تفسیر سوره حمد

تفسیر سوره حمد 0%

تفسیر سوره حمد مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر سوره حمد

مؤلف: محسن علی نجفی
زمرہ جات:

مشاہدے: 6163
ڈاؤنلوڈ: 4349

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 15 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 6163 / ڈاؤنلوڈ: 4349
سائز سائز سائز
تفسیر سوره حمد

تفسیر سوره حمد

مؤلف:
اردو

۴-( مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ )

۴ ۔ روز جزا کا مالک ہے۔

تشریح کلمات

دین: ( د ی ن )جزا اور اطاعت کے معنی میں استعمال ہوتاہے۔ شریعت کے معنی میں بطور استعارہ استعمال ہوا ہے۔

تفسیر آیات

اللہ تعالیٰ ہی کائنات کا حقیقی سرپرست، روز جزا و سزا کا مالک اور صاحب اختیار ہے۔ وہ اپنی ملکیت میں جس طرح چاہے تصرف کر سکتا ہے۔ مجرم کوبخش دینا یا اسے سزا دینا اس کے اختیا ر میں ہے۔ وہ روز جزا کا قاضی ہی نہیں بلکہ مالک و صاحب اختیار بھی ہے۔

یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ جب اللہ تعالیٰ پوری کائنات کا مالک ہے تو پھر صرف روزجزا سے اس مالکیت کی تخصیص کیوں کی گئی ؟

اس کا جواب یہ ہے :

اولاً : دنیا میں مجازی مالک بھی ہوتے ہیں جب کہ بروزقیامت کوئی مجازی مالک نہ ہو گا:

( یَوْمَ لَا تَمْلِکُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَیْئًا وَ الْاَمْرُ یَوْمَئِذٍ لِِّلّٰهِ ) ۔(۵۳)

اس دن کسی کو کسی کے لیے کچھ (کرنے کا) اختیا ر نہیں ہو گا اور اس دن صرف اللہ کا حکم چلے گا۔

ثانیاً: دنیا میں تو اس مالک حقیقی کے منکر بھی موجود ہوتے ہیں ، لیکن روز جزا توکوئی لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ(۵۴) کا جواب دینے والانہ ہوگا۔

ثالثاً:دنیا میں اللہ کا صرف تکوینی حکم نافذ تھا،جب کہ تشریعی احکام کی نافرمانی بھی ہوتی تھی، لیکن بروز قیامت ا س کے تمام احکام نافذ ہوں گے، کوئی نافرمانی کی جرأت نہیں کر سکے گا۔

رابعاً: دنیا میدان عمل اور دار الامتحان ہے، اس لیے بندے کو کچھ اختیارات دیے گئے ہیں ، لیکن قیامت،نتیجے اورجزائے عمل کا دن ہے،لہٰذا اس دن فقط اللہ کی حاکمیت ہو گی بندوں کو کوئی اختیار نہیں دیا جائے گا ۔

روز جزا کا تصور انسانی زندگی پر گھرے اثرات مرتب کرتا ہے۔کیونکہ اس عقیدے سے دنیاوی زندگی کو قدر و قیمت ملتی ہے اور اس میں پیش آنے والی سختیوں کی توجیہ میسر آتی ہے۔ زندگی سکون و اطمینان اور صبر و استقامت سے گزرتی ہے اور انسان ناانصافیوں کو دیکھ کر مایوس نہیں ہوتا۔

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے مروی ہے:

لَوْ مَاتَ مَنْ بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ لَمَا اسْتَوْحَشْتُ بَعْدَ اٴَنْ یَکُونَ الْقُرْآنُ مَعِی وَ کَانَ ع اِذَا قَرَاٴَ ” ( مٰالِکِ یَوْمِ الدِّینِ ) “ یُکَرِّرها حَتَّی کَادَ اٴَنْ یَمُوتَ ۔(۵۵)

اگر مشرق و مغرب کے درمیان سب لوگ مر جائیں تو میں وحشت زدہ نہ ہوں گا اگر قرآن میرے ساتھ ہے ۔ جب مالک یوم الدین کی تلاوت فرماتے تو اس کی اتنی تکرار کرتے کہ لگتا تھا جیسے جان جھاں آفریں کے سپرد ہو رہی ہے ۔

اہم نکات

۱ ۔ قیامت کے دن مالکیت و حاکمیت صرف اللہ کی ہو گی۔

۲ ۔ انسانی و اخلاقی اقدار کا تعلق روز جزا سے ہے۔

۳ ۔ اللہ کے ھاں اخروی احتساب کا عقیدہ انسان کو دنیا میں خود احتسابی پر آمادہ کر تا ہے۔

۵-( إِيَّاكَ نَعْبُدُ وإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ )

۵ ۔ہم صرف تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں ۔

تفسیر آیا ت

( إِيَّاكَ نَعْبُدُ )

کسی ذات کی تعظیم و تکریم اور اس کی پرستش کے چار عوامل ہو سکتے ہیں ۔ کمال ، احسان، احتیاج اور خوف۔ اللہ تعالیٰ کی پرستش و عبادت میں یہ چاروں عوامل موجود ہیں ۔

کمال:اگر کسی کمال کے سامنے ہی سر تعظیم و تسلیم خم ہونا چاہیے تواس عالم ہستی میں فقط اللہ تعالیٰ ہی کمال مطلق ہے،جس میں کسی نقص کا شائبہ تک نہیں ۔ تمام کمالات کا منبع اور سرچشمہ اسی کی ذات ہے۔ آسمانوں اورزمین میں بسنے والے اسی کمال مطلق کی عبودیت میں اپنا کمال حاصل کرتے ہیں :

( اِنْ کُلُّ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اِلَّآ اٰتِی الرَّحْمٰنِ عَبْدًا ) (۵۶)

جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہے وہ اس رحمن کے حضور صرف بندے کی حیثیت سے پیش ہو گا ۔

احسان: اگر کسی محسن کی احسان مندی عبادت و تعظیم کا سبب بنتی ہے تویہاں بھی اللہ کی ذات ہی لائق عبادت ہے،کیونکہ وہی ارحم الراحمین ہے۔ اس نے اپنے اوپر رحمت کو لازم کر رکھا ہے:

( کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلٰی نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ) (۵۷)

تمھارے رب نے اپنے اوپر رحمت کو لازم قرار دیا ہے ۔

احتیاج: عبادت کا سبب اگر احتیاج ہے تو یھا ں بھی معبود حقیقی اللہ ہی ہے،کیونکہ وہ ہر لحاظ سے بے نیا ز ہے اور کائنات کی ہر چیز اس کی محتاج ہے۔ وہ علت العلل ہے اور باقی سب موجودات معلول ہیں اور ظاہر ہے کہ علت کے مقابلے میں معلول مجسم احتیاج ہوتا ہے:

( یٰٓاَیُّهَاالنَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ اِلَی اللّٰهِ وَ اللّٰهُ هو الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ ) ۔(۵۸)

اے لوگو! تم اللہ کے محتاج ہو اور اللہ تو بے نیاز، لائق ستا ئش ہے۔

خوف:اگر وجہ تعظیم و عبادت خوف ہے توخداوند عالم کی طرف سے محاسبے اور مؤاخذے کا خوف انسان کو اس کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ایک دن اسے اللہ کی بارگاہ میں پیش ہو کر اپنے اعمال کا حساب دینا ہو گا:

( مَنْ عَمِلَ صَالِحاً فَلِنَفْسِه وَ مَنْ اَسَآءَ فَعَلَیْهَا ثُمَّ اِلٰی رَبِّکُمْ تُرْجَعُوْنَ ) ۔(۵۹)

جونیکی کرتا ہے وہ اپنے لیے کرتا ہے اور جو برائی کا ارتکاب کرتا ہے اس کا وبال اسی پر ہے،پھر تم اپنے پروردگار کی طرف لوٹائے جاؤ گے ۔

رحمن و رحیم، رب العالمین اور روز جزاء کے مالک پر ایمان لانے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ عبادت صرف اسی کی ہو،کیونکہ سابقہ آیات میں عبادت کے تمام عوامل بیان ہو چکے ہیں ۔

( اَلْحَمْدُ لِلّٰه ) سے کمال خداوندی کی نشاندھی ہوتی ہے یعنی خداوند عالم کمال کی اس منزل پر ہے کہ تمام حمدو ثنا صرف اسی کے شایان شان ہے۔

( رَبِّ الْعَالَمِیْن ) سے عبادت کا دوسرا عامل ” احتیاج “ سمجھ میں آتا ہے۔ یعنی خدا ساری کائنات کا مالک، مربی اور پالنھار ہے باقی سب اس کی تربیت کے محتاج ہیں ۔

( الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ) سے تیسرا عامل ” احسان “ آشکارہوتا ہے۔ یعنی خدا کا احسان عام ہے اور ہر چیز کو شامل ہے۔

( مٰالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ) کے ضمن میں چوتھا عامل ” خوف “ بیان کیا گیا ہے۔ یعنی قیامت کا یقین اللہ کے عدل سے خوف کا باعث بنتاہے ورنہ ذاتِ الٰہی سے خوف کا کوئی معنی نہیں ۔ وہ تو رحیم و غفور ہے۔ بنابریں ہر اعتبار سے عبادت صر ف ا سی کی ہو سکتی ہے :

( وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوآ اِلآّ اِیَّاهُ ) ۔(۶۰)

اور آپ کے پروردگار نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو ۔

عبادت کی تعریف

عبادت کی تعریف اور مفھوم کے بارے میں کچھ لوگوں کو غلط فہمی ہے اور عبادت کی یہ تعریف کرتے ہیں ۔

کسی کے تقرب اور اس کی شفاعت کے حصول کے لیے قلبی تعلق قائم کرن(۶۱)

اس تعریف میں قلبی تعلق اور تعظیم کو عبادت قرار دیا گیا ہے اور اس غلط تعریف کی بنیاد پر یہ لوگ اکثر مسلمانوں کو مشرک قرار دیتے ہیں ، جب کہ قرآن میں غیر خدا سے قلبی تعلق اور تعظیم کرنے کی ترغیب موجود ہے :

( وَ مَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ ) ۔(۶۲)

جو شعائر اللہ کا احترام کرتا ہے تو یہ دلوں کا تقویٰ ہے۔

والدین کے بارے میں فرمایا:

( وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ ) ۔(۶۳)

اور مھر و محبت کے ساتھ ان (والدین) کے آگے انکساری کا پہلو جھکائے رکھو۔

عبادت کی صحیح تعریف قرآنی شواہد کی روشنی میں اس طرح ہے:

کسی کو خالق یا رَب تسلیم کر کے اس کی تعظیم کرنا۔

خود لفظ ” عبادت “ سے اس کی تعریف نکل آتی ہے: چنانچہ عبد مملوک کو کہتے ہیں ۔ العین میں آیا ہے: العبد المملوک ۔اور مملوک اسے کہتے ہیں جس کا کوئی مالک ہو۔ چنانچہ رَب مالک کو کہتے ہیں ۔ العین میں آیا ہے:

و من ملک شیئا فهو ربّه، لا یقال بغیر الاضافة الا للّٰه عز و جل ۔

جو کوئی کسی چیز کا مالک بنتا ہے وہ اس کا رَب کہلائے گا اور بغیر اضافہ کے مطلق رب صرف اللہ تعالیٰ کو کھا جاتا ہے ۔

لہذا عبادت رب کی ہوتی ہے، اگر کوئی رب نہیں ہے توکوئی اس کا عبدبھی نہیں ہو گا اور جب عبد نہیں ہے تو عبادت بھی نہیں ہوگی۔ اس مطلب کو اس آیت میں بیان فرمایا ہے :

( اِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْهُ هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ ) (۶۴)

اللہ میرا رب اور تمھارا بھی رب ہے، پس تم اس کی عبادت کرو، یھی سیدھا راستہ ہے۔

مزید تحقیق کے لیے ملاحظہ ہو سورہ مریم آیت ۶۵ ، سورہ حج آیت ۷۷ ، سورہ انبیاء آیت ۹۲ ۔ ان آیات میں فرمایا ہے کہ چونکہ اللّٰہ ہی تمھارا رَب ہے لہذا تم اسی کی عبادت کرو۔ ان سب آیات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عبادت رَب کی ہوتی ہے ۔

چنانچہ بت پرست اپنے بتوں کو رب مانتے تھے پھر ان کی پرستش کرتے تھے، اس لیے مشرک قرار پائے۔ اسی طرح کسی کو اپنا خالق تسلیم کر کے اس کی تعظیم کرنا بھی عبادت ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

( ذٰلِکُمُ اللّٰهُ رَبُّکُمْ ج لَآ اِلٰهَ اَلَّا هُوَ ج خَالِقُ کُلِّ شَیْءٍ فَاعْبُدُوْهُ ) (۶۵)

یہی اللہ تمھارا رب ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ ہر چیز کا خالق ہے، لہٰذا اس کی عبادت کرو۔

وَ اِیَاکَ نَسْتَعِیْن چونکہ کائنات کا مالک وہی ہے او ر ہر چیز پر اسی کی حاکمیت ہے :

( لَه مَقَالِیْدُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ) .(۶۶)

آسمانوں اور زمین کی کنجیاں اسی کی ملکیت ہیں ۔

لہٰذا جب مومن طاقت کے اصل سرچشمے سے وابستہ ہوتا ہے تو تمام دیگر طاقتوں سے بے نیاز ہوجاتا ہے اور کسی دوسری طاقت سے مدد لینے کی ضرورت ہی محسو س نہیں کرتا۔

غیر اللہ سے استمداد کا مطلب یہ ہوگا کہ سلسلہ استمداد اللہ تعالیٰ پرمنتھی نہ ہو اور اس غیر اللہ کو اذن خدا بھی حاصل نہ ہو۔ لیکن اگریہ سلسلہ اللہ تعالیٰ پر منتھی ہوتا ہو تو یہ اللہ سے براہ راست استمداد کے منافی نہیں ۔ کیونکہ مخلوقات جس طرح اپنے وجود میں خالق حقیقی سے مستغنی اور بے نیاز نہیں ، اسی طرح اپنے افعال میں بھی مستقل نہیں ہیں ۔ ان کا ہر عمل فیض الٰہی کا کرشمہ ہوتا ہے۔ بنا بریں اگر خدا نے اپنے خاص بندوں کو وسیلہ بننے کی اجازت دے رکھی ہے تو ان سے استمداد درحقیقت خدا سے استمداد ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

( وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْآ اَنْفُسَهُمْ جَاءُ وْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُ وا اللّٰهَ تَوَّاباً رَّحِیْمًا ) .(۶۷)

اور جب یہ لوگ اپنے آپ پر ظلم کر بیٹھے تھے تو اگر آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر اللہ سے معافی مانگتے اور رسول بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے تو وہ اللہ کو توبہ قبول کرنے والا، رحم کرنے والا پاتے۔

یعنی اللہ سے طلب مغفرت کے لیے رسول (ص) کے دربار میں حاضر ہو کر انھیں وسیلہ بنانا(جاؤک ) اور وسیلہ بن کر رسول کا(ص) ان کے لیے استغفار کرنا ہمارے مدعا کے ثبوت کے لیے کافی ہے ۔

نیز فرمایا :

( وَ لَوْ اَنَّهُمْ رَضُوْا مَآ اٰتٰهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُه وَ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ سَیُؤْتِیْنَا اللّٰهُ مِنْ فَضْلِه وَ رَسُوْلُه ) ۔(۶۸)

اور کیا ہی اچھا ہوتا کہ اللہ اور اس کے رسول نے جو کچھ انھیں دیاہے اگر وہ اس پر راضی ہوجاتے اور کہتے: ہمارے لیے اللہ کافی ہے، عنقریب اللہ اپنے فضل سے ہمیں بہت کچھ دے گا اور اس کا رسول بھی۔

نیز فرمایا:

( وَ مَا نَقَمُوْٓا اِلَّآ اَنْ اَغْنٰهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُه مِنْ فَضْلِه ) ۔(۶۹)

اور انھیں صرف اس بات پر غصہ ہے

کہ اللہ اور اس کے رسول نے اپنے فضل سے ان (مسلمانوں ) کو دولت سے مالا مال کر دیا ہے ۔

” بہت کچھ عنایت کرنے“ اور ” دولت سے مالا مال کرنے“ میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اللہ کے ساتھ اس کے رسول(ص) کا اس طرح ذکر کرناکہ ”اللہ اور رسول(ص) نے بہت کچھ دیا ہے“ اور ” اللہ اور رسول(ص) نے دولت سے مالا مال کردیا “ ، شرک نہیں ہے، کیونکہ یہ عطا و بخشش اللہ تعالیٰ سے ہٹ کر نہیں ہے کہ شرک کے زمرے میں چلی جائے بلکہ یہتو مِنْ فَضْلِه کے ذیل میں آتی ہے۔

لہٰذا قرآنی تصریحات کے مطابق جب یہ کہنا درست ثابت ہوگیا کہ ”اللہ اور اس کے رسول(ص) نے دولت سے مالامال کردیا “ تو یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ ” اے رسول خدا (ص)! ہمیں دولت سے مالا مال فرمادیں ۔ “

لہٰذا جس طرح اللہ تعالیٰ سے حصول فیض میں وسائل اور وسائط کار فرما ہوتے ہیں ، اسی طرح اللہ سے طلب فیض کے لیے بھی اس کے مجاز وسائل اور واسطوں کا ہوناثابت ہے ۔

یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب مخلوق سے مدد طلب کرنا شرعاًجائز ہے جیساکہ قرآن نے فرمایا ہے:( فَاَعِیْنُوْنِیْ بِقُوَّةٍ ) (۷۰) تم طاقت کے ساتھ میری مدد کرو، نیز فرمایا :( وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی ) (۷۱) نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد کرو ، تو صرف اللہ سے مدد مانگنے کا مطلب کیا ہوا؟

اس کا ایک جواب یہ دیا گیا ہے کہ مدد سے مراد توفیق ہے اور توفیق کسی فعل کے انجام دینے کے لیے تمام اسباب کی فراہم ی کو کہتے ہیں اور صرف اللہ تمام اسباب فراہم کر سکتا ہے۔ اس لیے ہر مدد کو توفیق نہیں کہتے، بلکہ ہر توفیق مدد ہے۔ دوسرا جواب یہ دیا گیا ہے کہ مدد سے مراد بدنی طاقت ہے جو صرف اللہ سے حاصل ہوتی ہے۔ تیسرا جواب یہ دیا گیا ہے کہ جو مدد غیر خدا سے لی جاتی ہے وہ درحقیقت اللہ سے ہے، چونکہ وہ اللہ کی مخلوق ہے اور اس نے جو کچھ مدد دی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے۔ چوتھا جواب یہ دیا گیا ہے کہ مدد دینے والا خود اپنے ذات، اپنے وجود، اپنے افعال میں اللہ کا محتاج ہے، لَا حَول وَ لَا قُوة اِلاَّ بِاللّٰہ کا یھی مفھوم ہے ، لہٰذا اس سے مدد لینا خود اللہ سے مدد ہے ۔

اہم نکات

۱ ۔ جس کی بندگی کی جاتی ہے، مدد بھی اسی سے طلب کی جاتی ہے ۔( نَعْبد- نَسْتَعین )

۲ ۔ استعانت الٰہی کے بغیر عبادت بھی ممکن نہیں ہے ۔

۳ ۔ عبادت اور استعانت کا حقیقی محور صرف ایک ہی کامل ذات ہے۔

۴ ۔ حر ف خطا ب ” ک “ سے یہ ظاہر ہو تا ہے کہ عبادت و استعانت کے وقت بندہ خود کو بارگا ہ خدا میں حا ضر دیکھے۔

۵ ۔ نَعْبُدُ سے اجتما عی عبا دت کا تصو ر ملتا ہے۔

۶ ۔( نَسْتَعِین ) سے پہلے( نَعْبُدُ ) کے ذکر سے یہ ظاہر ہو تا ہے کہ بندے کو استعانت سے پہلے عبودیت کی منزل پر فائزھونا چاہیے۔

۶ ۔ استعا نت دلیل احتیا ج ہے۔

۶-( اهدِنَــــا الصِّرَاطَ المُستَقِيمَ )

۶ ۔ همیں سیدھے راستے کی هدایت فرم

تشریح کلمات

ہدایت: ( ھ د ی) مھرو محبت سے رہنمائی کرنا۔ اسی لیے بلامعاوضہ اور خلوص و محبت سے دیا جانے والا تحفہ ہدیہ کہلاتا ہے ۔

صراط: ( ص ر ط )اس کا لغوی معنی ” نگلنا “ ہے۔ صحیح راہ پر چلنے والا منزل مقصود تک پہنچنے کے بعد اس کاحصہ بن جاتا ہے۔ یہ راستہ قوت جاذبہ و ھاضمہ کی طرح سالکین کو اپنی طرف جذب کر کے انھیں اپنا جزو بنا لیتا ہے۔ اسی لیے صحیح راستے کو صراط کھاگیا ہے۔

تفسیر آیات

اللّٰہ تعالیٰ کی حمد و ثنا، اس کی ربوبیت اور روز جزاء کے اعتراف اور عبادت و استعانت کا صحیح تصور قائم کرنے کے بعد انسان کو جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے، وہ ہدایت و رہنمائی ہے۔ کیونکہ انسان عبث نہیں ،بلکہ ایک اعلیٰ و ارفع ہدف کے لیے خلق ہوا ہے۔ اب خا لق پر لازم ہے کہ اس اعلیٰ ہد ف کی طرف اس کی رہنمائی بھی کرے ۔بنا بر ایں خالق کائنات نے خلقت سے پہلے ہدایت کا انتظام فرمایا:

( لَوْ لَاکَ لَمَاْ خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ ) (۷۲)

اے محمد(ص) ! اے پیکر ہدایت!اگر میں نے انسانوں کی رہنمائی و ہدایت کے لیے تجھے نہ چنا ہوتا تو میں افلاک کو پیدا ہی نہ کرتا۔

صراط سے بھی حرکت اور روانی کا تصور قائم ہو جاتا ہے۔ یعنی مومن قدم بہ قدم منزل کی طرف بڑھ رہا ہے:

( یٰٓاَیُّهَا الْاِنْسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ کَدْحًا فَمُلٰقِیْهِ ) .(۷۳)

اے انسان! تو مشقت اٹھا کر یقینا اپنے رب کی طرف جانے والاہے پھر اس سے ملنے وا لا ہے۔

مستقیم سے اس راہ میں پیش آنے والی مشکلات کا اندازہ ہوتاہے کہ راستہ کٹھن اور دشوار گزار ہے،کیونکہ” صراط مستقیم“ کے مقابلے میں ” صراط منحرف“ ہے جس سے بچنے کے لیے ہدایت،راہنمائی اور جہد مسلسل کی ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ اگلی آیت سے یہ بات واضح ہو گی کہمغضوب علیہم اور ضالین کے راستوں سے بچ کر صراط مستقیم کی تلاش اور پھر اس کی حفاظت اور اس پر پابند رہنا کوئی آسان کام نہیں ۔

اَوَّلُ مٰا خَلَق اللّٰهُ نُوری ۔(۷۴) ا س کائنات میں اللہ نے سب سے پہلے نور محمدی (ص) کو خلق فرمایا تاکہ راہ ارتقا کے متلاشی اس نور کی روشنی میں اپنا راستہ تلاش کر سکیں ۔

اعتراض: ہدایت کی طلب اور خواہش سے تو گمان ہوتا ہے کہ بندہ ابھی ہدایت یافتہ نہیں ہوا۔

جواب: اللہ تعالیٰ کی ذات سرچشمہ فیض ہے۔ اس کی عنایات غیر منقطع ہوتی ہیں :عَطَآءً غَیْرَ مَجْذُوْذٍ (۷۵)

وھاں منقطع نہ ہونے والی بخشش ہو گی

اور اللہ کی جانب سے فیض کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا ہے جو کبھی منقطع نہیں ہوتا: لَا اِنْقِطَاعَ فِی الفَیْضِ۔ دوسری طرف سے بندہ سراپا محتاج ہے۔ وہ ایک لمحے کے لیے بھی سرچشمہ فیض سے بے نیاز نہیں رہ سکتا۔ ہدایت، رہنمائی اور توفیق اس کے فیوضات ہیں ، جو ہمیشہ جاری و ساری رہتے ہیں اور بندہ ہر آن جن کا محتاج ہے۔ ہدایت ایسی چیز نہیں جو خدا کی طرف سے اگر ایک بار مل جائے تو پھر بندہ بے نیاز ہو جاتا ہے، بلکہ وہ ہر آن، ہر لمحہ ہدایت الٰہی کا محتاج رہتا ہے۔

بندے کا ہر آن ہر لمحہ اللہ کی رحمت و ہدایت کا محتاج ہونا اس دعائیہ جملے سے واضح ہو جاتا ہے جس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ اہل بیت علیہم السلام اپنی دعاؤں میں نھایت اہتمام کے ساتھ کیا کرتے تھے ۔رَبِّ لَا تَکِلْنِیْ الیٰ نَفْسِیْ طَرْفَةَ عَیْنٍ اَبَدًا ۔(۷۶) میرے مالک! مجھے کبھی بھی چشم زدن کے لیے اپنے حال پر نہ چھوڑ۔بھلاجس سے اللہ نے ہاتھ اٹھایا ہو اسے کون ہدایت دے سکتا ہے:( فَمَنْ یَّهْدِیْهِ مِنْ بَعْدِ اللّٰهِ اَفَلَا تَذَکَّرُوْنَ ) ۔(۷۷) یعنی پس اللہ کے بعد اب اسے کون ہدایت دے گا؟ کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے؟

روایت ہے کہ حضرت علی علیہ السلام اسی آیت کی تفسیر میں ارشاد فرماتے ہیں :

اَدِمْ لَنَا تَوفِیقَکَ الَّذِی بِهِ اَطَعْنَاکَ فِی مَاضِیِّ اَیَامِنَا حَتَّی نُطِیْعَکَ کَذَلِکَ فِی مُسْتَقْبِلِ اَعْمَارِنَا (۷۸)

خداوندا ! اپنی عطا کردہ توفیق کو برقرار رکھ، جس کی بدولت ہم نے ماضی میں تیری اطاعت کی ہے، تاکہ ہم آئندہ بھی تیری اطاعت کرتے رہی ں ۔

دوسرا جواب یہ دیا گیا ہے کہ ہدایت کے درجات ہوتے ہیں اور ہر درجے پر فائز مسلمان بالاتر درجہ ہدایت کے لیے دعا کر سکتا ہے ، جیساکہ ارشاد ہے:

( وَ الَّذِیْنَ اهتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًی وَّ اٰتٰهُمْ تَقْوٰهُمْ ) (۷۹)

جن لوگوں نے ہدایت حاصل کی اللہ نے ان کی ہدایت میں اضافہ فرمایا اور انھیں ان کا تقویٰ عطا کیا۔

اہم نکات

۱ ۔ بندے کواللہ تعالیٰ کی مدد کی سب سے زیادہ ضرورت، ہدایت کے مسئلے میں ہوتی ہے۔

۲ ۔ مومن کا تصور حیات ، راہ مستقیم کی رہنمائی کے لیے دعا کرنے سے ہی متعین ہوتا ہے۔

۳ ۔ مومن انسان اپنی زندگی کی ایک منزل مقصود رکھتا ہے جس تک پہنچنے کے لیے ہدایت اور رہنمائی ضروری ہے۔

۴ ۔ انسان مومن، متحرک اور رواں دواں ہوتا ہے، اس لیے اسے ہر آن رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے،کیو نکہ اگر انسان جمود و سکوت کی حالت میں ہو تو اس کے لیے کسی رہنمائی کی ضرورت پیش ہی نہیں آتی۔

۷-( صِرَاطَ الَّذِينَ أَنعَمتَ عَلَيهِمْ غَيرِ المَغضُوبِ عَلَيهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ ) .

۷ ۔ان لوگوں کے راستے کی جن پر تو نے انعام فرمایا،جن پر نہ تیرا غضب ہوا اور نہ وہ گمراہ ہوئے۔

تشریح کلمات

مغضوب: (غ ض ب )خون قلب کا جوش مارنا۔ ارادہ انتقام۔ غضب الٰہی سے مراد صرف انتقام ہے۔

ضالین: (ض ل ل) ضلال، ہدایت کی ضد ہے۔ یعنی سیدھے راستے سے ہٹنا۔ ضال اسم فاعل ہے جس کی جمع ضالین ہے۔

تفسیر آیات

اس آیہ شریفہ میں اسوہ کا ذکر ہے، جسے نمونہ عمل بنانا ہے اور دو انحرافی راستوں کا ذکر بھی ہے، جن سے برائت اختیار کرنا ہے۔

گویا تولیٰ اور تبریٰ کے بغیر کوئی نظریہ قائم نہیں ہو سکتا اور نہ ہی جاذبہ و دافعہ کے بغیر کوئی نظام برقرار رہ سکتا ہے۔ لہٰذا ہدایت و نجات کے لیےمنعم علیھم” جن پر خدا کی نعمتیں نازل ہوئیں “سے محبت اور مغضوب علیہم اور ضالین سے نفرت ضروری ہے۔ جن سے محبت کرنا اور اسوہ بنانا مقصودھے، وہ انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں اور یھی معیار اطاعت ہیں ۔

چنانچہ ارشاد الٰہی ہے :

( وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰالِحِیْنَ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا ) (۸۰)

اور جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے وہ ان انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ ہو گا جن پر اللہ نے انعام کیا ہے اوریہ لوگ کیا ہی اچھے رفیق ہیں ۔

مغضوب علیھم سے نفرت اور برائت اختیار کرنے کے بارے میں ارشاد ہواہے :

( یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ ) (۸۱)

اے ایمان والو! اس قوم سے دوستی نہ رکھو جن پر اللہ غضبناک ہوا ہے۔

اور ضالین کے بارے میں دوسری جگہ ارشاد فرمایا:

( وَ مَنْ یَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَةِ رَبِّهٓ اِلَّا الضَّآلُّوْنَ ) (۸۲)

اپنے رب کی رحمت سے تو صرف گمراہ لوگ ہی مایوس ہوتے ہیں ۔

واضح رہے کہ غَیْر کے مجرور ہونے کی ایک صورت تو یہ ہے کہ ھم کا بدل ہے جو عَلَیْہِمْ میں ہے۔ یعنی غَیْرِ الْمَغْضُوب وہی لوگ ہیں جو اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ ہیں ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ غَیْر، اَلَّذِیْن کا بدل ہے ۔ تیسری صورت یہ ہے کہ غَیْر ، اَلَّذِیْن کی صفت ہے ۔(۸۳) تینوں صورتوں میں جو ترجمہ ہم نے اختیار کیا ہے وہی صحیح ہے ۔

اہم نکات

۱ ۔ ہدایت اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہے۔( صِرَا طَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ ) ۔

۲ ۔ اللہ کی نعمت سے محر وم لوگ مغضوب یا ضالین (مورد غضب خداوندی یا گمراہ) ہوتے ہیں ۔

۳ ۔ تولی و تبرّیٰ ایما ن کا اہم حصہ ہیں ۔

۴ ۔ تولاّ و تبرّیٰ سے مراد نیکوں کی روش اپنانااور برے لوگوں کی پیروی سے اجتناب برتناہے۔

--

(اقتباس از: الکوثر فی تفسیر القرآن (جلد اول) (از ۲۰۹ تا ص ۲۳۲) تالیف: محسن علی نجفی)

حواله جات

( ۱ ) حجر:۸۷

( ۲ ) البیان للامام الخوئی اردو ترجمہ ص ۴۱۸۔ امالی للصدوق ص ۱۷۵ ۔ عیون اخبار الرضا ج ۱ ص ۳۰۲ ۔

( ۳ ) الاتقان فی علوم القرآن للسیوطی ۱:۱۳۴

( ۴ ) حوا لہ سابق

( ۵ ) حوالہ سابق ۱: ۱۴۱

( ۶ ) ۱۱ ہود : ۴۱

( ۷ ) ۲۷ نمل : ۳۰

( ۸ ) علق: ۱

( ۹ ) حج : ۳۴

( ۱۰ ) اعراف : ۱۸۰

( ۱۱ ) دھر: ۲۵

( ۱۲ ) مصنف عبد الرزاق ۲: ۹۲۔کتاب الام للشافعی میں مذکورہ عبارت تھوڑے فرق کے ساتھ موجود ہے۔

( ۱۳ ) الدر المنثور۱ : ۲۷ ۔ تذکرة الحفاظ ۹۰ ۔ تقریب التہذیب ۱ : ۳۷۹

( ۱۴ ) صحیح مسلم کتا ب الصلوٰة ۱: ۳۰۰ ۔ سنن ابی داود کتاب الصلوٰة ۱ : ۲۰۸ حدیث ۷۸۴ ۔ سنن بیہقی ۱ : ۴۳

( ۱۵ ) الدر المنثور ۱: ۲۶

( ۱۶ ) مستدرک الحاکم ۱: ۲۳۱

( ۱۷ ) سنن الترمذی ۲:۴۴

( ۱۸ ) سنن بیہقی ۲ : ۵۰

( ۱۹ ) مستدرک الحاکم ۲ :۲۳۲

( ۲۰ ) الدر المنثور ۱: ۸

( ۲۱ ) سنن بیہقی ۲ :۴۷ (۷) حوالہ سابق

( ۲۲ ) صحیح بخاری باب فضائل القرآن

( ۲۳ ) سنن الدار قطنی ۱ : ۳۰۷۔ اسد الغابہ ۲ :۲۲ تقریب التھذیب ۲ :۳۰۳

( ۲۴ ) الدر المنثور ۱ : ۲۸ ۔ سنن الدار قطنی ۱ : ۳۱۱

( ۲۵ ) حوالہ سابق

( ۲۶ ) حوالہ سابق

( ۲۷ ) حوالہ سابق ۱ : ۲۸

( ۲۸ ) حوالہ سابق ۔ مستدرک الحاکم ۱:۲۳۳

( ۲۹ ) الدر المنثور ۱: ۲۸

( ۳۰ ) مستدرک الحاکم ۱ : ۲۳۴

( ۳۱ ) مریم : ۶۵

( ۳۲ ) اعلیٰ : ۱

( ۳۳ ) البیان اردو ترجمہ ص ۴۳۴

( ۳۴ ) اسراء: ۸۲

( ۳۵ ) انبیاء : ۱۰۷

( ۳۶ ) انعام: ۵۴

( ۳۷ ) البیان :

( ۳۸ ) اعراف:۱۵۶

( ۳۹ ) انعام : ۵۴

( ۴۰ ) زخرف : ۸۱

( ۴۱ ) التہذیب باب کیفیة الصلوة ص ۲۸۹

( ۴۲ ) بحار الانوار ۷۵ :۳۷۱ باب ۲۹ خ ۶۱۔ کشف الغمہ ۲ : ۴۳۰ ۔ التھذیب باب ۱۵ ص ۲۸۹ سَوَادِ کی بجائے نَاظِرِ ہے۔

( ۴۳ ) وسائل الشیعة ۷ : ۱۷۰۔لم یبداٴ کی بجائے لم یذکر ہے ۔

( ۴۴ ) آل عمران : ۷۹

(۴۵) مفردات راغب مادہ ” رب “۔قال النبی (ص) علیَ رَبَّانِیَّ هٰذِهِ الٴُامَّة ۔ المناقب ج ۲ ص ۴۵

( ۴۶ ) ۲۰ طہ : ۵۰

( ۴۷ ) کشف الغمة ج ۲ ص ۱۱۸

( ۴۸ ) الکافی ۲: ۹۵ باب الشکر۔ بحار الانوار ۶۸ : ۴۰ باب الشکر

( ۴۹ ) انعام: ۱۶۴

( ۵۰ ) بقرہ ۲ : ۲۰۱

( ۵۱ ) آل عمران ۳ : ۸

( ۵۲ ) بقرہ ۲ : ۱۲۹

تحقیق مزید مجموعہ ورام ۲ : ۱۰۷۔ الکافی ۶ : ۲۲۳۔ الاستبصار ۱: ۳۱۱

( ۵۳ ) انفطار : ۱۹

( ۵۴ ) المؤمن :۱۶

( ۵۵ ) اصول الکافی ۲ : ۶۰۲۔ کتاب فضل القرآن

( ۵۶ ) مریم :۹۳

( ۵۷ ) انعام: ۵۴

( ۵۸ ) فاطر : ۱۵

( ۵۹ ) جاثیہ :۱۵

( ۶۰ ) اسراء : ۲۳

( ۶۱ ) محمد بن عبد الوھاب ۔ کشف الشبھات

( ۶۲ ) حج : ۳۲

( ۶۳ ) بنی اسرائیل ۲۴

( ۶۴ ) آل عمران:۵۱

( ۶۵ ) انعام : ۱۰۳

( ۶۶ ) زمر : ۶۳

( ۶۷ ) نساء : ۶۴

( ۶۸ ) توبہ : ۵۹

( ۶۹ ) توبہ :۷۴

( ۷۰ ) کہف : ۹۵

( ۷۱ ) مائدہ : ۲

( ۷۲ ) تاویل الآیات الظاہرہ ص ۴۳۰

( ۷۳ ) انشقاق : ۶

( ۷۴ ) بحار الانوار ۱ : ۹۷ و ۱۵ : ۲۴۔ عوالی اللآلی ۴ : ۹۹

( ۷۵ ) ہود ۱۱ : ۱۰۸

( ۷۶ ) اصول الکافی ج ۲ ص ۵۸۱

( ۷۷ ) جاثیہ : ۲۳

(۷۸) بحارالانوار ۲۴ :۹۔اٴیْ اٴدِمْ لنا توفیقک الذی به اطعناک تفسیر امام حسن عسکریعليه‌السلام ص ۴۴

( ۷۹ ) محمد : ۱۷

( ۸۰ ) نساء : ۶۹

( ۸۱ ) ممتحنہ:۱۳

( ۸۲ ) حجر : ۵۶

( ۸۳ ) مجمع البیان، ذیل آیت.

فہرست

سوره حمد ۴

مقام نزول ۴

تعداد آیات ۴

فضیلت ۵

آیت ۵

سورہ ۶

( بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ) ۔ ۷

تاریخی حیثیت ۷

قرآنی حیثیت ۷

بسم اللہ کا بالجھر (آواز سے ) پڑھنا ۹

تشریح کلمات ۱۱

تفسیر آیات ۱۱

( بِسْمِ اللّٰهِ ) ۱۱

( الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ) ۱۲

احادیث ۱۳

اہم نکات ۱۴

تحقیق مزید ۱۴

۲ ( الْحَمْدُ للّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ) ۱۶

تشریح کلمات ۱۶

تفسیر آیات ۱۶

( الْحَمْدُ للّهِ ) ۱۶