اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد ۲

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟0%

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 261

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
زمرہ جات: صفحے: 261
مشاہدے: 38375
ڈاؤنلوڈ: 3766


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 261 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 38375 / ڈاؤنلوڈ: 3766
سائز سائز سائز
اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد 2

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

"منشیات اور شراب خوری کی تہمت سے بچنے کے لئے دوا کا نام دے کر پینے کے سلسلہ میں چند نمونے"

نبی(ص) نبیذ پیتے تھے" معاذ اللہ"

بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب النکاح کے باب" قیام المراة علی الرجال فی العرس و خدمتہم بالنفس " میں اور اسی طرح باب" النقیع والشراب الذی لا یسکر فی العرس" میں ابو حازم سے اور انہوں نے سہل سے روایت کی ہے کہ جب ابو اسید ساعدی نے شادی کی تو نبی(ص) اور ان کے اصحاب کو دعوت دی لیکن ان کے لئے کھانا تیار نہ کیا اور خود بھی ان کے پاس نہ آیا(ہاں) اسید کی ماں نے شب میں کچھ کھجوریں پتھر کے چھوٹے برتن میں بھگو دی تھیں وہ نبی(ص) اور ان کے سامنے پیش کیا جب نبی(ص) فارغ ہوچکے تو تحفہ کے طور پر ان کھجوروں کے پانی سے سیراب کیا گیا.

اس روایت سے وہ یہ بات ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ.... ( معاذ اللہ) نبی(ص) شراب پینے تھے. شاید نبیذ سے غیر مشہور نبیذ مراد ہو. کیونکہ عرب کی یہ عادت تھی کہ وہ پانی کی بو زائل کرنے کے لئے اس میں کھجوریں ڈال دیتے تھے پس وہ حقیقتا نبیذ نہیں ہے. بعض لوگوں کا نظریہ ہے کہ اس کا استعمال صحیح ہے. مسلم نے اپنی صحیح کی کتاب الاشربہ کے باب" اباحة النبیذ الذی لم یشدد و لم یصر مسکرا" میں اس روایت کو نقل کیا ہے. یہیں سے شراب خوری کی ابتداء ہوئی اور یہیں سے حکام نے یہ حکم لگایا کہ جب تک وہ نشہ آور نہ ہو حلال ہے.

۱۴۱

" کچھ اور چیزیں جن میں بنی امیہ اور بنی عباس ملوث تھے..."

نبی(ص) اور ابتذال!

بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب الحج کے باب" الزیارت یوم النحر" میں عائشہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: ہم نے نبی(ص) کے ہمراہ حج کیا اور قربانی کے روز صفیہ کو حیض آگیا اور نبی(ص) نے ان کے ساتھ وہی سلوک کرنا چاہا جو مرد اپنی بیوی سے کرتے ہیں تو میں نے عرض کی یا رسول اللہ(ص) حائض ہے.

تعجب ہے اس نبی(ص) پر کہ جو ایسے محترم مقام پر اپنی زوجہ سے مجامعت کرنا چاہتے ہیں اور آپ کی دوسری زوجہ کو اس کی اطلاع ہو جاتی ہے اور وہ آنحضرت(ص) کو یہ بتاتی ہے کہ وہ حائض ہے اور خود نبی(ص) نہیں جانتے ہیں.

نبی(ص) اور حیا

مسلم نے اپنی صحیح کی کتاب الفضائل کے باب " فضائل عثمان ابن عفان" میں زوجہ نبی(ص) عائشہ اور عثمان سے روایت کی ہے کہ ان دونوں سے بیان کیا ہے کہ ابوبکر نے رسول(ص) کے پاس پہونچنے کی اجازت طلب کی در آنحالیکہ آپ(ص) عائشہ کی چادر اوڑھے ہوئے لیٹے تھے پس آپ(ص) نے ابوبکر کو داخل ہونے کی اجازت مرحمت فرمائی اور ایسے ہی لیٹے رہے ابوبکر کی حاجت پوری ہوگئی تو واپس چلے گئے عثمان کہتے ہیں کہ کچھ دیر کے بعد عمر نے اجازت چاہی آپ(ص) نے انہیں بھی اجازت دے دی وہ داخل ہوئے لیکن آپ(ص) لیٹے ہی رہے ان کی

۱۴۲

ضرورت پوری ہوگئی تو وہ لوٹ گئے پھر عثمان کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے اذن چاہا تو آپ(ص) بیٹھ گئے اور عائشہ سے کہا تم بھی اپنا لباس صحیح کر لو. پس جب میرا مقصد بھی پورا ہوگیا تو میں بھی لوٹ آیا تو عائشہ نے کہا: یا رسول اللہ(ص) مجھے کیا ہوگیا ہے کہ میں نے آپ کو ابوبکر و عمر کی آمد پر اتنا اہتمام کرتے ہوئے نہیں دیکھا جیسا کہ عثمان کی آمد پر دیکھا ہے. رسول(ص) نے فرمایا: عثمان بہت شرمیلے انسان ہیں میں اس بات سے ڈرتا تھا کہ اگر میں انہیں اجازت دے دوں اور خود اسی حالت میں لیٹا رہوں تو وہ واپس نہ چلے جائیں.

یہ کون سا نبی ہے کہ اس کے اصحاب ملنے آتے ہیں اور وہ اپنی زوجہ کی چادر لپیٹے لیٹا ہے. اور دوسری طرف ان کی زوجہ معمولی لباس پہنے بیٹھی ہیں یہاں تک کہ عثمان کے آتے ہی ہی آپ اٹھ بیٹھتے ہیں اور اپنی زوجہ سے کہتے ہیں کہ لباس صحیح کر کے بیٹھو!

نبی(ص) اور برہنگی!

بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب الصلوة کے باب"کراهة التعری فی الصلوة" میں اور اسی طرح مسلم نے کتاب الحیض کے باب" الاعتناء بحفظ العورة" میں جابر ابن عبداللہ سے روایت کی ہے کہ:

رسول(ص) ہم لوگوں کے ساتھ کعبہ کے لئے پتھر لارہے ہیں تھے کہ آپ(ص) لنگی باندھے ہوئے تھے آپ(ص) کے چچا عباس نے آپ(ص) سے کہا بھیجے لنگی اتار لو اور اسے کندھے پر رکھ کر اس پر پتھر رکھو! پس آپ(ص) نے لنگی اتار کر کندھے پر رکھ لی تھوڑی دیر کے بعد غش کھا کے گر پڑے تو آپ(ص) کو عریان دیکھا گیا.

۱۴۳

قارئین اس رسول(ص) پر ان بیہودہ تہمتوں کو ملاحظہ فرمائیں کہ جس نے کو ایمان کا ستون قرار دیا ہے جو کنواری لڑکیوں سے زیادہ حیادار تھے، اہلسنت نے اس رکیک روایت پر ہی اکتفا نہ کی بلکہ اس گڑھی ہوئی روایت کے ذریعہ آپ(ص) پر شرمگاہ کے کھولنے کی بھی تہمت لگا دی. کیا ان کے نزدیک. رسول(ص) اللہ( معاذ اللہ) اتنے نا فہم ہیں کہ وہ اپنے چچا کی باتوں میں آگئے اور اپنے جسم کو لوگوں کے سامنے کھول دیا.

ان شیطانوں اور ابلیسوں کے ان اقوال سے خدا بچائے کہ جو خدا اور رسول(ص) پر بہتان باندھتے ہیں. یہ وہ رسول(ص) ہے کہ جس کی شرمگاہ کو آپ(ص) کی ازواج نے بھی کبھی نہ دیکھا جبکہ ان کے لئے شرع نے اس کی اجازت دی ہے اس کے باوجود عائشہ کہتی ہیں کہ میں نے کبھی بھی رسول(ص) کی شرمگاہ نہیں دیکھا.(1) پس جب ازواج کے ساتھ آپ(ص) کا یہ برتائو تھا کہ جو آپ(ص) کے ساتھ حمام یا برتن میں غسل کرتی تھیں ان سے آپ(ص) اپنی شرمگاہ کو چھپائے رکھتے تھے اور ان میں سے کسی نے کبھی آپ(ص) کی شرمگاہ نہ دیکھی تو اصحاب اور عام لوگوں کے لئے ایسا کیونکر ممکن ہے.

ہاں یہ سب حدیثیں بنی امیہ کی گڑھی ہوئی ہیں وہ لوگ کسی چیز کی پروا نہیں کرتے تھے اور جب ان کا خلیفہ و امیر کسی شاعر کے غزلیہ کلام سے وجد میں آجاتا تھا وہ کھڑے ہو جاتا تھا. اور شاعر کی شرمگاہ کو کھول کر اس کا عضو تناسل چوم لیتا تھا. تو اس کے لئے نبی(ص) کی برہنگی کوئی عجیب بات نہیں ہے اور یہ نفسیاتی مرض ان سے دنیا میں پھیل گیا اور آج یہ بے حیائی معمولی چیز سمجھی جانے

____________________

1.سنن ابن ماجہ جلد/1 ص619

۱۴۴

جانے لگی ہے ان کے لئے اخلاق وحیا کی کوئی حیثیت نہیں ہے ہر جگہ عریانیت کے اڈے اور سینٹر بنے ہوئے ہیں جہاں مرد و عورت اس نعرہ کے تحت جمع ہوتے ہیں" پروردگار جیسے تو نے ہمیں پیدا کیا ہے ہم اب بھی اسی حالت میں ہیں.

"احکام شرعیہ اور دین سے کھلواڑ کے چند نمونے...."

نبی(ص) سے نماز میں سہو ہوتا ہے

بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب الادب کے باب "مایجوز من ذکر الناس" میں اور مسلم نے اپنی صحیح کی کتاب المساجد و مواضع الصلوة کے باب" السهو فی الصلوة والسجود له" میں ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: نبی(ص) نے ہمارے ساتھ نماز ظہر کی دو رکعت ادا کی پھر مسجد کے سامنے والی لکڑی پر ہاتھ رکھ کر کھڑے ہوگئے لوگوں میں ابوبکر و عمر بھی اس وقت موجود تھے وہ دونوں آپ(ص) سے پوچھنے کے لئے دوڑے اور وہ لوگوں کے بیچ سے تیزی سے نکل گئے. لوگوں نے کہا نماز قصر ہوگئی لوگوں میں ایک اور شخص موجود تھا جیسے نبی ذوالیدین کہہ کر پکارتے تھے، اس نے کہا یا نبی اللہ(ص) کیا آپ نماز بھول گئے تھے. یا قصر پڑھی ہے؟ آپ(ص) نے فرمایا: نہ میں بھولا ہوں اور نہ قصر پڑھی ہے. لوگوں نے کہا: یا رسول(ص) اللہ آپ بھول گئے تھے. تب آپ نے فرمایا: ذو الیدین صحیح کہہ رہا تھا.

اس کے بعد آپ(ص) نے دو رکعت نماز پڑھ کر سلام پھیرا اور تکبیر کہہ کے سجدہ ہی کے برابر یا اس سے طویل سجدہ کیا اس کے بعد پھر تکبیر کہہ کے سجدہ میں گئے اور ایسے ہی سجدہ بجالائے اس کے بعد سر اٹھایا اور تکبیر کہی.(1)

____________________

1.صحیح بخاری و صحیح مسلم، کتاب لولو و مرجان میں جلد/1 ص115

۱۴۵

افسوس ! کہ رسول(ص) سے نماز میں سہو ہو اور انہیں معلوم نہ ہو کہ میں نے کتنی رکعت نماز پڑھی ہے اور جب ان سے کہا جائے کہ آپ نے قصر پڑھی ہے تو آپ فرمائیں نہ میں بھولا ہوں اور نہ قصر پڑھی ہے. یہ اہلسنت نے رسول(ص) پر خلفائ کو تہمت سے بچانے کے لئے بہتان لگایا ہے. کیونکہ وہ اکثر نشہ کی حالت میں نماز پڑھانے آتے تھے انہیں یہ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ ہم نے کتنی رکعت نماز پڑھی ہے اور ان کے امیر کا واقعہ تاریخی کتابوں میں مشہور ہے کہ اس نے نماز صبح چار رکعت پڑھانے کے بعد نمازیوں کی طرف متوجہ ہو کر کہا اور پڑھائوں یا اتنی کافی ہے.

بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب الاذان کے باب" اقام الرجل عن یسار الامام" میں ابن عباس سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ:

میں میمونہ کے پاس تھا اور اس شب میں نبی(ص) بھی میمونہ ہی کے یہاں تھے آپ(ص) نے وضو کیا اور نماز پڑھنے لگے میں بھی ان کے بائیں طرف کھڑا ہو گیا. آپ(ص) نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے داہنی طرف کر دیا پھر تیرہ 13 رکعت نماز پڑھی پھر سوگئے یہاں تک کہ خراٹوں کی آواز آنے لگی اور جب بھی آپ(ص) سوتے تھے. خراٹوں سے سوتے تھے پھر موذن نے اذان دی تو بغیر وضو کئے نماز پڑھی.

عمرو نے کہا میں نے یہ بات بکیر کو بتائی تو انہوں نے کہا کریب نے بھی مجھ سے ایسے

رسول(ص) کی طرف ایسی جھوٹی احادیث کی نسبت دے کر بنی امیہ اور بنی عباس کے امرا و سلاطین وضو اور نماز کی اہمیت کو کم کر رہے تھے یہاں تک کہ ہمارے درمیان یہ مثل مشہور ہوگئی کہ" صلواة القیاد فی الجمعة والاعیاد" امیر و

۱۴۶

حاکم جمعہ اور عیدین کی نماز پڑھتے ہیں.

نبی(ص) اور حلف شکنی!

بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب المغازی کے باب"قدوم الاشعریین و اهل الیمن" میں قصہ عمان و بحرین میں ابو قلابہ سے انہوں نے زہدم سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ جب ابو موسی آئے تو شہر والوں نے انکا احترام کیا اور ہم لوگ ان کے پاس بیٹھے وہ مرغ مسلم کھا رہے تھے وہیں پر ایک شخص بیٹھا ہوا تھا ابو موسی نے اسے کھانے کے لئے کہا تو اس نے کہا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ تم غلاظت کھا رہے ہو، پس ابو موسی نے کہا آئو ہم نے رسول(ص) کو اسے کھاتے ہوئے دیکھا ہے. اس نے کہا کہ میں نے قسم کھائی ہے کہ اسے نہیں کھائوں گا ابوموسی نے کہا تمہیں قسم کے بارے میں بتائی، نبی(ص) کے پاس ایک اشعری آیا پس ہم نے نبی(ص) سے مطالبہ کیا کہ ہمیں لے چلیں تو نبی(ص) نے اس کو لے جانے سے انکار کر دیا پھر ہم نے مطالبہ کیا تو نبی(ص) نے قسم کھا لی کہ ہم نہیں لے جائیں گے. پس ہمیں پانچ فربہ اونٹنیاں دینے کا حکم دیا جب ہم نے اسے لے لیا تو ہم نے کہا کہ نبی(ص) نے قسم کے سلسلہ میں بے اعتنائی کی ہے ہم اس کے بعد کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے. پس میں آیا اور کہا اے نبی(ص) اللہ آپ نے قسم کھائی تھی کہ ہمیں نہیں لے جائیں گے اور لے جارہے ہیں. آپ نے فرمایا ہاں میں وہی قسم کھاتا ہوں کہ جس میں خیر ہو اور میں نے وہی کیا جس میں خیر تھا.

اس نبی(ص) کو ملاحظہ فر مائیے جس کو خدا نے اس لئے بھیجا تا کہ وہ لوگوں کو یہ بتائیں کہ اپنے عہدوں کی حفاظت کریں، برادری کا پاس رکھیں اور قسم

۱۴۷

نہ توڑیں، ہاں کفارہ دے کر توڑ سکتے ہیں لیکن نبی(ص) لوگوں کو جس چیز کا حکم دیتے خود اسے انجام نہیں دیتے ہیں جب کہ خداوند عالم فرماتا ہے:

( لا يُؤاخِذُكُمُ‏ اللَّهُ‏ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ وَ لكِنْ يُؤاخِذُكُمْ بِما عَقَّدْتُمُ الْأَيْمانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعامُ عَشَرَةِ مَساكِينَ مِنْ أَوْسَطِ ما تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيامُ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ ذلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمانِكُمْ إِذا حَلَفْتُمْ وَ احْفَظُوا أَيْمانَكُمْ كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آياتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ) سورہ مائدہ، آیت/89

خدا تم سے بے قصد قسمیں کھانے پر مواخذہ نہیں کرتا ہے لیکن جن قسموں کی گرہ دل نے باندھ لی ہے ان کی مخالفت کا کفارہ دس مسکینوں کے لئے اوسط درجہ کا کھانا ہے. جو اپنے گھر والوں کھ کھلاتے ہو یا ان کا کپڑا یا ایک غلام کی آزادی ہے پھر اگر یہ سب نا ممکن ہو تو تین روزے رکھو کہ یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب بھی تم قسم کھا کر مخالفت کرو. لہذا اپنی قسموں کا تحفظ کرو کہ خدا اس طرح اپنی آیات کو واضح کر کے بیان کرتا ہے کہ شاید تم اس کے شکر گزار بندے بن جائو.

دوسری جگہ ارشاد ہے:

( وَ لا تَنْقُضُوا الْأَيْمانَ بَعْدَ تَوْكِيدِها )

اور اپنی قسموں کو ان کے استحکام کے بعد برگز مت توڑو.

لیکن انہوں نے رسول(ص) کی کسی فضیلت و شرافت کو نہ چھوڑا!

۱۴۸

قسم کے کفارہ میں عائشہ نے چالیس غلام آزاد کئے

رسول(ص) کہاں ہیں؟ (دیکھیں) کہ ان کی زوجہ عائشہ ایک قسم کے کفارہ میں چالیس غلام آزاد کرتی ہیں! کیا عائشہ رسول(ص) کی بہ نسبت خدا سے زیادہ ڈرتی ہے.(1)

بخاری نے اپنی صحیح کتاب الادب کے باب المہجرہ اور رسول(ص) کے اس قول کے سلسلہ میں کہ کسی مومن کے لئے تین روز تک اپنے برادر مومن سے بول چال بند رکھنا جائز نہیں ہے" روایت کی ہے کہ عائشہ نے بیان کیا ہے کہ عبداللہ ابن زبیر نے اس بیع یا عطا کے بارے میں جو انہیں عائشہ نے عطا کیا تھا کہا: کہ ہم اس میں عائشہ کو تصرف کرنے سے روک دیں گے، تو عائشہ نے کہا کیا اس نے یہ کہا ہے؟ لوگوں نے کہا ہاں: عائشہ نے کہا کہ میں خدا سے اس بات کی نذر کرتی ہوں کہ ابن زبیر سے کبھی نہیں بولوں گی. پس جب قطع کلامی کو طویل عرصہ گزر گیا تو ابن زبیر نے ان سے معذرت چاہی عائشہ نے کہا: ہرگز نہیں، قسم خدا کی میں کبھی بھی معاف نہ کروں گی اور نہ اپنی قسم، توڑوں گی، پس جب اور زیادہ زمانہ گزر گیا تو ابن ربیر نے مسور ابن مخرمہ اور عبدالرحمن ابن الاسود ابن عبد یغوث سے اس سلسلہ میں گفتگو کی، واضح رہے کہ یہ دونوں قبیلہ زہرہ سے تعلق رکھتے تھے. اور کہا میں خدا کی قسم دیتا ہوں کہ مجھے عائشہ کے پاس پہونچا دو کیونکہ ان کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ مجھ سے قطع کلامی

____________________

1.صحیح بخاری جلد/7ص90

۱۴۹

کی نذر کریں. وہ دونوں اس کو چھپا کر اپنے ساتھ لے گئے اور عائشہ سے اندر آنے کی اجازت چاہی اور ان دونوں نے سلام کیا. اور کہا ہم اندر آسکتے ہیں؟ عائشہ نے کہا چلے آئو. انہوں نے کہا ہم سب چلے آئیں؟ کہا:ہاں سب چلے آئو، عائشہ یہ نہیں جانتی تھیں کہ ان کے ساتھ ابن زبیر بھی ہے.

پس جب وہ داخل ہوئے تو ابن زبیر بھی پیچھے پیچھے داخل ہوگئے تو عائشہ نے منہ پھیر لیا. تو یہ رو رو کر التماس کرنے لگے، مسور اور عبدالرحمن اس وقت تک گڑ گڑاتے رہے جب تک کہ انہوں نے ( عائشہ) نے بات نہیں کی. ان دونوں نے کہا آپ جانتی ہیں کہ نبی(ص) نے تین روز سے زیادہ قطع کلامی سے منع فرمایا ہے. جب عائشہ کو انہوں نے بہت زیادہ سمجھایا اور دبائو ڈالا تو عائشہ نے ان کی بات مان لی اور روتے ہوئے کہا کہ میں نے ان سے کلام نہ کرنے کی نذر کی تھی اور نذر بہت سخت چیز ہے. لیکن وہ لوگ اس وقت تک وہاں سے نہ ٹلے جب تک کہ عائشہ نے ابن زبیرسے بول چال شروع نہ کی.پھر عائشہ نے اپنی نذر توڑنے کے کفارہ میں چالیس غلام آزاد کئے وہ اپنی نذر کو یاد کرتی تھیں اس کے بعد روتیں کہ آنسو سے دوپٹہ تر ہوجاتا تھا.

باجودیکہ عائشہ کی قسم صحیح نہیں تھی کیونکہ نبی(ص) نے مسلمان کے لئے اپنے بھائی سے تین روز سے زیادہ بول چال بند کرنے کو حرام قرار دیا ہے لیکن عائشہ نے اس پر عمل نہیں کیا اور بعض قسم کے کفارہ میں چالیس غلام آزاد کئے. یہ چیز اس بات کی طرف بھی ہماری راہنمائی کرتی ہے کہ یہ عائشہ ہی کی ذاتی دولت تھی ورنہ عائشہ چالیس غلام یا ان کی قیمت کی مالک کیسے بن سکتی تھیں یہ کوئی آسان بات نہیں تھی اور تاریخ نے کوئی ایسا واقعہ نقل نہیں کیا کہ رسول(ص) نے اپنی پوری حیات میں غلاموں کی اتنی بڑی تعداد آزاد کی ہو.

۱۵۰

انہوں نے کوئی برائی اور خامی ایسی نہیں چھوڑی جس کی نسبت رسول(ص) کی طرف نہ دی ہو اور اس کی وجہ صرف اپنے امراء کے کرتوتوں کو تنقید سے بچانا تھی. خدا انہیں غارت کرے انہوں نے بہت برا کام کیا ہے.

" احکام شرعیہ کی بے احترامی کے سلسلہ میں انہیں بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کی ہے.

نبی(ص) احکام خدا میں جیسے چاہتے ہیں تبدیلی کرتے ہیں

بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب الصوم کے باب " اغتسال الصائم" میں اور مسلم نے اپنی صحیح کی کتاب الصیام کے باب" تغلیظ تحریم الجماع فی نهار رمضان علی الصائم و وجوب الکفارة الکبری فیه و انها تجب علی الموسر و المعسر" میں ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ:

ہم لوگ رسول(ص) کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک شخص آپ کی خدمت میں آیا اور کہا: یا رسول اللہ(ص) میں ہلاک ہوا! فرمایا تمہیں کیا ہوگیا؟ اس نے کہا: میں نے اپنی زوجہ سے ہمبستری کر لی حالانکہ میں روزہ سے تھا. رسول(ص) نے فرمایا کیا تم غلام آزاد کرسکتے ہو؟ اس نے کہا نہیں، آپ(ص) نے فرمایا تم پے در پے دو ماہ روزے رکھ سکتے ہو؟ اس نے کہا: نہیں، آپ(ص) نے فرمایا: کیا ساٹھ مسکینو ں کو کھانا کھلا سکتے ہو؟ اس نے کہا: نہیں، راوی کہتا ہے کہ وہ شخص تھوڑی دیر نبی(ص) کے پاس ٹھہرا تھا ہم بھی بیٹھے تھے کہ نبی(ص) نے اسے کھجور کا رس دیا کہ اس میں کھجوریں بھی پڑی تھیں. فرمایا: سائل کہاں ہے؟ اس نے کہا میں ہوں، فرمایا: تو اسے تصدق کر دے. اس نے کہا یا رسول اللہ(ص) مجھ سے بڑا بھی کوئی فقیر ہے؟

۱۵۱

قسم خدا کی کوئی گھرانہ میرے گھر سے زیادہ فقیر نہیں ہے. پس نبی(ص) کو ہنسی آگئی یہاں تک کہ دندان (مبارک) ظاہر ہوگئے. پھر فرمایا: جائو اپنے گھر والوں کو کھلا دو.

احکام و حدود خدا کی گت ملاحظہ فرمائیے، خدا نے اپنے خوش حال بندوں پر غلام آزاد کرنا اور اگر غلام آزاد نہیں کرسکتے تو ان پر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا اور جو فقیری کی وجہ سے کھانا بھی نہیں کھلا سکتے تو ان پر دو مہینوں کے روزے واجب کئے ہیں یہ ان فقیروں کا کفارہ ہے کہ جن کو غلام آزاد کرنے اور مسکینوں کو کھانا کھلانے بھر کا پیسہ نصیب نہیں ہوتا ہے لیکن یہ روایت تو خدا کے ان حدود کو پامال کرتی ہے جو اس نے اپنے بندوں کے لئے مقررکئے ہیں.

ہمارے لئے مجرم کا یہی کہنا کافی ہے کہ رسول(ص) اس طرح مسکرائے کہ دانت نظر آنے لگے گویا حکم خدا کو اس کے لئے آسان کر دیا اور صدقہ لینا مباح کر دیا.

کیا خدا و رسول(ص) پر اس سے بڑا بہتان بھی باندھا جاسکتا ہے کہ گناہ کرنے والے کی سزا کے بجائے معاف کر دیا اس سے بھی زیادہ گناہگاروں فاسقوں، اور منحرف لوگوں کو جری بنایا جاسکتا ہے.

ایسی ہی روایات کی بنا پر تو دین خدا اور اس کے احکام کھلونہ بن کے رہ گئے اور زنا کار اپنے اس فعل شنیع پر فخر اور محافل و شادیوں میں زانی کے نام کے گانے گائے جانے لگے اسی طرح ماہ رمضان میں روزہ توڑنے والا روزہ داروں کا منہ چڑھاتا ہے.

جیسا کہ بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب الایمان والنذر کے باب"اذا حنث ناسیا" میں عطا سے اور انہوں نے ابن عباس سے روایت

۱۵۲

کی ہے کہ ایک شخص نے نبی(ص) سے کہا کہ میں نے رمی جمرات سے قبل طواف زیارہ کر لیا. نبی(ص) نے فرمایا کوئی حرج نہیں ہے. ایک دوسرے شخص نے کہا: میں نے قربانی سے پہلے سرمنڈا لیا. آپ نے فرمایا: کوئی حرج نہیں ہے. تیسرے نے کہا: میں نے رمی جمرات سے قبل قربانی کرلی، فرمایا: کوئی اشکال نہیں ہے.

اور عبداللہ ابن عمرو ابن عاص سے روایت ہے کہ ہمارے درمیان نبی(ص) خطبہ دے رہے تھے کہ ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا یا رسول اللہ(ص) فلاں سے قبل میرا ایسا ایسا خیال تھا، پھر ایک اور شخص کھڑا ہوا اور کہا: میں ان تینوں( سرمنڈانے، قربانی اور رمی جمر) کے بارے میں ایسا خیال رکھتا تھا. نبی(ص) نے فرمایا: اس میں کوئی حرج نہیں ہے. تینوں کو ایک ہی روز میں انجام دیا جاتا ہے پس جب ان میں سے کسی نے کسی کے بارے میں سوال کیا تو کہا: بجا لائو، بجا لائو اس میں کوئی حرج نہیں ہے.

عجیب بات تو یہ ہے کہ جب آپ ان روایات کو پیش کریں گے تو بعض معاندین آپ کے سامنے ڈٹ کے کہیں گے دین خدا آسان ہے اس میں تنگی نہیں ہے. اور رسول اللہ(ص) نے فرمایا ہے: آسانی کو اختیار کرو اور تنگی سے بچو!

اگر چہ یہ بات حق ہے لیکن مراد باطل ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ خدا نے ہمارے لئے سہولتیں رکھی ہیں اور حرج میں مبتلا نہیں کیا ہے لیکن اس قرآن مجید اور سنت نبوی کے ذریعہ ہم تک احکام و حدود پہونچائے ہیں اور اقتضائے وقت کے لحاظ سے ہمیں چھوٹ بھی دی ہے جیسے پانی کے فقدان اور بیماری کے خوف کے وقت تیمم کی اجازت مرحمت کی اسی طرح مقتضائے وقت کے لحاظ سے بیٹھ کر نماز پڑھنے کی اجازت دی، چنانچہ سفر میں روزہ نہ رکھنے اور نماز

۱۵۳

قصر پڑھنے کی رخصت دی یہ سب چیزیں صحیح ہیں لیکن ہم احکام خدا کی مخالفت کرتے ہیں اور وہ اس طرح کہ ہم وضو و تیمم کی ترتیب کو بدل دیں ہاتھوں کو چہرہ سے قبل دھوئیں یا پیروں کا مسح سر سے پہلے کریں یہ جائز نہیں ہے.

لیکن گڑھنے والوں کا ارادہ تو یہ ہے کہ رسول(ص) کو اتنا گرادو کہ ہمارے لئے راستہ کھل جائے. آج بھی بہت سے لوگ ( جب ان سے فقہی مسائل میں آپ بحث کریں گے تو وہ) کہتے ہیں کہ برادرم کوئی جبر نہیں ہے ہم کو صرف نماز پڑھنا ہے جیسے بھی ہوسکے نماز پڑھو.

عجیب بات تو یہ ہے کہ بخاری نے اسی صفحہ پر جس رسول(ص) کا یہ قول" افعل افعل و لا حرج" انجام دوکوئی حرج نہیں ہے. درج کیا ہے ایک واقعہ تحریر کیا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رسول(ص) حدود سے تجاوز کر کے بہت دور نکل گئے تھے، ابوہریرہ کے حوالے سے لکھتے ہیں، ایک شخص مسجد میں داخل ہوا اور نماز پڑھی رسول(ص) بھی مسجد کے گوشہ میں تشریف فرما تھے... وہ شخص نماز کے بعد رسول(ص) کے پاس آیا اور سلام کیا تو آپ(ص) نے فرمایا: "دوبارہ" نماز پڑھو! تم نےنماز نہیں پڑھی ہے وہ واپس گیا، نماز ادا کی، اور آکر سلام کیا آپ(ص) نے پھر فرمایا: نماز پڑھو! تم نے صحیح نماز نہیں پڑھی، یہاں تک کہ اس شخص نے تین مرتبہ نماز ادا کی اور رسول(ص) ہر بار اس سے یہی کہتے رہے، پھر سے نماز پڑھو! تم نے نماز نہیں پڑھی ہے. پس اس شخص نے کہا یا رسول اللہ(ص) آپ(ص) مجھے سکھا دیجئے. تو آپ(ص) نے اسے بتایا کہ رکوع و سجود کو اطمینان سے بجا لائو پھر رکوع کے بعد سیدھے کھڑے ہو جائو اور پھر اطمینان کے ساتھ سجدہ کرو اور سجدہ کے بعد اطمینان سے بیٹھو! دوبارہ پھر اطمینان سے سجدہ بجالائو اور اس کے بعد سیدھے کھڑے ہو جائو اسی طرح پوری نماز پڑھو.

۱۵۴

بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب التوحید کے باب قول اللہ، عزو جل( فاقرئووا ما تیسر من القرآن ) میں عمر ابن خطاب سے روایت کی ہے کہ وہ کہتے ہیں میں نے حیات رسول(ص) میں ہشام این حکم کو سورہ فرقان کی تلاوت کرتے ہوئے سنا ان کی قرائت پر میں نے جو غور کیا تو بہت سے حروف تھے جن کی تعلیم رسول(ص) نے ہمیں نہیں دی تھی میں نے چاہا کہ نماز ہی سے اسے گریبان پکڑ کر گھسیٹ لوں مگر سلام پھیرنے تک صبر کیا اور پھر اپنی ردا سے جکڑ کر پوچھا یہ سورہ تمہیں کس نے پڑھایا ہے. اس نے کہا: رسول(ص) نے، میں نے کہا تم جھوٹ بولتے ہو ہمیں تو اس کی تعلیم نہیں دی جو تم پڑھ رہے تھے.

میں اسے لے کر رسول(ص) کی خدمت میں پہونچا اور عرض کی میں نے اسے اس سورہ فرقان کی تلاوت کرتے ہوئے سنا کہ جو آپ(ص) نے ہمیں نہیں سکھایا ہے آپ(ص) نے فرمایا: اسے چھوڑ دو! اسے ہشام پڑھو، پس اس نے وہی تلاوت کی جو میں نے سنی تھی پس رسول(ص) نے فرمایا: یہ سورہ اسی طرح نازل ہوا تھا. اس کے بعد رسول(ص) نے فرمایا: اے عمر تم پڑھو! پس میں نے وہی قرائت کی جو مجھے سکھائی تھی. آپ(ص) نے فرمایا: یہ سورہ ایسے ہی نازل ہوا ہے. بے شک یہ قرآن سات حرفوں پر نازل ہوا ہے جس طرح ممکن ہو پڑھو!

کیا اس روایت کے بعد اس میں کوئی شک رہ جاتا ہے کہ گڑھنے والوں نے رسول(ص) کی قداست پر دھبہ لگانے کی کوشش کی ہے یہاں تک کہ قرآن کے بارے میں بھی آپ(ص) کی شخصیت کو اس طرح مخدوش کرنا چاہا ہے کہ آپ(ص) نے صحابہ کو مختلف قرائتیں سکھائیں اور ہر ایک سے کہدیا یہ سورہ ایسے ہی نازل ہوا ہے. اگر قرائت میں اتنا بڑا اختلاف نہ ہوتا تو عمر ہشام کو نماز کے درمیان ہی سے گھسیٹنے اور انہیں دھمکانے کی کوشش نہ کرتے. اس سے ان علمائے اہلسنت

۱۵۵

کی روش یاد آگئی کہ جو دوسروں کے لئے اسی قرائت کو جائز سمجھتے ہیں جس کا انہیں علم ہے اس کے علاوہ دوسری قرائت جس کا انہیں علم نہ ہو وہ کسی کے لئے بھی جائز نہیں سمجھتے. ایک روز میں آیہ( اذکروا نعمتی التی انعمت علیکم ) کی تلاوت کر رہا تھا. ان میں ایک صاحب مجھ پر بکڑ پڑے اور چیختے ہوئے کہا: اگر تم قرائت سے جاہل ہو تو قرآن کے ٹکڑے ٹکڑے نہ کرو.

میں نے کہا : میں نے قرآن کے ٹکڑے کیسے کر دیتے؟

اس نے کہا:( اُذکُر نِعمَتی ) ہے نہ( نَعمَتِی )

بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب الاستقراض و اداء الدین کے باب " الخصومات" میں عبدالملک ابن میسرہ سے مرسل طریقہ سے روایت کی ہے کہ میں نے ایک شخص کو نبی(ص) کی قرائت کے خلاف ایک آیت کی قرائت کرتے ہوئے سنا تو اسے پکڑ کر نبی(ص) کے پاس لایا گیا. تو آپ نے فرمایا: تم دونوں صحیح ہو.(1)

شعبہ کہتے ہیں کہ میرا گمان ہے کہ آپ نے فرمایا کہ: اختلاف پیدا نہ کرنا کیونکہ تم سے پہلے والوں نے اختلاف کیا تو ہلاک ہوگئے.

سبحان اللہ! رسول(ص) ان کے درمیان کیسے اختلاف کو ہوا دیتے ہیں، کہتے ہیں کہ تم دونوں صحیح ہو؟ اور انہیں ایک قرائت پر جمع نہیں کرتے کہ جس سے اختلاف کی جڑ کٹ جائے.اور اس کے بعد فرماتے ہیں : اختلاف پیدا نہ کرو کیونکہ تم سے پہلے والوں نے اختلاف کیا تو وہ ہلاک ہوگئے. خدا کے بندو! خدا تم پر رحم

____________________

1.بخاری جلد/3 ص88

۱۵۶

کرے ہمیں یہ بتائیے کیا بہ تناقض نہیں ہے؟ کیا لوگوں میں ( اس لحاظ سے) رسول(ص) کی بات سے اختلاف نہیں ہوا؟ یہ تو اختلاف پر جری بناتا ہے. حاشا. رسول اللہ(ص) اس اختلاف سے بری ہیں. جس سے عقلیں نفرت کرتی ہیں.

کیا وہ قرآن میں غور نہیں کرتے جو کہتا ہے:

( وَ لَوْ كانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ‏ اخْتِلافاً كَثِيراً ) سورہ نساء، آیت/82

اگر یہ قرآن خدا کے علاوہ کسی دوسرے کا کلام ہوتا تو وہ اس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے.

کیا امت مسلمہ میں متعدد قرائتوں سے بڑا اور پر خطر کوئی اختلاف ہے کہ جس نے قرآن کے معنی کو مختلف تفاسیر و آراء میں تقسیم کر دیا ہے پس واضح آیتِ وضو مختلف فیہ ہوگئی ہے.

- معاذ اللہ- نبی(ص) بچوں کی سی حرکت کرتے ہیں اور جو سزا کا مستحق نہیں ہوتا ہے اسے سزا دیتے ہیں.

بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب المغازی کے باب" مرض النبی(ص) و وفاته " اور مسلم نے اپنی صحیح کی کتاب السلام کے باب" کراهة النداوی للدود" میں عائشہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ:

ہم نے مرض میں نبی(ص) کو زبردستی دوا پلا دی تو آپ نے اشارہ سے منع کیا کہ مجھے دوا نہ پلائو ہم نے کہا مریض تو دوا سے کراہت کرتا ہی ہے. لیکن جب آپ(ص) کو افاقہ ہوا تو فرمایا: کیا میں نے منع نہیں کیا تھا کہ مجھے دوا نہ پلائو؟ ہم نے کہا مریض دوا سے کراہت

۱۵۷

کرتا ہے. آپ(ص) نے فرمایا: پورا گھر مجھے دوا پلانے میں لگا تھا اور میں مجبور دیکھ رہا تھا. صرف عباس اس میں تمہارے شریک نہیں تھے.

تعجب ہے نبی(ص) کو افترا کرنے والے لوگوں نے ایسا بچہ بنا دیا کہ جو کڑوی دوا پینے سے بھاگتا اور پریشان ہوتا ہے. اور اشارہ سے دوا پلانے سے منع کرتا ہے. لیکن وہ زبردستی انہیں دوا پلا دیتے ہیں. اور جب افاقہ ہوتا ہے تو آپ(ص) ان سے فرماتے ہیں: کیا میں نے تمہیں منع نہیں کیا تھا کہ تم مجھے دوا نہ پلائو؟ پس سب نے معذرت کی اور کہا : ہم یہ سمجھے کہ مریض تو دوا سے کراہت کرتا ہی ہے اور سب نے جمع ہو کر دوا پلا دی اور نبی(ص) دیکھتے رہے کہ کوئی مجھے ان لوگوں سے چھڑا دے اور اس کام میں سب شامل تھے صرف آپ کے چچا عباس مستثنی تھے. کیونکہ وہ اس وقت موجود نہ تھے.

جناب عائشہ نے قصہ کو کامل طور پر نقل نہیں کیا ہے، نبی(ص) نے ان لوگوں کے بارے میں کچھ فرمایا نہیں. ( معلوم نہیں) یہ دوا پلانے کا کام مردوں کے درمیان انجام پایا تھا یا عورتوں کے درمیان انجام پذیر ہوا تھا.

نبی(ص) قرآن کی بعض آیتوں کو ختم کرتے ہیں

بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب الفضائل القرآن کے باب" نسیان القرآن " میں اور مسلم نے اپنی صحیح کی کتاب الصلوة المسافرین و قصرہا کے باب" الامر بتعهد القرآن و کراهة قول نسیت آیه کذا" میں اسامہ سے اور انہوں نے ہشام ابن عروہ سے اور انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے

۱۵۸

عائشہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: رسول اللہ(ص) نے ایک شخص کو ایک سورہ کی رات میں تلاوت کرتے ہوئے سنا تو فرمایا: خدا اس پر رحم کرے اس نے مجھے فلاں آیت یاد دلائی جسے میں بھول گیا تھا.

جیسا کہ بخاری نے دوسری روایت میں علی ابن مسہر سے اور انہوں نے ہشام سے اور انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے عائشہ سے روایت کی ہے انہوں نے کہا کہ نبی(ص) نے رات کے وقت مسجد میں کسی شخص کو قرائت کرتے ہوئے سنا تو فرمایا : خدا اس پر رحم کرے اس نے مجھے فلاں فلاں آیت یاد دلائی جس کو میں فلاں فلاں سورہ سے حذف کرچکا تھا.

یہی وہ نبی(ص) ہیں جن کو خدا نے قرآن دے کر بھیجا اور یہی ( قرآن) ان کا دائمی معجزہ بھی ہے. اور یہی وہ نبی(ص) ہیں جو اسے تدریجی نزول سے پہلے پورا قرآن ایک ساتھ نازل ہوا تھا اسی وقت سے اس کی حفاظت کر رہے تھے. خداوند عالم ان کے بارے میں فرماتا ہے:

( لا تُحَرِّكْ‏ بِهِ‏ لِسانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ ‏)

آپ قرآن کی تلاوت میں عجلت کے ساتھ زبان کو حرکت نہ دیں.

نیز فرماتا ہے:

( وَ إِنَّهُ لَتَنْزِيلُ رَبِّ الْعالَمِينَ‏ نَزَلَ‏ بِهِ‏ الرُّوحُ‏ الْأَمِينُ عَلى‏ قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنْذِرِينَ بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ وَ إِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الْأَوَّلِينَ) سورہ شعراء، آیت/196

ترجمہ: اور یہ قرآن رب العالمین کی طرف سے نازل ہونے والا ہے اسے جبرئیل امین لیکر نازل ہوئے ہیں یہ آپ کے قلب پر نازل ہوا ہے تا کہ آپ لوگوں کو عذاب الہی سے ڈرائیں یہ واضح عربی زبان میں ہے اور اس کا ذکر سابقین کی کتابوں میں موجود ہے.

۱۵۹

لیکن جھوٹوں، دجالوں اور گڑھنے والوں نے ان سب چیزوں کو ٹھکرا دیا اور آپ(ص) کی طرف ایسی باطل و نازیبا باتوں کی نسبت وی جنہیں نہ عقل قبول کرتی ہے نہ ذوق سلیم، مسلمان محققین کا یہ حق ہے کہ رسول(ص) کے بارے میں موجود اس قسم کی روایات " کہ جن سے احادیث کی کتابیں بھری پڑی ہیں خصوصا وہ کتابیں جنہیں صحاح ستہ کہا جاتا ہے ایسی باتوں سے مملو ہیں " کی تردید کریں ہم دور نہ جائیں صرف بخاری و مسلم کو دیکھیں کہ جو اہلسنت کے درمیان کتاب خدا کے بعد صحیح ترین کتاب شمار ہوتی ہیں ان کی یہ حالت ہے کہ وہ قداستِ رسول(ص) کو داغدار بتاتی ہیں تو دوسری کتابوں کا تو ذکر ہی کیا ہے یہ سب ان دشمنان خدا و رسول(ص) کی گڑھی ہوئی حدیثیں ہیں جو معاویہ اور اس کے بعد بنی امیہ کے حکام کے قریبی تھے ان لوگوں نے اتنی جھوٹی احادیث گڑھیں کہ کتابیں بھر گئیں ان حدیثوں کے گڑھنے کا مقصد عظمت رسول(ص) کو گھٹانا تھا. کیونکہ وہ ایک طرف تو خدا کی جانب سے رسول(ص) پر نازل ہونے والی ہر چیز پر ایمان نہیں رکھتے تھے. دوسری طرف وہ اپنے سرداروں کے ان افعال شنیعہ کو بھی تنقید سے بچانا چاہتے تھے جنہیں مسلمانوں کی تاریخ نے محفوظ کیا ہے. رسول(ص) نے ابتدائے بعثت ہی میں ان لوگوں کے چہرے سے نقاب ہٹادی تھی اور ان سے ہوشیار رہنے کی تلقین کی تھی. انہیں مدینہ سے بھکا دیا تھا چنانچہ طبری نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ نبی(ص) نے ابو سفیان کو گدھے پر سوار دیکھا کہ جس کی لجام معاویہ پکڑ کر چل رہا تھا اور یزید ( ابوسفیان) کا بیٹا ہنکا رہا تھا. آپ(ص) نے فرمایا خدا اس کے سوار ہنکانے والے اور آگے آگے چلنے والے پر لعنت کرے.(1)

____________________

1.تاریخ طبری جلد/11 ص397

۱۶۰