جاذبہ و دافعہ علی علیہ السلام

جاذبہ و دافعہ علی علیہ السلام0%

جاذبہ و دافعہ علی علیہ السلام مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 159

جاذبہ و دافعہ علی علیہ السلام

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: استاد شہید مرتضیٰ مطہری
زمرہ جات: صفحے: 159
مشاہدے: 36863
ڈاؤنلوڈ: 4417

تبصرے:

جاذبہ و دافعہ علی علیہ السلام
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 159 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 36863 / ڈاؤنلوڈ: 4417
سائز سائز سائز
جاذبہ و دافعہ علی علیہ السلام

جاذبہ و دافعہ علی علیہ السلام

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

تھے عدالت و مساوات کے بارے میں ان کی بیشتر گفتگو انہی لوگوں کے بارے میں ہے۔

لیکن قاسطین کی ذہنیت و سیاست، دورنگی اور منافقت تھی۔ وہ زمام حکومت اپنے ہاتھ میں لے علی علیہ سلام کی حکومت اوران کے اختیارات کو درہم برہم کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ ان میں سے بعض نے تجویز پیش کی ان کے قریب آجائیں اور کسی حد تک ان کے مفادات کی ضمانت دیں لیکن انہوں (علی علیہ سلام) اس لیے آئے تھے کہ ظلم کا مقابلہ کیا جائے نہ اس لیے کہ ظلم کی تائید کریں اور دوسری جانب معاویہ اور اسی قماش کے لوگ سرے سے علی علیہ سلام کی حکومت کے ہی مخالف تھے وہ چاہتے تھے کہ خلافت اسلامی کی مسند پر خود قبضہ کریں اور ان کے ساتھ علی علیہ سلام کی جنگ درحقیت نفاق اور دورنگی سے جنگ تھی۔

تیسرا گروہ جو مارقین کا ہے ان کی ذہنیت ناروا عصبیت، خشک تقدس اور خطرناک جہالت تھی۔ علی علیہ سلام ان تمام کی نسبت ایک طاقتور دافعہ اور غیر مصالحانہ رویّہ رکھتے تھے۔

علی علیہ سلام کی ہمہ گیری اور ان انسان کامل ہونے کا ایک مظہر یہ ہے کہ اپنے اختیار و عمل کی بناء پر ان کو گونا گوں فرقوں اور مختلف انحرافات کا سامنا کرنا پڑا اور انہوں نے ان سب سے جنگ کی۔ ہم کبھی ان کو زر پرستوں اور شتر سوار دنیا پرستوں کے ساتھ جنگ کرتے ہوئے دیکھتے ہیں کبھی رو و صد روسیاست پیشہ لوگوں کے ساتھ اورکبھی جاہل اور منحرف مقدس نما لوگوں کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔

۱۰۱

ہم اپنی بحث کو آخری گروہ یعنی خوارج کی طرف منعطف کریں گے۔ یہ اگرچہ اب ختم ہوچکے ہیں لیکن یہ ایک سبق آموز اور عبرت انگیز تاریخ رکھتے ہیں ان کے خیالات تمام مسلمانوں میں پھیل چکے ہیں۔ جس کے نتیجے میں چودہ سو سال کی طویل تاریخ میں اگرچہ وہ لوگ اور حتیّٰ کہ ان کے نام بھی ختم ہوچکے ہیں لیکن ان کی روح ''مقدس نما،، لوگوں کی شکل میں ہمیشہ باقی ہے اور اسلام اور مسلمانوں کی ترقی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ سمجھی جاتی ہے۔

خوارج کا ظہور

خوارج یعنی شورشی، یہ لفظ ''خروج،،(۱) سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں سرکشی اور بغاوت۔ ان کاظہور ''حکمیت،، کے معاملے سے ہوا ہے۔ جنگ صفین میں آخری روز جبکہ

____________________

۱) کلمہئ ''خروج،، اگر متعدّی بہ ''علیٰ،، ہو تو اس کے دو معنی نکلتے ہیں جو ایک دوسرے کے قریب ہیں۔ ایک جنگ اور لڑائی سے نکل آنا اور دوسرے سرکشی، نافرمانی اور شورش۔خرج فلان علیٰ فلان: برز لقتاله، و خرجت الرعیة علی الملک : تمردت (المنجد) لفظ ''خوارج،، جس کے لےے فارسی میں ''شورشیاں،، کا لفظ بولا جاتا ہے، وہ ''خروج،، سے دوسرے معنی میں لیا گیا ہے۔ اس گروہ کو خوارج اس لیے کہا گیا ہے کہ انہوں نے علی علیہ سلام کے حکم سے سرتابی کی اور ان کے خلاف شورش برپا کی اور چونکہ اپنی سرکشی کی بنیاد ایک عقیدہ اور مسلک پر رکھی لہذا اسی طرح نامزد ہوگئے اور یہ نام ان کے لیے مختص ہوگیا۔ اسی لیے وہ تمام لوگ جنہوں نے قیام کیا اور حاکم وقت سے بغاوت کی خارجی نہیں کہلائے۔ اگر یہ کوئی مذہب عقیدہ نہ رکھتے تو بعد کے بغاوت کرنے والوں کی طرح ہوتے لیکن یہ کچھ عقائد رکھتے تھے جن کو بعد میں مستقل حیثیت مل گئی۔ اگرچہ یہ کسی وقت بھی کوئی حکومت قائم کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے لیکن اپنے لیے ایک فقہ اور ادب تخلیق کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ (صخی الاسلام ج ۳، ص ۲۷۰،۲۴۷ طبع ششم کی طرف رجوع کیاجائے)

۱۰۲

یہ ایسے لوگ بھی تھے جن کو خروج کرنے کا موقعہ کبھی نہ ملا لیکن وہ خوارج کے عقیدہ پرایمان رکھتے تھے جیسا کہ عمرو بن عبید اور بعض اور معتزلیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے۔ معتزلہ کے کچھ لوگ امر بالمعروف نہی از منکر اور یا گناہ کبیرہ کا اتکاب کرنے والے کے لیے عذاب مخلّد (ہمیشہ کا عذاب) کے مسئلہ میں خوارج کے ہم فکر تھے اور ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ''و کا یری برأی الخوارج ،، یعنی ''خوارج کی طرح سوچتے ہیں۔،، حتی کہ چند عورتیں بھی تھیں۔ کامل مبّرد ج ۲، ص ۵۴ میں ایک ایسی عورت کی داستان نقل کی گئی ہے جس کا عقیدہ خارجیوں کا سا تھا۔ اس اعتبار سے اس لفظ کے لغوی اور اصطلاحی مفہوم میں ''عام خاص من وجہ،، کی نبست ہے۔

جنگ علی علیہ سلام کی فتح کے ساتھ اپنے انجام کو پہنچ رہی تھی، معاویہ نے عمر وابن عاص کے مشورے سے ایک ماہرانہ چا چلی۔ اس نے دیکھا کہ اس کی تمام کوششیں اور زحمتیں بے کار گئیں اور یہ کہ شکست اور اس کے درمیان ایک قدم سے زیادہ فاصلہ نہیں رہا اس نے سوچا کہ فریب کے علاوہ نجات کا اور کوئی راستہ نہیں ہے اس نے حکم دیا کہ لوگ نیزوں پر قرآن کو بلند کریں اور کہیں کہ لوگو! ہم قبلہئ و قرآن کو ماننے واے ہیں آؤ ہم اس کو اپنے درمیان حکم قرار دیتے ہیں۔ یہ کوئی نئی باتنہ تھی جو انہوں نے نکالی ہو، یہی بات اس سے پہلے علی علیہ سلام نے کہی تھی اور جس کو انہوں نے تسلیم نہیں کیا تھا اور اب بھی وہ اس کو (دل سے) تسلیم نہیں کر رہے تھے، بلکہ ایک بہانہ تھی کہ نجات کا راستہ اور یقینی شکست سے چھٹکارا پائیں۔ علی علیہ سلام نے پکارا، مارو ان کو، یہ قرآن کے صفحہ اور کاغذ کو بہانہ بنا کر قرآن کے لفظ اور کتابت کی پنا میں اپنا بچاؤ کرنا چاہتے ہیں اور بعد میں قرآن کے خلاف اپنی روش پر باقی رہےں گے۔ قرآن کا کاغذ اور اس کی جلد کی حقیقت قرآن کے مقابلے میں کوئی قیمت و عزت نہیں رکھتی۔ قرآن حقیقت اور اس کا صحیح جلوہ ''میں،، ہوں۔ انہوں نے کاغذ اور خط کو ہاتھوں میں اٹھایا ہے تاکہ حقیقت اور معنی کو نابود کریں۔

۱۰۳

بعض جاہل اوربے معرفت مقدس نما لوتوں نے جن کی ایک بڑی تعداد تھی، ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر کہا کہ علی علیہ سلام کیا کہتے ہیں؟ انہوں نے شور مچایا کہ ہم قرآن کے ساتھ جنگ کریں؟ ہماری جنگ تو قرآن کو زندہ رکھنے کے لیے ہے جب وہ بھی قرآن کو تسلیم کررہے ہیں تو پھر جنگ کس لیے؟ علی علیہ سلام نے کہا میں اب بھی کہتا ہوں کہ تم قرآن کی خاطر جنگ کرو۔ ان لوگوں کو قرآن سے کوئی سروکار نہیں ہے، انہوں نے قرآن کے الفاظ اور اس کی تحریر کو اپنی جان بچانے کا وسیلہ قرار دے رکھا ہے۔

اسلامی فقہ میں ''جہاد،، کے بار میں ''کفّار کا مسلمانوں کو ڈھال بنانا،، کے عنوان سے ایک مسئلہ ہے۔ وہ یہ ہے کہ اگر دشمنان اسلام مسلمانوں کے ساتھ حالت جنگ میں چند مسلمان قیدیوں کو اگلے محاذ پر اپنے لیے ڈھال قرار دیں اور خود محاذ کے پیچھے کارروائی اور پیش قدمی میں مشغول ہوں اور صورت حال ایسی ہو کہ اسلامی فوج کے لیے اپنا دفاع کرنے یا ان پرحملہ کرکے ان کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ ہو کہ ان مسلمان بھائیوں کو جو ڈھال بنا دیئے گئے ہیں حکم ضررت کے تحت ختم کردیا جائے، یعنی حملہ آور دشمن پر قابو پانا مسلمانوں کوقتل کئے بغیر ممکن نہ ہو تو یہاں اسلام کے بلند مقاصد اور باقی مسلمانوں کی جانوں کی حفاظت کے لیے مسلمان کا قتل، اسلامی قانون کے تحت جائز قرار دیا گیا ہے۔ وہ بھی اسلام کے سپیاہی ہیں اور راہ خدا میں شہید ہوئے ہیں۔ منتہا یہ ہے کہ ان کے پسماندگان کو مسلمانوں کے سرمایہ (بیت المال) سے ان کا خون بہا ادا کردیا جائے(۱) اور یہ صرف فقہ اسلامی کی خصوصیت نہیں ہے بلکہ دنیا بھر کے فوجی اور جنگی قوانین

____________________

۱) لمعہ ج ۱، کتاب الجہاد فصل اول۔ و شرائع الاسلام کتاب الجہاد

۱۰۴

میں ایک مسلم قانون ہے کہ اگر دشمن داخلی قوتوں سے فائدہ اٹھانا چاہے، تو ان قوتوں کو ختم کرتے ہیں تاکہ دشمن پر قابو پاسکیں اور اس کو پسپا کردیں۔

ایسی صورت میں جبکہ ایک زندہ مسلمان کے بارے میں اسلام کتا ہے کہ اس کو قتل کردو تاکہ اسلام کو فتح ملے تو کاغذ اور جلد کے بارے میں تو بحث کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ کاغذ اور تحریر کا احترام معنی اور مضمون کی وجہ سے ہوتا ہے، آج جنگ قرآن کے مضمون کی خاطر ہے انہوں نے کاغذ کو وسیلہ قرار دے دیا ہے تاکہ قرآن کے معنی اور مضمون کو مٹا دیں۔

لیکن نادانی اور جہالت نے سیاہ پردے کی طرح ان کی عقل کی آنکھوں پر قبضہ کر لیا اور ان کوحقیقت سے دور رکھنا۔ کہنے لگے کہ ہم نہ صرف یہ کہ قرآن کے ساتھ جنگ نہیں کریں گے بلکہ چونکہ قرآن کے ساتھ جنگ خود ایک منکر (برائی) ہے اس لیے اس سے نہی (روکنے) کی بھی کوشش کریں گے اور جو لوگ قرآن کے ساتھ جنگ کریں ان کے استھ جنگ کریں گے۔ آخری فتح میں لمحے سے زیادہ کی دیر نہ تھی کہ مالک اشتر جو ایک منجھا ہوا فدا کار اور اپنا سب کچھ قربان کردینے والا افسر تھا اسی طرح آگے بڑھتا جارہا تھا کہ تاکہ معاویہ کے خیمہ کو سرنگوں کیا جائے جہاں سے اس کی فوج کی کمان کی جارہی تھی اور اسلام کے راستے کو کانٹے سے پاک کرے اسی وقت اس گروہ نے علی علیہ سلام پر دباؤ ڈالا کہ پیچھے سے حملہ کردیں گے۔ علی علیہ سلام جتنا اصرار کرتے اتنا ہی ان کے انکار میں اضافہ ہوتا اور وہ پہلے سے زیادہ ضد کرتے۔ علی علیہ سلام نے مالک اشتر کو پیغام بھیجا کہ جنگ بند کردے اور خود میدان سے واپس آجائے۔

اس نے علی علیہ سلام کے پیغام کو جواب دیا کہ آپ مجھے چند لمحوں کی اجازت دیں تو جنت ختم ہے اور دشمن بھی نیست و نابود ہو نے والا ہے۔

۱۰۵

انہوں (خارجیوں) نے تلواریں نکالیں اور کہا کہ یا تو ہم تمہارے ٹکڑے ٹکڑے کردیں گے یا اس سے کہہ دو کہ واپس آجائے۔

آپ نے دوبارہ اس کو پیغام بھیجا کہ اگر تم علی علیہ سلام کو زندہ دیکھنا چاہتے ہو تو جنگ روک دو اور واپس آجاؤ ،وہ واپس آیا اور دشمن خوش ہوگیا کہ اس کا فریب خوب کارگر ہوا۔

جنگ روک دی گئی تاکہ قرآن کو حاکم قرار دیں، ثالثی کو نسل تشکیل دیں اور دونوں طرف کے حکم قرآن و سنت میں طرفین کا جن باتوں پراتفاق ہے ان کو رو سے فیصلہ کریں اور اختلافات کو ختم کریں یا ایک اور اختلاف کا اضافہ کریں اور حالات کو بد سے بد تر بنادیں۔

علی علیہ سلام نے کہا کہ وہ اپنے حکم کی تعیین کردیں تاکہ ہم بھی اپنا حکم معین کریں، انہوں نے تجویز پیش کی کہ عبد اللہ ابن عباس جیسے سیاست دان، یا مرد فدا کار و روشن بین با ایمان مالک اشتر یا اسی قبیل کے کسی شخص کو مقرر کیا جائے لیکن ان احمقوں کو اپنے جیسے کسی کی تلاش تھی، انہوں نے ابو موسیٰ جیسے کو جو ایک ناسجھ آدمی تھا اور جس کو علی علیہ السّلام سے کوئی خاص لگاء نہ تھا، منتخب کیا۔ ہر چند کہ علی علیہ سلام اور ان کے دوستوں نے ان لوگوں کو یہ واضح کرنا چاہا کہ یہ کام ابو موسیٰ کا نہیں ہے اور وہ اس مقام کا اہل نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ ہم کسی اور پر اتفاق نہیں کرتے۔ علی علیہ سلام نے کہا کہ اگر یہ بات ہے تو جو تم چاہو کرو۔

آخر کار انہوں نے اس کو علی علیہ سلام اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے حکم کی حیثیت سے ثالثی کونسل میں بھیجا۔ مہینوں کے مشورے کے بعد عمر و عاص نے ابو موسیٰ سے کہا کہ مسلمانوں کے مفاد میں بہتر یہی ہے کہ نہ علی علیہ سلام ہو اور نہ معاویہ اور ہم کسی تیسرے شخص کو منتخب کریں اور وہ تمہارے داماد عبد اللہ ابن عمر کے علاوہ کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ ابو موسیٰ نے کہا کہ تو نے سچ کہا ہے۔ اب کیا کرنا چاہیے؟ کہا کہ تو علی علیہ سلام کو خلافت سے معزول کرے گا اور میں معاویہ کو، بعد میں مسلمان جاھیں گے اور ایک مناسب آدمی کو جو لازما عبد اللہ ابن عمر ہی ہے، منتخب کریں گے اور یوں فتنے کی جڑ ختم کردی جائےگی۔ اس بات پر دونوں نے اتفاق کیا اور اعلان کردیا کہ لوگ حکمیت کا نتیجہ سننے کے لیے جمع ہو جائیں۔

۱۰۶

لوگ جمع ہوگئے، ابوموسیٰ نے عمر و عاص سے کہا کہ منبر پر جا کر اپنے فیصلے کا اعلان کرے، عمر و عاص سے کہا کہ میں؟ تم سفیر ریش اور پیغمبر کے محترم صحابی ہو میں ہر گز یہ جسارت نہیں کرسکتا کہ تم سے پہلے کوئی بات کروں۔ او موسیٰ اپنی جگہ سے اٹھا اور منبر پر جاکر بیٹھ گیا۔ لوگوں کے دل کی دھڑکنیں تیز ہونے لگیں، آنکھیں خیرہ ہونے اور سانسیں سینوں میں اٹکنے لگیں۔ سب کو یہ انتظار کہ کیا نتیجہ نکلے؟ اس نے بولنا شروع کیا کہ ہم نے مشورے کے بعد امت کا مفاد اس میں دیکھا کہ نہ علی علیہ سلام ہو اور نہ معاویہ اور مسلمان خو دجانتے ہیں وہ جس کو چاہیںمنتخب کریں اور اپنی انگوٹھی کو دائیں ہاتھ سے نکالتے ہوئے کہا کہ میں نے علی علیہ سلام کو خلافت سے معزول کردیا جس طرح میں نے اس انگوٹھی کو ہاتھ سے نکالا۔ یہ کہا اور منبر سے اتر آیا۔

عمر و عاص اٹھا اور منبرپر بیٹھ گیا اور کہا کہ تم لوگوں نے ابو موسیٰ کی باتیں سن لیں کہ اس نے علی علیہ سلام کو خلافت سے معزول کردیا ہے میں بھی ان کو خلافت سے معزول کرتا ہوں جس طرح کہ ابو موسیٰ نے کیا ہے اور اپنی انگوٹھی کو اپنے دائیں ہاتھ سے باہر نکالا اس کے بعد اپنی انگوٹھی کو اپنے بائیں ہاتھ میں ڈالتے ہوئے کہا کہ میں معاویہ کو اس طرح خلافت پر نصب کرتا ہوں جس طرح اپنی انگوٹھی کو اپنے ہاتھ میں ڈالا ہے۔ یہ کہا اور منبر سے نیچے اترا۔

مجلس میں کھلبلی مچ گئی لوگوں نے ابو موسیٰ پرحملہ کرنا شروع کیا اوربعض لوگ تازیانہ لے کراس کی طرف بڑھے، وہ مکہ کی طرف بھاگ گیا اور عمر و عاص بھی شام چلاگیا۔

خوارج نے جو اس معاملے کو پیدا کرنے کے ذمہ دار تھے حکمیت کی رسوائی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اور ان کو اپنی غلطی کا احساس ہوا لیکن وہ نہیں سمجھتے تھے کہ غلطی کہاں پر ہوئی ہے؟ وہ نہیں کہتے تھے کہ ہماری غلطی یہ تھی کہ ہم نے معاویہ اور عمر و عاص کی مکاری کو تسلیم کیا اور جنگ بند کرلی اور یہ بھی نہیں کہتے تھے کہ حکمیت کا فیصلہ ہو جانے کے بعد ''مصلح،، کے انتخاب میں ہم نے خطا کی کہ عمر و عاص کے مقابلے میں ابو موسیٰ کو مقرر کیا۔ بلکہ کہتے تھے کہ ہم نے دین خدا میں دو انسانوں کو حکم اور مصلح قرار دیا جو خلاف شرع اور کفر تھا۔ حاکم صرف خدا ہے نہ کہ انسان۔

۱۰۷

وہ علی علیہ سلام کے پاس آئے اور کہا کہ ہم نے نہیں سمجھا ارو حکمیت کو تسلیم کیا تو بھی کافر ہوگئے اور ہم بھی، ہم نے توبہ کرلی ہے تم بھی توبہ کرلوٍ۔ مصیبت تازہ ہوگئی اوربڑھ گئی۔

علی علیہ سلام نے کہا بہرحال توبہ کرنا اچھی بات ہے''استغفر الله من کل ذنب '' ہم ہمیشہ ہر گناہ سے استغفار کرتے ہیں،،۔ انہوں نے کہا یہ کافی نہیں ہے بلکہ تم کو اعتراف کرلینا چاہیے کہ ''حکمیت،، گناہ تھی اور اس گناہ سے توبہ کرو۔ کہا کہ آخر میں نے تحکیم کا مسئلہ پیدا کیا ہے اور اس کا نتیجہ بھی دیکھ لیا ہے اور دوسری طرف سے جو چیز شریعت میں جائز ہے میں کس طرح اس کو گناہ قرار دوں اور جس گناہ کا میں مرتکب نہیں ہوا ہوں اس کا اعتراف کرلوں۔ یہاں سے انہوں نے ایک مذہبی فرقہ کی حیثیت سے کام شروع کردیا۔ ابتداء میں ایک باغی اور سرکش گروہ تھا اسی لیے ان کا نام ''خوارج،، رکھ دیا گیا۔ لیکن آہستہ آہستہ انہوں نے اپنے لیے اصول عقائد منظم کرلیے اور وہ گروہ جو ابتداء میں سیاسی شکل کا تھا رفتہ رفتہ ایک مذہبی فرقہ کی صورت اور مذہبی رنگ اختیار کرگیا۔ بعد میں خوارج نے ایک مذہب کے حامیوں کی حیثیت سے تیز تبلیغی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور آہستہ آہست جب انہوں نے سوچنا شروع کیا کہ اپنے خیال میں دنیائے اسلام کے مفاسد کی نشاندہی کریں، وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ عثمان، علی علیہ سلام اور معاویہ سب غلطی پر اور گناہگار ہیں اور ہمیں چاہیے کہ جو مفاسد پیدا ہوگئے ہیں ان کا مقابلہ کریں اور امر بہ معروف اور نہی از منکر کریں۔ اس طرح خوارج کامذہب امر بہ معروف اور نہی از منکر کے فریضے کے عنوان سے وجود میں آیا۔

۱۰۸

امر بہ معروف اورنہی از منکر کا فریضہ سب سے پہلے دو اساسی شرطیں رکھتا ہے: ایک دینی بصیرت اور دوسرے عمل میں بصیرت۔

دین کی بصیرت ___ جس طرح کہ روایت میں آیا ہے ___ اگر نہ ہو تو اس کام کا نقصان اس کے فائدے سے زیادہ ہے۔

جہاں تک عمل میں بصیرت کا تعلق ہے وہ ان دو شرطوں کا لازمہ ہے جن کوفقہ میں ''احتمال تاثیر،، اور ''عدم ترتب مفسدہ،، سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس کا فائدہ تب ہے جب ان دو فریضوں کے سلسلے میں عقل و منطق کو دخل ہو۔(۱) خوارج نہ بصیرت دینی رکھتے تھے اور نہ بصیرت عملی، وہ نادان اور بے بصیرت لوگ تھے۔ بلکہ

____________________

۱) یعنی امر بہ معروف اور نہی از منکر اس لیے ہے کہ ''معروف،، رائج ہوجائے اور ''منکر،، مٹ جائے۔ پس امر بہ معروف اور نہی از منکر وہاں کیا جانا چاہیے کہ جہاں اس نتیجے کے مترتب ہونے کا احتمال ہو، اگر ہمیں معلوم ہو کہ قطعا بے اثر ہے تو واجب کیونکر؟

اور دوسرے یہ کہ اس عمل کو شریعت نے اس لیے رکھا ہے کہ کوئی مصلحت انجام پائے اس لیے لازماً وہاں انجام پاناچاہیے کہ جہاں پہلے سے زیادہ خرابی پیدا نہ ہو۔ ان دو شرطوں کا لازمہ بصیرت در عمل ہے وہ شخص جس میں بصیرت در عمل مفقود ہے پیش بینی نہیں کرسکتا کہ اس کام کاکوئی نتیجہ نکلے گا یا نہیں اور یہ کہ کوئی پہلے سے زیادہ مفسدہ ہوگا یا نہیں؟ یہی وجہ ہے کہ جاہلانہ امر بہ معروف، جس طرح کہ حدیث میں ہے، اس کا نقصان فائدے سے زیادہ ہے۔

۱۰۹

تمام فرائض میں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ احتمال ترتب فائدہ اس کی شرط ہے اوراگر فائدہ کا احتمال ہے تو انجام دیا جائے اور اگر فائدہ کااحتمال نہ ہو تو انجام دیا جائے حالانکہ ہر فریضہ میں کوئی فائدہ اور مصلحت پیش نظر ہے لیکن ان مصلحتوں کو پہچاننے کی ذمہ داری لوگوں پر نہیں ڈالی گئی ہے۔ نماز کے بارے میں نہیں کہا گیا ہے کہ اگر تم دیکھو کوئی فائدے کی صورت ہے تو پڑھو ورنہ نہ پڑھو، روزہ کے سلسلے میں بھی نہیں کہا گیا کہ اگر تمہیں فائدہ کا احتمال ہو تو رکھو ورنہ نہ رکھو۔ روزہ کے سلسے میں کہا گیا ہے کہ اگر تم دیکھ کہ نقصان یا ضرر کی صورت ہے تو نہ رکھو اسی طرح جج یا زکوٰۃ یا جہاد کے بارے میں اس طرح کی کوئی قید نہیں ہے لیکن امر بہ معروف اور نہی از منکر کے بارے میں یہ قید ہے کہ دیکھنا چاہیے کیا اثر اور کیا رد عمل رکھتا ہے اور یہ کہ کیا عہ عمل اسلام اور مسلمانوں کے مفاد میں ہے یا نہیں؟ یعنی مصلحت کو پہچاننے کی ذمہ داری خود عمل کرنے والوں پر ڈالی گئی ہے۔

اس فریضے میں ہر شخص کو یہ حق ہے بلکہ واجب ہے کہ منطق اور عقل و بصیرت در عمل اور توجہ بہ فائدہ کو دخل دینے کا راستہ دے کیونکہ یہ عمل محض تعبدی نہیں ہے (گفتار ماہ جلد اول میں امربہ معروف و نہی از منکر کے موضوع پر تقریر، کی طرف رجوع کیا جائے)

یہ شرط کہ امر بہ معروف اور نہی از منکر کے سلسلے میں عملی بصیرت سے کام لینا واجب ہے، اس پر خوارج کو چھوڑ کر باقی تمام اسلامی فرقوں کا اتفاق ہے۔ وہ اسی جمود، خشکی اور مخصوص تعصب کی بناء پر جو وہ رکھتے تھے، کہتے تھے کہ امربہ معروف و نہی از منکر ''تعبد محض،، ہے اس میں ''احتمال اثر،، اور ''عدم ترتب مفسدہ،، کی کوئی شرط نہیں ہے اس لیے کسی کو بیٹھ کر اس کے نتائج کا حساب نہیں لگانا چاہیے ۔ اپنے اسی عقیدے کی بناء پر یہ جانتے ہوئے کہ وہ مارے جائیں گے، ان کا خون بہایا جائے گا اور یہ جانتے ہوئے کہ ان کے قیام کا کوئی مفید نتیجہ مرتب نہیں ہوگا، وہ قیام کرتے تھے اور یا دوسروں پر حملہ کرتے تھے۔

۱۱۰

بنیادی طور پر وہ عملی بصیرت کے منکر تھے کیونکہ وہ اس فریضے کو ایک ''امر تعبدی،، جانتے تھے اور دعویٰ کرتے تھے کہ آنکھیں بند کرےے اس کو انجام دینا چاہیے۔

اصول عقائد خوارج

''خارجیت،، کی بنیاد پر چند چیزوں سے تشکیل پائی تھی:

۱ علی علیہ سلام، عثمان، معاویہ، اصحاب جمل اور اصحاب حکمیت اور ان تمام لوگوں جو حکمیت پر راضی ہوئے، کی تکفیر۔ سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے حکمیت کا مشورہ دیا اور بعد میں توبہ کرلی۔

۲ ان لوگوں کی تکفیر جو علی علیہ سلام و عثمان اور دوسرے لوگوں کے کفر کے قائل نہ ہوں جن کا ہم نے ذکر کیا ہے۔

۳ صرف ایمان ولی عقیدہ نہیں ہے بلکہ اوامر پر عمل اور نواہی کو ترک کرنا بھی جزو ایمان ہے۔ ایمان، اعتقاد اور عمل سے مرکب ایک امر ہے۔

۴ ایک ظالم امام اور حکمران کے خلاف غیر مشروط بغاوت کا وجوب۔

وہ کہتے تھے کہ امر بہ معروف اور نہی از منکر کے لیے کسی چیز کی شرط نہیں ہے اور ہر جگہ بغیر کسی استثناء کے اس حکم الہی کو انجام دیا جانا چاہیے۔(۱)

ان عقائد کی وجہ سے انہوں نے ایسے عالم میں سحر کی کہ روئے زمین کے تمام لوگوں کو کافر، واجب القتل اور ابدی جہنمی سمجھتے تھے۔

____________________

١(۱)ضحی الاسلام ج ٣، ص ٣٣٠ منقول از کتاب الفرق بین الفرق

۱۱۱

خلافت کے بارے میں خوارج کا عقیدہ

خوارج کی واحد فکر جو آج کے تجدّد پسندوں کی نظر میں درخشاں ظاہر کی جاتی ہے وہ خلافت آزادانہ انتخاب کے ذریعہ ہونی چاہیے اور موزوں ترین شخص وہ ہے جو ایمان و تقویٰ کے لحاظ سے صلاحیت رکھتا ہو خواہ قریش سے ہو یا غیر قریش سے، ممتاز قبیلے سے ہو یا گمنام اور پسماندہ قبیلے سے۔ عرب ہو یا غیر عرب۔

انتخاب اور بیعت مکمل ہونے کے بعد خلیفہ اگر اسلامی معاشرے کے مفاد کے خلاف چلے تو وہ خلافت سے معرزول ہو جاتا ہے اور اگروہ (معزول ہونے سے ) انکار کر بیٹھے تو اس سے جنگ کرنا چاہیے یہاں تک کہ وہ مارا جائے ۔(۱)

یہ لوگ خلافت کے بارے میں شیعوں کے مخالف قرار پائے ہیں جو کہتے ہیں کہ خلافت ایک امر الہی ہے اور خلیفہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ صرف خدا کی طرف سے معین کیا گیا ہو اور اسی طرح سنیوں کے بھی مخالف ہیں جو کہتے ہیں کہ خلافت صرف قریش کے لیے ہے اور''انما الائمة من القریش،، کے جملے سے وابستگی ڈھونڈھتے ہیں۔

ظاہر ہے کہ خلافت کے بارے میں ان کا یہ نظریہ ایسی چیز نہیں ہے کہ

____________________

۱) ضحی الاسلام ج ۳، ص ۳۳۲

۱۱۲

جس تک وہ اپنی پیدائش کے ساتھ ہی پہنچے ہوں۔ بلکہ جیسا کہ ان کا مشہور نعرہ ''لا حکم الا للہ،، حکایت کرتا ہے اور نہج البلاغہ(۱) سے معلوم ہوتا ہے کہ شروع میں وہ کہتے تھے کہ افراد اور معاشرے کو کسی امام یا حکومت کی ضرورت نہیں ہے اور لوگوں کو خود خدا کی کتاب پر عمل کرنا چاہیے۔

لیکن بعد میں وہ اس عقیدے سے پھر گئے اور خود عبد اللہ بن وہب راسبی کی بیعت کرلی۔(۲)

خلفاء کے بارے میں خوارج کاعقیدہ

وہ ابوبکر اور عمر کی خلافت کو صحیح سمجھتے تھے اس اعتبار سے کہ یہ دونوں ایک صحیح انتخاب کے ذریعے خلافت تک پہنچے تھے اور مصالح کی راہ سے بھی منحرف نہیں ہوئے اور اس کے خلاف کسی چیز کے مرتکب نہیں ہوئے۔ وہ عثمان اور علی علیہ سلام کے انتخاب کو بھی صحیح جانتے تھے۔ بالآخر کہتے تھے کہ عثمان اپنی خلافت کے چھٹے سال کے آخر میں راہ سے منحرف ہوگیا ہے اور مسلمانوں کے مفادات سے آنکھیں پھیر لی ہیں اس لیے وہ خلافت سے معزول تھا اور چونکہ مسئلہ تحکیم کو قبول کیا اور اس کے بعد توبہ نہیں کی ہے وہ بھی کافر ہوگیا اور واجب القتل تھا اور اس لیے ساتویں سال کے بعد عثمان کی خلافت اورتحکیم کے بعد علی علیہ سلام کی خلافت سے تبّریٰ (بیزاری کا اظہار) کرتے(۳) تھے۔ وہ سارے خلفاء سے بیزاری کااظہار کرتے تھے اور

____________________

۱) خطبہ ۴۰ و شرح ابن ابی الحدید ج ۲، ص۳۰۸

۲) کامل ابن اثیر ج ۳، ص ۳۳۶

۳) الملل و النحل شہرستانی

۱۱۳

ہمیشہ ان کے ساتھ برسرپیکار رہتے تھے۔

خوارج کا خاتمہ

یہ گروہ پہلی صدی ہجری کے چوتھے دہے کے اواخر میں ایک خطرناک فریب کے نتیجے میں وجود میں آیا اور ڈیڑھ صدی سے زیادہ نہ ٹھہر سکا۔ اپنے بے جا جوش اور جنون آمیز بے باکیوں کی وجہ سے وہ خلفاء کی سرزنش کا شکار بنے جنوہں نے ان کو اور ان کے مذہب کو تباہی و بربادی کی طرف دھکیلا اور عباسی سلطنت کے قیام کے اوائل میں سرے سے نابود ہوگئے۔ ان کی خشک اور بے روح منطق، ان کو وہ روش جو زندگی سے ناآہنگ تھی اور سب سے بڑھ کر ان کے بیجا جوش نے جس کی وجہ سے انہوں نے ''تقیّہ،، کے صحیح اور منطقی مفہوم تک سے کنارہ کشی اختیا رکی، ان کو نابود کردیا۔ خوارج کا مکتب کوئی ایسا مکتب نہ تھا جو واقعاً باقی رہ سکتا لیکن اس مکتب نے اپنا اثر باقی رکھا۔ خارجیت کے افکار و عقائد نے تمام اسلامی فرقوں میں نفوذ پیدا کیا اور اب بھی بہت سے ''نہروانی،، موجود ہیں اور علی علیہ سلام کے عہد و عصر کی طرح اسلام کے خطرناک ترین داخلی دشمن یہی لوگ ہیں۔ جس طرح کہ معاویہ اور عمر و عاص بھی ہر دور میں رہے ہیں اور ''نہرانیوں،، کے وجود سے جوان کے دشمن شمار ہوتے ہیں،موقعہ پر فائدہ اٹھاتے ہیں۔

۱۱۴

رُسوم یا روح

ایک مذہبی بحث کی حیثیت سے خارجیت یا خوارج کے اوپر بحث کرنا، کسی مورد کے بغیر بحث اوربے نتیجہ ہے کیونکہ آج دنیا میں ایسا کوئی مذہب وجود نہیں رکھتا لیکن اس کے ساتھ ہی خوارج اور ان کے کام کی نوعیت کے بارے میں بحث ہمارے اور ہمارے معاشرے کے لیے سبق آموز ہے کیونکہ ہر چند خوارج کا مذہب ختم ہوچکا ہے لیکن اس کی روح ابھی زندہ ہے۔ خارجیت کی روح ہم میں سے بہت سے لوگوں کے پیکر میں حلول کئے ہوئے ہے۔ لازم ہے کہ مقدمے کے طور پر کچھ کہوں:

یہ ممکن ہے کہ کچھ مذاہب رسوم کے اعتبار سے مرچکے ہوں لیکن اپنی روح کے اعتباد سے زندہ ہوںجیسا کہ یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے برعکس ہو کہ کوئی مسلک رسوم کے اعتبار سے زندہ ہو لیکن روح کے اعتبار سے کلی طورپر مرچکا ہو لہذا ممکن ہے کہ کوئی فرد یا کچھ افراد رسوم کے لحاظ سے ایک مذہب کے تابع اور پیرو شمار کئے جاتے ہوں اور روح کے اعتبار سے اس مذہب کے پیرو نہ ہوں اور اس کے برعکس ممکن ہے کہ بعض روح کے اعتبار سے کسی مذہب کے پیرو ہوں حالانکہ اس مذہب کے رسوم کو انہوں نے قبول نہ کیا ہو۔

مثلاً جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں، کہ رسول اکرم کی رحلت کے بعد ابتداء ہی مسلمان دو فرقوں میں بٹ گئے:۔ سُنّی اور شیعہ۔ سُنّی ایک رسم اور عقیدے کے چوکھٹے کے اندر ہیں اور شیعہ دوسرے رسم اور عقیدے کی چار دیواری کے اندر۔

۱۱۵

شیعہ کہتے ہیں کہ پیغمبر کے خلیفہئ بلا فصل علی علیہ سلام ہیں اور آنحضرت نے علی علیہ سلام کو خدا کے حکم سے اپنی خلافت اور جانشینی کے لیے معین کیا ہے اور پیغمبر کے بعد یہ مقام ان کے لیے مخصوص ہے اور اہل سنت کہتے ہیں کہ اسلام نے اپنا قانون بناتے ہوئے خلافت و امامت کے موضوع میں کوئی مخصوص پیش بینی نہیں کی ہے بلکہ رہبر کے انتخاب کا معاملہ خود لوگوں پرچھوڑا ہے زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ قریش کے درمیان سے منتخب کیا جائے۔

شیعہ پیغمبر کے بہتسے ایسے صحابہ پر تنقید کرتے ہیں جن کا شمار اکابر اور مشہور شخصیتوں میں ہوتا ہے اور سنی اس معاملے شیعوں کے بالکل مخالف ہیں وہ ہر اس شخص کے بارے میں بہت زیادہ اور عجیب خوش بینی رکھتے ہیں ،جو ''صحابی،، کہلاتا ہو۔ کہتے ہیں کہ پیغمبر کے تمام صحابہ عادل اور صحیح کام کرنے والے ہیں۔ تشیع کی بنیاد تنقید ،تحقیق، ناخوش عقیدگی اور بال کی کھال اتارنا ہے اور تسنن کی بنیاد حمل بر صحت، توجیہ اور ''انشاء اللہ بلی ہوگی،، پر ہے۔

اس عصر اور زمانے میں جس میں ہم ہیں۔ کافی ہے کہ جو شخص کہد ے: علی علیہ سلام پیغمبر کے خلیفہئ بلا فصل ہیں ہم اس کو شیعہ سمجھیں اور اس سے کسی اور چیز کی توقع نہ رکھتے ہوں؟ وہ جسی روح اور جس نوعیت کے طرز فکر کا ہو، ہوا کرے؟

لیکن اگر ہم صدر اسلام کی طرف مڑ کر دیکھیں تو ہمیں ایک خاص قسم کا جذبہ نظر آتا ہے کہ وہ جذبہ تشیع کا جذبہ ہے اور وہی جذبات تھے جو علی علیہ سلام کے بارے میں پیغمبر کی وصیت کو سو فیصد قبول کرسکتے تھے اور کسی قسم کے شک اور تذبذب کا شکار نہ ہوتے تھے جس جذبہ اور اس طرز فکر کے مقابلے میں ایک اور جذبہ اور طرز فکرتھا کہ لوگ آنحضرت پجر مکمل ایمان رکھنے کے باوجود پیغمبر اکرم کی وصیتوں کی ایسی توجیہہ اور تفسیر اور تاویل کرتے تھے جو مطلوب نہ تھی اور درحقیقت اسلام میں انتشار یہاں سے پیدا ہوا کہ ایک گروہ جس کی یقیناً اکثریت تھی صرف ظاہر کو دیکھتا تھا اور ان کی نظر اتنی تیز اور گہری نہ تھی کہ ہر واقعہ کی حقیقت اور اس کے باطن کو بھی دیکھتی وہ ظاہر کو دیکھتا اور ہر جگہ حمل بر صحت کرتا تھا وہ لوگ کہتے کہ برزگ، بوڑھے اور اسلام میں پہل کرنے والے صحابہ ایک راہ پر چلے ہیں اور یہ نہیں کہا جاسکتا کہ انہوں نے غلطی کی ہے

۱۱۶

لیکن دوسرا گروہ جو اقلیت میں تھا وہ اسی وقت سے کہتارہا ہے کہ شخصیتیں اس وقت تک ہمارے نزدیک قابل احترام ہیں جب تک وہ حقیقت کا احترام کرتی رہیں لیکن جہاں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اسلام کے اصول انہی پہل کرنے والوں کے ہاتھوں پائمال ہو رہے ہیں، پھر ان کا کوئی احترام نہیں ہے۔ ہم اصول کے طرفدار ہیں نہ کہ شخصیتوں کے۔ اس روح کے ساتھ تشیع وجود میں آیا ہے۔

ہم جب تاریخ میں سلمان فارسی، ابوذر غفاری، مقداد کندی، عمار یاسر اور اسی طرح کے لوگوں کے بارے میں دیکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دیکھیں کہ ان لوگوں کو علی علیہ سلام کے گرد جمع ہونے اور اکثریت کو چھوڑ دینے پر کس چیز نے آمادہ کیا؟ تو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ایسے لوگ تھے جو اصولی بھی تھے اور اصول شناس بھی، دیندار بھی تھے اور دین شناس بھی، وہ کہتے تھے کہ ہمیں اپنی فکر و ادراک کو دوسروں کے ہاتھ میں نہیں دیناچاہیے اور یہ کہ جب وہ غلطی کریں توہم بھی غلطی کریں اور در حقیقت ان کی روح ایسی روح تھی جن پر اصول اور حقائق کی حکمرانی تھی نہ کہ اشخاص اور شخصیتوں کی!

امیر المومنین کے صحابہ میں سے ایک شخص جنگ جمل کے معاملے میں سخت تردد کاشکار تھا۔ وہ دونوں طرف دیکھتا ایک طرف علی علیہ سلام کو دیکھتا تھا اور ان برزگ مسلمان شخصیتوںکو جو علی علیہ سلام کے ہمرکاب ہو کر تلواریں کھینچے ہوئے تھیں اور دوسری طرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیوی حضرت عائشہ کو دیکھتا کہ قرآن، آنحضرت کی بیویوں کے بارے میں کہتا ہے''و ازواجه مهاتهم،، (سورہئ احزاب آیت ۶) ''اس کی بیویاں امت کی مائیں ہیں،، اور عائشہ کے ہمرکاب طلحہ کو دیکھتا جو سابقین میںسے تھا ایک اچھا ماضی رکھنے والا، تیز انداز اور اسلامی جنگوں کا ماہر سپاہی، ایسا شخص جس نے اسلام کی بیش بہا خدمت کی ہے اور پھر زبیر کو دیکھتا جو طلحہ سے بھی اچھا ماضی رکھنے والا حتیٰ کہ وہ ان لوگوں میں شامل تھا جنہوں نے سقیفہ کے روز علی علیہ سلام کے گھر پناہ لی تھی۔

۱۱۷

یہ شخص عجیب حیرت میں پڑا تھا کہ یہ سب کیا ہے؟ آخر علی علیہ سلام و طلحہ اور زبیراسلام میں پہل کرنے والوں اور اسلام کے سخت ترین فدا کاروں میں سے ہیں، اب وہ ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہیں؟! ان میں کون زیادہ حق کے قرب ہے؟ اس الجھن میں کیا کرنا چاہےے؟ یاد رکھیے! اس حیران شخص کی زیادہ ملامت نہیں کرنی چاہیے۔ شاید اگر ہم بھی ان حالات سے دوچار ہوتے جن میں وہ دو چار ہوا تو زبیر اور طلحہ کی شخصیت اور خدمات ہماری آنکھوں کو خیرہ کردیتیں۔

آج جب ہم علی علیہ سلام و عمار و اویس قرنی اور دوسرے لوگوں کو ۔۔۔ زبیر و طلحہ کے بالمقابل دیکھتے ہیں تو تردد کا شکار نہیں ہوتے کیونکہ ہم سمجہتے ہیں کہ دوسرے گروہ کے لوگوں کی پیشانی سے جنایت ٹپکتی ہے یعنی ان کے چہرے سے جرم اور خیانت کے آثار ظاہر ہیں اور ان کے قیافہ اور چہروں کو دیکھنے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ دوزخ والے ہیں لیکن اگرہم اس زمانے میں ہوتے اور ان کی خدمات کو نزدیک سے دیکھتے تو شاید تردد سے محفوظ نہ رہ سکتے۔

آج جب ہم پہلے گروہ کو برحق اور دوسرے گروہ کو باطل پر جانتے ہیں وہ اس اعتبار سے ہے کہ گذشتہ تاریخ کے نتیجے میں اور حقائق کے روشن ہونے کی وجہ سے ایک طرف علی علیہ سلام اور عمار اور دوسری طرف زبیر اور طلحہ کو ہم نے پہچان لیا ہے اور ہم اس قابل ہوئے ہیں کہ اس بارے میں صحیح فیصلہ کریں یا کم از کم اگر ہم خود تاریخ میں تحقیق اور مطالعہ کے اہل نہیں تو بچپنے سے ہمیں اسی طرح سمجھایا گیا ہے لےکن ان دنوں ان دو اسباب میں کوئی ایک بھی وجود نہیں رکھتا تھا۔

۱۱۸

بہرحال وہ شخص امیر المومنین کی خدمت میں پہنچا اور کہا:

''أیمکن ان یجتمع زبیر و طلحة و عائشة علی باطل،،

کیا ممکن ہے کہ طلحہ و زبیر اور عائشہ باطل پر اجماع کرلیں؟ ان جیسی شخصیتیں، رسول اللہ کے بزرگ صحابہ کس طرح غلطی کرسکتے اور باطل کی راہ پر چل سکتے ہیں کیا یہ ممکن ہے؟

علی علیہ سلام جواب میں ایسی بات کرتے ہیں کہ مصر کے دانشور اور ادیب ڈاکٹر طہٰ حسین کہتے ہیں: اس سے زیادہ محکم اور بالاتر بات نہیں ہوسکتی، وحی کے خاموش ہونے اور ندائے آسمانی کے منتقطع ہونے کے بعد اتنی عظیم بات نہیں سنی گئی ہے،(۱) فرمایا:

''انک لملبوس علیک، ان الحق و الباطل لا یعرفان باقدار الرجال، و اعرف الحق تعرف اهله، و اعرف الباطل تعرف اهله،،

''تمہیں دھوکہ ہوا اور حقیقت کی پہچان میں تم سے غلطی ہوئی ہے۔ ےق و بائل کو افراد کی شخصیت اور قدر قیمت کی کسوٹی پر نہیں پرکھا جاسکتا۔ یہ صحیح نہیں ہے کہ تم پہلے شخصیات کو پیمانہ قرار دو اور اس کے بعد حق و باطل کو ان پیمانوں سے پرکھو، فلاں چیز حق ہے کیونکہ فلاں اس کے ساتھ موافق ہےں اور فلاں چیز باطل کیونکہ فلاں فلاں

____________________

۱) علی و نبوہ ص ۴۰

۱۱۹

اس کے مخالف ہیں۔ نہیں، اشخاص کو حق و باطل کا پیمانہ نہیں بنایا جانا چاہیے بلکہ حق و باطل کو اشخاص اور ان کی شخصیت کا پیمانہ قرار دیا جانا چاہیے۔،،

یعنی تمہیں چاہیے کہ حق شناس اور باطل شناس بنو نہ کہ اشخاص و شخصیت شناس۔ افرا د کو خواہ بڑی شخصیات ہوں یا چھوٹی شخصیات حق کے معیار پر پرکھو اگر اس کے اوپر پورا اتریں تو ان کی شخصیت کو قبول کرو ورنہ نہیںٍ۔ یہ کوئی بات نہیں ہے کہ آیا طلحہ و زبیر و عائشہ کے لیے ممکن ہے کہ باطل پر ہوں؟

یہاں علی علیہ سلام نے خود حقیقت کو حقیقت کا معیار قرار دیا ہے اور روح تشیّع بھی اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے اور در حقیقت شیعہ فرقہ ایک مخصوص نظر کی پیداوار ہے جو اسلامی اصول کو اہمیت دینے سے عبارت ہے نہ کہ افراد اور اشخاص کو۔ یوں لازمی طور پر ابتداء شیعہ تنقید کرنے اور (شخصیت کے) بُت توڑنے والوں کی حیثیت سے ابھرے۔

پیغمبر کے بعد تینتیس (۳۳) سالہ جوان علی علیہ سلام کے ساتھ انگلیوں کی تعداد سے کمتر اقلیت تھی اور ان کے مقابلے میں ساٹھ سالہ بوڑھے جن کے ساتھ بہت زبردست اکثریت تھی۔ اکثریت کی منطق یہ تھی کہ بزرگوں او مشائخ کا راستہ یہ ہے اور بزرگ غلطی نہیں کرتے اور ہم ان کی راہ پر چلتے ہیں۔ اُس اقلیت کی منطق یہ تھی کہ صرف یہ حقیقت ہی ہے جو غلطی نہیں کرتی، بزرگوں کو چاہےے کہ خود کو حقیقت کے ساتھ تطبیق کریں۔ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے لوگ کتنے زیادہ ہیں جو رسوم کے اعتبار سے شیعہ ہیں لیکن ان میں شیعیت کی روح نہیں ہے۔

تشیّع کی راہ اس کی روح کی طرح حقیقت کی تشخیص اور اس کی پیروی ہے اور اس کا سب سے بڑا اثر ''جذب،، اور ''دفع،، ہیں۔ لیکن ہر ''جذب،، اور ہر ''دفع،، نہیں جیسا کہ ہم نے پہلے کہا ہے کبھی جذب، باطل، ظلم اور ظالم کا جذب ہے اور دفع، حقیقت اور انسانی فضائل کا دفع، بلکہ وہ ''جذب،، اور ''دفع،، جو علی علیہ سلام کے جاذبہ و دافعہ کی قسم سے ہوں۔ شیعہ یعنی علی علیہ سلام کی سیرت کا نمونہ۔ شیعہ کے لیے بھی ضروری ہے کہ علی علیہ سلام کی طرح دوہری قوّت رکھتا ہے۔

۱۲۰