اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب0%

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 391

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ شھید باقر الصدر طاب ثراہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 391
مشاہدے: 104655
ڈاؤنلوڈ: 3732

تبصرے:

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 391 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 104655 / ڈاؤنلوڈ: 3732
سائز سائز سائز
اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

اس نظام میں ضرورت کوئی شے نہیں ہے۔بلکہ اس کا معاشرہ پر غلط اثرپڑتاہے۔ اس کی وجہ سے اکثر بااستعداد افراد کو بھی محرومی ہوجاناپڑتاہے اور ان کی اجرت میں بھی کمی واقع ہوجاتی ہے۔

انفرادی ملکیت

اسلام جب انسان کے طبیعی رجحان کا لحاظ کرتے ہوئے اسے اس کے نتیجۂ عمل کا حقدار قرار دیتاہے تو اس سے دواہم نکات واضح ہوتے ہیں:

(1) اقتصادیات میں انفرادی ملکیت کا تصور صرف اس بناپر ہے کہ انسانی عمل ملکیت کا باعث ہوتاہے اور یہ ہرشخص کا ایک فطری رجحان ہے کہ جس طرح عمل کو اپنی ذاتی محنت ومشقت سے انجام دیتاہے اسی طرح اس کے ثمرات ونتائج سے بھی خود ہی استفادہ کرے۔ اسی انفرادیت کی خواہش کو علم الاجتماع کی اصطلاح میں ملکیت کہتے ہیں۔اسلام دین فطرت ہونے کے اعتبار سے انسان کے اس جذبہ کا احترام کرتے ہوئے اس کی انفرادی ملکیت کا اعتراف کرتاہے لیکن اس ملکیت میں مختلف تصرفات کو علم الاجتماع کے حوالے کردیتاہے۔ اس کے حدود وقیود اجتماعی نظام کی طرف سے مقرر ہوں گے اس لئے انفرادی ملکیت کی مطلق آزادی معاشرہ کے حق میں انتہائی مضر ہے یہ مسئلہ اجتماعیات ہی سے حل ہوگاکہ انسان کو اپنے املاک میں مطلق تصرفات کا حق ہے یا نہیں؟وہ اسے تبدیل کرے یا اس سے تجارت کرنے کا بھی حق رکھتاہے یا نہیں؟وغیرہ

۳۸۱

اسلام نے خودبھی ان حدود وقیودکا اہتمام کیاہے۔فرق صرف یہ ہے کہ اس کے جملہ حدود، مفاہیم واقدار کی بناپر ہیں جن پر اس کے سارے نظام کی بنیاد ہے اور اسی لئے اس نے اسراف کو حرام کیاہے اور باقی مصارف کو جائز رکھاہے،سودی تجارت کو ممنوع قرار دیاہے اور باقی طریقوں کو جائز رکھاہے۔

(2) اسلام کی نظرمیں انسان کی انفرادی ملکیت عمل سے پیداہوتی ہے لہٰذااسے عمل ہی کے دائرہ تک محدود رہناچاہئے جہاں انسانی محنت کی دسترس نہ ہو وہاںاس ملکیت کا سوال بھی نہ اٹھنا چاہئے ۔گویا عالمی اموال کی دو قسمیں ہیں۔عمومی ثروت اور خصوصی دولت۔

خصوصی دولت سے مراد وہ مال ہے جو انسانی محنت سے تخلیقی یاصناعتی منزلیں طے کرتاہے جیسے غلہ،کپڑاوغیرہ یا انسانی عمل کو اس کے استخراج میں دخل ہوتاہے۔جیسے الیکٹرک، پٹرول کی برآمد کہ ان کا وجود انسانی محنت کا نتیجہ نہیں ہے اور نہ انسانی صنعت نے انہیںکوئی خاص شکل دی ہے۔محنت کاکام صرف یہ ہے کہ انہیں استفادہ کے قابل بنادے۔

اسی قسم کی دولت میں انفرادی ملکیت کی بحث اٹھتی ہے اوریہیںاسلام نے ملکیت اور حقوق کے احکام وضع کئے ہیں۔

عمومی ثروت سے مرادوہ اموال ہیں جن میں انسانی عمل کوکوئی دخل نہ ہوجیسے زمین کہ اس کی تخلیق میں انسانی اعمال کو کوئی دخل نہیں ہے۔

یہ بات اور ہے کہ بعض اوقات یہی عمل اس سے استفادہ کے لئے ضروری ہوجاتاہے لیکن یہ صورتیں محدود معین قسم کی ہیں۔عام طور پر ایسا نہیں ہوتالہٰذا یسے اوقات میں زمین کا حکم معدنیات کا ہوجائے گا جن کی تخلیق خالق طبیعت کے ہاتھ سے ہوتی ہے لیکن استفادہ انسانی اعمال کے ہاتھوں۔

ظاہر ہے کہ ابتدائی طور پر اس ثروت کو کسی کی ملکیت نہیں ہوناچاہئے۔اس لئے

۳۸۲

کہ اس کی تخلیق میں انسانی عمل کو دخل نہیں ہے بلکہ تمام امت کے لئے مباح اور حلال ہونا چاہئے جس طرح کہ زمین کا حال ہے کہ وہ کسی کی ملکیت نہیں ہے۔عمل اس کی اصلاح میں حصہ لیتاہے اور وہ بھی محدود اوقات میں،لہٰذا اس عمل کو موجب ملکیت نہیں قرار دیاجاسکتا بلکہ اس سے صرف اتنا فائدہ ہوتاہے عمل کرنے والا اس سے استفادہ کرسکے اور دوسروں کو روکنے کا حق نہ ہو، اس لئے کہ زحمت اسی نے کی ہے،حق بھی اسی کا مقدم ہونا چاہئے۔یہ صریحی ظلم ہے کہ محنت کرنے والے کو بیکار لوگوں کے برابر بنادیاجائے۔لیکن اس خصوصیت کا تعلق صرف ان اوقات سے ہے جن میں محنت کرنے والا زمین سے استفادہ کرتارہے۔ اب اگر اس نے ہاتھ کھینچ لیاتو اس کا حق ختم ہوجائے گا اور زمین اپنی اصلی حالت کی طرف پلٹ جائے گی۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ ملکیت کا قانون صرف خصوصی دولتوں سے متعلق ہوتاہے عمومی ثروت سے اس کا کوئی ربط نہیں ہے اس لئے کہ ملکیت عمل سے پیدا ہوتی ہے اور اس ثروت میں کسی قسم کا عمل ہی صرف نہیں ہوتا۔اب اگر اس قانون میں کسی وقت کوئی استثناء ہوجائے تو اس کو قانون سے کوئی تعلق نہ ہوگابلکہ اس کوولی امر کے مصالح ومفاد کے حوالے کر دیا جائے گا جس کی تفصیل آئندہ آرہی ہے۔

ملکیت بھی ذریعۂ تقسیم ہے

عمل اور ضرورت کے بعدعالم تقسیم میں ملکیت کادور آتاہے۔اس لئے کہ اسلام نے انفرادی ملکیت کو جائز قرار دینے کے بعد مالک کے حقوق میں بھی اشتراکیت اور

۳۸۳

سرمایہ داری نظریات سے اختلاف کیاہے۔اس نے نہ توسرمایہ دارانہ نظام کی طرح دولت بڑھانے کی مطلق آزادی دے دی ہے اور نہ اشتراکیت کی طرح فائدہ کے طریقوں کا گلا گھونٹ دیاہے بلکہ ایک معتدل موقف اختیار کیاہے۔تجارتی قوائد کو حلال کیاہے اور سودخوری کو حرام۔

سودخواری کی تحریم سرمایہ داری سے مقابلہ ہے اور تجارتی فوائد کے جواز میں اشتراکیت سے۔

ظاہر ہے کہ جب تجارتی فائدہ جائز ہوگا اور اسے مارکسی اصلاح کے مطابق ''زائد قیمت''کا درجہ حاصل نہ ہوگا تو انسان کے مال میں اضافہ ہوگا اور جب ملکیت سے فائدہ حاصل ہونے لگے گاتو تقسیم میں بھی اس کی دخل اندازی ضرور ہوگی۔اس لئے کہ دولت کے لئے اسلام میں اجتماعی عدالت کی ذمہ داریاں مقررکردی گئی ہیں۔فرق صرف یہ ہے کہ عمل اور ضرورت کا درجہ اولیٰ ہوگا اور ملکیت کا مرتبہ ثانوی۔ان مباحث کی تفصیل انشاء اللہ آئندہ آرہی ہے۔

اسلامی تقسیم کامکمل نقشہ مختصر صورت میں یوں پیش کیاجاسکتاہے:

(1) عمل ملکیت کی بناء ہونے کی حیثیت سے تقسیم کااساسی ذریعہ ہے۔

(2) ضرورت وحاجت انسانی زندگی کا حق ہونے کی حیثیت سے تقسیم میںعظیم حصہ رکھتی ہے۔

(3) ملکیت بھی تقسیم کاایک ثانوی ذریعہ ہے ان تجارتی منافع کی بناپر جنہیں اسلام نے چند خاص قیود وشرائط کے تحت جائز قرار دیاہے۔

۳۸۴

تبادلہ

اقتصادی زندگی کا ایک عام رکن جو تاریخی وجود میں پیداوار اور تقسیم سے متاخرہونے کے باوجود اہمیت میں ان سے کچھ کم نہیں ہے''تبادلۂ اجناس''ہے۔ انسان نے جب سے اجتماعی میدان میں قدم رکھاہے پیداوار اور تقسیم کے مسائل نے بھی اسی وقت سے جنم لیاہے اس لئے کہ سماج میں زندگی کے لئے عمل ضروری ہے اور عمل کے لئے تقسیم منافع کے اصول لازم ہیں گویا کہ پیداوار اور تقسیم کے مسائل اتنی بنیادی حیثیت رکھتے ہیں کہ ان کے بغیر اجتماعی زندگی کا ہونا محال ہے۔تبادلہ کو یہ حیثیت حاصل نہیں ہے اس لئے کہ ابتدائی معاشروں میں ضروریات زندگی کی قلت کی بناء پر لوگ باہمی پیداواراور باہمی تقسیم کی بناپر کام چلا لیاکرتے تھے اور کسی تبادلہ کی ضرورت محسوس نہ ہوتی تھی لیکن جب سے انسانی ضروریات زندگی نے ترقی کی ،اموال کی نوعیت نے مختلف رنگ اختیار کئے اور ایک انسان اس بات پر قادر نہ رہاکہ اپنے تمام ضروریات کا انتظام کر سکے تو اس وقت اس امر کی ضرورت محسوس ہوئی کہ تمام افراد باہمی طورپراعمال کوتقسیم کرلیں اورہر شخص اپنی مہارت کے اعتبار سے کوئی نہ کوئی شے ایجاد کرے اور اس کے بعددیگرضروریات کے لئے اپنی پیداکردہ جنس کا تبادلہ کرے گویا کہ یہ تبادلہ پیدوار اور خرچ کے درمیان ایک واسطہ ہے۔ہر ایجاد کرنے والا اپنے مال کو نکالتاہے تاکہ دوسرے اموال کو درآمد کرسکے۔

لیکن افسوس کہ وہی ظلم جس نے قرآنی بیان کے مطابق انسان کو عالم طبیعت کے خیروبرکت سے محروم کر دیا یہاں بھی آڑے آگیا اور انسان نے تبادلہ جنس کے صحیح مفہوم کوفراموش کرکے اسے ذخیرہ اندوزی اور پس اندازی کا ذریعہ بنالیا اور اس طرح سماج ان تمام مشکلات سے دوچار ہونے لگاجو اشتراکیت کے اصول تقسیم سے سامنے آرہے تھے۔

۳۸۵

تبادلہ کے بارے میں اسلام کی رائے معلوم کرنے سے پہلے معلوم کرنا ضروری ہے کہ اسلام کی نظرمیں تبادلہ کے غلط استعمال کا سبب کیاہے اور اس غلطی کے اثرات ونتائج کیاہیں؟تاکہ یہ بھی معلوم ہوسکے کہ اسلام نے اس مشکل کو کہاں تک حل کیاہے اور اس نے اپنا عادلانہ نظام کن اصولوں پر قائم کیاہے؟

اس مقام پر یہ بات بھی پیش نظررہنی چاہئے کہ تبادلۂ اموال کی دو قسمیں ہیں۔ تبادلۂ جنس، تبادلۂ نقد۔

تبادلۂ جنس:

تبادلہ کی وہ شکل ہے جہاں ایک جنس کو دوسری جنس سے تبدیل کیاجاتاہے۔ تبادلہ کی تاریخ میں سب سے پہلا طریقہ یہی ہے کہ جب انسان اپنی ضرورت سے زائد جنس کو دے کر دوسرے شخص سے اس کی پیداوار کو حاصل کرلیاکرتاتھا۔اگر ایک شخص نے سوکیلو گیہوں پیداکیاہے تو پچاس کیلواپنی ضرورت کے لئے محفوظ کرکے باقی پچاس کیلو کو ایک معین مقدار میں روئی سے بدل لیاکرتاہے لیکن افسوس کہ یہ صورت حال زیادہ دنوں باقی نہ رہ سکی۔اس لئے کہ اس طرح انسانیت گوناگوں اقتصادی مشکلات میں گرفتار ہوگئی۔اب گیہوں کے مالک کو روئی اسی وقت مل سکتی ہے جب روئی کے مالک کو گندم کی ضرورت ہو اور روئی کے مالک کو گندم اسی وقت حاصل ہوسکتاتھا جب گندم کے مالک کو روئی کی ضرورت ہو۔

پھر قیمتوں کاتناسب بھی ایک مستقل مسئلہ بناہواتھا۔ظاہر ہے کہ گھوڑے کا مالک گھوڑے کو مرغی سے کبھی نہ بدلے گا۔اب نہ وہ گھوڑے کے ٹکڑے کرسکتاہے اور نہ حسب ضرورت مرغی حاصل کرسکتاہے ۔اس سے بڑی مشکل قیمتوں کے تعین کی تھی اس لئے کہ قیمت کا تعین دوسری جنس کے مقابلہ سے پیداہوتاہے اور یہاں تبادلہ ہی محل بحث ہواتھا۔

۳۸۶

یہی وہ اسباب تھے جن کی بناپر ہرانسان کو ان مشکلات کے حل کرنے کی فکرہوئی اور وہ مختلف طریقے سوچنے لگا۔آخرکار یہ بات ذہن میں یہ راسخ ہوگئی کہ''تبادلہ''جنس کے بجائے نقد سے ہونا چاہئے اور اس طرح تبادلہ کی دوسری شکل وجود میں آگئی۔

تبادلہ نقد:

حقیقت یہ ہے کہ اس معاملہ میں نقد سکہ نے جنس کی وکالت کاکام انجام دیاہے۔ اب خریدار کو اس بات کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ بھی جنس کو دے بلکہ نقد سکہ بھی دے کر مال خرید سکتاہے۔سابق مثال میں یوں سمجھ لیجئے کہ اگر مالک گندم کومیووں کی ضرورت ہوتو وہ اس امر کا محتاج نہیں ہے کہ میوہ فروش کو گندم دے بلکہ یہ بھی ہوسکتاہے کہ گندم روئی والے کے ہاتھ بیچ کر نقد مال سے میوہ خرید لے۔

سکہ کی یہی وکالت تھی جس نے جنس کے تمام مشکلات کو حل کر دیا۔اب ہر شخص اپنی ضرورت کے مطابق جنس خرید سکتاہے۔طرف مقابل کو اس کی پیداوار کی ضرورت ہو یا نہ ہو۔اسی طرح قیمتوں کے تناسب کا مسئلہ بھی صاف ہوگیا۔اس لئے کہ ا ب تناسب نقد کے معیار پر قائم ہوگا۔

اصل قیمت کے تعین کی شکل بھی آسان ہوگئی ہر شے کو اسی سکہ کے معیار پر پرکھ لیا جائے گا۔ لیکن افسوس کہ سکہ کی زندگی کا یہ پہلوجہاں اس قدرروشن اور حلال مشکلات تھا وہاں ایک دوسرا پہلو انتہائی تاریک اور موجب وحشت بھی تھااس لئے کہ سکہ نے فقط وکالت ہی کاکام نہیں کیا بلکہ انسان کی اقتصادی زندگی سے کھیلنا بھی شروع کردیاجس کا نتیجہ یہ ہواکہ سکے کے نتائج جنس کے نتائج سے بدتر ہونے لگے۔فرق صرف اتنا رہ گیا کہ جنس کہ مشکلات فطری اور طبیعی تھے اور سکے کے مشکلات انسان ہی کے مظالم کا نتیجہ تھے۔

اس دعویٰ کی مزید وضاحت کے لئے تبادلہ کے ان تغیرات کا جائزہ لینا ضروری

۳۸۷

ہے جو جنس اور نقدکے مختلف ادوار میں پیش آئے۔

جنس کے تبادلہ کے دور میں خریدار اور بائع کا کوئی امتیاز نہ تھا۔ہر شخص بائع بھی تھا اور مشتری بھی۔ایک جنس دیتاہے اور دوسری حاصل کرتاتھا اور اس طرح دونوں کی ضرورتیں ایک ہی معاملہ میں پوری ہوجاتی تھیں لیکن سکے کے دورنے یہ امتیاز بھی پیداکر دیا،اب صاحب جنس کو تاجر اور صاحب نقد کو خریدار کہتے ہیں۔اب روئی کے طالب کو ایک معاملہ میں روئی نہیں مل سکتی بلکہ ضرورت ہے کہ پہلے گندم کو نقد سے بیچے اور پھر اس نقد سے روئی خریدے اور اس طرح ہر معاملہ کے لئے دہرے معاملات وجود میں آئیں۔

اس تفرقہ کا ایک خطرناک پہلو یہ نکل آیاکہ خرید کا معاملہ فروخت سے موخر ہونے لگا اب ضرورت اس امر کی نہیں رہی کہ ہر بیچنے والا اسی وقت خرید بھی کرے بلکہ یہ بھی ممکن ہو گیاکہ ایک مال کو فروخت کرکے نقد محفوظ کرلے اور دوسرے مال کو پھر کسی وقت میں خریدے۔

در حقیقت اس ایک غنیمت موقع نے معاملات کی نوعیت ہی بدل دی،پہلے تاجر خریداری پر مجبور تھا اس لئے تجارت کے وقت کی قیمت سے خریدنا پڑتا تھا اب وہ خریداری میں مختارہوگیا لہٰذا مناسب قیمت کے وقت میں خریدے گاکہ ادھر دولت جمع کی جائے گی اور ادھر مال کی ذخیرہ اندوزی ہوگی۔

نقد کا ایک فائدہ یہ بھی ہواکہ ذخیرہ اندوزی کے تمام اموال ایک عرصہ کے بعد اپنی قدروقیمت کھوبیٹھتے ہیں اور ان کی حفاظت پربھی کچھ خرچ کرنا پڑتاہے لیکن سکہ ان تمام عیوب سے بری ہے اس کی قدرقیمت میں دوام وثبات اور اس کا تحفظ کم خرچ ہے اس سے ہر شیء بروقت مل بھی سکتی ہے۔

نتیجہ یہ ہواکہ سماج میں ذخیرہ اندوزی کی رفتار تیز ترہرگئی اور تبادلہ نے اپنا فریضہ ترک کردیا۔کل تک خرید وفروخت کاکام برابر سے ہورہاتھا اور آج مال فروخت ہوتاہے تو

۳۸۸

سکہ کو داخل خزانہ کرنے کے لئے، غرض وطلب کی نسبت بدل گئی ہے اور احتکار کے جذبات کار فرما ہوگئے ہیں۔ہر ذخیرہ اندوزبازار کا سارا مال خریدکر جمع کرلیتاہے۔فروخت کرنے کے لئے؟نہیں قیمت کو بڑھانے کے لئے یا اس قدر کم کردینے کے لئے کہ دوسرے چھوٹے تاجر تباہ حال ہوجائیں اور سرمایہ دار کو مال ذخیرہ کرنے کے بہتر سے بہتر مواقع مل سکیں۔ سماج کا پورا سکہ اپنے خزانے میں جمع ہوجائے اور تبادلہ کی ابتری سے اکثریت افلاس وتنگدستی کا شکار ہوجائے۔

ظاہر ہے کہ اس افلاس سے پیداوار بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے گی اس لئے کہ جب خریداری کا بازار کساد ہوجائے گا اور بڑے سرمایہ دار کم سے کم قیمت پر خریدنے لگیں گے تو پیداوار والے افراد بھی سست پڑجائیں گے اور پوری اقتصادی زندگی مشکل میں پڑ جائے گی۔

یادرکھئے کہ نقد کے مشکلات اسی حد پر ختم نہیں ہوتے بلکہ ابھی ایک منزل اور سامنے آتی ہے۔ اب تک یہ سکے ذخیرہ اندوزی کاکام دیتے تھے اور اب قرض دے کر اضافہ کے اسباب بھی مہیاکر رہے ہیں۔سودخوری کا بازار گرم ہورہاہے۔سرمایہ داروں کے صندوق اوربینکوں کی تجوریاں پرہو رہی ہیں ،کوئی تاجر کارخانہ کی طرف ا س وقت تک نہیں جاتا جب تک اسے اس بات کایقین نہیں ہو جاتاکہ تجارت کا فائدہ قرض یابینک بیلنس کے سود سے زیادہ ہوگا،نتیجہ یہ ہواکہ ہر شخص نے اپنامال بینک کے حوالے کرنا شروع کر دیا اس امید پر کہ اس میں اضافہ ہوگا اور بینک نے بھی عوام کی دولت گھسیٹنا شروع کر دی یہ دکھاکر کہ تمہارا مال روز بروز ترقی کرے گا۔اموال پیداوار پر صرف ہونے کے بجائے بینک میں جمع ہونے لگے۔ملک کی زمام بینکوں کے ہاتھ میں آگئی اور اجتماعی توازن کے مفاہیم پامال ہونے لگے۔

تبادلہ کے ان تمام مشکلات کو نہایت ہی جلدی میں ذکر کیاگیاہے پھر بھی اس سے

۳۸۹

یہ واضح ہوگیاہے کہ اقتصادی زندگی کے تمام مشکلات نقد مال کے غلط استعمال اور اس کے ذخیرہ اندوزی اور پس اندازی کا شکار ہونے کا نتیجہ ہیں۔شاید اسی کی طرف رسول اکرم نے اشارہ فرمایاتھا:

زرددینار اور سفید درہم تمہیں بھی اسی طرح ہلاک کردیں گے جس طرح تم سے پہلے والوں کو کیاہے۔

اسلام نے ان تمام مشکلات کا ایک مناسب علاج کیاہے اور تبادلہ کو اپنی اصلی حالت پرلانے کے لئے حسب ذیل طریقے اختیار کئے ہیں:

(1) خزانہ داری کی مخالفت: اس طرح کہ جمع شدہ مال پرزکوٰة واجب کردی۔اب اگر مال جمع ہی رکھاجائے تو چند سال کے بعد اس کا خاتمہ ہوجائے گا اور اگر نکالاجائے تو اقتصادیات کی ترقی ہوگی جو عین مقصود ہے۔

خزانہ داری کے اسی پہلوکو نظرمیں رکھتے ہوئے قرآن کریم نے اس پر جہنم کی تہدید کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ ایسے لوگ عام طور سے حقوق سے کنارہ کشی کرتے ہیں ورنہ اتنی دولت کے جمع ہوجانے کا سوال ہی کیا ہے۔ارشاد الٰہی ہے:

جو لوگ سونا اورچاندی کو ذخیرہ کرتے ہیں اور پھر انہیں خدا کی راہ میں صرف نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی بشارت دے دو، جہنم میں انہیں سکوں کو گرم کرکے ان کے پہلو، پیشانی اور پشت کو داغاجائے گا(ان کو بتادیا جائے گا)کہ یہ تم نے ہی جمع کیاہے لہٰذا اس کا مزہ چکھو۔

(2) سودخوری کو مطلق طریقہ سے حرام کردیا اور اس طرح ان تمام مشکلات کا علاج کیاجو سود سے پیداہورہے تھے اور جن سے اجتماعی توازن برباد ہورہاتھا اب نقد جنس کی وکالت کا کام کرے گا اور اسے غلط اندازی کا موقع نہ مل سکے گا۔

بعض سرمایہ دارانہ ذہنیت کے لوگوں کا خیال ہے کہ بینک کے سودپرپابندی لگادینے

۳۹۰

کا نتیجہ یہ ہوگاکہ تمام بینک بندہوجائیں گے حالانکہ اقتصادی زندگی کی چہل پہل انہیں بینکوں سے وابستہ ہے۔

لیکن یہ خیال درحقیقت اس غفلت کا نتیجہ ہے جس نے نہ بینک کے مشکلات وخطرات کو سمجھنے کا موقع دیاہے اور نہ ان علاجوں پر غورکرنے کا موقع دیاہے جو اسلام نے اس سلسلہ میں مقرر کئے ہیں۔

(3) ولی امر کو ایسی صلاحتیں دیں جن کی بناپراسے تبادلہ کی رفتار کی کڑی نگرانی کاحق حاصل ہواور وہ ایسے تصرفات کا راستہ روک سکے جو اقتصادی زندگی کی تباہی کا باعث ہورہے ہوں یا بازار میں کسی ناجائز قبضہ کا ارادہ رکھتے ہوں۔

ہم انشاء اللہ آئندہ گفتگو میں ان نکات کو تفصیل کے ساتھ پیش کریں گے اس لئے کہ اس وقت ہمارا موضوع کلام اسلامی اقتصادی ہوگا۔

٭٭٭

۳۹۱