جاذبہ و دافعہ علی علیہ السلام

جاذبہ و دافعہ علی علیہ السلام0%

جاذبہ و دافعہ علی علیہ السلام مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 159

جاذبہ و دافعہ علی علیہ السلام

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: استاد شہید مرتضیٰ مطہری
زمرہ جات: صفحے: 159
مشاہدے: 36851
ڈاؤنلوڈ: 4417

تبصرے:

جاذبہ و دافعہ علی علیہ السلام
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 159 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 36851 / ڈاؤنلوڈ: 4417
سائز سائز سائز
جاذبہ و دافعہ علی علیہ السلام

جاذبہ و دافعہ علی علیہ السلام

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

کرد ویران خانہ بہر گنج زر

اس نے اپنا گھر خزانہ کے لیے ویران کیا

و ز ہمان گنجش کند معمور تر

اور اسے مزید زر سے بھر دیا

آب را ببرید و جو را پاک کرد

وہ پانی لے گیا اور نہر کو خالی کیا

بعد ازاں در جو رواں کرد آب خورد

پھرپانی کو نہر میں جاری کر دیا اور پانی پیا

پوست را بشگافت پیکان را کشید

اس نے پوست کو شگافتہ کیا اور پیکان کھینچا

پوست تازہ بعد از آتش برومید

اس کے بعد اس پر تازہ پوست اسے پہنچایا

۴۱

کاملان کز سرّ تحقیق آ گھند

کامل لوگ جو تحقیق کے رازکو جانتے ہیں

بی خود حیران و مست و والہ اند

وہ بے خود، حیران اور مست ہیں

نہ چنین حیران کن پشتش سوی اوست

بل چنان حیران کہ غرق و مست دوست(۱)

اس طرح حیران نہ ہو کہ اس کی پشت تیری طرف ہوبلکہ اس طرح حیران کردہ محبوب کی محبت میں غرق ہو۔

____________________

(۱) مثنوی معنوی

۴۲

حصار شکنی

قطع نظر اس سے کہ اس کی نوعیت جنسی ہے، نسلی ہے یا انسانی، نیز قطع نظر اس سے کہ محبوب کس طرح کی صفات اور خصوصیات کا حامل ہے۔ دلیر اور بہادر ہے، ہنر مند ہے، عالم ہے، یا مخصوص اخلاق و آداب اور خوبیوں کامالک ہے، عشق و محبت انسان کو خودی اور خود پرستی (کے خول) سے باہر نکالتی ہے۔ خود پرستی محدودیت اور حصار ہے۔ کسی دوسرے کے ساتھ عشق مطلقاً اس حصار کو توڑ دیتا ہے۔ جب تک انسان اپنی ذات کے خول سے باہر نہیں نکلتا وہ کمزور، ڈرپوک، چمک دمک نہیں ہوتی، جوش اور ولولہ نہیں ہوتا۔ وہ ہر وقت سرد اور خاموش ہوتا ہے۔ مگر جونہی انسان اپنی ذات کے خول سے باہر قدم رکھتا اور خودی کے حصار کو توڑ دیتا ہے، یہ ساری برائیاں ختم ہو جاتی ہےں۔

ہر کرا جامہ زعشقی چاک شد

او ز حرص و عیب کلی پاک شد

جس کا جامہ کسی عشق میں چاک ہوا۔ وہ لالچ اور دیگر عیوب سے بالکل پاک ہوا ۔

۴۳

خود پرستی کے حصار کو توڑ دینے کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ انسان اپنی ذات کے ساتھ دلچسپی کو یکسر نظر ختم کر دے اور یوں خود پرستی سے آزاد ہو۔ یہ بات بے معنی ہے کہ کوئی انسان یہ کوشش کرے کہ اپنی ذات کو دوست نہ رکھے۔ اپنی ذات سے دلچسپی جسے حُبّ ذات سے تعبیر کیا جاتا ہے، کوئی بری چیز نہیں ہے کہ جسے ختم کرنا ضروری ہے۔ انسان کی اصلاح اور تکمیل اس طرح نہیں ہوتی کہ اس مفروضے پر کہ انسان کے وجود میں چند غیر ضروری امور ہیں اور یہ کہ ان غیر ضروری اور مضر امور کو معدوم کر دیا جاناچاہیے۔ دوسرے لفظوں میں انسان کی اصلاح اس کے وجود سے کسی شئے کو کم کرنے میں نہیں بلکہ اس (وجود) کی تکمیل اور اس میں اضافہ کرنے میں ہے۔ فطرت نے انسان پر جو ذمہ داری ڈالی ہے وہ خلقت کا تکامل اور اس میں اضافہ کرنا ہے، نہ کہ اس میں کمی کرنا۔

خود پرستی کامقابلہ کرنے کے معنی یہ ہیں کہ اپنی '' ذات '' کو محدودیت سے بچایا جائے۔ اس ''خود '' کو وسعت پانا چاہیے اور ''خود '' کے گرد جو حصار کھینچا گیا ہے اسے توڑ دیا جانا چاہےے جس کی وجہ سے اس سے مربوط شخص یا فرد کے علاوہ ہر چیزبیگانہ اور ''خود '' سے خارج نظر آتی ہے۔ شخصیت کو اس قدر وسعت پا جانا چاہےے کہ تمام انسانوں بلکہ پوری کائنات کا احاطہ کرے۔ پس خود پرستی سے مقابلہ کرنے کا مطلب اپنی ذات کی محدودیت کا مقابلہ کرناہے، کیونکہ خود پرستی افکار اور میلانات کو محدود کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ عشق، انسان کی دلچسپی اور اس کے میلانات کو اس کی ذات سے باہر لے جاتا، اس کے وجود کو وسعت بخشتا اوراس کے پیکر ہستی کو بدل دیتا ہے اوراسی لیے عشق و محبت ایک عظیم اخلاقی اور تربیتی عنصر ہے بشرطیکہ صحیح ہدایت ہواور صحیح طریقے سے اس سے استفادہ کیا جائے۔

۴۴

عشق۔ تعمیر ہے یا تخریب

کسی شے یا شخص کی محبت جب شدت کی انتہا کو پہنچ جاتی ہے ا س طرح کہ انسان کے وجود کو مسخر کرکے اس کے وجود پر اس کی مکمل حکمرانی ہو، تو اس کانام عشق ہے۔ عشق محبت اور جذبات کی انتہا ہے۔

لےکن یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ جسے یہ (عشق) نام دیا جاتا ہے اس کی صرف ایک قسم ہے۔ اس کی مکمل طور پر دو مختلف قسمیں ہیں: ایک قسم وہ ہے جس کے نتائج کو اچھا کہا جائے لیکن اس (عشق) کی دوسری قسم کے نتائج مکمل تخریبی اور منفی ہیں۔

انسانی جذبات کی قسمیں اور مراتب ہیں۔ ان میں سے ایک شہوت، خاص طور پر جنسی شہوت کی قسم ہے جو کئی اعتبار سے انسان اور تمام حیوانات میں مشترک ہے۔ اس فرق کے ساتھ کہ انسان میں یہ جذبہ ایک خاص اور ناگفتہ علت کی بناء پر انتہائی شدت اختیا رکرتا ہے اور اسی وجہ سے لوگ اس کا ناعشق رکھ لیتے ہیں اور حیوان میں (یہ جذبہ) اس طرح نہیں ہوتا لیکن بہرحال اپنی حقیقت اور ماہیت کے اعتبار سے یہ شہوت کے جوش، شدت اور طوفان کے علاوہ کچھ نہیں۔ یہ (جذبہ) جنسی ذرائع سے پیدا ہوتا ہے اور وہیں ختم ہوتا ہے۔

اس میں افزائش اور کمی کا تعلق آلہئ تناسل کی طبعی کارکردگی اور قہراً سن جوانی سے ہے۔ ایک طرف عمر میں اضافے اور دوسری طرف رُجھ جانے اور طاقت میں کمی کے ساتھ یہ کم ہوتا اور بالآخر ختم ہو جاتا ہے۔

۴۵

اس جوان کو جو کسی حسین چہرے اور زلف پیمان کودیکھتے ہی لرزنے اور کسی نرم و نازک ہاتھ کے لمس سے ہی بل کھانے لگتا ہے، یہ جان لینا چاہیے کہ معاملہ مادی اور حیوانی اثر کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ اس طرح کے عشق جلد آتے ہیں اور جلد جاتے ہیں۔ یہ قابل اعتماد ہے نہ قابل تعریف بلکہ خطرناک اور فضیلت کش ہے۔ صرف وہی شخص فائدے میں رہتا ہے جو پاکدامنی اور تقویٰ کی مدد سے اس کے سامنے ہتھیار نہ ڈالے۔ یعنی یہ قوت بذات خود انسان کو کسی فضیلت کی طرف آمادہ نہیں کرتی لیکن اگر یہ آدمی کے وجود میں رخنہ ڈالے اور پاکدامنی اور تقویٰ کی قوت سے اس کی کشمکش ہو اور روح اس کے دباؤ کو برداشت کرتے ہوئے اس کے سامنے سپر نہ ڈالے تو روح کو قوت و کمال بخشتی ہے۔

انسان جذبات کی ایک دوسری قسم رکھتا ہے جو اپنی حقیقت اور ماہیت کے اعتبار سے شہوت سے مختلف ہے۔ بہتر ہے کہ ہم اسے محبت (عاطفہ) یا قرآن کی تعبیر میں ''مؤدت '' اور ''رحمت '' کا نام دیں۔

انسان جب تک اپنی شہوتوں کے زیر اثر ہے وہ (گویا) اپنی ذات سے باہر نہیں نکلا ہے۔ وہ اپنی پسند کی چیز یا شخص کو اپنے لیے طلب کرتااور شدت سے چاہتا ہے۔ اگر وہ معشوق اور محبوب کے بارے میں سوچتا ہے تو اس طرح سوچتا ہے کہ کس طرح اس کے وصال سے بہرہ مند ہو اور زیادہ سے زیادہ لطف اٹھائے۔ صاف ظاہر ہے کہ ایسی صورت حال انسان کی روح کی تکمیل، تربیت اور اسے پاکیزہ نہیں کر سکتی۔

۴۶

لیکن جب انسان اپنے اعلیٰ انسانی عواطف کے زیر اثر قرار پاتا ہے تو محبوب و معشوق اس کی نظر میں احترام و عظمت پیدا کرتا ہے اور وہ اس (محبوب و معشوق) کی نیک بختی چاہتا ہے۔ وہ محبوب کی خواہشات پر اپنے آپ کو قربان کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ اس طرح کے عواطف خلوص، راستی، فیاضی، نرم خوئی اور ایثار پیدا کرتے ہیں۔ برخلاف پہلی قسم کے جس سے تند خوئی، درندگی اور جنایت ابھرتی ہےں۔ بچے لےے ماں کی مہرو محبت اسی قسم سے ہے۔ اولیاء اور مردان خدا سے محبت، اسی طرح وطن سے محبت بھی اسی قسم سے ہے۔ یہ جذبات کی وہ قسم ہے کہ اگر انتہائے کمال کو پہنچ جائے تو وہ تمام اچھے نتائج جن کی ہم نے پہلے تشریح کی ہے، مرتب ہوتے ہیں اور یہی قسم ہے جو روح کو بلندی، انفرادیت اور عظمت عطا کرتی ہے۔ جبکہ پہلی قسم روح کو زبوں کرنے والی ہے اور عشق کی یہی قسم ہے جو پائدار ہے اور وصال سے یہ اورتیز و تند ہوجاتا ہے۔ ا س کے برعکس پہلی قسم ناپائدار ہے اور وصال اس کا مدفن شمارہوتا ہے۔

قرآن کریم میاں بیوی کے رابطہ کو ''مودت '' اور ''رحمت'' کے کلمات سے تعبیر(۱) کرتا ہے اور یہ بہت اہم نکتہ ہے اور ازدواجی زندگی میں حیوانی سطح سے بلند جو انسانی پہلو ہے اس کی طرف اشارہ ہے نیز اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ صرف شہوت کا عنصر ہی ازدواجی طبعی زندگی سے مربوط نہیں ہے بلکہ اصلی رابطہ خلوص، سچائی اور دو روحوں کے درمیان اتحاد ہے۔ دوسرے لفظوں میں میاں بیوی کو یگانگت کے رشتے میں منسلک کرنے والی چیز محبت و مودت اور خلوص و سچائی ہے نہ کہ شہوت جو حیوانوں میں بھی ہے۔

مولوی(۲) اپنے خوبصورت انداز میں شہوت اور مودت میں فرق بیان کرتے ہوئے اُس (شہوت) کو حیوانی اور اس (مودت) کو انسانی قرار دیتا ہے۔ کہتا ہے:

____________________

(۱)وَ مِنْ اٰیٰتِه اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْآ اِلَیْهَا وَ جَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّةً وَّ رَحْمََةَ ۔(۳۰روم:۲۱) اور یہ اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے ازواج پیدا کیے تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے مابین محبت اور مہربانی پیدا کی ۔

(۲)مولانا رومی

۴۷

خشم و شہوت وصف حیوانی بود

مہر و رقت وصف انسانی بود

غصّہ اور شہوت حیوانی صفات ہیں

محبت و مہربانی انسانی اوصاف ہیں

این چنین خاصیتی در آدمی است

مہر حیوان را کم است آن از کمی است

ایسی خوبیاں انسان میں ہیں

حیوان میں محبت کی کمی ہے، اور یہ اس کا نقص ہے۔

مادیت کے فلسفے کا پرچار کرنے والے بھی انسان کی اس معنوی حالت سے انکار نہیں کرسکے ہیں جو کئی جہات سے غیر مادی ( Metaphysical ) پہلو رکھتی ہے اور انسان اور مافوق انسان کے مادی ہونے (کے فلسفے) سے سازگار نہیں ہے۔ برٹرینڈرسل اپنی کتاب ''شادی اور اخلاق '' میں کہتا ہے:

ایسا کام جس کا واحد مقصد کمانا ہو مفید نتائج پیدا نہیں کر سکتا۔ اس طرح کے نتیجے کے لیے اس کام کو اختیار کرنا چاہیے کہ جس میں ایک فرد یا ایک مقصد یا غایت پر یقین پوشیدہ ہو۔ عشق کا مقصد بھی اگر محبوب کا وصال ہو تو وہ ہماری شخصیت کی تکمیل نہیں کر سکتا اور مکمل طورپر ایسے کام کی طرح ہے جو ہم پیسے کے لیے انجام دیتے ہیں۔ اس کمال تک پہنچنے کے لیے ہمیں چاہیے کہ محبوب کے وجود کو اپنے وجود کی طرح جانیںاور اس کے جذبات و احساسات کو اپنا سمجھیں۔

۴۸

دوسرا نکتہ جس کا ذکر کرنااور جس کی طرف توجہ دینا چاہیے یہ ہے کہ شہوانی عشق بھی ممکن ہے فائدہ مند واقع ہو اور ایسااس وقت ہو سکتا ہے جب وہ تقویٰ اور پاک دامنی کے ساتھ مربوط ہو۔ یعنی ایک طرف فراق و نارسائی اور دوسری طرف پاکیزگی و عفت کی وجہ سے روح پرجو سوز و گداز اور دباؤ اور سختی وارد ہوتی ہے اس کے مفید نتائج نکل سکتے ہیں۔ اسی سلسلے میں عرفاء کہتے ہی ںکہ عشق مجازی، عشق حقیقی یعنی ذات احدیت کے ساتھ عشق میں تبدیل ہوجاتا ہے اوراسی سلسلے میں روایت کرتے ہیں:

من عشق و کتم و عف و مات مات شهیدا

جو عشق کرے اوراسے پوشیدہ رکھے اور پاک دامنی کی حالت میں مرجائے تو وہ شہید مرا ہے۔

لیکن اس نکتے کو فراموش نہیں کیا جانا چاہیے کہ عشق کی یہ قسم ان تمام فوائد کے باوجود جو یقیناً مخصوص حالات میں حاصل ہوتے ہیں، قابل تعریف نہیں ہے اور بہت خطرناک ہے۔ اس لحاظ سے یہ مصیبت کی مانند ہے جو اگر کسی پر آپڑے اور وہ صبر و رضا کی قوت سے اس کا مقابلہ کرے تو نفس کو پاک اور مکمل کرنے والی ہے، خام کو پختہ اور آلودہ کو صاف کرتی ہے۔ لیکن مصیبت قابل تعریف نہیں ہے۔ کوئی شخص اس تربیتی عنصر سے فائدہ اٹھانے کی خاطر اپنے لیے مصیبت پیدا کرے۔

رسل یہاں بھی ایک قیمتی بات کہتا ہے:

قوت ( Energy ) رکھنے والے شخص کے لیے مصیبت ایک گرانبہا محرک ہے۔ وہ شخص جو اپنے آپ کو مکمل طور پر خوش بخت سمجھتا ہے، وہ مزید خوش بختی کے لیے کوئی کوشش نہیں کرتا۔ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ یہ اس بات کا جواز ہو کہ ہم دوسروں کو اس لیے رنج پہنچائیں تاکہ وہ کسی مفید راہ میں طرف قدم بڑھائیں۔ کیونکہ عموماً اس کا نتیجہ اس کے برعکس ہوتا ہے اور انسان کو درہم برہم کر دیتا ہے۔

۴۹

اس طرح تو یہ بہتر ہوگا کہ ہم اپنے آپ کو ان حادثات کے حوالے کر دیں جو ہمارے راستے میں پیش آتے ہیں۔(۱)

چنانچہ ہم جانتے ہیں کہ اسلامی تعلیمات میں مصائب اور آزمائشوں کے نتائج اور فوائد کی طرف بہت اشارہ کیا گیا ہے اور خدا کے لطف کی علامت کے طور پر انہیں بیان کیا گیا ہے۔ لیکن کسی لحاظ سے بھی کسی شخص کو یہ اجازت نہیں دی گئی ہے کہ اس بہانے سے اپنے لیے یا دوسروں کے لیے کوئی مصیبت پیدا کرے۔

اس کے علاوہ عشق اور مصیبت کے درمیان ایک فرق ہے اور وہ یہ ہے کہ عشق کسی اور عنصر کے مقابلہ میں زیادہ '' عقل کی ضد '' ہے۔ یہ جہاں بھی قدم رکھتا ہے عقل کو اس کی مسند حکومت سے معزول کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عرفانی ادب میں عقل و عشق کو دو رقیب کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔ فلسفیوں اور عرفاء کے درمیان رقابت کا سرچشمہ بھی یہی ہے۔ فلسفی عقل کی قوت پر اور عرفاء عشق کی قوت پر تکیہ اور اعتماد کرتے ہیں۔ رقابت کے اس میدان میں عرفانی ادبیات میں عقل کی پہچان محکوم و مغلوب کی حیثیت سے کرائی گئی ہے۔ سعدی کہتا ہے:

نیک خواہانم نصیحت می کند

میرے خیر خواہ نصیحت کرتے ہیں

خشت بردیا زدن بے حاصل است

سمندر میں اینٹ پھینکنا (کسی شئے کی بنیاد رکھنا) بے نتیجہ ہے۔

شوق را برصبر قوت غالب است

صبر پر شوق غالب ہے

____________________

(۱)''شادی اور اخلاق،، ص ۱۳۴

۵۰

عقل را بر عشق دعویٰ باطل است

عشق پر عقل کا دعویٰ باطل ہے

ایک دوسرا (شاعر) کہتا ہے:

قیاس کردم تدبیر عقل در رہ عشق

چوشبنمی است کہ بربحرمی زند رقمی

میرا خیال ہے کہ عشق کی راہ میں عقل کی تدبیرایسی ہے کہ شبنم سمندر (کی سطح) پر کچھ لکھنے کی کوشش کرے۔

ایک ایسی قدرت والی طاقت جو زمام اختیار (دوسروں کے ہاتھ سے) چھین لیتی ہے اور بقول مولوی ''یہ (عشق) آدمی کو ادھر سے ادھر کھینچ لے جاتا ہے جس طرح سخت طوفان تنکے کو ''اور رسل کے بقول '' ایک ایسی چیز جو انارکی کی طرف مائل ہے '' کس طرح ممکن ہے کہ اس کی سفارش کی جائے۔

بہرحال کبھی کبھار مفید نتائج کا حامل ہونااور بات ہے اور قابل تجویز و سفارش ہونا دوسری بات۔

یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض فقہاء کی طرف سے ان اسلامی فلاسفروں(۱) پر جنہوں نے الہٰیات کے ضمن میں اس پر بحث کی ہے اور اس کے نتائج و فوائد کو بیان کیا ہے، اعتراض اور تنقید صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ اس طبقہ (فقہائ) نے یہ خیال کیا ہے کہ حکماء کے اس دستہ کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ (عشق) قابل تجویز و سفارش بھی ہے حالانکہ ان کی نظر صرف ان مفید نتائج پر ہے جو تقویٰ اور پاک دامنی کی حالت میں برآمد ہو سکتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ اسے قابل تجویز و سفارش سمجھتے ہوں۔ یعنی بعینہ مصائب اور آزمائشوں کی طرح۔

____________________

(۱)بوعلی سینا۔ رسالہئ عشق اورصدر المتألهین سفر سوم اسفار

۵۱

اولیاء سے محبت و ارادت

جیسا کہ ہم نے کہا ہے عشق و محبت، عشق حیوانی جنسی اور حیوانی نسلی میں منحصر نہیں ہے بلکہ عشق و جاذبہ کی ایک دوسری قسم بھی ہے جس کی سطح بلند تر ہے اور اساسی طور پر مادہ اور مادیات کی حدود سے باہر ہے اور اس کا سرچشمہ بقائے نسل کے جذبے سے ماوراء ہے اور حقیقت میں انسان اور حیوان کے درمیان فصل ممیز ہے اور وہ عشق معنوی اور انسانی ہے۔ بلند انسانی فضائل ، خوبیوں اور جمال حقیقت کے ساتھ عشق۔

عشقہای کز پی رنگی بود

کسی رنگ کے ساتھ عشق کرنا

عشق نہ بود عاقبت ننگی بود

درحقیقت عشق نہیں، عاقبت کی رسوائی ہے

زانکہ عشق مردگان پایندہ نیست

مردوں کے ساتھ عشق پائدار نہیں

چوںکہ مردہ سوی ماآیندہ نیست

کیونکہ مردہ پھر ہمارے پاس نہیں آتا

عشق زندہ در روان و دربصر

جسم و نظر میں زندہ کا عشق

۵۲

ہر دو می باشد ز غنچہ تازہ تر

دونوں کو غنچے سے زیادہ ترو تازہ رکھتا ہے

عشق آں زندہ گزین کز باقی است

اس زندہ سے عشق کرو جو ہمیشہ باقی ہے

و ز شراب جانفزایت ساقی است

جو تجھے زندگی کی شراب پلانے والا ہے

عشق آن بگزین کہ جملہ انبیائ

اس سے عشق کرو کہ سب پیغمبروں نے

یافتند از عشق او کار و کیا

اسکے عشق سے مقصد اور عظمت کو پا لیا(۱)

اور یہی عشق ہے جسے قرآن کی بہت سی آیات میں محبت، وُدّ یا مودت کے الفاظ سے یاد کیا گیا ہے۔ ان آیات کی چند قسمیں ہیں:

۱۔ وہ آیتیں جو مؤمنین کے وصف میں ہیں اور خدا یا مؤمنوں سے ان کی گہری دوستی و محبت کے بارے میں ہیں:

____________________

(۱) مثنوی معنوی

۵۳

( وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ ) (۱)

وہ لوگ جوایمان لاچکے ہیں خدا کی محبت میں سخت تر ہیں۔

( وَ الَّذِیْنَ تَبَوَّءُ و الدَّارَ وَ الْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ یُحِبُّوْنَ مَنْ هَاجَرَ اِلَیْهِمْ وَ لَا یَجِدُوْنَ فِیْ صَُدُوْرِ هِمْ حَاجَةً مِِّمَّآ اُوْتُوْا وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤی اَنْفُسِهِمْ وَ لَو کَانَ بِهِمْ خَصَاصِةٌ ) ۔(۲)

جو لوگ مہاجروں سے پہلے مسلمانوں کے گھر (مدینہ) میں مقیم اور ایمان ( مسلمانوں کے روحانی اور معنوی گھر) میں رہے، ان مہاجروں سے محبت کرتے ہیںجو ان کی طرف آئے اور جو کچھ انہیں ملا اس سے اپنے دلوں میں کوئی ملال نہیںپاتے اور دوسروں کو اپنے نفس پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خودحاجت مند کیوں نہ ہوں۔

۲۔ وہ آیتیں جو خدا کی مؤمنوں سے محبت کے بارے میں ہیں:

( اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِیْنَ ) (۳)

خدا توبہ کرنے والوں اور پاکیزہ لوگوں سے محبت رکھتا ہے۔

( وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ) ۔(۴)

خدا نیکو کاروں سے محبت رکھتا ہے ۔

( اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ ) ۔(۵)

خدا تقویٰ رکھنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

( وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمَطَّهِّرِیْنَ ) (۶)

خدا پاکیزہ لوگوں کو دوست رکھتا ہے ۔

( اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ ) ۔(۷)

خدا انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

____________________

(۱) ۲ بقرہ :۱۶۵ ---(۲) ۵۹ حشر : ۹ ---(۳) ۲ بقرہ : ۲۲۲---(۴) ۳ آل عمران :۱۴۸ و ۵ مائدہ : ۱۳ ---(۵) ۹ توبہ : ۴ و۷

(۶) ۹ توبہ :۱۰۸---(۷) ۴۹ حجرات :۹۔ ۶۰ممتحنہ:۸

۵۴

۳۔ وہ آیتیں جو دو طرفہ دوستیوں اور دو آتشہ محبتوں کے بارے میں ہیں۔ خدا کی مومنوں سے محبت، مؤمنوں کی خدا سے محبت اور مؤمنوں کی ایک دوسرے سے محبت:

( قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ .) (۱)

کہ دو اگر تم خدا سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو تاکہ خدا تم سے محبت کرے اور تمہارے لیے تمہارے گناہوں کو بخش دے ۔

( فسوف یاتی الله بقوم یحبهم و یحبونه ) (۵:۵۴)

خدا ایک ایسی قوم کو لائے گا جس کو (خدا) دوست رکھتا ہو گا اور وہ (قوم) اس (خدا) کو دوست رکھتی ہو گی۔

مؤمنین کی آپس میں محبت

( اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا ) ۔(۲)

جو لوگ ایمان لائے ہیں اور نیک عمل بجا لائے ہیںان کے لیے رحمن عنقریب دلوں میں محبت پیدا کرے گا۔

( وَ جَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّةً وَّ رَحْمَةً ) .(۳)

اس نے تمہارے درمیان محبت اور مہربانی پیدا کی۔

اور یہی وہ محبت اور تعلق ہے جسے ابراہیم(ع) نے اپنی ذریت کے لیے طلب کیا(۴) اور خدا کے حکم سے پیغمبر ختمی مرتبت(ص) نے بھی اپنے رشتہ داروں کے لیے طلب فرمایا۔(۵)

اور جس طرح کہ روایات سے پتہ چلتا ہے دین کی روح اور اس کا جوہر محبت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ برید عجلی کہتا ہے:

میںامام باقر علیہ السّلام کی خدمت میں حاضر تھا۔ ایک مسافر، جو خراسان سے اس طویل مسافت کو پیدل طے کر کے آیا تھا،امام (ع)کے حضور شرفیاب ہوا اس نے اپنے

____________________

(۱) ۳ آل عمران: ۳۱ -----(۲) ۱۹طہ:۹۶-----(۳) ۳۰ روم :۲۱ ---(۴) ابراہیم: ۳۷ ---(۵) شوریٰ : ۲۳

۵۵

پیر جب جوتوں سے باہر نکالے، تو وہ شگافتہ ہو کر خراب ہوچکے تھے۔ اس نے کہا خدا کی قسم! مجھے وہاں سے سوائے اہل بیت (ع) کی محبت کے اور کوئی چیز یہاں کھینچ نہ لائی امام (ع) نے فرمایا: خدا کی قسم! اگر کوئی پتھر بھی ہم سے محبت کرتا ہو توخدا اسے(قیامت کے دن) ہمارے ساتھ محشور فرمائے گا اور ہمارے قریب کر دے گا،وهل الدین الا الحب ۔ (یعنی) کیا دین محبت کے علاوہ کچھ اور ہے؟(۱)

کسی نے امام جعفر صادق علیہ السّلام سے کہا کہ ہم اپنے بچوں کے نام آپ اور آپ (ع) کے آباء کے ناموں پر رکھتے ہیں کیا ہمیں اس کام کا کوئی فائدہ ہے؟ حضرت (ع) نے فرمایا:

کیوں نہیں خدا کی قسمو هل الدین الا الحبّ کیا دین محبت کے علاوہ کچھ اور ہے؟'' اس کے بعد (اس کی تائید میں) آیہئ شریفہ( اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰهُ ) (۲) کی تلاوت فرمائی۔(۳)

بنیادی طور پر محبت ہی ہے جو پیروی کراتی ہے۔ عاشق کی مجال نہیں ہے کہ وہ معشوق کی خواہش سے سرتابی کرے۔ ہم اس (صورت حال) کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ ایک جوان عاشق اپنی معشوقہ اور محبوبہ کے لیے ہر شئے سے دستبردار ہوتا ہے اور ہر چیز اس پر قربان کر دیتا ہے۔

____________________

(۱) سفینۃ البحار، ج ۱ ص ۲۰۱ مادہ حُبّ

(۲) ۳ آل عمران : ۳۱

(۳)سفینۃ البحار، ج ۱، ص ۲۰۱ مادہ ''سما ''

۵۶

خدا کی اطاعت اور اس کی پرستش اس محبت اور عشق کی نسبت سے ہے جو انسان خدا سے رکھتا ہے۔ جس طرح کہ امام صادق علیہ السّلام فرماتے ہیں:

تعصی الاله و انت تظهر حبّه

هذا لعمری فی الفعال بدیع

لو کان حبک صدقا لا طعته

ان المحب لمن یحب مطیع

خدا کے حکم کی نافرمانی کرو اور پھر بھی اس کی محبت کا دم بھرو۔ میری جان کی قسم! یہ عجیب رویہ ہے۔ اگر تیری محبت سچی ہوتی تو یقیناً اس کی اطاعت کرتا۔ کیونکہ محبت کرنے والا محبوب کی اطاعت کیا کرتا ہے۔

۵۷

معاشرے میں محبت کی قوت

اجتماعی نقطہئ نظر سے محبت کی قوت ایک عظیم اور مؤثر قوت ہے۔ بہترین معاشرہ وہ ہے جو محبت کی قوت سے چلایا جائے۔ حاکم اور منتظم لوگوں سے اور لوگ حاکم اور منتظم سے محبت کرتے ہوں۔

حکمران کی محبت حکومت کی زندگی کے ثبات اور اس کی پائداری کا ایک عظیم عامل ہے اور جب تک محبت کا عنصر نہ ہو کوئی رہنما کسی معاشرے کی رہبری اور لوگوں کی قانونی نظم و ضبط کے تحت تربیت نہیں کر سکتا یا بہت مشکل سے کر سکتا ہے، اگرچہ وہ اس معاشرے میں عدل و مساوات کو جاری و ساری بھی کرے۔ لوگ صرف اس وقت تک قانون کی پابندی کرتے ہیں جب تک وہ یہ دیکھتے ہیں کہ حکمران کو ان سے محبت ہے اور یہی محبت ہے جو لوگوں کو پیروی اور اطاعت پر آمادہ کرتی ہے۔ قرآن پیغمبر (ص) سے خطاب کرتا ہے کہ تم لوگوں کے درمیان نفوذ حاصل کرنے اورمعاشرے کو چلانے کے لیے ایک عظیم قوت رکھتے ہو:

( فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْ وَ لَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَ اسْتَغْفِرْلَهُمْ وَ شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرٍ ) (۱)

آپ ان کے لیے نرم مزاج واقع ہوئے اور اگر آپ تند خو اور سنگدل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے منتشر ہو جاتے، پس ان سے درگزر کرو اور ان کے لیے طلب مغفرت کرو اور معاملات میں ان سے مشورہ کر لیا کرو۔

____________________

(۱) ۳ آل عمران : ۱۵۹

۵۸

یہاں پر پیغمبر (ص) کی طرف لوگوں کی رغبت کی وجہ اس مہر و محبت کو قرار دیا گیا ہے جو لوگوں کی نسبت پیغمبر اکرم (ص) عام فرماتے تھے۔ پھر یہ حکم دیا جاتا ہے کہ ان کی بخشش کے لیے استغفارکی جائے اور ان کے ساتھ مشورہ کیا جائے۔ یہ سب محبت اور دوستی کی علامتیں ہیں۔ جس طرح کہ نرمی، برداشت اور تحمل سب محبت اور احسان کے پہلو ہیں۔

اوبہ تیغ حل چندین خلق را

اسنے حلم کی تلوار سے اتنے لوگوں کو سدھارا

وا خرید از تیغ ، چندین حلق را

جبکہ لوہے کی تلوار اتنے ہی گلے کاٹتی

تیغ حلم از تیغ آہن تیز تر

حلم کی تلوار لوہے کی تلوارسے زیادہ تیزہے

بل ز صد لشکر، ظفر انگیز تر(۱)

بلکہ سو لشکر سے زیادہ فتح کرنے والی ہے

____________________

(۱) مثنوی معنوی

۵۹

اور پھر قرآن فرماتا ہے:

( وَ لَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَ لَا السَّیِّئَةُ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَ بَیْنَه، عَدَاوَةٌ کَاَنَّه، وَلِیٌّ حَمِیْمٌ ) .(۱)

اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہو سکتیں۔ آپ (بدی ) کو بہترین طریقے سے دفع کریں تو آپ دیکھ لیں گے کہ آپ کے ساتھ جس کی عداوت تھی وہ گویا نہایت قریبی دوست بن گیا ہے

بہ بخش ای پسر کاد میزادہ مید

اے میرے بیٹے معاف کر دے

بہ احسان تو ان کرد، وحشی بہ قید

کہ آدمی کو احسان سے اور درندے کو جال سے شکار کیا جا سکتا ہے

عدو را بہ الطاف گردن بہ بند

دشمن کو مہربانی کے ذریعے جھکا دے

کہ نتوان بریدن بہ تیغ این کمند(۲)

کہ یہ کمند تلوار سے نہیں کاٹی جا سکتی

____________________

(۱) ۴۱ فصلت: ۳۴

(۲) سعدی، بوستان

۶۰