جاذبہ و دافعہ علی علیہ السلام

جاذبہ و دافعہ علی علیہ السلام0%

جاذبہ و دافعہ علی علیہ السلام مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 159

جاذبہ و دافعہ علی علیہ السلام

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: استاد شہید مرتضیٰ مطہری
زمرہ جات: صفحے: 159
مشاہدے: 36846
ڈاؤنلوڈ: 4417

تبصرے:

جاذبہ و دافعہ علی علیہ السلام
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 159 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 36846 / ڈاؤنلوڈ: 4417
سائز سائز سائز
جاذبہ و دافعہ علی علیہ السلام

جاذبہ و دافعہ علی علیہ السلام

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

( فلو لا نفر من کل فرقة طائفة لیتفقهوا فی الدین )

(۹:۱۲۲)

'' پس ان میں سے ہر گروہ سے کچھ لوگ نہیں نکلتے تاکہ وہ دین میں تفقہہ کریں؟،،

محض کسی چیز کے درک کرلینے کو ''اس چیز میں تفقہہ،، نہیں کہتے بلکہ گہری نظری اور بصیرت تفقہہ ہے۔

( ان تتقوا الله یجعل لکم فرقانا ) (۸:۲۹)

''اگر تم خدا سے ڈرتے ہو تو خدا تہارے دل میں ایک روشنی کو قرار دیتا ہے جس سے تم اچھے برے کی پہچان اور تمیز کرو۔،،

( والذین جاهدوا فینا لنهدینهم سبلنا ) (۲۹:۶۹)

''جو ہماری راہ میں کوشش کرتے ہیں ہم اپنی راہیں ان کو دکھا دیتے ہیں۔،،

خوارج نے قرآن کے اس طرز تعلیم کے بالکل برعکس جو چاہتا ہے کہ اسلامی فقہ ہمیشہ زندہ اور متحرک رہے، جمود اور ٹھہراؤکا آغاز کردیا۔ انہوں نے اسلامی معارف کو مردہ اور ساکن سمجھ لیا اور ظاہری شاکل اور صورت کو بھی اسلام کے متن میں گھسیڑ دیا۔

اسلام نے ہرگز شکل و صورت اور زندگی کے ظاہر پر توجہ نہیں دی ہے۔ اسلامی تعلیمات کی ساری توجہ روح و معنی اور اس راہ پر ہے جو انسان کو ان مقاصد اور معانی تک پہنچاتی ہے۔ اسلام نے مقاصد و معانی اور ان مقاصد تک پہنچنے کی راہ دکھانے کو اپنا دائرہ کار مقرر کر رکھا ہے اس کے علاوہ انسان کو آزاد چھوڑا ہے اور یوں تمدن ارو ثقافت کے پھیلاؤ سے کسی قسم کے تصادم سے پرہیز کرتا ہے۔

۱۴۱

اسلام نے کوئی مادّی ذریعہ یا کوئی ظاہری شکل نہیں پائی جس کو ''تقدّس،، کامقام حاصل ہو اور مسلمان اس شکل اور ظاہر کی حفاظت کو اپنا فرض جان لے۔ اس طرح علم اور تمدن کی توسیع کے مظاہرے کے ساتھ تصادم سے پرہیز ان اسباب میں سے ایک ہے جس نے اس دین کو زمانے کے تقاضوں کے ساتھ منطبق کرنا آسان بنا دیا ہے اور اس کی ابدی بقاء میں سب سے بڑی رکاوٹ کو ختم کردیا ہے۔ یہ تعقّل ار تدیّن میں توازن ہی ہے جس نے ایک طرف اصول کو ثبات اور پائداری بخشی ہے اور دوسری جانب اس کو ظاہری اشکال سے الگ کردیا ہے۔ کلیات کو واضح کردیا ہے اور ان کلیات کے گونا گون مظاہر ہیں اور یہ مظاہر بدلتے رہتے ہیں۔ لیکن حقیقت (اصول) کو تبدیل نہیں کرتے۔

لیکن مظاہر اور مصادیق پر حقیقت کی تطبیق خود اتنا آسان کام نہیں کہ ہر شخص کا کام ہو بلکہ ایک گہرے ادراک اور صحیح سمجھ بوجھ کا محتاج ہے اور خوارج کی فکر میں جمود تھا اور جو کچھ سن لیتے اس سے ماوراء کسی چیز کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے، اسی لیے امیر المؤمنین نے جس وقت ابن عباس کو ان سے بات چیت کے لیے بھیجا تو اس نے فرمایا: ''لا تخاصمھم بالقراٰن فان القرآن حمال ذو وجوہ تقول و یقولون و لکن حاججھم بالسنۃ فانہم لن یجدوا عنھا محیصا،، ''ان کے ساتھ قرآن سے بحث نہ کرو۔ کیونکہ قرآن بہت سے احتمالات اور توجیہات کو قبول کرتا ہے جو تم کہو یا وہ کہیں۔ بلکہ سنت اور پیغمبر کے ارشادات کے ساتھ ان سے بحث کرو اور استدلال کرو کہ صریح ہے اور اس سے فرار کا ان کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔،، یعنی قران کلیات ہے، بحث کا مقام پر وہ ایک چیز کو مصداق بنا لیتے ہیں اور استدلال کرتے ہیں تم کسی اور چیز کو، اور یہ صورت حال بحث و مباحثہ کے مقام پر قطعاً نتیجہ خیز نہی ہے۔ وہ اس قدر سمجھ بوجھ نہیں رکھتے کہ قرآن کی کسی حقیقت کو درک کرلیں اور اس کی اس کے صحیح مصداق کے ساتھ تطبیق کریں بلکہ ان کے ساتھ سنت کی بنیاد پر گفتگو کرو جو جزئی ہے او رمصداق کی نشاندہی کی گئی ہے۔ یہاں حضرت نے ان کی جمود فکری اور خشک مغری کی طرف اشارہ کیاہے دراں حالیکہ وہ دیندا رتھے جو تعقل اور تدّین میں فرق کی دلیل ہے۔

۱۴۲

خوارج صرف جہالت اور فکری جمود کی پیداوار تھے۔ وہ تجزیہ اور تحلیل کی قدرت نہیں رکھتے تھے اور کلی مصداق سے جدا نہیں کرسکتے تھے۔ وہ خیال کرتے تھے کہ اگر کسی خاش مقام پر حکمیت غلطی تھی تو پھر اس کی اساس ہی باطل اور غلط ہے حالانکہ یہ ممکن ہے کہ اس کی اساس محکم اور صحیح ہو لیکن کسی خاص مقام پر اس کا اجراء نارواء ہو لہٰذا تحکیم کی داستان میں ہم تین مرحلے دیکھتے ہیں:

۱ تاریخ شاہد ہے کہ علی علیہ سلام حکمیت پر راضی نہ تھے۔ معاویہ اور اس کے ساتھیوں کی تجویز کو فریب او ردھوکہ سمجھتے تھے اور اس بات پر ان کو سخت اصرار تھا اور ڈٹے ہوئے تھے۔

۲ کہتے تھے کہ اگر شورای تحکیم کی تشکیل ناگزیر ہے توابو موسیٰ ایک بے تدبیر شخص ہے اور اس کام کی صلاحیت نہیں رکھتا، ایک اہل آدمی کا انتخاب ہونا چاہیے اور خود ابن عباس یا مالک اشتر کو تجویز کرتے تھے۔

۳ حکمیت کا اصول بذاب خود صحیح ہے اور غلط نہیں ہے۔ یہاں بھی علی علیہ سلام کو اصرار تھا ''ابو العباس مبرد،، ''الکامل فی للغۃ و الادب،، ج ۲، ص ۱۳۴ میں کہتا ہے! علی علیہ سلام نے ذاتی طور پر خوارج کے ساتھ مباحثہ کیا اور ان سے کہا: تم خدا کی قسم کھا کر بتاؤ! کیا تم میں سے کوئی بھی میری طرح تحکیم کا مخالف تھا؟ وہ بولے: خدایا! تو گواہ ہے کہ نہ تھا۔ فرمایا: کیا تم نے مجھے مجبور نہ کیا کہ میں قبول کروں؟ بولے، خدایا! توگواہ ہے کہ ایسا ہی تھا۔ فرمایا: پس تم کیوں میری مخالفت کرتے ہو اور مجھے کیوں چھوڑ دیا ہے؟ بولے: ہم ایک بڑے گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں اور ہمیں تونہ کرنی چاہیے، ہم نے توبہ کرلی ہے۔ تم بھی توبہ کرلو۔ فرمایا: ''استغفر اللہ من کل ذنب، وہ بھی جو تقریبا چھ ہزار لوگ تھے لوٹ آئے اور کہنے لگے علی علیہ سلام نے توبہ کرلی ہے اب ہم منتظر ہیں کہ وہ حکم دیں اور ہم شام کی طرف کوچ کریں۔ اشعث ابن قیس ان کی خدمت میں آیا اور کہا: کہ لوگ کہتے ہیں آپ تحکیم کو گمراہی سمجھتے اور اس پر قائم رہنے کو کفر سمجھتے ہیں؟ حضرت نے منبر پر گئے، خطبہ پڑھا اور فرمایا: جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ میں تحکیم سے پھر گیا ہوں وہ جھوٹ بولتا ہے اور جو شخص اس کو گمراہی سمجھتا ہے وہ خو دگمراہ تر ہے۔ خوارج بھی مسجد سے باہر نکل آئے اور دوبارہ علی علیہ سلام کے خلاف شورش کی۔،،

۱۴۳

حضرت فرماتے ہیں کہ یہ مقام اشتباہ تھا۔ اس لیے کہ معاویہ اور اس کے ساتھی حیلہ کرنا چاہتے تھے اور چونکہ ابوموسیٰ نالائق آدمی تھا اور میں خود بھی شروع سے کہتا تھا۔ لیکن تم نے قبول نہ کیا لیکن یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ تحکیم کی اساس ہی باطل ہو۔

ایک طرف لوگ حکومت قرآن اور حکومت افراد میں فرق نہیں کرتے تھے۔ حکومت قرآن کو قبول کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی معاملے میں قرآن کا جو بھی حکم ہے اس پر عمل کیا جائے اور حکومت افراد کے قبول کرنے کامطلب یہ ہے کہ ان کے ذاتی نظریات اور آراء کی پیروی کی جائے اور قرآن جو خود بات نہیں کرتا اس لیے ضروری ہے کہ اس کے حقائق کو غور و فکر کے ساتھ حاصل کیا جائے اور ایسا کرنا بھی افراد کے بغیر ممکن نہیں۔ حضرت خود اس بارے میں فرماتے ہیں:

انا لم نحکم الرجال و انما حکمنا القراٰن و هٰذا القراٰن انما هو خط مسطور بین الدفتین لا ینتطق بلسان ولا بدله من ترجمان، و انما ینطق عنه الرجال و لما دعانا القوم الی ان نحکم بیننا القرآن لم نکن الفریق المتولی عن کتاب الله، وقد قال سبحانه ''فان تنازعتم فی شیء فردوه الی الله و الرسول،، فرده الی الله ان نحکم بکتابه، ورده الی الرسول ان نأحذ بسنته، فاذا حکم بالصق فی کتاب الله فنحن احق الناس به، و ان حکم بسنته رسول الله فنحن اولاهم به ۔ (نھج البلاغہ خطبہ نمبر ۱۲۵)

''ہم نے لوگوں کو حاکم قرار نہیں دیا ہے بلکہ قرآن کو حاکم قرار دیا ہے اور یہ قرآن جلد کے درمیان تحریریں ہیں، یہ زبان سے بات نہیں کرتا اور بیان کرنےوالے کا محتاج ہے لوگ ہیں جو اس کے بارے میں بات کرتے ہیں اور چونکہ اہل شام نے یہ چاہا کہ ہم قرآن کو حاکم قرار دیں، ہم ایسے لوگ نہ تھے جو قرآن سے روگردانی کرتے جبکہ خدا خود قرآن میں فرماتا ہے:

''اگر تم کسی چیز کے بارے میں کوئی نزاع رکھتے ہو تو اس کو خدا اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دو،،

۱۴۴

خدا کی طرف رجوع کرنے کامطلب یہ ہے کہ ہم اس کی کتاب کو حاکم قرار دیں اور اس کی کتاب کے مطابق حکم کریں اور پیغمبر کی طرف رجوع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی سنت کی پیروی کریں اور اگر خدا کی کتاب کے مطابق صحیح فیصلہ کیا جائے تو ہم اس کے سب سے زیادہ سزاوار ہیں اور اگر اس کے رسول کی سنت کے مطابق فیصلہ ہو تو ہم اس کے لیے اولیٰ ہیں۔،،

یہاں ایک اشکال ہے کہ شیعہ اعتقاد اور امیر المؤمنین (نہج البلاغہ خطبہ ۲ آخری حصہ) کے مطابق اسلام میں حکومت اور امامت ''انتصابی،، اور مطابق ''نصّ،، ہے پس حضرت نے کیونکر حکمیّت کو تسلیم کرلیا اور بعد میں بھی اس کا سختی سے دفاع کیا؟

اس اشکال کا جواب ہم امام کے کلام کے ذیل میں ہی بخوبی سمجھ سکتے ہیں، کیونکہ جیسا کہ فرماتے ہیں اگر قرآن میں صحیح تدبر کیا جائے اور اس کے مطابق صحیح فیصلہ کیا جائے تو اس کا نتیجہ ان کی امامت اور خلافت کے علاوہ دوسرا ہو ہی نہیں سکتا اور یہی حال سنت پیغمبر کا بھی ہے۔

۱۴۵

اسلامی فرقوں کا ایک دوسرے پر اثر:

خوارج کے حالات کا مطالعہ ہمارے لیے اس نقطہئ نظر سے قیمتی ہے کہ ہم سمجھ لیںکہ انہوں نے سیاسی لحاظ سے ،عقیدہ و سلیقہ کے لحاظ سے اور فقہ و احکام کے لحاظ سے اسلامی تاریخ پر کیا اثر چھوڑا ہے۔

مختلف فرقے اور گروہ ہر چند رسوم کے چوکھٹے میں ایک دوسرے سے دور ہیں لیکن کبھی ایک مذہب کی روح دوسرے مذہب میں حلول کرجاتی ہے اور وہ مذہب درحالیکہ دوسرے کا مخالف ہے، اس کی روح اور معنی کو قبول کرتا ہے آدمی کی طبیعت (معنی و مفہوم) چراتی ہے کبھی ایسے لوگ پیدا ہوتے ہیں جو مثلا سنی ہیں لیکن روح اور معنی کے اعتبار سے شیعہ ہیں اور کبھی اس کے برعکس کبھی کوئی شخص طبیعتاً شریعت اور اس کے ظاہر کا پابند ہوتا ہے لیکن روح کے اعتبار سے صوفی ہوتا ہے اور کبھی اس کے برعکس۔ اسی طرح بعض لوگ بظاہر اور رسوم کے اعتبار سے ممکن ہے شیعہ ہوں لیکن روحاً اور عملاً وہ خارجی ہوں۔ یہ بات افراد پر بھی صادق آتی ہے اور امتوں اور ملتوں پر بھی۔

جب مختلف فرقے ایک ہی معاشرے میں رہتے ہوں ہر چند ان کے رسوم محفوظ ہوں، لیکن ان کے عقائد اور طریقے ایک دوسرے میں سرایت کرجاتے ہیں۔ مثلاً ۔۔۔ طبل وترم بجائے کی رسمیں قفقاز کے راسخ العقیدہ لوگوں کے توسط سے ایران میں سرایت کرگئیں اور چونکہ لوگوں کے جذبات ان کو قبول کرنے کے لےےے آمادگی رکھتے تھے، اس لیے بجلی کی طرح ہر جگہ پھیل گئیں۔

اس بناء پر مختلف فرقوں کی روح پر غور کرنا چاہیے۔ کبھی کوئی فرقہ حسن ظن اور ''ضع فعل اخیک علی احسنہ،، کی پیداوار ہوتا ہے ۔ مثلاً سنی جو شخصیتوں کے ساتھ حسن ظن کی پیداواری ہیں اور ایک فرقہ ایسا ہے جو ایک خاص نقطہء نظر اور افراد شخصیات کی بجائے اصول اسلامی کو اہمیت دینے کے نظریئے کو پیداوار ہے۔ ایسے لوگ قہراً تنقیدی نظر کے حامل ہوں گے جیسے صدر اول کے شیعہ۔ ایک فرقہ باطن، روح اور باطن کی تاویل کو اہمیت دینے کے نقطہء نظر کی پیداوار ہوگا جیسے صوفیاء اور ایک فرقہ تعصب اور جمود کی پیداوار جیسے خوارج۔

۱۴۶

جب ہم فرقوں کی روح اور ان کے ابتدائی تاریخی عوامل کو پہچان لیں تو بہتر طور پر فیصلہ کرسکیں گے کہ بد کی صدیوں میں کون سے عقائد ایک فرقے سے دوسرے فرقے تک پہنچے اور اپنے رسوم اور ناموں کے چوکھٹے میں ہونے کے وصف، ان کی روح کو قبول کرلیا ہے۔ اس اعتبار سے عقائد اور افکار زبانوں (نعتوں) کی مانند ہیں کہ بغیر کسی شعوری کوشش کے ایک قوم کی زبان کے الفاظ دوسری قوم کی زبان میں سرایت کرجاتے ہیں جیساکہ ایران کی فتح کے بعد مسلمانوں کے ذریعے عربی زبان کی الفاظ فارسی زبان میں وارد ہوگئے۔ اسی طرح عربی اور فارسی زبانوں میں ترکی زبان کی تاثیر ہے۔ مثلاً متوکل کے دور کی ترکی اور سلجوقیوں اور مغلوں کے دور کی ترکی اور یہی حال دنیا کی ساری زبانوں کا ہے ار اسی طرح ذوق اور سلیقے بھی ہیں۔

خوارج کے طرز تفکر اور ان کے افکار کی روح ___ فکری جود اور تعقل کو تدین سے علیحدہ کرنا ___ نے تاریخ کے دھارے میں مختلف صورتوں سے اسلامی معاشرے کے اندر رخنہ پیدا کیا ہے۔ اگرچہ تمام اسلامی فرقے ان کو اپنا مخالف سمجھتے پیں لیکن خارجیت کی روح کو پم ان کے طرز فکر میں (کار فرما) دیکھتے ہیں اور یہ اس کے نتیجے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے جو ہم نے کہا ہے کہ آدمی کی طبیعت (معنی اور مفہوم کو) چراتی ہے اور باہمی میل جول نے چرانے کے اس عمل کو آسان کردیا ہے۔

کچھ خارجی مسلک رکھنے والے ہر دور میں رہے ہیں اور ہیں، جن کا وطیرہ ہر نئی چیز کا مقابلہ کرنا ہے حتی کہ وسائل زندگی کو جن کے بارے میں ہم نے کہا ہے کہ اسلام میں کسی مادی وسیلہ یا ظاہری شکل کو کوئی تقدس کا مقام حاصل نہیں ہے، وہ ان کو تقدس کا رنگ دیتے ہیں اور ہر نئے وسیلے سے استفادہ کرنے کو کفر اور زندقہ سمجھتے ہیں۔

اسلام کے اعتقادی، علمی اور اسی طرح فقہی مکابت میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ایسے مکاتب ہیں جو تعقل اور تدین میں علیحدگی کی روح کی پیداوار ہیں اور ان کا مکتب جارجیت کی فکر کا صحیح معنوں میں جلوہ گاہ ہے۔ کسی حقیقت کے کشف کی راہ میں یا کسی فرعی قانون کے استخراج کی راہ میں انہوں نے عقل کو مکمل طور پر مسترد کررکھا ہے اور اس کی پیروی کو بدعت اور بے دینی کہتے ہیں حالانکہ قرآن نے بہت سی آیات میں انسان کوعقل کی طرف بلایا اور انسانی بصیرت کو دعوت الہی کا نگہبان قرار دیا ہے۔

۱۴۷

معتزلہ جو دوسری صدی ہجری کے اوائل میں وجود میں آئے تھے ___اور ان کی پیدائش کفر و ایمان کے معنی اور تفسیر کے اوپر بحث اور کاوش کے نتیجے میں ہوئی کہ آیا گناہ کبیرہ کا ارتکاب موجب کفر ہے یا نہیں اور یوں قہراً ان کی پیدائش خوارج کے ساتھ مربوط ہے ___ ایسے لوگ تھے جو کسی قدر آزاد فکر کرنا چاہتے تھے اور ایک عقلی زندگی کو وجود میں لانا چاہتے تھے، اگر چہ وہ علم کے مبادی اور مبانی سے بے بہرہ تھے تاہم اسلامی مسائل کو کسی حد تک آزادانہ غور و فکر اور تدبر کا موضوع قرار دیتے تھے، احادیث پر کسی حد تک تنقید کرتے تھے صرف ان آراء اور نظریات کی پیروی کرتے تھے جن پر ان کے اپنے عقیدے کے مطابق تحقیق کی گئی ہو یا اجتہاد کیا گیا ہو۔

یہ لوگ شروع سے ہی اہل حدیث اور ظاہر پرستوں کی مخالفت اور مقاومت سے دوچار تھے۔ وہ لوگ جو صرف حدیث کے ظواہر کوحجت جانتے تھے اور قرآن اور حدیث کی روح سے کوئی کام نہ رکھتے تھے، وہ عقل کے صریح حکم کی قدر و قیمت کے قائل نہ تھے۔ جس قدر معتزلہ فکر و اندیشہ کی قیمت کے قائل تھے یہ صرف ظواہر کی اہمیت کے اتنے ہی قائل تھے۔

اپنی ڈیڑھ سو سالہ زندگی میں معتزلہ کو عجیب قیاسات ( NOTIONS ) سے واسطہ پڑا یہاں تک کہ بالآخر اشعری مذہب وجود میں آیا اور تفکر اور اندیشہ ہائے عقلی اور فلسفیانہ طرز فکر کے سرے سے منکر ہوگئے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ مسلمانوں پر فرض ہے کہ جو روایات ان تک پہنچی ہیں ان کی ظاہری تعبیر پر آنکھیں بند کر کے عمل کریں اور معنی کی گہرائی میں تدبر اور تفکر نہ کریں ہر قسم کا سوال و جواب اور چون و چرا بدعت ہے۔ امام احمد بن حنبل جو اہلسنت کے ائمہ اربعہ میں سے ہےں معتزلہ کے طرز فکر کی سخت مخالفت کرتے تھے جس کے نتیجے میں ان کو قید میں ڈال دیا گیا اور کوڑوں کی سزا دی گئی لیکن وہ اپنی مخالفت پر قائم رہے۔ بالآخر اشعری کامیاب ہوگئے اور انہوں نے عقلی طرز فکر کی بساط لپیٹ دی اوران کی کامیابی سے عالم اسلام کی عقلی زندگی پر کاری ضربلگائی۔ اشاعرہ، معتزلہ کو اصحاب بدعت سمجھتے تھے ایک اشعری شاعر اپنے مذہب کی کامیابی کے بعد کہتا ہے:

۱۴۸

ذهبت دولة اصحاب البدع

و وهی حبلهم ثم انقطع

و تداعی بانصراف جمعهم

حزب الا بلیس الذی کان جمع

هل لهم یا قومفی بدعتهم

من فقیه او امام یتبع

(المتزلہ تالیف زہدی جاء اللہ ص ۱۸۵)

''صاحبان بدعت کی قددت کا زمانہ ختم ہوگیا۔ ان کی رسی ڈھیلی پڑگئی پھر ٹوٹ گئی۔ اور وہ گروہ جس کو شیطان نے اکٹھا کردیا تھا۔ انہوں نے ایک دوسرے کو پکارا کہ گروہ کو منتشر کردیں۔ اے ہم مسلکو! کیا اپنی بدعتوں میں ان کا کوئی قابل تقلید فقیہ یا امام تھا؟،،

''اخباریوں،، کا مکتب بھی جو ایک شیعہ مکتب فقہ ہے اور گیارہو ںاور بارہوں صدی ہجری میں عروج پر تھا۔ اہلسنت کے فرقوں ظاہریوں اور اہل حدیث کے بہت قریب ہے۔ فقہی نقطہ ء نظر سے ہر دو مکتب ایک ہیں اور ان کا واحد اختلاف احادیث کی پیروی کے بارے میں ہے ۔۔۔ یہ بھی تعقل اور تدین میں فرق کی ایک قسم ہے۔

اخباریوں نے عقل کو مکمل طور پر معطل کر رکھا ہے اور متون سے اسلامی احکام کے استخراج کے سلسلے میں عقل کی قمیت اور حجیت سے مکمل انکار کرتے ہیں اور اس کی پیروی کو حرام سمجھتے ہیں اور اپنی تالیفات میں اصولیئین ۔۔۔ ایک اور شیعہ مکتب فقہ کے حامی ۔۔۔ پر سخت برہم ہوئے ہیں اور کہتے ہیں کہ صرف کتاب و سنت حجت ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حجیت کتاب بھی تفسیر سنت و حدیث کی راہ سے ہے اور حقیقت میں قرآن کو بھی انہوں نے حجیت سے گرادیا ہے اور صرف حدیث کے ظاہر کو پیروی کے قابل سمجھتے ہیں۔

۱۴۹

اس وقت ہم اسلام میں مختلف طرز فکر کاجائزہ لینے اور ان مکاتب کے پیروکاوں پر بحث کرنے کے متحمل نہیں ہیں جو دین کو عقل سے جدا کرتے ہیں جو خارجیت کی روح ہے۔ اس بحث کا دامن بہت وسیع ہے لیکن ہمارا مقصد صرف یہ اشارہ کرنا تھا کہ مختلف فرقوں کا ایک دوسرے پر کتنا اثر ہے اور ی ہکہ اگر چہ خارجیت زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی لیکن اس کی روح ہر اسلامی دور اور ہر صدر میں جلوہ گر رہی ہے۔ آج بھی دنیائے اسلام کے چند روشن فکر اور اہل قلم ان کے طرز فکر کو جدید اور عصری زبان میں لے آتے اور اس کوایک قابل توجہ فلسفے کے ساتھ مربوط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

قرآن کو نوک نیزہ پر بلند کرنے کی سیاست

''قرآن کو نوک نیزہ پر بلند کرنے کی سیاست،، تیرہ صدیوں سے مسلمانوں میں کم و بیش رائج ہے۔ خاص طور پر جب مقدس مآب اور ظاہر پرست لوگوں کی تعداد زیادہ ہو جائے، زہد و تقویٰ کی ظاہر داری کا بازار گرم ہو، موقعہ پرست لوگ قرآن نوک نیزہ پر بلند کرنے کی سیات رائج کردیتے ہیں۔ یہاں سے جو سبق حاصل کیا جانا چاہیے وہ یہ ہے۔

الف:۔ پہلا سبق یہ ہے کہ جب بھی جاہل، نادان اور بے خبر لوگ پاکیزگی اور تقویٰ کے مظہر سمجھے جانے لگیں اور لوگ ان کو باعمل مسلمان کا نمونہ ( SYMBOL ) سمجھِنے لگیں اس وقت چالاک مفاد پرستوں کو اچھا موقعہ ہاتھ آجاتا ہے ۔ یہ چالاک لوگ ان کو اپنے مقاصد کے لیے آلہئ کار بنا لیتے ہیں اور ان کو حقیقی مصلحین کے افکار کی راہ میں مضبوط رکاوٹ بنالیتے ہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ اسلام دشمن عناصر باقاعدہ اس ذریعے سے فائدہ اٹھاتے ہیں یعنی اسلام کی طاقت کو انہو ںنے خ ود اسلام کے خلاف استعمال کیا ہے۔ مغربی استعمار کو اس ذریعے سے فائدہ اٹھانے کا وسیع تجربہ حاصل ہے۔ اپنے مفاد کے لیے یہ مسلمانوں کے درمیان جھوٹے جذبات ابھارنا اور خاص طور پر فرقے پیدا کرکے فائدہ حاصل کرتا ہے۔ کس قد شرم کی بات ہے کہ ایک دل جلا مسلمان بیرونی اثر و نفوذ کو ختم کرنے کے لیے اٹھے اور جن لوگوں کو وہ نجات دینا چاہتا ہے ،وہی دین اور مذہب کے نام پر اس کے لےے سد راہ بن جائیں جی ہاں! اگر لوگ عام لوگ جاہل اور بے خبر ہوں، تو منافق خود اسلام کے مورچے سے اپنے لیے استفادہ کریں گے۔

۱۵۰

ہمارے اپنے ایران میں جہاں لوگ اہلبیت اطہار کی ولایت اور دوستی پر فخر کرتے ہیں، کچھ منافق اہلبیت کے مقدس نام پر اور ''ولاء اہلبیت،، کے مقدس مورچے کے نام پر قرآن، اسلام اور اہل بیت کے خلاف اور غاصب یہودیوں کے مفاد میں مورچے تعمیر کرتے ہیں (یہ قبل از انقلاب اسلامی کی صورت حال کی طر ف اشارہ ہے۔ مترجم) اور یہ اسلام، قرآن، پیغمبر اکرم اور اہلبیت کرام پر سب سے زیادہ گھناؤنا ظلم ہے۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے:

انی ما اخاف علی امتی الفقر و لکن اخاف علیهم سوء التدبیر ___ '' میں اپنی امت کے لیے فقر و تنگدستی کی وجہ سے پریشان نہیں ہوں بلکہ امت کی جو چیز مجھے پریشان کرتی ہے وہ کچج فکری ہے۔ فکر کا افلاس میری امت کے لیے جتنا خطرناک ہے اقتصادی افلاس اتنا خطرناک نہیں ہے۔،،

ب:۔دوسرا سبق یہ ہے کہ ہمیں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ قرآن سے استنباط کرنے کا ہمارا طریقہ صحیح ہو۔ قرآن اسی صورت میں رہنما اور ہادی ہے کہ اس پر صحیح غور و فکر کیا جائے، اس کی عالمانہ تفسیر کی جائے اور اہل قران جو علم میں قرآن کے راسخین ہیں، کی رہنمائی سے فائدہ اٹھایا جائے۔ جب تک قرآن سے استنباط کرنے کا ہمارا طریقہ صحیح نہ ہو اور جب تک ہم قرآن سے استفادہ کرنے کی راہ اور اس کا اصول نہ سیکھیں ہم اس سے بہرہ مند نہیں ہوسکتے۔ مفاد پرست یا نادان لوگ کبھی قرآن کو پڑھتے ہیں اور بائل مطلب کے پیچھے چلتے ہیں۔ جیسا کہ آپ نے نہج البلاغہ کی زبان سے سنا کہ وہ حق بات کہتے ہیں اور اس سے باطل مراد لیتے ہیں یہ قرآن پر عمل کرنا اور اس کا احیاء نہیں ہے۔ بلکہ یہ قرآن کو مار ڈالنا ہے۔ قرآن پر عمل تب ہے جب اس سے صحیح مطلب درک کیا جائے۔

۱۵۱

قرآن ہمیشہ مسائل کو اصول اور کلیہ کی صورت میں پیش کرتا ہے لیکن کلی جزئی پر تطبیق صحیح فہم اور ادراک کے اوپر منحصر ہے۔ مثلاً قرآن میں کہیں یہ نہیں لکھا ہے کہ فلان روز علی علیہ سلام اور معاویہ کے درمیان جنگ ہوگی اور یہ کہ حق علی علیہ سلام کے ساتھ ہے، قرآن میں صرف اس قدر آیا ہے کہ :

( و ان طائفتان من المومنین اقتتلو فاصلحوا بینهما فان بغت احدٰهما علیٰ الاخرٰی فقاتلوا التی تبغی حتی تفیئی الی امر الله )

(سورہ حجرات آیت نمبر ۹)

''اگر مؤمنون کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں، تو ان کے درمیان صلح کرادو اور اگر ان میں سے ایک دوسرے پر سرکشی اور ظلم کرے تو جو ظالم ہے اس کے ساتھ جنگ کرو، یہاں تک کہ وہ خدا کے حکم کی طرف رجوع کرلے۔،،

یہ قرآن اور اس کا طرز بیان ہے لیکن قرآن نہیں کہتا کہ فلاں جنگ میں فلاں حق پر ہے اوردوسرا باطل پر؟! قرآن ایک ایک کا نام نہیں لیتا۔ وہ نہیں کہتا کہ چالیس سال بعد یا اس کے بعد معاویہ نام کا ایک آدمی پیدا ہوگا اور علی علیہ سلام کے ساتھ جنگ کرے گا تم علی علیہ سلام کی طرف سے جنگ کرو اورجزئیات پر بحث ہونی بھی نہیں چاہےے قرآن کے ہیے ضروری نہیں ہے کہ موضوعات کو گن کر حق اور باطل پر انگلی رکھ کے بتادے ایسا ممکن نہیں ہے۔ قرآن ہمیشہ رہنے کے لیے آیا ہے پس اسے چاہیے کہ اصول اور کلیات کو واضح کرے تاکہ جب بھی کسی زمانے میں کوئی باطل حق کے بالمقابل کھڑا ہوتو لوگ ان کلیات کو معیار بنا کر عمل کریں۔یہ لوگوں کا اپنا وظیفہ ہے کہ اصل دکھا دینے (وان طائفتان من المؤمنین اقتلوا ۔۔۔ الخ) کے بعد اپنی آنکھین کھلی رکھیں اور سرکش اور غیر سرکش گروہ میں تمیم کریں اور اگر سرکش گروہ صحیح معنوں میں سرکشی سے ہاتھ اٹھالے تو قبول کریں اور اگر ہاتھ نہ اٹھالے اور حیلہ کرے اور صرف اس لیے کہ اپنے آپ کو شکست سے بچائے تاکہ نیا حملہ کرنے کا موقعہ پالے اور پھر سرکشی کرنے کے لیے اس آیت کا جس میں خدا فرماتا ہے:

۱۵۲

( فان فاء ت فاصلحوا بینهما )

دامن تھام لے، تو اس کے حیلہ کو قبول نہ کریں۔

ان تمام چیزوں کی تشخیص کرنا خود لوگوں کا کام ہے۔ قرآن چاہتا ہے کہ مسلمان عقلی اور اجتماعی طور پر بالغ ہوں اور اسی عقلی بلوغت کے ساتھ مرد حق اور غیر مرد حق میں تمیز کریں۔ قرآن اس لیے نہیں آیا ہے کہ ہر وقت لوگوں کے ساتھ اس طرح رویہ رکھے جس طرح نابالغ بچے کے ساتھ اس کا ولی عمل کرتا ہے، زندگی کی جزئیات کو کسی کے سرپرست کی حیثیت سے انجام دے اور ہر خاص موضوع کی علامت اور محسوس اشاروں سے تعین کرے۔

بنیادی طور پر اشخاص کی پہچان، ان کی صلاحیتوں، اہلیتوں اور اسلام اور اسلام کے حقائق کے ساتھ ان کی وابستگی کو پرکھنا بذات خود ایک فریضہ ہے اور غالباً ہم اس اہم فریضے سے غافل ہیں۔ علی علیہ السّلام فرماتے تھے:

''انکم لن تعرفوا الرشد حتی تعرفو الذی ترکه،،

(نہج البلاغہ خطبہ ۱۴۷)

''تم ہرگز حق کو نہیں پہچان سکتے اور راہ راست پر نہیں پہنچ سکتے جب تک اس شخص کو نہ پہچانو جس نے راہ راست کو چھوڑ دیا ہے۔،،

یعنی صرف اصول اور کلیات کی شناخت کا کوئی فائدہ نہیں ہے جب تک مصداق اور جزئیات سے ان کی تطبیق نہ ہو کیونکہ ممکن ہے افراد یا اشخاص کے بارے میں غلط فہمی کی وجہ سے یا موضوع کو نہ پہچاننے کی وجہ سے تم اسلام، حق اور اسلام کے رسوم کے نام پر اسلام اور حقیقت کے خلاف اور باطل کے مفاد میں کام کر رہے ہو۔

قرآن میں ظلم، ظالم، عدل اور حق کا ذکر آیا ہے لیکن دیکھناچاہیے کہ ان کے مصداق کون ہےں؟ کہیں ہم کسی ظلم کو حق، اور کسی حق کو ظلم نہ سمجھ رہے رہوں؟ اور پھر انہی کلیات کے تحت اور اپنے خیال میں قرآن کے حکم پر عدالت اور حق کو ختم نہ کر رہے ہوں؟

۱۵۳

نفاق کے ساتھ جنگ کرنے کی ضرورت:

تمام جنگوں میں سب سے مشکل نفاق کے ساتھ جنگ کرنا ہے کیونکہ یہ اسیے شاطروں کے ساتھ جنگ ہے جو بیوقوفوں کو آلہء کار قرار دیتے ہیں۔ یہ جنگ کفر کے ساتھ جنگ کرنے سے کہیں زیادہ مشکل ہے کیونکہ کفر کے ساتھ جنگ میں مقابلہ ایک واضح، ظاہر اور بے پردہ معاملے سے ہے لیکن نفاق کے ساتھ جنگ کرنا ایک پوشیدہ کفر کے ساتھ جنگ ہے۔ نفاق کے دو چہرے ہوتے ہیں ایک ظاہری چہرہ جو اسلام اور مسلمانی کا ہے اور ایک چہرہ باطن کا جو کفر اور شیطنت ہے اور اس کا پچاننا عام لوگوں اور معمولی افراد کے لےے بہت دشوار ہے اور بسا اوقات ناممکن ہے۔ اس طرح نفاس کے ساتھ جنگ کرنا غالباً شکست کھان کیونکہ عام لوگوں کے ادراک کی لہریں ظاہر کی سرحد سے آگے نہیں بڑھتیں اور پوشیدہ چیزوں کو روشن نہیں کرتیں اور اتنی گہری نہیں ہوتی کہ باطن کی گہرائیوں میں اتر جائیں۔ امیر المومنین اس خط میں محمد ابن ابی بکر کولکھا گیا، فرماتے ہیں:

''ولقد قال لی رسول الله! انی لا اخاف علی امتی مومنا ولا مشرکاء اما المؤمن فیمنعه الله باایمانه و اما المشرک فیقمعه الل ه بشرکه و لکنی اخاف علیکم کل منافق الجنان عالم اللسان، یقول ما تعرفون و یفعل

۱۵۴

ماتنکرون ۔،،(۱)

''پیغمبر نے مجھ سے کہا میں اپنی امت پر مومن اور مشرک سے نہیں ڈرتا کیونکہ مؤمن کو خدا اس کے ایمان کی وجہ سے باز رکھتا ہے اور مشرک کو اس کی سرکشی کی وجہ سے رسوا کرتا ہے لیکن تمہارے اوپر منافق دل اور دانا زبان سے ڈرتاہوں کیونکہ وہ وہی کہتا ہے جو تم پسند کرتے ہو اور جسے تم ناپسند کرتے ہو اسے کرگزرتا ہے۔،،اس مقام پر رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نفاق اور منفاق کی طرف خطرے کا اعلان کرتے ہیں کیونکہ امت کے عام لوگ بے خبر اور ناآگاہ ہیں اور ظاہر داریوں سے دھوکہ کھا جاتے ہیں۔(۲)

____________________

۱) نہج البلاغہ نامہ ۲۷---- (۲) اسی لیے ہم اسلامی تاریخ کے دھارے میں دیکھتے ہیں کہ جب بھی کسی مصلح نے لوگوں، ان کی اجتماعی و دینی زبوں حالی کی اصلاح کی خاطر قیام کیا ہے اور مفاد پرستوں اور ظالموں کا مفاد خطرے میں پڑا ہے انہوں نے فوری طور پر تقدس کا لبادہ پہن لیا ہے اور تقویٰ اور دین کی ظاہر داری سے کام لیا ہے ۔ عباسی خلیفہ، مامون الرشید جس کی عیاشیاں اور فضول خرچیاں حکمرانوں کی تاریخ میں مشہور و معروف ہیں جب وہ علویوں کو دیکھتا ہے کہ انقلاب کی کوشش کر رہے ہیں فوراً شاہی جبہ اتار پھینکتا اور پیوند لگے ہوئے کپڑے پہن کر اجتماعات میں آنکتا ہے۔ ابو حنیفہ اس کا فی جس نے اس کے درہم و دینار سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا ہے مامون کے اس کام کو سراہتا ہے اور تعریف میں کہتا ہے:

مامون کز ملوک دولت اسلام ---ہگز چون اوند ید تازی ودہقان

مامون کہ اسلامی ممالک کے بادشاہوں میں اس کی طرح کوئی نہیں دیکھا گیا، بد اور دہقان کی طرح سادہ

جبہ ای از حزبداشت برتن و چندان ---سودہ و فرسودہ گشت بروی و خلقان

کسی وت اس کا ریشمی جبہ تھا جو اس کے دوش پر ہوتا تھا اور بہت نرم ونازک تھا مگر اب وہ پرانا ہوگیا اور پھٹ چکا ہے

مرند مارا از آن فزود تعجب ---کردند از وی سوال از سبب آن

ہم نشینوں کو اس پر سخت تعجب ہوا انہو ںنے سوال کیا کہ اس کا سبب کیا ہے

گفت ز شاہان حدیث ماند باقی ---در عرب و در عجم نہ توزی و کنان

اس نے کہا: بادشاہوں کی ایک بات باقی رہنے دو عرب و عجم میں کہ اس کے پاس کوئی سلاہوا سن کا کپڑا نہ تھا

۱۵۵

اور دوسروں میں بھی ہر ایک نے ''قرآن کو نیزہ پر بلند کرنے کی،، تخریبی گھسی ٹی سیاست کا سہارا لیا اور (مصلحین کی) تمام زحمتوں اور قربانیوں کی سرکوبی کی اور انقلابات کو ابتداء ہی میں کچل دیا اور یہ لوگوں کی جہالت اور نادانی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے کہ وہ رسوم اور حقائق کے درمیان تمیز نہیں کرتے اور اس طرح اپنے اوپر انقلاب اور اصلاح کی راہ بند کرتے ہیں ارو اس وقت بیدار ہوتے ہیں جب تمام اسباب بے اثر ہوجائیں اور پھر نئے سرے سے سفر شروع کریں۔

یاد رکھنا چاہیے جتنے احمق لوگ زیادہ ہوں گے نفاق کا بازار تانا ہی گرم ہوگا۔

احمق اور حماقت سے جنگ کرنا نفاق کے ساتھ جنگ کرنا ہے کیونکہ احمق منافق کا آلہئ کار ہوتا ہے لہذالازمی طورپر احمق اور حماقت کے ساتھ جنگ کرنا، منافق سے اسلحہ چھین لینے اور منافق کے ہاتھ سے تلوار چھین لینے کے مترادف ہے۔

علی علیہ سلام کی سیرت سے جو عظیم نکتے ہمیں ملتے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس طرح کی جنگ کسی خاص جمعیت کے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ جہاں بھی کچھ مسلمان اور وہ جو وضع دینی رکھتے ہیں اور غیروں کی ترقی اور استعماری مقاصد کو آگے بڑھانے میں آلہئ کار قرار پائیں اور استعمار گر اپنے مفادات کو بچانے کے لیے ان کو آگے کرکے ان کو اپنے لیے ڈھال بنائیں اور ان کے ساتھ جنگ کرنا ان ڈھال بننے والوں کو ختم کیا جائے تاکہ راہ کی رکاوٹ ختم ہو جائے اور دشمن کے قلب پر حملہ کیا جاسکے خوارج کو بگاڑنے کےلئے معاویہ کی کوشش شاید کامیاب تھیں اسی لیے اس روز بھی معاویہ اور اسی قبیل کے کچھ لوگ جیسے اشعث ابن قیس وغیرہ تخریب کار عناصر نے خوارج کو ڈھال بنا رکھا تھا۔

خوارج کو داستان ہم کو یہ حقیقت سمجھا دیتی ہے کہ ہر انقلاب میں پہلے ڈھال بننے والے کو نابود کر دینا چاہیے اور حماقتوں سے جنگ کرناچاہیے جس طرح علی علیہ سلام نے تحکیم کے واقع کے بعد پہلے خوارج سے نمٹ لیا اس کے بعد معاویہ کا تعاقب کرنا چاہا۔

۱۵۶

علی علیہ سلام ___ سچے امام اور پیشوا

وجود علی علیہ سلام، تاریخ و سیرت عی، خلق و خوی علی علیہ سلام، رنگ و بوئے علی علیہ سلام، سخن وگفتگوئے علی علیہ سلام سراسر درس ہے، سرمشق ہے، تعلیم ہے اور رہبری ہے۔

جس طرح علی علیہ سلام کے جاذبے ہمارے لئے سبق آموز اور درس ہیں ان کے دافع بھی اسی طرح ہیں ہم معمولاً علی کی زیارتوں اور اظہار ادب کے سارے پیرایوں میں دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم تمہارے دوست کے دوست اور تمہارے دشمن کے دشمن ہیں اس جملے کی دوسری تعبیر یہ ہے کہ ہم اس نقطے کی طرف جا رہے ہیں جو تمہارے جاذبے کے مدار میں قرار پاتا ہے اور تم جذب کرتے ہو اور اس نقطے سے دوری اختیار کرتے ہیں جس کو تم دفع کرتے ہو۔

جو کچھ ہم نے گزشتہ بحثوں میں کہا ہے وہ علی علیہ سلام کے جاذبہ اور واقعہ کا ایک گوشہ تھا ، خاص طور پر دافعہ علی کے بارے میں ہم نے اختصار سے کام لیا ہے لیکن جو کچھ ہم نے کہا ہے اس سے یہ معلوم ہوا کہ علی نے دو گروہوں کو سختی سے دفع کیا ہے۔

۱: شاطر منافق

۲: زاہدان امق

ان کے شیعہ ہونے کے دعویداروں کیلئے یہی دو سبق کافی ہیں کہ وہ اپنی آنکھیں کھولیں اور منافقوں کے فریب میں نہ آئیں۔ وہ تیز نظر رکھنے والے بنیں اور ظاہر بینی کو چھوڑ دیں کہ آج جامعہ تشیع ان دو مصیبتوں میں سخت مبتلا ہے۔

والسلام علیٰ من اتبع الهدیٰ

اختتام ترجمہ ۱۳ ستمبر ۱۹۸۵ء بروز جمعہ

بوقت ۴۰ ۔ ۱۲ ظہر

۱۵۷

فہرست

پیش لفظ ۴

مقدمہ ۸

قانونِ جذب و دفع ۸

انسانی دنیا میں جاذبہ و دافعہ ۹

جذب و دفع کے سلسلے میں لوگو ں کے درمیان فرق ۱۲

علی علیہ السّلام۔ دوہری قوت والی شخصیت ۲۱

جاذبہئ علی علیہ السلام کی قوت ۲۴

طاقت ور جاذبے ۲۴

تشیّع ۔ مکتب عشق و محبت ۳۱

اکسیرِ محبت ۳۴

حصار شکنی ۴۳

عشق۔ تعمیر ہے یا تخریب ۴۵

اولیاء سے محبت و ارادت ۵۲

مؤمنین کی آپس میں محبت ۵۵

معاشرے میں محبت کی قوت ۵۸

تہذیبِ نفس کا بہترین وسیلہ ۶۲

تاریخ اسلام سے مثالیں ۷۴

دوسری مثال ۷۶

ایک اور مثال: ۸۰

ایک مثال اور: ۸۳

۱۵۸

علی علیہ سلام کی محبت قرآن و سنت میں ۸۷

طہارت و پاکیزگی کا خزینہ: ۸۸

جاذبہئ علی علیہ سلام کا راز ۹۳

دافعہئ علی علیہ سلام کی قُوّت ۹۸

علی علیہ سلام کی دشمن سازی ۹۸

ناکثین و قاسطین و مارقین ۱۰۰

خوارج کا ظہور ۱۰۲

اصول عقائد خوارج ۱۱۱

خلافت کے بارے میں خوارج کا عقیدہ ۱۱۲

خلفاء کے بارے میں خوارج کاعقیدہ ۱۱۳

ہمیشہ ان کے ساتھ برسرپیکار رہتے تھے۔ ۱۱۴

خوارج کا خاتمہ ۱۱۴

رُسوم یا روح ۱۱۵

علی علیہ سلام کی جمہوریت ۱۲۲

خوارج کی بغاوت اور سرکشی ۱۲۳

خوارج کی نمایاں خصوصیّات ۱۲۵

اسلامی فرقوں کا ایک دوسرے پر اثر: ۱۴۶

قرآن کو نوک نیزہ پر بلند کرنے کی سیاست ۱۵۰

نفاق کے ساتھ جنگ کرنے کی ضرورت: ۱۵۴

علی علیہ سلام ___ سچے امام اور پیشوا ۱۵۷

۱۵۹