اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب0%

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 391

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ شھید باقر الصدر طاب ثراہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 391
مشاہدے: 104414
ڈاؤنلوڈ: 3731

تبصرے:

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 391 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 104414 / ڈاؤنلوڈ: 3731
سائز سائز سائز
اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

اسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ان کے بغیر نہ زندگی کاکوئی لطف ہے اور نہ غذ اکا ۔ہیرے یانیلم کوان میں سے کوئی حیثیت حاصل نہیں ہے۔انسان ہیرے کے بغیر زندہ بھی رہ سکتاہے اور لطف زندگی بھی اٹھاسکتاہے لیکن اس نبیادی فرق کے باوجود آج پانی یانمک کی وہ قدروقیمت نہیں ہے جو ہیرے یاسونے وغیرہ کی ہے جس سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ اشیاء کی قدروقیمت کے تعین میں ندرت وجود کو بھی دخل حاصل ہے جو شیء جنتی نادر ہوتی ہے اتنی زیادہ قیمتی ہوتی ہے۔دریاکے کنارے پانی بے ارزش ہے اور بے آب وگیاہ صحرامیں سونے سے زیادہ قیمتی۔ممکن ہے اس تفرقہ کی توجیہہ یہ کی جائے کہ اس مسئلہ کو ندرت وعمومیت سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اس کا معیار بھی محنت اور اس کی مقدار ہے۔دریا کے کنارے پانی نکالنے میں کوئی زحمت نہیں ہوتی اور کان سے سونا برآمد کرنے میں زحمت ہوتی ہے۔اس لئے پانی بے ارزش ہوگیا اور سوناقیمتی۔لیکن سچی بات تویہ ہے کہ یہ توجیہہ ایک مغالطہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔دنیا کاکون سا انسان اس حقیقت سے انکار کردے گا کہ کھلی ہوئی کان سے برآمد کیا ہوا سونا بھی اتنی ہی قیمت رکھتاہے جتنا زمین کے اندر سے کھوداہواسونا۔جبکہ کھلی کان سے برآمد شدہ سونا اور دریا سے بھراہواپانی محنت کے اعتبار سے بالکل مساوی حیثیت رکھتاہے پھر اگر زحمت ہی کا حساب کرلیاجائے تو یوں فرض کیاجائے کہ دو مزدور بیک وقت محنت شروع کرتے ہیں۔ایک مزدورصبح سے شام تک کان کی کھدائی کرتاہے اور دوسرا کھیت کی کاشت۔ نتیجہ کے طورپر تین مہینے کے بعد اسے ایک من سونا ملتاہے اور اسے دس من گندم۔تو کیا دنیا کا کوئی انسان ان دونوں کے باہمی تبادلہ پر تیارہوسکتاہے اور کیاکسی انصاف کے بازار میں یہ کہا جاسکتاہے کہ چونکہ دونوں پر صرف کی جانے والی محنت یکساں ہے اس لئے دونوں کی قیمت بھی برابر ہونی چاہئے۔ہرگز نہیں اس کا کھلاہوا مطلب یہ ہے کہ مواد کی ندرت وعمومیت بھی قیمت کے تعین کا ایک اہم عنصر ہے صرف محنت ہی ساری چیزنہیں ہے یہ اور بات ہے کہ محنت نہ ہوتی تو سونا بازار میں نہ ہوتالیکن اس کا یہ مطلب ہرگز

۴۱

نہیں ہے کہ سونا کچھ نہیں ہے جوکچھ ہے وہ محنت ہی ہے۔

واضح لفظوں میں یوں کہاجائے کہ مارکس نے اپنے اصول اقتصادمیں جہاں سپلائی اور ڈیمانڈ کے عدم توازن کو نظرانداز کردیاہے وہاں خام مواد کی قدر وقیمت کو بھی یکسر فراموش کردیاہے اس کی نظرمیں نہ دوحالات کے علوم میں فرق ہے اور نہ دومواد پر صرف ہونے والی طاقتوں میں۔جبکہ پانی اور سونے کا تفاوت خام مواد کے عظیم فرق کی طرف اشارہ کررہاہے اور بازار میں ذخیرہ اندوزی کے حالات کا عمومی حالات سے اختلاف سپلائی او رمانگ کے عدم توازن کی مکمل نشاندہی کررہاہے اور یہ بتارہاہے کہ خام مواد کے اختلاف سے بھی قیمتوں میں فرق پیداہوتاہے اور سپلائی اور مانگ کے عدم توازن سے بھی۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انسانی محنت بڑی باوقعت اور قیمتی شیء ہے۔ انسان اس کا ئنات کی روح اور اس کا جوہر ہے۔یہ نہ ہوتا تو پہاڑوں کے سینے میں چھپے ہوے جواہرات کا قدرداں نہ ہوتا۔یہ نہ ہوتاتو دریاؤں کی تہوں میں قلب صدف کی امانت بے وقعت ہوتی۔یہ نہ ہوتاتو نورآفتاب اور خنکی ماہتاب بے ارزش ہوتی یہ نہ ہوتاتو چلتی ہوئی ہواؤں اور پھیلی ہوئی فضاؤں کا قدرشناس نہ ہوتا۔یہ نہ ہوتاتو کوہ گرد فراراور گرد فرار کا امتیاز نہ ہوتا۔یہ نہ ہوتاتو کائنات ہوتی لیکن وجہ کائنات اور جان کائنات نہ ہوتالیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پھر یہی سب کچھ ہے اورکائنات کچھ نہیں۔اس کا احساس توخود انسان کو بھی ہے کہ یہ کائنات میرے لئے ہے لیکن میراوجود وقیام اسی کا شرمندۂ احسان ہے۔اسی کی سرزمین سے میراقرار اور اسی کے آسمان سے میری زندگی کی چھاؤں ہے۔اسی کے آفتاب سے میرے خون میں گرمی اور اسی کے ماہتاب سے میر ی آنکھوں میں خنکی ہے۔ اسی کی ہواسے نفس کی آمدوشد ہے اور اسی کی فضامیں امکانات سیر وسیاحت ہیں۔مطلب یہ ہے کہ میں اس سے ہوں اور یہ میرے لئے ہے۔لہٰذا اشیاء کی قدروقیمت کے تعین میں جہاں میری محنت ومشقت کو دیکھاجاتاہے وہاں اس کے ذاتی منافع وفوائد،آثار ومصالح کو

۴۲

بھی نظر اندازنہیں کرناچاہئے۔

مارکس کی بنیادی غلطی یہی تھی کہ اس نے قیمت کو ذاتی اور تبادلی کی طرف تقسیم کرکے دوسراقدم بڑھایا تو ذاتی قیمت کویکسر نظرانداز کر دیا اور تبادلی قیمت کے تعین کے عناصر کو دوسرے مقامات پر تلاش کرنا شروع کردیا۔حالانکہ اسے کم سے کم اتنا ضروردیکھنا چاہئے تھاکہ اگر تبادلی قیمت کا میدان ذاتی قیمت سے بالکل الگ ہے توذاتی قیمت کو قیمت ہی کیوں قرار دیاجاتاہے۔اس کے قیمت ہونے کا تو مطلب ہی یہ ہے کہ یہ قیمت دوسری قیمت کے تعین میں مفید اور کارگرثابت ہوسکے اور اسی کی روشنی میں اس کا بھی فیصلہ کیاجاسکے۔

مارکس اور سرمایہ داری

قیمت واجرت کا معیار مقررکرنے کے بعد مارکس نے سرمایہ داری پر تنقید کرنا شروع کی۔اس کی نظرمیں معیار قیمت کی تحقیق وتعین ہی سرمایہ داری پر تنقید کی علمی بنیاد ہے۔ اس کا کہنا یہ ہے کہ سرمایہ دار کارخانہ میں پچاس ہزار کا خام مواد صرف کرکے سومزدوروں کی محنت سے اسے سال بھرمیں ایک لاکھ بنالیتاہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس ایک لاکھ میں نصف حصہ خام مواد کاہے اور نصف مزدوروں کی محنت کا۔اور جب محنت ہی قیمت کی نبیاد ہے تو اس قیمت کے پیداکرنے والے مزدور ہیں مالک نہیں ہے اور یہ کتنا بڑاظلم ہے کہ پیدا کرنے والے کو اپنی قیمت نہ ملے اور دوسرا اس پر قابض ہوجائے۔سرمایہ دار کو کسی طرح یہ حق نہیں پہنچتاکہ وہ پچاس ہزار میں پچیس ہزار مزدوروں کو دے کر باقی پچیس ہزار پر خود

۴۳

قابض ہوجائے۔یہ مزدوروں کے حق کی چوری اور ان کے ساتھ ناانصافی ہے۔ اس ظلم و شقاوت کے مٹانے کا سب سے بڑا نبیادی ذریعہ یہی ہے کہ شخصی ملکیت کا دروازہ بند کر دیاجائے۔نہ سرمایہ دار کے پاس مال ہونہ وہ کارخانہ کھولے اور نہ مزدوروں کا حق ماراجائے۔ ورنہ جب تک سماج میں یہ لعنت رہے گی طبقاتیت ناگزیر ہوگی۔ ایک طبقہ بنگلوں میں بسنے والا ہوگا اور دوسرا محنت کی چکی میں پسنے والا۔یہ کتنا بڑاغضب ہے کہ دن رات کارخانہ میں گھسنے والا مزدور فٹ پاتھ پر پڑارہے اورکارخانہ کے مصائب کا تماشائی سرمایہ دار اپنی دولت میں روز افزوں اضافہ کرے۔

اس کے بعد یہ طبقاتیت صرف اقتصادی اونچ نیچ کے معنیٰ میں رہ جائے تو پھر غنیمت ہے لیکن قیامت تویہ ہے کہ اس طبقاتیت سے بیدردی اور شقاوت کا جذبہ بھی پیدا ہوتاہے۔مزدوروں کا خون چوس کر دولتمند بننے والا انسان مزدوروں کے دکھ درد کا احساس کیوں کر کرسکتاہے؟پھر اس کا دوسرا زینہ اوربھی بھیانک ہوتاہے۔بیدردی اور شقاوت کے ساتھ اخلاقی اقدار پر بھی زوال آجاتاہے۔سرمایہ دار اپنے سے کمتر طبقہ کو حقیر،ذلیل اور اپنے کو صاحب عزت واحترام سمجھتاہے۔اس کے ذہن سے یہ بات نکل جاتی ہے کہ یہ ساری دولت وثروت اور یہ سارا وقار واحترام اسی مزدور کی محنت وجانفشانی کا نتیجہ ہے جسے ذلیل نظروں سے دیکھاجارہاہے اور جسے مستحق رحم وکرم بھی نہیں قرار دیاجاتا۔

سرمایہ داری سے سماج پر یہ اثربھی پڑتاہے کہ سرمایہ دار اپنے کثیر سرمایہ کو کسی وقت بھی بیکارنہیں دیکھنا چاہتا۔اس کی ہر آن یہی خواہش ہوتی ہے کہ اسے کسی نہ کسی طریقہ سے دوگنا اور چوگنا بنایاجائے۔وہ اس کے لئے مختلف ذرائع اختیار کرتاہے جن میں سے اہم ذرائع سود خواری اور ذخیرہ اندوزی ہیں۔اس لئے کہ ثروت مند انسان کبھی کاہل بن جاتاہے اورکبھی دولت کی ہوس میں چست وچالاک اور چاق وچوبند رہتاہے۔سست وکاہل آدمی کا شعار یہ ہے کہ وہ غریبوں اور محتاجوں کو سرمایہ تقسیم کرکے ان سے ماہ بہ ماہ سودوصول

۴۴

کرتاہے۔اس طرح سماج میں اس کی قدرومنزلت بھی ہوگی اور لوگ یہ سوچ کر احترام کریں گے کہ یہ شخص آڑے وقت پر غریبوں کے کام آتاہے اور اپنا سرمایہ بھی ترقی کرتارہے گا رند کے رند رہیں گے اور ہاتھ سے جنت بھی نہ جائے گی۔

چست وچالاک آدمی کا یہ وطیرہ ہوتاہے کہ وہ سرمایہ کے زور پر فصل کے موقع پر ہی کھلیان سے غلہ خرید لیتاہے اور بعد میں جب لوگ بھوک پیاس سے مرنے لگتے ہیں تو ان سے زیادہ سے زیادہ رقم لے کر وہ غلہ ان کے ہاتھ فروخت کردیتاہے۔

ظاہر ہے یہ طریقۂ کار صرف اخلاقی کمزوریاں ہی نہیں پیداکرتابلکہ اسی کے ساتھ ساتھ سارے سرمایہ کو صرف چند آدمیوں کے پاس جمع کردیتاہے۔جو شیء دنیا کی تباہی کا پیش خیمہ ہی ہوسکتی ہے اور بس۔

اس سلسلہ میں سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ سرمایہ دار نظام کے تحت پرورش پانے والے ذہن ومزاج بھی اس قدرابتری اور پستی کا شکارہوجاتے ہیں کہ ان کی نظرمیں اخلاقی اقدار اور انسانی شرافت کا معیار ہی بدل جاتاہے ایک غربت زدہ انسان سود لیتے وقت سرمایہ دار کی تعریف کرتاہے کہ یہ میرے آڑے وقت پرکام آیا اور اسے یہ احساس بھی نہیں ہوتاکہ یہ حرام خور میرا خون جگر چوسنا چاہتاہے۔وہ یہ سوچ بھی نہیں پاتاکہ اسے اپنے نفس کی تسکین کے بعد مزید کسی مطالبہ کا حق نہیں ہے۔آپ نے اس دنیا میں بہت سے ایسے افراد دیکھے ہوں گے،جو سودپرروپیہ دینے والے افراد کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور رقم کی واپسی کے موقع پر دوچارروپیہ سود کے معاف کر دینے کو ایک اہم کارخیر سمجھتے ہیں۔ان کے اذہان کی پستی اس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ اگر کوئی شخص وعدہ کرنے کے بعد سود نہ دے تو وہ اسے سماج کا سب سے بڑا مجرم تصور کرتے ہیں۔ان کی نظرمیں وعدہ خلافی بہت بڑاگناہ ہے اور حرام کی رقم کھاکرغریب کی محنت کو ناقدری کی نگاہ سے دیکھنا کوئی جرم نہیں ہے، بلکہ کار خیر ہے۔

۴۵

اور یہ سب اس لئے ہوتاہے کہ سادہ لوح انسان جس ماحول میں تربیت پاتاہے اس کے اصول وقوانین کو اپنے لئے آسمانی وحی سے کم نہیں سمجھتا۔اس میں اتنا شعورنہیں ہوتاکہ وہ صحیح وغلط اور فاسد وصالح میں امتیاز پیداکرسکے۔ اشراکی ماحول میں آنکھ کھولنے والے انسان کا بھی یہی حال ہوتاہے۔وہ بھی پیدائشی طور پر اپنے کو حکومت کا غلام اور اپنے دست وبازوکی طاقت کو اسٹیٹ کا صدقہ سمجھنے لگتاہے اسے اس بات پر تعجب نہیں ہوتاکہ میرے دست وبازو کی پیداکی ہوئی قیمت پراسٹیٹ کا قبضہ کیوں ہوگیا؟اور میری کمائی ہوئی دولت پر تصرف کرنے کاا ختیار مجھے کیوں نہیں ملا؟

مارکس ازم پر ایک نظر

کارل مارکس نے سرمایہ دار نظام پر اعتراض کرتے ہوئے جن نکات کا حوالہ دیا ے ان میں سے اکثرباتیں خود ان کے مرتب کئے ہوئے اصولوں میں بھی مشترک طور پر پائی جاتی ہیں۔انہوں نے قیمت کو محنت کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے یہ نتیجہ نکالاہے کہ سرمایہ دار مزدور کی پیداکی ہوئی قیمت کے ایک بڑے حصہ کا غاصب یاچور ہوتاہے اور اسی لئے سرمایہ دار ماحول ہمیشہ مالک ومزدور کی جنگ سے دوچار رہتاہے لیکن اس بات پر توجہ نہیں دی کہ مزدور کو اس کی پیداکی ہوئی تمام قیمت کامالک فرض کرلینا ہر نظام اقتصاد کی نبیادوں کو متزلزل بناسکتاہے چاہے وہ سرمایہ دار نظام ہویاغیر سرمایہ دار۔اس لئے کہ مزدور ہر وقت اپنی محنت کے نتیجہ کا مطالبہ کرے گا اور نتیجہ میں مالک ومزدورکی جنگ حکومت وملازم کی جنگ میں تبدیل ہوجائے گی اور نظام کی ابتری بدستورقائم رہے گی۔

۴۶

دوسری خرابی یہ بھی پیدا ہوگی کہ کام سے عاجز ہوجانے والے بوڑھے،بیمار، مفلوج، مشلول،بچے وغیرہ ملک میں زندہ رہنے کے حق سے محروم ہوجائیں گے۔کام کرنے والے اپنے تمام نتیجہ عمل کا مطالبہ کریں گے اور کام سے عاجز رہ جانے والے بھوکوں مرجائیں گے۔اس وقت یہ نہیں کہاجاسکتاکہ ایسے حالات میں حکومت اپنی دخل اندازی سے ایسے لوگوں کے رزق کا سامان کرے گی اور انہیں بھوکوں نہ مرنے دے گی۔اس لئے کہ یہ جواب اصول مارکس سے ناواقفیت کا نتیجہ ہوگا۔مارکس کے اس نظریہ کے تحت حکومت صرف مزدوروں کی ایک وکیل ہوتی ہے۔اس کاکام ان کی پوری محنت کا نتیجہ دلوانا ہوتاہے اس سے زیادہ اس کے اختیار میں کچھ نہیں ہے اور ایسی صورت میں اسے مداخلت کا کوئی حق نہیں ہے ورنہ اشتراکیت بھی سرمایہ داری کی ایک مہذب شکل کانام ہوجائے گی اور مزدور بہرحال اپنی پوری اجرت سے محروم رہے گا۔

اس مقام پر یہ بھی یادرکھنا چاہئے کہ''تقسیم باعتبار ضرورت''کا اصول بھی مارکس کے نبیادی نظریہ سے ہم آہنگ نہیں ہے جب تک کہ اس میں دیگر سیاسی افکار کی آمیزش نہ کرلی جائے اور ظاہر ہے کہ جدید علم اقتصادمیں اس امتزاج کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔اس کی نظرمیں سیاست کا میدان اقتصادی ترقیات سے بالکل الگ ہے اور ہونا چاہئے۔

مارکس کے اس اصول کا ایک اثر طبقاتیت کی شکل میں بھی ظہور پزیر ہوگا۔اس لئے کہ سارے مزدور اپنے ظاہری اعضاوجوارح یاباطنی جذبات واحساسات کے اعتبار سے مساوی نہیں ہوتے۔ان میں چاق وچوبند،ہوشیار ودانشمند بھی ہوتے ہیں اور انہیں میں ضعیف ولاغر،غبی وکندذہن بھی اور کھلی ہوئی بات ہے کہ پہلی قسم کے مزدوروں کی پیدا کی ہوئی قیمت دوسری قسم کے مزدوروں کی پیداوار سے یقینا زیادہ ہوگی۔اب اگر حکومت اپنے حدود کے اندررہ کر مزدوروں کو ان کے صحیح حقوق دلوانے پر اترآئے تو ایک ہی مہینہ کے اندرسماج میں دو طبقے پیداہوجائیں گے اور ایک کی دولت دوسرے سے دوگنی ہوگی۔پھر یہی

۴۷

بات دوسرے مہینہ میں بھی ممکن ہے جس کے بعد بڑے طبقہ کی دولت اور بھی بڑھ جائے گی اور ماہ بہ ماہ اس کی دولت میں اضافہ ہوتارہے گا اور معاشرہ اسی لعنت کی طرف پلٹنے لگے گا جس سے صدیوں کے بعد نکل سکاہے۔ اس مقام پر یہ امکان ضروررہتاہے کہ حکومت اس سرمایہ کو ختم کر ادے،سلب کرلے یا اس طبقہ کو دولت بڑھانے کا اختیارنہ دے لیکن ظاہر ہے کہ یہ بات اصولی طور پر صحیح نہ ہوگی۔خواہ سیاست کے تقاضوں کی بناپر اسے جائز ہی کیوں نہ بنالیاجائے۔

مارکس نے سرمایہ داری کے عیوب ومفاسد کا مشاہدہ کرنے کے بعد یہ اندازہ لگایا ہے کہ یہ تمام باتیں''انفرادی ملکیت''سے پیدا ہوتی ہیں اس لئے اگرانفرادی ملکیت کو اجتماعی ملکیت سے بدل دیاجائے تو ساری خرابیاں ازخود دور ہوجائیں گی۔چنانچہ انہوں نے اس سلسلہ میں ایک اصول نہ بنایاکہ ملک کاسارا سرمایہ سارے عوام کے لئے ہے اور عوام ملک کے خادم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ بقدر طاقت محنت کرے اور بقدر ضرورت نتیجہ لے لیکن سوال یہ ہے کہ جب مقدار عمل کے اعتبار سے دونوں برابر نہیں ہیں تو ایک کے نتائج عمل کو دوسرے کے حوالے کر دینے کا جواز کیاہوگا اور''محنت اصل قیمت ہے''کانظریہ کیوں کر خاک میں ملادیاجائے گا؟

حقیقت یہ ہے کہ مارکس نے جس ماحول میں آنکھیں کھولی تھیں اس میں دین ودنیا دونوں شدید طاغوتیت کا شکار تھے۔دین کے ٹھیکہ دار سرمایہ داروں کے چشم وابروکے اشاروں پر رقصاں تھے اور ان کی افتادطبع کے مطابق احکام گڑھ رہے تھے۔کنیسہ ثروت مندی اور اس کے مظاہر کا اڈہ بناہواتھا۔پوپ بڑے سے بڑے سرمایہ دار سے ٹکڑلیتا تھا۔ سرمایہ کے زور پر جنت کا بیوپار ہورہاتھا دوسری طرف دنیادار دولت وثروت کے بھروسہ پر پوپ کی تائید کررہے تھے۔زندگی اور جنت کا حسین امتزاج منظر عام پر آرہاتھا۔عیاشی، عیاری اور ظلم وستم کا شباب تھا۔مزدوروں کی آواز صدابصحراتھی اور

۴۸

ظاہر ہے کہ ایسا ماحول کبھی بھی حساس انسان کو خاموش نہیں بٹھا سکتا۔ مارکس کے دل میں یہ ورد ایک طوفان بن کر اٹھااور زندگی کے مختلف شعبوں پرچھاگیا۔دنیاکا دستور ہے کہ جب کوئی نظریہ معمولی اور نارمل حالات میں بنتاہے تواس میں سنجیدگی اورآزادیٔ فکرہوتی ہے اور جب کسی جذبہ سے تاثر کا شکار ہوجاتاہے تو اس کی سنجیدگی جوش انتقام کا شکار ہوجاتی ہے۔مارکس کے ساتھ بھی یہی المیہ پیش آیا۔اس نے اہل کنیسہ اور سرمایہ داروں کے مظالم دیکھے اور ایک مرتبہ چیخ اٹھا۔اس کی آواز احتجاج کسی سینے کے درد میں مبتلا مریض کی چیخ تھی۔ظاہر ہے کہ ایسی چیخ میں نہ کوئی توازن ہوتا ہے اور نہ نالہ وفریاد میں کوئی لئے۔اس لئے اس نے مذہب پرنظر ڈالی تو اسے یکسر معطل کرکے یہ اعلان کردیاکہ مذہب چند فرسودہ خیالات کا مجموعہ ہوتاہے جن میں سرمایہ دار عوام کو خاموش کرنے کا ذریعہ اور ہادیاں مذاہب عوام کی طاقت کو استحصال کا وسیلہ بناکر رکھتے ہیں۔

سرمایہ دار ماحول کو دیکھاتو یہ طے کردیاکہ''انفرادی ملکیت''لغوومہمل ہے اس سے فسادات پیدا ہوتے ہیں۔سرمایہ دار مزدوروں کے حق کا چور ہے۔اس سے مزدوروں کا انتقام لینا چاہئے اور ان تمام حالات سے عوام کو گذرنا پڑتاہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مارکس کے سینے میں دل تھا اور اس دل میں تڑپ تھی لیکن افسوس یہ ہے کہ اس تڑپ کی زدمیں نظریہ کا توازن بھی آگیا۔ اس نے حالات کے پیش نظر مزدوروں سے ہمدردی کی جس میں وہ حق بجانب بھی تھا اور انسانیت کی بارگاہ میں ماجور بھی۔لیکن ستم یہ ہواکہ اس نے سرمایہ کو بالکل ہی نظرانداز کر دیا اور اس کے ساتھ کسی رعایت کو روانہ رکھا کاش اس نے اتنا اور سوچاہوتاکہ مل کاملک بھی سماج ہی کا ایک انسان ہے اس نے بھی اپنا خون پسینہ ایک کیاہے۔وہ بھی دماغی صلاحیتوں کو صرف کرکے کارخانے کو آگے بڑھاتاہے۔اس پیداوار میں اس کا بھی حق ہونا چاہئے۔ایسا ہوگیاہوتا اور اس نے اپنے نظریہ میں اتنا لوچ پیداکردیاہوتا تو آج زیادہ تراعتراضات سے بچاؤ کی کوئی نہ کوئی

۴۹

صورت ضرور ہوتی۔

مارکس کی صورت حال کو دیکھنے کے بعد یہ واضح طو رسے کہاجاسکتاہے کہ سرمایہ داری اور اشتراکیت دونوں کی بنیاد جذبات پر ہے۔سرمایہ داری کے جذبات اونچے طبقہ کے ساتھ وابستہ ہیں اور اشتراکیت کے جذبات نچلے طبقہ کے ساتھ۔اشتراکیت،سرمایہ داری کے مقابلہ میں قابل تحسین وآفرین ہے لیکن حق وعدالت،انصاف وغیرہ جانب داری کی بارگاہ میں وہ بھی لائق مواخذہ ہے کہ اس نے بھی مسئلہ کو اس سنجیدگی کے ساتھ نہیں اٹھایا ہے جس سنجیدگی سے ایسے اہم مسئلہ کو اٹھنا چاہئے تھا۔

نتیجہ یہ ہواکہ مارکس کے بنائے ہوئے اصول بھی نہ طبقاتی نظام کو مٹاسکتے ہیں اور نہ مزدور کو اس کا صحیح مقام دلاسکتے ہیں۔جب تک ان میں جبر کی آمیزش نہ کرلی جائے اور جبرہی وہ چیز ہے جس کی گرفت سے آزاد ہونے کے لئے مزدور مارکس نظام کا ساتھ دے رہاہے ورنہ اسے معلوم ہے کہ ہر نظام میں کچھ نہ کچھ کمزوریاں ضرور ہوتی ہیں جنہیں اس نظام کے برسراقتدار آنے کے بعد بھگتنا پڑتاہے۔

سرمایہ داری پر ہماری ایک نظر

سرمایہ داری کا تاریخی اور علمی تجزیہ اس بات کا زندہ ثبوت ہے کہ اس کے مفاسدو عیوب کا تعلق''انفرادی ملکیت'' سے نہیں ہے۔اس کے عیوب کے پس منظر میں انسان کی نفسیات کار فرماہے۔ نفسیات کو اقتصادیات سے الگ کردینا ایسا ہی جرم ہے جیسے نفسیات کو اقتصادی نظام کا ردعمل تصورکرناالٰہیات کے اصول تسلیم کئے جائیں یانہ کئے جائیں اتنا

۵۰

بہرحال ماننا پڑے گاکہ انسانوں میں فطری طور پر کچھ جذبات پائے جاتے ہیں جن کے اصل وجود میں سارے بنی نوع انسان شریک اور کیفیات واقدار میں سب کے سب مختلف ہیں۔انسان کا سب سے اہم جذبہ جس سے''مافوق البشر''طاقتوں کے علاوہ کسی ایک کو بھی مستثنیٰ نہیں کیاجاسکتا۔''حب نفس''کاجذبہ ہے۔یہ علماء نفسیات کا ایک مسلمہ بھی ہے اور ہر انسان کا ذاتی مشاہدہ بھی کہ انسان کے جملہ اعمال وافعال کا سرچشمہ اپنے نفس سے محبت کا جذبہ ہوتاہے اور بس۔

فلسفی انداز سے یوں سمجھ لیجئے کہ انسانی نفس ناطقہ جسے تمام کمالات وفضائل کا مدرک تصور کیاجاتاہے اس کا عالم خارج سے کوئی رابطہ اس کے علاوہ نہیں ہے کہ اسے عالم خارج کا ایک آئینہ تصور کرلیاجائے اور آئینہ کاخاصہ یہ ہے کہ آپ آئینہ کے سامنے کھڑے ہوں اور آپ کی پشت پر کوئی آدمی ہوتو اس آدمی کی کیفیات وحالات سے آپ کارابطہ اسی آئینے کے ذریعہ ہوگا۔آئینہ سامنے سے ہٹ جائے تو آپ اس سے بالکل بے تعلق ہوجائیں گے۔یہی حالت کائنات اور انسان کے درمیان رابطہ کی ہے۔بچہ دودھ کیوں مانگتاہے؟ انسان غذاکیوں استعمال کرتاہے؟تعلیم کی ضرورت کیوں محسوس ہوتی ہے؟لباس کا استعمال کیوں ہوتاہے؟ممالک پر حملہ کیوں کیاجاتاہے؟سرمایہ جمع کرنے کی خواہش کیوں ہوتی ہے؟ اقتدار کے پیچھے دوڑکیوں لگائی جاتی ہے؟ جینے کی تمناکیوں ہوتی ہے؟ مرنے کی خواہش کیوں پیدا ہوجاتی ہے؟صحت کی طلب کیوں ہوتی ہے؟مرض سے نفرت کا سبب کیاہے؟زمانہ کے تغیر کے ساتھ انسان کے خیالات کیوں بدل جاتے ہیں؟ان تمام سوالات کا جواب ایک لفظ ہے یعنی''حب نفس''انسان کو اپنے نفس اور اپنی ذات سے محبت ہے۔اس کا نفس جس چیز کی اچھائی کا ادراک کرتاہے۔وہ اس کی طرف خودبخود متوجہ ہوجاتاہے اور جس چیز کی برائی کا فیصلہ کرلیتاہے اس سے متنفر ہوجاتاہے لیکن یادرکھئے کہ یہ نظریہ ہیگل کی مثالیت سے بالکل مختلف ہے۔ہیگل کی نظرمیں کائنات صرف ایک نفسیاتی

۵۱

تصور اور ذہنی خیال کا نام ہے۔اس کے یہاں ہر شی کا وجود نفس کے ادراک سے وابستہ ہے اور اس فلسفہ میں نفس صرف وجود کو ذات سے مربوط کرنے والی طاقت کانام ہے اور ظاہر ہے کہ جب انسان کے تمام تصرفات اور اس کے جملہ افعال واعمال کا سرچشمہ نفس کا ادراک ہی ہے تو اس کا کھلاہوا مطلب یہ ہے کہ اسے اس کائنات سے محبت نہیں ہے۔وہ صرف اپنے نفس سے محبت کرتاہے۔اب جسے اس کا نفس اچھا سمجھتاہے اسے وہ بھی اچھا سمجھنے لگتاہے اور جس سے نفس نفرت کرتاہے اس سے وہ بھی نفرت کرنے لگتاہے۔نفس ہی وہ معشوق ہے جس کے چاہنے والوں اور محبوبوں سے محبت کرنا فطرت انسانی کا فریضہ ہے۔ اس کے علاوہ کسی معشوق کا یہ انداز محبت نہیں ہے۔حد یہ ہے کہ اکثر اوقات انسان کی اطاعت وعبادت میں بھی نفس ہی کی محبت کارفرمارہتی ہے۔وہ عبادت کیوں کرتاہے؟ برائیوں سے پرہیز کیوں کرتاہے؟واجبات پر عمل پیراکیوں ہوتاہے؟محرمات سے کیوں دوربھاگتاہے؟یہ سب اسی لئے ہوتاہے کہ نفس ایک صورت میں راحت محسوس کرتاہے اور دوسری صورت میں عذاب الٰہی کا دردو الم۔ اور جس میںراحت محسوس کرتاہے اس کی طرف انسانی اعضاء کو کھینچ لیتاہے اور جس میں تکلیف سمجھتاہے ادھر قدم اٹھانے سے روک دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو شخص ان نظریات وادراکات سے ہم خیال نہیں ہوتا اس کے نفس میں یہ محرکات وعوامل بھی نہیں پیدا ہوتے اور اس کا طرزعمل مسلمانوں کے طرزعمل سے بالکل مختلف ہوتاہے اس مقام پریہ نہیں کہاجاسکتا کہ اس کائنات میں حب نفس کے محرکات سے مافوق عمل کرنے والے نہیں ہیں ہیں اور ضرور ہیں لیکن یہ ضرور کہاجاسکتاہے کہ ان کی تعداد انگلیوں پرگنے جانے والے اعداد سے کسی طرح زیادہ نہیں ہے عمومی طور پر انسان کے افعال واعمال کا واقعی محرک اس کا اپنے نفس سے لگاؤ اور عشق ہی ہوتاہے۔اس میں یہ جذبہ نہ ہوتاتو وہ کسی عمل کی طرف راغب نہ ہوتا۔اس کے علاوہ دوسرانکتہ بھی نظرمیں رکھنے کے قابل ہے نفس انسانی کے کسی بھی فطری جذبہ کو مکمل طور سے پامال نہیں کیاجاسکتا۔ورنہ

۵۲

ایک دن فطرت پھر عادت پر غالب آجائے گی اور بلی،چوہے کو دیکھ کر شمع پھینک دے گی۔ یہی وجہ ہے کہ نظام حیات کا فریضہ ہلاکت نفس کو نہیں قرار دیاگیابلکہ اس کاکام تطہیر نفس اور تزکیۂ نفس رکھاگیاہے۔

بیشک سرمایہ داری اسی''حب نفس''کی بگڑی ہوئی شکل کانام ہے لیکن اس کی تطہیر کا طریقہ وہ نہیں ہے جسے مارکس نے اپنایاہے کہ انسان کے وجود سے''حب ذات'' کا جذبہ نکال کراسے''حب جماعت''کاجذبہ دے دیاجائے۔وہ پیدا ہوتو جماعت کے لئے۔کام کرے تو جماعت کے لئے۔محنت کرے تو جماعت کے لئے اور مرے توجماعت کے لئے۔ فکری اعتبار سے یہ جذبہ قابل قدر ہے اور یہ نظریہ انتہائی دل پسندو سنجیدہ ہے لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ اس زمین پربسنے والے انسان میں یہ کیفیت پیدابھی ہوسکتی ہے یا نہیں؟اس کی رگ رگ میں سرایت کئے ہوئے جذبہ کو اس سے سلب کیاجاسکتاہے یانہیں؟ اس کی رگوں میں دوڑنے والے خون کو کھینچ کراسے زندہ بھی رکھاجاسکتاہے یا نہیں؟علم النفس کا تقاضہ اور فطرت کا مشاہدہ تویہی کہتاہے کہ یہ بات عالم خیال میں ممکن ہوتوہولیکن عالم حقیقت میں قطعی طورپر غیر ممکن ہے۔یہاں امکان صرف اس جذبہ کی تطہیر وتقدیس کا ہے جس کے وسائل پر غورکرنانظام زندگی کا سب سے بڑاکارنامہ ہے۔

دوسرااہم سوال یہ بھی ہے کہ''حب ذات''کے جذبہ کی تباہی یا اس کی تطہیر کے وسائل کیاہوں گے؟مارکس ازم کا کہنا ہے کہ یہ بات تعلیم وتربیت یاقہر وغلبہ کے ذریعہ پیداکی جاسکتی ہے۔انسان کو بچپنے ہی سے یہ تعلیم دی جائے کہ تجھے سب کے لئے پیداہونا ہے، سب کے لئے جینا ہے اور سب کے لئے مرجاناہے۔ایسی تعلیم کے مدارس قائم کئے جائیں۔گھروں میں اسی انداز سے تربیت کی جائے اور جوان ہونے سے پہلے پہلے انسان میں اس احساس کو جوان کردیاجائے تاکہ آگے چل کر اس کی نفسانیت ملکی قانون کی راہ میں حائل نہ ہوسکے اور پھر حکومت کی کڑی نگرانی میں اس کی زندگی کو آگے بڑھایاجائے۔تاکہ

۵۳

اگرکسی مقام پر نفس قانون کی مخالفت پر آمادہ بھی ہوجائے تو حکومت کا دباؤ اسے راہ راست پر کھینچ لائے۔

یہ بات پہلے بھی واضح کی جاچکی ہے کہ خیالی دنیا میں یہ تصور انتہائی دلکش اور جاذب نظر ہے۔لیکن عالم حقیقت وواقعیت میں اس کو عملی جامہ پہنانا تقریباً ناممکن ہے۔ انسان اپنے ہرچھوٹے بڑے جذبہ کو قربان کرسکتاہے لیکن اس کے لئے ایسے بنیادی شعور کی قربانی ناممکن ہے جس پر اس کی ساری زندگی اور زندگی کے سارے اقدامات کا دارومدار ہے۔ طاقت کے دباؤسے ہر بات منوائی جاسکتی ہے لیکن کبھی کبھی طاقت کا استعمال ہی اپنی شکست کی دلیل بن جاتاہے ۔کسی نظام کو برسرکارلانے کے لئے طاقت کا استعمال اس بات کا زندہ ثبوت ہے کہ نظام کی بنیادیں نفس کی گہرائیوں میں نہیں اتری ہیں ورنہ اس زحمت کی ضرورت نہ پڑتی۔ پھر دوسری بات یہ بھی ہے کہ طاقت کا استعمال خود بھی''حب ذات''کے جذبہ کی تکمیل کا ایک وسیلہ ہے تو کیا یہ بھی تسلیم کر لیاجائے کہ ایک شخص کی ذات محبت کے لائق ہے اور باقی افراد کی ہستیوں میں یہ صلاحیت نہیں پائی جاتی نفسیات کے تجربے شاہدہیں کہ ایسے جذبات کو پامال کرنا نظام کی کمزوری کا پیش خیمہ ہوسکتاہے اور کچھ نہیں اور یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اپنے قانون میںاس جذبہ کا پورا(1)پورا احترام کیاہے۔اس کو اس کا واقعی مقام دیاہے اور اس کی تطہیر کا مکمل انتظام کیاہے ۔اس نے اپنے مخصوص افکارو نظریات کے تحت یہ فیصلہ کیاہے کہ ایسے خطرناک جذبہ کی تطہیر کاکام تربیت اور طاقت کے استعمال سے نہیں ہوسکتا۔فقیراس وقت تک روٹی کا مطالبہ کرتارہے گا جب تک اسے کسی بلند فکر سے قانع نہ بنایاجائے گا۔مظلوم اس وقت تک انتقام کے درپے رہے گا جب تک اسے انتقام کی طرف سے اطمینان نہ ہوجائے گا۔سرمایہ دار اس وقت تک جیب میں ہاتھ نہ ڈالے گاجب تک اسے اپنے پیسے کی حفاظت کے بارے میں اطلاع نہ ہوجائے گی۔کوئی بھوکا یامظلوم یا ثروتمند یہ کہہ دینے سے مطمئن نہیں ہوسکتاکہ تم سماج کے لئے پیداہوئے ہو۔اس

۵۴

کے دل میں اپنے بارے میں صحیح فیصلہ سننے کا انتظار اور اس کی تڑپ ضرور باقی رہ جائے گی۔

(1)اسلامی عبادات میں قربت کی نیت اسی جذبۂ حب نفس کے احترام کی دلیل ہے۔ عبادات اللہ کے لئے ہونی چاہئے نہ کہ اللہ سے قریب ہونے کے لئے۔قریب ہونا خود ایک انسانی فائدہ ہے لیکن چونکہ انسان کا نفس حب ذات سے بلند نہیں ہوسکتاتھا اس لئے اسلام نے اس فیصلہ کو روارکھا اور اسی کو عام انسانوں کی معراج عبادت قرار دے دیا۔ورنہ حب ذات سے بلند نفوس قدسیہ کا جذبۂ عبادت ہوتاہے۔وہ قربت کے لئے عبادت نہیں کرتے بلکہ معبود کو اہل سمجھ کر سرجھکاتے ہیں۔ان کی نظر اپنے فائدہ پر نہیں ہوتی بلکہ مالک کی اہلیت پرہوتی ہے۔جیساکہ امیرالمومنین علی بن ابی طالب ـکے فقرات سے ظاہر ہوتاہے۔(جوادی)

اسلام نے اپنی تربیت میں اسی نکتہ کو پیش نظررکھا ہے۔اس نے مال کی آزادی دینے کے بعد ثروتمند کو یہ سمجھایاہے کہ یہ مال تمہارا ذاتی مال نہیں ہے۔یہ کسی مالک کی دین ہے جس نے تمہیں نمائش زر کے لئے نہیں بلکہ خدمت خلق کے لئے پیداکیاہے۔ تم تنہا ہی اس کے بندے نہیں ہوبلکہ تمہار اہمسایہ اور تمہارے سامنے بھوک سے ایڑیاں رگڑنے والا بھی تمہارے ہی مالک کا ایک بندہ اور تمہارے ہی خالق کی ایک مخلوق ہے۔خلقت کے رشتے سے تم دونوں برابر اور ایک دوسرے کے مال کے حقدار ہو۔تمہیں یہ فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ آج تمہیں اتنی دولت دینے والا کل تم سے اس دولت کو سلب بھی کرسکتاہے۔تاریخ گواہ ہے کہ عامرعباسی نے مروان کو قتل کرنے کے بعد اس کے قصرمیں بیٹھ کر اس کا شام کا کھانا منگایا اور اس کی بیٹی کو سامنے بٹھاکر باپ کا سر بیٹی کی گود میں رکھ دیا تو ایک مرتبہ بیٹی نے جھلا کر کہا:اے امیر! یہ بات تیرے لئے جائے عبرت ہے جو دنیا میرے باپ کی جگہ تجھے بٹھاسکتی ہے وہ ایک دن اٹھابھی سکتی ہے۔عامر کے ہاتھ پیر میں رعشہ پڑگیا۔ یہ رعشہ در حقیقت اسلام کی اسی فطری تعلیم کا نتیجہ تھا جو اس نے ہر مسلمان کے لاشعور میں بطور امانت محفوظ کرادی ہے اور جس پر کردار کے پانی سے وقتاً فوقتاً جلاہوتی رہتی ہے۔

۵۵

اسلام نے فقیروں اور مظلوموں کو یہ تسلی دی ہے کہ تمہارے فقر وفاقہ اور تمہاری مظلومیت کا سلسلہ غیر منقطع نہیں ہے۔ایک دن وہ ضرور آئے گا جب عادل حقیقی اپنی بساط عدالت بچھا کر دنیا کے معاملات کا فیصلہ کرے گا۔اس دن ظلم کرنے والے بیکس ہوں گے اور مظلوم کے دست وبازو مضبوط نظرآئیں گے۔تونے میری اجازت کے بغیر میرے حدود سے تجاوز کیااور اپنے جوش انتقام میں میرے نظام سے آگے بڑھ گیاتو میں نہ دنیا میں تیری کامیابی کا ذمہ دار ہوں اور نہ آخرت میں تیری توانائی کا۔تو اپنا فیصلہ خود کرنا چاہتاہے اور تجھے میرے وعدوں پر اعتبار نہیں ہے۔

''حب ذات'' کے جذبہ کی تطہیر صرف عقیدہ کی طاقت سے ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ دنیا کی کوئی طاقت نہ اس جذبہ کی تطہیر کرسکتی ہے اور نہ اسے موت کے گھاٹ اتار سکتی ہے۔

سرمایہ داری اسی''حب ذات''کی بگڑی ہوئی صورت کانام ہے جہاں انسان صرف اپنی ذات سے محبت کرتاہے اور دوسروں کوبالکل نظرانداز کر دیتاہے۔عقیدہ کی دنیا سے الگ ہوکر اس کا یہ تصور کسی حد تک صحیح بھی ہے اس نے اپنے نفس سے یہی سیکھاہے۔ اس پر کوئی ایسا ذہنی جبر عائد نہیں کیا گیا جس سے وہ اپنے کو نظرانداز کرکے دوسروں کے مفاد کے بارے میں سوچنے لگتا۔ ایک ثروتمند سے یہ تو کہاجاسکتاہے کہ تیرے ہمسایہ میں ایک بھوکا مر رہاہے،تیرے دروازے پر ایک بھکاری کھڑاہے لیکن(کسی بھی قانون کی رو سے) اس کی کمائی ہوئی روٹی کو اس کے دسترخوان سے اٹھاکر فقیر کو نہیں دیاجاسکتا۔یہ طاقت صرف دین اور اس کے مستحکم عقائد کی ہے۔اس نے اپنے عقیدتمندوں کو یہی سکھایا ہے کہ مال تمہارا ہے اور تم اللہ کے بندے ہو۔تمہارے ابنائے نوع بھی تمہارے ہی اللہ کے بندے ہیں اس لئے اپنے مال کو اس وقت تک اپنانہ سمجھو جب تک تمہارے خداکی مخلوقات میں کوئی بھوکارہ جائے۔کبھی کبھی یہ بھی سوچوکہ جوروٹی تم کھالیتے ہووہ فضلہ بن جاتی ہے۔جو غذا تم استعمال

۵۶

کرلیتے ہو وہ تمہارے جسم کا جزء ضروربن جاتی ہے لیکن اسے ہمیشہ ہمیشہ باقی رکھنے کی ذمہ دار نہیں ہوتی اور اسی کے برخلاف جو کچھ راہ خدا میں دے دیتے ہووہ محفوظ ہوجاتاہے اور تمہارا خدا اس کے مقابلہ میں تمہیں بہت کچھ دے سکتاہے۔

مارکس ازم میں جبر وقہر کا عملی تصور اسی لئے پیداہواہے کہ اس کے پاس عقیدہ کی طاقت نہیں تھی۔وہ عقیدہ کو محرک سمجھنے کے بجائے ایک افیون تصور کررہاتھا۔اسے مذہبی طاقت کے مشاہدے اور دینی شعور کے تجربات کا موقع نہیں ملاتھا اس نے شروع سے اپنی فکر کا ایک نیاڈھرا بنالیاتھا اور اس کے برخلاف سوچنا ایک جرم سمجھتاتھا۔

مارکس ازم کا یہ خیال کہ سرمایہ دار کی بنیاد''ذاتی ملکیت''پر ہے، یقینا صحیح ہے لیکن سرمایہ داری کے عیوب ومفاسد کی ذمہ داریوں کو بھی''انفرادی ملکیت''کے سرتھوپ دینا یقینا غلط ہے ۔تاریخ میں ایسی مثالیں بکثرت پائی جاتی ہیں جہاں بڑے بڑے ثروتمندوں اور سرمایہ داروں نے کردار کی اعلیٰ مثالیں پیش کی ہیں اور چھوٹی چھوٹی ملکیت والے لوگوں نے بدکرداری کے بے مثل مظاہرے کئے ہیں جس کا کھلاہوا مطلب یہ ہے کہ سماج کے عیوب کی ذمہ داری ذاتی ملکیت کے سر نہیں ہے بلکہ اس کا چورانسان کے نفس کے اندرچھپاہواہے جب تک اس کی اصلاح نہ ہوجائے گی سماج کی اصلاح ناممکن ہے۔

عام طور سے یہ خیال کیاجاتاہے کہ مارکس کے معاشی نظام کو اس کے ذاتی عقائد سے الگ کرکے بھی اپنا یاجاسکتاہے لیکن یقینا یہ صرف ایک فریب اور مغالطہ ہے۔نظام زندگی اپنی پشت پر کام کرنے والے عقیدہ سے بے نیاز نہیں ہوسکتا۔مارکس ازم اور اسلام کے قانون کی جدائی کا سب سے بڑا راز یہی ہے کہ اسلام''انفرادی ملکیت''کا حامی ہے اور سرمایہ دار کے نفس کی اصلاح عقیدہ کی بنیاد پر کرتاہے اور مارکس ازم ساری خرابیوں کا سرچشمہ''انفرادی ملکیت''کو قرار دیتاہے۔اس کے پاس انفرادی ملکیت سے پیداہونے والے مفاسد کو دبانے کے لئے عقیدہ کی طاقت نہیں ہے اس لئے وہ ایسی ملکیت ہی سے

۵۷

انکار کر دیتاہے اور اس طرح ایک نیا جھگڑا پیداہوجاتاہے کہ سماجی خرابیوں کا ذمہ دار کون ہے؟عقائدی نظام سرمایہ دارکو ذمہ دار قرار دیتاہے اور اشتراکی نظام ''سرمایہ داری''یعنی اس کی نبیاد''انفرادی ملکیت''کو۔عقائدی نظام سرمایہ دار کی نفسانیت کا علاج کرتاہے اور اشتراکی نظام''انفرادی ملکیت''کی بنیادوں کا ۔وہ تعلیم عقائد کاسہاراتلاش کرتاہے اور یہ جبر قانون کا۔

اس لئے اس مقام پر سب سے پہلے یہی طے کرنا ہوگاکہ فساد کی ذمہ داری کس کے سر ہے۔سرمایہ داری کے سریاسرمایہ دار کے سر؟اگر اس کی ذمہ داری سرمایہ داری کے سرہے تو حق اشتراکیت کے ساتھ ہے اور اگر اس کا ذمہ دارسرمایہ دار ہے تو حق اسلام کے ساتھ ہے فیصلہ کے لئے دو باتوں پر غور کرنا ضروری ہوگا۔

(1) فطرت کا تقاضا کیاہے؟اور فطرت سے جنگ کس حد تک ممکن ہے؟

(2) انجام بخیر کس کے حصہ میں ہے؟اور ترویج وتبلیغ کس کی ممکن ہے؟

فطری تقاضے کے بارے میں یہ واضح کیاجاچکاہے کہ''حب ذات''کے عمیق جذبہ کے تحت انسان میں عمل کا ذاتی محرک اسی وقت پیداہوتاہے جب اسے کام کے نتیجہ میں اپنے نفس کی تسکین کی کوئی صورت نظر آتی ہے اور وہ اس کام میں اپنا بھی کوئی فائدہ تصور کرتاہے۔انسان جو کسی بھی دینی یادنیوی عمل میں اپنا فائدہ نہیں سمجھتا۔اس سے کام لیاتوجاسکتاہے لیکن وہ خود فطری محرکات کی بناپر کام کی طرف قدم نہیں بڑھا سکتا۔یہ بات نہ کسی دلیل کی محتاج ہے اور نہ کسی برہان کی۔زمانہ کے حالات اور آئے دن کے مشاہدات اس مطلب کو ثابت کرنے کے لئے کافی ووافی ہیں۔

انجام کی صورت حال یہ ہے کہ''انفرادی ملکیت''کے معترف معاشرہ میں عمل کا محرک ذاتی ہوگا اور''اجتماعی ملکیت''کے قائل سماج میں عمل کا محرک حکمراں طبقہ۔اس لئے کہ اس کے یہاں یہ بات انسانی نفسیات کے خلاف ہے اور اس جذبہ کی تطہیر کے لئے کوئی

۵۸

مافوق عقیدہ نہیں ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ ''انفرادی ملکیت''کی صورت میں انسان خود مختار ہوگا اور ''اجتماعی ملکیت''کے معاشرہ میں ہرآن کسی نہ کسی جبر کا تصور ذہن میں لئے ہوگا۔

تیسرے بات یہ ہے کہ''انفرادی ملکیت''کے معاشرہ میں نوعیت عمل، زمان عمل، مکان عمل، وقت عمل کے تعین کا اختیار کام کرنے والے کے ہاتھ میں ہوگا اور ''اجتماعی ملکیت''کے سماج میں ان سب کا تعین حکمراں طبقہ کے حوالہ ہوگا۔

چوتھا فرق یہ ہے کہ''انفرادی ملکیت''کے معاشرہ میں انسان اپنی استعمالی چیزوں کو اپنے کدیمین کانتیجہ سمجھے گا اور''اجتماعی ملکیت''کے سماج میں انسان ہر چیز کو حکومت کا صدقہ تصور کرے گا اور ان دونوں تصورات کے نفسیاتی اثرات انسان کے عمل پر اثرانداز ہوں گے۔

ان امتیازات کو دیکھنے کے بعد یہ فیصلہ کیاجاسکتاہے کہ کون سانظام حسن وخوبی، رفاہیت وسکون اور آزادیٔ فکر وعمل کے ساتھ چل سکتاہے اور کس نظام میں جبرواستبداد کی ضرورت ہوگی جس چیز کے بغیر اس نظام کی کامیابی ناممکن ہے؟

''اجتماعی ملکیت''کے سلسلے میں اس تنقید سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ میں سرمایہ داری یا اس کے مفاسد کی حمایت کرنا چاہتاہوں۔یہ طریقہ کارمیری نظرمیں انتہائی مہمل ہے۔ آج کے بعض مسلم مفکرین نے یہ طریقۂ کار ضرور اختیارکر لیا ہے کہ وہ اشتراکیت کی مخالفت میں سرمایہ داری کی تعریف کرنے لگتے ہیں اور انہیں یہ خبر نہیں ہوتی کہ یہ انداز اسلام کی کمزوری ظاہر کرنے میں زیادہ مدددے سکتاہے۔اسلام کے عروج وکمال سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔اسلام خود ایک مستقل نظام حیات رکھتاہے۔اس کا تعلق نہ سرمایہ داری سے ہے اور نہ اشتراکیت سے۔وہ سرمایہ دار نظام کی ''انفرادی ملکیت''سے ہم آہنگ ہے تو اشتراکی نظام کی بعض خوبیوں سے بھی اتفاق رکھتاہے۔لیکن اس نے اپنا نظام زندگی اس وقت پیش کیاتھا

۵۹

جب نہ صرف سرمایہ داری تھی اور نہ اشتراکیت، اسے ان دونوں کی خوبیوں کا نچوڑ کہنا اس کی کھلی ہوئی توہین ہے۔اس کے بارے میں صرف یہ کہاجاسکتاہے کہ وہ ایک مکمل اور مستقل ضابطۂ حیات ہے۔اگر کوئی نظام اس سے ہم آہنگ ہوگاتو ہم اس سے اتفاق کریں گے اور اگر اس سے مختلف ہوگاتو کسی باطل اور غلط نظام کی موافقت سے معذور رہیں گے۔

اشتراکیت مقصد کے اعتبار سے سرمایہ داری سے کہیں زیادہ بہتر ہے لیکن اس نے اس مقصد کی تحصیل کے لئے قانون فطرت کے موافق کوئی طریقہ نہیں اختیار کیاہے۔ سرمایہ داری بھی اعلان حریت کے اعتبار سے فطرت سے کہیں زیادہ قریب ہے لیکن اس نے بھی حریت کے حدود کو بالکل نظرانداز کر دیاہے۔

آزادی؟

انسان کے فطری جذبات میں ایک جذبہ آزادی کا بھی ہے۔وہ اپنے داخلی محرکات میں کسی ایک محرک کی اہمیت سے کسی وقت بھی انکار نہیں کرسکتا۔لیکن تطہیر نفس کا تقاضہ یہی ہے کہ اس کی بڑھتی ہوئی آزادی پر پابندی لگائی جائے اور اس کے حدود قیودمتعین کئے جائیں۔سرمایہ داری نے اس جذبہ کا احترام ضرور کیاہے لیکن اس کے حدود کو بالکل نظرانداز کر دیاہے۔اس کا خیال ہے کہ انسان فطری طور پر آزاد پیداہواہے لہٰذا اجتماعی طور پر بھی اسے آزادہی رہنا چاہئے۔حکومت کو اس کی آزادی کی راہ میں سدراہ ہونے کا کوئی حق نہیں ہے۔حکومت کاکام عوام کے لئے اسباب ووسائل کا مہیا کرنا ہے نہ کہ ان کے مہیا شدہ اسباب و وسائل پرپابندی لگانا۔

سرمایہ داری کی یہ بات بظاہر بہت معقول ہے لیکن اس نے اس نکتہ کو فراموش کر

۶۰