پانچویں مجلس
رسول اکرم(ص)اورعلی کےمشترکات( ۲)
اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:
(
فَقُلْ تَعالَوْا نَدْعُ أَبْناءَنا وَأَبْناءَكُمْ وَ نِساءَنا وَ نِساءَكُمْ وَ أَنْفُسَنا وَ أَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكاذِبين
)
سورہ آل عمران، آیة ۶۱ ۔
ان سےکہہ دیجئےکہ آؤ ہم لوگ اپنےاپنےفرزند، اپنی اپنی عورتوں اوراپنےاپنےنفسوں کو بلائیں اورپھرخدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں۔
رسول اکرم(ص) ارشاد فرماتے ہیں :
إِنَّكَ تَسْمَعُ مَا أَسْمَعُ وَ تَرَى مَا أَرَى
بحار، ج۱۴، ص۴۷۶۔
گذشتہ بحث میں ہم نےکہا کہ جب ہم متفقہ احادیث۔جن کو اہل سنت نےبھی نقل کیاہےاورانکےمعتبرکتابوں میں بھی ہیں۔ کی طرف مراجعہ کرتےہیں تواس نتیجہ پرپہنچتے ہیں کہ علی تمام صفات، خصوصیات اورکمالات میں خاتم النبیین حضرت محمدکےبرابر ہیں سوائےظاہری نبوت کے۔
یہاں ان دو عظیم ہستیوں کےاشتراکات کےمزید رخو ں کو بیان کرتے ہیں
قدرت بینائی اورشنوائی
حضرت علی (ع)خطبہ قاصمہ میں فرماتے ہیں:
وَ قَدْ عَلِمْتُمْ مَوْضِعِي مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ص بِالْقَرَابَةِ الْقَرِيبَةِ وَ الْمَنْزِلَةِ الْخَصِيصَةِ
نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۹۲
تمہیں معلوم ہےکہ رسول اکرم(ص)سےمجھے کس قدر قریبی قربت اورمخصوص منزلت حاصل ہے۔
وَضَعَنِي فِي حِجْرِهِ وَ أَنَا وَلِيدٌ؛
انہوں نےبچپنےسےمجھے اپنی گود میں رکھا۔ یعنی جلوت اور خلوت میں، خواب اور بیداری میں مجھے اپنےساتھ رکھا یہاں تک کہ فرماتے ہیں علی کا گھوارہ میرےنزدیک رکھو، جب غار حرا میں جاتے تھے مجھے بھی ساتھ لے جاتے تھے، میرے کپڑے دھوتے تھے اور مجھے اپنےہاتھوں سےدودہ پلاتے تھے۔
کشف الغمہ، ج ۱ ، ص ۹ ۔
يَضُمُّنِي إِلَى صَدْرِهِ ؛
بچپنےسےمجھے اپنےسینےسےلگائے رہتے تھے، اپنےکلیجہ سےلگا کر رکھتے تھے ۔وَ يُشِمُّنِي عَرْفَهُ
؛مجھے مسلسل اپنی خوشبو سےسرفراز فرمایا کرتے تھے ۔
وَ كَانَ يَمْضَغُ الشَّيْءَ ثُمَّ يُلْقِمُنِيه؛
غذا کو اپنےدانتوں سےچباکرمجھے کھلاتے تھے، پھر فرمایا: میں کبھی بھی پیغمبرسےجدا نہیں ہوا جس طرح بچہ اپنی ماں سےجدانہیں ہوتا،ہمیشہ رسول اللہ کےساتھ ہوتا تھا، مجھےحکم دیتے تھےکہ میری پیروی کرو۔
اس طرح کی احادیث اور روایات میں وارد ہوا ہےکہ جب پہلی بار رسول اللہ پر وحی نازل ہوئی تو حضرت علی (ع)بھی وہاں تھے اور جبرائیل کی آواز سن رہےتھے کیونکہ فرمایا:
أَرَى نُورَ الْوَحْيِ وَالرِّسَالَةِ وَ أَشُمُّ رِيحَ النُّبُوَّةِ؛
بحار، ج ۱۴ ، ص ۴۷۶
میں نور وحی اور رسالت کا مشاہدہ کررہاتھا اورخوشبوئےرسالت سےدماغ کومعطرکررہا تھا۔ یعنی جب جبرائیل نازل ہوئےتھےمیں جبرائیل کےجملات سنتا تھا یا یہ جو فرمایا:
وَ لَقَدْ سَمِعْتُ رَنَّةَ الشَّيْطَانِ؛
میں نےنزول وحی کےوقت شیطان کی چیخ سنی تھی اور عرض کی تھی یا رسول اللہ یہ چیخ کیسی ہے؟ حضرت نےفرمایا : یہ شیطان ہےجوآج اپنی عبادت سےمایوس ہوگیاہےپھرفرمایا:
إِنَّكَ تَسْمَعُ مَا أَسْمَعُ وَ تَرَى مَا أَرَى إِلَّا أَنَّكَ لَسْتَ بِنَبِيٍّ وَ لَكِنَّكَ وَزِيرٌ وَ إِنَّكَ لَعَلَى خَيْر؛
نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۹۲ ۔
تم وہ سب دیکھ رہےہو جو میں دیکھ رہا ہوں وہ سب سن رہےہو جو میں سن رہا ہوں فرق صرف یہ ہےکہ تم نبی نہیں ہو لیکن تم میرے وزیر بھی ہو اور منزل خیر پر بھی ہو۔
یہ مسائل کس زمانےمیں واقع ہوئے؟ اس زمانےمیں جب مولا کی عمر دس سال سےزیادہ نہ تھی اور اس وقت ظاہری امامت تک بھی نہیں پہنچے تھے (اگرچہ باطن میں امام تھے) یہاں اس بات کا ذکر کرنا بھی لازمی ہےکہ ہمارا عقیدہ ہےکہ آئمہ کا رحم مادر میں آنےسےپہلے اور بعد والے حالات میں فرق نہیں ہےایسا نہیں ہےکہ کثرت سےعبادت کر کےنفس سےمقابلہ کر کےکمالات تک پہنچے ہوں ۔ اس بنا پر کہا جا سکتا ہےکہ حضرت علی (ع)کی قوت بینائی اور شنوائی رسول اللہ کےبرابر تھی۔
چہاردہ معصومین کی بینائی وہی خداکی بینائی ہے
رسول اکرم(ص) اور آئمہ کی بینائی اور نظر کہاں تک کام کر سکتی ہے؟
خداوند متعال قرآن میں فرما رہا ہے:
(
وَ قُلِ اعْمَلُوا فَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَ رَسُولُهُ وَ الْمُؤْمِنُون
)
سورہ توبہ، آیت ۱۰۵
اورپیغمبر کہہ دیجئےکہ تم لوگ عمل کرتےرہو کہ تمہارےعمل کو اللہ، رسول اورصاحبانِ ایمان سب دیکھ رہےہیں۔
یعنی جس طرح خدا جانتا اور دیکھتا ہےپیغمبراورآئمہ بھی اسی کیفیت میں جانتے اور دیکھتے ہیں بہرحال خدا، رسول اور آئمہ میں کس چیز میں فرق ہے؟ اس سوال کا جواب امام زمانہ نےماہ رجب کی دعا میں دیا ہے۔
لَا فَرْقَ بَيْنَكَ وَ بَيْنَهَا إِلَّا أَنَّهُمْ عِبَادُكَ وَ خَلْقُكَ فَتْقُهَا وَ رَتْقُهَا بِيَدِك
اقبال الاعمال، ج ۳ ، ص ۲۱۴ ؛ مفاتیح ماہ رجب میں روزانہ پڑہی جانےوالی پانچویں دعا
خدایا تم میں اور ان میں کوئی فرق نہیں ہےسوائے اس کہ وہ تیر لائق بندے ہیں ان کےسب امور تیرے دست قدرت میں ہیں یعنی خدایا تو نےاپنی قدرت، اپنا علم، اپنی رحمت، اپنےاسما اور تمام کائنات آئمہ کےہاتھ میں دے دی ہےتیرا ان سےفرق یہ ہےکہ تویہ سب کچھ ذاتارکھتاہےذاتا توبےنیازہےلیکن وہ غنی بالعرض تیری وجہ سےبےنیازہیں یعنی
یدالله، عین الله، ولی الله، علم الله، رحمه الله
وغیرہ ہیں
اگرقرآنی آیت بیان کرتی ہےکہ خداوندمتعال قیامت کےدن لوگوں سےملاقات کرےگا یعنی آئمہ سےملاقات کریںگے۔ اگرروایت کہتی ہےکہ شہید وجہ اللہ کی طرف دیکھے گا یعنی امیرالمومنین اورآئمہ معصومین کودیکھےگا؛ کیونکہ امام صادق(ع) فرماتے ہیں:
نحن وَجْهُ اللَّهِ؛
بحار، ج ۲۴ ، ص ۱۹۲
ہم ہی وجہ اللہ ہیں۔ یا یہ جو ہم دعا ندبہ میں پڑھتے ہیں:
أَيْنَ وَجْهُ اللَّهِ الَّذِي يَتَوَجَّهُ إِلَيْهِ الْأَوْلِيَاء؛
کہاں ہیں وجہ اللھ جس کی طرف اولیا توجہ کرتے ہیں پس وجہ اللھ معصوم امام ہیں۔
اگر قرآنی آیت کا کہنا یہ ہےکہ :
(
إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ راجِعُون
)
سورہ بقرہ، آیت۱۵۶.
ہم اللہ ہی کےلئے ہیں اور اسی کی بارگاہ میں واپس جانےوالے ہیں۔
تمام انسان خدا کی طرف لوٹ جائینگے یعنی آئمہ کی طرف لوٹ جائینگے اگر یہ کہا جاتا ہےکہ خداوند متعال کل قیامت کےدن مخلوق کا حساب کتاب کرے گا یہ بھی اس معنی میں ہےکہ آئمہ معصومین مخلوق کا حساب کتاب کریں گے ان تمام مطالب کو آپ زیارت جامعہ میں زبان پر جاری کرتے ہیں۔ و ایاب الخلق الیکم و حسابہم علیکم۔ اس بنا پر رسول اللہ کا دیکھنا خود خدا کا دیکھنا ہے۔
بحث کو مکمل کرنےکیلئے چند روایات کی طرف اشارہ کرتے ہیں: امام صادق (ع) فرماتے ہیں:
مَا لَكُمْ تَسُوءُونَ رَسُولَ اللَّهِ؛
مستدرک الوسائل، ج ۱۲ ، ص ۱۶۳ ۔
تمہیں کیا ہو گیا ہےکہ رسول اللہ کو ستاتے ہو؟اصحاب نےعرض کی: رسول اللہ تورحلت فرما چکےہیں ہم انہیں کس طرح ستا سکتے ہیں، اذیت دے سکتے ہیں؟ حضرت نےفرمایا:یہ نہ سمجھو کہ رسول خدا کی حیات و موت میں فرق ہےجس طرح اس دنیا میں تھے اور تمھارے اعمال انکےسامنےپیش ہوتے تھے، رحلت کےبعد بھی تمھارے اعمال ان کےسامنےپیش ہوتے ہیں، وہ تمہارے اعمال کو دیکھ رہےہیں ۔ اگر تمہارےعمل نیک اور اچھے ہوں تو خوشحال ہوتے ہیں اور تمھارے لئے دعا کرتے ہیں اگر تم نےگناہ کیا تو وہ غمگین ہوتے ہیں اور تمہارے لئے استغفار کرتے ہیں۔
دوسری روایت میں رسول اکرم(ص) فرماتے ہیں:
حَيَاتِي خَيْرٌ لَكُمْ وَ مماتِي خَيْرٌ لَكُم؛
بحار، ج ۲۲ ، ص ۵۵۰
میری زندگی بھی تمہارے لئےبھلی ہےمیری موت بھی تمہارے لئے بھلی ہے۔ اصحاب نےعرض کیا : یارسول اللہ آپ کی زندگی ہمارے لئے بھلی ہےکیونکہ کہ قرآن میں ارشاد ہواہے:
(
وَ ما كانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَ أَنْتَ فيهِم
)
سورہ انفال، آیت۳۳
حالانکہ اللہ ان پر اس وقت تک عذاب نہ کرے گا جب تک پیغمبر آپ ان کےدرمیان ہیں۔
روایات میں آیا ہے:
وَ ما كانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبهمْ وَ الآئمه المعصومون فهم
معانی الاخبار، ص۳۴
جب تک آئمہ معصومین لوگوں کےدرمیان ہیں خدا ان پر عذاب نہیں کرے گا۔اس کا تو ہمیں پتا ہےلیکن آپ کی موت ہمارے لئے کیسےبھلی ہے؟ حضرت نےفرمایا:کیونکہ تمہارے اعمال برزخ میں میرے پاس پہنچیں گے میں اپنےاور اپنےاہل بیت کےچاہنےوالوں کیلئے استغفار کروں گا۔
باوجود اس کےکہ حضرت اپنی جماعت میں شریک ہونےوالے لوگوں کو فرماتے تھے:
لا ترفعوا قبلی و لا تضعواقبلی
؛
رکوع میں مجھ سےپہلےنہ جاؤ،مجھ سےپہلےسرنہ اٹھاؤ وہ سرگوشیاں کرنےلگےکہ کس نےرسول کوبتایاہے؟پیغمبراکرم نےفرمایا:
إِنِّي أَرَاكُمْ مِنْ خَلْفِي كَمَا أَرَاكُمْ مِنْ بَيْنِ يَدَي
بحار، ج ۸۵ ،ص ۱۰۰
جس طرح میں اپنےآگےدیکھ سکتہوں اپنےپیچھے بھی دیکھ سکتا ہوں۔ رسول اللہ کی قوت شامہ سونگھنےکی قوت بھی ایسی تیز تھی کہ اویس قرنی کےآنےاور جانےکےبعد جب گھر میں تشریف لائے تو فرمایا: میں خدائے رحمان کی خوشبو محسوس کر رہا ہوں، یہ خوشبو اس فرد سےآرہی ہےجو یمن میں سےآیا تھا
فیض الغدیر، ج ۴ ، ص ۱۷۰ ۔
اوراس خدائی خوشبو کومیرےگھرمیں لے آیا۔یہ سب کچھ حضرت علی(ع)اورآئمہ معصومین کےپاس بھی ہےجیساکہ فرمایا:
یا علی انک تسمع ما اسمع
۔
اور فرمایا:
إِنَّهُمْ مِنِّي وَ أَنَا مِنْهُم؛
الغدیر، ج ۲ ، ص ۳۰۳ ۔
وہ مجھ سےہیں اور میں ان سےہوں یعنی آئمہ، رسول سےہیں، رسول کی جان و نفس شمار ہوتے ہیں ۔ جب رسول کی جان و نفس شمار ہوں تو اس وقت رسول اللہ کا باطن اور آپ کی صفات کی حقیقت بھی آئمہ میں آ جائے گی یعنی جس طرح رسول اللہ دیکھ سکتے ہیں ،سن سکتے ہیں، محسوس کر سکتے ہیں وہ بھی دیکھ سکتے ہیں ،سن سکتے ہیں۔ اگر ہمارے اعمال دنیا و آخرت میں رسول اللہ سےپوشیدہ نہیں تو آئمہ سےبھی پوشیدہ نہیں رہیں گے۔
امام صادق (ع) فرماتے ہیں:
لَا يَسْتَكْمِلُ عَبْدٌ الْإِيمَانَ حَتَّى يَعْرِفَ أَنَّهُ يَجْرِي لآِخِرِهِمْ مَا يَجْرِي لِأَوَّلِهِم؛
الاختصاص، ص ۲۲ ۔
کسی بھی بندےکاایمان مکمل نہیں ہوگایہاں تک کہ وہ یہ عقیدہ رکھےکہ رسول اکرم(ص)کےتمام کمالات(سوائے نبوت کے)آئمہ معصومین میں بھی ہیں۔اگررسول اکرم(ص)چاندکےدوٹکڑےکرسکتےہیں اورمعجزہ دکھاسکتےہیں توامیرالمومنین(ع)بھی سورج سےبات کرواسکتے ہیں، اس واقعہ میں آپ کےساتھ آپ کےدشمن بھی موجودتھےجب آپ نےسورج پرسلام کیا،
السَّلَامُ علیكَ يَا خَلْقَ اللَّهِ الْجَدِيدَ الْمُطِيعَ لَه ؛
بحار، ج ۴۱ ، ص ۱۸۰ ۔
سلام ہو تم پراےخدا کی نئی اورمطیع مخلوق اورسورج نےجواب دیا:
وَ علیكَ السَّلَامُ يَا أَوَّلُ يَا آخِرُ يَا ظَاهِرُ يَا بَاطِن؛
آپ پر بھی سلام ہو اےاول اورآخر، اے ظاہراوراے باطن۔
اس کی سادہ معنی یہ ہےکہ سلام ہوتم پر اے ابوالحسن، اے جہان آفرینش کی پہلی مخلوق، اے وہ آخری مخلوق جس کےبعد قیامت آئے گی، اے وہ جو رسول اللہ کےساتھ ظاہر میں اور تمام انبیا کےساتھ باطن میں ساتھ رہے۔ یعنی وہی بات جو رسول اللہ نےامیرالمومنین (ع) کو فرمائی تھی:اے علی تو تمام انبیا کےساتھ باطن میں اور میرے ساتھ ظاہر میں رہاہے۔
القطرہ من بحار النبی والعترہ، ص ۱۸۸ ۔
پیغمبراورامام علی میں خداکی تجلی
امام صادق (ع)، امیرالمومنین (ع) کی زبانی فرما رہےہیں :
وَ لَقَدْ حُمِّلْتُ عَلَى مِثْلِ حَمُولَتِهِ وَ هِيَ حَمُولَةُ الرَّب ؛
بحار، ج ۲۵ ، ص ۳۵۲ ۔
یعنی خداوندمنان نےجوکمالات، ایمان،اخلاق، صفات، ہدایت اورمعاشرےکی سختیاں برداشت اورتحمل کرنےکی صفت رسول اکرم(ص) کو دی تھی وہ سب علی کو بھی دی تھی۔
روایت کی دوسری معنی یہ ہےکہ : جس طرح رسول اکرم(ص)رب دو جہاں کےمظہر ہیں اورخدانےاپنےرسول کےوجود میں تجلی کا کامل اور جامع ظہور کیا ہےاور اپنی تمام صفات اور اخلاق اور ربوبیت کو ظاہر کیا ہے، علی کےوجود میں بھی بغیر کمی و زیادتی کےوہی تجلی کی ہے۔
کیا ایسا نہیں ہےکہ جب حضرت موسی اپنی قوم کےستر افراد کو خدا کو دیکھنےکیلئے کوہ طور پر لے گئے اور پھر خدانےکوہ پر اپنی تجلی کی تو پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گیا اور ستر افراد جل گئے اور :
(
وَ خَرَّ مُوسى صَعِقا؛
)
سورہ اعراف، آیت۱۴۳.
اورموسٰی علیہ السّلام بیہوش ہوکرگرپڑے۔
حضرت موسی بےہوش ہوگئے۔ روایات میں آیاہےکہ وہ کروبین میں سےایک کی تجلی تھی جس کو وہ برداشت نہ کر پائے اور فرمایا :
الکروبین قوم من شیعتنا من الخلق الاول؛
نور الثقلین، ج ۲ ، ص ۶۴ ۔
کروبین پہلی مخلوق میں سےہمارےخالص شیعہ ہیں پس توکسطرح خود حضرت کےنورکوبرداشت کیاجاسکتاہے۔جب یمن سےایک وفد آیا اورحضرت علی(ع)کےفیصلہ کی شکایت کرنےلگاتوپیغمبراکرم نےفرمایا:
لَا تَسُبُّوا علیاً فَإِنَّهُ مَمْسُوسٌ فِي ذَاتِ اللَّهِ ؛
مناقب آل ابی طالب، ج ۳ ، ص ۲۱ ۔
علی کوبرابہلا نہ کہو وہ خدامیں فانی ہوچکاہےیعنی امیرالمومنین کی صفات اورافعال خدا کی تجلی ہیں۔ اس معنی کی تاکیدکیلئے ایک ظریف نکتے کی طرف اشارہ کرتا ہوں وہ یہ کہ لفظ رب کےابجد کےاعتبار سے ۲۰۲ عدد بنتے ہیں، محمد و علی دونوں لفظوں کی ابجد کےبھی ۲۰۲ بنتے ہیں یعنی وہ رب کےنمائندے اورمظہرہیں۔
دوسرا شاہد یہ ہےکہ خداوند متعال نےآیہ قرآنی میں ارشاد فرمایا ہے:
(
أَ لَيْسَ اللَّهُ بِكافٍ عَبْدَه
)
سورہ زمر، آیت ۳۶ ۔
کیا خدا اپنےبندوں کےلئے کافی نہیں ہے۔
دعائے فرج میں بھی ہم پڑھتے ہیں :
يَا مُحَمَّدُ يَا علی يَا علی يَا مُحَمَّدُ اكْفِيَانِي فَإِنَّكُمَا كَافِيَان؛
اے محمد، اے علی، اے علی اور اے محمد آپ دونوں ہی میرے کاموں کی میرے لئے کفایت کریں۔ ہم یہاں مستقیما اور بلا فسےکہیں وہ کفایت کرے، کیونکہ خداوندمتعال نےاپنےان نمائندوں کو امورعالم میں مکمل اختیاردےدیا ہے۔
مذکورہ اشتراکات کےعلاوہ حضرت آیت اللہ میلانی نےاپنےکتاب ،،
قادتنا کیف نعرفھم ،
میں مندرجہ ذیل مشترکات بھی بیان کئےہیں ۔
عبداللہ ہونا: جس طرح خداوندنےقرآن میں فرمایاہے:
(
وَ أَنَّهُ لَمَّا قامَ عَبْدُ اللَّه؛
)
سورہ جن، آیت۱۹۔
اور یہ کہ جب بندہ خدا عبادت کےلئےکھڑا ہوا۔
حضرت علی (ع)بھی فرماتے ہیں :
أنا عبد الله و أخو رسول الله ؛
میں بندہ خدا اور رسول اللہ کا بھائی ہوں۔
عصمت:
جس طرح خداوندمتعال نےاپنےرسول کوبت پرستی اورگناہ سےمعصوم بنایا، علی نےبھی کوئی گناہ نہیں کیاکبھی بت پرستی نہیں کی۔
سب و دشنام:
رسول اکرم(ص) نےفرمایا:
مَنْ سَبَّ علیاً فَقَدْ سَبَّنِي وَ مَنْ سَبَّنِي فَقَدْ سَبَّ اللَّهَ وَ مَنْ سَبَّ اللَّه؛
بحار، ج ۲۷ ، ص ۲۲۷ ۔
جس نےعلی کو دشنام دی اس نےمجھے دشنام دی، جس نےمجھے دشنام دی اس نےخدا کو دشنام دی۔
صاحب ہونا: اللھ تعالی نےقرٓن مجید میں رسول اللہ کو صاحب کےعنوان سےیاد کیا ہےاور فرمایا:
(
وَ ما صاحِبُكُمْ بِمَجْنُون؛
)
سورہ تکویر، آیت۲۲۲.
اورتمہاراساتھی پیغمبردیوانہ نہیں ہے۔
رسول اکرم(ص)بھی فرماتے ہیں :
یا علی انت منی و انا منک أَنْتَ أَخِي وَ صَاحِبِي؛
اے علی تم مجھ سےہو میں تم سےہوں تو میرا بھائی اور صاحب ہے۔
سیادت: جس طرح رسول اکرم(ص)سیدالمرسلین اورسیدالناس یعنی لوگوں کےسردارہیں علی کےبارےمیں فرمایاہے:
أَنْتَ سَيِّدٌ فِي الدُّنْيَا وَ سَيِّدٌ فِي الْآخِرَة؛
تو دنیا و آخرت میں آقا و سردار ہو۔
چھٹی مجلس
رسول اللہ کےنزدیک،مولا علی کا مقام
اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:
(
:فَقُلْ تَعالَوْا نَدْعُ أَبْناءَنا وَ أَبْناءَكُمْ وَ نِساءَنا وَ نِساءَكُمْ وَ أَنْفُسَنا وَ أَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكاذِبين
)
سورہ آل عمران، آیت ۶۱ ۔
ان سےکہہ دیجئےکہ آؤہم لوگ اپنےاپنےفرزند، اپنی اپنی عورتوں اوراپنےاپنےنفسوں کوبلائیں اورپھرخداکی بارگاہ میں دعاکریں اورجھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں۔
رسول اکرم(ص) ارشاد فرماتے ہیں :
علی مِنِّي بِمَنْزِلَةِ رَأْسِي مِنْ بدنی
بحار، ج ۳۸ ، ص ۳۱۹ ۔
علی کومجھ سےوہی نسبت ہےجوسرکو پورے بدن سےہے۔
حدیث منزلت کےنام سےایک حدیث ہےجوشیعہ اوراہلسنت کےدرمیان متواترحدیث ہےکوئی بھی اس روایت کوسندکےاعتبارسےردنہیں کرسکتا اس پر اعتراض نہیں کرسکتا۔ اس روایت میں رسول اکرم(ص) نےعلی کو فرمایا ہے:
أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي؛
کافی، ج ۸ ، ص ۱۰۷ ؛ صحیح مسلم، ج ۷ ،ص ۱۲۰ ۔
تیری مجھ سےوہی منزلت ہےجو ہارون کی موسی سےتھی سوائے اس کےکہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔
اس حدیث میں دو نکتے ہیں
ا۔ نسبی حوالےسےامیرالمومنین(ع)اور رسول اللہ چچا ذادبھائی ہیں،نسبی بھائی نہیں ہیں لیکن ہارون اورموسی نسبی بھائی تھے۔
۲ ۔ ہارون مقام نبوت پر فائز تھے لیکن حضرت علی(ع)ظاہری طورپرمقام نبوت نہیں رکھتے، برادری اورنبوت کےبغیر ہارون کےتمام منصب علی کےلئے ثابت ہیں۔
علی اورہارون کی شباہتیں
یہاں ہم ہارون کی حضرت موسی سےنسبت کی تحقیق کرتےہیں اورعلی کی رسول اللہ سےمنزلت کےساتھ اسکامقایسہ کرتےہیں۔
پہلی شباہت
حضرت موسی نےکیونکہ ایک آدمی کو قتل کیا تھا لھذا جب واپس فرعون کےپاس جانا چاہا تو خدا سےدرخواست کی کہ اسےشرح صدر عطا فرمائے:
(
قالَ رَبِّ اشْرَحْ لي صَدْري وَ يَسِّرْ لي أَمْري وَ احْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِساني يَفْقَهُوا قَوْلي وَ اجْعَلْ لي وَزيراً مِنْ أَهْلي هارُونَ أَخي اشْدُدْ بِهِ أَزْري
)
سورہ طہ، آیت ۲۵ تا۳۱.
موسٰی نےعرض کی پروردگار!میرےسینےکوکشادہ کردےمیرےکام کوآسان کردےاورمیری زبان کی گرہ کوکھول دےکہ یہ لوگ میری بات سمجھ سکیں اورمیرےاہل میں سےمیراوزیرقراردےدے ہارون کوجومیرابھائی بھی ہےاس سےمیری پشت کومضبوط کردے۔
یعنی خدایا ان تمام مشکلات کےمقابلے میں مجھے شرح صدر عطا فرما، میرا شرح صدر میرا بھائی ہارون ہےاگر ہارون میرے ساتھ ہوتو میں مکمل اطمینان کےساتھ فرعون کےمحل میں چلا جاؤں گا۔
خدا نےجواب میں ارشاد فرمایا:
(
قالَ قَدْ أُوتيتَ سُؤْلَكَ يا مُوسى
)
سورہ طہ آیت ۳۶
ارشاد ہوا موسٰی ہم نےتمہاری مرادتمہیں دے دی ہے۔
لیکن حضرت موسی اوررسول اللہ میں جوفرق ہےوہ یہ ہےکہ پیغمبرنےدعاءکیلئےدست بلندنہیں کئےاورخداسےشرح صدرکی درخواست نہیں کی خدانےبھی اپنےحبیب پراحسان کیااوربغیرسوال کےاسےشرح صدرعطافرمایا۔ خداوندمتعال سورہ انشراح میں رسول اکرم(ص)کو فرماتا ہے:
(
أَ لَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ وَ وَضَعْنا عَنْكَ وِزْرَكَ الَّذي أَنْقَضَ ظَهْرَكَ
)
سورہ انشراح، آیت۱ تا۳.
کیاہم نےآپ کےسینہ کوکشادہ نہیں کیا اورکیاآپ کےبوجھ کواتارنہیں لیاجس نےآپ کی کمرکوتوڑدیاتھا۔
پیغمبرکاشرح صدر کونسا تھا؟تفاسیراورروایات کی روشنی میں خداوندمنان نےعلی کےوجودسےپیغمبرکےسینےکی تنگی کودورفرمایااورحضرت کی کمر ٹوٹنےسےبچائی:
أَ لَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ بعلی؛
علی یعنی شرح صدر پیغمبر، یعنی پیغمبر کی کمر کو ٹوٹنےسےبچانےوالا یعنی پیغمبر کےاحساس سنگینی کو بر طرف کرنےوالا۔
تاویل الآیات، ص۴۵۴
سورہ انشراح میں آگے پڑھتے ہیں :
(
فَإِذا فَرَغْتَ فَانْصَبْ وَ إِلى رَبِّكَ فَارْغَبْ
)
سورہ انشراح، آیت۷،۸.
لہذا جب آپ فارغ ہوجائیں تو نصب کردیں اور اپنےرب کی طرف رخ کریں۔
یعنی جب حجت الوداع کےاعمال پورےکرچکےہوتو ؛
فانصب علیا للخلافه؛
علی کوغدیرخم پرجانشینی کیلئےمنصوب کرواس کےبعدتمہارامشن پوراہوجائےگااورہماری طرف لوٹنےکیلئےتیارہوجاؤ۔
یہاں پرحضرت علی(ع)کا رسول اللہ کیلئےشرح صدرہونےکےکچھ مواردکی طرف اشارہ کرتےہیں
رسول اکرم(ص) فرماتے ہیں:
ما قام و لا استقام دینی الا بشیئین مال خدیجة و سیف علی بن ابی طالب؛
شجرہ طوبی، ج ۲ ، ص ۲۳۳ ۔
دین اسلام کھڑانہیں ہوسکتا، اسےزندگی نہیں ملی مگردوچیزوں سےایک خدیجہ کامال دوسراعلی کی تلوار۔
دوسری روایت میں حضرت نےفرمایا:
الْخَيْرُ كُلُّهُ فِي السَّيْفِ وَتَحْتَ ظِلِّ السَّيْف؛
کافی، ج ۵ ،ص ۲
تمام نیکیاں تلوار میں اور تلوار کےسائے تلے ہیں یعنی اگر علی نہ ہوتے تمام نیکیوں کی فاتحہ پڑھی جاچکی ہوتی۔
جنگ احزاب میں
وہ کونسی تلوارہےکہ تمام نیکیاں اسکےسائےتلےہیں؟رسول اکرم(ص)نےفرمایا:
ضربة علی یوم الخندق افضل من عبادة الثقلین؛
خصال، ص ۵۷۹ ۔
جنگ احزاب میں علی کی ایک ضربت ابتدائے تخلیق سےانتھائے تخلیق تک کےانس و جن کی عبادت سےافضل ہے۔
کسی نےبھی عمرو بن عبدود سےمقابلہ کرنےکیلئے آمادگی کا اعلان نہ کیا لیکن مولا باوجود اس کےکہ عمر کےلحاظ سےجوان تھے پھر بھی آپ نےقبول کیا اور عمرو بن عبدود کو ایک ضربت سےواصل جہنم کیا۔
جنگ خیبرمیں
رسول اکرم(ص)نےجس کوبھی قلعہ فتح کرنےکیلئےبھیجا وہ ڈرکرلوٹ آیا۔حضرت نےفرمایا:
فَقَالَ لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ غَداً رَجُلًا يُحِبُّ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ وَ يُحِبُّهُ اللَّهُ وَ رَسُولُهُ كَرَّاراً غَيْرَ فَرَّارٍ لَا يَرْجِعُ حَتَّى يَفْتَحَ اللَّهُ عَلَى يَدَيْهِ؛
کافی، ج ۸ ، ص ۳۵۱ ۔
کل میں علم اسےدوں گاجوخدااوراسکےرسول سےمحبت کرتاہوگااورخدا اوراسکارسول بھی اس سےمحبت کرتےہونگےوہ جم کرحملہ کرنےوالا ہوگا، فرارنہیں کرے گا اس وقت تک نہیں لوٹے گا جب تک خدا اسےکامیابی نصیب نہ کرے۔کل سب نےدیکھاکہ رسول اکرم(ص)نےعلم علی کےہاتھ میں دیامولا علی گئےاورخیبرکےمرحب کومارکرقلعہ خیبرکوفتح کرکےآئے۔
جنگ ذات السلاسل میں
اس جنگ کو ذات السلاسل اس لئے کہتے ہیں کہ دشمنوں نےتلواروں کےخول پہن رکھے تھے کہ جو بھی دیکھ رہا تھا وہ وحشت کر رہا تھا ۔ بارہ ہزار جنگجو تھے جو کاملا مسلح تھے، سب نےوعدا کیا کہ اسلام کی فاتحہ پڑہینگے۔پیغمبر نےجسےبھی بھیجا وہ ڈر کرو اپس آگیا لیکن جب حضرت علی (ع)کو بھیجا تو مولا علی نےکتنوں کو تہہ تیغ کیا اور کچھ کو اسیر کر لیا۔ خداوند منان نےکچھ آیتیں اس جنگ کی شان میں نازل فرمائیں۔
بحار، ج ۲۱ ، ص ۶۶ ۔
(
وَ الْعادِياتِ ضَبْحاً فَالْمُورِياتِ قَدْحاً فَالْمُغيراتِ صُبْحاً فَأَثَرْنَ بِهِ نَقْعاً
)
۔
سورہ عادیات، آیت ۱ تا۴.
فراٹےبھرتےہوئےتیزرفتارگھوڑوں کی قسم جو ٹاپ مارکرچنگاریاں اڑانےوالےہیں پھرصبحدم حملہ کرنےوالےہیں پھرغبارجنگ اڑانےوالےنہیں۔
دوسری شباہت: کاموں میں آسانی
حضرت موسی نےخدا سےدرخواست کی:
وَ يَسِّرْ لي أَمْري؛
خدایا میرے کاموں کو آسان فرما ۔ خدانےبھی ہارون دےدیا تاکہ اس کےلئے آسانی ہو۔ رسول اللہ کےکاموں کی آسانی علی کےوجود سےتھی؛ کیونکہ جب بھی کوئی مصیبت رسول اللہ پر آتی تو یہ علی ہی تھے جو اسےٹال دیتے۔ مشکل کشا ئی کرنےوالے علی ہی ہوتے مثال کےطور پر جنگ احد میں جب دشمنوں نےرسول اللہ کو گھیر لیا، جبرائیل نازل ہوئے اور مولا کیلئے ذوالفقار لے آئے جس پر دو شعار لکھے تھے ایک مشھور شعار
(نعرا) لَا فَتَى إِلَّا علی لَا سَيْفَ إِلَّا ذُو الْفَقَارِ؛
بحار، ج ۲۰ ، ص ۷۳
ایک خصوصی شعارجو رسول اللہ کیلئے خطاب تھا وہ یہ تھا :
نَادِ علیاً مَظْهَرَ الْعَجَائِبِ تَجِدْهُ عَوْناً لَكَ فِي النَّوَائِب
اےمیرےحبیب،اےمیرےرسول نادعلیامظھرالعجائب،بلا علی کوجومظھرعجائب ہےتاکہ تیری مددکرے۔یاجب رسول اللہ مکہ سےباہرجاناچاہتےتھےتوامیرالمومنین کواپنی جگہ پرسلانےکیلئےانتخاب کیا۔روایت میں آتاہےکہ خداوندمنان نےجبرائیل اورمیکائیل کوفرمایا:میں نےتم دونوں میں عقداخوت پڑھاہےتم میں سےایک کی عمردوسرےسےزیادہ ہے،کون حاضرہےجواپنی عمردوسرے پرفداکرے!دونوں فرشتوں نےایک دوسرےکودیکھالیکن کوئی جواب نہیں دیاپھرخطاب ہوا: زمین میں نظر ڈالو علی کو دیکھو جو رسول اللہ کی جگہ پر سویا ہوا ہےان دونوں کےدرمیان بھی عقد اخوت پڑھا گیا ہے۔
بحار، ج ۳۶ ، ص ۴۳ ۔
تیسری شباہت: جانشینی
حضرت موسی کی تیسری دعا یہ تھی کہ خدایا میرے بھائی ہارون کو میرا وزیر اور جانشین بنا، خداوند منان نےحضرت موسی کی یہ دعا بھی قبول کی ،اسی طرح پیغمبر اکرم نےخدا کی طرف سےبلا فصل جانشینی اور وزارت کا منصب حضرت علی (ع)کو عنایت فرمایا روایت دار کو شیعہ سنی قبول کرتے ہیں کہ رسول اکرم(ص) نےاپنی تبلیغ کےابتدائی دنوں میں اپنےرشتہ داروں کو دعوت دی اور امیرالمومنین (ع) کا اپنےوزیر، وصی اور جانشین کےطور پر تعارف کروایا۔
بحار، ج ۳۵ ، ص ۱۴۴ ؛ کنزالعمال، ج ۱۳ ، ص ۱۳۱ ۔
یہاں ایک سوال اٹھتا ہےوہ یہ کہ حضرت ہارون، حضرت موسی کےنسبی برادر تھے لیکن علی تو رسول اللہ کےنسبی بھائی نہ تھے وہ تو انکےپسر عمو تھے تو روایات میں کیسےآیا کہ رسول اللہ نےمولا سےخطاب ہی کرتے ہوئے فرمایا:
انت اخی فی الدنیا و الآخره؛
مناقب آل ابی طالب، ج ۲ ، ص ۳۳ ؛ ینابیع المودہ، ج ۱ ،ص ۱۷۸ ۔
تو دنیا وآخرت میں میرابھائی ہےیہ کیسی برادری ہے؟اسکی علت یہ ہےکہ باوجوداسکےکہ قرآن مجیدنےتمام مومنین کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا ہے: مومنین آپس میں بالکل بھائی بھائی ہیں
(
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَة
)
سورہ حجرات، آیت۱۰.
لیکن رسول اکرم(ص)نےہجرت کرنےکےبعدجوافرادمعنوی اورایمانی صفات میں ایک دوسرےکےمشابہ تھے،ان میں عقداخوت پڑھا ان کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا۔سلمان کو ابوذر کا بھائی بنایا کیونکہ وہ مزاج اور ایمانی لحاظ سےایک دوسرے کےنزدیک تھے، بات جب پوری ہو گئی تو سب کہنےلگے رسول اللہ نےکیوں علی کو کسی کا بھائی نہیں بنایا ؟ اس وقت رسول اللہ نےعلی کو فرمایا
مَا أَخَّرْتُكَ إِلَّا لِنَفْسِي؛
احتجاج، ج ۱ ، ص ۱۶۲ ۔
اےعلی میں نےتمہیں کسی اورکابھائی اسلئےنہیں بنایاکہ میں نےتمہیں اپنےلئےباقی رکھاہےاورفرمایا:
انت اخی فی الدنیا والآخرة؛
تودنیا وآخرت میں میرابھائی ہے۔پیغمبراکرم(ص)نےعقداخوت میں علی کےسواکسی کواپنابھائی نہیں بنایاکیونکہ علم،قدرت،وحی کےدریافت کرنےاورقرب خدامیں علی ہی آپ کےسب سےزیادہ نزدیک تھا۔
اسی طرح ابن عباس نےنقل کیا ہےجب پیغمبر اکرم نےخدا سےیہ دعا کی:
(
وَقُلْ رَبِّ أَدْخِلْني مُدْخَلَ صِدْقٍ وَ أَخْرِجْني مُخْرَجَ صِدْقٍ وَ اجْعَلْ لي مِنْ لَدُنْكَ سُلْطاناً نَصيرا
)
سورہ اسراء، آیت ۸۰
اوریہ کہئےکہ پروردگارمجھےاچھی طرح سےآبادی میں داخل کراوربہترین اندازسےباہرنکال اورمیرےلئےایک طاقت قراردےدےجو میری مددگارثابت ہو۔
تورسول اکرم(ص)کی دعاءمستجاب ہوئی اورخدانےامیرالمومنین(ع)یعنی سلطان نصیرکےعنوان سےحضرت کوعطافرمایا۔
مناقب آل ابی طالب، ج ۱ ، ص ۳۴۱ ۔
خداوند متعال فرما رہا ہے:
(
يا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْإِنْسِ إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ تَنْفُذُوا مِنْ أَقْطارِالسَّماواتِ وَ الْأَرْضِ فَانْفُذُوا لا تَنْفُذُونَ إِلاَّ بِسُلْطانٍ
)
سورہ رحمن، آیت۳۳
اےگروہ جن وانس اگرتم میں قدرت ہوکہ آسمان وزمین کےاطرف سےباہرنکل جاؤتونکل جاؤمگریادرکھوکہ تم قوت اورغلبہ کےبغیر نہیں نکل سکتے ہو۔
اگرطاقت ہےتواوج آسمان پرجاؤیازمین کی گھرائیوں میں جاؤلیکن جان لوکہ امیرالمومنین(ع)کی ولایت اورسلطنت سےباہرنہیں جاسکتے ہو کیونکہ جیسا کہ ہم نےبتایا سلطان کی معنی حضرت علی (ع)ہے۔