اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد ۲

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟0%

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 261

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
زمرہ جات: صفحے: 261
مشاہدے: 38332
ڈاؤنلوڈ: 3764


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 261 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 38332 / ڈاؤنلوڈ: 3764
سائز سائز سائز
اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد 2

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ج- یقینا انہوں نے فاطمہ زہرا(ع) کی اراضی اور دوسرے املاک غصب کر کے اور ان کے والد کی میراث نہ دے کر اور ہر دعوے میں جھٹلا کر فاطمہ(ع) کو غضبناک کیا، یہاں تک کہ لوگوں میں فاطمہ(ع) کی عظمت و ہیبت نہ رہی اور وہ آپ(ع) کی تصدیق تک نہیں کرتے تھے. اور جب آپ(ع) خلافت کی نصوص لے کر اٹھیں تو انصار نے عذر کیا کہ ہم پہلے ہی ابوبکر کی بیعت کر چکے ہیں اگر آپ کے شوہر پہلے ہمارے پاس آتے تو ہم ان کی بیعت کر لیتے.

اسی لئے فاطمہ(ع) ابوبکر و عمر پر اور زیادہ غضبناک ہوئیں. یہاں تک کہ آپ(ع) ہر نماز کے بعد ان ( ابوبکر و عمر) کے لئے بد دعا کرتی تھیں، اور اپنے شوہر کو وصیت کی کہ ان دونوں میں سے کوئی بھی میرے جنازہ پر نہ آئے اور جن لوگوں سے کراہت کرتی تھیں ان کا بھی سایہ مجھ پر نہ پڑے.

جب انہوں نے جان بوجھ کر جناب سیدہ فاطمہ(ع) کو اذیت پہونچائی تا کہ علی(ع) کو یہ بتا دیں کہ ہم تم کو فاطمہ بنت رسول(ص) سیدہ نساء العالمین" کہ جن کے غضبناک ہونے سے خدا غضبناک ہوتا ہے اور ان کی خوشنودی خدا کی خوشنودی ہے" سے حقیر سمجھتے ہیں پس علی(ع) کے پاس سکوت و رضا کے علاوہ چارہ کار نہ تھا.

س- 23- صحابہ کی عظیم شخصیتوں نے جیش اسامہ میں شریک ہونےسے کیوں پہلو تہی کی؟

ج- کیونکہ ( اندرونی طور پر) معاملہ ابوبکر کے لئے طے ہوچکا تھا اور وہ عمر کی کوششوں سے مسلمانوں کے خلیفہ بن چکے تھے اسی لئے ابوبکر نے اسامہ سے یہ خواہش کی کہ عمر کو چھوڑ دیا جائے تا کہ وہ خلافت کے معاملہ میں ان سے

۱۲۱

مدد حاصل کرسکے. کیونکہ وہ تنہا اپنے منصوبے کو تکمیل تک نہیں پہونچا سکتے تھے بلکہ ان کو ایسے فعال لوگوں کی ضرورت تھی جن کی جرائت و قوت کا یہ عالم تھا کہ وہ رسول(ص) سے بھی معارضہ کرچکے تھے. اور غضب خدا اور رسول(ص) کی لعنت کی پرواہ نہیں کی تھی.

.... اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس منوبہ کو بنانے والوں نے جیش اسامہ میں شریک ہونے سے اس لئے تخلف کیا تھا تاکہ اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کرسکیں اور اپنے دستورات کو مستحکم بنانے میں ایک دوسرے کا تعاون کرسکیں.

س- 24- علی (ع) کو ہر عہدہ سےکیوں الگ رکھا، اور انہیں کسی چیز میں شریک کیوں نہ بنایا؟

ج- با وجودیکہ انہوں نے (خلفاء) نے طلقا کی بہت بڑی تعداد کو اپنے قریب بلا لیا تھا. اور اپنی حکومت کے عہدوں پر فائز کر دیا تھا اور انہیں شریک بنا لیا تھا اور جزیرة العرب کے شہر اور اسلامی ممالک میں انہیں امیر و ولی مقرر کر دیا تھا. جیسے ولید ابن عقبہ، مروان ابن حکم اور ابوسفیان کے بیٹے یزید و معاویہ، عمرو ابن عاص، مغیرہ ابن شیبہ اور ابو ہریرہ اور ایسے ہی بہت سے لوگوں کو جمع کر لیا تھا جن سے رسول(ص) ناراض رہتے تھے. لیکن علی(ع) ابن ابی طالب کو نظر انداز کر دیا اور خانہ نشین کر دیا اور پچیس سال تک کسی کام میں بھی شریک نہیں کیا اس کی وجہ صرف آپ(ع) کو لوگوں کی نظروں میں حقیر و ذلیل اور ان سے دور رکھنا تھا. اس لئے کہ لوگ دنیا کے غلام ہیں جس کے پاس مال و دولت دیکھتے ہیں اسی کی طرف جھکتے ہیں جب کہ علی(ع) کے پاس ہمیشہ اپنے بازو کی کمائی رہی. یہی وجہ ہے کہ لوگ آپ(ع) کے پاس نہیں آتے تھے.

۱۲۲

اب علی(ع) ابوبکر و عمر اور عثمان کی خلافت کے دوران گھر کی چہار دیواری میں مقید تھے اور سب کے سب ان کے خلاف سازش میں مصروف تھے. ان کا چراغ گل کر دینا چاہتے تھے اور ان کے فضائل و مناقب کو چھپاتے تھے. علی(ع) کے پاس مال دنیا میں سے کچھ نہ تھا کہ جس کی وجہ سے لوگ آپ کی طرف راغب ہوتے.

س- 25- انہوں ( ابوبکر و عمر) نے زکوة نہ دینے والوں کے ساتھ جنگ کیوں کی جب کہ نبی(ص) نے اسے حرام قرار دیا تھا؟

ج- اس لئے کہ بعض صحابہ نے غدیر خم میں حجة الوداع سے لوٹتے وقت نبی(ص) کے ساتھ حضرت علی(ع) کی بیعت کی تھی انہوں نے ابوبکر کو زکوة دینے سے انکار کر دیا. کیونکہ وہ آنحضرت(ص) کی وفات کے وقت موجود نہیں تھے اور نہ ہی ان کو یہ معلوم تھا کہ خلافت علی(ع) کے بجائے ابوبکر کے ہاتھوں میں پہونچ گئی ہے. اس لئے کہ وہ مدینہ کے باشندہ نہیں تھے اور اس میں بھی شک نہیں ہے کہ ان تک یہ خبر بھی پہونچی تھی کہ خلیفہ سے فاطمہ(ع) ناراض ہیں اور علی(ع) نے بیعت سے انکار کر دیا ہے. انہیں وجوہات کی بنا پر انہوں نے اس وقت تک کے لئے ابوبکر کو زکوة دینے سے منع کر دیا تھا جب تک کہ معاملہ صاف نہ ہو جائے.

اب ابوبکر و عمر نے ان کی طرف خالد ابن ولید " جوان کی شمشیر برہنہ تھا" کی قیادت میں لشکر بھیجنے کا فیصلہ کیا، پس اس نے ان کا جوش ٹھنڈا کر دیا. ان کے احساسات کی مردہ بنا دیا ان کے افراد کو قتل کر دیا. ان کی عورتوں اور بچوں کو اسیر کر لیا. تاکہ اس شخص کے لئے باعث عبرت بن جائے جو خلیفہ کی اطاعت نہ کرنے کا قصد رکھتا ہو یا حکومت کی دھاگ بیٹھ جائے.

۱۲۳

س- 26- انہوں(خلفائے ثلاثہ) نے حدیث نبوی کی تدوین اور نقل پر پابندی کیوں لگائی؟

ج- وہ ابتدا ہی سے احادیث نبوی پر پابندی لگا رہے تھے یہ پابندی صرف اس لئے نہ تھی کہ ان احادیث کے ضمن میں حضرت علی(ع) کی خلافت کے بارے میں نصوص تھیں بلکہ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اکثر احادیث خلفاء کے ان اقوال و افعال کے خلاف تھیں جن سے وہ زندگی کا نظم و نسق بر قرار رکھے ہوئے تھے اور اسی کی بناد پر اس نئی حکومت کے ستون استوار کئے ہوئے تھے جو انہوں نے اپنے اجتہاد کے مطابق اختراع کر لئے تھے.

س-27- کیا ابوبکر خلافت کی باگ ڈور سنبھالنے کی صلاحیت رکھتے تھے؟

ج- ابوبکر خلافت کی باگ ڈور نہیں سنبھال سکتے تھے اگر عمر اور نبی امیہ کے دوسرے سربرآوردہ افراد نہ ہوتے. تاریخ گواہ ہے کہ احکام کے سلسلہ میں ابوبکر و عمر کے محتاج تھے. اصل حاکم عمر ہی تھے. ہماری اس بات پر مولفہ القلوب کا وہ قصہ دلالت کر رہا ہے کہ جب وہ لوگ ابوبکر کی خلافت کے ابتدائی زمانہ میں ان کے پاس آئے اور ابوبکر نے انہیں ایک رقعہ لکھ کر دیا اور عمر کے پاس بھیج دیا. اس لئے کہ بیت المال کی چابی عمر کے ہاتھ میں تھی پس انہوں نے رقعہ لے کر پھاڑ ڈالا. اور انہیں واپس کر دیا، وہ ابوبکر کے پاس آئے اور ان سے پوچھا: آپ خلیفہ ہیں یا وہ؟ ابوبکر نے جواب دیا: انشاء اللہ وہی ہیں.

ایسا ہی اس وقت ہوا جب ابوبکر نے زمین کا ایک قطعہ عبیدہ ابن حصین اور اقرع ابن حابس کے نام لکھ دیا تھا. عمر نے ابوبکر کا خط پڑھ کر

۱۲۴

انکار کردیا اور اس پر تھوک کر مٹا دیا. تو دونوں عمر کے اس فعل سے برہم ہو کر ابوبکر کے پاس آئے اور کہا: قسم خدا کی ہم نہیں جانتے کہ خلیفہ آپ ہیں یا عمر؟ ابوبکر نے کہا: خلیفہ تو عمر ہی ہیں، تھوڑی دیر کے بعد غیظ و غضب کے عالم میں عمر آئے اور ابوبکر سے زمین لکھ دینے کے سلسلہ میں سخت کلامی سے پیش آئے تو ابوبکر نے کہا: کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم اس کام کے لئے مجھ سے زیادہ موزوں ہو لیکن تم نے مجھے زبردستی پھنسا دیا.(1)

بخاری نے اپنی صحیح میں لکھا ہے کہ عمر لوگوں کو ابوبکر کی بیعت پر اکساتے تھے اور کہتے تھے ابوبکر رسول(ص) کے ساتھ تھے وہ تمہاری حاکمیت کے لئے سارے مسلمانوں سے اولی ہیں. اٹھو! اور ان کی بیعت کرو. انس ابن مالک کہتے ہیں کہ میں نے عمر کو ابوبکر سے کہتے ہوئے سنا کہ: منبر پر جائو اور مسلسل اصرار کے بعد انہیں منبر پر چڑھا دیا. اور سب لوگوں نے ان کی بیعت کر لی.

س- 28- ابوبکر نے اپنی موت سے پہلے عمر کو کیوں خلیفہ بنایا؟

ج- اس لئے کہ عمر نے علی(ع) کو خلافت سے الگ کرنے میں بہت بڑا رول ادا کیا تھا. اور اس سلسلہ میں رسول(ص) سے بھی لڑ گئے تھے اور ابوبکر کی بیعت پر انصار کو بھی عمر ہی نے راضی کیا تھا. اور تمام لوگوں پر شدت و سختی کے ساتھ بیعت واجب قرار دے دی تھی یہاں تک کہ خانہ فاطمہ(ع) کو جلانے کی دھمکی دی تھی.

____________________

1.عسقلانی نے اپنی کتاب الاصابہ فی معرفة الصحابہ میں عیینہ کے حالات میں تحریر کیا ہے اور ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ کی جلد/12 کے ص108 پر تحریر کیا ہے.

۱۲۵

اور پھر عمر اصلی خلیفہ تھے جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں. کیونکہ پہلی اور آخری بات کا انہیں کو اختیار تھا.اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عرب ہوشیار ترین افراد میں سے تھے وہ جانتے تھے کہ مسلمان خصوصا انصار تندخو اور مغلوب الغضب انسان کی بیعت پر اتفاق نہیں کریں گے اس لئے انہوں نے ابوبکر کو پیش کیا کیونکہ ابوبکر نرم مزاج تھے اور ان میں سابق الاسلام بھی تھے پھر ان کی بیٹی عائشہ جرائت مند عورت تھی. وہ مشکلات کا سامنا کر کے امور میں تبدیلی کرسکتی تھی. اور عمر اس بات کو بخوبی جانتے تھے کہ ابوبکر میرے تابع دار اور ہر کام میں میرے اشاروں پر چلنے والے ہیں.

عمر کی خلافت کے سلسلہ میں ابوبکر کی وصیت اکثر صحابہ پر وصیت لکھنے سے قبل بھی مخفی نہ تھی. علی(ع) نے اول روز ہی عمر سے کہا تھا کہ جتنی کوشش ہوسکے کر لو اس میں تمہارا بھی فائدہ ہے آج کام کر کے ابوبکر کی خلافت کو مستحکم کر دو کل وہ تمہیں ہی لوٹا دیں گے، جیسا کہ دوسرے شخص نے عمر سے اس وقت کہا تھا وہ ابوبکر کا وصیت نامہ لے کر نکلے تو اس شخص نے کہا مجھے معلوم ہے اس میں کیا ہے پہلے تم نے انہیں خلیفہ بنایا آج انہوں نے تم کو خلیفہ بنا دیا.

اس سے ایک بار پھر ہم اہلسنت کے اس قول کی حقیقت آشکار ہوجاتی ہے کہ خلافت کا تعلق شوری سے ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے. اور نہ ہی ابوبکر و عمر کے نزدیک اس کا کوئی اعتبار ہے اور جیسا کہ اہلسنت کا گمان ہے کہ رسول(ص) دنیا سے چلے گئے اور خلافت کا معاملہ شوری پر چھوڑ گئے تو سب سے پہلے اس اصل کو ابوبکر نے منہدم کر دیا اور اپنے بعد عمر کو خلیفہ بنا کر سنت نبی(ص) کی مخالفت کی.

۱۲۶

آپ ہمیشہ اہل سنت کو اس پر فخر کرتے دیکھیں گے کہ ہم تو شوری پر ایمان رکھتے ہیں. خلیفہ شوری ہی کے ذریعہ صحیح طور پر منتخب ہوسکتا ہے وہ شیعوں کے اس قول کا مذاق اڑاتے ہیں کہ امامت کا تعلق خدا و رسول(ص) کی نص سے ہے ان میں سے اکثر لوگوں کو اس اعتقاد پر تنقید کرتا ہوا پائیں گے. کہ عقیدہ امامت اسلام میں بھی فارس سے درآیا ہے( کیونکہ) فارس والے ہی حکومت الہی کے سلسلہ میں توارث کے قائل ہیں.

اکثر اہلسنت اس آیت ( وَ أَمْرُهُمْ‏ شُورى‏ بَيْنَهُمْ‏ ) سے استدلال کرتے ہیں. اور کہتے ہیں کہ یہ آیت خلافت کے بارے میں نازل ہوئی ہے اس بنا پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ابوبکر و عمر نے کتاب خدا اور سنت رسول(ص) دونوں کی مخالفت کی اور خلافت حاصل کرنے کے چکر میں ان کی کوئی اہمیت نہ سمجھی.

س- 29- عبدالرحمن ابن عوف نے علی(ع) ابن ابی طالب سے سیرت شیخین پر عمل کرنے کی شرط کیوں عائد کی؟

ج- دنیا کی پستی دیکھئے کہ عمر کے بعد عبدالرحمن ابن عوف امت کی تقدیر کا فیصلہ کر رہا ہے. پس جس کو چاہے وہ منتخب کرے اور جیسا چاہے فیصلہ کرے. یہ سب عمر کی تدبیریں ہیں کہ جس نے اس گروہ کو دوسرے صحابہ پر ترجیح دی تھی. جس میں عبدالرحمن ابن عوف شامل ہو جبکہ عبدالرحمن ابن عوف دنیائے عرب کا چالباز ترین انسان تھا. اور اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ عبدالرحمن ابن عوف خلافت کو اس کے اصلی و شرعی محور سے ہٹانے والے اور اپنے منشاء سے خلیفہ بنانے والے گروپ میں سے تھے اور جب خود بخاری کو یہ اعتراف ہے کہ عبدالرحمن

۱۲۷

حضرت علی(ع) سے کسی چیز سے ڈر رہے تھے.(1) پس لامحالہ عبدالرحمن ابن عوف نے علی کو خلافت سے دور رکھنے کے سلسلہ میں پوری کوشش صرف کی ہوگی اور عبدالرحمن ابن عوف دوسرے صحابہ کی طرح یہ بھی جانتے تھے کہ علی(ع) ابوبکر و عمر کے اجتہادات اور جو کچھ انہوں نے کتاب خدا اور سنت رسول(ص) میں رد و بدل کیا ہے کے خلاف ہیں اور حضرت علی(ع) ہمیشہ ان کے خلاف رہے اور ان سے لڑتے رہے ہیں.

اس لئے عبدالرحمن ابن عوف نے علی(ع) کے سامنے یہ شرط پیش کی کہ آپ کو سیرت شیخین کے مطابق فیصلہ کرنا ہوگا بلکہ عبدالرحمن اس بات کو ددسروں سے زیادہ اچھے طریقہ سے جانتا تھا کہ علی(ع) نہ فریب کار ہیں نہ دروغگو، لہذا وہ کبھی اس شرط کو قبول نہیں کریں گے. جیسا کہ عبدالرحمن یہ بھی جانتا تھا کہ ان کے بہنوئی عثمان کی طرف قریش اور خلیفہ ساز کمیٹی کا رجحان ہے.

س- 30- کیا اہلسنت کی کتابوں میں حدیث ائمہ اثنا عشر کا کہیں وجود ہے؟

ج- بخاری و مسلم نے اور اہلسنت کے دوسرے تمام محدثین نے نبی(ص) سے روایت کی ہے کہ:

"لا يزال‏ الدين‏ قائما حتى تقوم الساعة، أو يكون عليكم إثنا عشر خليفة كلهم من قريش"(2)

یہ دین قیامت تک باقی رہے گا یا بارہ خلفاء کے

____________________

1.صحیح بخاری جلد/8 ص123 باب " کیف یبایع الناس الامام" کتاب الاحکام

2. صحیح بخاری جلد/8 ص127 صحیح مسلم جلد/6 ص3

۱۲۸

زمانہ تک باقی رہے گا اور وہ ( خلفاء) سب قریش سے ہوں گے.

یہ حدیث ایسی پیچیدہ پہیلی بن کے رہ گئی کہ جس کا جواب اہلسنت کے پاس نہیں ہے اور نہ ہی ان کے علماء میں سے کسی میں یہ جرائت ہے کہ وہ چار خلفائے راشدین اور پانچویں عمر ابن عبدالعزیز کے علاوہ سات اور خلفائ کے نام شمار کراسکے. ان کا کہیں وجود ہی نہیں ہے.

یا وہ اہلسنت" شیعوں کی طرح علی(ع) اور اولاد علی(ع) کی امامت کے قائل ہو جائیں، یا پھر اس حدیث کو جھٹلا دیں اور ان کی صحاح حق سے خالی ہوجائے اور اس میں جھوٹ کے علاوہ کچھ نہ رہ جائے.

یہاں میں ایک بات کا اور اضافہ کر رہا ہوں اور وہ یہ کہ صرف یہ حدیث خلافت کو قریش میں منحصر کرتی ہے جبکہ شوری کا نظریہ اس کی تردید کرتا ہے. جس کے اہلسنت معتقد ہیں کیونکہ انتخاب اور ڈیمو کریسی میں ساری امت کے افراد شامل ہیں، تمام قبائل کو چھوڑ کر اسے ایک خاندان میں محدود نہیں کیا جاسکتا ہے. بلکہ اس انتخاب میں عرب قبائل کے علاوہ غیر عرب اسلامی قبائل بھی شامل ہیں.

یہ ان بعض مسائل کے مختصر اور سرسری جوابات تھے کہ جو قارئین کے ذہنوں کو پریشان کئے ہوئے تھے. واضح رہے کہ ان مسائل کے مفصل جوابات تاریخی کتابوں میں مل جاتے ہیں. اور میری کتاب " ثم اہتدیت" اور " لاکون مع الصادقین" میں بھی مل سکتے ہیں.

تحقیق کرنے والے کو موثق مصادر کی طرف رجوع کرنا چاہئے، اور حقیقت تک پہونچنے کے لئے نیوٹرل ہو کر روایات

۱۲۹

اور تاریخی واقعات کی چھان بین کرنا چاہئیے، تاکہ ان کے درمیان سے باطل کا پردہ چاک کرکے حقائق کا انکشاف کرسکے اور اس کو اس کی اصلی شکل میں دیکھ سکیں.

۱۳۰

ساتویں فصل

حدیث سے متعلق

عنقریب میں قارئین کے سامنے یہ بات پیش کروں گا کہ حدیث کا مسئلہ ان مسائل سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے جن میں آج مسلمان مبتلا ہیں خصوصا دور حاضر میں کیونکہ وہابیوں کی یورنیورسٹیوں سے لوگ فنون احادیث میں ڈاکٹریٹ کی سند لے کر نکل رہے ہیں. آپ انہیں دیکھتے ہیں کہ وہ ان ہی احادیث کو حفظ کرتے ہیں کہ جو ان کے مذہب اور عقیدہ کے مطابق ہوتی ہیں اور ان احادیث میں اکثر وہ حدیثیں ہیں جو ان کے اسلاف بنی امیہ نے گڑھی ہیں. ان حدیثوں سے وہ نور نبی(ص) کو بجھانا اور تصور رسالت کو داغدار بنانا چاہتے تھے. رسول(ص) ( معاذ اللہ) یہ نہیں جانتے تھے کہ میں کیا کہہ رہا ہوں اور نہ ہی اپنے ان متناقض افعال و اقوال سے با خبر تھے جنہیں دیکھ کر دیوانوں کو ہنسی آجائے.

باوجودیکہ اہل سنت کے علماء و محققین نے احادیث کے سلسلہ میں کام کیا ہے اور جانفشانی کی ہے لیکن افسوس کہ اس کے بعد بھی ان کی

۱۳۱

معتبر اور صحیح کتابوں میں ایسی بہت سی بے بنیاد چیزیں موجود ہیں ایسے ہی شیعوں کی کتابیں بھی تال میل سے محفوظ نہیں ہیں لیکن شیعوں کو اس بات کا اعتراف ہے کہ ہمارے پاس صرف کتاب خدا صحیح ہے اور کوئی کتاب صحیح نہیں ہے جب کہ اہلسنت کا اس بات پر اتفاق کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کتاب خدا کے بعد صحیح ترین کتابیں ہیں. بلکہ وہ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ جو کچھ ان دونوں میں بیان ہوا ہے وہ سب صحیح ہے. اسی لئے میں قارئین کے سامنے نمونہ کے طور پر صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی بعض ایسی حدیثیں پیش کرنے کی کوشش کروں گا جو رسول(ص) یا اہلبیت رسول(ع) کی عظمت کو گھٹاتی اور ان کی قداست کو داغدار بناتی ہیں نیز یہاں بعض ان احادیث کو پیش کروں گا کہ جو بنی امیہ اور بنی عباس کے حکام کے کرتوتوں کو جائز بنانے کے لئے گڑھی گئی ہیں، در حقیقت وہ اپنے جرائم اور نیکوکار لوگوں کے خون سے رنگین ہاتھوں کو چھپانے کے لئے عصمت نبی(ص) کو مخدوش کرنا چاہتے تھے.

نبی(ص) کا دیتے ہیں" معاذ اللہ"

بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب الاستئذان اور کتاب الدیات کے باب" من اطلع فی بیت قوم فقفوا عینه فلا دیة له" میں.

اور اسی طرح مسلم نے اپنی صحیح کی کتاب الآداب کے باب " النظر فی بیت غیرہ" میں انس ابن مالک سے روایت کی ہے کہ نبی(ص) کے حجرہ آدمی اچانک آگیا پس نبی(ص) ایک ہتھیار لے کر کھڑے ہوگئے گویا میں نبی(ص) اس شخص کو دھوکے سے زخمی کرنا چاہتے ہیں.

ایسے کام کے لئے خلق عظیم مانع ہے پھر نبی(ص) مومنین پر رئووف

۱۳۲

و رحیم ہیں جب کہ فرض یہ کیا گیا ہے کہ نبی(ص) اس شخص کو حجرہ میں اچانک داخل ہوگیا تھا اسے اسلام سکھاتے. اور اسے یہ بتاتے کہ جو کچھ تم نے کیا ہے وہ حرام ہے نہ وہ کہ اسے وھوکہ سے زخمی کرنے کے لئے کھڑے ہو جاتے اور اس کی آنکھیں پھوڑ ڈالتے اور ہوسکتا ہے کہ اس شخص کی نیت صحیح ہو. کیونکہ یہ ازواج نبی(ص) کا حجرہ نہیں تھا اور اس بات کی دلیل یہ ہے کہ انس ابن مالک اس حجرہ میں موجود تھے پس اس شخص کے رسول(ص) کے پاس پہونچ جانے میں کون سی قیامت ٹوٹ پڑی تھی اور پھر آپ(ص) کا تصور اتنا غلط تھا کہ اسے غافل بناکر اس کی آنکھ پھوڑ دینا چاہتے ہیں.

شارح بخاری نے تو اس کی قباحت کو اور بڑھا دیا ہے. وہ کہتے ہیں کہ رسول(ص) اس شخص کو غافل بنا کر" یعنی اس طرح کہ وہ دیکھ نہ سکے" اس کی طرف بڑھ رہے تھے. کسی کو غافل بنانا رسول(ص) سے بعید ہے.

نبی(ص) سخت عذاب دیتے ہیں اور مسلمانوں کے ہاتھ پیر قطع کرتے ہیں

بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب الطب کے باب" الدوا بالبان الابل" اور باب الدواء بابوال الابل" میں نقل کیا ہے کہ ثابت انس سے روایت کی ہے کہ لوگوں کو مرض لاحق ہوگیا تھا. انہوں کی ------ کی یا رسول(ص) اللہ ہمیں بچائیے اور کچھ کھانے پینے کو دیجئیے نبی(ص) نے------- کہ اونٹ کا دودھ اور پیشاب پیو، پس انہوں------- ہوگئے تو انہوں نے اونٹوں کے چرواہے کو مس------

۱۳۳

کیا اس واقعہ کی رسول(ص) کو اطلاع ہوئی تو آپ(ص) نے انہیں بلوایا. جب لوگ انہیں لے کر آئے تو آپ(ص) نے ان کے ہاتھ اور پائوں قطع کر دئے اور آنکھیں پھوڑ دیں ان میں سے میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ زبان سے خاک چاٹ کر مرگیا.

کیا کوئی مسلمان اس بات کی تصدیق کرے گا کہ جو رسول(ص) خود ہاتھ پر قطع کرنے سے منع فرماتے ہیں وہ ایک گروہ کے ہاتھ کاٹ دیں گے اور ان کی آنکھیں پھوڑ دیں گے اس لئے کہ انہوں نے ایک چرواہے کو قتل کر دیا تھا. اگر راوی نے یہ کہا ہو تا کہ ان لوگوں نے چرواہے کے ہاتھ پیر کاٹ دئے تھے تو بھی نبی(ص) کے پاس ان لوگوں کے ہاتھ پیر کاٹنے کے لئے عذر تھا. لیکن ( روایت میں) یہ وارد نہیں ہوا ہے اور پھر رسول(ص) انہیں بغیر تحقیق کے کیسے قتل کرتے ہیں اور کیونکر ان کے ہاتھ پائوں کاٹتے ہیں قاتل کی تحقیق کیوں نہیں کرتے خود ان ہی سے معلوم کرےشاید ان میں سے بعض کہیں کہ ہم سب اس کے قتل میں شریک تھے. کیا رسول(ص) انہیں معاف نہیں کرسکتے تھے جب اس دلیل سے کہ انہوں نے یا رسول اللہ(ص) کہا مسلمان بھی تھے. کیا رسول(ص) نے خدا کا یہ قول نہیں سنا تھا کہ :

( وَ إِنْ‏ عاقَبْتُمْ‏ فَعاقِبُوا بِمِثْلِ ما عُوقِبْتُمْ بِهِ وَ لَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصَّابِرِينَ )

اور اگر تم ان کے ساتھ سختی بھی کرو. اتنی ہی جتنی انہوں نے تمہارے ساتھ کی ہے اور اگر صبر کرو تو بہر حال یہی صبر کرنے والوں کے لئے بہتر ہے.

اور یہ آیت اس وقت نازل ہوئی تھی کہ جب قلب رسول(ص) اپنے چچا سید الشہدا حمزہ ابن عبدالمطلب کے غم میں کباب ہو رہا تھا کہ جن کا بطن چاک کر کے جگر چبا لیا گیا تھا اور نگلیاں کاٹ لی گئی تھیں جب رسول(ص) نے اپنے

۱۳۴

چچا کو اس حالت میں دیکھا بہت رنجیدہ ہوئے اور فرمایا اگر خدا نے مجھے طاقت عطا کی تو میں ستر مرتبہ ان کے ہاتھ پیر قطع کروں گا. پس آپ(ص) پر یہ آیت نازل ہوئی تو آپ(ص) نے فرمایا : "صبرت یا رب" پروردگارا میں نے صبر کیا اور اپنے چچا کے وحشی قاتل کو معاف کر دیا جنہوں نے جناب حمزہ کے بدن کے ٹکڑے کئے تھے اور آپ کا جگر چبایا تھا. یہ ہے نبی(ص) کا اخلاق.

جو چیز روایت کی قباحت کو آپ ( قارئین) پر روشن کرتی ہے وہ راوی کا بیان ہے جس نے اسے قبیح بنا دیا ہے. اسے میں ترتیب وار بیان کرونگا.

کہتے ہیں کہ قتادہ نے کہا کہ: مجھ سے محمد ابن سیرین نے بیان کیا کہ یہ واقعہ آیت کے نازل ہونے سے پہلے کا ہے تاکہ اس طرح فعل نبی(ص) کی توجیہ کرسکیں، رسول(ص) پروردگار کے حکم سے قبل ہرگز ایسا حکم نہیں لگا سکتے تھے اور جب آپ(ص) معمولی مسائل میں وحی کے بغیر کوئی حکم نہیں لگا سکتے تھے تو نبی(ص) کو خون بہانے اور حدود جاری کرنے میں کیا ہوگیا تھا؟

غور و فکر کرنے والے کے لئے یہ بات سمجھنا بہت ہی آسان ہے کہ یہ روایت امویوں اور ان کے پیروکاروں کی گڑھی ہوئی ہیں. وہ (متبعین) ان احکام کی خوشنودی کے حاصل کرنے کے لئے گڑھتے تھے کہ جن کے لئے صرف گمان یا تہمت پر نیکوکار افراد کو قتل کرنا اہم نہیں تھا. اور یہی راوی حکام کے سامنے ماضی کی فرضی مثالیں پیش کرتے تھے. اس بات کی دلیل خود یہ روایت ہے کہ جس کو بخاری نے نقل کیا ہے کہتے ہیں کہ مجھے خبر ملی ہے کہ حجاج نے انس سے کہا کہ میرے سامنے ایسی حدیث بیان کرو جس سے نبی(ص) کا سخت سزا دینا ثابت ہوتا ہو تو انہوں نے یہ حدیث بیان کی جب حسن کو اس کی اطلاع ملی تو انہوں نے کہا کہ میرا گمان ہے کہ انہوں نے یہ حدیث بیان

۱۳۵

نہیں کی.(1)

اس حدیث سے تو حجاج ثقفی کی خوشنودی کے لئے اس حدیث کے گڑھنے کی بو آتی ہے. کہ جس نے زمین کو فتنہ و فساد سے بھر دیا تھا اور شیعیان اہلبیت(ع) کو ہزاروں کی تعداد میں قتل کیا تھا. ان کے ہاتھ پائوں قطع کر دیتا تھا ان کی آنکھیں پھوڑ دیتا تھا اور گدیوں سے زبان نکلوا لیتا تھا، زندہ افراد کو اس طرح سولی پر لٹکا دیتا تھا کہ وہ سورج کی دھوپ میں جلکر جاں بحق ہو جاتے تھے. اس قسم کی روایتیں حجاج کے کرتوتوں کو جائز بنانے کے لئے گڑھی گئی ہیں کیونکہ ( ان روایتوں کے ہوتے ہوئے) اس طرح وہ رسول(ص) کی اقتدا کرتا ہے. " لکم فی رسول اللہ اسوة حسنة" اور پھر رسول(ص) میں تمہارے لئے اسوۃ حسنہ ہے." لا حول ولا قوة الا بالله"

اسی لئے معاویہ نے شیعیان علی(ع) کو طرح طرح کی تکلیفیں دیکر قتل کیا، کبھی ہاتھ پیر کاٹے اور کبھی عبرت ناک سزادی بہت سوں کو آگ میں جلا دیا کتنے ہی افراد کو زندہ دفن کر دیا بہتروں کو سولی پرچڑھایا اور اسی طرح معاویہ کے وزیر عمرو ابن عاص نے بھی انسانیت سوز سزائیں ایجاد کر لی تھیں. محمد ابن ابی بکر کے ہاتھ پائوں قلم کر کے گدھے کی کھال میں سلا اور پھر آگ میں پھینک دیا.

ان افراد نے ایسی بے حیائی کی ، اور لڑکیوں اور عورتوں سے کھیلنے کے جواز کے سلسلہ میں جو احادیث گڑھی ہیں وہ آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں.

____________________

1. صحیح بخاری جلد/7 ص13

۱۳۶

نبی(ص) جماع کے شوقین تھے " معاذ اللہ"

بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب الغسل کے باب" اذا جامع ثم عاد و من دار علی نسائه فی غسل واحد" میں روایت کی ہے کہ: ہم سے معاذ ابن ہشام نے بتایا کہ مجھ سے میرے والد نے قتادة کے حوالہ سے بیان کیا کہ قتادہ نے کہا کہ ہم سے انس ابن مالک نے بیان کیا کہ نبی(ص) دن رات میں اپنی گیارہ بیویوں کے پاس ایک گھنٹے میں گھوم آتے تھے قتادہ نے انس سے کہا کیا ان کے اندر اتنی طاقت تھی تو انس نے کہا انہیں تیس کی طاقت عطا کی گئی ہے.

یہ روایت عظمت رسول(ص) کو گھٹانے کے لئے گڑھی گئی ہے تاکہ معاویہ اور یزید بے حیا کے افعال کی توجیہ کی جاسکے، اور انس ابن مالک کو یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ نبی(ص) ایک گھنٹے میں اپنی گیارہ بیویوں سے جماع کرتے ہیں. کیا یہ بات انہیں خود رسول(ص) نے بتائی ہے یا وہ دیکھ رہے تھے؟ اس جھوٹے قول سے میں خدا کی پناہ چاہتا ہوں؛ اور انس کو یہ کہاں سے سراغ ملا تھا کہ نبی(ص)کو تیس عورتوں کی طاقت عطا کی گئی تھی؟

یہ رسول(ص) کے حق میں ظلم ہے انہوں نے اپنی پوری زندگی جہاد اور عبادت اور امت کی تعلیم و تربیت میں صرف کی ہے.

یہ جاہل افراد اس طرح کی روایات کو بیان کرتے وقت کیا سمجھتے تھے وہ اپنی نجس عقلوں اور شہوت کے لحاظ سے کثرت جماع لائق فخر سمجھتے تھے اسی لئے وہ اپنے ہم عمروں پر فخر کرتے تھے؛ حقیقت یہ ہے کہ یہ روایات نبی(ص) کی قداست کو داغدار بنانے کے لئے گڑھی گئی ہیں. دوسرے وہ ان روایات

۱۳۷

کے ذریعہ حکام و خلفا کی اس بے حیائی کی پردہ پوشی کرنا چاہتے ہیں کہ عورتوں اور کنیزوں پر جن کی چیرہ دستیوں کے بارے میں تاریخ بھری پڑی ہے اور اس حدیث کے راوی انس ابن مالک زوجہ نبی(ص) عائشہ کے سامنے کیا کہیں گے وہ تو کہتی تھیں کہ جماع کے سلسلہ میں نبی(ص) بھی ایسے ہی تھے جیسے دوسرے افراد.

مسلم نے اپنی صحیح کے کتاب الطہارت کے باب " نسخ الما من الماء و وجوب الغسل بالتقاء الختانین" میں ابو زبیر سے اور انہوں نے جابر ابن عبداللہ اور انہوں نے ام کلثوم سے اور انہوں نے زوجہ نبی(ص) عائشہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ: ایک شخص نے رسول(ص) سے اس شخص کے بارے میں سوال کیا جو اپنی بیوی سے جماع کرتا ہے اور پھر میاں بیوی دونوں سست پڑ جاتے ہیں کیا ان دونوں پر غسل واجب ہے؟ اور عائشہ رسول(ص) کے پاس بیٹھی ہیں. رسول(ص) نے فرمایا: میں اور یہ(عائشہ) ایسا ہی کرتے ہیں اور پھر غسل کرتے ہیں.

پھر حدیث کا شارح صحیح مسلم کے حاشیہ پر اضافہ کرتا ہے کہ مصباح میں کسل( سست پڑ جانے) کے معنی یہ ہیں کہ جب مجامعت کرے اور ضعف کی بنا پر انزال نہ ہو.... پس یہ کہاں سے ثابت ہوا کہ انہیں ( نبی(ص) کو) تیس عورتوں کی طاقت عطا کی گئی تھی؟

گڑھنے والوں نے یہ دوسری حدیث گڑھ لی ہے خدا انہیں غارت کرے اور ان کے عذاب میں اضافہ کرے ورنہ رسول(ص) کے بارے میں ایسی حدیثوں کو ایک عاقل کیسے قبول کرسکتا ہے کہ جن سے رسول(ص) کی حیاء پر حرف آتا ہے کہ وہ اپنی زوجہ کے سامنے مردوں سے ایسی بات بیان کرتے ہیں کہ جن کے بیان کرنے سے ایک عام مومن بھی شرم کرتا ہے.

۱۳۸

امویوں کے زمانہ میں رقص و غنا کے جواز پر چند مثالیں

رسول(ص) رقص سے مسرور ہوتے اور موسیقی سنتے تھے.

بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب النکاح کے باب " ضرب الدف فی النکاح و الولیمة" میں تحریر کیا ہے کہ ہم سے بشر ابن مفضل نے اور خالد ابن زکوان نے بیان کیا ہے کہ ربیع بنت معوذ ابن عفراء نے کہا: جب نبی(ص) نے مجھ سے شادی کی تو میرے پاس آئے اور میرے بستر پر اتنی دور بیٹھ گئے جتنی دور تم بیٹھے ہو پس لونڈیاں ہمارے پاس آکر دف بجانے لگیں اور بدر میں قتل ہونے والے میرے آباء کا مرثیہ بیان کرنے لگیں اس وقت میں سے ایک نے کہا: حالانکہ ہمارے نبی(ص) جانتے ہیں کل کیا ہوگا. پس آپ(ص) نے فرمایا کہ اسے چھوڑو! وہی گائو جو تم گا رہی تھیں.

اسی طرح بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب الجہاد کے باب الدرق میں اور مسلم نے اپنی صحیح کی کتاب صلوة العیدیں کے باب" الرخصة فی اللعب الذی لا معصیة فیه" میں عائشہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا:

رسول(ص) میرے پاس اس وقت آئے جب دو لونڈیاں گا رہی تھیں اور بستر پر بیٹھ گئے اور منہ پھیرا لیا تھوڑی دیر بعد ابوبکر داخل ہوئے اور مجھے ڈانٹا اور کہا: شیطانی کام رسول(ص) کے پاس؛ پس رسول(ص) نے ابوبکر سے کہا:... جانے دو اور جب وہ دونوں ( رسول(ص) اور ابوبکر) دوسرے طرف متوجہ ہوئے تو لونڈیاں نکل گئیں.

عائشہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: عید کے روز حبشی

۱۳۹

( کالے) تماشہ کر رہے تھے پس یا تو میں نے رسول(ص) سے دریافت کیا یا آپ(ص) نے فرمایا کہ کیا تم دیکھنا چاہتی ہو؟ میں نے عرض کی ہاں، تو مجھے اپنی پشت پر اس طرح اٹھایا کہ میرا رخسار ان کے رخسار پر تھا. آنحضرت(ص) نے کہا: بنی ارفدہ (حبشیو) تم اپنے رقص کو جاری رکھو یہاں تک کہ عائشہ نے کہہ دیا میں تھک گئی تو آپ(ص) نے فرمایا بس اتنا کافی ہے میں نے کہا ہاں، آپ(ص) نے فرمایا کہ جائو.

بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب النکاح کے باب" نظر المراة الی الحبش و نحوهم من غیر ریبة" میں عائشہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے نبی(ص) کو دیکھا کہ وہ مجھے اپنی ردا میں چھپا رہے ہیں اور میں ان حبشیوں کا تماشہ دیکھ رہی تھی کہ جو مسجد میں ہلڑ مچائے ہوئے تھے یہاں تک کہ مجھے بھی دیکھنے کا اشتیاق ہوا. یہاں تک کہ میرا بھی جی چاہنے لگا کہ میں ناچنے لگوں.

اسی طرح مسلم نے اپنی صحیح کی کتاب صلوة العیدین کے باب" الرخصة فی اللعب" میں عائشہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ عید کے روز حبشی ناچتے ہوئے مسجد میں آئے تو نبی(ص) نے مجھے بلایا پس میں نے اپنا سر ان کے کاندھے پر رکھ کر ان کا تماشہ دیکھنے میں اس طرح کھو گئی کہ ان کی طرف سے آنکھیں ہی نہ ہٹیں.

بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب النکاح کے باب " ذھاب النساء و الصبیان الی العرس" میں انس ابن مالک سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: نبی(ص) نے دیکھا کہ عورتیں اور بچے شادی میں کھیل کود رہے ہیں پس آپ(ص) دیکھنے کے اشتیاق میں کھڑے ہوگئے اور کہا کہ: تم مجھے سب سے زیادہ عزیز ہو.

بخاری کے شارح کہتے ہیں کہ اشتیاق میں کھڑے ہونے کے معنی یہ ہیں کہ آپ(ص) بھی ان کے کھیل سے مسرور ہو رہے تھے.

۱۴۰