اب ایسے محرکات کی ضرورت ہے جو اس کی مخالفت پر آمادہ کریں۔ظاہر ہے کہ وہ انسان کانفس نہیں ہوسکتااس لئے کہ بسااوقات سرمایہ دارانہ اندازہی نفسانی مفاد کے موافق ہوتاہے۔ایسی حالت میں نفس کی طرف سے اس کی مخالفت کی توقع بالکل غلط اور بے جا ہے۔ لہٰذا ایک ایسے محرک کی تلاش ضروری ہے جو اس مقصد کو حاصل کراسکے۔یہ بات نہ نفس انسانی کے بس کی ہے اور نہ علم طبیعیہ کے۔

مادیت تاریخ اور مشکل

مارکسیت کا خیال ہے کہ اس مشکل کو تاریخی مادیت کے حوالے کردیاجائے وہ خودہی ایک دن اس کا کوئی معقول حل تلاش کرلے گی، اس لئے کہ اس مشکل کی بنیاد صرف یہ ہے کہ انفرادی مصالح بسااوقات اجتماعی مصالح سے متصادم ہوجاتے ہیں اور ایسے وقت میں نفس پر ست انسان اپنے ذاتی مفادکو مقدم کردیتے ہیں اور اس طرح اجتماعی مفاد کا خون ہوجاتاہے۔

لیکن ظاہر ہے کہ یہ کوئی جدید مشکل نہیں ہے بلکہ یہ صورت ابتدائے تاریخ سے چلی آرہی ہے ہر دورمیں انفرادیت پرست افراد نے معاشرہ سے بغاوت کرکے طبقاتی نظام قائم کیاہے اور پھر ذرائع پیداوار سے ملکیت کی بناپر میدان اقتصاد کے فاتح بھی قرار دپائے ہیں اور آخر کار تاریخ نے وہ منظر بھی پیش کر دیاہے جب ان کی انفرادیت کا جنازہ نکل گیا، ایک غیر طبقاتی نظام قائم ہو گیا اور ہر شخص اجتماعی مفاد پر جان دینے لگا۔

۳۵۲

ہم نے اس مادیت کا تجزیہ کرتے وقت ہی ظاہر کردیاتھا کہ اس قسم کے الہام کی کوئی بظاہر دلیل نہیں ہے اور نہ اس کو اس اہم مسئلہ کا حل قرار دیاجاسکتاہے۔مسئلہ اپنی اصلی حالت پر باقی ہے اور معاشرہ پر خواہشات کی حکومت قائم ہے۔اب کامیابی اس کے ہاتھوں ہے جو اپنے خواہشات کے مطابق درآمد کرسکے اور جو شخص اپنے دست وبازو میں طاقت نہیں رکھتا اس کی قسمت میں بڑے طبقہ کی زیردستی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

فطرت تڑپ رہی ہے کہ ایک قانون بن جائے جو انسانیت کے اجتماعی مفاد کا تحفظ کرے اور پھر اسی قانون کی حکومت ہو۔

ممکن ہے کہ کوئی شخص یہ خیال کرے کہ قانون کو نافذ کرنے کے لئے حکومت کافی ہے لہٰذا مسئلہ کو اقتدار اعلیٰ کے حوالے کردینا چاہئے۔لیکن میراکہنا یہ ہے کہ یہ خیال بالکل ہی مہمل ہے اس لئے کہ حکومت کے افراد خودبھی سماج کے باہر سے نہیں آتے ہیں بلکہ وہ بھی اسی سماج کی پیداوار ہوتے ہیں۔انہیں بھی اپنے نفس سے محبت ہوتی ہے ان کے بھی ذاتی مصالح ہوتے ہیں۔ان حالات میں اس بات کی ذمہ داری نہیں لی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے انفرادی مفاد سے قطع نظرصرف اجتماعی مصالح کو مستحکم کرنے کی کوشش کریں گے۔

توکیا انسانیت کے مقدرمیں یہی لکھاہے کہ وہ اس قسم کے مشکلات کا شکاررہے اور اپنی بدبختی پرنوحہ پڑھتی رہے؟کیاوہ کائنات جسے ارتقاء وتکامل کے صلاحیات اور کمال کے جذبات سے نوازاگیاہے انسان اس سے الگ کوئی مخلوق ہے۔

یہی وہ بھیانک منظرہے جہاں دین کا حسین چہرہ چمکتاہوانظرآتاہے اور وہ اعلان کرتاہے کہ اس نازک مسئلہ کے لئے اگرکوئی داقعی حل ہوسکتاہے تو وہ مذہب ہے۔

مذہب ہی وہ روحانی طاقت ہے جو انسان سے انفرادی مفاد کو ترک کراسکتی ہے اس لئے کہ اس کی نظرمیں اس سے بلند فائدے بھی ہوتے ہیں۔

یہی وہ قوت ہے جو انسان سے اس کے وجود کو بھی قربان کراسکتی ہے صرف اس

۳۵۳

تصور میں کہ اس کے بعدایک جاودانی زندگی ہاتھ آئے گی۔

یہی وہ زاویۂ نظرہے جو اپنے مفاد کے مقابل دیگر مصالح کا احساس پیداکرسکتا ہے۔

یہی وہ طرز فکر ہے جہاں ہر نقصان فائدہ اور ہر زحمت لذت معلوم ہوتی ہے۔ دوسروں کا خسارہ اپنا خسارہ اور دوسروں کا فائدہ اپنا ذاتی مفاد معلوم ہوتاہے۔انفرادی واجتماعی مصالح کا تفرقہ ختم ہوجاتاہے اور انسان آفاق عالم میں سیر کرتاہوانظرآتاہے۔

قرآن کریم نے فائدہ ونقصان اور حیات وموت کے اسی جدید مفہوم کی وسعت اور ہمہ گیری کے اعلان کے لئے حسب ذیل بیانات دیئے ہیں:

مَنْ عَمِلَ سَيِّئَةً فَلَا يُجْزَىٰ إِلَّا مِثْلَهَا ۖ وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَـٰئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ يُرْزَقُونَ فِيهَا بِغَيْرِ حِسَابٍ ﴿٤٠﴾

جو مردوعورت باایمان رہ کر عمل صالح کرے گا اس کا مقام جنت ہوگا وہ اپنی منزل اعلیٰ میں بلاحساب داخل ہوگا۔ (غافر/40)

مَّنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا ۗ ﴿٤٦﴾

جو شخص اچھا کرے گا وہ اپنے لئے اور جو براکرے گا وہ بھی اپنے نفس کے اوپر۔ (فصلت46)

فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ ﴿٧﴾ وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ ﴿٨﴾

قیامت کے دن لوگ اپنے اعمال کا انجام دیکھنے کے لئے قبروںسے نکالے جائیں گے اگر ذرہ برابر خیر کیاہے تو وہ بھی دیکھیں گے اور اگر بقدر ذرہ برائی کی ہے وہ بھی سامنے آئے گی۔ (زلزلہ6تا8)

وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ أَمْوَاتًا ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ ﴿١٦٩﴾

راہ خدا کے شہیداء کو مردہ نہ خیال کرو،یہ زندہ ہیں اوراپنے پروردگار

۳۵۴

کے پاس رزق پارہے ہیں۔ (آل عمران169)

الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَجَةً عِندَ اللَّـهِ ۚ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ ﴿٢٠﴾يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُم بِرَحْمَةٍ مِّنْهُ وَرِضْوَانٍ وَجَنَّاتٍ لَّهُمْ فِيهَا نَعِيمٌ مُّقِيمٌ ﴿٢١﴾

مدینہ اور اس کے اطراف والوں کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ رسول(ص) سے الگ ہوجائیں اور اپنے نفس کو ان کے نفس پر مقدم کردیں اس لئے کہ راہ خدا میں انہیں بھوک،پیاس وغیرہ جو تکلیف بھی ہوتی ہے وہ دشمنوں کے لئے جو قدم بھی اٹھاتے ہیں اور ان سے جواذیت بھی اٹھاتے ہیں سب کے عوض میں انہیں عمل صالح کا اجر ملتاہے اس لئے کہ اللہ حسن عمل والوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔یہ لوگ راہ خدا میں جو کچھ بھی خرچ کرتے ہیں یا جس قدر مسافت بھی طے کرتے ہیںیہ سب لکھ لیاجاتاہے تاکہ انہیںبہترسے بہتربدلہ دیاجاسکے۔ (توبہ20،21)

یہ وہ حسین نقشہ ہے جس میں ذاتی اغراض اور خیرکے راستوں کو متحد بناکے پیش کیا گیاہے تاکہ انسان یہ سمجھ لے کہ اس کے ذاتی اور اجتماعی مفاد میں یگانگت اور یک رنگی پائی جاتی ہے۔

دین ہی وہ واحد طاقت ہے جو اس مشکل مسئلہ کو حل کر سکتی ہے اس انداز سے کہ ذاتی مصالح کے عوامل ومحرکات بھی اجتماعی مصالح کے محرک بن جائیں۔

یہی انسان کی وہ فطری ضرورت ہے جو فطرت ہی سے پیداہونے والے مشکلات کو حل کرتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ جب قدرت نے انسان کو تحصیل کمال کے جذبات دیئے ہیں

۳۵۵

اور اسے ارتقاء وتکامل کی راہیں دکھائی ہیں تو اس کا فرض تھاکہ اس کی فطرت سے پیداہونے والے مشکلات کا حل اسی فطرت میں ودیعت کرتی۔چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا اور فطرت میں ایسی دورنگی پیداکر دی کہ وہ ایک طرف ذاتی اغراض کو ابھارکر اجتماعی مشکل پیداکرتی ہے اور دوسری طرف انسان کو دین کے سانچے میں ڈھال کر اس عظیم مشکل کا حل بھی پیش کرتی ہے۔

وہ اگر مشکل کو ابھارکر خاموش ہوجائے تو انسان تاقیامت اس سے نجات نہ پا سکے اور ہمیشہ اسی مصیبت میں گرفتار رہے اس لئے مشکل کو ابھارنے کے ساتھ ہی فوراً اس کے حل کی طرف بھی متوجہ کردیتی ہے۔

قرآن کریم نے اسی نکتہ کی طرف اشارہ کیاہے:

فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا ۚ فِطْرَتَ اللَّـهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۚ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّـهِ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ﴿٣٠﴾

اپنا رخ دین حنیف کی طرف رکھو،یہی اللہ کی وہ فطرت ہے جس پر لوگوں کو خلق کیاہے اور اس کی خلقت قابل تبدیلی نہیں ہے۔یہی محکم دین ہے لیکن اکثر لوگ اس سے ناواقف ہیں۔ (روم30)

اس آیۂ کریمہ سے چند باتوں پر روشنی پڑتی ہے:

(1) دین ایک فطری شے ہے جسے لے کر انسان دنیا میں آتاہے اور اس خلقت میں کسی طرح کا تغیر غیر ممکن ہے۔

(2) انسان کو جس دین پر پیداکیاگیاہے وہ دین حنیف یعنی خالص توحید کا دین ہے۔ یہی اپنے واقعی فرائض کو ادا کرسکتاہے اور یہی انسان کو اجتماعی تنظیم اور عملی معیار پر متحد بناسکتاہے۔اس کے علاوہ ادیان شرک یعنی متفرق خداؤں کے دین اس مشکل کو حل

۳۵۶

کرنے سے قاصر ہیں کہ ان کا وجود ہی اس مشکل کا نتیجہ ہوتاہے۔جیساکہ جناب یوسف ـنے فرمایا تھا:

مَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِهِ إِلَّا أَسْمَاءً سَمَّيْتُمُوهَا أَنتُمْ وَآبَاؤُكُم مَّا أَنزَلَ اللَّـهُ بِهَا مِن سُلْطَانٍ ۚ

تم لوگ تو صرف ان ناموں کی پرستش کرتے ہو جنہیں تم نے اور تمہارے آباؤ اجداد نے مل کر مقرر کرلیاہے اللہ نے اس پر کوئی دلیل نہیں نازل کی ہے۔ (یوسف40)

مطلب یہ ہے کہ یہ خود نفسیاتی محرکات کی پیداوار ہیں جنہوں نے انسان کو اپنے انفرادی مصالح کے لئے ان ادیان شرک کا درس پڑھایاہے تاکہ وہ اس طبیعی رجحان کا مقابلہ کریں جو انسان کو دین حنیف کی طرف کھینچ رہاہو۔

(3) وہ دین حنیف جس پر عالم بشریت کی تخلیق ہوئی ہے اس کا ایک خاصہ یہ ہے کہ وہ محکم دین ہے اور انسانیت کو اپنے سانچہ میں ڈھال سکتاہے اس لئے کہ جو دین انسان کی صحیح قیادت نہ کر سکے وہ اس اجتماعی مشکل کو حل کرنے سے قاصر ہے۔

ہمارے ان بیانات سے دین وحیات کے بارے میں اسلام کے مختلف نظریات سامنے آجاتے ہیں:

(1) انسانی زندگی کی بنیادی مشکل خود اس کی فطرت سے پیداہوتی ہے جو نفس پرستی اور خودپسندی کا جذبہ لے کر دنیامیں آئی ہے اور پھر اس مشکل کا علاج بھی اسی فطرت سے ہوتاہے اور یہ علاج صرف دین حنیف ہے جو انسان کے ذاتی اور اجتماعی مفاد میں مطابقت پیداکراسکتاہے

(2) اجتماعی زندگی کو ایک محکم دین کی ضرورت ہے

(3) زندگی کے مختلف شعبوں کی اجتماعی تنظیم دین کے زیر سایہ ہونی چاہئے۔یہی اس کے

۳۵۷

جملہ امراض کا معالج اور تمام مشکلات کا واحد حل ہے

اسلام کا اقتصادی نظام اجتماعی تنظیم کا ایک جزء ہونے کی حیثیت سے دین کے ضمن میں زیر بحث آناچاہئے۔وہی اس کی بنیاد اور اس کے قوانین کا سرچشمہ ہے۔اقتصاد کا دین سے الگ کرلینا اس کے واقعی رنگ کو تباہ کردینا اور اسے اس کی واقعی منزل سے معزول کر دیناہے۔

اسلامی اقتصادکوئی علم نہیں ہے

کھلی ہوئی بات ہے کہ ہر اقتصادی تنظیم کسی مکمل نظام کا ایک جزء ہوتی ہے۔جو زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہوتاہے۔مثال کے طورپر اسلامی اقتصاد مذہب اسلام کا ایک شعبہ ہے ،سرمایہ دار اقتصاد،ڈیموکریسی سرمایہ داری کا ایک جز ہے۔اشتراکی تنظیم مارکسی نظام کا ایک پہلو ہے اور یہ تمام مذاہب اور نظام اپنے بنیادی اصولوں میں شدید اختلاف رکھتے ہیں اور انہیں اصولوں کی بنیاد پر ان کا ٹائٹل قائم ہوتاہے۔

مارکسی اقتصاد اپنے لئے علمی رنگ اختیار کرتاہے اس لئے کہ وہ اشتراکیت کو علمی اور تاریخی قوانین کا حتمی نتیجہ قرار دیتاہے۔

سرمایہ دار اقتصاد اپنے کو تاریخ سے الگ کرکے چند مخصوص افکار واقدار کا نمونہ قرار دیتاہے۔

اور اسلام ان دونوں سے الگ ایک راستہ اختیار کرتاہے۔وہ نہ تو اپنے کو تاریخ کا حتمی نتیجہ قرار دیتاہے اور نہ حیات وکائنات کے مفاہیم سے الگ قدروں کا قائل ہے۔ وہ

۳۵۸

اپنے اقتصادی نظام کو اسی مذہب کا ایک جز سمجھتاہے جس کی بنیاددینی عقائد پر ہے اس کے علمی نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ سیاسی اقتصادیات کی طرح نہیں ہے بلکہ وہ ایک عقائدی تنظیم کا شعبہ ہے جس کے تمام شعبے ایک مرکز پر جمع ہوجاتے ہیںاور ان کے مجموعہ کانام دین ہوتاہے۔

دین ایک انقلابی تحریک ہے جو فاسد عناصر کو ختم کرکے صالح معاشرہ کی تشکیل کرتاہے اس کا کام عمل ہوتاہے۔

وہ معاشرہ کے حوادث وقائع کی فنی توجیہیں نہیں کرتااور نہ اسے اس فکری تگ ودو سے کوئی دلچسپی ہوتی ہے۔

وہ انفرادی ملکیت کو تاریخ کے کسی دور کا حتمی نتیجہ نہیں سمجھتابلکہ انسانیت کے حق میں صالح اور مناسب خیال کرکے اس کی ایجاد کے اسباب فراہم کرتاہے اور اس اعتبار سے کسی حد تک سرمایہ دار نظام سے مشابہت رکھتاہے اس لئے کہ وہاں بھی انقلاب کا کام ہوتاہے تاریخی ضرورت اور حادثاتی تفسیر کا نہیں۔

اسلامی اقتصادیات کے بارے میں عمل کا فریضہ یہ ہے کہ تشریع اسلام کی روشنی میں اقتصادیات کی مکمل تنظیم کو معلوم کرکے ان افکار ومفاہیم کا اندازہ لگائے جو اس تنظیم کی پشت پر کارفرماہیں اور علم کا فریضہ یہ ہے کہ ان واقعات وحوادث کی تفسیر کرکے ان کے باہمی ربط کو تلاش کرے۔

اس لحاظ سے بھی اسلام کی شکل سیاسی اقتصاد کی سی ہوگی جہاں مذہب کے نشانات معین کرنے کے بعدعلمی قوانین کاا نکشاف کیاجاتاہے۔

ظاہر ہے کہ اسلامی اقتصاد کے لئے یہی ایک بات ممکن ہے کہ اسلامی معاشرہ کے حالات کو دیکھ کر اس لئے ایک علمی قانون بنالیاجائے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کام اسلامیات کے سلسلہ میں کب اور کیسے ہوسکتاہے۔

۳۵۹

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اقتصادی زندگی کے حالات کی توجیہ وتفسیر کے دو طریقے ہواکرتے ہیں:

(1) کسی ایک معاشرہ پر اس نظام کو منطبق کرکے اس کے تجربات کو جمع کرلیاجائے اور پھر انہیں واقعات کے درمیان سے اس امر کا استنتاج کیاجائے کہ ان کی پشت پرکون سے قوانین کام کررہے تھے۔

(2) چند مسلم قوانین فرض کرلئے جائیں اور پھر انہیں کی روشنی میں ان پر مرتب ہونے والے نتائج کا اندازہ کیاجائے تاکہ اس طرح ایک مکمل علم تشکیل پاسکے۔

پہلی صور ت حال سرمایہ داری کے لئے توممکن ہے کہ وہ نظام عالم پر منطبق بھی ہوئی ہے اور اس کے تجربات بھی حاصل ہوئے ہیں۔لیکن اسلام کے لئے یہ بات غیر ممکن ہے۔

اس لئے کہ اس کا رواج دنیاکے کسی گوشے میں نہیں ہے۔اس کے قوانین واصول کہیں بھی حکومت نہیں کرتے۔معاشرہ کے حالات سے اس کے علمی قوانین کا تجزیہ کرنا غیر ممکن ہے۔

البتہ دوسری صورت ممکن ہے اس لئے کہ اس میں کسی ایسے خارجی تجربہ کی ضرورت نہیں ہے جس سے اسلام کو محروم فرض کیاجائے بلکہ صرف چند مفروضات کی ضرورت ہے اور انہیں کی روشنی میں تاریخی حوادث کی تفسیر کرنی ہے۔

اس بنیاد پر یہ ممکن ہے کہ مسلمان نقاد اس بات کا دعویٰ کردے کہ اسلامی نظام میں اہل تجارت اوربینک والوں کے مصالح میں وافقت ومطابقت ہوگی اس لئے کہ اسلام میں بینک سودخوری کی بنیاد پر قائم نہیں ہوتابلکہ اس کی بنیاد مضاربہ پرہوتی ہے اور مضاربہ میں منافع کی تقسیم دونوں کے درمیان فیصدی نسبت سے ہوتی ہے اس کی کوئی مقدار معین نہیں ہوتی۔

۳۶۰