نبی امی (کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پڑھنا اور لکھنا جانتے تھے؟)

نبی امی (کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پڑھنا اور لکھنا جانتے تھے؟)0%

نبی امی (کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پڑھنا اور لکھنا جانتے تھے؟) مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 61

نبی امی (کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پڑھنا اور لکھنا جانتے تھے؟)

مؤلف: مرتضی مطہری
زمرہ جات:

صفحے: 61
مشاہدے: 18200
ڈاؤنلوڈ: 2767

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 61 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 18200 / ڈاؤنلوڈ: 2767
سائز سائز سائز
نبی امی (کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پڑھنا اور لکھنا جانتے تھے؟)

نبی امی (کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پڑھنا اور لکھنا جانتے تھے؟)

مؤلف:
اردو

اصحاب نے فرمایا:

”یا رسول اللہ! آپ کے جانشین کون ہیں؟“

آپ نے فرمایا:

”میرے جانشین وہ ہیں جو میرے بعد میری احادیث و سنت پر عمل کریں گے اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیں گے۔“

(بحار‘ چاپ جدید‘ ج ۲‘ ص ۱۴۴)

نیز آنحضور نے فرمایا:

من حق الولد علی الوالد ان یحسن اسمه و ان یعلمه الکتابة و ان یزوجه اذا بلغ (وسائل الشیعہ‘ ج ۳‘ ص ۱۳۴)

”باپ پر بیٹے کا یہ بھی حق ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے‘ اس کو پڑھنا‘ لکھنا سکھائے اور جب وہ بالغ ہو جائے تو اس کی شادی کر دے۔“

قرآن پاک میں واشگاف انداز میں ارشاد ہوتا ہے:

( یا ایها الذین آمنوا اذا توا ینقم بدین الی اجل مسمی فاکتبوه و لیکتب بینکم کاتب بالعدل ) (بقرہ‘ ۲۸۲)

”اے اہل ایمان جب ایک میعاد مقرر تک کے لئے آپس میں قرض کا لین دین کرو تو اسے لکھ لیا کرو اور لکھنے والے کو چاہئے کہ تمہارے درمیان ہونے والے قول و رار کو انصاف سے ٹھیک ٹھیک لکھے۔“

لہٰذا خدا اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق مسلمانوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ اپنے دینی ورثے کی حفاظت کے لئے‘ نیز اپنی اولاد کے حقوق کی ادائیگی کے لئے اور دنیاوی امور کے انتظام و انصرام کے لئے لکھنے اور پڑھنے کی مقدس صنعت کے لئے کمر ہمت باندھیں۔ اس بناء پر ”تحریک قلم“ وجود میں آئی‘ یہ اسی تحریک کا نام ہے جس میں ہاتھ کی انگلیوں پر شمار کئے جانے والے افراد شاسمل تھے‘ ان افراد نے علم و دانش اور پڑھنے‘ لکھنے کے فن کے حصول کے لئے انتھک کوشش کی اور جنہوں نے مدینے کی کئی زبانیں سیکھیں‘ جس کے نتیجے میں وہ ان تعلیمات کے ذریعے اسلام کے پیغام کو متعدد زبانوں میں ھھھ پوری دنیا میں پھیلا دیا۔

۴۱

ہم تواریخ میں پڑھتے چلے آئے ہیں کہ آنحضور نے اسیران بدر کو فدیہ لے کر آزاد کر دیا۔ ان میں سے بعض اسیر مفلس و نادار تھے‘ ان سے فدیہ لئے بغیر آزاد کر دیا گیا‘ جبکہ جو اسیر لکھنے کے فن سے واقف تھے‘ ان کے ساتھ ایک معاہدہ طے پایا کہ ہر ایک مدینے کے دس بچوں کو لکھنے کی تعلیم دے کر آزادی حاصل کرے۔

(تاریخ الخمیس دیار بکری‘ ج ۱‘ ص ۳۹۰‘ السیرہ الحلیبہ‘ ج ۲‘ ص ۲۰۴)

لکھنے کی صنعت کی ترویج کے سلسلے میں آنحضور کو اس حد تک اصرار تھا تاکہ مسلمان تعلیم و تعلم کی جانب راغب ہو سکیں‘ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود یہ استدلال پیش نہیں کیا جا سکتا کہ آپ کے لئے لوگوں کو تعلیم و تعلم کے زیور سے آراستہ کرنے اور پھر ترویج و تبلیغ دین اسلام کے بارے میں پڑھنے‘ لکھنے کا جاننا ضروری تھا۔

موصوف کا کہنا ہے کہ

”خدا نے سورئہ قلم کے آغاز میں قلم اور لکھنے کے بارے میں بتایا ہے۔ کیا یہ واضح صریح آیات اس امر کی دلیل نہیں کہ آنحضور پڑھنا‘ لکھنا جانتے تھے اور کتاب و قلم سے واسطہ تھا؟ یہ کیونکر ممکن ہے کہ آپ لوگوں کو حصول علم اور پڑھنا‘ لکھنا سیکھنے کی ترغیب دیں اور آپ ذاتی طور پڑھنے لکھنے کے لئے اہمیت کے قائل نہ ہوں؟ جبکہ یہ بات مسلم الثبوت ہے کہ آپ تمام احکامات میں دوسروں سے پیش پیش ہوتے تھے۔“(مجلہ روشن فکر)

یہ استدلال بھی حیرت انگیز ہے‘ لیکن یہ آیات اس امر کی دلیل ہیں کہ خدا نے یہ آیات ایک انسان پر نازل فرمائیں تاکہ وہ خدا کے بندوں کو صحیح راستہ دکھلائے‘ نیز یہ کہ آنحضور بھی جن کے قلب مقدس پر یہ آیات نازل ہوئیں‘ بنی نوع بشر کے لئے پڑھنے‘ لکھنے کی اہمیت کو جانتے تھے‘ لیکن یہ آیات کسی بھی پہلو سے اس امر کی دلیل نہیں ہیں کہ خدا اور اس کے رسول کو پڑھنے‘ لکھنے اور قلم و کاغذ سے کوئی سروکار ہے۔

۴۲

موصوف کا کہنا ہے کہ

”آنحضور تمام احکامات کے سلسلے میں پیش پیش ہوتے تھے‘ لہٰذا کیونکر یہ ممکن ہے کہ پڑھنے‘ لکھنے کی ضرورت کا حکم دیا ہو اور بذات خود اس پر عمل نہ کیا ہو؟ یہ بات ایسی ہی ہے کہ ایک ڈاکٹر جو کسی بیمار کے لئے کوئی نسخہ تجویز کرتا ہے‘ تو اسے چاہئے کہ اس نسخے کو پہلے خود استعمال میں لائے۔ فطری طور پر اگر ڈاکٹر بیمار ہوتا ہے تو اسے بھی دوسرے بیماروں کی طرح دوا استعمال کرنی پڑے گی‘ یعنی دوسروں کے علاج سے قبل پہلے وہ اپنا علاج کرے گا‘ لیکن اگر بیمار نہ ہوا ہو اور اسے دوا کی ضرورت ہوئی ہو تو پھر کیا ہو گا؟“

ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا دوسروں کی طرح آنحضور کو بھی پڑھنے‘ لکھنے کی صنعت ضرورت ہوتی ہے کہ عام لوگوں کے لئے کمال و بلندی کی علامت بنتا ہے اور اس صنعت کا ان میں نہ ہونا نقص سمجھ جاتا ہے یا یہ کہ آنحضور ایک خصوصی کیفیت کے حامل تھے کہ ان کے لئے یہ صنعت جاننا ضروری نہیں تھا۔ آپ عبادت‘ جانثاری‘ تقویٰ‘ سچائی‘ صداقت‘ حسن خلق‘ جمہوریت پسندی‘ انکساری و عاجزی اور دیگر تمام آداب و صفات حسنہ میں سب کے لئے اسوہ تھے‘ کیونکہ آپ کے لئے ان تمام تر صفات کا ہونا باعث کمال اور ان فقدان کا ایک نقص سمجھا جاتا‘ جبکہ عرف عام میں پڑھا‘ لکھا ہونا وہ آپ کے لئے ضروری نہیں تھا۔

دراصل بنی نوع انسان کے لئے تعلیم یافتہ ہونا اس لئے ضروری ہے کیونکہ یہ وہ ذریعہ ہے کہ جس کی مدد انسان ایک دوسرے کی معلومات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں‘ چنانچہ حروف ان کی شکل وہیات اور صنعت خط وہ علامات ہیں کہ انسانوں نے ایک دوسرے کے افکار و مقاصد کو سمجھنے کے لئے وضع کی ہیں۔ صنعت خط کے سیکھنے سے ایک فرد دوسرے فرد کو اور ایک قوم کسی دوسری قوم کو اپنی معلومات منتقل کرتی ہے۔ اسی طرح معلومات کا سلسلہ نسل در نسل منتقل ہوتا چلا جاتا ہے‘ لہٰذا بنی نوع انسان اس ذریعے سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی معلومات کو نابودی و بربادی اور فراموشی سے بچاتے ہوئے محفوظ کرتا ہے۔ چنانچہ اس لحاظ سے تعلیم یافتہ ہونا کسی بھی زبان سے واقفیت رکھنے کے مترادف ہے‘ لہٰذا جو فرد زیادہ تعداد میں زبانیں جانتا ہو گا‘ وہ دوسروں سے معلومات حاصل کرنے کی زیادہ صلاحیت رکھتا ہو گا۔

۴۳

زبان دانی اور پڑھا‘ لکھا ہونا بذات خود حقیقی ”علم“ نہیں ہے‘ تاہم حقیقی علم کے کسب کے لئے ایک ذریعہ ہے اور کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔

علم یہ ہے کہ انسان کو ایک حقیقت اور ایک قانون یا ضابطے تک رسائی حاصل ہو جو وجود و ہستی کے لحاظ سے ایک اٹل سچائی ہو۔ طبیعیات‘ منطق‘ ریاضی علوم علم کے زمرے میں آتے ہیں‘ کیونکہ انسان ان علوم کے ذریعے مختلف مظاہر اور ذہنی کیفیات کے درمیان ایک حقیقی و تکوینی اور علّی و معلولی رابطے کو منکشف کرتا ہے‘ لیکن کسی زبان کا جاننا اور نحو و صرف دانی وغیرہ بذات خود علم نہیں کہلاتا‘ کیونکہ مختلف اشیاء کے درمیان رابطے اور رشتے کے بارے میں آگاہ نہیں کرتا‘ بلکہ صرف اور صرف وضع کئے گئے اصولوں اور فرضیوں کے ایک سلسلے کے بارے میں آگاہی دیتا ہے‘ لہٰذا اس قسم کے امور و مسائل کا جاننا یا ان کے بارے میں واقفیت کا حصول حقیقی ”علم“ تک رسائی کی ایک کنجی ہے اور بذات خود اسیر ”علم“ کے حقیقی مفہوم کا اطلاق نہیں ہوتا۔

اس طرح سے انہیں وضع شدہ امور اور قواعد و ضوابط بعض حقیقی واقعات رونما ہوتے ہیں‘ مثلاً زبانوں اور ان کی تراکیب کا ارتقاء کہ بجائے خود افکار کے ارتقاء کا ایک ضمنی ن تیجہ ہوتا ہے اور ایک فطری قانون کے موافق وقوع پذیر ہوتے ہیں‘ یقینا ان طبیعی اور فطری قوانین کے بارے میں آگاہی علم و فلسفہ کا حصہ ہے۔ اس طرح سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ تعلیم یافتہ ہونا اس لحاظ سے اہم ہے کہ انسان کو دوسروں کے علم و دانش کی کنجی مل جاتی ہے۔

اب ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا حصول علم اور اس استفادہ کرنے کا دوسروں کے علم‘ عقل و دانش کی کنجی ہاتھ میں ہونے پر انحصار ہے؟ کیا پیغمبر (ع)ؑکو عالم بشریت کے دوسرے افراد کے دانش اور علم سے استفادہ کرنا چاہئے؟ اگر یہ بات درست ہے تو فہم و فراست اور تخلیقی صلاحیتوں کا کیا بنے گا؟ الہام کسی زمرہ میں ہوگا‘ عالم طبیعت سے بلاواسطہ علم و دانش کا حصول کا کیا بنے گا؟

اتفاق کی بات ہے کہ علم کا بدترین درجہ دوسرے کی تحریروں اور تقریروں سے حاصل ہوتا ہے‘ جبکہ طالب علم کی ذاتی شخصیت اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا اور یہ بھی یاد رہے کہ انسانی تحریروں میں توہم پرستی اور حقائق خلط ملط ہوئے ہوتے ہیں۔

۴۴

مشہور فرانسیسی دانشور اور فلسفی ڈیکارٹ نے اپنے مضامین کے ایک مجموعہ کی اشاعت کے بعد ہر طرف شہرت حاصل کی اور اس کی تازہ تقاریر کو تمام لوگوں میں پذیرائی ملی اور مقبولیت حاصل ہوئی۔

ڈیکارٹ کے مضامین کا ایک پرستار جس فکری رسائی اور سوچ کا انداز ڈاکٹر عبداللطیف کی مانند تھا‘ یہ سمجھا کہ ڈیکارٹ کو کتابوں کا ایک خزانہ مل گیا ہے اور انہیں کتابوں سے استفادہ کرتے ہوئے تازہ افکار پر مبنی مضامین شائع کر رہا ہے۔ یہ شخص ڈیکارٹ سے ملاقات کے لئے گیا اور اس سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اسے اپنا کتبہ خانہ دکھائیں۔ ڈیکارٹ اس شخص کو ایک چار دیواری میں لے گیا‘ جہاں پر تشریح (پوسٹ مارٹم) شدہ بچھڑے کی لاش دکھائی اور اس شخص سے کہا‘ یہ ہے میرا کتب خانہ! میں نے ان کتابوں سے معلومات حاصل کی ہیں۔

مرحوم سید جمال الدین اسدآبادی کہا کرتے تھے:

”یہ ایک عجیب بات ہے کہ بعض لوگ اپنی ساری عمر چراغ کی روشنی میں اپنے جیسے انسانوں کی لکھی ہوئی کتابوں اور تحریروں کے مطالعے میں صرف کر دیتے ہیں‘ لیکن ایک رات بھی اس چراغ کے بارے میں غور و فکر نہیں کرتے‘ اگر کسی رات میں کتاب کو ایک طرف رکھ دیں اور چراغ کے بارے میں غور و فکر کریں‘ زیادہ اور وسیع معلومات ان کو حاصل ہوں۔“

کوئی بھی پیدائشی طور پر عالم نہیں ہوتا‘ سارے لوگ ابتداء میں ان پڑھ و نادان ہوتے ہیں‘ بعد میں کم و بیش عالم بن جاتے ہیں۔

زیادہ واضح الفاظ میں یہ کہ ذات الٰہی کے سوا ہر شخص جاہل ہے اور مختلف توانائیوں و دیگر علل و اسباب کے ذریعے عالم بن جاتا ہے‘ لہٰذا ہر شخص کو معلم کی ضرورت ہے‘ یعنی اسے ایک طاقت و توانائی کی ضرورت ہو جو الہامی طور پر دونوں راہیں دکھلائے۔

آنحضور کے بارے میں ارشاد خداوندی ہے:

( الم یجدک یتیما فآوی ووجدل ضالا فهدی ووجدل عائداً فا غنی ) (ضحی‘ ۸)

”کیا اس (خدا) نے تمہیں یتیم پا کر پناہ نہ دی اور تم کو (اپنی قوم) میں غیر معروف پایا تو (تمہاری معرفت کی طرف سب کی) رہبری نہ کی اور تم کو تنگ دست دیکھ کر مستغنی نہ کیا؟“

۴۵

لیکن اس بات کے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ معلم کے بارے میں بتایا جائے کہ وہ کیا اور کون ہونا چاہئے؟ کیا انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ کسی دوسرے انسان ہی سے علم حاصل کرے؟ لہٰذا اس بات کی روشنی میں ایسے معلم کے پاس دوسرے انسانوں کے دانش کی کنجی جو پڑھے لکھے ہونے کا دوسرا نام ہے‘ ہونی چاہئے؟ کیا انسان وہ ستون اور بنیاد نہیں ہے کہ وہ تخلیق کار ہو؟ کیا انسان دوسرے انسانوں سے بے نیاز ہو کر کتاب طبیعی امور اور خلقت کا مطالعہ کرے؟ کیا انسان کا وہ مقام اور درجہ نہیں ہے کہ وہ عالم غیب اور ملکوت تک رسائی حاصل کرے اور خدا اس کا براہ راست معلم و رہنما ہے؟ قرآن مجید آنحضور کے بارے میں فرماتا ہے:

( وما ینطق عن الهوی ان هو الا وحی یوحی علمه شدید القوی ) (نجم‘ ۳-۵)

”اور وہ تو اپنی نفسانی خواہش سے کچھ بولتے ہی نہیں‘ یہ بس وحی ہے جو بھیجی جاتی ہے ان کو نہایت طاقتور نے تعلیم دی ہے۔“

اور حضرت علی(ع)آپ کی ذات مبارک کے بارے میں فرماتے ہیں:

ولقد قرن الله به منز کان فطیما اعظم ملک من ملائکته یسلک به طریق المکارم و محاسن اخلاق العالم

(نہج البلاغہ‘ خطبہ ۱۹۰)

۴۶

ان طرف کہ عشق می افزود درد

بو حنیفہ و شافعی درسی نکرد

عاشقان راشد مدرس حسن دوست

دفتر و درس و سبقشان روی اوست

خامش اند و نعرئہ تکرا و شان

می روود تا عرش و تخت یار شان

درسشان آشوب و چرخ و لولہ

نی زیارات است و باب و سلسلہ

سلسلہ این قوم جعد مشکبار

مسالہ دور است اما دور یار

ہرکہ در خلوت بہ بنیش یافت راہ

او زدا نشہا بخوید دستگاہ

(زیارات‘ باب اور سلسلہ اس زمانے کی تین کتابوں کے نام ہیں)۔

عارف از پرتو می راز معانی دانست

گوہر ہر کسی از ایں لعل توانی دانست

شرح مجموعہ گل مرغ سحر دانہ و بس

کہ نہ ہر کو ورقی خواند معانی دانست

ای کہ از دفتر عقل آیت عشق آموزی

ترسم این نکتہ بہ تحقیق نشانی دانست

(ثنوی دفر سوم)

۴۷

ابن خلدون اپنی مشہور کتاب مقدمہ کے”فی ان الخط و الکتابة من عدار الصنائع الاستاینة“ کے باب کے ضمن میں ایک طویل بحث کرتے ہوئے واضح کرتا ہے کہ

”تحریر ایک بے مثال چیز ہے اور انسانی سماج کی سرمایہ حیات ہے اور سماج کے افراد معلومات کے حصول کے سلسلے میں ایک دوسرے کے محتاج ہیں۔“

ازاں بعد وہ مختلف تہذیبوں میں فن تحریر کے ارتقائی عمل کے بارے میں گفتگو کرتا ہے‘ اس طرح وہ سرزمین حجاز کے ماحول میں فن تحریر کے وجود میں آنے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتا ہے:

”صدر اسلام میں تحریر فنی حوالے سے اپنے ابتدائی مراحل طے کر رہا تھا اور صحابہ کی تحریریں رسم الخط کے لہاظ سے عیوب و نقائص سے مبرا نہیں تھیں‘ لیکن تابعین تبع تابعین نے اس رسم الخط کو قرآن پاک کی کتابت میں تبرکاً پاسداری کی اور اسی میں کسی قسم کی تبدیلی نہ کی‘ جبکہ ان رسوم الخط میں سے بعض قاعدہ اور اصول کے مطابق نہ تھے‘ لہٰذا قرآن پاک کے بعض الفاظ آج بھی خاص قسم کے رسم الخط میں محفوظ ہیں۔“

وہ مزید کہتا ہے:

”کم فنی اور عملی کمالات جو رسم الخط کے سلسلے میں بھی پائے جاتے ہیں‘ زندگی کے اسباب و وسائل پر منحصر ہیں اور ان کا مطلق کمالات سے کسی حد تک تعلق ہے‘ ان کمالات کا فقدان دراصل انسان کی انسانیت میں نقص کا نتیجہ ہے جو بجائے خود ایک حقیقی نقص ہے اور اس سلسلے میں غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔“

ابن خلدون اس کے بعد آنحضور کے اُمی ہونے کے مسئلے کو پیش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ

”آنحضور اُمی تھے اور اُمی ہونا ان کے لئے کمال محسوب ہوتا ہے‘ کیونکہ آپ نے اپنے علم کو عالم بالا سے حاصل کیا تھا‘ جبکہ اُمی ہونا ہمارے لئے نقص محسوب ہوتا ہے‘ کیونکہ ہمارا اُمی ہونا جاہل اور بے خبر ہونے کے مترادف ہے۔“

۴۸

ایک اور آیت جس کا موصوف نے سہارا لیا ہے اور اس کو بطور سند پیش کرتا ہے‘ وہ ورئہ ”لم یکن“ کی وہ ھھھ بیان کرتا ہے کہ

”بڑی حیرت کی بات ہے کہ قرآن پاک کے مترجمین اور مفسرین نے اس آیت کی جانب‘ جس میں آنحضور کی تعریف کی گئی ہے‘ توجہ نہیں کی ہے کہ اس آیت میں ارشاد ہوا ہے:

( رسول من الله یتلوا صحفا مطهرة ) (بینہ‘ ۲)

آپ جو اللہ کے رسول ہیں اور مقدس و پاک صحیفوں کی قرات کرتے ہیں۔“

یہاں پر ہمیں اس بات پر متوجہ ہونا چاہئے کہ ان آیات میں یہ نہیں کہا گیا کہ آپ ان پاک مقدس صحیفوں کو اپنے پاس سے لائے ہیں ا ور خود ساختہ و پرداختہ ہیں‘ لکہ اس کی وضاحت ہو چکی ہے کہ آپ ان صحیفوں کی قرات کرتے ہیں اور دیکھ کر پڑھتے ہیں۔“

اس استدلال کا جواب اس طرح واضح ہوتا ہے‘ جب مذکورہ آیت کے دو الفاظ یعنی ”صحیفہ“ ”یتلوا“ کی وضاحت کی جاتی ہے‘ صحیفہ کا مطلب ”کاغذ“ ہے اور لفظ ”صحف“، لفظ ”صحیفہ“ کا جمع کا صیغہ ہے۔ اس آیت کا مفہوم بعد میں آنے والی آیات کی رو سے جہاں ارشاد ہوتا ہے:

( فیها کتب قیمة )

”آنحضور پاک و مقدس اوراق جن پر سچ اور پائیدار تحریریں ثبت ہیں‘ لوگوں کے سامنے پڑھتے ہیں۔“

ان اوراق کا مقصود یہ ہے کہ یہ وہی چیزیں ہیں جن پر قرآنی آیات کو تحریر کیا جاتا تھا‘ لہٰذا اس کا مطلب یہ ہوا کہ آنحضور قرآن پاک کی لوگوں کے سامنے تلاوت فرماتے تھے۔

۴۹

لفظ ”یتلو“ کا مصدر ”تلاوت“ ہے۔ ہم نے کہیں پر یہ نہیں دیکھا کہ تلاوت کا مطلب دیکھ کر پڑھنا ہو اور لفظ قرات اور ”تلاوت“ سے جو مجموعی طور سے مفہوم سامنے آیا ہے‘ یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ ہر کی جانے والی بات تلاوت نہیں ہوت۔ قرات اور تلاوت اس بیان کے بارے میں ہے جسے پڑھا جائے اور ایک ہی متن سے مربوط ہو‘ نیز یہ کہ جو متن دیکھ کر پڑھا جائے یا ازبر یاد ہو اور پڑھا جائے‘ مثال کے طور پر قرآن پاک کا پڑھنا‘ قرات اور تلاوت چاہے ناظرہ پڑھا جائے یا حفظ ہو اور پڑھا جائے‘ ان دونوں لفظوں میں تلاوت‘ قرات ایک فرق کو سامنے رکھتے ہوئے‘ تلاوت صرف اور صرف اس متن کے پڑھنے کے لئے مخصوص ہے جو مقدس ہو جبکہ لفظ قرات مقدس آیات اور غیر مقدس تحریروں کے لئے مستعمل ہے۔ مثال کے طور پر یہ بات درست ہے کہ یہ کہا جائے کہ میں ”گلستان سعدی کی قرات کی“ لیکن یہ کہنا غلط ہے کہ ”میں نے گلستان سعدی کی تلاوت کی“ بہرحال اگر وہ متن ازبر پڑھا جائے یا دیکھ کر (ناظرہ) تو اس کا نہ تو قرات کے مفہوم میں عمل دخل ہے اور نہ ہی تلاوت کے مفہوم میں‘ لہٰذا مذکورہ آیت صرف یہ بیان کر رہی ہے کہ آنحضور قرآنی آیات کو جو صفحات پر لکھی ہوئی ہیں‘ لوگوں کو پڑھ کر سناتے ہیں۔

بنیادی طور پر آنحضور کو اس بات کی کیونکر ضرورت ہو کہ آپ قرآنی آیات دیکھ کر پڑھیں؟ قرآن پاک کو سینکڑوں مسلمانوں نے حفظ کیا ہوا تھا‘ کیا آنحضور بذات خود حافظ نہ تھے اور کیا انہیں اس امر کی ضرورت تھی کہ دیکھ کر پڑھیں؟ خدا نے آپ کے لئے حفظ کی ضمانت دی ہوئی تھی:

( سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنسَىٰ ) (اعلی‘ ۷)

”ہم تمہیں (ایسا) پڑھا دیں گے کہ کبھی بھولو ہی نہیں۔“

مجموعی طور پر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قرآنی آیات سے کسی صورت میں یہ استدلال پیش نہیں کیا جا سکتا کہ آنحضور پڑھنا‘ لکھنا جانتے تھے‘ بلکہ اس بات کے برعکس استدلال کیا جا سکتا ہے اور بفرض محال اگر یہ کہا جائے کہ آنحضور پڑھنا‘ لکھنا جانتے تھے تو یہ بات تو عہد رسالت سے مربوط ہے‘ جبکہ موصوف کا دعویٰ تو یہ ہے کہ آپ عہد رسالت سے قبل پڑھنا‘ لکھنا جانتے تھے۔

۵۰

احادیث و تواریخ

ڈاکٹر عبداللطیف کا دعویٰ ہے کہ احادیث و تواریخ سے بھی آپ کے لکھنے‘ پڑھنے کے بارے استدلال پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں وہ دو واقعات کا حوالہ دیتا ہے:

پہلا واقعہ

وہ کہتا ہے:

”بخاری کتاب ”العلم“ میں ثبت شدہ روایات و احادیث کے ضمن میں نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ آنحضور نے اپنے داماد علی(ع)کو ایک خفیہ خط دیا اور خصوصیت کے ساتھ ان سے فرمایا کہ اس خط کو نہ کھولیں اور جس کے نام یہ خط عنوان کیا گیا ہے‘ اس کا نام اچھی طرح ذہن نشین فرما لیں۔ اب جبکہ آنحضور کے خفیہ خط کو ان کے داماد اور معتمد خاص علی(ع)کو بھی کھولنے کی اجازت نہ تھی تو اس خط کو لکھنے والے سوائے آنحضور کے اور کون ہو سکتا ہے؟“(ج ۱‘ ص ۲۰)

افسوس ہے یہ روایت جو صحیح بخاری میں ہے اس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ اس خط حامل علی(ع)تھے‘ جبکہ موصوف اس بات سے کہ آنحضور خط کے نفس مضمون سے علی(ع)کو بھی بے خبر رکھیں‘ یہ دلیل پیش کرنا چاہتا ہے کہ اس خط کو آنحضور نے بذات خود تحریر فرمایا تھا۔

صحیح بخاری کے باب ”العلم“ سے منقول ہے کہ آنحضور نے ایک گروہ کو روانہ فرمایا اور ان کے امیر کو ایک خط دیا اور فرمایا کہ فلاں علاقے میں پہنچنے سے قبل خط کو نہ کھولنا۔ یہاں پر کوئی یہ نہیں بتاتا کہ ان کا امیر علی(ع)تھا اور روایت کے نفس مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ خط کے حامل کو ہی خط کو کھولنا ہے‘ نہ کہ کسی تیسرے شخص نے۔ جیسا کہ ڈاکٹر عبداللطیف کی سوچ ہے!

بخاری نے جو واقعہ اس ضمن میں بیان کیا ہے‘ واقعہ ” ۱ بطن نخلہ“ کے بارے میں ہے اور یہو اقعہ سیر و تواریخ کی کتابوں میں رقم ہے۔

۵۱

سیرئہ ابن ہشام ج ۱‘ ص ۶۰۱ میں ”سرتة عبداللہ بن جحش“کے عنوان سے اور بحارلانوار میں بھی اسی کی مانند روایت نقل کی گئی کہ خط کا حامل عبداللہ بن جحش تھا۔ کہا جاتا ہے کہ آنحضور نے اس سے کہا کہ دو دن کی مسافت طے کرنے کے بعد خط کو کھولنا اور جو کچھ اس میں لکھا ہے اس کے مطابق عمل کرنا۔ عبداللہ بن جحش نے دو دن کی مسافت طے کرنے کے بعد خط کو کھولا اور آپ کے حکم کی تعمیل کی۔

مغازی و اقدی واضح طور سے اور واشگاف الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ خط لکھنے والے آنحضور نہ تھے‘ بلکہ ابی بن ابی کعب تھا‘ وہ کہتا ہے کہ

”عبداللہ بن جحش سے منقول ہے کہ ایک رات نماز عشاء کے بعد آنحضور نے مجھ سے فرمایا‘ صبح سویرے تیار اور ہتھیاروں سے سمیت میرے پاس آنا‘ تمہیں ایک مہم پہ روانہ کرنا ہے۔ فجر کی نماز کے بعد جو آنحضور کی امامت میں مسجد میں ادا کی گئی‘ میں آنحضور سے قبل ہتھیاروں سے لیس مکمل طور پر آپ کے دولت خانے پر آمادہ تھا‘ کچھ اور لوگ بھی میری طرح آماد تھے۔ آنحضور نے ابی بن ابی کعب کو بلوایا اور اسے حکم دیا کہ ایک خط تحریر کرے۔ آنحضور نے وہ خفیہ طور مجھے دیا اور فرمایا‘ میں نے تمہیں اس لشکر کا امیر بنایا اور دو ر اتوں کی مسافت جو فلاں راستے سے گزرتے ہوئے طے ہونے کے بعد میرے اس خط کو کھولنا اور جو کچھ اس میں تحریر ہے اس پر عمل کرنا۔ میں نے دو روز کی مسافت طے کرنے کے بعد خط کو کھولا تو اس میں آپ کا یہ حکم تھا کہ قریش کے کارواں سے جدا ہو کر ضروری اطلاعات کے حصول کے لئے ”بطن مکہ“ (مکہ اور طائف کے درمیان واقع ایک مقام) کی جانب روانہ ہو جاؤ اور اس میں یہ بھی ہدایت تھی کہ اپنے ساتھیوں میں سے کسی کو بھی اپنے ہمراہ جانے پر مجبور نہ کرنا‘ بلکہ جو چاہے تمہارے ہمراہ جائے اور جو نہ چاہے واپس لوٹ جائے۔ یہ ایک خطرناک مہم تھی‘ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا جو بھی جام شہادت نوش کرنے کے لئے تیار ہے‘ میرے ہمراہ چلے اور جو آمادہ نہیں اسے لوٹ جانے کا اختیار ہے۔ سب نے ایک آواز میں کہا:

نحن سامعون و مطیعون للہ و رسولہ ولک

”ہم خدا اور اس کے رسول اور تمہارے حکم کے لئے ہمہ تن گوش ہیں۔“

لہٰذا جس بات کو ڈاکٹر سید عبداللطیف سند بنا رہے ہیں‘ مکمل طور سے بے بنیاد ہے۔

۵۲

دوسرا واقعہ

جسے موصوف بطور سند پیش کرتے ہیں‘ حدیبیہ کا واقعہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جیسا کہ بخاری اور ابن ہشام نے نقل کیا ہے:

”آنحضور نے معاہدہ لے کر اسے اپنے دست مبارک سے تحریر فرمایا۔“

”اس سلسلے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اولاً بخاری نے ایک روایت میں مذکورہ بات نقل کی ہے اور ایک دوسری روایت میں اس بات کی مخالفت کی ہے۔ علمائے اہل سنت کا قریب قریب اس بات پر اجماع ہے کہ اگرچہ عبارت کا ظاہری مفہوم اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ آنحضور نے بذات خود معاہدے کو تحریر فرمایا ہے‘ لیکن روایت کرنے والے کا مقصود یہ نہ تھا۔“(سیرئہ حلبی‘ مغازی و اقدی‘ ج ۱‘ ص ۱۳‘ ۱۴)

مذکورہ واقعہ کو انہیں الفاظ میں بیان کرتے ہوئے مزید وضاحت کرتا ہے کہ

”آنحضور نے لفظ رسول اللہ (ع)ؑکو مٹانے کے لئے حضرت علی(ع)کی مدد حاصل کی۔“

اور بخاری کی روایت کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے کہ

”بعض نے دعویٰ کیا ہے کہ آنحضور کا یہ ایک معجزہ تھا جو ظہور پذیر ہوا۔“

لیکن آگے چل کر کہتا ہے کہ

”یہ روایت اس شکل میں اہل علم کے نزدیک معتبر نہیں ہے‘ یعنی آنحضور نے تحریر کرنے کا حکم دیا نہ کہ خود تحریر فرمایا۔“

وہ کہتا ہے:

”ابوالولید یا جی مالکی اندلسی جو بخاری کی عبارت کے ظاہری مفہوم سے استفادہ کرنا چاہتا تھا‘ اسے علمائے اندلس کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔“(السیرہ الحلبیہ‘ ج ۳‘ ص ۲۴)

۵۳

جبکہ سیرئہ ابن ہشام میں اس قسم کی کوئی بات موجود نہیں ہے اور معلوم نہیں کہ ڈاکٹر سید عبداللطیف ایسی بات کیوں ابن ہشام سے منسوب کرتا ہے؟

ہم پہلے ہی عرض کر چکے ہیں کہ تاریخی نکتہ نگاہ کے مطابق‘ بیشتر منقول روایتوں سے یہ اخذ کیا جاتا ہے کہ جو کچھ بھی تحریر کیا گیا وہ کام حضرت علی(ع)کے ذریعے انجام پایا اور صرف ابن اثیر اور طبری کی روایت سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ باوجود اس کے آنحضور لکھنا نہ جانتے تھے‘ قلم دست مبارک میں لیا اور تحریر فرمایا۔

اگر یہ بات تسلیم بھی کر لی جائے تو آنحضور نے عہد رسالت میں صرف ایک یا چند بار لکھا ہے‘ جبکہ بحث کا موضوع عہد رسالت سے قبل آپ کے لکھنے‘ پڑھنے سے متعلق ہے۔

مخالفین کا الزام

اس مقالہ کے آغاز میں ہم کہہ چکے ہیں کہ تاریخ کے اس حصے میں آنحضور اور اسلام مخالفین نے آپ پر یہ الزام عائد کیا کہ آپ دوسروں سے سنی ہوئی باتیں نقل فرماتے ہیں (اس الزام کی قرآن پاک کی بعض آیات آئینہ دار ہیں)‘ لیکن آپ پر اس پہلو سے الزام عائد نہ کیا کیونکہ آنحضور پڑھے‘ لکھے ہیں‘ تو شاید آپ کے پاس کتابیں موجود ہیں اور جو باتیں بیان فرماتے ہیں‘ دراصل انہیں کتابوں سے مآخوذ مواد پر مبنی ہیں۔

۵۴

یہ عین ممکن ہے کہ آنحضور پر اس لحاظ سے بھی الزام لگایا گیا ہو‘ جس کا قرآن میں بھی ذکر ہے اور سورئہ فرقان کی آیت ۵ اس کی آئینہ دار ہے:

وقالوا اساطیر الاولین اکتتبھا فہی تملی علیہ بکرة و عشیا

”انہوں نے کہا کہ جو آپ بیان فرماتے ہیں‘ اگلے لوگوں کے افسانے ہیں جسے اس نے (آپ نے) کسی سے لکھوا لئے ہیں‘ پس وہی صبح و شام اس کے سامنے القاء و املاء ہوتے ہیں۔“

اس استدلال کا یہ جواب ہے کہ اس بات سے قطع نظر کہ آنحضور کے دشمنوں اور مخالفین کے الزام اس حد تک تعصب آمیز اور احساس کمتری کے آئینہ در ہیں کہ قرآنی تعبیر کے مطابق اس قسم کے الزام کو صرف اور صرف ظلم و زبرستی کا ہی مصداق قرار دیا جا سکتا ہے۔

یہ آیت اس امر کی وضاحت نہیں کرتی کہ ان کا یہ دعویٰ تھا کہ حضور پاک خود تحریر فرماتے تھ۔ لفظ ”اکتتاب“ کا مفہوم لکھنا بھی ہے اور ”استکتاب“ بھی ‘ دوسرے لفظوں میں یہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص سے لکھوائے۔

آیت کا آخری حصہ دوسرے مفہوم کا مصداق ہے‘ کیونکہ آیت کا نفس مضمون یہ ہے کہ

”انہوں نے کہا کہ اگلے لوگوں کے افسانے ڈھکوسلے ہیں کہ جنہیں کسی سے لکھوا لئے ہیں‘ پس صبح و شام وہی اس کے سامنے القاء ہوتے ہیں۔“

اس ضمن میں لفظ ”اکتتاب“ کو ماضی کے صیغے میں اور ”املاء“ کو جاری اور صیغہ استمراری میں ذکر کیا گیا ہے‘ یعنی وہ چیزیں جو پہلے اس نے لکھوائی ہیں اور دوسرے لوگ جو پڑھنا جانتے ہیں‘ صبح و شام آتے ہیں اور اس کو سناتے ہیں اور وہ انہیں ازبر یاد کر لیتا ہے۔ اگر آنحضور بذات خود پڑھنا جانتے تو اس کی ضرورت ہی نہ تھی کہ وہ یہ کہیں دوسرے صبح و شام اس کے پاس آتے ہیں اور اسے لکھواتے ہیں‘ لکہ اتنا ہی کہنا کافی تھ اکہ آپ خود ان کے پاس جاتے ہیں اور ازبر یاد کر لیتے ہیں۔

۵۵

ان باتوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دھونس جمانے والے اور الزام لگانے والوں کافر بھی جو آپ پر ہر قسم کا الزام عائد کرتے‘ یعنی کبھی آپ کو دیوانہ قرار دیتے‘ کبھی جادوگر کہتے اور کبھی آپ کو جھوٹا کہتے اور اس بات کا بھی آپ پر الزام لگاتے کہ آپ دوسروں سے سنی ہوئی باتیں نقل فرماتے ہیں۔ لیکن یہ دعویٰ نہ کر سکے کہ کیونکہ پڑھنا‘ لکھنا جانتے ہیں‘ تو دوسری کتابوں کے مواد سے اپنے سے منسوب کرنے کے بعد ہمارے سامنے پڑھتے ہیں۔

بحث کا حاصل

مجموعی طور پر جو کچھ بیان کیا گیا ہے‘ اس سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ تاریخ کے قطعی فیصلے کے مطابق اور قرآن کی گواہی اور اسلامی تاریخ کے بے شمار دلائل کی روشنی میں آپ کا لوح ضمیر کسی بشر یا انسان سے تعلم سے مبرا و منزہ تھا۔ آپ وہ انسان ہیں جنہون نے کسی بھی مدرسے سے تعلیم حاصل نہ کی‘ بلکہ صرف اور صرف مکتب الٰہی سے ہی اپنے لوح دل کو علمس ے منور فرمایا۔ آپ وہ پھول ہیں جن کے پروان میں سوائے باغبان ازل کے کسی کے ہاتھ نے چھوا نہیں‘ آپ کو باوجود اس کے کہ قلم‘ کاغذ‘ دوات اور پڑھنے‘ لکھنے سے آشنائی نہ تھی‘ لیکن خدا نے اپنی مقدس کتاب میں قلم اور اس کی تحریروں کا ایک مقدس امر کی حی ثی ت سے قسم کھائی:

( ن و القلم وما یسطرون ) (قلم‘ ۱)

”قسم ہے ن و قلم کی اور اس چیز کی جسے لکھتے ہیں۔“

۵۶

اس طرح سے خدا نے اپنے پہلے آسمانی پیغام میں پڑھنے کا اور حصول علم و دانش اور قلم کے استعمال کا حکم دیا اور پیدائش کی عظیم ترین نعمت کے ذکر کے بعد سب سے بڑی نعمت کا جس سے عالم بشریت کو نوازا گیا ہے‘ ذکر فرمایا:

( اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ﴿١﴾ خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ ﴿٢﴾ اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ ﴿٣﴾ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ﴿٤﴾ عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ )

”اے رسول! اپنے پروردگار کا نام لے کر پڑھو جس نے ہر چیز کو پ یدا کیا‘ اسی نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا۔ پڑھو اور تمہارا پروردگار بڑا کریم ہے‘ جس نے قلم کے ذریعے تعلیم دی‘ اس نے انسان کو وہ باتیں بتائیں جن کو وہ کچھ جانتا ہی نہیں تھا۔“

وہ جس نے کبھی قلم کو ہاتھ نہ لگایا تھا‘ مدینے میں داخل ہوتے ہی معمولی وسائل کے ساتھ تحریک قلم کی داغ بیل ڈادلی اور اس سے قطع نظر کہ آپ نے کسی دنیاوی معلم کے آگے زانوں تلمذ اور کسی دارالعلوم یا یونیورسٹی کے مراحل طے نہ کئے ہوئے تھے‘ بذات خود معلم بشر اور یونیورسٹیوں کے وجود میں آنے کے سبب بن گئے۔

ستارئہ ای بدرخشید و ماہ مجلس شد دل رمیدئہ مارا انیس و مونس سدا

نگار من کہ بہ مکتب نرفت و خط ننوشت بہ غمزہ مسالہ آموز حد مدرس شد

کرشمہ تو شرابی بہ عاشقاف پچود کہ علم بی خیر افتاد و عقل بی حس شد

”ایک ستارہ چمکا اور محفل کے لئے بدر منبر بن گیا اور ہمارے غمگین دل کا مونس و غمخوار ہو گیا۔ میرے آقا و سردار جو مدرسہ نہ گئے اور لکھنا نہ سیکھا‘ صرف ایک غمزہ کے نتیجے میں سو معلم کے لئے مشکل باتوں کی موشگافی کرنے لگا۔“

۵۷

حضرت امام رض (ع)نے مختلف مذاہب و ادیان کے بزرگ علماء سے ایک مناظراتی بحث میں جو کہ ”راس الجالوت“ میں نقل کی گئی ہے‘ فرماتے ہیں:

”آنحضور کی سچائی کے دلائل میں سے ایک یہ بھی دلیل ہے کہ آپ یتیم‘ نادار‘ چرواہے‘ محنت کش اور آپ نے کوئی کتاب نہ پڑھی تھی اور کسی استاد و معلم کے سامنے زانوے تلمذ طے نہ کئے تھے اور اپنے ہمراہ ایک ایسی کتاب لائے جس میں پیغمبروں‘ گزشتہ اور آنے والوں کے واقعات بیان کئے گئے ہیں۔“(عیون اخبار الرضا‘ چاپ سنگی‘ ص ۹۴)

جو بات قرآن پاک کی عظمت اور بلندی میں بے پناہ اضافہ کرتی ہے اور اس نورانی کتاب کے آسمانی ہونے کے بارے میں ایک محکم دلیل ہے‘ وہ یہ ہے کہ یہ عظیم آسمانی کتاب جس میں یہ آغاز تخلیق‘ قیامت‘ انسان‘ اخلاق‘ قانون‘ سچی کہانیاں‘ عبرت کے معارف و مواعظ کے ساتھ ساتھ تمام تر فصاحت و بلاغت کی حامل ہے‘ اس کے باوجود ایسے شخص کی زبان پر جاری ہوئی کہ جو بذات خود اُمی تھا۔ آپ نے نہ صرف اپنی تمام عمر میں کسی مدرسہ یا یونیورسٹی سے تعلیم حاصل نہ کی اور دنیا کے کسی دانشور سے علم و دانش کسب نہ کیا‘ بلکہ آپ نے حتیٰ کہ اپنے زمانے کی ایک معمولی کتاب کو بھی نہ پڑھا تھا۔ یہ آسمانی معجزہ جس کو خدا نے اپنے رسول کو دیا‘ وہ کتاب کی شکل میں ہے‘ اس میں بیان ہیں‘ اس فکر ہے اور احساس ہے‘ اسے عقل و فکر یا دل و ضمیر سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ یہ وہ کتاب ہے کہ صدیوں سے اپنی معجزانہ روحانی طاقت کو ثابت کرتی چلی آ رہی ہے اور زمانے کے نشیب و فراز اسے کبھی پرانا اور متروک نہیں کر سکتے۔ کروڑوں افراد کے دلوں کو اپنی جانب کھینچتی چلی آ رہی ہے‘ اس میں قوت حیات موج زن ہے‘ اس کتاب نے کتنے فرزانہ عقول کو تدبر و تفکر کرنے پر مجبور کیا اور کتنے دلوں کو روحانی ایمان‘ ذوق و اشتیاق سے لبریز کیا اور کتنے سحر خیزوں اور تہجد گزاروں کی روح کی غذا بنا اور کتنے آنسوؤں کو عشق الٰہی اور خوف الٰہی سے آدھی راتوں میں گالوں کو تر کیا اور زنجیروں میں جکڑی ہوئی کتنی اقوام کو ظلم و آمریت کے نرغے سے آزاد کرا ئی

۵۸

نقش قرآن چونکہ بر عالم نشست نقش ھای پاپ و کاھن را شکست

فانہ گویم آنچہ در دل مضمر است این کتابی نیست چیز دیگر است

چونکہ در جان رفت جان دیگر شود جان چو دیگر شد جہان دیگر شود

ھمچو حق پیدا و پنھان است این زندہ و پایندہ و گو پاست این

”جب قرآن پاک کا نقش دنیا پر ثبت ہوا‘ پادریوں اور کاہنوں کے منصوبوں کو ناکام کر دیا‘ جو کچھ دل میں ہے میں اسے آشکارا کہتا ہوں‘ یہ کتاب نہیں ہے بلکہ کوئی اور چیز ہے۔ جب یہ جسم و جان میں سرایت کرتی ہے تو جسم جان کی کچھ اور شان ہو جاتی ہے اور جب جام و جسم کی شان ب دلتی ہے تو کوئی اور جہان بن جاتی ہے۔ یہ کتاب اللہ تبارک و تعالیٰ کی مانند ظاہر بھی ہے اور باطن بھی۔ یہ زندہ ہے اور ہمیشہ باقی رہنے والی ہے اور ہمکلام ہوتی ہے۔“

یقینا حالت کائنات کی یہ ازل سے عنایت ہے کہ اس کتاب کی روشن دلیل اور وحی الٰہی کا کلام ثابت کرنے کے لئے اسے اپنے اس بندہ پر نازل فرمایا‘ جو یتیم‘ فقیر‘ چرواہا‘ بادیہ نشین اور پڑھنا‘ لکھنا نہ جاننے والا اور کسی مکتب میں تعلیم حاصل نہ کرنے والا تھا:

ذلک فضل الله یوتیه من یشاء و الله ذوالفضل العظیم

۵۹

فہرست

تمہید ناخواندہ رسول ۳

دوسروں کے اعتراضات ۴

ویل ڈیورنٹ ۴

جان ڈیون پورٹ ۵

کانسٹن ورجل گیورگیو ۵

گوسٹاؤلوبون ۶

حجاز میں رسم الخط کا رائج ہونا ۸

عہد رسالت خصوصاً مدینے کا دور ۱۲

آنحضور کے کاتبین ۱۴

تاریخ میں آنحضور کے کاتبین کے نام ۱۵

کاتبین کی فرداً فرداً خصوصی ذمہ داریاں ۱۵

حدیبیہ کا واقعہ ۱۹

صلح نامہ کی تحریری شکل ۲۰

حیرت انگیز بات ۲۵

اُمی کا لغوی مفہوم ۲۷

لفظ اُمی اسلامی مفسرین کی نگاہ میں ۳۱

(الف) ناخواندہ ہونا اور لکھائی‘ پڑھائی کے بارے میں لاعلم ہونا‘ ۳۱

(ب) اُم القریٰ کے لوگ ۳۲

(ج) عرب کے وہ مشرکین جو آسمانی کتاب کے پیروکار نہ تھے ۳۴

موصوف کی تقریر کا تنقیدی جائزہ ۳۶

۶۰