حدیث منزلت پر ایک نظر

حدیث منزلت پر ایک نظر0%

حدیث منزلت پر ایک نظر مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 126

حدیث منزلت پر ایک نظر

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ سید علی حسینی میلانی
زمرہ جات: صفحے: 126
مشاہدے: 47333
ڈاؤنلوڈ: 3008

تبصرے:

حدیث منزلت پر ایک نظر
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 126 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 47333 / ڈاؤنلوڈ: 3008
سائز سائز سائز
حدیث منزلت پر ایک نظر

حدیث منزلت پر ایک نظر

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

اگر ہم خلافت کو صرف ایک ظاہری اور اعتباری مرتبہ تصور کریں ، جس کا ایک محدود وقت ہو اور اس وقت کے شروع ہوتے ہی خلافت شروع ہوجاتی ہو اور اس کے اختتام کے ساتھ خلافت بھی اختتام کو پہنچتی ہو؛ نیز اس کے لئے کسی صلاحیت اور اہلیت کی ضرورت ہی نہ ہو تو یہ بہت ہی دور از حقیقت بات ہوگی ۔

اگر اللہ تعالیٰ نے کسی کو خلافت کے لائق جان کر منتخب کیا ، یا رسول خدا (ص) نے کسی کے اندر ایسی صلاحیت دیکھ کر اس کو اپنا مطلق خلیفہ بنا لیا اور( اخْلُفْنِی فِی قَوْمِی ) (۱؎) کہہ کر سب کو سمجھا یا تو ہمیں ضرور سمجھ لینا چاہئے کہ یہ انسان خلیفہ پیغمبر بننے کی تمام شرائط پر پورا اترتا ہے ؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی نا اہل کو پیغمبر (ص) کا جانشین قرار نہیں دیتا۔

____________________

۱۔ اعراف: ۱۴۲

۸۱

اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت علی(ع) ، علم الٰہی ، عصمت الٰہی اور قدرت الٰہی کے حامل ہیں اور فقدان پیغمبر (ص) کی خلاء کو پر کر سکتے ہیں۔

جب اللہ تعالیٰ اور رسول خدا (ص) ، کسی شخص کو تمام مقامات کے حوالے سے پیغمبر اکرم (ص) کا جانشین قرار دے ، خواہ اس کو عملیانے کا موقع نہ بھی ملے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ خدا کا منتخب بندہ ہے۔ اس کی صلاحیت و شائستگی اس منزل پر ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) کی غیر موجودگی میں ہر جہت سے آپ (ص)کے مقام کو سنبھال سکتا ہے؛ اختلافات میں مرجع بن سکتا ہے، لوگوں پر حاکم بھی بن سکتا ہے، احکام الٰہی کا بیان کرنے والا اور کلمات الٰہی کی تفسیر کرنے والا بھی بن سکتا ہے ؛ نیز لوگوں کے نفوس پر ان سے زیادہ اولیٰ اور اس کا حکم لوگوں پر ان کے اپنے احکام سے زیادہ نافذ بھی ہو سکتا ہے۔

اس بات کی دلیل یہ ہے کہ حضرت موسیٰ نے جناب ہارون کی خلافت کے لئے کوئی وقت معین نہیں کیا؛ بلکہ فرمایا:’’اخْلُفْنِی فِی قَوْمِی‘‘ یعنی: جب بھی میں نہ ہوں تو میری غیر موجودگی کی خلاء کو پر کرو۔ اسی وجہ سے جناب ہارون ، ان دس دنوں میں بھی،جنہیں حضرت موسیٰ کی مناجات کی مدت پر اضافہ کیا گیا تھا، اپنے منصب پر باقی رہے ۔

جب یہ بلند منزلت اور مرتبت ، جناب ہارون کی نسبت ثابت ہوگئی تو حضرت امیر المؤمنین(ع) کے لئے بھی ثابت ہوجائے گی۔

زیادہ توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے امیر المؤمنین(ع) کو مقام ومنزلت کے لحاظ سے جناب ہارون(ع) کی مانند قرار دیا ہے نہ کہ ان حالات کے لحاظ سے جو انہیں پیش آئے ہیں؛ دوسرے الفاظ میں یہ کہ حضور اکرم (ص) نے اس طرح بیان نہیں فرمایا کہ جناب ہارون(ع) نے چالیس روز خلافت کا منصب سنبھالا ہے ؛ لہٰذ اتم بھی چالیس روز تک خلافت کے عہدے پررہو گے؛ نہیں!؛بلکہ یہاں پر مقام و منزلت کی بات ہے۔ جناب ہارون ، جناب موسیٰ کی خلافت کے حامل تھے اور یہ مقام جناب موسیٰ کی زندگی میں بھی بنی اسرائیل کے درمیان ان کے لئے محفوظ تھا۔

۸۲

حدیث منزلت اورابن تیمیہ کا نظریہ

ابن تیمیہ بھی اس حدیث پر مذکورہ اشکالات کی مانند اعتراض کرتا ہے؛ لہٰذا ہم اس کے نظرئیے کی کچھ چھان بین کریں گے۔

ابن تیمیہ کی کتاب ’’منہاج السنۃ‘‘کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب مختلف جگہوں پر حضرت امیر المؤمنین(ع) کی دشمنی، ان کی عیب جوئی اور ان پر طعنہ زنی سے مملو ہے۔ وہ اپنی کتاب کسی حصے میں یوں لکھتا ہے:

جب کبھی پیغمبر اکرم (ص) کسی جنگ، عمرہ ، حج یا کسی سفر پر جاتے تھے تو اپنے اصحاب میں سے کسی ایک کو مدینے میں اپنی جگہ چھوڑ جاتے تھے۔ یہاں تک لکھا ہے کہ ایک سفر کے وقت آنحضرت (ص) نے ’’ ابن ام مکتوم‘‘ کو مدینے میں اپنا جانشین بنایا تھا۔ کوئی شخص اس جانشینی کو ابن ام مکتوم کے لئے فضیلت یا مقام ومرتبہ شمار نہیں کرتا۔

پھر وہ حدیث منزلت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے: جب (پیغمبر اکرم (ص) کی آخری جنگ) جنگ تبوک شروع ہوئی تو آنحضرت (ص) نے کسی کو بھی فوج سے جدا رہنے اور اس حکم سے سرپیچی کرنے کی اجازت نہ دی۔ اس جنگ کی طرح کسی اور جنگ میں آپ(ص) کے ساتھ اتنے زیادہ لوگ نہ تھے۔ صرف عورتیں ، بچے ، معذور لوگ اور منافقین مدینے میں رہ گئے۔

مدینے میں دلاور مؤمنین نہیں تھے؛ تاکہ پیغمبر ،گزشتہ کی مانند کسی کو ان پر اپنا جانشین بنا جاتے۔ دوسری جہت سے یہ کہ مدینے میں بچوں، عورتوں اور معذوروں کے علاوہ کوئی اور رہنے والا نہ تھا؛ اس رو سے پیغمبر اکرم (ص) کو اپنے اصحاب میں سے کسی اہم اور معروف شخص کو جانشین بنانے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی؛ بلکہ اس موقع کی جانشینی حضور اکرم (ص) کی دوسری تمام جانشینیوں سے انتہائی بے وقعت جانشینی تھی ؛ یعنی تبوک کے وقت علی(ع) کی جانشینی ، ابن ام مکتوم کی جانشینی سے بھی بے وقعت اور بے اہمیت تھی۔[!!]

۸۳

ابن تیمیہ مزید کہتا ہے: علی(ع) کی جانشینی کے وقت مدینے میں طاقتور مؤمنین کی زیادہ تعداد موجود نہ تھی تاکہ ان کے لئے کسی زبردست کو جانشین قرار دینے کی نوبت آئے۔ اس بنا پر پہلے جن لوگوں نے حضور (ص) نے اپنا جانشین بنایا ہے ان کی جانشینی ، علی(ع)کی جانشینی سے بہتر اور برتر ہوگی۔

اسی وجہ سے علی(ع) ، روتے ہوئے حضور اکرم (ص) کی خدمت آئے اور گویا ہوئے: کیا آپ (ص) مجھے عورتوں اور بچوں کے ساتھ چھوڑیں گے؟

پیغمبراکرم (ص) نے فرمایا: امانت داری کی خاطر تمہیں اپنا جانشین بنایا ہے اور پیغمبر (ص) کی جانشینی کبھی عیب ونقص شمار نہیں ہوتی، جس طرح موسیٰ نے ہارون کو اپنی قوم کے لئے اپنا جانشین قرار دیا تھا۔

جب کوئی بادشاہ اور دوسرے لوگ جنگ کے لئے نکلتے ہیں تو اپنے ساتھ ایسے افراد کو لے لیتے ہیں جن سے زیادہ استفادہ کرنا ہو، کشمکش کے وقت ان کی ضرورت ہو، ان کے مشوروں سے سبق لینا ہو اور ان کی زبانوں، ہاتھوں اور تلواروں سے فائدہ اٹھانا مقصود ہو۔ اس لحاظ سے پیغمبر اکرم (ص) کو اس جنگ میں علی(ع) کی کوئی ضرورت نہیں تھی تاکہ ان سے مشورہ کیا جائے یا ان کی زبان، ہاتھ اور تلوار سے استفادہ کیا جائے [!] جبھی تو انہیں چھوڑ کر دوسروں کو ہمراہ لے لیا؛ کیونکہ ان امور میں وہ لوگ آنحضرت (ص) کے کام آتے تھے۔

۸۴

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے ابن تیمیہ کہتا ہے: ایک چیز کو دوسری کے ساتھ تشبیہ دینے کا لازمہ یہ نہیں کہ دونوں چیزیں تمام جہتوں سے ایک دوسرے کی طرح ہوں؛ بلکہ یہ دیکھنا چاہئے کہ بات کس موقع پر کہی گئی ہے ۔ کیا آپ وہ روایات نہیں دیکھتے جو صحیح بخاری اور مسلم میںنقل ہوئی ہیں اور ثابت ہیں؟ روایت میں ہے کہ جب پیغمبر اکرم (ص) نے اسیروں کے بارے میں ابوبکر سے مشورہ کیا تو اس نے کہا: ان کے بدلے میں پیسے اور فدیہ لے کر انہیں رہا کردیں۔ پھر آنحضرت (ص) نے عمر سے مشورہ لیا تو اس نے کہا: ان سب کو قتل کر دو۔

پس آنحضرت (ص) نے فرمایا: اب میں ان دو ساتھیوں کا مقام تم لوگوں کو بتاتا ہوں۔ اے ابو بکر! تم ابراہیم کی مانند ہو [!] اور اے عمر ! تم نوح کی مانند ہو۔ [!]

لہٰذا اگر پیغمبر اکرم (ص) کسی سے یہ فرمائے کہ تم ابراہیم و عیسیٰ کی طرح ہو یا کسی دوسرے سے فرمائے کہ تم نوح اور موسیٰ کی مانند ہو تو ایسا کہنا نہایت اہم اور بہتر ہے یہ کہنے سے کہ تم میرے لئے ایسے ہو جیسے موسی کے لئے ہارون۔

جو کچھ بیان ہوا وہ ابن تیمیہ کے بیان اور کلام کا ایک حصہ تھا۔ خدا سے دعا کرتے ہیں کہ اس شخص کے ساتھ اپنے عدل کے مطابق سلوک کرے اور ہر کلمے کے مقابلے میں اسے وہی جزا دے جس کا وہ مستحق ہے۔

۸۵

نظریہ ابن تیمیہ کی ردّ

اب ہم چند موارد میں ابن تیمیہ کے نظرئیے کی مختصر تحقیق کریں گے:

۱ ۔ جو احادیث ہم نے پہلے نقل کی ہیں اور جو بعد میں نقل کریں گے، ان میں مختلف تعبیریں استعمال ہوئی ہیں۔ ایک نقل کے مطابق پیغمبر اکرم (ص) نیحضرت امیر المؤمنین(ع) سے فرمایا:

’’انّه لا بدّ ان اقیم او تقیم ۔ضروری ہے کہ میں مدینے میں رہوں یا آپ رہیں۔‘‘

دوسری تعبیر میں آنحضرت (ص) نے فرمایا:

’’فانّ المدینة لا تصلح الاَّ بي أو بک ۔ مد ینے کے امور میرے یا آپ(ع) کے بغیر درست اور منظم نہیں ہوں گے۔‘‘

ایک تعبیر ،ہم اس طرح ملاحظہ کرتے ہیں:

’’ انّه لا ینبغی أن أذهب الاَّ و أنت خلیفتی ۔ کسی صورت میں میرا جانا صحیح نہیں ہے؛ مگر یہ کہ تم میرا جانشین بنے رہو۔‘‘

ان عبارتوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر مدینے میں کوئی دوسرا ہرگز جانشین پیغمبر کے طور پر نہیں رہ سکتا تھااور صرف آنحضرت (ص) یا حضرت امیر المؤمنین(ع) ہی مدینے کے امور کی دیکھ بھال کر سکتے تھے۔

واضح رہے کہ اس وقت مدینے پر ایک خاص فضا حاکم تھی اور منافقین سازشوں کے ایسے جال بچھا رہے تھے کہ کوئی بھی صحابی ان سازشوں کا مقابلہ کرکے انہیں ناکام بنانے کی قدرت و صلاحیت نہیں رکھتا تھا ۔ اس کام سے صرف دو افراد : پیغمبر اکرم (ص) یا حضرت امیر المؤمنین(ع)ہی عہدہ بر آ ہو سکتے تھے۔

۸۶

واقعاً اگر ( بقول ابن تیمیہ) یہ جانشینی ، حضرت امیر المؤمنین(ع) کے لئے کوئی فضل و رتبہ ثابت نہیں کرتی ؛ بلکہ حضور اکرم (ص) کی پہلی جانشینیوں سے بے وقعت اور بے اہمیت ہے تو عمر اپنے لئے اس مقام اور جانشینی کی آرزو کیوں کیا کرتا تھا؟ کیوں سعد بن ابی وقاص کے دل میں اس مقام تک پہنچنے کی حسرت تھی؟

۲ ۔ ابن تیمیہ کا یہ کہنا کہ ’’ علی(ع) اس حالت میں پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں آئے کہ ان کی دونوں آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ ‘‘ سراسر جھوٹ ہے۔ امیر المؤمنین(ع) کا رونا اس وجہ سے نہ تھا کہ پیغمبر (ص) نے آپ(ع) کو عورتوں اور بچوں کے درمیان چھوڑا تھا؛ بلکہ اس وجہ سے تھا کہ آپ(ع) اس جنگ میں شریک نہ ہو سکتے تھے ؛ نیز منافقین کی جانب سے سنی گئی دل دکھانے والی باتیں بھی رونے کا سبب بنی تھیں۔

دوسری بات یہ کہ امیر المؤمنین(ع) نے فرمایا:’’أ تخلّفنی فی النساء و الصبیان ‘‘ کیا آپ (ص) مجھے عورتوں اور بچوں میں اپنا جانشین بنا رہے ہیں؟ یہ بات آپ(ع) نے اس وقت فرمائی تھی جب رسول اللہ (ص) جنگ کے لئے مدینہ سے باہر نہ گئے تھے؛ لیکن آپ(ع) نے گریہ اس وقت کیا جب مدینے سے نکلنے کے بعد آپ(ع) پیغمبر اکرم (ص) سے ملاقات کے لئے آئے تھے جس کی وجہ بھی منافقین کی باتیں اور افواہیں ہی تھیں نہ کہ آپ(ع) نے اس جانشینی کو بے وقعت سمجھا ہو۔ اس لحاظ سے ابن تیمیہ کا یہ کہنا کہ ’’ علی(ع) نے جب خود کو عورتوں اور بچوں کے درمیان خلیفہ بنتے دیکھا تو اعتراضاً گریہ کیا۔ ‘‘ امیر المؤمنین(ع) کی نسبت بہت بڑی ناروا تہمت اور افتراء ہے۔

۸۷

۳ ۔ ابن تیمیہ نے پیغمبر اکرم (ص) سے ایک حدیث نقل کی ہے جس میں آنحضرت (ص) نے ابوبکر کو حضرت ابراہیم(ع) سے اور عمر کو حضرت نوح (ع) سے تشبیہ دی ہے۔ اس نے مذکورہ حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ یہ حدیث صحیح بخاری اور مسلم میں نقل ہوئی ہے۔

اس سے بڑھ کر واضح جھوٹ اور کیا ہو سکتا ہے؟ ؛ کیونکہ صحیح بخاری اور مسلم آپ کی دسترس میں ہے، دیکھیں کیا کوئی ایسی حدیث ان دونوں کتابوں میں ہے؟!

اس بات کی شاہد ، ’’منہاج السنۃ‘‘ کی نئی اشاعت ہے جو ڈاکٹر محمد رشاد سالم کی تحقیق کے ساتھ ۹ جلدوں میں سعودی عرب سے شائع ہوئی ہے۔ اس کے متن کو ملاحظہ کرکے ابن تیمیہ کا اس حدیث سے استدلال اور اس کی صحیحین کی طرف نسبت کو مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ اس کتاب کا محقق ، ابن تیمیہ کی بات کے نیچے حاشئے میں لکھتا ہے:

یقینا یہ حدیث فقط ’’ مسند احمد ‘‘ میں نقل ہوئی ہے اور مسند کے محقق، شیخ احمد شاکر کا کہنا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔

یہ حدیث احمد بن حنبل کی کتاب ’’مناقب الصحابہ‘‘ میں بھی مذکور ہے جو حال ہی میں سعودی عرب سے دو جلدوں میں شائع ہو چکی ہے۔ اس کے محقق نے بھی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد حاشئے میں لکھا ہے کہ اس حدیث کی سند ضعیف ہے۔

۸۸

نتیجہ یہ ہوا کہ صحیح بخاری اور مسلم میں اس حدیث کا کوئی وجود نہیں ہے تاکہ ان دونوں میں مذکور ’’ حدیث منزلت‘‘ سے تعارض کر سکے اور جن کتابوں میں اس کا وجود ہے ان کے محققین نے اس کے ضعیف ہونے کی تصریح کر دی ہے۔

شاید ابن تیمیہ نے یہ سوچا بھی نہ ہوگا کہ کوئی محقق اس کی کتاب کو پڑھ کر صحیح بخاری اور مسلم کے ساتھ اس کا مقائسہ کرے گاپھر اس کی دھوکہ دہی اور جھوٹ کا بھانڈا پھوڑ دے گا۔

ابن تیمیہ نے اپنی اس عبارت میں حضرت امیر المؤمنین(ع) کی ذات گرامی پر جو طعنہ زنی کی ہے اور جو ناروا باتیں آپ(ع) کے حق میں روا رکھی ہیں، ہم ان کے بارے میں کچھ کہے بغیر اس کے جواب کو اللہ پر چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ بہترین حاکم اور فیصلہ کرنے والا ہے۔

اعور واسطی کا نظریہ

ابن تیمیہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اعور واسطی نے بھی شیعوں کی ردّ میں بہت ساری باتیں لکھی ہیں۔ یہ اہل سنت کے ہاں ، یوسف اعور واسطی کے نام سے مشہور ہے۔ شیعوں کی ردّ میں لکھے گئے ایک رسالے میں یہ پلید ناصبی لکھتا ہے: اگر مان لیا جائے کہ حدیث منزلت سے مقام خلافت ثابت ہوتا ہے تو اس میں فتنہ و فساد کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آئے گا؛ کیونکہ ہارون(ع) کی خلافت کے دوران فتنہ و فساد اور مؤمنین کے مرتد ہونے کے سوا کچھ نہیں تھا، اس زمانے میں بنی اسرائیل گوسالہ پرست ہوگئے ۔ اسی طرح علی(ع) کی خلافت کے دوران فتنہ و فساد اور جمل و صفین میں مسلمانوںکے قتل کے سوا کچھ اور پیش نہ آیا۔ [!]

کیا اس کو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ ہارون(ع) کی خلافت کے دوران بنی اسرائیل کا گوسالہ پرستی کرنا ، ہارون کی خلافت و جانشینی سے کوئی تعلق نہیں رکھتا ؟

۸۹

بالفرض اس کی بات کو مان لیا جائے تو پیغمبروں کی پیغمبری کے دوران ہونے والی تمام خرابیاں، کفر ، ظلم و ستم اور قتل و غارت جیسی برائیاں ، ان کی نبوت کے لئے عیب اور نقص شمار ہوتی ہیں؟

کیا یہ صحیح ہے کہ سرکشوں، مستکبروں اور جابروں کے تمام گناہوں کو مصلحین، انبیاء اور خلفائے الٰہی اپنے ذمے لیں؟ کیا اسے یہ معلوم نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی سنت ، اسلام اور ایمان کے دعویداروں کی آزمائش پر مبنی ہے ؟ تاکہ جس کے اندر کھوٹ ہے وہ ذلیل و رسوا ہوجائے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:

( أَ حَسِبَ النَّاسُ أَن یُترَْکُواْ أَن یَقُولُواْ ء َامَنَّا وَ هُمْ لَا یُفْتَنُونَ ) ۔کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اتنا کہنے سے چھوڑ دئیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور یہ کہ وہ آزمائے نہیں جائیں گے؟‘‘(۱؎)

حضرت موسیٰ کو کوہ طور پر جانا اور ہارون کو ان کا خلیفہ بننا چاہئے ؛ تاکہ معلوم ہو جائے کہ کون حضرت موسیٰ اور ان کے خدا پر واقعی ایمان رکھتا ہے اور کون فقط زبان سے ایمان کا اظہار کرتا ہے؛ لیکن اندر سے کوئی عقیدہ نہیں رکھتا۔

لیکن کیا کوئی یہ کہنے کی جرأت کر سکتا ہے کہ دورخی کرنے والوں کا کفر اور ستمگروں کا ستم، ہارون کی خلافت میں رخنہ ڈالے گایا اس میں کوئی کمزوری پیدا کر ے گا؟

____________________

۱۔ عنکبوت: ۲

۹۰

پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد بھی اللہ تعالیٰ کی یہی سنت ایک اور انداز سے جاری ہوئی جس کے ذریعے لوگوں کی آزمائش ہوئی ؛ تاکہ ہر اس شخص کا عقیدہ طشت ازبام ہوجائے جو دل سے پیغمبر اکرم (ص) اور خدا پر ایمان نہیں رکھتا تھا؛ نیز ہر اس شخص کا باطن آشکار ہو جائے جس کے سر میں سلطنت و حکومت کا سودا سمایا ہواتھااور اس نے سلطنت ہی کی خاطر اسلام قبول کر لیا تھا۔ اس طرح وہ خلیفہ رسول کی مخالفت پر کمر بستہ ہوجائے، جنگ کے شعلے بھڑکائے اور مسلمانوں کو اس کی آگ میں جھونک دے۔

ظاہر ہے کہ کسی بھی منطق کے مطابق ظالم افراد کے ظلم وستم اور سرکش لوگوں کی نافرمانیوں کو مصلح افراد کے کھاتے میں نہیں ڈالا جا سکتا؛ لیکن اعور واسطی انتہائی ڈھٹائی اور کمال بے شرمی کے ساتھ ظالموں کے ظلم وستم، آشوب گروں کے فتنوں اور رخنہ اندازوں کی نافرمانیوں کے پیش نظر حضرت امیر المؤمنین(ع) کی خلافت پر انگلی اٹھاتا ہے اور اس کی تضعیف کرتا ہے۔

اس کے علاوہ اگر تبوک کے واقعے میں امیر المؤمنین(ع) کی جانشینی کوئی اہمیت نہیں رکھتی اور آپ(ع) کے لئے کسی مقام و مرتبے کو ثابت نہیں کرتی؛ یہاں تک کہ یہ جانشینی ، ابن ام مکتوم کی جانشینی سے بھی بے اہمیت ہے تو سارے شیعہ سنی علماء نے اس حدیث کو اتنی اہمیت کیوں دی ہے؟ کیوں مختلف زمانوں میں اس کی مختلف سندوں کو ذکر کیا اور اس کے راویوں کی تحقیق کی ہے؟ نیز کس لئے اس حدیث کی دلالت و معانی کی اتنی چھان بین کی ہے؟

اگر یہ موضوع اس قدر بے اہمیت اور یہ جانشینی تمام جانشینیوں سے پست تر تھی جو کسی تحقیق و جستجو کے بھی لائق نہ تھی تو اس حدیث کے سلسلے میں اس حد تک اہتمام کا کیا مطلب ہے؟

کیوں عمر کہتا ہے کہ اگرمیں ان خصوصیات میں سے کسی ایک کا بھی حامل ہوتا تو یہ میرے لئے ان تمام چیزوں سے زیادہ بہتر تھا جن پر سورج کی روشنی پڑتی ہے؟

۹۱

کیوں سعد بن ابی وقاص کہتا ہے کہ ان مقامات میں سے ایک میرا ہوتا تو وہ میرے لئے ہر اس چیز سے زیادہ محبوب تھا جس پر سورج طلوع کرتا ہے؟

کیوںعلی (ع) کی فضیلت بیان کرتے وقت معاویہ اسی حدیث کو بیان کرتا ہے؟

کیوں اس حدیث کو ردّ کرنے اوراس کو باطل ثابت کرنے کے لئے اتنی کوششیں ہوئی ہیں؟

فضل بن روبہان ان افراد میں سے ہے جو ہمیشہ پیغمبر اکرم (ص) کی احادیث کے سلسلے میں شیعوں کے استدلالات کو ردّ کرنے کے درپے ہوتا ہے؛ اس کے باوجود’’حدیث منزلت ‘‘کے بارے میں وہ کہتا ہے: ’’اس حدیث کے ذریعے علی(ع) کے لئے برادری، تبلیغ رسالت میں پیغمبر اکرم (ص) کی وزارت اور بعض دوسری فضیلتیں ثابت ہوجاتی ہیں۔‘‘

مذکورہ بیان کی روشنی میں دوسرے اشکال کے لئے بھی کوئی راہ باقی نہیں رہتی۔

تیسرے اشکال کا جواب

تیسرا اشکال یہ تھا کہ ’’حدیث منزلت ‘‘غزوۂ تبوک سے مختص ہے۔

جی ہاں ! اس اشکال کی گنجائش اس وقت ہوگی جب یہ حدیث صرف اور صرف جنگ تبوک کے موقع پر بیان ہوئی ہو، اور اس شان نزول کو ہم قبول بھی کرلیں ؛ نیز یہ شان نزول حدیث کے اسی مورد کے ساتھ مختص ہونے کا سبب بھی بن جائے۔

لیکن معاملہ ایسا نہیں ہے؛ کیونکہ پیغمبر اکرم (ص) نے ’’حدیث ثقلین‘‘ اور ’’ حدیث غدیر‘‘ کی طرح ’’ حدیث منزلت‘‘ کو بھی بہت سی جگہوں پر مختلف مواقع میں بیان فرمایا ہے۔ اہل سنت کی کتابیں سب کی دسترس میں ہیں، آزاد فکر اور منصف مزاج محقق ان روایتوں کوملاحظہ کر سکتے ہیں جن میں سے بعض کو ہم آنے والے حصے میں بیان کریں گے۔

۹۲

چھٹا حصہ:

وہ مواقع جہاں حدیث منزلت بیان ہوئی

۹۳

وہ مواقع جہاں حدیث منزلت بیان ہوئی

پیغمبر اکرم (ص) نے بہت ساری جگہوں پر مختلف مناسبتوں سے حضرت امیر المؤمنین(ع) کی شان میں ’’حدیث منزلت‘‘ بیان فرمائی ہے۔ یہاں پر ہم اختصار کے ساتھ چند موارد کی طرف اشارہ کریں گے:

۱۔ اصحاب کی اخوت کے موقع پر

اصحاب پیغمبر کی باہمی اخوت اور برادری کا موقع وہ ابتدائی موقع ہے جہاں پر رسول اللہ (ص) نے حدیث منزلت بیان فرمائی۔

ابن ابی اوفیٰ کا کہنا ہے کہ جب رسول اللہ (ص) نے ، ابوبکر اور عمر سمیت، تمام اصحاب کو آپس میں بھائی بھائی بنایا تو علی(ع) نے عرض کیا:

’’ یا رسول اللّٰه! ذهب روحی وانقطع ظهری حین رأیتک فعلت ما فعلت بأصحابک غیری، فان کان هذا من سخط عَلَیّ فلک العتبی والکرامة ۔ اے رسول خدا (ص)! میری جان نکل گئی اور میری کمر ٹوٹ گئی جب میں نے دیکھا کہ آپ (ص) نے میرے علاوہ اپنے تمام اصحاب کو آپس میں ایک دوسرے کا بھائی بنادیا ہے۔ اگرآپ (ص) نے مجھ سے ناراضگی کی وجہ سے ایسا کیا ہے تو آپ (ص) کو ہی حق حاصل ہے کہ میری سرزنش کریں یا بزرگواری فرمائیں۔‘‘

۹۴

اس وقت حضور اکرم (ص) نے فرمایا:

" والّذی بعثني بالحقّ! ما أخّرتک الاَّ لنفسي، و أنت منّي بمنزلة هارون من موسیٰ غیر أنّه لا نبيّ بعدی، وأنت أخي و وارثي" اس خدا ک ی قسم جس نے مجھے مبعوث فرمایا! میں نے تمہیں صرف اپنے لئے انتخاب کیا ہے اور تم میرے لئے ایسے ہو جیسے موسیٰ کے لئے ہارون، مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تم میرے بھائی اور وارث ہو۔ ‘‘

حضرت علی(ع) نے عرض کیا:

’’ما أرث منک یا رسول اللّٰه" اے اللہ کے رسول (ص) ! میں آپ (ص) سے کیا میراث پاؤں گا؟‘‘

پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:

’’ ما ورّث الأنبیاء من قبلي " ۔ وہ ی کچھ جو مجھ سے پہلے والے انبیاء نے ورثے میں چھوڑا ہے۔‘‘

حضرت علی(ع) نے دوبارہ سوال کیا:

’’ما ورّث الأنبیاء من قبلک" آپ (ص) سے پہلے انبیاء نے ورثے میں کیا چھوڑا؟‘‘

حضور (ص) نے فرمایا:

’’کتاب ربّهم و سنّة نبیّهم وأنت معي في قصري في الجنّة مع ابنتي و أنت أخي و رفیقي " ۔ان کے پروردگار کی کتاب اور پیغمبر کی راہ روشن۔ تم جنت میں میرے قصر میں میری بیٹی فاطمہ سمیت میرے ساتھ ہوں گے اور تم میرے بھائی اور رفیق ہو۔‘‘

۹۵

پھر حضور اکرم (ص) نے اس آیت کی تلاوت فرمائی:

( إخْوَانًا عَلیَ سُرُرٍ مُّتَقَبِلِین ) ۔وہ برادرانہ طور پر تختوں پر آمنے سامنے بیٹھے ہوںگے۔‘‘(۱؎)

اس روایت کو حافظ جلال الدین سیوطی نے’’ الدر المنثور‘‘ میں درج ذیل آیت کی تفسیر میں نقل کیا ہے :

( اللَّهُ یَصْطَفِی مِنَ الْمَلَئکَةِ رُسُلًا وَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ سَمِیعُ بَصِیر ) ۔اللہ فرشتوں اور انسانوں میں سے پیغام پہنچانے والے منتخب کرتا ہے اللہ یقینا خوب سننے والا، خوب دیکھنے والا ہے۔‘‘(۲؎)

اس آیت مجیدہ اور اس مذکورہ حدیث کا تناسب قابل توجہ ہے۔ سیوطی نے اس حدیث کو بغوی، باوردی، ابن قانع، طبرانی اور ابن عساکر سے نقل کیا ہے۔(۳؎) ’’الریاض النضرة في مناقب العشرة المبشرة‘‘ (۴؎) اور احمد بن حنبل کی کتاب ’’مناقب علی(ع)‘‘(۵؎) میں بھی یہ حدیث نقل ہوئی ہے۔ متقی ہندی نے بھی کنز العمال میں اس حدیث کو مناقب سے نقل کر کے ذکر کیا ہے۔(۶؎)

____________________

۱۔ حجر: ۴۷

۲۔ حج: ۷۵

۳۔ الدر المنثور: ۶/ ۷۶۔۷۷

۴۔ الریاض النضرۃ :۳/ ۱۸۲

۵۔المناقب: ۱۴۲، حدیث ۲۰۷

۶۔ کنز العمال: ۹/ ۱۷۶، ح ۲۵۵۵۴و ۳/۱۰۵، ح۳۶۳۴۵

۹۶

۲ ۔حسنین(ع) کی ولادت کے موقع پر

دوسرا موقع ، جہاں رسول اللہ (ص) نے ’’حدیث منزلت‘‘بیان فرمائی ،وہ حضرت امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) کی ولادت کا موقع ہے۔

ملا علی قاری اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: جابر بن عبد اللہ انصاری ؓ نے ایک حدیث کے ضمن میں کہا کہ حضرت امام حسن(ع) کی ولادت کے وقت پیغمبر اکرم (ص) پر جبرئیل نازل ہوئے اور انہوں نے حکم خدا سے فرمایا:

’’انّ علیّاً منک بمنزلة هارون من موسیٰ ۔ یقینا علی(ع) ، آپ (ص) کے لئے ایسے ہیں جیسے موسیٰ کے لئے ہارون تھے۔ ‘‘(۱؎)

____________________

۱۔ وسیلۃ المتعبدین الی متابعۃ سیّد المرسلین:۵/ ۲۲۵

۹۷

۳ ۔ خطبہ غدیر خم

تیسرا موقع ، جہاں حضور اکرم (ص) نے اس حدیث کو بیان فرمایا، وہ غدیر خم کا خطبہ ہے۔ ہم نے اپنی کتاب ’’ نگاہی بہ حدیث غدیر‘‘ میں اس حدیث کو نقل کیا ہے۔

۴ ۔ مسجد کی طرف کھلنے والے دروازوں کو بند کراتے وقت

’’حدیث منزلت‘‘ بیان ہونے والے مواقع میں سے چوتھا موقع ، مسجد نبوی (ص) کی طرف کھلنے والے دروازوں کو بند کرانے کا ماجرا ہے۔ ہم نے اس ماجرا کے بارے میں کی گئی اپنی ایک تحقیق میں اس حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے۔ روایت یوں بیان کی گئی ہے:

’’ وانّ علیّاً منّي بمنزلة هارون من موسیٰ ۔ بے شک علی(ع) میرے لئے وہی ہیں جو موسیٰ کے لئے ہارون تھے۔ ‘‘

فقیہ مغازلی نے ’’ مناقب امام علی(ع)‘‘ میں اس روایت کو نقل کیا ہے۔(۱؎)

____________________

۱۔ مناقب امام علی(ع)، ابن مغازلی: ۲۵۵۔ ۲۵۷

۹۸

۵ ۔عمر بن خطاب کا تقاضا

پانچواں موقع وہی ہے جہاں پر عمر بن خطاب نے کہا تھا:’’ کفّوا عن ذکر علیّ ‘‘ علی(ع) کے بارے میں کوئی بات نہ کریں۔۔۔

اس واقعے کو ہم گزشتہ اوراق میں مختلف مصادر سے نقل کر چکے ہیں۔

۶ ۔ دختر حمزہ کے ماجرا میں

’’حدیث منزلت‘‘ کے بیان کا چھٹا موقع ، سید الشہداء حضرت حمزہ(ع) کی بیٹی کا واقعہ ہے۔ یہ واقعہ کچھ اس طرح ہے:

جب جناب حمزہ(ع) کی بیٹی مکے سے مدینے کو آئیں تو حضرت امیر المؤمنین(ع)، جعفر اور زید کے درمیان اس کی کفالت و سرپرستی کے بارے میں اختلاف ہوگیا اور بات پیغمبر اکرم (ص) تک پہنچائی گئی تاکہ آپ (ص) اس بارے میں فیصلہ فرمائیں۔ پیغمبر اکرم (ص) نے حضرت امیر المؤمنین(ع) سے فرمایا:

’’امّا أنت یا عليّ! فأنت منّي بمنزلة هارون من موسیٰ الاَّ النّبوّة ۔ مگر تم اے علی(ع)! تم میرے لئے وہی منزلت رکھتے ہو جو موسیٰ کی لئے ہارون رکھتے تھے، سوائے مقام نبوت میں۔ ‘‘

اس روایت کوابن عساکر نے تاریخ مدینۃ دمشق(۱؎) میں، احمد بن حنبل نے اپنی کتاب مسند(۲؎) میں اور بیہقی نے السنن الکبریٰ(۳؎) میں نقل کیا ہے۔ ان کے علاوہ دوسرے مصادر میں بھی یہ روایت نقل ہوئی ہے۔

____________________

۱۔ تاریخ مدینۃ دمشق: ۱/ ۳۶۸، حضرت علی(ع) کے حالات زندگی، حدیث ۴۰۹

۲۔ مسند احمد : ۱/ ۱۸۵، حدیث ۹۳۳

۳۔ السنن الکبریٰ: ۸/۶

۹۹

۷ ۔ جابر کی ایک حدیث

ساتواں موقع ، جابر بن عبد اللہ انصاری کی ایک حدیث ہے۔ وہ کہتے ہیں : ہم مسجد میں سوئے ہوئے تھے کہ پیغمبر اکرم (ص) تشریف لائے اور یوں فرمایا:

’’أترقدون بالمسجد؟ انّه لا یرقد فیه ۔ کیا تم لوگ مسجد میں سوتے ہو؟ مسجد سونے کی جگہ نہیں ہے۔ ‘‘

حضور اکرم (ص)کے ساتھ حضرت علی(ع) بھی تھے،آنحضرت (ص) نے ان کی طرف رخ کر کے فرمایا:

’’تعال یا علي! انّه یحلّ لک في المسجد ما یحلّ لي أما ترضی أن تکون منّي بمنزلة هارون من موسیٰ الاَّ النبوّة ! ۔ اے علی(ع) قریب آجاؤ! جو کچھ مسجد میں میرے لئے حلال ہے وہی تمہارے لئے بھی روا ہے۔کیا تم راضی نہیں ہو کہ میرے لئے ایسے رہو جیسے موسیٰ کے لئے ہارون تھے، سوائے مقام نبوت میں؟!‘‘

۱۰۰