حدیث منزلت پر ایک نظر

حدیث منزلت پر ایک نظر0%

حدیث منزلت پر ایک نظر مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 126

حدیث منزلت پر ایک نظر

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ سید علی حسینی میلانی
زمرہ جات: صفحے: 126
مشاہدے: 47349
ڈاؤنلوڈ: 3009

تبصرے:

حدیث منزلت پر ایک نظر
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 126 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 47349 / ڈاؤنلوڈ: 3009
سائز سائز سائز
حدیث منزلت پر ایک نظر

حدیث منزلت پر ایک نظر

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

اسی لئے شیعہ اپنے حق کو ثابت کرنے یا دوسروں کے نظریات کو باطل کرنے کے لئے ہمیشہ معتبر احادیث سے استدلال کرتے ہیں۔ جب اہل سنت جواب دینے سے عاجز آ جاتے ہیں اور انہیں بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں ملتا تو اپنے مفاد کے خلاف احادیث کو یہ کہہ کر رد کرتے ہیں کہ ’’یہ حدیث شیخین (بخاری و مسلم) نے اپنی کتب میں نقل نہیں کی ہے۔‘‘

بطور نمونہ یہ حدیث ملاحظہ فرمائیں :

پیغمبر اکرم(ص)نے فرمایا :

"ستفترق امّتی علیٰ ثلاث و سبعین فرقة" ۔

میرے بعد میری امت تہتر ( ۷۳) گروہوں میں تقسیم ہو جائے گی ۔

یہ حدیث اسی تعبیر کے ساتھ صحیح بخاری اور مسلم میں نہیں آئی ہے؛ لیکن سنن چہار گانہ (سنن ترمذی، سنن ابن ماجہ، سنن نسائی اور سنن ابی داود) میں موجود ہے۔ ابن تیمیہ اس حدیث کے ردّ میں کہتا ہے :’’یہ حدیث صحیحین میں نقل نہیں ہوئی ہے۔‘‘(۱؎)

____________________

۱۔ منہاج السنۃ: ۳/۴۵۶

۲۱

سنن و مسانید لکھنے والوں،جیسے امام احمد بن حنبل اور دیگر علماء کے اس حدیث کو اپنی کتب میں نقل کرنے کے باوجود ابن تیمیہ اس بہانے کے ساتھ اس حدیث کو قبول نہیں کرتا کہ یہ صحیح بخاری اور مسلم میں نہیں آئی ہے۔

وہ چیز ، جو سب سے پہلے ہر منصف انسان کو اپنی جانب متوجہ کراتی ہے ، یہ ہے کہ صحیحین میں آئی ہوئی احادیث کے قطعی الصدور ہونے پر اہل سنت کا اصرار ہے اور بخاری و مسلم کا نقل کرنا روایت کے قبول کرنے اور ان کا نقل نہ کرنا روایت کے رد کئے جانے کی دلیل سمجھتے ہیں ؛ اس کے باوجود جب وہ لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ ان دو کتابوں میں ایسی کوئی حدیث موجود ہے جس سے شیعہ لوگ مقام استدلال میں فائدہ اٹھائیں گے تو انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ اس حدیث کو ردّ کرتے اور اسے غلط گردانتے ہیں ۔

اسی لئے صحیح بخاری و مسلم میں نقل شدہ اس روایت کو کہ:’’حضرت زہرا(ع) ، ابوبکر سے ناراض ہو گئیں اور جب تک زندہ رہیں اس سے بات نہیں کی۔‘‘تحفةالاثنا عشریه کا مصنف باطل سمجھتا اور ردّ کرتا ہے۔(۱؎)

____________________

۱۔ تحفۃ الاثنا عشریہ: ۲۷۸

۲۲

اسی طرح صحیح بخاری کی شرح ’’ارشاد الساری‘‘میں قسطلانی اور ’’الصواعق المحرقہ‘‘ میں ابن حجر مکی ، بیہقی سے نقل کرتے ہیں کہ وہ زہری کی اس حدیث کو ضعیف شمار کرتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ حضرت علی(ع) نے چھ ماہ تک ابو بکر کی بیعت نہیں کی۔ یعنی بیہقی اس حدیث کی تضعیف کرتا ہے اور قسطلانی و ابن حجر اس تضعیف کو نقل کرتے ہیں حالانکہ یہ حدیث دونوں صحیح کتابوں (مسلم و بخاری) میں موجود ہے ۔

اس سلسلے میں حافظ ابو الفرج ابن جوزی نے حدیث ثقلین کو کتاب

’’العلل المتناهیة فی الاحادیث الواهیة‘‘

میں درج کیا ہے جو ضعیف اور بے بنیاد احادیث کو اکٹھا کرنے کے لئے لکھی گئی تھی ۔ حالانکہ حدیث ثقلین صحیح مسلم میں بھی آئی ہے ۔ اسی لئے بعض علماء نے اس (ابو الفرج )پر نکتہ چینی کی ہے۔

واضح ہو گیا کہ احادیث کو قبول کرنے یا ٹھکرا دینے کا معیار اہل سنت کی مصلحتیں ہیں۔ جب یہ لوگ دیکھتے ہیں کہ کوئی حدیث ان کے اپنے اور ان کے فائدے میں ہے تو اس پر اعتماد کرتے اور صحیحین میں اس کی موجودگی کی وجہ سے اس کے صحیح ہونے پر استدلال کرتے ہیں ؛ لیکن اگر کوئی حدیث ان کے نقصان میں ہو اور ان کے عقیدتی مکتب اور مذہب کے ستون کو گرانے کا باعث ہو تو اس حدیث کو ضعیف شمار کرتے یا خلاف حق سمجھتے ہیں اگرچہ کسی ایک صحیح یا دونوں میں نقل ہوگئی ہو۔

۲۳

ظاہر ہے کہ احادیث کی تحقیق میں یہ طریقہ کار کوئی پسندیدہ روش نہیں ہے ، مفکرین اور صاحب فضیلت لوگ اس قسم کی کوئی روش کے حامل نہیں ہیں ۔ یہ لوگ اور ہر وہ شخص جو اپنے عقیدے کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرکے اس پر عمل پیرا ہو تا ہے اس طرح کا طریقہ کار نہیں اپناتا۔

جب ’’حدیث منزلت ‘‘کی باری آتی ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ اصول اور علم کلام کے بعض علماء کھلم کھلا اس کی سند میں بحث اور جھگڑا کرتے ہیں، یا اس کی تضعیف کرتے ہیں اور اسے صحیح نہیں سمجھتے۔ حالانکہ یہ حدیث دونوں صحیح کتابوں میں موجود ہے۔

ہم سوال کرتے ہیں:پس ان دونوں صحیح کتابوں کی تمام احادیث کے قطعی الصدور ہونے کی بات کہاں گئی؟ اور اس مطلب پر آپ کے اصرار کا کیا معنی ہے؟

البتہ ہم خود بھی صحیحین کی احادیث کے قطعی الصدور ہونے کے معتقد نہیں ہیں بلکہ اس بات کے قائل ہیں کہ قرآن کریم کے سوا کوئی اورکتاب نہیں جس کے اوّل سے آخر تک صحیح ہو۔

لیکن ہمارا مخاطب وہ لوگ ہیں جو ان دونوں کتابوں کو صحیح سمجھتے ہیں ، ان سے انہی کی تصریحات کی بنیاد پر بات کرتے ہیں۔

بنا بر ایں گزشتہ مطالب سے معلوم ہوا کہ اہل سنت کے ہاں کوئی پائیدار قاعدہ نہیں ہے جس کی ہمیشہ رعایت کی جائے اور اس کے لوازم کو قبول کیا جائے ۔ جو کچھ ہے وہ ان کے من کی چاہت ہے جس کو قاعدے کے عنوان سے مرتب کر کے اصل و اساس قرار دیا ہے ۔ جب چاہتے ہیں تو ان قواعد کو کام میں لاتے ہیں اور جب ان کی طبیعت کے موافق نہ ہو تو ان کو یکسر بھلا دیتے ہیں ۔

۲۴

حدیث منزلت کے مزید متون

حدیث منزلت صحیح بخاری ومسلم کے علاوہ اہل سنت کی دوسری مشہور و معروف کتب میں نقل ہو گئی ہے ۔ ہم ان کے متن کو ذکر کریں گے کیونکہ ہر نقل اور ہر متن کی اپنی الگ ایک خصوصیت ہے جس میں اچھی طرح سے تامل کرنا چاہئے ۔

ابن سعد کی روایت

الطبقات الکبریٰ میں ابن سعد اس حدیث کو چند اسناد کے ساتھ ذکر کرتا ہے ۔

۱ ۔ سعید بن مسیب سے متصل سلسلہ :

یہ وہی حدیث ہے کہ جو ہم نے صحیح مسلم سے نقل کی ہے ۔ یہاں اس کی نقل اورمسلم کی سعید بن مسیب سے کی گئی نقل کے درمیان مقائسہ کرنے کا وقت ہے ۔ سعید کہتا ہے : میں نے سعد بن مالک (وہی سعد بن ابی وقاص )سے کہا :میں چاہتا ہوں کہ تم سے کسی حدیث کے بارے میں پوچھوں ؛ لیکن یہ سوال کرتے ہوئے ڈر رہا ہوں۔

سعد نے کہا :بھتیجے !ایسا نہ کر ۔ جب تمہیں معلوم ہو جائے کہ میں کسی چیز سے آگاہ ہوں تو پوچھ لیا کرو اور مجھ سے مت ڈرو!

میں نے کہا :جب پیغمبر اکرم(ص) نے جنگ تبوک کے وقت علی(ع) کو مدینے میں اپنی جگہ چھوڑا تو علی(ع) سے کیا کہا ؟

طبقات کا مصنف کہتا ہے :سعد نے پوری حدیث اس کے لئے نقل کی۔(۱؎)

____________________

۱۔الطبقات الکبریٰ: ۳/۲۴

۲۵

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں علی(ع) و اہل بیت پیغمبر(ع) کے بارے میں موجود حدیث ، صحابی رسول سے پوچھتے ہوئے ڈر لگتا اور خوف محسوس ہوتا تھا ؟ اگر حدیث دوسروں کے بارے میں ہوتی تو پوری آزادی اور آرام و راحت کے ساتھ پوچھا جاتا تھا۔

۲ ۔براء بن عازب اور زید بن ارقم سے متصل سلسلہ:

محمد بن سعد ’’الطبقات‘‘میں دوسری بار اپنی اسناد کے ساتھ برا بن عازب اور زید بن ارقم سے اس طرح نقل کرتا ہے کہ انہوں نے کہا :

جب جنگ تبوک کا زمانہ آیا تو پیغمبر اسلام(ص) نے علی(ع) ابن ابی طالب(ع) سے فرمایا :

"انّه لا بدّ ان اقیم او تقیم" ۔ضروری ہے کہ میں مدینے میں رہوں یا آپ رہیں۔‘‘(۱؎)

پیغمبر اکرم(ص) کے اس فرمان سے واضح ہوتا کہ مدینہ میں کچھ حادثات پیش آرہے تھے یا بعض سازشیں جنم لے رہی تھیں ۔ بعد والی حدیث میں ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کریں گے۔ اس وقت کی حساس صورتحال کا تقاضا یہی تھا کہ پیغمبر اکرم(ص) خود مدینہ میں رہیں یا حضرت علی(ع) رہیں ؛کیونکہ یہ کام کسی اور کے بس کا نہیں تھا۔

____________________

۱۔الطبقات الکبریٰ: ۳/۲۴

۲۶

اور دوسری جہت سے جنگ تبوک میں پیغمبر اکرم(ص) کا شریک ہونابھی ناگزیر تھا اس لئے امیر المومنین(ع) سے فرمایا :

’’انّه لا بدّ ان اقیم او تقیم" ۔

ضروری ہے کہ میں مدینے میں رہوں یا آپ رہیں ۔

جب پیغمبر اکرم(ص) حضرت علی(ع) کو مدینہ میں اپنا جانشین بنا کر تبوک تشریف لے گئے تو ایک گروہ نے ، بعض نے نقل کیا ہے قریش کا ایک گروہ اور بعض نے کہا ہے :کچھ منافقین ، نے اس طرح کہا:

’’پیغمبر(ص) نے علی(ع) کو مدینے میں اس لئے چھوڑا ہے کہ آنحضرت(ص)، علی(ع) کو پسند نہیں کرتے۔ ‘‘

یہ بات امیرالمومنین(ع) کے کانوں تک پہنچی تو آپ(ع) ، رسول اللہ(ص) کے پیچھے چلے گئے ، جب پیغمبر(ص) سے ملے تو حضور(ص)نے آپ سے فرمایا :’’اے علی(ع)!آپ یہاں کیوں چلے آئے؟‘‘

جواب میں عرض کیا :اے رسول خدا(ص)!آپ کی مخالفت کا ہرگزارادہ نہ تھا مگر کچھ لوگ خیال کرتے ہیں کہ مجھے مدینے میں اس لئے چھوڑا گیا ہے کہ آپ(ص) مجھے ناپسند کرتے ہیں۔

پیغمبر اکرم(ص) نے تبسم فرمایا اور کہنے لگے :

"یا علی!أما ترضیٰ ا ن تکون منّی کهارون من موسیٰ الّا انّک لست بنبیّ؟قال :بلیٰ یا رسول الله!قال:فانّه کذالک " ۔

اے علی(ع)! کیا یہ پسند نہیں کہ تم میرے لئے اسی طرح رہو جس طرح موسیٰ کے لئے ہارون تھے، سوائے اس کے کہ تم پیغمبر نہیں ہو؟‘‘عرض کیا :کیوں نہیں اے اللہ کے رسول(ص)!فرمایا :پس تم اسی طرح ہو۔‘‘

۲۷

نسائی کی روایت

نسائی اس روایت کو ’’خصائص‘‘میں یوں نقل کرتے ہیں :

لوگوں نے کہا :پیغمبر(ص)، علی(ع) سے تنگ آگئے ہیں اور اس کی ہمراہی سے متنفر ہیں۔

ایک اور روایت میں آیاہے کہ علی(ع) نے پیغمبر(ص) سے عرض کیا :قریش گمان کرتا ہے کہ چونکہ میری ہمراہی آپ(ص) پر گراں گزرتی ہے اور آپ(ص) کے ساتھ میرا رہنا آپ کے لئے نا پسند ہے اس لئے مجھے مدینے میں چھوڑ دیا ہے ۔

پھر حضر ت نے گریہ کیا ، جب پیغمبر(ص) نے یہ دیکھا تو لوگوں کے درمیان پکار کر فرمایا :

"مامنکم احد الّا و له خاصّ ة یابن ابی طالب!اما ترضیٰ ان تکون منّی بمنزلة ه ارون من موس یٰ الّا انّه لا نب یّ بعدی"

تم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں ہے جو اپنے لئے کوئی چیز مختص نہ کرتا ہو۔ اے فرزند ابوطالب!کیا تم راضی نہیں ہوگے کہ میرے لئے ، موسیٰ کے لئے ہارون کی طرح ہوجاو سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں؟

امیر المومنین(ع) نے عرض کیا :

۲۸

’’رضیتُ عن الله وعن رسوله ۔

خدا وند متعال اور اس کے پیغمبر(ص) کی جانب سے راضی ہوں ۔(۱؎)

’’سیرہ ابن سید الناس‘‘،’’ سیرہ ابن قیم جوزیہ‘‘ ،’’ سیرہ ابن اسحاق‘‘ اور بعض دوسرے مصادر کی نقل کے مطابق حضرت علی(ع) پر اعتراض کرنے والے لوگ ، منافقین میں سے تھے ۔(۲؎)

بعض دوسرے متون میں لکھا ہے کہ لوگوں سے مراد قریش یامنافقین تھے، اس رو سے واضح ہو جاتا ہے کہ قریش کے درمیان بھی منافقین موجود تھے یہ بات بڑی اہم ہے۔

طبرانی کی روایت

طبرانی کی معجم الاوسط میں حضرت علی(ع) سے نقل ہوا ہے کہ پیغمبر(ص) نے ان سے فرمایا:

"خلّفتک ان تکون خلیفتی قلتُ:اتخلّف عنک یا رسول الله؟ قال:الا ترضیٰ ان تکون منّی بمنزلة هارون من موسیٰ الّا انّه لا نبیّ بعدی " ۔

میں تمہیں اپنی جگہ چھوڑ رہا ہوں تاکہ میرے جانشین اور خلیفہ ہو جاو۔عرض کیا :اے اللہ کے رسول(ص)!کیا آپ کے ساتھ نہ رہوں؟ فرمایا: کیا راضی نہیں ہو کہ میرے لئے اسی طرح ہوجاؤ جس طرح موسیٰ کے لئے ہارون تھے، سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ؟‘‘(۳؎)

اس حدیث کا یہ جملہ قابل غور ہے:

’’خلّفتک ان تکون خلیفتی‘‘

میں تمہیں اپنی جگہ چھوڑ رہا ہوں تاکہ میرے جانشین اور خلیفہ ہو جاو۔

____________________

۱۔ خصائص نسائی: ۶۷، احادیث ۴۴، ۶۱، ۷۷

۲۔ عیون الاثر: ۲/ ۲۹۴؛ زاد المعاد: ۳/ ۵۵۹۔ ۵۶۰؛ سیرہ ابن ہشام: ۲/ ۵۱۹۔ ۵۲۰

۳۔ معجم الاوسط: ۴/ ۴۸۴، حدیث ۴۲۴۸

۲۹

سیوطی کی روایت

جلال الدین سیوطی ، جامع الکبیر میں اس روایت کو ایک گروہ سے نقل کرتا ہے ، جن میں ابن نجار بغدادی ، ابوبکر شیرازی کی کتاب القاب، حاکم نیشاپوری کی الکنیٰ اور بزرگ حافظان حدیث میں سے حسن بن بدر کی کتاب’’مارواہ الخلفاء‘‘ شامل ہے۔

یہ سارے راوی ابن عباس سے نقل کرتے ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ ایک دن عمر بن خطاب نے کہا :اب کے بعد علی ابن ابی طالب(ع) کے بارے میں بات نہ کریں ؛کیونکہ میں نے پیغمبر اکرم(ص) سے علی(ع) کے بارے میں تین باتیں سنی ہوئی ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی ایک بھی میرے لئے ہوتی تو وہ میرے لئے ان تمام چیزوں سے بہتر ہوتی جن پر سورج کی روشنی پڑتی ہے۔(۱؎)

ہم لوگ ( ابو بکر ، ابو عبیدہ بن جراح(۲؎) اور اصحاب پیغمبر میں سے ایک اور شخص) حضور (ص) کی خدمت میں تھے ، آپ(ص)، علی ابن ابی طالب(ع)سے ٹیک لگائے ہوئے تھے، ایسے میں اپنے دست مبارک کو علی(ع) کے کندھے پر رکھا اور فرمایا :

"یاعلی!انت اول المو منین ایماناً و اوّله م اسلاماً،وانت منّ ی بمنزلة ه ارون من موس یٰ ، و کذب من زعم انّه یحبّنی و یبغضک"

اے علی(ع)!تم پہلے مؤمن ہو جو ایمان لے آیا اور پہلے فرد ہو جو اسلام لایا ، تم میرے لئے وہی حیثیت رکھتے ہو جو حیثیت موسیٰ کے لئے ہارون کی تھی ، اور وہ شخص جھوٹ بولتا ہے جو تم سے دشمنی رکھتا ہے اورمجھ سے محبت کرنے کا گمان کرتا ہے۔ ‘‘

ابن کثیر کی روایت

ابن کثیر نے بھی یہ روایت اپنی تاریخ میں لکھی ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے حضرت علی(ع) سے فرمایا :

"او ما ترضیٰ ان تکون منّی بمنزلة ه ارون من موس یٰ الاّ النّبوّة"

کیا راضی نہیں ہو کہ میرے لئے وہی ہو جاؤ جو موسیٰ کے لئے ہارون تھے،سوائے پیغمبری میں؟‘‘(۳؎)

____________________

۱۔ قابل توجہ یہ ہے کہ یہ لوگ کیوں حضرت علی(ع) کے بارے میں باتیں کرتے تھے ؟ اور کیا کچھ کہتے تھے ؟ کیوں عمر ان لوگوں کو آپ(ع)کے تذکرے سے منع کر رہا ہے؟ کیا یہ لوگ حضرت(ع) کو اچھے لفظوں سے یاد کرتے تھے ؟ اور اب عمر انہیں اس کام سے روک رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ علی(ع) کے بارے میں بات نہ کریں ؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب مل جائے تو پوشیدہ حقائق سامنے آئیں گے۔ ۲۔واضح رہے کہ مہاجرین میں سے انہی تین افرادنے سقیفہ برپا کیا تھا ۔۳۔ البدایۃ و النہایۃ: ۷/ ۳۴۰

۳۰

قابل ذکر ہے کہ ان روایات میں تین تعبیریں ذکر ہوئی ہیں :

۱ ۔الاّ النّبوّة :سوائے پیغمبری میں ۔

۲ ۔الاّ انّک لست بنبیّ :سوائے اس کے کہ تم پیغمبر نہیں ہو۔

۳ ۔الاّ انّه لا نبیّ بعدی :سوائے یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔

ظاہر ہے کہ ان تعبیروں کے درمیان بہت فرق پایا جاتا ہے ۔

ابن کثیر اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے : اس کی سند صحیح ہے ؛ لیکن صحیح احادیث کی جو کتب لکھی گئی ہیں ان میں اس کو نقل نہیں کیا گیا ہے ۔

اسی طرح ابن کثیر اپنی تاریخ میں معاویہ اور سعد کی حدیث کے ضمن میں نقل کرتا ہے کہ ایک روز معاویہ ایک گروہ کے سامنے علی(ع) کو برا بھلا کہہ رہا تھا[!]

سعد نے اس سے کہا :خدا کہ قسم!اس (علی(ع) )کی تین خصوصیتوں میں سے اگر میں ایک کا بھی حامل ہوتا تو میرے لئے ان تمام چیزوں سے بہتر تھا جن پر سورج کی روشنی پڑتی ہے ۔۔۔۔پھر اس نے ان تین خصوصیات میں سے ایک کے طور پر’’حدیث منزلت‘‘ بیان کی۔(۱؎)

اہل سنت کے حافظین میں سے ایک حافظ زرندی اسی حدیث کو نقل کرتا ہے ؛ مگر معاویہ کا نام لئے بغیر کہتا ہے :راویوں میں ایک نے سعد سے پوچھا :کون سی چیز تمہیں علی(ع) کو برا بھلا کہنے سے روکتی ہے؟(۲؎)

____________________

۱۔ البدایۃ و النہایۃ: ۷/ ۳۴۰

۲۔ نظم درر السمطین: ۱۰۷

۳۱

ظاہر ہے کہ وہ معاویہ کا نام مخفی رکھنا چاہتا ہے تاکہ اپنی اور دوسروں کی آبرو بچ جائے۔

یہ واقعہ ، تاریخ مدینہ دمشق ، الصواعق المحرقہ اور دوسرے مصادر میں یوں نقل ہوا ہے: کسی نے معاویہ سے کوئی مسئلہ پوچھا ۔ اس نے کہا :علی(ع) سے پوچھو کہ وہ دانا تر ہے۔

پوچھنے والے نے کہا :اگر تم میرے سوال کا جواب دو تو علی(ع) کے جواب دینے سے بھی زیادہ مجھے پسندیدہ ہے ۔معاویہ نے کہا :تم نے بری بات کی!کیا واقعاً ایسے شخص سے ناخوش ہو کہ جسے پیغمبر(ص)نے اپنے علم سے مکمل طور پر سیراب کیا ہے!اور اس سے کہا ہے :

" انت منّی بمنزلة هارون من موسیٰ الاّ انّه لا نبیّ بعدی" ۔

تم میرے لئے ایسے ہو جیسے موسیٰ کے لئے ہارون، سوائے یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘

جب بھی عمر کسی مشکل کو حل کرنے سے عاجز رہ جاتا تو اس( علی(ع)) سے استفادہ کرتا تھا ۔(۱؎)

تمام مختلف متون میں سے جس متن کو ہم نے منتخب کیا ہے اس کی الگ خصوصیت ہے کہ جسے دقیق نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے ۔

____________________

۱۔ تاریخ مدینۃ دمشق: ۱/۳۹۶، حدیث ۴۱۰ حضرت علی(ع) کے حالات زندگی؛ الریاض النضرۃ: ۳/ ۱۶۲ مناقب امام علی(ع)؛ ابن مغازلی: ۳۴، حدیث ۵۲

۳۲

تیسرا حصہ:

حدیث منزلت کی دلالتوں پر ایک نظر

۳۳

حدیث منزلت کی دلالتیں

ہماری گفتگو کا دوسرا محور ،حدیث منزلت کی دلالتیں ہیں۔ چنانچہ پہلے اشارہ ہو چکا ہے کہ حدیث منزلت متعدد امور پر دلالت کرتی ہے ان میں سے ہر ایک امیر المومنین(ع) کی امامت پر مکمل دلیل ہے ۔

قرآن کی رو سے حضرت ہارون کا مقام

حدیث منزلت کی دلالتوں کی تحقیق کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم حضرت ہارون(ع) کے مقامات پر ایک نظر ڈالیں اور یہ جان لیں کہ حضرت موسیؑ کی نسبت سے آپ(ع) کیا مقام و مرتبہ رکھتے تھے ؛ تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ پیغمبر(ص) کی نسبت سے علی(ع) کس مقام و مرتبے کے حامل ہیں۔

اس مطلب سے آشنائی کے لئے ضروری ہے کہ ہم قرآن مجید سے رجوع کرکے حضرت ہارون(ع) کے مقام و مرتبے سے آ گاہی حاصل کریں؛ کیونکہ قرآن مجید کی آیات میں ٹھیک طرح غورو خوض کرنے سے بخوبی معلوم ہو جاتا ہے کہ جناب ہارون(ع)مندرجہ ذیل مقامات کے حامل تھے :

۱ ۔ نبوت

حضرت ہارونؑ کا اولین مقام ’’پیغمبری‘‘ ہے ۔ خدا وند متعال فرماتا ہے :

" وَوَه َبْنَا لَ ه ُ مِنْ رَحْمَتِنٰا اَخٰا ه ُ ه ٰارُوْنَ نَبِ یّاً "

اور ہم نے اپنی رحمت سے اس (حضرت موسیٰ)کو اس کا بھائی ہارون عطا کر دیا جو پیغمبر تھا۔‘‘(۱؎)

____________________

۱۔ مریم: ۵۳

۲۔ وزارت

۳۴

حضرت ہارون(ع) کا دوسرا مقام ’’وزارت‘‘تھا ۔ وزیر وہ ہوتا ہے جو امیر کی مسئولیت کا بارگراں اپنے کندھوں پر اٹھائے اور اسے انجام دینے کا عہدہ سنبھالے۔ اس مقام کو خدائے متعال نے حضرت موسیٰ کی زبان سے اس طرح بیان کیا ہے کہ حضرت موسیٰ نے خدا وند متعال سے عرض کیا :

"وَاج ْعَل لِی وَزِیراً مِن اَه لِ ی ه ٰارُونَ اَخِ ی"

اور میرے لئے میرے خاندان سے میرا بھائی ہارون وزیر قرار دے۔‘‘(۱؎)

اسی طرح خدا وند متعال ، قرآن مجید میں اسی مقام کے بارے میں فرماتا ہے :

"وَ لَقَد آتَینٰا مُوسَی الکِتٰابَ وَجَعَلنٰا مَعَه اَخٰا ه ُ ه ٰارُونَ وَزِ یراً"

بے شک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی اور اس کے بھائی ہارون کو اس کا وزیر قرار دیا۔‘‘(۲؎)

سورہ قصص میں بھی ہارون(ع) کی وزارت کے بارے میں بات آ گئی ہے ؛ وہاں حضرت موسیٰ کی زبان سے نقل ہوتا ہے ، آپ(ع) فرماتے ہیں :

"وَ اَخِی ه ٰارُونَ ه ُوَ اَفصَحُ مِنِّ ی لِسٰاناً فَاَرسِله ُ مَعِ یَ رِدءًا یُّصَدِّقَنِی"

اور میرا بھائی ئی ہارون کہ کس کی زبان مجھ سے زیادہ گویا ہے ، پس اسے میرے ہمراہ بھیج دے تاکہ میرا مدد گار ہو اور میری تصدیق کرے۔‘‘(۳؎)

____________________

۱۔ طٰہٰ: ۳۹۔ ۳۰

۲۔ فرقان: ۳۵

۳۔ قصص: ۳۴

۳۵

۳ ۔ خلافت و جانشینی

حضرت ہارون(ع) کے مقامات میں سے ایک حضرت موسیٰ کی خلافت و جانشینی ہے ۔ خداوند اس مقام کو یوں بیان کرتا ہے :

"وَ قَالَ مُوسیٰ لِاَخِیه ِ ه ٰارُونَ اخلُفنِ ی فِی قَومِی وَاَصلِح وَلَا تَتَّبِع سَبِیلَ المُفسِدِین"

اور موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون(ع) سے کہا :قوم کے درمیان میرا جانشین بنے رہو اور ان (کے امور)کی اصلاح کرو اور فساد پھیلانے والوں کے راستے کی پیروی نہ کرو ۔‘‘(۱؎)

۴،۵ ، ۶ ۔اخوت و رسالت میں مشارکت ، مضبوط پشت پناہ

قرآن مجید کی رو سے حضرت ہارون(ع) کا چوتھا ، پانچواں اور چھٹا مقام ، آپ(ع) کا حضرت موسیٰ کے ساتھ اخوت کا رشتہ ہونا، رسالت میں جناب موسیٰ کے ساتھ شریک ہونا اور ان کے لئے ایک پشت پناہ ہونا ہے۔ حضرت موسیٰ نے خدا وند متعال سے اس طرح دعا فرمائی:

’’وَاج ْعَل لِی وَزِیراً مِن اَه لِ ی هٰارُونَ اَخِی اشدُد بِه ِ اَزرِ ی وَ اَشرِکه ُ فِ ی اَمرِی"

اور میرے لئے میرے خاندان سے ایک وزیر قرار دے ، میرے بھائی ہارون کو ، اور اسے میرے لئے ایک مضبوط پشت پناہ قرار دے اور میرے کام میں شریک فرما۔‘‘(۲؎)

____________________

۱۔ اعراف: ۱۴۲

۲۔ طٰہٰ: ۳۱۔۳۲

۳۶

حضرت علی(ع) کے مقام ومنزلت پر ایک نظر

حدیث منزلت کے مندرجات کے مطابق پیغمبر اکرم(ص) نے اپنے اس فرمان کے ذریعے نبوت و پیغمبری کے علاوہ ،جناب ہارون(ع) کے وہ تمام مقامات حضرت امیرالمومنین(ع) کی شان میں ثابت کر دیا ہے جنہیں قرآن مجید نے حضرت ہارون(ع) کے لئے ثابت کیا ہے۔

حضور(ص) نے اس حدیث میں ہارون کے تمام مناصب کو مطلق بیان فرمایا ہے ؛ لیکن منصب پیغمبری کو استثناء فرمایا ہے ؛ کیونکہ ضرورت یہ کہتی ہے کہ ان کے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہوگا۔

اس بنا پر پیغمبری کے علاوہ حضرت ہارون(ع) کے لئے ثابت شدہ تمام مناصب حضرت علی(ع) کے لئے بھی ثابت ہو جائیں گے ۔ اس موضوع کی وضاحت کرتے ہوئے ہم کہیں گے کہ :

امیر المومنین(ع) اور حضرت ہارون(ع) کے معنوی منازل اور مقامات میں واحد فرق یہی ہے کہ علی(ع) ، پیغمبر نہیں ہیں ؛ لیکن آپ(ع) نے اپنی بعض خصوصیات اور اوصاف ’’خطبہ قاصعہ‘‘ میں یوں بیان فرمایا ہے :

’’ وَقَدْ عَلِمْتُمْ مَوْضِعِی مِنْ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِهِ بِالْقَرَابَةِ الْقَرِیْبَةِ، وَالْمَنْزِلَةِ الْخَصِیْصَةِ: وَضَعَنِی فِی حِجْرِهِ وَأَنَا وَلَدٌ ،یَضُمَّنِی اِلَیٰ صَدْرِهِ، وَیَکْنُفُنِی فِی فِرَاشِهِ، وَیُمِسُّنِی جَسَدَهُ، وَیْشِمُّنِی عَرْفَهُ، وَکَانَ یَمْضَعُ الشَّیَٔ ثُمَّ یُلْقِمُنِیْهِ، وَمَا وَجَدَ لِی کَذْبَةً فِی قَوْلٍ، وَلاَ خَطْلَةً فِی فِعْلٍ، وَلَقَدْ قَرَنَ اللّٰهُ بِهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِهِمِنْ لَدُنْ اَنْ کَانَ فَطِیْمًا اَعْظَمَ مَلَکٍ مِنْ مَلاَئِکَتِهِ، یَسْلُکُ بِهِ طَرِیْقَ الْمَکَارِمِ، وَمَحَاسِنَ اَخْلاَقِ الْعَالَمِ، لَیْلَهُ وَنَهَارَهُ، وَلَقَدْ کُنْتُ اَتَّبِعُهُ اَتَّبَاعَ الْفَصِیْلِ اَثَرَ اَمَّهِ، یَرْفَعُ لِی فِی کُلَّ یَوْمٍ مِنْ اَخْلاَقِهِ، عَلَمًا، وَیَامُرُنِی بِالْاِقْتَدَائِ بِهِ وَلَقَدْ کَانَ یُجَاوِرُ فِی کُلَّ سَنَةَ بِحِرَائَ فَأَرَاهُ، وَلاَ یَرَاهُ غَیْرِی، وَلَمْ یَجْمَعُ بَیْتُ وَاحِدٌ یَوْمَئِذٍ فِی الْاِسْلاَمِ غَیْرَ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِهِ وَخَدِیْجَةَ وَاَنَا ثَالِثُهُمَا ۔

۳۷

تم جانتے ہی ہو کہ رسول اللہ (ص) سے قریب کی عزیز داری اور مخصوص قدر و منزلت کی وجہ سے میرا مقام ان کے نزدیک کیا تھا! میں بچہ ہی تھا کہ رسول (ص) نے مجھے گود میں لے لیا تھا۔ اپنے سینے سے چمٹائے رکھتے تھے۔ بستر میں اپنے پہلو میں جگہ دیتے تھے۔ اپنے جسم مبارک مجھ سے مس کرتے تھے اور اپنی خوشبو مجھے سنگھاتے تھے۔ پہلے آپ (ص) کسی چیز کو چباتے پھر اس کے لقمے بنا کر میرے منہ میں دیتے تھے۔ انہوں نے نہ تو میری کسی بات میں جھوٹ کا شائبہ پایا نہ میرے کسی کام میں لغزش و کمزوری دیکھی۔ اللہ نے آپ (ص) کی دودھ بڑھائی کے وقت ہی سے فرشتوں میں سے ایک عظیم المرتبت ملک ( روح القدس) کو آپ (ص) کے ساتھ لگا دیا جو انہیں شب و روز بزرگ خصلتوں اور پاکیزہ سیرتوں کی راہ پر لے چلتا تھا، اور میں ان کے پیچھے پیچھے یوں لگا رہتا تھا جیسے اونٹنی کابچہ اپنی ماں کے پیچھے۔ آپ ہر روز میرے لئے اخلاق حسنہ کے پرچم بلند کرتے تھے اور مجھے ان کی پیروی کا حکم دیتے تھے اور ہر سال (کوہ) حرا میں کچھ عرصہ قیام فرماتے تھے اور وہاں میرے علاوہ کوئی انہیں نہیں دیکھتا تھا۔ اس وقت رسول اللہ (ص) اور (ا م المؤمنین) خدیجہ(ع) کے گھر کے علاوہ کسی گھر کی چار دیواری میں اسلام نہ تھا۔‘‘

۳۸

یہ حصہ خصوصی طور پر دیکھئے کہ حضرت فرماتے ہیں :

’’ اَرَیٰ نُورَ الْوَحْیِ وَالرَّسَالَةِ، وَاَشُمُّ رِیْحَ النُّبُوَّةِ،وَلَقَدْ سَمِعْتُ رَنَّةَ الشَّیْطَانِ حِیْنَ نَزَلَ الْوَحْیُ عَلَیْهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِهِ ،فَقُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰهِ!مَاهٰذِهِ الرَّنَّةُ؟ فَقَالَ: هٰذَا الشَّیْطَانُ قَدْاَیِسَ مِنْ عِبَادَتِهِ ۔

میں رسالت کی خوشبوسونگھتا تھا ۔ جب آپ (ص) پر (پہلے پہل) وحی نازل ہوئی تو میں نے شیطان کی ایک چیخ سنی، جس پر میں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ (ص) یہ آواز کیسی ہے؟ آپ (ص) نے فرمایا کہ یہ شیطان ہے کہ جو اپنے پوجا جانے سے مایوس ہو گیا ہے۔‘‘

اب حضرت علی(ع) کے بارے میں پیغمبر(ص) کے مندرجہ ذیل فرمان پر غور کریں !فرماتے ہیں :

’’ اِنَّکَ تَسْمَعُ مَا اَسْمَعُ وَتَرَیٰ مَا اَرَیٰ اِلاَّ اَنَّکَ لَسْتَ بَنِبِیًّ وَلٰکِنَّکَ لَوَزِیْرٌ وَاِنَّکَ لَعَلٰی خَیْرٍ ۔(اے علی(ع)!) جو میں سنتا ہوں تم بھی سنتے ہو اور جو میں دیکھتا ہوں تم بھی دیکھتے ہو، فرق اتنا ہے کہ تم نبی نہیں ہو؛ بلکہ (میرے ) وزیر اور جانشین ہو اور یقینا بھلائی کی راہ پر ہو۔‘‘(۱؎)

____________________

۱۔نہج البلاغہ: خطبہ ۱۹۳، قاصعہ

۳۹

ان جملوں پر توجہ کی جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ حدیث پیغمبر اور’’ خطبہ قاصعہ‘‘ میں امیر المومنین(ع) کے فرامین کے ساتھ آیات قرآن کس طرح ہم آہنگ ہیں۔ اگرچہ امام علی(ع) ، پیغمبر نہیں ؛ لیکن وحی و رسالت کے نور کو دیکھا اور خوشبوئے رسالت کو سونگھا ہے ۔

اب ہم پوچھیں گے کہ :کیا امیر المومنین(ع) کا یہ مقام و منزلت پیغمبر خدا(ص) کے دوسرے اصحاب کے مقام ومنزلت سے قابل مقائسہ ہے ؟

پس کیوں بعض لوگ کچھ خالی خیالی فضائل کو اس بلند مقام و مرتبے پر برتری دینا چاہتے ہیں ؟

حضرت علی(ع) ، پیغمبر نہیں ؛ لیکن وزیر ہیں ۔ کون سی شخصیت کا وزیر؟

اس پیغمبر کا جو اشرف المرسلین ، تمام پیغمبروں سے بزرگوار ترین ، شریف ترین اور خدا وند سبحان کی ان سب سے نزدیک ترین ہیں۔

اس بنا پر ایسی شخصیت کا وزیر ہونا حضرت موسیٰ کی وزارت سے کافی حد تک مختلف ہے ؛ اس لحاظ سے ہارون کہاں اس مقام ومرتبے تک پہنچ سکتا ہے ؟

اس وقت ہماری بات ہارون(ع) پر علی(ع) کی برتری کے بارے میں نہیں ہے ؛ بلکہ اس بارے میں ہے کہ رسول خدا(ص) کی خلافت کا مستحق علی(ع) ہیں یا ابو بکر؟

۴۰