اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد ۲

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟0%

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 261

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
زمرہ جات: صفحے: 261
مشاہدے: 38377
ڈاؤنلوڈ: 3768


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 261 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 38377 / ڈاؤنلوڈ: 3768
سائز سائز سائز
اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟

اہل ذکر۔۔۔۔۔۔؟ جلد 2

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

اس لئے کہ فدک عطیہ ہے میراث نہیں ہے.

یہی وجہ ہے کہ آپ تمام مورخین، مفسرین اور محدثین کو یہ لکھتے ہوئے دیکھیں گے کہ فاطمہ علیہا السلام نے فدک پر اپنی ملکیت کا دعوی کیا تو ابوبکر نے ان کے دعوے کو رد کر دیا اور ان سے اپنے دعوے کے ثبوت کے لئے گواہ طلب کئے. فاطمہ(ع) نے علی(ع) ابن ابی طالب اور ام ایمن کو بطور گواہ پیش کیا لیکن ابوبکر نے ان دونوں کی گواہی قبول نہ کی اور انہیں نا کافی قرار دے دیا. ابن حجر اس واقعہ کو اس طرح تحریر کرتے ہیں" فاطمہ(ع) نے یہ دعوی کیا کہ رسول(ص) نے فدک مجھے بخش دیا تھا لیکن فاطمہ(ع) اس سلسلہ میں علی(ع) اور ام ایمن کے علاوہ اور گواہ پیش نہ کرسکیں اور گواہی کا نصاب نا مکمل رہ گیا.(1)

امام فخر الدین رازی اپنی تفسیر میں رقمطراز ہیں کہ جب رسول(ص) نے وفات پائی تو فاطمہ(ع) نے دعوی کیا کہ رسول(ص) نے مجھے فدک عطا کر دیا تھا. ابوبکر نے کہا فقر کی حالت میں آپ تمام لوگوں سے عزیز اور ثروتمندی کے عالم میں سب سے زیادہ محبوب ہیں لیکن مجھے آپ کے دعوے کی صحت معلوم نہیں ہے اس لئے آپ کے حق میں فیصلہ نہیں کرسکتا ہوں. فخر رازی کہتے ہیں کہ کنیز رسول(ص) ام ایمن نے فاطمہ(ع) کی گواہی دی پس ابوبکر نے کہا کہ ایسا گواہ لائیے جس کی گواہی قبول کی جا سکے. فاطمہ(ع) گواہ نہ لاسکیں.(2) جناب فاطمہ(ع) نے یہ دعوی کیا کہ رسول(ص) نے مجھے فدک بخش دیا تھا ابوبکر نے ان کا دعوی رد کر دیا اور اس سلسلہ میں علی(ع) اور ام ایمن کی گواہی قبول نہ کی اس واقعہ کو ابن تیمیہ، صاحب سیرت حلبیہ اور قیم جوزی وغیرہ نے بھی تحریر کیا ہے.

____________________

1.صواعف محرقہ ابن حجر ہیثمی ص21

2.تفسیر مفاتیح الغیب رازی جلد/8 ص125 تفسیر سورہ حشر

۲۱

لیکن بخاری اور مسلم دونوں نے اس کو اختصار کے ساتھ لکھا ہے انہوں نے صرف یہ لکھا ہے کہ فاطمہ(ع) نے اپنی میراث کا مطالبہ کیا اس سے وہ قارئین کو یہ بات باور کرانا چاہتے ہیں کہ فاطمہ(ع) کی ناراضگی بے محل تھی اس لئے کہ ابوبکر نے اس حدیث پر عمل کیا جو رسول(ص) سے سنی تھی. پس معاذ اللہ سیدہ(ع) ظالمہ اور ابوبکر مظلوم ہیں. بخاری و مسلم کی یہ ساری تگ و دو ابوبکر کی عزت کے تحفظ کے لئے ہیں اس لئے وہ واقعہ نقل کرنے میں بھی امانتداری سے کام نہیں لیتے ہیں. اور نہ ہی ان احادیث کو صحیح تسلیم کرتے ہیں کہ جو خلفا کے حقائق کا انکشاف کرتی ہیں. اور ان پر پڑے ہوئے پردوں کو ہٹاتی ہیں کہ جو امویوں اور خلافت راشدہ کے نمک خواروں نے ڈال دیئے تھے. خواہ نبی(ص) کے خلاف ہو یا ان کی پارہ جگر فاطمہ(ع) کے خلاف ہو. اسی لئے بخاری و مسلم اہلسنت کے نزدیک محدثین کے سردار بن گئے ہیں اور اہلسنت ان کی کتابوں کو کتاب خدا کے بعد صحیح ترین کتاب مانتے ہیں اور یہ ایسی حق پوشی ہے جو کسی علمی دلیل پر استوار نہیں ہے عنقریب انشاء اللہ ہم مستقل باب میں اس کے بارے میں بحث کریں گے تاکہ ہم حقیقت کے متلاشی افراد کے لئے اس کا انکشاف کرسکیں.

اس کے باوجود مسلم و بخاری پر ہمارا اعتراض ہے کہ جنہوں نے فضائل فاطمہ زہرا(ع) کو بہت ہی اختصار کے ساتھ لکھا ہے لیکن ان کی کتابوں میں وہ سب کچھ موجود ہے جو ابوبکر کی پستی پر دلالت کرتی ہے جو بخاری و مسلم سے زیادہ جناب سیدہ(ع) اور ان کی قدر و قیمت کو جانتے تھے لیکن پھر بھی ان کی بات کو تسلیم اور ان کے شوہر کی گواہی کو قبول نہیں کیا جبکہ ان کے شوہر کے بارے میں رسول(ص) یہ فرما چکے تھے کہ : علی(ع) حق کے ساتھ ہیں اور حق علی(ع) کے ساتھ اور جدھر یہ جاتے ہیں حق ادھر جاتا ہے.(1)

____________________

1.تاریخ بغداد جلد/14 ص321 تاریخ ابن عساکر جلد/3 ص119، کنز العمال جلد/5 ص30

۲۲

فی الحال ہم بخاری و مسلم کی گواہی پر اکتفا کرتے ہیں کہ جناب رسالتمآب(ص) نے فضائل زہرا(ع) میں کیا فرمایا ہے:

فاطمہ(ع) نص قرآنی کے لحاظ سے معصوم ہیں

مسلم نے اپنی صحیح میں عائشہ سے روایت کی ہے کہ رسول(ص) صبح کے وقت برآمد ہوئے آپ ایک کالی اونی چادر(کملی) اوڑھے ہوئے تھے کہ حسن(ع) ابن علی(ع) آئے اور آپ(ص) نے انہیں اس چادر میں داخل کر لیا پھر حسین(ع) آئے وہ بھی چادر میں داخل ہوگئے پھر فاطمہ(ع) آئیں انہیں بھی آپ(ص) نے چادر میں داخل کر لیا پھر علی(ع) آئے انہیں بھی چادر میں داخل کر لیا اور اس کے بعد فرمایا:

( إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ‏ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً .)

اے( پیغمبر(ص) کے) اہلبیت خدا تو بس یہ چاہتا ہے کہ تم کو( ہر طرح کی) برائی سے دور رکھے اور جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ویسا پاک و پاکیزہ رکھے.

پس جب اس امت کی عورتوں میں صرف فاطمہ(ع) وہ ہیں جن سے خدا نے رجس کو دور رکھا اور اس طرح پاک رکھا جو حق ہے. پس ابوبکر کو کیا ہوگیا تھا کہ جو انہیں جٹھلا دیا اور ان سے گواہ طلب کئے.(1)

____________________

1.صحیح مسلم جلد/6، باب فضائل اہلبیت(ع)

۲۳

فاطمہ(ع) عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں

بخاری و مسلم نے کتاب الفضائل میں ام المومنین عائشہ سے روایت کی ہے کہ سب ازواج نبی(ص) آپ کی خدمت میں تھیں کہ فاطمہ(ع) آگے بڑھِیں ان کے چلنے کا انداز ہو بہو رسول(ص) کے چلنے کا اندار تھا. جب رسول(ص) نے انہیں دیکھا تو فرمایا: مرحبا میری لخت جگر، پھر انہیں دائیں یا بائیں جانب بٹھایا پھر ان کے کان میں کچھ کہا تو فاطمہ(ع) پر شدید رقت طاری ہوگئی. پس جب رسول(ص) نے انہیں غمگین دیکھا تو پھر کچھ آہستہ سے فرمایا کہ فاطمہ(ع) مسکرانے لگیں. میں نے فاطمہ(ع) سے کہا میں ان کی زوجہ ہوں لیکن انہوں نے آپ کو اپنا ہم راز بنایا اور آپ رونے لگیں جب رسول اللہ(ص) چلے گئے تو میں نے پوچھا کہ آپ کے درمیان کیا راز کی باتیں ہوئی ہیں فاطمہ(ع) نے جواب دیا: میں رسول(ص) کے راز کو افشا نہیں کروں گی. عائشہ کہتی ہیں کہ جب رسول(ص) کا انتقال ہوگیا تو میں ان کے پاس پہونچی اور کہا کہ آپ پر میرا حق ہے اس وقت آپ نے راز نہیں بتایا تھا. فاطمہ(ع) نے فرمایا: کہ ہاں اب میں تمہیں بتاسکتی ہوں. فرمایا: پہلی مرتبہ رسول(ص) یہ فرمایا تھا کہ اس سال جبرئیل دو مرتبہ قرآن لے کر نازل ہوئے ہیں. جبکہ ہر سال ایک مرتبہ نازل ہوتے تھے اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ میرا وقت قریب آگیا ہے پس تم خدا کا تقوی اختیار کرنا اور صبر سے کام لینا بیشک میں تمہارے لئے بہترین سلف ہوں. اس لئے میں نے گریہ کیا جیسا کہ تم نے دیکھا اور جب رسول(ص) نے مجھے محزون پایا تو دوبارہ سرگوشی کی اور فرمایا: فاطمہ(ع) کیا تم اس بات سے راضی نہیں ہو کہ تم مومنین اور اس امت کی عورتوں کی سردار ہو.(1)

____________________

1.بخاری نے اپنی صحیح کی جلد/6کتاب الاستئذان باب من ناجی بین یدی الناس و لم یخبر سر صاحبه.فاذا مات اخبر به"

۲۴

جب فاطمہ زہرا(ع) مومنین کی عورتوں کی سردار ہیں جیسا کہ رسول(ص) کے قول سے ثابت ہے. ابوبکر فدک کے بارے میں انہیں جھٹلاتے ہیں اور او کی کوئی گواہی قبول نہیں کرتے تو پھر کون سی شہادت قابل قبول ہوگی؟؟

فاطمہ(ع) زنان جنت کی سردار ہیں

بخاری نے اپنی صحیح میں روایت کی ہے کہ رسول(ص) نے فرمایا:

فاطمہ(ع) جنت کی عورتوں کی سردار ہیں.(1) جب فاطمہ(ع) جنت کی عورتوں کی سردار ہیں اور اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں اس لئے کہ جنت کی تمام عورتیں صرف امت محمدی(ص) ہی نہیں ہیں پھر ابوبکر صدیق نے انہیں کیسے جھٹلا دیا؟ کیا اہلسنت یہ دعوی نہیں کرتے کہ ابوبکر کو صدیق اس لئے کہتے ہیں کہ وہ(ابوبکر) محمد(ص) کی ہر بات کی تصدیق کرتے تھے.(اگر حقیقت یہی ہے) تو پھر رسول(ص) کے اس قول کی تصدیق کیوں نہیں کی جو فاطمہ زہرا(ع) کے بارے میں فرمایا تھا. کہ فاطمہ(ع) میرا ہی ٹکڑا ہے؟؟ یا اس کا تعلق فدک، صدقہ اور عطیہ سے اتنا نہیں تھا جتنا اس کا تعلق خلافت سے تھا. جو فاطمہ(ع) کے شوہر علی(ع) کا حق تھا. پس عطیہ کے سلسلہ میں فاطمہ(ع) اور ان کے شوہر کی تکذیب ابوبکر کے لئے آسان تھی تاکہ اس کے ذریعہ وہ دونوں کے مطالبوں کا سد باب کر دیں. یہ اتنا بڑا مکر تھا کہ جس سے پہاڑ متزلزل ہوجائیں.

____________________

1. صحیح بخاری جلد/4 کتاب بدا الخلق کے باب" مناقب قرابة الرسول(ص)" میں

۲۵

فاطمہ(ع) نبی(ص) کا ٹکڑا ہیں رسول(ص) ان کے غضب سے غضبناک ہوتے ہیں

بخاری نے اپنی صحیح میں روایت کی ہے کہ ہم سے ابو الولید نے ابن عنبہ سے اور انہوں نے عمرو ابن دینار نے اور انہوں نے ابن ابی ملیکہ سے اور انہوں نے مسور ابن مخرمہ سے روایت کی ہے کہ رسول(ص) نے فرمایا:

" فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّي‏ فَمَنْ أَغْضَبَهَا فَقَدْ أَغْضَبَنِي."

فاطمہ(ع) میرا ٹکڑا ہے جس نے اسے غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا،، نیز فرمایا:

"فاطمة بضعة مني‏ يريبني ما ارابها و يؤذيني ما آذاها."

فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جس نے اسے پریشان کیا اور اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی.

جب رسول(ص) اپنی پارہ جگر کے غضبناک ہونے سے غضبناک ہوتے ہیں اور ان کو ایذا پہونچانا ایسا ہی ہے جیسا کہ رسول(ص) کو اذیت پہونچانا ہے. اس کے معنی یہ ہیں کہ فاطمہ(ع) معصوم عن الخطا ہیں ورنہ نبی(ص) کے لئے اس طرح یہ فرمانا جائز نہیں تھا کیونکہ جو معصیت کا مرتکب ہوتا ہے اسے اذیت دینا اور غضبناک کرنا جائز ہے خواہ اس کا مقام کتنا ہی بلند ہو اس لئے کہ شریعت اسلامی میں اپنے اور غیر کا کوئی امتیاز نہیں ہے اور نہ ہی غنی و فقیر کا فرق ہے اس کے باوجود ابوبکر، زہرا(ع) کو اذیت دیتے ہیں اور ان کے غضب کی کوئی پروا نہیں کرتے ہیں بلکہ انہیں مرتے دم تک غضبناک رکھا اور فاطمہ(ع) نے آخری وقت تک ان سے کلام نہ کیا اور ہر نماز

۲۶

کے بعد ابوبکر کے لئے بدعا کرتی تھیں. ملاحظہ ہو تاریخ ابن قتیبہ وغیرہ.

ہاں ان تلخ اور ایسے ہی غم انگیز حقائق میں کہ جن سے ارکان منہدم ہوجائیں اور ایمان متزلزل ہو جائے. کیونکہ حق و حقیقت کے متلاشی، منصف مزاج انسان کے لئے اعتراف کے علاوہ چارہ کار نہیں ہے کہ ابوبکر نے فاطمہ زہرا(ع) پر ظلم کیا ہے. اور ان کے حق کو غصب کیا ہے وہ مسلمانوں کے خلیفہ تھے اور ان کے لئے ممکن تھا کہ وہ فاطمہ(ع) کو راضی اور خوشنود کر لیتے. اور ان کا حق دے دیتے. چونکہ فاطمہ(ع) کی صداقت مسلم ہے ان کی صداقت کی گواہی خدا و رسول(ص) دے رہے ہیں اور مع ابوبکر کے تمام مسلمانوں نے آپ کی صداقت کا لوہا مانا ہے لیکن سیاست ہر چیز کی حقیقت کو بدل دیتی ہے اور نتیجہ میں صادق کاذب اور کاذب صادق بن جاتا ہے.

جی ہاں! یہ اس سازش کی ایک کڑی ہے جو اہل بیت(ع) کو اس منصب سے دور رکھنے کے لئے کی گئی جو خدا نے ان کے لئے منتخب کیا تھا اور اس سازش کی ابتدا علی(ع) کو خلافت سے دور اور فاطمہ(ع) کی تکذیب اور اہانت اور میراث سے محرومی سے ہوئی اور انہیں بتادیا گیا کہ لوگوں کے دلوں میں ان کا کوئی احترام باقی نہ رہا. اس سازش کی انتہا شہادت علی(ع) اور قتل حسن(ع) و حسین(ع) اور مخدرات کی بے پردگی پر ہوئی. ان کے شیعہ، ان کے چاہنے والے اور اتباع کرنے والے قتل کئے جانے لگے شاید اس سازش کا سلسلہ آج تک چلا آرہا ہے. آج بھی ایسے کرتوت کا پتہ اور ان کے نتیجوں کا نشان ملتا ہے.

یقینا ایک آزاد اور منصف مزاج مسلمان ان حقائق سے اس وقت آگاہ ہو جائے گا جب تاریخی کتابوں کا مطالعہ کرے گا اور اس طرح حق کو باطل سے جدا کرے گا کہ اہلبیت(ع) پر سب سے زیادہ ابوبکر نے ظلم کیا ہے. اس سلسلہ میں

۲۷

صحیح بخاری و مسلم کا مطالعہ کافی ہوگا. اگر وہ حق کا جویندہ ہے تو اس پر حق منکشف ہو جائے گا.

یہ لیجئے بخاری و مسلم دونوں اعتراف کرتے ہیں کہ ابوبکر عام صحابہ کے دعووں کی تصدیق کیا کرتے تھے. لیکن یہی ابوبکر فاطمہ(ع) زہرا سیدۃ نساء اہل الجنۃ اور ہر عیب سے طاہر رکھا. اسی طرح ابوبکر علی(ع) اور ام ایمن کی تکذیب کرتے ہیں اب آپ اس سلسلہ میں بخاری ومسلم کے اقوال ملاحظہ فرمائیے.

بخاری و مسلم دونوں نے جابر ابن عبداللہ رضی اللہ عنہم سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: جب رسول(ص) کا انتقال ہوچکا تو علا ابن حضرمی کی طرف سے ابوبکر کے پاس ماں آیا تو ابوبکر نے کہا: نبی(ص) پر جس کا قرض ہو یا انہوں نے کسی سے کوئی وعدہ کیا ہو تو وہ آکر بیان کرے. جابر کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ مجھ سے رسول(ص) نے ایسا ایسا وعدہ کیا تھا. پس انہوں نے تین مرتبہ ہاتھ بڑھایا. جابر کہتے ہیں میں نے جب ان کی شمارش کی تو میرے پاس پندرہ سو ( سکے) تھے.(1)

آیا کوئی ابوبکر سے یہ سوال کرسکتا ہے کہ آپ نے جابر ابن عبداللہ کی کیوں تصدیق کی کہ ان سے نبی(ص) نے کچھ عطا کرنے کا وعدہ کیا تھا ابوبکر نے تین مرتبہ مشت بھر کر پندرہ سو سکے دیئے جب کہ ان سے گواہ بھی نہیں کئے کیا جابر ابن عبداللہ انصاری فاطمہ(ع) سے زیادہ متقی اور سیدة نساء العالمین سے نیک تر تھے؟ اس سے زیادہ تعجب خیز بات یہ ہے کہ فاطمہ(ع) کے شوہر علی(ع) کی شہادت کو رد

____________________

1.صحیح بخاری جلد/3 کتاب الشہادات باب" من امر بانجاز الوعد" و صحیح مسلم کتاب الفضائل باب" ما سئل رسول الله شیئا قط فقال لا و کثرة عطائه"

۲۸

کردیا کہ جن سے خدا نے رجس کو دور رکھا ایسے پاک کیا جو حق ہے اور ان پر اسی طرح دورد بھیجنا واجب کیا جس طرح رسول(ص) پر درود بھیجنا واجب ہے، جن کی محبت کو رسول(ص) نے ایمان اور دشمنی کو نفاق قرار دیا ہے.(1)

بخاری نے اپنی صحیح میں روایت کی ہے کہ بنی صہیب موئی ابن جذعان نے دو گھروں اور ایک حجرہ کا دعوی کیا، رسول(ص) نے وہ گھر صہیب کو دے دیا. مروان نے کہا: اس سلسلہ میں کسی نے گواہی دی ہے. انہوں نے کہا: ابن عمیر نے!انہیں بلایا گیا تو انہوں نے گواہی دی کہ رسول(ص) نے صہیب کو دو گھر اور ایک حجرہ دے دیا ہے تو مروان نے بھی ایسے فیصلہ کر دیا.(2)

مسلمانو! ان تصرفات اور احکام میں غیر مساوی رویہ کو دیکھو کیا یہ ظلم نہیں ہے؟ کیا یہ افسوس کا مقام نہیں ہے؟ جب خلیفہ صرف ابن عمر کی گواہی پر مدیون کے حق میں فیصلہ کرتا ہے تو کیا کسی مسلمان کو یہ سوال کرنے کا حق ہے کہ علی ابن ابی طالب(ع) اور ام ایمن کو گواہی کو کیوں رد کیا گیا؟ جب کہ ایک مرد اور اس کے ساتھ ایک عورت کی گواہی صرف ایک مرد کی گواہی سے قوی ہوتی ہے. جب ہم شہادت( گواہی) کے نصاب کو دیکھتے ہیں کہ قرآن نے جس کا حکم دیا ہے... کیا صہیب کی اولاد بنت مصطفی(ص) سے زیادہ اپنے دعوے میں سچی ہیں؟ حکام کے نزدیک ابن عمر موثق و معتبر ہیں اور علی(ع) معتبر نہیں ہیں؟ لیکن یہ دعوی کہ نبی(ص) نے کسی کو وارث نہیں بنایا جیسا کہ ابوبکر نے حدیث بیان کی ہے. اور جس سے فاطمہ زہرا(ع) کو

____________________

1.صحیح مسلم جلد/1 ص61 باب" الدلیل علی ان حب الانصار و علی من الایمان و علاقة بغضهم من علامات النفاق" صحیح ترمذی جلد/5 ص306 سنن نسائی جلد/8 ص116

2.صحیح بخاری جلد/3 ص143

۲۹

جھٹلایا ہے. جو کتاب خدا کی معارض ہے. اور وہ ایسی حجت ہے جو کبھی باطل نہیں ہوسکتی اس کو نبی(ص) نے اپنے اس قول سے صحیح قرار دیا ہے:

" اذا جاءکم حدیث عنی فاعرضوه علی کتاب الله فان وافق کتاب الله فاعلموا به و ان خالف کتاب الله فاضربوا به عرض الجدار".

جب تمہارے پاس میری کوئی حدیث پہونچے تو اسے کتاب خدا پر پرکھو، اگر کتاب خدا کے موافق ہو تو اس پر عمل کرو اور اگر کتاب خدا کے مخالف ہو تو اسے دیوار پر دے مارو.

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ حدیث قرآن مجید کی متعدد آیتوں کے معارض ہے آیا کوئی سوال کرنے والا ابوبکر اور تمام مسلمانوں سے یہ سوال کرسکتا ہے کہ اس حدیث کی روایت کے سلسلہ میں جو عقل ونقل کے خلاف اور قرآن کے معارض ہے تنہا ابوبکر کی گواہی کیوں قبول کی جاتی ہے اور فاطمہ زہرا(ع) اور علی(ع) کی گواہی جو عقل و نقل کے موافق اور قرآن کے مطابق ہے اسے کیوں قبول نہیں کیا جاتا.

یہاں میں ایک بات کا اضافہ کرتا چلوں اور وہ یہ کہ خواہ ابوبکر کا مرتبہ کتنا ہی بلند ہو جائے اور خواہ کتنے ہی افراد اس کا دفاع اور تائید کرنے والے وجود میں آجائیں تو بھی وہ سیدہ نساء عالمین حضرت فاطمہ زہرا(ع) اور علی ابن ابی طالب کی عظمت و فضیلت تک نہیں پہونچ سکیں گے کہ جن کو رسول(ص) نے تمام صحابہ پر ہی موقع پر فضیلت دی ہے. یہاں مثال کے طور پر پیش کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ جب رسول(ص) نے یہ کہکر پرچم اسلام علی(ع) کے ہاتھوں میں دیا کہ:

۳۰

یہ علم اس کو دوں گا جو خدا اور اس کے رسول(ص) کو دوست رکھتا ہے اور خدا اور رسول(ص) اس کو دوست رکھتے ہیں.یہ سن کر تمام صحابہ کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ یہ علم ہم کو عطا کیا جائے لیکن پرچم اسلام آپ نے علی(ع) کو عطا کیا.(1) رسول(ص) نے علی(ع) کے بارے میں فرمایا کہ:علی مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں اور وہ میرے بعد تمام مومنین کے ولی ہیں.(2)

اگر متعصب افراد اس حدیث کے صحیح ہونے میں شک کریں گے تو وہ کم از کم ان احادیث میں کبھی شک نہیں کرسکیں گے کہ علی(ع) و فاطمہ(ع) پر درود بھیجنا نبی(ص) پر درود بھیجنے کا جز ہے پس ابوبکر و عمر و عثمان اور دیگر وہ صحابہ جن کو جنت کی بشارت دی گئی ہے. ان کی نمازیں اس وقت تک قبول نہیں کی جائیں گی جب تک وہ محمد(ص) و آل محمد(ص) پر درود نہ بھیجیں جیسا کہ اہلسنت کی صحاح میں وارد ہوا ہے.(3) یہاں تک کہ امام شافعی نے اہلبیت(ع) کے بارےمیں کہدیا

"من لم یصل علیکم لا صلاة له"

"جو آپ پر درود نہ بھیجے اس کی نماز نہیں ہے"پس جب ان سب کے لئے جھوٹ اور باطل دعوے جائز ہوں گے تو اسلام پر سلام اور دنیا پر خاک، لیکن جب آپ یہ پوچھیں گے کہ ابوبکر کی گواہی کیوں

____________________

1.صحیح بخاری جلد/4 ص5 و جلد/4 ص20

2.صحیح مسلم جلد/7 ص121 باب" فضائل علی ابن ابی طالب"

3.صحیح بخاری جلد/6 ص27 باب" ان الله و ملائکته یصلون علی النبی(ص)"

۳۱

قبول کر لی گئی اور اہلبیت(ع) کی شہادت کیوں رد کی دی گئی؟ تو جواب ملے گا کہ وہ حاکم ہے اور حاکم کو یہ اختیار ہے کہ وہ جو چاہے فیصلہ کرے کیونکہ ہر حالت میں حق اس کے ساتھ ہوتا ہے اور طاقتور کا دعوی ایسا ہی جیسے درندہ کا دعوی کہ ہر حالت میں اسی کی دلیل کامیاب ہوتی ہے.

قارئین محترم آپ میرے ساتھ آئیں اور اس قول کی صداقت کے لئے میراث نبی(ص) کے سلسلہ میں بخاری کا تناقض ملاحظہ فرمائیں ابوبکر کی بیان کی ہوئی یہ حدیث:

" نحن‏ معشر الأنبياء لا نورث ما تركناه صدقة."

تمام اہلسنت والجماعت اس حدیث کو صحیح مانتے ہیں اور اسی کو دلیل بناتے ہوئے کہتے ہیں کہ ابوبکر نے فاطمہ زہرا(ع) کا دعوی قبول نہیں کیا.جو چیز آپ کو اس حدیث کے باطل ہونے کو بتاتی ہے وہ اس کا غیر معروف ہونا ہے اس کے علاوہ فاطمہ(ع) نے اپنی میراث کا مطالبہ کیا تھا اور اسی طرح ازواج نبی(ص) امہات المومنین نے بھی میراث کے سلسلہ میں ابوبکر کے پاس کسی کو بھیجا تھا.(1) بخاری کی عبارت سے یہ ظاہر ہے کہ انبیاء کسی کو میراث نہیں بناتے لیکن دوسری جگہ بخاری خود اپنی اس عبارت کے خلاف تحریر کرتے ہیں. لکھتے ہیں کہ عمر ابن خطاب نے ازواج نبی(ص) کے درمیان میراث تقسیم کی. بخاری نے کتابالوکالة... باب المزارعة بالشطر وغیرہ میں نافع سے روایت کی ہے کہ عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی(ص) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی(ص) نے خیبر کی کھیتی اور پھلوں کی دیکھ بھال کے لئے عامل مقرر کیا. پس ازواج کو سو100 وسق(2) ، اسی 80 وسق کھجوریں بیس20 وسق جو دیتے تھے. جب عمر

____________________

1.صحیح بخاری جلد/5 ص24 باب" حدیث بنی النضیر" کتاب المغازی

2.یہ ایک پیمانہ ہے جو ایک سو اسی 180 کلو کا ہوتا ہے.

۳۲

نے خیبر کو تقسیم کیا تو انہوں نے ازواج نبی(ص) کے درمیان زمین اور پانی کو تقسیم کیا اور کہا کہ اس میں سے جس کو چاہیں اختیار کریں. پس ان سے بعض نے زمین لے لی اور کسی نے وسق قبول کیا جب کہ عائشہ نے زمین لی تھی.(1)

اس روایت سے بخوبی واضح ہے کہ فاطمہ(ع) نے خیبر سے اپنے حصہ کا مطالبہ کیا تھا جس نے اپنے باپ کی میراث مانگی تھی. اور ابوبکر نے آپ کا مطالبہ یہ کہکر رد کیا کہ رسول(ص) نے کسی کو وارث نہیں بنایا. اور یہی روایت واضح طور پر یہ بھی بتا رہی ہے کہ عمر ابن خطاب نے اپنی خلافت کے زمانہ میں ازواج نبی(ص) کے درمیان خیبر تقسیم کیا. اور انہیں یہ اختیار دیا کہ چاہے زمین لے لیں یا وسق اور عائشہ نے زمین لے لی پس جب نبی(ص) نے کسی کو وارث نہیں بنایا تھا. تو عائشہ کو زوجہ کی حیثیت سے میراث دی گئی. اور فاطمہ(ع) کی بیٹی کی حیثیت سے کیوں نہ دی گئی؟،

اس سلسلہ میں صاحبان عقل و شعور ہمیں فتوی دیں اس کا آپ کو اجر و ثواب ملے گا. یہاں میں ایک چیز کا اور اضافہ کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ عائشہ بنت ابوبکر نے نبی(ص) کے پورے گھر پر قبضہ کر لیا تھا اور ازواج نبی(ص) میں سے کسی کو حصہ نہیں دیا تھا. انہوں نے اپنے باپ کو اسی گھر میں اور عمر کو ان کے برابر میں دفن کیا اور امام حسین(ع) کو امام حسن(ع) کا جنازہ ان کے جد کے پہلو میں دفن کرنے سے منع کر دیا. تو ابن عباس نے کہا: اونٹ پر تم بیٹھ چکیں، خچر پر سوار ہو چکیں، زندہ رہوگی تو ہاتھی پر سوار ہوگی. تمہارا آٹھویں حصہ میں سے نواں حصہ ہے اور پورے کی مالک بنی ہوئی ہو،، بہر حال میں اس موضوع کو طول نہیں دینا چاہتا اس لئے محقق تاریخ کا مطالعہ فرمائیں لیکن یہاں فاطمہ زہرا(ع) کا وہ خطبہ جو آپ نے ابوبکر اور بڑے بڑے

____________________

1.صحیح بخاری جلد/3 ص68

۳۳

صحابہ کے سامنے دیا تھا اس کا کچھ حصہ ذکر کر دینے میں کوئی حرج نہیں ہے. تاکہ ان میں سے جو ہلاک ہو وہ دلیل کے بعد اور جو نجات پائے وہ بھی دلیل کے بعد چنانچہ آپ(ع) نے فرمایا:

تم لوگوں نے جان بوجھ کر کتاب خدا کو چھوڑ رکھا ہے اور اسے پس پشت ڈال دیا ہے جبکہ قرآن کہتا ہے کہ سلیمان اپنے باپ دائود کے وارث ہوئے اور جناب یحیی کے قصہ میں حضرت ذکریا کی یہ دعا موجود ہے" خداوند! مجھے اپنی طرف سے ایسا وارث عطا فرما جو میری میراث پائے اور آل یعقوب کا وارث بھی قرار پائے. اور اسی کتاب میں ارشاد خداوند ہے کہ تمہارا رب تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں وصیت کرتا ہے کہ میراث کی تقسیم میں مرد کوعورت بکے دو برابر حصہ دو. ارشاد ہوتا ہے اگر کوئی مرتے وقت مال چھوڑے تو وہ والدین اور قریبی رشتہ داروں کے لئے نیکی یعنی وصیت کر جائے. اور تم یہ گمان کر رکھا ہے کہ میرا کوئی حق ہی نہیں اور میں اپنے باپ کی میراث نہیں لے سکتی اور ہم لوگوں کے درمیان کوئی رحمی قرابت ہی نہیں ہے کیا خداوند عالم نے میراث کے بارے میں میں تم کو کسی آیت سےمخصوص کیا ہے کہ جس سے میرے پدر بزرگوار کو مستثنی کر دیا ہے. کیا قرآن کے عموم و خصوص کو تم میرے والد اور ان کے ابن عم سے بہتر سمجھتے ہو؟ یا تم کہتے ہو کہ دو ملت والے ایک دوسرے کی میراث نہیں پاتے تو کیا میں اور میرے پدر بزرگوار ایک ملت پر نہیں ہیں؟ ٹھیک ہے آج فدک کو اس طرح قبضہ میں

۳۴

کر لو جس طرح مہار اور پالان شتر کو قبضہ میں کیا جاتا ہے. ابوبکر قیامت کے دن اس کا نتیجہ بھگتیں گے اور بہترین فیصلہ کرنے والا خدا ہوگا. اور محمد(ص) ہمارے ضامن ہوں گے( اے ابوبکر) ہماری اور تمہاری وعدہ گاہ قیامت ہے اور ( یاد رکھو) قیامت کے دن باطل پرست خسارہ میں رہیں گے.

ابوبکر مسلمانوں کو قتل کرتے ہیں

بخاری نے اپنی صحیح میں کتاب استتابہ المرتدین کے باب" قتل من ابی قبول الفرائض" میں اور مسلم نے کتاب الایمان کے باب" الامر بقتال الناس" میں ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ جب نبی(ص) کا انتقال ہوگیا اور ابوبکر خلیفہ بن گئے اور عرب میں سے کچھ لوگ کافر ہوگئے. تو عمر نے کہا: اے ابوبکر لوگوں سے تم کیسے جنگ کروگے جب کہ نبی(ص) نے فرمایا ہے کہ اس وقت تک قتال و جدال کا حکم دیا گیا ہے جب تک وہ لوگ کلمہ نہ پڑھ لیں پس جس نے لا الہ الا اللہ کہدیا اس کی جان و مال محفوظ ہوگئی مگر یہ کہ وہ اس کا مستحق ہو اور اس کا حساب خدا سے مربوط ہے؟ ابوبکر نے کہا: قسم خدا کی میں ضرور بالضرور اس سے جنگ کروں گا جو نماز و زکوة میں تفریق کرے گا. کیونکہ زکوة بیت المال کا حق ہے قسم خدا کی اگر انہوں نے مجھے زکوة دینے سے منع کیا جبکہ وہ رسول(ص) کو زکوة دے چکے تھے تو میں ان سے جنگ کروں گا. عمر نے کہا خدا کی قسم میں نے دیکھا کہ جنگ کے لئے ابوبکر کا سینہ خدا نے کشادہ کر دیا ہے پس میں سمجھ گیا کہ یہی حق ہے.

ابوبکر و عمر کے لئے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے. ان ہی دونوں نے

۳۵

فاطمہ(ع) کے گھر کو جلانے کی اس وقت دھمکی دی تھی جب بیعت نہ کرنے والے ان کے گھر میں پناہ گزیں تھے.(1) جب وہ علی(ع) و فاطمہ(ع)، حسن(ع) و حسین(ع) اور ان برگزیدہ صحابہ کو جلانے کے لئے تیار تھے جنہوں نے بیعت سے انکار کر دیا تھا تو مانعین زکوة کا قتل کرنا تو ان کے لئے بہت ہی آسان تھا اور دور افتادہ علاقوں میں بسنے والوں کی عترت طاہرہ اور صحابہ اخیار کے مقابلہ میں قدر و قیمت ہی کیا تھا؟ یہاں ایک بات اور عرض کردوں کہ بیعت کا انکار کرنے والے افراد نص رسول(ص) کے ذریعہ خلافت کو اپنا حق سمجھتے تھے اور اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ ان کے حق میں کوئی نص نہیں تھی تو بھی انہیں شوری پر اعتراض اور تنقید و تبصرہ کا حق تھا. اس کے باوجود انہیں جلانے کے دھمکی تواتر سے ثابت ہے. اور اگر علی(ع) اپنے رویہ میں نرمی اور دوسرے صحابہ سے یہ نہ کہتے کہ مسلمانوں کے خون کی حفاظت اور وحدت اسلامی کے لئے بیعت کر لو تو وہ ابوبکر و عمر سب کو جلا دیتے.

اب تمام چیزیں ان ک منشاء کے موافق تھیں، ان کی جگہ مستحکم ہوچکی تھی. زہرا(ع) کی موت اور علی(ع) کی مصالحت کے بعد کون تھا جو کچھ کہنے کی ہمت کرتا. اب وہ لوگ ان قبائل کو کیسے نظر انداز کر سکتے تھے جنہوں نے زکوة دینے سے یہ کہکر انکار کر دیا تھا کہ جب تک امر خلافت واضح نہیں ہوتا اس وقت تک ہم کسی کو زکوة نہیں دیں گے. نبی(ص) کے بعد خلافت سے جو کھلواڑ ہوا اس کا اعتراف خود عمر نے اس طرح کیا ہے کہ ابوبکر بیعت انفاقی امر تھا.(2)

____________________

1.الامامة والسیاست، ابن قتیبة، العقد الفرید جلد/2حدیث السقیفة اور طبری و مسعودی اپنی تاریخ میں اورابوالفداء شہرستانی نے تحریر کیا ہے.

2.صحیح بخاریکتاب المحاربین من اهل الکفر والردة باب رجم الحبلی من الزنا

۳۶

پھر ابوبکر کا نیک مسلمانوں کو قتل کرنا، ان کی ہتک حرمت کرنا، ان کی عورتوں کو بے پردہ کرنا. مورخین لکھتے ہیں کہ ابوبکر نے خالد ابن ولید کو بھیج کر قبیلہ بنی سلم کو جلوادیا.(1) پھر خالد کو یمامہ اور بنی تمیم کی طرف بھیجا تو خالد نے انہیں دھوکا دے کر قتل کر دیا اور مالک ابن نویرہ جیسے جلیل القدر صحابی کو کہ جس کو رسول(ص) نے ان کی قوم سے صدقات وصولنے پر مقرر کیا تھا. اور ان(مالک) کی زوجہ سے اسی شب میں خالد نے زنا کیا

"و لا حول‏ و لا قوّة إلّا باللّه العليّ العظيم"

مالک اور ان کی قوم کی صرف یہ تقصیر تھی کہ انہوں نے نبی(ص) کی وفات کے بعد رونما ہونے والے حوادث. جیسے علی(ع) کو خلافت سے الگ کرنا اور فاطمہ زہرا(ع) پر اتنا ظلم کرنا کہ جس میں وہ خفگی کے عالم میں انتقال فرما گئیں، اور انصار کے سردار کا ان ( ابوبکر و عمر) کی مخالفت کر کے بیعت سے خارج ہونا وغیرہ کو وہ سن چکے تھے اسی لئے مالک اور ان کی قوم زکوة جمع کر رہے تھے. کہ خلیفہ اور ان کے مددگاروں نے ان کے قتل کرنے اور ان کی عورتوں کو بے پردہ کرنے اور ان کی بے عزتی کرنے کا حکم صادر کر دیا اور ان کو ایسا خاموش کیا گیا کہ جس سے خلافت کے بارے میں صرف میں سے کوئی کچھ کہنے کی ہمت نہ کرے.

افسوس تو اس شخص پر ہے جو ابوبکر اور ان کی حکومت کا دفاع کرتا ہے. بلکہ ان کی اس خطا کو صحیح قرار دیتا ہے جس کا انہیں خود اعتراف تھا.(2) اور عمر کی طرح کہتا ہے: قسم خدا ک میں نے دیکھا کہ خدا نے جنگ و جدال

____________________

1.ریاض النضرة مصنف محب الدین طبری جلد/1 ص100

2.جیسا کہ انہوں نے مالک کے بھائی سے معذرت کی اور اسے مسلمانوں کے بیت المال سے مالک کی دیت دی اور کہا خالد نے تاویل کی سو اس سے خطا ہوگئی.

۳۷

کے لئے ابوبکر کا سینہ کشادہ کر دیا. بس میں سمجھ گیا کہ یہی حق ہے.

کیا ہم عمر سے یہ سوال کرسکتے ہیں کہ آپ ان مسلمانوں کے قتل کے بارے میں کیسے مطمئن ہوگئے جن کے متعلق آپ نے خود رسول(ص) کا یہ قول نقل کیا تھا کہ لا الہ الا اللہ،، پڑھنے والے کو قتل کرنا حرام ہے اور عمر نے حدیث کو بنیاد بنا کر ابوبکر سے بحث کی تھی لیکن یہ انقلاب کیسے آگیا عمر ان لوگوں کے قتل سے کیونکر مطمئن ہوگئے اور نہ جانے عمر کو ابوبکر کے شرح صدر سے یہ بات کیسے معلوم ہوگئی کہ یہ حق ہے اور ابوبکر کے سینہ کا آپریشن کس طرح ہوا کہ جسے عمر کے علاوہ کسی نے نہیں دیکھا؟ اگر شرح صدر کا آپریشن معنوی تھا نہ کہ حقیقی تو پھر خدا نے اس قوم کے سینے کیوں کشادہ کر دیئے تھے جو ان احکام کی مخالفت کر رہی تھی. جو رسول(ص) لائے تھے. اور خدا نے اپنے بندوں کے بارے میں یہ کیوں فرمایا تھا کہ جو " لا الہ الا اللہ" کہے تم پر اس کا قتل حرام ہے اس کا حساب میرے ذمہ ہے. اس کے بعد ان کے قتل کرنے کے لئے ابوبکر و عمر کا سینہ کشادہ کردیا. یا یہ وہ اجتہاد ہے جو سیاسی مصلحت کی بنا پر کیا گیا تھا اور احکام خدا کو دیوار پر مار دیا گیا تھا.

ابوبکر کا دفاع کرنے والوں کا یہ دعوی کہ وہ لوگ( مانعین زکوة) اسلام سے خارج ہوگئے تھے اس لئے ان کا قتل واجب تھا تو یہ سراسر غلط ہے اور حق کتابوں سے تھوڑی سی آشنائی رکھتا ہے. وہ بخوبی جانتا ہے کہ زکوة نہ دینے والے مرتد نہیں تھے. کیسے جب کہ انہوں نے خالد کے ساتھ اس وقت بھی نماز پڑھی تھی جب وہ انہیں تہ تیغ کرنے کے لئے

۳۸

تیار تھا. پھر اس جھوٹے دعوے کی تردید خود ابوبکر نے مسلمانوں کے بیت المال سے دیت کی ادائگی سے کی تھی اور اس قتل کے بارے میں عذر خواہی کی تھی. مرتد کے قتل کرنے کے بعد نہ معذرت کی جاتی ہے اور نہ مسلمانوں کے بیت المال سے اس کی دیت دی جاتی ہے اور نہ ہی سلف صالح میں سے کسی نے مانعین زکوة کو مرتد کہا ہے. ہاں بعد والے زمانہ میں جب متعدد فرقے ہوگئے اہل سنت نے بے فائدہ کوشش کی کہ ابوبکر کے افعال کی توجیہ کی جائے لیکن انہیں کوئی ایسا راستہ نہ ملا تو انہوں نے مانعین زکوة کو مرتد کہنا شروع کر دیا. کیونکہ وہ جانتے تھے کہ مسلمان کو برا بھلا کہنا فسق اور قتل کرنا کفر ہے. جیسا کہ اہلسنت کی صحاح میں(1) یہ مسئلہ موجود ہے. یہاں تک کہ بخاری نے جہاں یہ حدیث اور ابوبکر کے اس قول کو نقل کیا ہے" قسم خدا کی میں لازمی زکوة اور نماز میں تفریق کرنے سے قتال کروں گا وہاں جس نے فرائض کا انکار کیا اور لوگوں نے اسے مرتد کہا" کے عنوان سے ایک باب قائم کیا ہے یہ دلیل ہے اس بات پر کہ بخاری خود بھی ان کے ارتداد کے معتقد نہ تھخ.

کچھ دوسرے لوگوں نے حدیث کی تاویل کرنے کوشش کی ہے جیسا کہ ابوبکر نے تاویل کر کے کہدیا تھا کہ زکوة حق بیت المال ہے. حالانکہ یہ تاویل چند وجوہ سے صحیح نہیں ہے.

1.رسول(ص) نے کلمہ پڑھنے والے کے قتل کو حرام قرار دیا ہے. اس سلسلہ میں بہت سی احادیث موجود ہیں جو کہ اہلسنت نے بھی صحاح میں درج

____________________

1.صحیح بخاریکتاب الایمان باب"خوف المومن من ان یحیط عمله و هو لا یشعر و صحیح مسلمکتاب الایمان باب" قول النبی(ص)" سباب المسلم فسوق و قتاله کفر"

۳۹

کی ہیں ہم عنقریب انہیں بھی پیش کریں گے.

2.اگر زکوة ( بیت المال کا ) حق ہوتی تو حدیث حاکم شرع کے لئے مانعین زکوة کا خون بہائے بغیر ان سے زبردستی زکوة وصول نے کو مباح قرار دیتی.

3.اگر یہ تاویل صحیح ہوتی تو رسول(ص) بھی ثعلبہ کو قتل کرتے کیونکہ اس نے بھی زکوة دینے سے انکار کر دیا تھا( یہ واقعہ مشہور ہے نقل کرنے کی ضرورت نہیں ہے)(1)

4.اختصار کو پیش نظر رکھتے ہوئے کلمہ پڑھنے والے کے احترام کے سلسلہ میں بخاری و مسلم کی حدیث نقل کرتا ہوں.

"ا،، بخاری نے مقدار ابن اسود سے نقل کیا ہے انہوں نے رسول(ص) سے عرض کی: یا رسول اللہ(ص) آپ کا اس سلسلہ میں کیا نظریہ ہے کہ میری کفار کے ایک شخص سے مڈبھیڑ ہوگئی اور پھر ہمارے درمیان جنگ ہونے لگی اس نے تلوار سے میرا ایک ہاتھ کاٹ دیا اس کے بعد وہ ایک درخت کے نیچے کھڑا ہو کر مجھ سے پناہ مانگنے لگا اور کہنے لگا: میں اسلام لے آیا ہوں، یا رسول اللہ(ص) آیا یہ کہنے کے بعد بھی میں اسے قتل کردوں؟ رسول(ص) نے فرمایا: نہیں، مقداد نے کہا یا رسول اللہ(ص) اس نے میرا ہاتھ قطع کر دیا اور اس کے بعد وہ کہنے لگا کہ مسلمان ہوگیا، پس رسول(ص) نے فرمایا: اسے قتل نہ کرو اور اگر تم نے اسے قتل کیا تو اس شخص کا مقام وہ قرار پائے گا جو قتل کرنے سے قبل تمہارا تھا. اور تمہاری منزل وہ ہوگی جو کلمہ نہ پڑھنے سے قبل اس کافر کی تھی.(2)

____________________

1.ثم اہتدیت ص183 طبع الفجر لندن

2.صحیح مسلمکتاب الایمان باب تحریم قتل الکافر بعد ان قال " لا اله الا الله..." صحیح بخاریکتاب المغازی باب حدیثی خلیفة عن المقداد ابن اسود

۴۰