اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب0%

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 391

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ شھید باقر الصدر طاب ثراہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 391
مشاہدے: 104486
ڈاؤنلوڈ: 3731

تبصرے:

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 391 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 104486 / ڈاؤنلوڈ: 3731
سائز سائز سائز
اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ہے جہاں تک انسان کو پہنچنا چاہئے اور نہ یہ وہ منزل ہے جہاں تک عوام کی ترقی ہونی چاہئے یا ان تمام باتوں کے باوجود نظریات کا اختلاف خود ایک قیمت رکھتا ہے جس کے ذریعے مستقبل میں پیدا ہونے والی غلط صورتحال کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے ۔ جہاں روس میدان عمل سے پیچھے ہٹ کر صلح پر تیار ہو سکتا ہے اور چین اپنی انتہا پسند ذہنیت کی بنیاد پر یہ کچھ نہیں کر سکتا۔ یہی حال امریکہ کا بھی ہے وہ بھی ملک میں خوشحالی اور عوام میں رفاہیت چاہتا ہے لیکن اس طرز فکر سے متفق نہیں ہے جو اشتراکی روس کے ذہن میں پایا جاتا ہے۔ اس کے خیال میں انسان کو سرمایہ دارانہ نظام کا حامی ہونا چاہئے اور ملکی خوشحالی کو اسی نظام کے زیر سایہ پروان چڑھنا چاہئے۔ ذاتی ملکیت ہی پورے اقتصادی نظام کی بنیاد ہے اور شخصی آزادی ہی سے ملکی خوشحالی پیدا ہو سکتی ہے۔

مقصد اور حالات کی یکسانیت کے باوجود نظریات کا اتنا شدید اختلاف اس بات کا ثبوت ہے کہ کسی ملک نے بھی اپنے طریق کار پر عمل نہیں کیا۔ہر ایک نے دستور میں کچھ اور اصول درج کئے ہیں اور عملی میدان میں کچھ اور طریق کار اپنایا ہے۔ اسلام اس بات کا شدید مخالف ہے۔اس کا نظریہ یہ ہے کہ جس قانون سے مقصد کی تکمیل نہ ہوسکتی ہو اور اس میں حالات کے اعتبار سے ترمیم وتنسیخ ضروری ہو اس قانون کو دستور کے صفحات سے محوکر دینا چاہئے۔

نظریاتی اختلاف کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ نظریات ہی قانون کے رواج کا ذریعہ بنتے ہیں۔روسی اشتراکیت کا خیال ہے کہ عوام کی تھوڑی سی آزادی اور ان پر شدید دباؤ قانون کو رائج کر سکتاہے۔چینی اشتراکیت کا خیال ہے کہ تھوڑی سی آزادی اور معمولی سی ملکیت بھی انسان کے ذہن کو خراب کر سکتی ہے۔سرمایہ داری کا عقیدہ ہے کہ مقابلہ کے میدان میں مکمل آزادی ہی ملکی پیداوار اور عوامی خوشحالی کا ذریعہ بن سکتی ہے اور اسلام کا نظریہ یہ ہے کہ عمل کے میدان میں انسان کو مکمل آزادی ملنی چاہئے۔اسے ہر اس کام کا

۲۱

اختیار ہونا چاہئے جس میں کوئی عقلی پہلو نکل سکتاہو اور اس کی انسانیت کوکوئی ٹھیس نہ لگتی ہو۔ اس کی نظرمیں قانون کے رواج کا واحد ذریعہ انسان کا فطری عقیدہ ہے۔عقیدہ وہ طاقت ہے جو حاکم ومحکوم دونوں پر دباؤ ڈال سکتی ہے اور احساس بندگی وہ اعجاز ہے جس سے سرکش انسان کو بھی مسخر کیاجاسکتاہے۔

روس کی موجودہ صورت حال یقینا اچھی ہے اور اقتصادی اعتبار سے اس کا انکار کرنا اپنے وجود اور آفتاب وماہتاب کی گردش سے انکار کرنے کے مترادف ہے۔لیکن دیکھنا یہ ہے کہ روس یا چین کو یہ آسائش گیتی اوررفاہیت حال کیسے نصیب ہوئی ہے؟یہ صرف اس کے حسن انتظام اور دیانت داری کا کرشمہ ہے یااس کے پس منظرمیں کچھ قربانیاں بھی ہیں۔ حالات کا گہرا مطالعہ بتاتاہے کہ روس نے اس رفاہیت کی راہ میں تین قسم کی قربانیان دی ہیں۔آزادی کی قربانی،صنف کی قربانی اور مامتاکی قربانی۔

آزادی کی قربانی کا مطلب یہ ہے کہ اس نے آغاز کار میں ایک آمرانہ نظام حکومت کے ذریعہ ذاتی ملکیت کایک لخت خاتمہ کر دیاتھا۔بعد میں چھوٹی چھوٹی ملکیتوں کے اعتراف کا سلسلہ شروع ہوااور اب ذاتی ملکیت کا بڑی حد تک اعتراف کرلیاگیاہے۔ ذاتی ملکیت کے محوکر دینے کا نتیجہ یہ ہواکہ ملک کے پاس ساری دولت جمع ہوگئی اور اس نے انتظام شروع کر دیا۔چھوٹے سرمایہ دار بھی اپنے مزدوروں کی زندگی کے خواہاں ہوتے ہیں اور بڑااسٹیٹ ڈکٹیٹر بھی عوام کی بقاچاہتاہے لیکن دونوں کے پیش نظریہ ضروری ہوتاہے کہ اس طرح زیادہ سے زیادہ رقم اپنی ذات پر صرف کرنے کا موقع ملے گا اور اپنے لئے آسائش کے بہتر سے بہتر سامان فراہم ہوسکیں گے۔ اس سلسلے میں کسی حاکم وآمر کی نیت پر شبہہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔صرف دیکھنا یہ ہے کہ اگر ابتدائی دور سے انسان کو اس کے فطری عقائد کی طرف متوجہ کر دیاجاتااور اسے خدائی نظام کا پرستار بنالیاجاتاتو اس آمریت کی ضرورت ہی نہ ہوتی۔عوام کی آزادی بھی محفوظ رہتی اور حکومت کا کام بھی چلتارہتا۔جبر و

۲۲

تشدد کی ضرورت وہاں ہوتی ہے جہاں انسان ازخود کام کرنے پر آمادہ نہ ہو، اور کام سے نفرت اسی وقت ہوتی ہے جب اس پر کوئی باطنی دباؤ نہیں ہوتا۔عقیدہ اس داخلی دباؤ کانام ہے جس کے بعد کسی جبروتشدد کی ضرورت نہیں پڑتی۔بغاوتوں کے کچلنے کی ضرورت ضرور رہتی ہے لیکن یہ بغاوت کے بعدہوتاہے اور صرف باغی قوم کے ساتھ ہوتاہے اور اشتراکی نظام کے لئے ذاتی آزادی کے سلب کر لینے میں نیک نیت اور بدباطن سب ہی شریک ہیں۔کوئی اس آفت سے نجات نہیں پاسکتا۔

صنف کی قربانی کا مفہوم یہ ہے کہ اشتراکی ممالک میں انسان کی دونوں صنفوں کے کاندھے پر عمل کا بوجھ ڈالاگیاہے۔یہاں عورت کو اسی طرح کام کرناپڑتاہے جس طرح ایک مرد کرتاہے۔پردے کا تصور لغوہے۔ہوٹلوں میں عورتیں کام بھی کرتی ہیں اور تسکین نظرکا ذریعہ بھی بنتی ہیں۔اختلاط درجۂ کمال پر ہے اور عورت ومرد دوکے بجائے ایک صنف نظر آتے ہیں۔ظاہر ہے کہ یہ بات ان افراد کے لئے توبہت اچھی ہے جن کے یہاں عزت وآبرو،غیرت وحیا،دورجاگیروسرمایہ کی پیداوار ہیں لیکن وہ لوگ جوان تقاضوں کو فطری سمجھتے ہیں،عورت کو عورت دیکھنا چاہتے ہیں اور مرد کو مرد،وہ کبھی ایسی قربانی پرتیارنہیں ہوسکتے۔ مذہب نے بندگی کے پردے میں یہ نکتہ بھی سمجھادیاتھاکہ ایک ایسا دستور حیات بھی ممکن ہے جہاں ہر صنف اپنی منزل پر رہے اور وہی رفاہیت حال پیدا ہوجائے جوان قربانیوں کے بعد پیداہوتی ہے۔عورت گھرکاکام انجام دیتی رہے اور مرد باہر کا۔مرد اپنے آہنی ہاتھوں سے کسب معاش کرے اور عورت اپنے دست نازک سے اسے مرد کے سامنے پیش کرے۔ محبت سے بھرے دل ہوں اور الفت سے لبریز برتاؤ۔مجبوری کی صورت میں دونوں کے معاش کا انتظام اسٹیٹ اپنی املاک سے کرے جو اسے اسٹیٹ کے نام پر دی گئی ہے اور جس تک عام انسان اور ان کی ضرورتوں کی رسائی نہیں ہے۔

مامتاکی قربانی کامطلب یہ ہے کہ اس معاشرہ میں عورت کو ایک مشین کی حیثیت

۲۳

دے دی گئی ہے اس کاکام پرزوں کوڈھال دیناہے۔اس کے بعد پرزوں کا کیا مصرف ہوگا، کس مشین میں فٹ کئے جائیں گے،کس بازار میں بکیں گے،کس کس طرح ڈھالے اور تراشے جائیں گے اس کا مشین سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔بچوں کا ماؤں کی مامتااور باپ کی شفقت سے محروم کر دینا یہ دونوں کے جذبات کی عظیم قربانی ہے جو بعض معاشی اغراض اور سیاسی مقاصد کے تحت لی توجاسکتی ہے لیکن اس کا باقی رکھنا بہت مشکل ہے۔ مامتا کسی وقت بھی جوش میں آسکتی ہے شفقت پدری کاجذبہ کسی وقت بھی بیدار ہوسکتاہے اور اگر بفرض محال ایسانہ بھی ہوااور سماج میں ایسی ہی بے حسی پھیل گئی تو بھی وہ معاشرہ یقینا قابل فخر ہوگا جس میں قربانیوں کے دئے بغیر انسانی نسل کی تربیت ہوجائے۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ بچوں کی تربیت کے لئے نرسنگ ہوم قائم کئے جاتے ہیں۔ان کے لئے نرسیں رکھی جاتی ہیں اور اس طرح عورتوں یامردوں کی ایک خاص تعداد اس کام پر مقررکردی جاتی ہے لیکن یہی کام ان عورتوں اور مردوں کے حوالے نہیں کیاجاتاجنہیں فطرت نے ان کا مربی اور نگراں بنایا ہے اور جن کے دلوں میں تربیت کے بہترین جذبات پائے جاتے ہیں۔کھلی ہوئی بات ہے کہ تربیت کاکام ماں باپ کے حوالے ہوتاہے تو وہ اپنا سمجھ کرپالتے ہیں اور ملازمین کے حوالے ہوتاہے تو وہ ڈیوٹی سمجھ کر فرض انجام دیتے ہیں۔اپناسمجھنے کی صورت میں مقابلہ کا جذبہ ابھرتاہے اور ہر ایک اپنے بچے کو آگے بڑھانے کی کوشش کرتاہے اور ڈیوٹی کی صورت میں تربیت میں یکسانیت ہوتی ہے۔نرسوں کو کسی خاص بچے سے کوئی خاص انس نہیں ہوتاکہ وہ اسے زیادہ بہتر تربیت دے سکیں اور اس طرح ذاتی صلاحیتیں توابھرتی ہیں لیکن حسن تربیت کے اثرات پوشیدہ ہی رہ جاتے ہیں۔

یہ صحیح ہے کہ اولاد کی تربیت کے لئے ماں باپ ہی ضروری نہیں ہیں۔ انسان کا بچہ بھیڑیئے کے بھٹ میں بھی تربیت پالیتاہے اور انسان ہی رہتاہے لیکن علم الحیات کے ماہرین اتنا ضرورتسلیم کرتے ہیں کہ تربیت اور دودھ کا زندگی پر بے پناہ اثر پڑتاہے۔

۲۴

بھیڑیے کے بھٹ میں پلنے والا بچہ انسان کا بچہ ضرور ہوتاہے لیکن بھیڑیاصفت درندہ خصلت ہی رہتاہے۔گائے اور بھینس کے دودھ پر پرورش پانے والا بچہ شکل میں انسان ہی رہتاہے لیکن صفات میں حیوانیت سے ضرورمتاثر ہوجاتاہے۔یہ اور بات ہے کہ آج کے معاشرہ میں اس کا احساس نہ ہوسکے اس لئے کہ تقریناً 75 فیصدی افراد اسی صفت کے حامل ہوتے ہیں اور ان کی اسی ایک نہج پر تربیت ہوتی ہے۔

اسلام نے اپنے معاشی نظام میں انہیں نکات کو پیش نظررکھاہے اور معاشی زندگی کے سدھار کے لئے انہیں امور کی رعایت کے ساتھ دستور مرتب کیاہے۔ اس کی نظرمیں معاشی بدحالی کو دور کرنے کے لئے نہ صنف کی قربانی کی ضرورت ہے اور نہ مامتاکی۔ نہ انفرادی آزادی کے سلب کرنے کی احتیاج ہے اور نہ ذاتی ملکیت کے اس کا دستور یہ ہے کہ عورتیں گھر کے اندر رہ کر بچوں کی تربیت اور شوہر کی خوشحالی کا انتظام کریں۔جتنی اچھی بچوں کی تربیت ہوگی اتنا زیادہ مستقبل روشن ہوگا اور جتنا زیادہ شوہر کو خوش رکھیں گی اتنا ہی زیادہ اپنا فائدہ بھی ہوگااور سماج کی خدمت بھی عفت وپاکدامانی عورت کا عظیم جوہر ہے جس کی قربانی کسی عالم میں بھی روانہیں ہے۔اس دولت کی حفاظت بہرحال ضروری ہے چاہے اس کے لئے کتنی ہی زحمتیں کیوں نہ برداشت کرناپڑیں۔حکومت کاکام یہ ہے کہ وہ ان کے لئے وسائل تربیت مہیاکرے پرورش کے ذرائع زیادہ سے زیادہ فراہم کرے اور اگرعورت بیوہ،لاوارث یا مرد بیکار ومجبور ہوجائے توپورے گھر کی زندگی کا انتظام کرے۔حکومت عامہ انہیں زحمتوں سے بچنے کے لئے سارے ملک کوکام میں لگادینا چاہتی ہے اسے اس بات کا اندازہ ہے کہ اگر بچہ ماں باپ کے پاس رہے گا تو مامتا کے جوش اور باپ کی شفقت کی بناپر اس پراتنا بوجھ نہ ڈالاجاسکے گا جتنا بوجھ اپنے قبضہ میں رکھنے کے بعد ڈالاجاسکتاہے اور ظاہر ہے کہ جب کام کرنے والے زیادہ ہوں گے تو پیداوار بھی زیادہ ہوگی او رجب پیداوار زیادہ ہوگی تو ملک بھی خوشحال ہوگا۔سامان تعیش بھی بہتر فراہم ہوسکے گا۔ یہ

۲۵

اور بات ہے کہ ملک کے باشندے فکر ونظر،شعورواحساس،جذبات وعواطف والے انسان نہ ہوں گے بلکہ کل پرزے والے آلات ہوں گے جنہیں زیادہ سے زیادہ تیل پانی دیاجائے گا تاکہ زیادہ دیر تک چل سکیں اور زیادہ سامان پیداکر سکیں۔

حضرت امام جعفر صادق ـنے انہیں مصالح کو پیش نظر رکھتے ہوئے سچے اسلام کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچاتھاکہ:

اختبرواشعیتنا بجصلتین محافظتهم علیٰ اوقات الصّلوة ومواساتهم بینهم بالمال

ہمارے شیعوں اور پیروؤں کو دوعادتوں سے آزماؤ۔نماز کے اوقات کی پابندی اور آپس میں مالی ہمدردی۔

نماز کی پابندی بندگی ہے اور مالی ہمدردی زندگی اور اس زندگی وبندگی کے مجموعہ کے کانام ہے اسلام ایمان شیعیت اتباع اور محبت اہل بیت ـ

مذکورہ بالا تفصیلات سے دوباتوں کا اندازہ ہوتاہے ۔پہلی بات یہہے کہ طبقاتیت نظام فطرت کا لازمی نتیجہ ہے۔جب تک انسان مختلف ماحول سے دوچار رہے گا تخلیق انسان میں عالم اسباب کے مختلف اسباب کارفرمارہیں گے۔آب وہوا کا تغیر ایک ناقابل انکار حقیقت بنارہے گا۔انسانوں کی صلاحیت میں بھی اختلاف رہے گا اور صلاحیت کے اختلاف کے ساتھ محنت ومشقت کے عناصر میں بھی تفاوت رہے گا اور اس تفاوت کا لازمی نتیجہ طبقاتیت کی شکل میں برآمد ہوگا۔اسی لئے قرآن کریم نے نہ طبقاتیت سے انکار کیاہے اور نہ طبقاتیت کو کوئی بنیادی حیثیت دی ہے۔عظمت وکرامت کا معیار تقویٰ الٰہی کو قرار دیاہے دولت و ثروت کو نہیں۔دولت وثروت کا اضافہ فطری طاقت وتوانائی کا نتیجہ ہوسکتاہے لیکن تقویٰ وتقدس صرف نفسیاتی طہارت وتزکیہ کا نتیجہ ہے جو انسانی عظمت کا نشان او ربشری بلندی کے لئے سنگ میل ہے۔

۲۶

دوسری بات یہ ہے کہ معاشی کشمکش کے اسباب طبقاتیت یا ذاتی ملکیت کے اندر نہیں ہیں بلکہ اس کی جڑیں ان کی پشت پرکام کرنے والی نفسیات تک پھیلی ہوئی ہیں۔یہ اور بات ہے کہ مارکس نے انسانی تاریخ کا واحد محرک اقتصاد کو قرار دیتے ہوئے نفسیات کی استقلالی حیثیت سے انکار کر دیا ہے اور اسی لئے اسے ہرمنزل پر ایک نئی مشکل سے دوچار ہونا پڑاہے اورہر مشکل کوحل کرنے کے لئے دورازکار تاویلیں کرناپڑی ہیں۔

استاد محترم فیلسوف الشرق(مصنف کتاب)کا سب سے بڑاکارنامہ یہی ہے کہ انہوں محرک تاریخ کی بنیادی بحث اٹھاکر مارکس کے اس نظریہ کا مکمل تجزیہ کر ڈالاہے اور نتیجہ میں یہ ثابت کر دیاہے کہ تاریخی تغیر وتطور کا سبب صرف اقتصادی انقلاب نہیں ہے بلکہ اس کی پشت پر دین،فلسفہ،نفسیات،اجتماعیات جیسے مختلف عناصر کی کارفرمائی رہی ہے اور یہ سب اقتصادیات سے ہٹ کر ایک استقلالی حیثیت رکھتے ہیں۔

ایسے حالات میں مکمل اقتصادی نظام کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ ان عناصر کی استقلالی حیثیت کا اعتراف کرتے ہوئے انسانی سماج کے ہرعیب کا الگ الگ تجزیہ کرے اور یہ دیکھے کہ کس عیب کی پشت پرکون سا عنصر کام کررہاہے تاکہ نتیجہ میں اس دکھتی ہوئی رگ پر ہاتھ رکھاجائے اور تشخیص مرض کے ساتھ صحیح علاج کیاجائے۔اسلام کا طرۂ امتیاز یہی ہے کہ اس نے دین،فلسفہ،اجتماع،نفسیات سب کی استقلالی حیثیت کا اعتراف کرتے ہوئے اَدوارتاریخ میں ہرایک کو الگ الگ ماناہے اور حالات کا صحیح تجزیہ کرتے ہوئے امراض کا علاج تلاش کیاہے۔اس نے معاشی کشمکش کے تجزیہ میں بھی یہ محسوس کرلیاہے کہ اس کی نبیاد نہ طبقاتیت ہے اور نہ ذاتی ملکیت بلکہ حب ذات کا غیر محدود جذبہ ہے جو انسان کو غلبہ وقہر، استبداد واستحصال پرآمادہ کرتاہے۔اس نے ایک طرف''الناس مسلطون علیٰ اموال ه م'' کہہ کر ذاتی ملکیت کا اعتراف کیااور''نحن قسمنآ بینہم معیشتہم''کہہ کر طبقاتیت کے وجود کو ناگزیر قرار دیاہے اور دوسری طرف استبداد و استحصال کے جملہ

۲۷

عناصر کو جڑسے اکھاڑکر پھینک دیاہے اور نتیجہ میں یہ ثابت کردیاہے کہ انسانی سماج کی اصلاح مساوات میں نہیں ہے بلکہ مواسات میں ہے۔انسان کی نبیادی ضرورت سامان نہیں ہے بلکہ اطمینان ہے اور یہ باتیں صرف اقتصادی خوشحالی سے حاصل نہیں ہو سکتیں بلکہ اس کی پشت پر صحیح نظریات وعقائدکی بھی ضرورت ہے اور یہ عقائد ونظریات معاشی نظام میں نہیں ملتے۔بلکہ مذہب میں ملتے ہیں اور اسلام اس معنی میں اپنے کو دین ومذہب سے تعبیر کرتاہے کہ اس میں معاشی اصلاح کے ساتھ ساتھ نفسیاتی اصلاح کے عناصر بھی موجود ہیں وہ تقسیم دولت کے ساتھ تزکیۂ نفس کے اسباب بھی فراہم کرتاہے۔اس کے دامن میں زندگی کے سدھارکے ساتھ بندگی کے سدھار بھی پائے جاتے ہیں۔

مسئلہ گرچہ کافی تفصیل طلب ہے لیکن چونکہ کتاب کاموضوع اقتصادی ہے اس لئے اس سے ہٹ کر عقائد وافکار پرروشنی ڈالنا مناسب نہیں ہے۔اس مقام پر اتنا بھی ظاہر کرناتھاکہ دنیامیں اقتصادہی سب کچھ نہیں ہے بلکہ اقتصادی کشمکش کے اسباب غیر اقتصادی بھی ہیں اور ان کی اصلاح کے ذرائع غیر اقتصادی بھی ہوسکتے ہیں۔اقتصادکے ذریعہ اقتصاد کی اصلاح فلسفی اعتبار سے بھی ناممکن ہے۔

اقتصادی تاریخ کا ایک خاکہ

جہاں تک معاشیات کی نبیادی ضرورتوں کا تعلق ہے اس کے بارے میں یہ کہنا بیجانہ ہوگاکہ اس کی جڑیں انسانی تاریخ کی گہرائیوں تک پہنچی ہوئی ہیں۔انسان نے جب سے صفحۂ ہستی پر قدم رکھاہے اپنے ساتھ نبیادی ضرورتوں کی احتیاج لے کر آیاہے اور ہردور

۲۸

میں اس کے بارے میں کوئی نہ کوئی تدبیر کرتارہاہے۔نبیادی ضرورتوں کا مسئلہ پہلے انسان کے سامنے اسی طرح اہمیت رکھتاتھا جس طرح آج اربوں کی تعداد میں پھیلی ہوئی دنیامیں اہمیت رکھتاہے۔فرق صرف نبیادی ضرورتوں سے مافوق مسائل میں پیدا ہواہے یا اقتصادیات کی اصطلاح میں یوں کہاجائے کہ ذاتی منفعت کے اعتبار سے ہرشیء ہر دور میں باارزش وبیش قیمت رہی ہے لیکن متبادل قیمت کا وجود اس وقت سے ہواہے جب سے انسانی آبادی کے ساتھ اس کی ضرورتوں میں اضافہ ہواہے اور ایک انسان اپنے جملہ ضروریات کی پیداوار کے اعتبار سے خود کفیل بننے کے لائق نہیں رہا۔ضروریات کو بڑھالینا توبہت حسین تصور تھالیکن اس کا علاج ایک بلائے بے درماں ہوگیا۔

انسان تقسیم کار کے اصولوںپر عمل پیراہونے کے لئے مجبورہوگیا۔قانون یہ بناکہ ہرشخص یاہر جماعت ایک خاص چیزکی پیداوارکاانتظام کرے اورآخرمیں ساری پیداوارکو حسب ضرورت تقسیم کرلیاجائے اور ایک کی پیداوار کو دوسرے کی پیداوار سے تبدیل کرلیاجائے۔تبدیلی کایہ تصور بظاہر بہت سادہ ہے لیکن اپنے پیچھے ایک پورا اقتصادی نظام رکھتاہے۔تبادلہ طرفین کی قیمت کا تعین چاہتاہے اور قیمت کا تعین قیمت کی بنیادوں کی جستجو کا متقاضی ہے جہاں سے علم معاشیات کے مسائل کا آغاز ہوتاہے۔

تاریخ اس دورکا قطعی سراغ لگانے سے قاصر ہے کہ اس دور میں اصول کار کیا تھے؟ اور اصول تقسیم کیاتھے؟لیکن زیادہ ہنگاموں کے نقل نہ ہونے سے اندازہ ہوتاہے کہ نبیادی ضرورتوں کی محدودیت کے پیش نظراس وقت کاانسان زیادہ پاک باطن اور صاف ضمیر رہاہوگا۔لیکن یہ چاندنی کتنے دن ؟آخرکو روشنی طبع کو بلابنناتھا چنانچہ بڑھتی ہوئی ضرورتوں نے مختلف اسباب کی طرف توجہ دلائی اور ہرشخص نے اپنے نجی کام بھی سنبھالے۔ اسے جہاں تبادلہ کے لئے زراعت کرناہے وہاں ذاتی افادیت کے لئے جانوروں کی پرورش بھی کرناہے۔اسباب کے اضافہ سے پیداوار میں اضافہ ہوااور پیداوار کے ضرورت

۲۹

سے زیادہ ہونے کی بناپرکاہلی نے قدم جمائے اور اب انسانی مزاج یہ بن گیاکہ کام کم کرے او رمنفعت زیادہ حاصل کرے۔اس کا بہترین ذریعہ جسمانی توانائی اور بازوؤں کی طاقت کو جنگ وجدال پر صرف کرناتھا۔چنانچہ ہمسایہ کی زمینوں پر قبضہ کاسلسلہ شروع ہوگیا اور چاروں طرف جنگ وجدل کا بازار گرم ہوگیا۔جنگ وجدل کا مقصد صرف مالیات میں اضافہ نہ تھا اور نہ زمینوں کے رقبہ کا اضافہ ہی تھا بلکہ اس کا ایک نبیادی مقصد یہ تھا کہ مفتوح قوم کو غلام وکنیز بناکر ان سے کام لیاجائے۔غلامی کا سب سے بڑافائدہ یہ ہوتاہے کہ غلام کام زیادہ کرتاہے اور کھاتاکم ہے۔اس کی زندگی پرایک قانون حکومت کرتاہے۔''کام کرو اورکھاؤیامرجاؤ''۔ظاہرہے کہ جس کی زندگی اس کشمکش سے دوچار ہوگی اس کے یہاں کام کے علاوہ اور کیاہوگا؟نتیجہ یہ ہواکہ دھیرے دھیرے انسانی معاشرہ میں غلامی کارواج عام ہوگیا اور پورانظام اقتصاد غلامی کی بنیاد پر چلنے لگا۔

غلامی کس بلا کانام ہے؟اس کے مصائب کیاہیں ؟اس کا اندازہ تاریخ کے بیانات سے نہیں کیاجاسکتاہے۔اس کے لئے صرف اتنا تصور ہی کافی ہے کہ غلامی اس قنوطی زندگی کانام ہے جس میں اپنا کچھ نہیں ہے اور کرنا سب کچھ اپنے ہی کو ہے۔ہمارے ملک میں جس دور کو دور غلامی کہاجاتاہے وہ درحقیقت اجنبی محکومیت کا دور تھا۔ اسے غلامی سے کوئی واسطہ نہیں تھا اور اسی لئے محکوم قوم کو احتجاج کرنے کا موقع ملا اور اس نے محکومیت کو آمریت وحاکمیت سے بدل ڈالا۔غلامی کے دور میں ایسے کسی امکان کا تصور بھی نہ تھاوہاں آزادی کا تصورجرم اور روٹی،کپڑے کا سوال ناقابل معانی قصور غلام ایک بازار کا سوداتھا اور کنیز ایک جواری کی ہاری ہوئی رقم۔

یہی سلسلہ ایک مدت تک چلتارہااور خود غرض حکام غلاموں کو ظلم کی چکی میں پیس پیس کراپنے''معاش فراواں''کا انتظام کرتے رہے۔انہیں اس کی خبر نہ تھی کہ اس طرح مایوس زندگی گذارنے والے اپنے دست وبازوکی توانائیاں کھوبیٹھتے ہیں جن کی بناپر ملک کی

۳۰

فوج تیارہوتی ہے اور جس فوج کے سہارے دیگر ممالک کو فتح کرکے غلام سازی کے کام کو فروغ دیا جاتاہے۔نتیجہ یہ ہواکہ غلامانہ زندگی نے ساری توانائیاں ختم کر دیں اور حکام اپنے لشکر جرار سے محروم ہوگئے۔اب حکام کے سامنے دومتقابل سوالات تھے۔یاتواسی بزول، ضعیف وناتواں قوم کے سامنے حکومت کریں جس میں ہرآن دوسرے ملک کے حملہ کا اندیشہ اور ان غلاموں کے سراٹھانے کا خطرہ ہویا ان سب کو آزاد کرکے خود گوشہ نشین ہوجائیں۔جس کا مطلب حکومت سے محکومیت کی طرف قدم بڑھاناہے جو ایک ناممکن ساکام ہے ۔حکام نے مسئلہ پربڑی سنجیدگی سے غور کیااور ایک درمیانی حل یہ نکالا کہ غلاموں کو تھوڑی تھوڑی سی زمین دے کر انہیں کاشتکار کی حیثیت دے دی جائے اس طرح ان کی محکومیت بھی باقی رہے گی اور یہ ہمارے رحم وکرم سے مطمئن بھی ہوجائیں گے۔

یہی وہ لمحہ تھا جہاں سے تاریخ عالم میں جاگیر داری کا باب شروع ہوتاہے۔ جاگیرداری کے نبیادی اصول یہی تھے کہ حکومت برقرار رہے اور غلاموں کو کاشتکار کادرجہ دے کر ان سے کام لیاجائے۔کاشتکار اپنے عنوان کی تبدیلی سے خوش ضرور ہوجائے گا لیکن جب تک حکومت ہمارے ہاتھ میں ہے ہمارے لئے کوئی فرق نہ ہوگا۔

جاگیرداری سے مراد ہمارے ملک کا وہ دور نہیں ہے جس میں لوگ چند سال پہلے زندگی گذاررہے تھے بلکہ اس سے کہیں زیادہ بھیانک،ظالم،سفاک،بے رحم اور سنگدل دورکانام ہے جہاں انسان خود بھی غلام ہوتاتھا اور اس کی زمین بھی مالک کی ملکیت ہوتی تھی۔بلکہ بسااوقات توعزت وآبرواور ناموس کی بھی کوئی قدروقیمت نہیں ہوتی تھی اور وہ سب جاگیردار کی ملکیت تصور کی جاتی تھیں۔انسانیت اس ''صبحِ حریت''کا انتظار کررہی تھی جب ایسے شدید جان لیوامظالم سے نجات ملے اور مواسات وہمدردی کے جذبات کے ساتھ ساتھ انسانی برادری کا تصور قائم ہوکہ اچانک فاران کی چوٹیوں سے اسلام کا آفتاب چمکا اور اس کی ضیاباریوں نے ایک عجیب نورانی انقلاب برپاکردیا۔مغرب ان ضیاباریوں

۳۱

سے بالکل بے خبر اور محروم تھا۔وہاں دردکا احساس کرنے والے بہت تھے لیکن دواکرنے والا کوئی نہ تھا۔بیمار لاکھوں تھے لیکن طبیب ایک نہ تھا۔

سلسلہ آگے بڑھتاگیااور ہوس دولت نے انسان کو اس منزل تک پہنچادیاجہاں زراعت پر صنعت کا اضافہ ہوا۔جاگیرداروں نے کارخانے کھولنا شروع کئے اور کاشتکاروں کو مزدوروں کی حیثیت مل گئی۔انسان کی قطرت کا تقاضایہ ہے کہ وہ جب ایک نظام سے عاجز آجاتاہے تو اسے ترک کرنے پر فوراً آمادہ ہوجاتاہے چاہے اس کا متبادل نظام پہلے سے بدتر ثابت ہو۔چنانچہ کاشتکاروں نے مزدوری کوکاشتکاری سے بہتر خیال کرکے اس کا استقبال کیااور دھیرے دھیرے جاگیرداری کی جگہ سرمایہ داری نے لے لی۔یہ فیصلہ دشوار ہے کہ ان دونوں نظاموں میں کون سا نظام زیادہ مفید اور صالح تھا لیکن اتنا ضرور کہاجاسکتا ہے کہ جاگیرداری کے دور میں کاشتکارکے ذہن میں کسی نہ کسی مقدار میں ملکیت اور آزادی کا تصور تھا اور سرمایہ داری کے دور میں وہ تصور بھی ختم ہوگیا۔زمینیں ہاتھ سے نکل گئیں اور کاشتکارکو مزدور کا ٹائٹل مل گیا۔اب صورت حال یہ ہے کہ مزدور مالک کے رحم وکرم پر کام کرے اور اس کی صوابدید کے مطابق اجرت لے۔

اجرت کا معاملہ بظاہر خود اختیاری ہوتاہے لیکن سرمایہ دارا نہ نظام میں اس کا کوئی امکان نہیں ہے اور اس کا رازیہ ہے کہ ایک طرف سرمایہ دار کم سے کم خرچ پرزیادہ سے زیادہ پیداوار چاہتاہے اور دوسری طرف مشینوں کی بہتات آدمیوں کی ضرورت کو کم کرتی جارہی ہے۔نتیجہ یہ ہوتاہے کہ مزدور کے لئے زندگی دشوار ہوجاتی ہے اور وہ کم سے کم اجرت پرکام کرنے کے لئے تیار ہوجاتاہے۔

سرمایہ داری کا یہی وہ غیر عادلانہ تشددآمیز رویہ تھاجس میں انسانیت برسہابرس پستی رہی اور ایک وہ دور آیا جب مزدوروں کی قوت احساس کراہ سے بدل گئی اور اس کراہ نے سرمایہ داری کے خرمن میں آگ لگادی۔آگ کی ابتدائی چنگاری آدم اسمتھ اور ریکارڈو

۳۲

جیسے مفکرین نے مہیا کی تھی لیکن وہ اپنی فکر کو منظم نہ کرسکتے تھے۔ان کی آواز صدابصحراہوکر رہ گئی۔دوبارہ اسی آواز کو کارل مارکس نے بلند کیاتو اس میں ایسی تنظیمی صلاحیت پیداکر دی کہ ایک عالم لبیک کہنے کے لئے آمادہ ہوگیا اور دنیا کے اکثر وبیشتر ممالک نے سرمایہ داری کا جنازہ نکل گیا۔یہ اور بات ہے کہ انسانیت اشتراکیت کے زیر سایہ جس جنت کا خواب دیکھ رہی تھی وہ خواب بھی شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا۔

کارل مارکسکی آواز یقینا عالمگیرہوتی اور اس کی تحریک کے زیرسایہ دنیا ایک جنت ارضی کا خاکہ بن جاتی لیکن مارکس کی فکر میں ایک نبیادی کمزوری یہ تھی کہ وہ سماج کے پست،غریب اور پسے ہوئے طبقے کا انسان تھا اور خود اس کافلسفہ اس بات کا شاہد ہے کہ انسانی افکار اس کے معاشی حالات کے ترجمان ہوتے ہیں۔نتیجہ یہ ہواکہ مارکس کے معاشی نظریات پر بھی اس کے ذاتی حالات نے قبضہ کرلیا اور اس کی فکر کی سنجیدگی ایک جذبۂ انتقام سے بدل گئی۔انتقام ایک ایسی بلاہے جو انسان کو صحیح راستہ سے ہٹادیتی ہے اور اس کی فکر کی سلامتی و سنجیدگی کو سلب کر لیتی ہے۔مارکس غریب طبقہ کا انتقامی ہیروتھا۔اس کی فکر پر انتقام کا جذبہ غالب آگیااور اس نے سرمایہ داری کا قلع قمع کرنے کے لئے ذاتی ملکیت تک سے انکار کر دیا۔مارکس کے ان افکار کا مکمل تجزیہ کتاب میں موجود ہے ۔اس مقام پر صرف ذہنوں کو قریب کرنے کے لئے مارکس افکار میں سے بعض افکار کو بطور نمونہ پیش کرکے یہ ثابت کیاجائے گا کہ اس پر انتقام کی چھاپ کتنی نمایاں ہے اور انتقام نے کس طرح اس کی فکر کو سنجیدہ علمی موازین سے الگ کر دیا۔مارکس نے اپنے فلسفہ کا آغاز ذاتی ملکیت سے کیاہے اور ملکیت کے لئے قیمت کو بنیاد قرار دے کر پہلی بحث قیمت کی اصل ونبیاد سے کی ہے۔ہم بھی اپنی بحث کا آغاز اسی انداز سے کررہے ہیں۔

۳۳

قیمت:

کسی چیز کی قدروقیمت کی دوقسمیں ہوتی ہیں۔ایک اس کی ذاتی قدروقیمت جو اس کے منافع وفوائد کے اعتبار سے طے کی جاتی ہے۔کاغذ کی قیمت لکھناہے اورزمین کی قیمت کاشتکاری۔کاغذ لکھنے کے لائق ہے توقیمتی ہے چاہے اس کا تبادلہ نہ ہو زمین کاشت کے قابل ہے تو قیمتی ہے چاہے اس کی خرید وفروخت نہ ہو لیکن ایک قیمت تبادلہ کے اعتبار سے طے ہوتی ہے کہ اگرکاغذ یازمین کو دوسری جنس سے تبدیل کرنا چاہیں تو اس کے مقابلہ میں کاغذ کی قیمت کا معیار کیاہوگا۔ذاتی منفعت اور قدروقیمت کسی معیار کی محتاج نہیں ہے۔ اس کامعیار واضح ہے اور اس کا تعلق انسانی نفسیات سے ہے۔عالم اقتصادیات میں اس سے کوئی بحث نہیں کی جاتی۔اقتصادیات میں بحث صرف متبادل قیمت سے کی جاتی ہے جو اقتصادکی روح اور معاشیات کی نبیادہے۔مارکس نے اس موضوع پر تفصیلی بحث کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکالاہے کہ متبادل قیمت کا معیار انسانی محنت ہے جس چیز پرجتنی محنت صرف ہوگی اس کی اتنی ہی قیمت ہوگی او رچونکہ قیمت کاپیداکرنے والا محنت کش مزدور ہوتاہے اس لئے حقیقی ملکیت کا حق بھی اسی کوہے مالک سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

محنت اور قیمت کے رابطہ کو یوں سمجھے کہ ایک کسان نے دوگھنٹہ یومیہ تین ماہ تک محنت کرکے ایک من گیہوں پیداکیاتو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک من گیہوں 0 18 گھنٹہ کی محنت کا نتیجہ ہے۔اب اگر کسی کاغذبنانے والے نے کپاس کی کاشت سے کاغذکی ساخت تک تین گھنٹہ یومیہ دومہینہ تک محنت کی ہے تو ایک من کاغذ بھی 180 گھنٹہ محنت کا نتیجہ ہے اور اس طرح ایک من گیہوں کو ایک من کاغذ سے بدلاجاسکتاہے اور اس تبادلہ کو کسی ایک کے حق میں ظلم نہیں کہاجاسکتااس لئے کہ دونوں پربرابر کی محنت صرف ہوئی ہے۔محنت کو الگ کرلینے کے بعد اس تبادلہ کاکوئی جوازنہیں ہے اس لئے کہ کاغذ کی جنس اور ہے اور گیہوں کی جنس اور اس کا پیدا کرنے والا اور ہے اور اس کا پیداکرنے والا اور ہے اور اس کی زمین اور۔

۳۴

اس مقام پریہ بھی یادرکھنے کی ضرورت ہے کہ محنت کی دوقسمیں ہیں۔محنت بسیط محنت مرکب۔محنت بسیط وہ سعی ہے جس میں ایک ہی قسم کا کام ہوتاہے،جیسے لوہار، سناراور کسان وغیرہ کی محنتاور محنت مرکب وہ کوشش ہے جس میں کام کرنے سے پہلے کام کی اہلیت بھی ایک محنت کی طالب ہوتی ہے اور خود کام بھی مختلف قسم کی محنتیں چاہتاہے۔مثال کے طور پرآپ ایک مکان بنواناچاہتے ہیں۔مکان ایک قسم کی محنت سے تیار نہیں ہوسکتا۔اس کے لئے انجینئر کا نقشہ، مزدور کی جانفشانی،معمار کی دقت نظر اور مواد کی متناسب وموزوں شکل کی ضرورت ہے اور ان میں اکثرمحنتیں خود سابق میں محنت کی طلبگار ہیں۔انجینئر کا انجینئرہونا محنت چاہتاہے۔معمار کافن کارہونا محنت چاہتاہے موادکاموزوں ومتناسب شکل میں آنامحنت کا طالب ہے۔اس لئے مکان کی قیمت لگاتے وقت صرف انجینئر،معمار،مزدور اور مواد کی قیمتوںکا اندازہ کرلینا کافی نہ ہوگا بلکہ انجینئر ومعمار مواد پر صرف ہونے والی محنتوں کا لحاظ بھی کرنا پڑھے گا اور یہ دیکھنا پڑے گا کہ وہ محنتیں کتنے کاموں پر صرف ہوئی ہیں اور ان میںا س مکان کا حصہ کیاہے تاکہ مکان کی صحیح قیمت کا اندازہ کیاجاسکے۔ ظاہر ہے کہ یہ کام اس شکل میں انتہائی دشوار بلکہ ناممکن ہے اور ایسا معلوم ہوتاہے کہ اس طرح ایک مکان کی قیمت لگانے کے لئے انجینئر ومعمار کی ساری عمر کے کاروبار پر نظرکرنا پڑے گی جو ایک ناممکن عمل ہے۔حالانکہ ایسا کچھ نہیں ہے۔انجینئر کے انجینئر ہوجانے کے بعد اس کے فن کی قیمت مقررہوجاتی ہے اور یہ معلوم ہوجاتاہے کہ اس کے فن پرکتنی محنت صرف ہوئی ہے۔ اب مکان کی قیمت مقرر کرنے میں دوبارہ اس کی قیمت کے لحاظ کی ضرورت نہیں پڑتی۔ صرف سابق کی مقررشدہ قیمتوں کو جوڑدینا پڑتاہے اور بس۔

ایک نظر:

مارکس کے اس نظریہ پربحث کرنے کے لئے بڑاوقت درکارہے اور اسکے علمی

۳۵

پہلوؤں پر مکمل بحث کتاب میں موجود ہے۔اس مقام پر صرف یہ اشارہ کرنا مقصود ہے کہ یہ نظریہ علمی اعتبار سے کتناوقیع اور باارزش کیوں نہ ہوعملی اعتبار سے انتہائی کمزور اور بے معنی ہے۔معاشیات کے اصول وقوانین دنیوی حالات سے قطع نظرکرکے وضع نہیں کئے جاتے اور نہ انہیں آسمان سے زمین پر نازل کیاجاتاہے وہ درحقیقت سماجی حالات اور معاشرتی حالات ہی کا ایک جائزہ ہوتے ہیں جن کے ذریعہ باہمی لین دین کی گہرائیوں تک جاکر یہ انکشاف کیاجاتاہے کہ یہ معاملہ کس نبیاد پرہورہاہے۔علم اقتصاد کاکام یہ نہیں ہے کہ وہ ایک من گیہوں کا تبادلہ ایک ریم کاغذ سے جائز یاناجائز قرار دے،اس کاکام صرف یہ ہے کہ بازار میں ایک من گیہوں کو ایک رم کا غذ سے بدلتاہوادیکھ کر یہ انکشاف کرے کہ یہ تبادلہ کس بنیاد پر ہورہاہے ایک من گیہوں ایک ورق کاغذ سے کیوں نہیں بدلاجاتا۔ایک ریم کاغذ ایک چھٹانک گیہوں سے کیوں نہیں تبادلہ ہوااور اس تجزیہ کا فائدہ یہ ہوتاہے کہ اس طرح سماج میں ہونے والے مظالم کا صحیح اندازہ کرلیاجاتاہے اور ہمارے پاس ایک ایسا مستحکم قانون آجاتا ہے جس کی روشنی میں صالح او رفاسد نظام معاش کو الگ الگ کیاجاسکتاہے۔

ظاہر ہے کہ جب سماجی معاملات کا تجزیہ اس نیک مقصد کے لئے ہوتاہے تو اس میں ان تمام معاملات کو پیش نظررکھنا ہوتاہے جو آئے دن پیش آتے رہتے ہیں اور جن کو کوئی سماج ظلم یا ناانصافی نہیں تصور کرتا۔اس سلسلے میں یہ تاویل قطعاً غلط ہوگی کہ اکثر معاملات ہمارے قانون کی لپیٹ میں آجاتے ہیں اور اگردو ایک بچ جاتے ہیں تو انہیں استثنائی حالات کا درجہ دے دیاجائے۔اس لئے کہ اولاً توا ستثنائی حالات کا فیصلہ خود ایک تحکم اور دعوائے بے دلیل ہے اور دوسرے یہ کہ اس طرح کسی بھی نظام کی گرفت ممکن نہ ہوگی اور جب کسی غلطی یاکمزوری کی نشاندہی کی جائے گی اس کے لئے استثناء ہی کا سہارلیاجائے گا۔

مارکس نے اپنے اس قانون میں سماج کے بہت سے معاملات کو قطعی طورپر نظرانداز کردیاہے اور اس کے بظاہر دوہی سبب ہوسکتے ہیں یاتویہ چشم پوشی اس لئے کی گئی

۳۶

ہے کہ ان تمام معاملات کو سامنے رکھنے کے بعد کوئی قانون نہیں تشکیل پارہاتھا اور عدل وظلم کا فیصلہ کرنے کے لئے قانون کی تشکیل ضروری تھی اس لئے اکثر معاملات کا سہارالے کر ایک قانون وضع کر لیاگیااور باقی معاملات کو استثناء کا درجہ دے دیاگیا۔

یا چشم پوشی کا دوسرا سبب(جومیرے نزدیک زیادہ قرین قیاس ہے)یہ ہے کہ مارکس کے انقلابی تصورات فلسفی نبیاد پر قائم نہیں تھے۔وہ اپنے سماج کے مظالم سے متاثر تھاکہ اس کے لئے صدائے احتجاج کابلند کرنا ایک ناگزیر امر ہوگیا تھا۔اس کے قانون میں فلسفیانہ سنجیدگی سے زیادہ انتقامی بھڑک پائی جاتی تھی اور انتقام کاتقاضا یہ تھاکہ سرمایہ دار طبقہ کو ظالم ثابت کیاجائے اور یہ بات اس وقت تک ممکن نہیں تھی جب تک محنت کو دلیل ملکیت بناکر سرمایہ دار کو غاصب،چور،نکما اور سماج کا بے مصرف عنصرفرض نہ کرلیا جاتا۔مارکس کی یہی مجبوری یانفسیاتی کمزوری تھی جس نے اس کو اتنے اہم عناصر سے چشم پوشی پر آمادہ کردیا اور اس کا نظر یہ انتہائی مقبولیت کے باوجود قابل ترمیم وتنسیخ اور علمی میدان میں درجۂ اعتبار سے ساقط ہوگیا۔

فنون لطیفہ

اس میںکوئی شک نہیں ہے کہ تاریخ کے ہردور میں فنون لطیفہ کو ایک خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔انہیں دنیاکے دوسرے کاموں سے ممتاز رکھاگیاہے۔مذہبی اور علمی پہلو سے یہ بات صحیح ہویاغلط لیکن سماجی اور عملی پہلو سے یہ بات ناقابل انکار ہے کہ سماج نے ہر دور میں ان فنون کو اہمیت دی ہے۔ایک ایک رقص پرہزاروں روپیہ کا خرچ۔ایک ایک گانے پر روپہلے،سنہرے سکوں کی بوچھاراور اداکار کی ایک ایک ادا پر دولت فراواں کی بھینٹ،انسانی سماج کی پرانی تاریخ ہے جو آج تک مستمر ہے اور اگر ان باتوں کو جاگیرداری

۳۷

یاسرمایہ داری کی لغت تصور کرلیاجائے(جیساکہ ہے)تو اس حقیقت سے بہرحال انکار نہیں ہوسکتاکہ سنگ تراشی ہردور میں ایک فن رہی ہے خوبصورت تصویریں بنانا ہرزمانہ میں ایک کارنامہ رہاہے اور اس کارنامہ کی قدروقیمت عام کاموں سے بالکل جداگانہ رہی ہے۔جس سے صاف واضح ہوتاہے کہ محنت کی مقدار کے علاوہ انسان کے ذوق لطیف کو بھی قیمت کے تعین میں بہت بڑادخل ہے۔

آثار قدیمہ

دنیا میں آثار قدیمہ کوبہت اہمیت حاصل رہی ہے۔ بزرگوں کی یادگار ہرقوم و ملت میں قابل احترام رہی ہے۔قدیم تعمیرات ہر حکومت کے لئے باعث افتخار سمجھی گئی ہیں۔آثار قدیمہ کے تحفظ پرلاکھوں کروڑوں کا سرمایہ خرچ ہواہے۔اس کے تحفظ کے لئے عالیشان عمارتیں تعمیر کی جاتی ہیں،اسے ذریعۂ عزت قراردیاجاتاہے اور یہ کام اشتراکی اور غیر اشتراکی دونوں ملکوں میں برابر ہوتاہے۔انسانی فطرت کے تقاضے ماحول کے دباؤ سے دب جاتے ہیں مٹتے نہیں ہیں۔جہاں انسان رہتاہے اپنی فطرت اپنے ساتھ رکھتاہے یہ اور بات ہے کہ اشتراکی ممالک کی یہ سیرت خود اس کے نظام زندگی کی عملی کمزوری کی نشاندہی ہو۔ ہزار برس قبل کے مجسمہ پرکتنی ہی محنت کیوں نہ صرف کی گئی ہوآج کی محنت سے سیکڑوں گنازیادہ نہیں ہوسکتی۔حالانکہ ان کی قیمت سیکڑوں گنازیادہ ہوتی ہے۔معلوم ہوتاہے کہ قیمت میں صرف محنت کی مقدار ہی کا حصہ نہیں ہے بلکہ قلبی تعلق،سماجی لگاؤ اور امتدادزمانہ کا بھی ایک حصہ ہے۔

۳۸

اس مقام پر یہ نہیں کہاجاسکتاکہ آج کے دور میں وسائل کی فراوانی،آلات کی کثرت کی بناپر مجسمہ تراشی میں اتناوقت اور اتنی محنت صرف نہیں ہوتی جتنی کل صرف ہواکرتی تھی۔اس لئے آثارقدیمہ کی زیادتی مارکس کے قانون کی شکست کا اعلان نہیں ہے بلکہ اسی کے قانون کی ایک فرد ہے۔اس لئے کہ اگرمارکس کی طرف سے یہ تاویل کی جاسکتی ہے تو اس کے جواب میں یہ بھی کہاجاسکتاہے کہ آج یہ مجسمہ تراشی ایک قسم کے مرکب عمل کی حیثیت اختیار کرگئی ہے جس کے لئے تعلیم وتربیت اور مشق ومہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ کل یہ کام زیادہ حصہ فطری صلاحیتوں کی پیداوار ہواکرتاتھا اس میں بہت معمولی تربیت کا دخل ہوتاتھا اور آلات واسباب بھی بہت بسیط تھے ایسی حالت میں آج کے آثار کی قیمت زیادہ ہونی چاہئے اور کل کے آثار کو بے ارزش ہونا چاہئے۔حالانکہ ایساہرگز نہیں ہے یعنی قیمت کا تعلق تمام ترمحنت سے نہیں ہے بلکہ اس میں زمانی عناصر کو بھی دخل حاصل ہے۔

مخطوطات ومطبوعات

آپ دنیا کی کسی بڑی سے بڑی لائبریری میں چلے جایئے آپ کو وہاں دو قسم کی کتابیں ملیں گی ۔کچھ چھپی ہوئی اور کچھ ہاتھ کی لکھی ہوئی،لائبریری کے ذمہ داروں کی نظر میں مخطوطات قلمی کی قیمت مطبوعات سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔مطبوعات لائبریری کی تعدادبڑھانے کے کام آتے ہیں اور مخطوطات لائبریری کا وقار بڑھانے کے یہ ایک ایسا مذاق ہے جس کا دنیاکے کسی ملک نے انکار نہیںکیا۔مخطوطات میں بھی نوادر ایک خاص اہمیت رکھتے ہیں کوئی لائبریری اس وقت تک قابل توجہ نہیں ہوتی جب تک کہ اس میں نوادر

۳۹

مخطوطات کی کثرت نہ ہو اور یہی وجہ ہے کہ مکتبات کے ذمہ دار افراد ایک ایک قدیم نسخہ کی تحصیل پر ہزارہاروپیہ صرف کر دیتے ہیں۔جبکہ وہی نسخہ موجودہ شکل میں بازار میں انتہائی ارزاں قیمت پرمل جاتاہے۔میں یہ نہیں کہناچاہتاکہ اس توجہ وامتیاز کا سبب انسان کا نفسیاتی رجحان ہے یا اس کی پشت پر بھی کوئی اقتصادی عنصر کام کر رہاہے۔مجھے تو صرف یہ واضح کرنا ہے کہ اشیاء واجناس کی قیمت کے تعین میں محنت کی مقدار کے علاوہ بھی دیگر عناصر کا دخل ہے۔ ایسا نہ ہوتاتو مطبوعہ کتابوں کی قیمت کہیں زیادہ ہوتی۔مخطوطہ نسخہ بسیط محنت کی پیداوار ہے اور مطبوعہ کتاب مرکب محنت کی۔اس میں پریس،مشین،مہارت، ٹرنینگ،تربیت جیسے بہت سے عناصر کام کررہے ہیں اور کھلی ہوئی بات ہے کہ مرکب محنت کی پیداوار کی قدر وقیمت بسیط محنت کی پیداوار سے کہیں زیادہ ہوتی ہے جیساکہ سابق میں واضح کیاجاچکا ہے۔

سپلائی اور ڈیمانڈ

قیمتوں کے اتارچڑھاؤ میں جہاں معاشرتی،اجتماعی،مذہبی اور نفسیاتی عناصر کارفرماہوتے ہیں وہاں خود پیداوار کی کمی وزیادتی بھی قیمتوں کے اتارچڑھاؤ پر اثر انداز ہوتی ہے۔پیداوار کی زیادتی کی صورت میں اشیاء کی قیمت کم ہوتی ہے اور کمی کی صورت میں زیادہ ۔جبکہ مارکسی اصول اقتصادیات کے تحت ایسا نہیں ہونا چاہئے۔وہاں صرف محنت ومشقت کی مقداردیکھی جاتی ہے،پیداوارکی کمی اور زیادتی نہیں۔

اس کی ایک مثال یہ بھی دی جاتی ہے کہ آج دنیا کا ہر انسان اس حقیقت سے باخبر ہے کہ پانی انسان کی زندگی اور نمک انسان کی غذائیات میں ایک نبیادی حیثیت رکھتاہے۔

۴۰