اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد ۲

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟0%

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 261

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
زمرہ جات: صفحے: 261
مشاہدے: 38317
ڈاؤنلوڈ: 3764


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 261 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 38317 / ڈاؤنلوڈ: 3764
سائز سائز سائز
اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد 2

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

کے درمیان حدیث گڑھنے کے سلسلہ میں مقابلہ ہوتا تھا، واضح رہے کہ معاویہ علی ابن ابی طالب(ع) کے فضائل کے مقابلہ میں ابوبکر و عمر کے فضائل کو بڑھانا چاہتا تھا،سو راوی کے ذہن کے لحاظ سے ضعیف، .مضحکہ خیز، متناقض حدیثیں وجود میں آگئیں، کیونکہ حدیث گڑھنے والوں میں تمیمی بھی تھے جو ابوبکر پر کسی کو فوقیت نہیں دیتے تھے، ان میں عدوی بھی تھے جو عمر پر کسی کو ترجیح نہیں دیتے تھے اور بنی امیہ تو عمر کی شخصیت کو رسول(ص) کی شخصیت سے زیادہ عظمت دیتے تھے اس سلسلہ میں وہ کسی کی پرواہ نہیں کرتے تھے، اکثر انہوں نے عمر کی مدح میں ایسی احادیث گڑھیں جن میں انہیں ابوبکر پر فضیلت دی ہے.

قارئین آپ کے سامنے کچھ مثالیں پیش کرتا ہوں.

مسلم نے اپنی صحیح کی کتاب فضائل الصحابہ کے باب " فضائل عمر" میں اور بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب الایمان کے باب،" تفاضل اهل الایمان فی الاعمال " میں ابوسعید خدری سے روایت کی ہے انہوں نے کہا کہ رسول(ص) نے فرمایا:

میں نے خوار میں دیکھا کہ لوگوں کو میرے سامنے پیش کیا جارہا ہے اور ایسے قمیص پہنے ہوئے ہیں کہ جو سینوں تک یا اس سے بھی کم ہیں، عمر بن خطاب کو میرے سامنے لایا گیا تو دیکھا کہ وہ ایسی قمیص پہنے ہوئے ہیں جسے وہ کھینچ رہے ہیں. لوگوں نے کہا یا رسول اللہ(ص) آپ نے اس کی کیا تاویل کی؟ آپ(ص) نے فرمایا: اس سے مراد دین ہے.

۲۰۱

پس نبی(ص) نے جو خواب کی تاویل کی ہے " دین " تو اس لحاظ سے عمر ابن خطاب تمام لوگوں سے افضل ہیں، کیونکہ ان بیچاروں کے پستانوں تک بھی دین نہیں پہونچا ہے، یعنی ان کے قلوب سے دین آگے نہیں بڑھا ہے. جبکہ عمر سر سے لے کر پیر کے انگوٹھے تک دین سے مملو ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ کیونکہ وہ دین کو کھینچتے ہوئے چلتے ہیں. ابوبکر صدیق کی ان کے سامنے کیا حیثیت ہے جن کے ایمان کا پلہ پوری امت کے ایمان سے بھاری ہے.

بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب العلم کے باب فضل العلم میں اور مسلم نے اپنی صحیح کی کتاب فضائل الصحابہ کے باب فضائل عمر میں ابن عمر سے روایت کی ہے. انہوں نے کہا کہ میں نے رسول(ص) سے سنا ہے آپ(ص) نے فرمایا کہ :

میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے سامنے دودھ کا کاسہ لایا گیا ہے، پس میں نے اتنا پیا کہ میرے ناخن سے ایک چشمہ پھوٹ نکلا، باقی میں نے عمرابن خطاب کو دے دیا. لوگوں نے دریافت کیا: آپ(ص) نے اس کی کیا تاویل کی؟ فرمایا: علم،

میں کہتا ہوں کیا صاحبان علم اور جاہل برابر ہیں؟ اور جب ابن خطاب دین کے معاملہ میں ابوبکر اور پوری امت پر فوقیت لےگئے ہیں تو اس روایت کی روسے وہ علمی اعتبار سے سب سے آگے نکل گئے اور رسول(ص) کے بعد وہ اعلم الناس ہیں.

اب ایک فضیلت اور باقی رہ گئی جس کی طرف لوگ رغبت

۲۰۲

کرتے ہیں اور اس سے آراستہ ہونا چاہتے ہیں اور یہ ان صفات حمیدہ میں سے ہے جس کو خداوند رسول(ص) اور تمام لوگ دوست رکھتے ہیں اور سب ہی اس تک پہونچنے کی کوشش کرتے ہیں وہ ہے شجاعت ، روایت گڑھنے والوں کے لئے اس سلسلہ میں بھی کوئی حدیث گڑھنا ضروری تھی. لہذا انہوں نے ابوحفص کے بارے میں حدیث تراشی.

بخاری اپنی صحیح کی کتاب فضائل اصحاب النبی(ص) کے باب" قول النبی(ص) کو کنت متخذا خلیلا" میں اور مسلم نے اپنی صحیح کی کتاب فضائل الصحابہ کے باب فضائل عمر میں ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے نبی(ص) سےسنا ہے کہ آپ فرمارہے تھے:

میں نے خواب میں ایک کنواں دیکھا کہ جس پر ڈول پڑا تھا میں نے جتنا مجھ سے ہوسکا پانی کھینچا پھر ڈول ابن ابی قحافہ( ابوبکر) نے لیا، اس نے ایک یا دو ڈول کھینچا اس کے کھینچنے میں ضعف تھا خدا اس کی کمزوری کو معاف کرے پھر ڈول ابن خطاب لے لیا، میں نے اس سلسلہ میں کسی کو ان سے بہتر نہ پایا یہاں تک کہ لوگوں کو ایک جگہ جمع کر دیا.

جب دین مرکز ایمان و اسلام اور تقوی و تقرب خدا کو ابن خطاب نے سمیٹ لیا اور اسے اپنے پیچھے کھینچتے ہوئے چلتے ہیں جب کہ دوسرے لوگوں کے سینے تک ہی محدود رہا، ان کے اجسام کے دوسرے حصے ایمان سے خالی ہیں اور علم بھی عمر ابن خطاب ہی سے مخصوص ہے، جو بچ گیا اس میں سے انہوں نے دوسرے لوگوں کے لئے کچھ نہ چھوڑا اور رسول(ص) کا عطا کیا

۲۰۳

ہوا سارا ہی پی گئے یہاں تک نہ اپنے دوست ابوبکر کی بھی پرواہ نہ کی ( اس میں کوئی شک نہیں ہے جو علم عمر کو عطا کیا ہوا تھا اسی کے ذریعہ وفات نبی(ص) کے بعد انہوں نے احکام خدا میں رد و بدل کی، لاریب ان کا اجتہاد اسی علم کا مرہون منت ہے) اور جب کہ قوت و شجاعت کو بھی عمر ابن خطاب سے مختص کیا گیا ہے اور ا بوبکر نے بھی ان سے یہ کہا تھا کہ تم مجھ سے زیادہ قوی ہو لیکن تم نے مجھ پر زبردستی کی، خدا بخشے ابوبکر کو کہ انہوں نے ضعف کے باوجود خلافت پر عمر سے پہلے ہاتھ مارا، بنی امیہ اور بنی عدی میں سےعمر کے یار و مددگاروں ے خوش حالی مال غنیمت ، فتوحات ایسے ابوبکر کے زمانہ میں نہ دیکھے جیسے ان کے زمانہ میں دیکھے.

جی ہاں! دینا کی زندگی میں یہ سب عمر کا رہین منت ہے لیکن آخرت میں لوگوں کو ان کے لئے جنت کی ضمانت لینی چاہئیے تھی وہ بھی ابوبکر سے بلند و بالا درجہ والی جنت کی لہذا لوگوں نے ایسا ہی کیا.

بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب بدئ الخلق کے باب" ما جاء فی صفة الجنة انها مخلوقة" میں اور مسلم نے اپنی صحیح کی کتاب فضائل الصحابہ کے باب فضائل عمر میں ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا ایک مرتبہ ہم رسول(ص) کی خدمت میں تھے کہ آپ(ص) نے فرمایا:

مجھے نیند کے عالم میں جنت دکھائی گئی وہاں ایک قصر میں عورت وضو کر رہی تھی، میں نے پوچھا یہ قصر کس کا ہے؟ جواب ملا، عمر ابن خطاب کا ، میں نے اس کی غیرت کو دیکھا تو منہ پھیر کر چلدیا( یہ بات سن کر) عمر رونے لگے، اور کہا: یا رسول اللہ(ص)! آپ پر رشک کیا ہے.

۲۰۴

محترم قارئین ان ترتیب وار جھوٹی روایات کو آپ سمجھ گئے ہونگے ویسے میں ے عمر ابن خطاب کے فضائل کے سلسلہ کی ہر ایک روایت میں سے ایک مشترک عبارت نقل کر دی ہے اور وہ ہے رسول(ص) کا یہ قول کہ جب میں عالم خواب میں تھا ہر ایک روایت میں یہ خواب لفظ موجود ہے. ایک مرتبہ فرماتے ہیں جب مں سورہا تھا تو دیکھا کہ لوگوں کو میرے سامنے پیش کیا گیا ہے جب میں سو رہا تھا تو میرے پاس دودھ لایا گیا جب میں محو خواب تھا تو ایک کنواں دیکھا جب میں نیند کے عالم میں تھا تو جنت دکھائی گئی، شاید حدیث کے راوی کو بہت زیادہ خواب دکھائی دیتے تھے لہذا اس نے نبی(ص) کی زبانی (اپنی طرف سے) حدیثیں گڑھ لیں، اور کتنی جھوٹی حدیثیں جب آپ(ص) کی زندگی میں ہی آپ(ص) کی طرف منسوب کی جاتی تھیں تو آپ(ص) کی وفات کے بعد کیا عالم ہوا ہوگا. یقینا بدل گئی تھی، لوگ ایک دوسرے سے قتال کرتے تھے ٹکڑوں اور گروہوں میں تقسیم ہوگئے تھے ہر ایک گروہ جو اس کے پاس تھا اس سے خوش تھا. لیکن ایک چیز جو باقی رہی اور جسے مورخین اور عمر کے یار و انصار نے نقل کیا ہے وہ ہے ان کے اخلاق میں سختی و شدت اور تند مزاجی کہ جس کی وجہ سے عمر تمام لوگوں پر سختی کرتے تھے اور جس کا ایسا مزاج ہوتا ہے لوگ اس سے محبت نہیں کرتے چنانچہ ارشاد خداوند عالم ہے:

( وَ لَوْ كُنْتَ‏ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ) سورہ آل عمران، آیت/159

اگر آپ سخت مزاج ہوتے تو لوگ آپ کے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے.

لیکن عمر کے چاہنے والوں نے معیاروں کو بدل ڈالا، وہ نقص کو منقبت اور

۲۰۵

رذیلت کو فضیلت قرار دینے لگے انہوں نے کم عقلی، بے وقوفی میں نبی(ص) کی عظمت گھٹانے والی روایات گڑھ دیں، اس نبی(ص) کے سلسلہ میں جس کے بارے میں خدا گواہی دے رہا ہے کہ رسول(ص) بد خلق اور سخت مزاج نہیں ہیں بلکہ وہ نرم مزاج ہیں اور ان کی نرمی لوگوں کے لئے رحمت خدا ہے، بیشک آپ خلق عظیم پر فائز ہیں، مومنوں پر مہربان و رحیم و رحمة للعالمین ہیں اس سلسلہ میں ہمیں انہی احمقوں سے سننا چاہئیے وہ کیا کہتے ہیں.

بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب بدئ الخلق کے باب" صفة ابلیس و جنوده" میں اور مسلم نے اپنی صحیح کی کتاب فضائل الصحابہ کے باب فضائل عمر میں سعد ابن وقاص سے روایت کی ہے انہوں نے کہا کہ عمر نے رسول(ص) کی خدمت میں باریابی کے لئے اجازت چاہی آپ(ص) کے پاس قریش کی کچھ عورتیں بلند آواز میں باتیں کر رہی تھیں لیکن جب انہوں نے عمر کی آواز سنی تو جلدی سے اپنا حجاب صحیح کر کے اٹھ کھڑی ہوئیں، رسول(ص) نے عمر کو اجازت مرحمت کی، عورتوں کی اس گھبراہٹ سے رسول(ص) مسکرانے لگے، عمر نے کہا: یا رسول اللہ(ص) خدا آپ کو ہمیشہ خوش رکھے کیا بات ہے؟ آپ(ص)نے فرمایا: مجھے ان عورتوں پر ہنسی آرہی ہے جو ابھی کچھ دیر قبل میرے پاس تھیں انہوں نے جیسے جیسے تمہاری آواز سنی ویسے ہی اپنا حجاب صحیح کیا، عمر نے کہا یا رسول اللہ(ص) انہیں مجھ سے زیادہ آپ سے ڈرنا چاہیئے اس کے بعد کہا: اے عورتو تم مجھ سے ڈرتی ہو اور رسول(ص) نے نہیں ڈرتیں؟ انہوں نے کہا تم رسول(ص) سے زیادہ بد خلق اور سخت مزاج ہو. رسول(ص) نے فرمایا: قسم اس کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تمہارے پاس ہرگز شیطان نہیں آئے گا.

ان کے منہ سے نکلی ہوئی بات بہت بڑی ہوگئی ہے اگرچہ

۲۰۶

وہ جو کچھ کہتے ہیں وہ جھوٹ ہوتا ہے، روایت کی قباحت ملاحظہ فرمائیے عورتیں عمر سے خوف کھاتی ہیں لیکن رسول(ص) سے نہیں ڈرتیں اور آپ(ص) کی آواز پر آواز بلند کرتی ہیں، آپ(ص) کا احترام نہیں کرتی ہیں، آپ(ص) کے سامنے پردہ نہیں کرتیں. لیکن عمر کی آواز سنتے ہی خاموش ہو جاتی ہیں پردہ صحیح کرتی ہیں، قسم خدا کی ان احمقوں کی باتوں پر مجھے تعجب ہے، انہوں نے صراحت کے ساتھ رسول(ص) کو بد خلق اور سخت مزاج بنا دیا ہے کیونکہ عمر رسول(ص) سے افظ ( زیادہ بد خلق) اغلظ ( زیادہ سخت مزاج) ہیں یہ دونوں ( افظ و اغلظ) اس تفضیل کے صیغے ہیں پس اگرچہ دونوں رسول(ص) کے لئے فضیلت ہیں تو عمر رسول(ص) سے افضل ہیں اور یہ رذیلت ہیں تو مسلمان اور ان کے راس و رئیس بخاری و مسلم نے ایسی حدیثوں کو کیونکر قبول کیا ہے؟

پھر انہوں نے اسی پر اکتفا نہ کہ بلکہ یہاں تک کہدیا کہ رسول(ص) کے سامنے شیطان کھیلتا ہے اور ان سے ذرا خوف نہیں کھاتا ہے بیشک شیطان ہی عورتیں کو ابھارتا ہے، یہاں تک کہ وہ نبی کی آواز پر آواز بلند کرتی ہیں اپنا حجاب اتار پھینکتی ہیں لیکن رسول(ص) کے گھر میں عمر کے داخل ہوتے ہی شیطان بھاگ کھڑا ہوتا ہے.

اے غیور مسلمان! آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ ان کے نزدیک رسول(ص) کی کیا قدر وقیمت ہے، اور شعوری یا لا شعوری طور پر رسول(ص) سے عمر کو افضل قرار دیتے ہیں. اس بات کو آج بھی اس وقت ملاحظہ کیا جاسکتا ہے کہ جب وہ رسول(ص) کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے آپ(ص) کی خطائوں کو شمار کرا رہے ہوں اور بشر کہہ کے انہیں بری کر رہے ہوں کہ جن خطائوں کی اکثر عمر اصلاح کیا کرتے تھے اور متعدد بار عمر کی رائے

۲۰۷

کے مطابق قرآن بھی نازل ہوا ہے. اہلسنت اس پر بدر کے قیدیوں اور تابیر نخل وغیرہ سے استدلال کرتے ہیں.

لیکن جب آپ ان کے سامنے یہ کہیں گے کہ مولفہ القلوف کا حق معطل کر کے یا متعہ نساء و متعہ حج کو حرام کر کے اور عطایا میں ایک دوسرے پر فضیلت دے کر عمر نے خطا کی ہے تو آپ دیکھیں گے کہ ان کی ناک چڑھ گئی اور آنکھیں سرخ ہوگئی ہیں اور پھر آپ کے دین سے خارج ہونے کا فورا حکم لگائیں گے اور کہیں گے کہ تم کون ہو کہ جو سیدنا عمر فاروق، جو حق و باطل میں فرق کرتے ہیں" پر تنقید کر رہے ہو، آپ کے لئے ان کی بات کو تسلیم کرنے کے علاوہ چارہ نہیں رہے گا اور آپ دوبارہ ان سے گفتگو کرنے کی کوشش نہیں کریں گے ورنہ اذیت سے دوچار ہونا پڑے گا.

عمر کی عزت بچانے کے لئے بخاری حدیث میں تدلیس کرتے ہیں

جی ہاں! جب محقق بخاری کی حدیثوں کی تحقیق کرے گا تو ان میں سے اکثر کو معمہ پائے گا، وہ تصور کرے گا کہ شاید یہ حدیث ناقص ہے کبھی بخاری متعدد ابواب میں انہیں اسانید کے ساتھ ایک حدیث کو مختلف الفاظ میں نقل کرتے ہیں. اور یہ تمام باتیں عمر کی شدید محبت کی وجہ سے وجود میں آتی ہیں اور شاید بخاری کی طرف اہلسنت کی رغبت کا باعث بھی یہی ہے. اسی لئے وہ بخاری کو تمام کتابوں پر فوقیت دیتے ہیں کتاب خدا کے بعد

۲۰۸

ان کے نزدیک بخاری صحیح ترین کتاب ہے اور دوسری وجہ بخاری کی محبوبیت کی یہ ہے کہ بخاری نے حضرت علی(ع) کے فضائل کو بہت کم بیان کیا ہے ایک طرف بخاری کا دل چسپ مشغلہ حدیث کی کاٹ چھانٹ ہے مگر جب اس حدیث سےعمر کی شخصیت پر حرف آتا ہو جیسا کہ فضائل علی(ع) سے متعلق احادیث میں کیا ہے ہم عنقریب آپ کے سامنے ان کی کچھ مثالیں پیش کریں گے.

عمر کی حقیقت کا انکشاف کرنے والی حدیثوں میں تدلیس

1- مسلم نے اپنی صحیح کی کتاب الحیض کے باب تیمم میں تحریر کیا ہے کہ:

ایک شخص عمر کے پاس آیا اور کہا: میں مجنب ہوگیا تھا. اور پانی نہ مل سکا، عمر نے کہا: نماز نہ پڑھو، عمار نے کہا: اے امیرالمومنین کیا آپ کو وہ وقت یاد نہیں ہے جب میں اور آپ ایک سریہ میں مجنب ہوگئے تھے اور پانی نہیں مل سکا تھا آپ نے تو نماز چھوڑ دی تھی، لیکن میں نے خاک میں لیٹ کر نماز ادا کی تھی اور نبی(ص) نے( میرے بارے میں) فرمایا تھا کہ تمہارے لئے دونوں ہاتھوں کو زمین پر مارنا اور پھر پھونک کر ان سے چہرہ اور ہاتھوں کا مسح کرنا کافی ہے، عمر نے کہا: اے عمار خدا سے ڈرو! عمار نے کہا اگر آپ کی یہی مرضی ہے تو میں اسے بیان نہیں کروں گا. اس روایت کو ابو دائود نے اپنی سنن میں اور احمد ابن حنبل نے مسند میں اور نسائی نے اپنی سنن میں اور بیہقی و ابن ماجہ وغیرہ نے کلی طور پر نقل کیا ہے.

۲۰۹

واضح رہے کہ بخاری نے نقل حدیث کی امانت میں خیانت کی ہے جیسا کہ عمر کی عزت بچانے کے سلسلہ میں حدیث میں تدلیس کرنا ان کی عادت ہے کیونکہ وہ اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ لوگوں کو فقہ اسلامی سے خلیفہ کی جہالت کا علم ہو، آپ کے سامنے وہ روایت پیش کی جاتی ہے جس میں بخاری نے تصرف کیا ہے.

بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب التیمم کے باب" التیمم هل نیفخ فیها" میں روایت کی ہے کہ: ایک شخص عمر ابن خطاب کے پاس آیا اور کہا: میں مجنب ہوگیا ہوں اور مجھے پانی نہیں ملا ہے، عمار یاسر نے عمر ابن خطاب سے کہا: کیا آپ کو وہ واقعہ یاد نہیں ہے، ہمارے اور آپ کے ساتھ بھی ایک سفر میں ایسا ہی ہوا تھا.

ملاحظہ فرمایا آپ نے کہ بخاری نے عمر کے قول " تم نماز نہ پڑھو" کو اڑا دیا کیونکہ اس میں ان کی گرفت تھی اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بخاری نے اس کی تخلیص اس لئے کی ہے تاکہ لوگ عمر کے مسلک سے آگاہ نہ ہونے پائیں جو کہ نبی(ص) کی حیات میں بھی شک میں مبتلا رہتے تھے اور قرآن و سنت کی نصوص کے مقابلہ میں اجتہاد کیا کرتے تھے، سو وہ اپنے اسی مسلک پر باقی رہے، یہاں تک کہ مسلمانوں کے امیر بن گئے( پھر کیا تھا) اپنے مسلک کو مسلمانوں کے درمیان پھیلانا شروع کر دیا. ابن حجر کہتے ہیں" یہ عمر کا مشہور مذہب ہے" اس پر دلیل یہ ہے کہ وہ اس مسلک پر مصر تھے اسی بنا پر عمار نے ان سے یہ کہا تھا کہ اگر آپ چاہیں تو یہ واقعہ کسی سے بیان نہ کروں.

2- حاکم نے مستدرک جلد/2 ص514 پر انس سے ایک

۲۱۰

روایت نقل کی ہے جسے ذہبی نے اپنی تلخیص میں صحیح قرار دیا ہے. انس ابن مالک کہتے ہیں کہ عمر نے منبر سے یہ آیت پڑھی:

( فَأَنْبَتْنا فِيها حَبًّا وَ عِنَباً وَ قَضْباً وَ زَيْتُوناً وَ نَخْلًا وَ حَدائِقَ غُلْباً وَ فاكِهَةً وَ أَبًّا )

ہم ان سب کو سمجھ گئے لیکن معلوم نہیں اب کیا ہے پھر کہا:

تم اس کا اتباع کرو جس کی ہدایت کتاب (خدا) نے کی ہے اور جس کو تم نہیں جانتے اسے اس کے پروردگار پر چھوڑ دو!

اس روایت کو سورہ عبس کی تفسیر کے سلسلہ میں اکثر مفسرین نے نقل کیا ہے. مثلا سیوطی نے در منثور میں اور زمخشری نے کشاف میں، ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں اور رازی نے اپنی تفسیر خازن میں نقل کیا ہے.

لیکن بخاری نے اپنی عادت کے مطابق لوگوں کو اس بات سے جاہل رکھنے کے لئے کہ خلیفہ اب کے معنی نہیں جانتے تھے حدیث کو اس طرح کتربیونت کے ساتھ نقل کیا ہے:

انس ابن مالک کہتے ہیں کہ ہم عمر کے پاس( موجودو) تھے، انہوں نے کہا: ہمیں تکلیف سے ڈرایا گیا ہے.(1) جی ہاں بخاری ہر اس حدیث میں کاٹ چھانٹ کرتے ہیں جس سے عمر کی تنقیص کو بو آتی ہے. ظاہر ہے کہ قاری بریدہ حدیث سے اشیا کی حقیقت نہیں سمجھ سکتے. بخاری تو

____________________

1.صحیح بخاری کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة باب " ما یکره من کثرة السؤال و التکلف ما لا یغنیه و قول الله تعالی ( لا تَسْئَلُوا عَنْ أَشْياءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ‏ تَسُؤْكُمْ )

۲۱۱

اس بات کی پردہ پوشی کرتے ہیں کہ عمر اَب کے معنی نہیں جانتے تھے لہذا کہتے ہیں کہ ہمیں تکلف سے ڈرایا گیا ہے.

3- ابن ماجہ نے سنن کی جلد/2 ص227 اور حاکم نے مستدرک کی جلد/2 ص59 اور ابو دائود نے اپنی سنن کی جلد/2 ص402 اور بیہقی نے اپنی سنن کی جلد/6 ص264 اور ابن حجر نے فتح الباری میں ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا:

ایک پاگل عورت جو زنا کی مرتکب ہوئی تو عمر کے پاس لائی گئی عمر نے اس سلسلہ میں لوگوں سے مشورہ کیا اور اس کو سنگسار کرنے کا حکم دے دیا، جب حضرت علی علیہ السلام نے اس عورت کو ( اس حالت میں) دیکھآ تو پوچھا اس کا کیا قصور ہے؟ لوگوں نے بتایا: یہ فلاں خاندان کی پاگل عورت زنا کی مرتکب ہوئی ہے اور عمر نے اسے سنگسار کرنے کا حکم دیا ہے، آپ نے فرمایا: اسے واپس لے جائو جب لوگ واپس لے گئے تو حضرت علی(ع) نے عمر سے کہا: کیا تم نہیں جانتے کہ مجنون سے عقل آنے تک اور سونے والے سے بیدار ہونے تک اور بچے سے بالغ ہونے تک قلم تکلیف اٹھا لیا گیا ہے.

یہ بات سن کر عمر نے اس عورت کو چھوڑ دیا اور کہا اگر علی(ع) نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو جاتا.(1)

____________________

1.تذکرة الخواص، ابن جوزی ص75

۲۱۲

لیکن بخاری نے اس روایت میں بھی عمر کی گرفت محسوس کی اور تراش خراش سے کام لیا، تو لوگوں کو یہ بات کیسے معلوم ہو کہ عمر ان حدود سے ناواقف تھے جو کتاب خدا میں مرقوم ہیں اورجنہیں رسول(ص) نے بیان فرمایا ہے، اور بخاری بھی اس روایت کو کیسے ذکر سکتے ہیں جب کہ اس میں علی(ع) ابن ابی طالب کی فضیلت ہے، علی(ع) انہیں ہر اس چیز کی تعلیم دینے کی کوشش کرتے تھے جو وہ نہیں جانتے تھے اور عمر نے خود اس بات کا اس طرح اعتراف کیا ہے کہ اگر علی(ع) نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو جاتا، اب ہمیں بخاری کو دیکھنا چاہیئے کہ اس نے اس روایت میں کس طرح تحریف و تدلیس کی ہے.

بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب" المحاربین من اهل الکفر و الرده... کے باب" لا یرجم المجنون" میں ( بخاری کی سند کا تذکرہ کئے بغیر) کہتے ہیں کہ:

علی(ع) نے عمر سے فرمایا : کیا تم نہیں جانتے کہ مجنونہ سے افاقہ ہونے تک اور بچہ سے با تمیز ہونے تک اور سونے والے سے بیدار ہونے تک کے لئے قلم تکلیف اٹھا لیا گیا ہے.

جی ہاں! احادیث و روایات میں بخاری کی کاٹ چھانٹ کی یہ زندہ مثال ہے. وہ ہر اس حدیث میں کتربیونت سے کام لیتے ہیں جس سے عمر کی رسوائی ہوتی ہے.

اسی طرح اس حدیث میں قطع و برید سے کام لیتے ہیں جس میں حضرت علی(ع) کی فضیلت یا منقبت ہوتی ہے ان کے اندر ایسی

۲۱۳

حدیث کامل طور پر نقل کرنے کی طاقت ہی نہیں ہے.

4- مسلم نے اپنی صحیح کی کتاب الحدود کے باب" حد شارب الخمر" میں انس ابن مالک سے روایت یک ہے کہ : نبی(ص) کے پاس ایک شخص کو لایا گیا جس نے شراب پی لی تھی، پس آپ(ص) نے دو مرتبہ چالیس کوڑے لگوائے، انس کہتے ہیں کہ انہوں نے لوگوں سے مشورہ کیا تو عبدالرحمن ابن عوف نے کہا کہ: اسی80 کوڑوں والی حدود میں کچھ کمی کی جائے اس کو عمر نے منظور کر لیا.

بخاری اپنی عادت کے مطابق اس بات کا اظہار نہیں کرنا چاہتے ہیں کہ عمر حدود خدا سے ناواقف تھے اور انہیں اس حد کے بارے میں لوگوں سے مشورہ کرنے کا کیا حق پہونچتا ہے جس پر رسول(ص) عمل کرچکے ہوں اور ان کے بعد ابوبکر نے عمل کیا ہو.

بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب الحدود کے باب" ما جائ فی ضرب شارب الخمر" میں انس ابن مالک سے نقل کیا ہے کہ نبی(ص) شراب پینے والے کو بھال چڑھی ہوئی چھڑی سے پٹواتے اور ابوبکر نے چالیس کوڑا لگواتے تھے.

5- جن محدثین و مورخین نے مرض و وفات نبی(ص) کو قلم بند کیا ہے اور جنہوں نے یہ تحریر کیا ہے کہ نبی(ص) نے ان سے کس طرح قلم و دوات طلب کیا تاکہ وہ ان کے بعد کبھی گمراہ نہ ہوں، اور اس دن نام " رزیہ الخمیس" پڑ گیا اور عمر ابن خطاب نے اس میں کس طرح روڑا اٹکایا اور کہا کہ رسول(ص) (معاذ اللہ) ہذیان بک رہے ہیں.

۲۱۴

بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب الجہاد کے باب" هل یستشفع الی اهل المذمة و معاملتهم " میں اور مسلم نے اپنی صحیح کی کتاب الوصیت کے باب" ترک الوصیة لمن لیس له شئی یوصی به" میں ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا: ہائے روز جمعرات، وہ روز جمعرات کیا ہے پھر اتنا روئے کہ آنسوئوں سے زمین تر ہوگئی، اس کے بعد فرمایا: جمعرات کے دن رسول(ص) کے درد میں شدت ہوئی تو آپ(ص) نے فرمایا: مجھے کاغذ دو تاکہ میں تمہارے لئے ایک نوشتہ لکھ دوں کہ اس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہوگے، پس لوگ ( اس سلسلہ میں) جھگڑنے لگے، جبکہ نبی(ص) کے سامنے جھگڑنا مناسب نہیں تھا. اور کہا ہذیان بک رہے ہیں. آپ(ص) نے فرمایا: مجھے چھوڑ دو میں اپنی جگہ صحیح ہوں، وہ چیز صحیح نہیں ہے جس کی طرف تم مجھے دعوت دے رہے ہو آپ(ص)نے وفات کے وقت تین وصیت فرمائیں. جزیرة العرب سے مشرکین کو نکالنا جس طرح میں وقود کے ساتھ برتائو کرتا ہوں اسی طرح نیک برتائو کرنا، تیسری وصیت کو میں بھول گیا ہوں.

جی ہاں یہ جمعرات کے دن کی وہ مصیبت ہے جس میں عمر نے سیاسی کھیل کھیلا اور رسول(ص) کے آڑے آکر نوشتہ نہ لکھنے دیا، نبی(ص) کی شان میں ایسا فحش جملہ استعمال کیا جو سراسر قرآن کے مخالف ہے، وہ جملہ یہ تھا کہ نبی(ص) ہذیان بک رہے ہیں، یہاں بخاری ومسلم نے وہ صحیح عبارت نقل کی ہے جو عمر کے اقوال ہیں اور ان کے کلمات ہیں اس لئے کوئی رد و بدل نہیں ہے کیونکہ اس میں عمر کا نام نہیں تھا اور اس قول شنیع کی نسبت نا معلوم شخص کی طرف دی ہے.

لیکن جہاں بھی روایت میں اس حیثیت سے عمر کا نام آتا ہے

۲۱۵

کہ انہوں نے یہ جملے استعمال کئے ہیں تو بخاری و مسلم کے لئے اس روایت کو ایسے ہی چھوڑ دینا بہت شاق گذرتا ہے کیونکہ اس میں خلیفہ کی فضیحت ہے جو ان کی حقیقت کو آشکار کرتی ہے. اور یہ چیز اس بات سے پردہ ہٹاتی ہے کہ انہوں نے رسول(ص) کے سامنے کتنی جسارتیں کی ہیں جو شخص آپ کی طول حیات میں بیشتر مواقع پر آپ کے سامنے آیا ہے اس کے بارے میں بخاری و مسلم وغیرہ اس بات کو جانتے تھے کہ مسلمانوں کے جذبات کو برانگیختہ کرنے کے لئے یہی ایک جملہ کافی ہے، اس سے خلیفہ کے متعدد اہلسنت ان کے مخالف ہو جائیں گے، اس لئے بخاری و مسلم وغیرہ نےتدلیس پر تکیہ کیا، اس قسم کے واقعات میں ان کی یہ کوشش معروف ہے، انہوں نے کلمہ ہذیان کو درد کی شدت سے بدل دیا ہے. اور اس نا زیبا عبارت کو چاٹ گئے ہیں. اب ہم آپ کے سامنے خود اس مصیبت کے بارے میں بخاری و مسلم کی روایات پیش کرتے ہیں:

ابن عباس کہتے ہیں کہ : جس وقت رسول(ص) پر احتضار کی کیفیت طاری ہوئی تھی اس وقت گھر میں بہت سے لوگ جمع تھے ان میں عمر ابن خطاب بھی تھے، نبی(ص) نے فرمایا: لائو تمہارے واسطے ایک نوشتہ لکھ دوں کہ جس سے تم کبھی گمراہ نہ ہوگے، عمر نے کہا: نبی(ص) پر درد کی شدت ہے اور تمہارے پاس کتاب خدا ہے، ہمارے لئے کتاب خدا کافی ہے، اس سے لوگوں میں اختلاف پھیل گیا. بعض کہتے تھے، نبی(ص) کو قلم و دوات دے دو تاکہ تمہارے لئے نوشتہ لکھ دیں کہ جس سے تم گمراہ نہ ہو اور بعض عمر کے

۲۱۶

قول کو دہراتے تھے. جب نبی(ص) کے پاس شور و ہنگامہ زیادہ ہوگیا تو آپ(ص) نے فرمایا: میرے پاس سے اٹھ جائو ( عبداللہ ابن مسعود کہتے ہیں کہ) ابن عباس کہہ رہے تھے کہ بیشک رسول(ص) کو نوشتہ لکھنے سے روک دینا اور شور و غل مچانا، سب سے بڑی مصیبت ہے.(1)

چونکہ مسلم نے اپنے استاد بخاری سے روایات لی ہیں اس لئے ہم بخاری کو اپنا مخاطب قرار دیتے ہیں، اگر چہ آپ(بخاری) نے عبارت میں کاٹ چھانٹ کر ڈالی ہے اور حقائق کی پردہ پوشی کی حتی المقدور کوشش کی ہے لیکن آپ کے سید و سردار عمر کے سلسلہ میں آپ پر حجت قائم کرنے کے وہی کافی ہے جو آپ نے نقل کیا ہے. کیونکہ لفظ ہجر کے معنی ہذیان کے ہیں اور " قد قلب علیہ الوجع" بھی کبھی یہی معنی دیتا ہے. کیونکہ صاحب نظر اس بات کو جانتا ہے، یہاں تک کہ آج بھی لوگ کہتے ہیں کہ وہ معذور ہے کیونکہ اس پر حمیت طاری ہوگئی ہے اور اول قول بکنے لگا ہے.

خصوصا ہم اس پر عمر کے کلام " تمہارے پاس کتاب خدا ہے وہی کافی ہے" کا اضافہ کرتے ہیں ، عمر کے اس جملہ کے معنی یہ ہیں کہ رسول(ص) کا کام تمام ہوگیا اور ان کا وجود کالعدم ہے.

میں ہر با ضمیر عالم سے ڈنکے کی چوٹ پر کہتا ہوں کہ اگر وہ فقط اس واقعہ پر غور کرے اور اس کے عواقب و تہہ میں نہ جائے تو بھی وہ

____________________

1.صحیح بخاری کتاب بالمرض قول " المریض قوموا عنی جلد/7 ص9 مسلم کتاب الوصیة باب تردد الوصیہ جلد/5 ص76

۲۱۷

خلیفہ سے بد ظن ہو جائے گی کیونکہ اسی خلیفہ نے امت کو ہدایت سے محروم کیا اور ضلالت میں ڈھکیل دیا.

ہم حق بات کہنے سے اس وقت تک نہیں ڈریں گے جب تک اس سے رسول(ص) اور ان کے بعد قرآن و اسلامی مفاہیم کا دفاع ہوتا رہے گا. خداوتد عالم کاارشاد ہے:

( فَلا تَخْشَوُا النَّاسَ‏ وَ اخْشَوْنِ وَ لا تَشْتَرُوا بِآياتِي ثَمَناً قَلِيلًا وَ مَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولئِكَ هُمُ الْكافِرُونَ) سورہ مائدہ،آیت/44

لوگوں سے نہ ڈرو! مجھ ( خدا) سے ڈرو! معمولی پونجی کے عوض میری نشانیوں کو نہ بیچو اور خدا کے نازل کردہ دستور کے مطابق حکم نہیں کرتے ہیں وہی لوگ کافر ہیں.

نہیں معلوم بعض علماء اس علم و ارتقاء کے زمانہ میں بھی حقائق پر پردہ ڈالنے کی کیوں کوشش کرتے ہیں اور اس کے لئے خواہ مخواہ کی تاویلیں کیوں تراشتے ہیں، نہ ان ( تاویلوں) میں کوئی دم ہوتا ہے اور نہ ہی وہ مطمئن کرتی ہیں.

آپ کے سامنے ایک عالم محمد فواد عبدالباقی کی اختراع پیش کرتا ہوں انہوں نے" الؤلؤ والمرجان فیما اتفق علیه الشیخان" کی شرح میں جہاں رزیہ یوم الخمیس کا تذکرہ کیا ہے وہاں رسول(ص) کے دوات و قلم طلب کرنے والے واقعہ کی(1) کی شرح کے ذیل میں تحریر کیا ہے کہ:

____________________

1.اللؤلؤ والمرجان فیما اتفق علیہ الشیخان جلد/2 ص166

۲۱۸

رسول(ص) نے قلم و دوات طلب کیا تھا رسول(ص) نے جو کتاب طلب کی تھی اس سے آپ(ص) کی مراد وہ چیز تھی جس پر لکھا جاتا ہے مثلا کاغذ اور چھال تھی اور کتاب سے آپ کی مراد ظاہرا ابوبکر کی خلافت پر نص کرنا تھا. لیکن جب لوگ جھگڑنے لگے اور آپ کے مرض میں بھی شدت ہوگئی تو آپ(ص) نے اس بات پر اعتماد کرتے ہوئے کہ ابوبکر کو تو میں نماز میں قائم مقام بنا چکا ہوں اب اس کی تجدید کی کوئی ضرورت نہیں ہے ( پھر لفظ ہجر یعنی ہذیان کی شرح کرتے ہیں) کہتے ہیں : ہجر (ہذیان) کے بارے میں ابن بطال کا خیال ہے کہ ہجر ( ہذیان) کے معنی اختلاط کے ہیں اور ابن التین کا نظریہ ہے کہ اس کے معنی ہذی کے ہیں لیکن یہ آپ کی شان کے خلاف ہے، ایک احتمال یہ بھی ہے کہ رسول(ص) تمہیں چھوڑے جارہے ہیں یہاں ہجر وصل کی ضد ہے کیونکہ ان پر الہی واردات وارد ہوچکی تھیں. اسی لئے آپ(ص) نے رفیق اعلی سے فرمایا ہے.ابن کثیر کہتے ہیں کہ یہ جملہ استفہامیہ تھا ہمزہ حذف ہوگیا، یعنی کیا مرض کی وجہ سے ان کا کلام بدل گیا اور مخلوط ہوگیا ہے، اس سلسلہ میں یہ بہترین قول ہے، اس کو خبر نہیں قرار دیا جاسکتا ہے ورنہ اس کے معنی فحش یا ہذیان ہوں گے جب کہ اس جملہ کے قائل عمر ہیں اور ان کے بارے میں یہ خیال بھی نہیں کیا جاسکتا ہے.

جناب عالم جلیل ہم آپ کی اس بات کو رد کرتے ہیں ظن ( گمان)

۲۱۹

حق کے سلسلہ میں ذرہ برابر فائدہ نہیں پہونچاتا ہے. ہمارے لئے آپ کا یہی اعتراف کافی ہے کہ فحش کے قائل ہیں، اور آپ کی قیاس آرائی کہ رسول(ص) ابوبکر کی خلافت کے بارے میں لکھنا چاہتے تھے اور اس سلسلہ میں عمر کو اعتراض تھا؟ جب کہ عمر ہی نے ابوبکر کی خلافت مستحکم کی ہے. انہوں نے ہی لوگوں سے قہر و غضب کے ساتھ بیعت کرائی، یہاں تک کہ فاطمہ(ع) کے گھر کو جلانے کی دھمکی دی، اے عالم جلیل کیا آپ کے علاوہ بھی کوئی اس کا دعویدار ہے؟

قدیم و جدید علماء کے نزدیک یہ بات مشہور ہے کہ حضرت علی(ع) رسول(ص) کی خلافت کے لائق تھے اگرچہ انہوں نے اس بارے میں نص کا اعتراف نہیں ہے. آپ کے لئے بخاری کا یہی قول کافی ہے کہ: لوگوں نے عائشہ کے سامنے کہا کہ علی(ع) ( رسول(ص) کے ) وصی ہیں، عائشہ نے کہا ا ن سے کب وصیت کی تھی جبکہ رسول(ص) میرے سینہ پر سر رکھے ہوئے تھے، انہوں نے ہاتھ دھونے کا برتن مانگا لیکن میری گود میں ان کا سر تھا. تھوڑی دیر بعد مجھے محسوس ہوا کہ ان کا انتقال ہوگیا ہے تو کس وقت علی(ع) سے وصیت کی؟

بخاری نےاس حدیث کو نقل کیا ہے کیونکہ اس میں عائشہ نے وصیت کا انکار کیا ہے اور یہ چیز ہی بخاری کے لئے باعث سکون ہے لیکن ہمارا نظریہ تو یہ ہے کہ جن لوگوں نے عائشہ کے سامنے یہ کہا تھا کہ رسول(ص) نے علی(ع) کو وصیت کی ہے، وہ سچے تھے کیونکہ عائشہ نے بھی ان کی تکذیب و تردید نہیں کی اور نہ ہی وصیت کی نفی کی ہاں انہوں نے انکار کی صورت میں یہ پوچھا کہ انہوں نے علی(ع) کو کب وصیت کی؟ اس سلسلہ میں عائشہ کے لئے ہمارا جواب یہ ہے کہ رسول(ص) نے انہیں بزرگ صحابہ کے سامنے اور تمہاری عدم موجودگی میں وصیت کی تھی. اور اس میں بھی شک نہیں ہے کہ ان صحابہ نے عائشہ کو

۲۲۰