فضائل اہلبیت علیہم السلام زیارت جامعہ کبیرہ کی روشنی میں

فضائل اہلبیت علیہم السلام زیارت جامعہ کبیرہ کی روشنی میں28%

فضائل اہلبیت علیہم السلام زیارت جامعہ کبیرہ کی روشنی میں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

فضائل اہلبیت علیہم السلام زیارت جامعہ کبیرہ کی روشنی میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 17 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 14023 / ڈاؤنلوڈ: 4193
سائز سائز سائز
فضائل اہلبیت علیہم السلام زیارت جامعہ کبیرہ کی روشنی میں

فضائل اہلبیت علیہم السلام زیارت جامعہ کبیرہ کی روشنی میں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ساتویں مجلس

اہل بیت اور مقام رسالت

اللہ تعالی قرآن میں ارشادفرماتاہے:

( وَ تِلْكَ حُجَّتُنا آتَيْناها إِبْراهيمَ عَلى‏ قَوْمِهِ نَرْفَعُ دَرَجاتٍ مَنْ نَشاء )

سورہ انعام، آیت۸۳

یہ ہماری دلیل ہےجسےہم نےابراہیم علیہ السّلام کوانکی قوم کےمقابلہ میں عطا کی اورہم جسکوچاہتےہیں اسکےدرجات کو بلندکردیتےہیں ۔

امام علی نقی زیارت جامعہ میں ارشاد فرماتے ہیں :

السَّلامُ علیكُمْ يَا أَهْلَ بَيْتِ النُّبُوَّةِ وموضع الرسالة

سلام ہو آپ پر اے نبوت کےاہلبیت! اور پیغام الہی آنےکی جگہ!

زیارت جامعہ کادوسراجملہ، رسالت کےبارے میں ہےصرف پیغمبراکرم کی نبوت اوررسالت نہیں بلکہ تمام انبیاءکی رسالت،موضع کی معنی ہےہرچیزکامکان،محل اس بناپرجملےکاظاہری ترجمہ یہ ہوگاسلام ہوتم آئمہ معصومین پرجوکہ رسالت کی محل،مکان ہو۔

کچھ مترجمین کاکہناہےکہ : کیونکہ پیغمبراکرم صاحب رسالت تھے اس اعتبار سےامام ھادی فرمانا چاہتے ہیں رسالت آپ کےگھر میں وارد ہوئی ہےلیکن یہ معنی اس جمع کےلئے ایک مجازی معنی ہےحقیقی نہیں ہےجیسےلفظ شیرہےجوکہ کبھی شجاع انسان کیلئے استعمال ہوتا ہےجو کہ اس کی غیرحقیقی اور مجازی معنی ہےیہ کیسی معنی ہےکہ ہم آئمہ معصومین کو کہیں کیونکہ آپ کا جد اللھ کا رسول تھا اس اعتبار سےآپ میں بھی رسالت آئی ہے۔ لیکن موضع الرسالہ کی حقیقی معنی یہ ہےکہ تمام انبیا چاہےاولوالعزم یا غیر اولوالعزم سوائے خاتم الانبیا ء کے، ان سب کی نبوت و رسالت آپ کےہاتھوں امضا ہوتی ہےیعنی وہ حقیقی رسالت، خدا نےآپ کو عطا کی ہےاور پھر آپ کی طرف سےتمام انبیا تک تبلیغ ہوتی ہےحقیقت میں رسالت آپ کےوجود میں خلاصہ ہوتی ہے۔

مطلق اورمقیدولایت

ہم جب انسانوں کامحاسبہ کریں تودیکھنےمیں آتاہےکہ مراتب کےسلسلےمیں انسان کاپہلامرتبہ اسکابشرہوناہے۔پھرکچھ لوگ اس سےآگےبڑھتےہیں جنکوخداوندمقامِ نبوت یا رسالت عطاکرتاہے۔لیکن مقام نبوت ورسالت سےبھی بڑامقام ولایت وامامت ہے۔

اللھ تعالی قرآن مجید میں فرما رہا ہے:

( وَ إِذِ ابْتَلى‏ إِبْراهيمَ رَبُّهُ بِكَلِماتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قالَ إِنِّي جاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِماما؛ )

سورہ بقرہ، آیت۱۲۴

اوراسوقت کویادکروجب خدانےچندکلمات کےذریعےابراہیم علیہ السّلام کاامتحان لیااورانہوں نےپوراکردیاتواسنےکہاکہ ہم تم کو لوگوں کا امام اورقائدبنارہےہیں۔

یعنی ابراھیم عبدتھا، خلیل تھا، نبی و رسول تھا لیکن جب خدا نےاسےآزمایا تو امامت تک پہنچا، اس بنا پر ام،امت نبوت اور رسالت سےبڑہ کر ہے۔

دوسری طرف سےجو بھی نبی یا رسول کےعنوان سےمبعوث ہوتا ہےتو نبوت یا رسالت ،اسکی ولایت کی فرع ہوتی ہےکیونکہ خداوندمتعال نےاسےایک باطنی ولایت عطاکی ہےتاکہ اپنےاوپر اورکائنات پرتسلط پیدا کرے۔ پھر اسےمقام نبوت تک پہنچاتا ہےکوئی نبی بغیر ولایت کےنہیں ہوتا ہےاگر نبی کےپاس ولایت نہ ہو تو اس سےمعجزہ کیسےصادر ہوگا کس طرح ماضی کی یا آیندہ کی خبریں دے گا۔

لیکن جو انبیا، صاحب ولایت اور امامت ہیں انکی ولایت مقید ہےمحدود ہے، مطلق نہیں ہے، ابراہیم خلیل اللھ آیت قرآن کےمطابق امام ہیں لیکن مقید امام، مطلق امام نہیں ہیں یعنی تمام انبیا اور خدا کےعلاوہ تمام مخلوق پر امام نہیں ہیں اس لئے روایات میں آیا ہے: کل قیامت کےدن تمام انبیا و انفساپکارینگے فقط پیغمبراکرم اورآئمہ وامتی پکارینگے یعنی جب امتیں اپنےرسولوں کےپاس جائیں گی تو وہ کہینگے پیغمبرکےپیچھے جاؤ کیونکہ ہم سب اس کےنمایندے تھے۔

بحار، ج ۸ ، ص ۳۵

اس بناپرولایت مطلقہ اہلبیت کےپاس ہےخداوندمتعال اپنےلاریب کلام میں فرمارہےہیں :

( هُنالِكَ الْوَلايَةُ لِلَّهِ الْحَق )

سورہ کھف، آیت۴۴

اسوقت ثابت ہواکہ قیامت کی نصرت صرف خدائےبرحق کےلئےہے۔

خدا قیامت کےدن اپنی کامل ولایت لوگوں کو دکھا ئینگے اگر لو گ دنیا میں نہ سمجھ سکےتو وہاں آخرت میں سمجھ جائینگے وہاں تو رکاوٹیں اور حجاب ختم ہوجائینگے، وہاں تو دن ہوگا دنیا کےبرخلاف؛ یہاں شب ہےہماری روایتوں میں آیا ہےکہ ھنالک الولایہ یہ ہی امیرالمومنین (ع) کی ولایت۔(کافی، ج ۱ ، ص ۴۱۸ ۔)

کل قیامت کےدن لوگ مولا علی کی مطلق ولایت دیکھیں گے اور متوجہ ہونگے یہاں تک کہ خداوند متعال نےمخلوق کا حساب و کتاب بھی ان کےحوالے کیا ہے۔

گذشتہ تمام مطالب سےاس نتیجہ تک پہنچتے ہیں کہ نبوت، ولایت کی طرف سےامضا ہوتی ہےیعنی اگر آئمہ جو کہ ولایت مطلقہ کےمالک ہیں امضا نہ کریں تو کوئی بھی نبی یا رسول نہیں بن سکتا۔

ایک روایت میں آیا ہےکہ:

مَا تَكَامَلَتِ النُّبُوَّةُ لِنَبِيٍّ فِي الْأَظِلَّةِ حَتَّى عُرِضَتْ علیه وَلَآیتي وَ وَلَايَةُ أَهْلِ بَيْتِي‏؛

بحار، ج ۲۶ ، ص ۲۸۱ ۔

کسی بھی نبی کی نبوت کامل نہیں ہوتی مگر یہ کہ میری اور میرے اہل بیت کی ولایت اس کےسامنےپیش کی گئی۔

دوسری روایت میں یہ مطلب حضرت زہراءسلام اللہ علیہاکےبارے میں بیان ہوا ہے،

أَقَرَّ بِفَضْلِها

مجمع النورین، ص ۴۰ ۔

فرمایا جب فاطمہ کی فضیلت کا اقرار کرتا تو خدا اسےدرجہ دیتا تھا اورمبعوث کرتا تھا۔

تبلیغ ولایت، پیغمبر اکرم کی بعثت کا راز

خداوند متعال سورہ مائدہ میں اپنےرسول کو فرما رہےہیں:

( يا آیتا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ )

سورہ مائدہ، آیت ۶۷ ۔

اےپیغمبرآپ اس حکم کو پہنچادیں جوآپکےپروردگارکی طرف سےنازل کیاگیاہےاوراگرآپنےیہ نہ کیاتوگویااسکےپیغام کونہیں پہنچایا۔

خداوندمتعال نےفماتبلغ نہیں فرمایابلکہ ماضی کاصیغہ استعمال کیا ہے۔ آخر یہ کہنےکےبجائے کہ اگرعلی کا تعارف نہیں کروایا تواپنی رسالت کونہیں پہنچائے گا، یہ کیوں کہاکہ تونےرسالت نہیں پہنچائی ؟مقصدیہ ہےکہ پہلےدن سےآج تک یہ سب کچھ علی کی ولایت اورامامت کامقدمہ ہے۔حقیقت میں مولا علی،رسول اکرم(ص)کاباطن ہےکیونکہ رسول اکرم(ص)کاظاہر،نبوت اورباطن،ولایت ہے۔اسلئےقرآن آیاہےاوراس نےباطن سےپردہ کواٹھایاہےیعنی جو کوئی بھی رسول اکرم(ص)کےکامل باطن کودیکھناچاہتا ہےاسےچاہیے کہ علی کو دیکھے اس لئے کبھی فرماتے تھے :

حَبِيبُ قَلْبِي‏

مشارق انوار الیقین، ص ۶۹

امیرالمومنین (ع) میرا قلب ہے۔

دوسری روایت میں فرمایا:

بِي أُنْذِرْتُمْ وَ بِعلی بْنِ أَبِي طَالِبٍ اهْتَدَيْتُم‏؛

بحار، ج ۳۵ ، ص ۴۰۵

مجھ رسول کےذریعے تمہیں ڈرایا جاتا ہےلیکن ہدایت امیرالمومنین (ع) کےپاس ہے۔ رسول اکرم(ص) کا ایک اہم کام ڈرانا ہےتاکہ بشر باطل سےدستبردار ہو کر حق میں داخل ہو جائے لیکن رسول اللہ تو ھدایت کا عہدہ بھی رکھتے تھے جیسا کہ قرآن فرماتا ہے:

( أَنْتَ مُنْذِرٌ وَ لِكُلِّ قَوْمٍ هاد )

سورہ رعد، آیت ۷

میں صرف ڈرانےوالا ہوں اور ہر قوم کےلئے ایک ہادی اور رہبر ہے۔

تو پھرکیوں آنحضرت اس روایت اپنےآپ کو ڈرانےوالا (منذر)اور علی کو ہادی کہہ رہےہیں؟ اسکاراز یہ ہےکہ پیغمبراکرم نبوت کا ظاہری مقام رکھتے ہیں اورنبی کاکام خبردینا اور ڈرانا ہےلیکن حضرت فرماتےہیں کہ میرا باطن ولایت اور امامت ہےاور باطن کےعنوان سےبشر کی ہدایت کرتا ہوں کیونکہ ولایت کا کام ڈرانےکےعلاوہ ہدایت اور دستگیری بھی ہےحضرت علی (ع)بھی رسول کےباطن اور نفس ہیں اسی دلیل کی بنیاد پر انہیں ہادی کہا گیا ہے۔

مقام عصمت،نبوت وامامت کامحافظ

اس روایت کو تو سب نےسنا ہے:

لولاک لما خلقت الافلاک و لولا علی لما خلقتک و لولا فاطمة لما خلقتکما؛

مستدرک سفینة البحار، ج ۳ ، ص ۱۶۶

اے پیغمبراگرتونہ ہوتا تو افلاک کو پیدا نہ کرتا اگرعلی نہ ہوتا تو تمہیں پیدا نہ کرتا اور اگر فاطمہ نہ ہوتیں تو تم دونوں کو پیدانہ کرتا۔اس حدیث کی معنی یہ ہےکہ ایک مقام نبوت ہوتاہےاورایک مقام امامت اور اسی طرح ایک مقام عصمت ہوتا ہے۔امامت اورولایت، رسالت کےمحافظ ہیں۔لیکن خود ولایت اورامامت کوبھی ایک محافط کی ضرورت ہےجو کہ عصمت ہے۔یہ روایت یہ بیان کررہی ہےکہ حقیقت میں پیغمبرنبی بھی ہےاورامام بھی اورمقام عصمت بھی رکھتاہے۔ خداوندمتعال رسول اللہ کوخطاب کرکےفرما رہا ہے: یا رسول اللہ اگر تیرا ولایت وامامت کارخ نہ ہوتا تومیں تمہیں پیدا نہ کرتا کیونکہ یہ امامت ہےجو تیری نبوت کی محافظ ہےتمہاری اس ولایت و امامت کامصداق امیرالمومنین(ع)بھی ہےاسی طرح اگر عصمت نہ ہوتی تو نہ تمہیں پیدا کرتا اور نہ ہی امامت کو، کیونکہ امامت کو بھی محافظ کی ضرورت ہےتمہاری عصمت نےخارج میں ایک مصداق بنالیا ہےجو کہ حضرت زہرا ہیں یہ نہیں کہنا چاہ رہےکہ فاطمہ ،رسول اللہ اور امیرالمومنین (ع) علی سےافضل ہیں بلکہ یہ تین مقام رسول اللہ کےہیں، ان کا ظاہری مقام نبوت ہےباطنی مقام امامت ہےاور باطن کا باطنی مقام عصمت ہے۔ خود پیغمبر اکرم نےعلی کو فرمایا:

کنت مع الانبیا سرا و معی جهرا؛

القطرہ من بحارمناقب النبی والعترہ، ج ۱ ، ص ۱۸۸

تو سب انبیاءکےساتھ تھامخفی طورپراورمیرےساتھ ہےآشکار۔ یعنی انکی نبوت اوررسالت کاباطن،ولایت تھا۔علی انکےاندرتھےہرکسی کو ان کےظرف کےمطابق طاقت دے رہا تھا اور صاحب ولایت بنا رہا تھا۔ در حقیقت جو ولایت تمام انبیا کےوجود میں کام کر رہی تھی اور ان کو جو مقید ولایت حاصل تھی وہ علی کی طرف سےتھی اسی وجہ سےرسول اللہ کےساتھ علنی اور آشکار ہو کر اپنا تعارف کروایا۔

حکومت انبیاءپرولایت

حضرت علی(ع)نےدوسری روایت میں فرمایا:

وَ إِنِّي لَصَاحِبُ الْكَرَّاتِ وَ دَوْلَةُ [دَوْلَةِ] الدُّول؛

بحار، ج ۲۵ ، ص ۳۵۴

میں صاحب کرامات ہوں، میں حکومتوں کا حاکم ہوں ۔ یعنی کیا؟ کیا مولا یہاں یہ کہنا چاہ رہےہیں کہ میں جنگ میں دشمن پر مسلسل حملے کرتا ہوں ؟ یا پہلے جملے کی معنا پر توجہ دیتے ہوئے اس کی کچھ اور معنی بھی ہو سکتی ہےوہ یہ کہ میں کتنی ہی بار اس دنیا میں آیا ہوں اور آتا رہوں گا۔مطلب حضرت یہ فرماناچاہتےہیں کہ میں آدم کےساتھ تھا، ابراہیم کےساتھ، عیسی کےساتھ، موسی کےساتھ تمام انبیا کےساتھ تھا ایسا نہیں ہےکہ فقط پیغمبراکرم کےدور میں دنیا میں آیا ہوں۔

نمونہ کےطور پر یہ بات عرض کر رہا ہوں کہ خداوند متعال نےحضرت موسی و ہارون کو فرمایا :

( اذْهَبا إِلى‏ فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغى )

سورہ طہ، آیت۴۳

تم دونوں فرعون کی طرف جاؤ کہ وہ سرکش ہوگیا ہے۔

لیکن خدا نےایک وعدہ بھی ان کو دیا :

( نَجْعَلُ لَكُما سُلْطانا )

سورہ قصص، آیت ۳۵

اورتمہارےلئےغلبہ قراردیں گے۔

فرعون نےمحل کےنگھبانوں کوحکم دے رکھا تھا کہ موسی و ہارون کےعلاوہ کسی کو بھی اندر آنےنہ دیں شاید وہ ایسی بات کرنا چاہتے تھے وہ نہیں چاہتا تھا کہ دوسروں کےآگے رسوا ہو۔

جب حضرت موسی و ہارون قصر میں داخل ہوئے، انہوں نےدیکھا کہ فرعون تخت پر بیہوش پڑا ہےبعد میں جب ہوش آیا اور انکےدرمیان گفتگو ہوئی فرعون نےنگھبانوں کو بلوایا اور ان کو کہا : کیا میں نےتمہیں نہیں کہا تھا کہ موسی و ہارون کےعلاوہ کسی کو بھی اندر آنےنہیں دینا؟ انہوں نےکہا : ہم نےایسا ہی کیا تھا اور کسی کو اندر آنےنہیں دیا فرعون نےکہا پس وہ جوان جو فاخر لباس پہنےسفید گھوڑے پر سوار تھا جس کی ہیبت اور عظمت کو دیکھ کر میں زمین پر گر پڑا اور بے ہوش ہو گیا وہ کون تھا؟ روایت میں ہےکہ وہ امیرالمومنین (ع) تھے

مدینہ المعاجز، ج ۱ ، ص ۱۴۳ ۔

یعنی مخفی طور پر سب انبیا کےساتھ تھے کبھی کبھی ظاہر بھی ہو جاتے تھے۔

روایت کےآگے حضرت نےفرمایا :

دَولَةُ [دَولَةِ] الدُّول ؛

اس کا کیا مطلب ہے؟ یعنی میں سب انبیاءکی حکومت تھا اگر انہوں نےکوئی حکومت تشکیل دی تو وہ میری ولایت کےزیر سایہ تھی۔ شیعہ اور سنی دونوں نےاس روایت کو نقل کیا ہے:

إِنَّ النَّاسَ لَوِ اجْتَمَعُوا عَلَى حُبِّ علی بْنِ أَبِي طَالِبٍ ع لَمَا خَلَقَ اللَّهُ النَّارَ ؛

بحار، ج ۳۹ ، ص ۲۴۸ ؛ ینابیع المودہ، ج ۱ ، ص ۲۷۲

اگر لوگ علی کی محبت پر جمع ہو جاتے تو خدا جہنم کو پیدا ہی نہیں کرتا۔

اس روایت میں کچھ نکات ہیں

۱ ۔ جہنم مولا علی کےدوستوں کیلئے نہیں ہےبلکہ مولا کےدشمنوں کیلئے ہے

۲ ۔ اگر مولا فقط اس امت کےساتھ مخصوص ہوں تو دوسری امتوں کا کیا ہوگا؟ فرعون کا کیا ہوگا؟ نمرود کا کیا ہوگا؟ قوم لوط و عاد کا کیا ہوگا؟حضرت علی(ع)تو ظاہری طور پر ان کےپاس نہ تھے تو لوگ کیسےحضرت سےمحبت کرتے کہ جنت میں جا سکیں اور انکےدشمن واصل جہنم ہوں۔ یہی کہا جائے گا کہ امیرالمومنین (ع) مخصوص تاریخ سےتعلق نہیں رکھتے بلکہ تمام زمانوں اور عوالم سےتعلق رکھتے ہیں ۔ ان کا حکم تمام امتوں میں تھا ان کی محبت بھی سب پر واجب تھی حقیقت میں تمام انبیا مولا علی کےنمائندے تھے، انہوں نےفیض، علم، معارف اور شرائط رسالت مولا علی سےلئے تھے، مولا ہی نےان کی رسالت کو امضا کیا تھا اور تبلیغ کی اجازت انہیں دی تھی۔ یہی سبب ہےکہ جب پیغمبر اکرم اور آئمہ معصومین آئے تو تمام ادیان منسوخ ہو گئے کیونکہ وہ سب نمائندے تھے رسول اللہ کےآنےسےان کا کام پورا ہو گیا۔

زیارت جامعہ کا ایک جملا ہے:

وَ عِنْدَكُمْ مَا نَزَلَتْ بِهِ رُسُلُهُ وَ هَبَطَتْ بِهِ مَلَائِكَتُه‏؛

جو کچھ انبیا پر نازل ہوا وہ آپ کےپاس ہےیعنی پہلے سےآپ کےپاس موجود تھا آپ کےتوسط سےانبیا کو ملا جو کچھ بھی فرشتے لے آئے وہ سب آپ کےپاس تھا یعنی خدا نےآپ چھاردہ معصومین کو عطا کیا ہے۔

روایت میں ہےکہ امام صادق (ع) نےفرمایا:

إِنَّ اللَّهَ أَوَّلَ مَا خَلَقَ خَلَقَ مُحَمَّداً وَ عِتْرَتَهُ الْهُدَاةَ الْمُهْتَدِين‏؛

کافی، ج ۱ ، ص ۴۴۲

سب سےپہلے خدانےجس کو پیدا کیا وہ پیغمبر اکرم اور آئمہ تھے۔ پہلے انہیں پیدا کیا تاکہ جو بھی فیض، کمالات اور معارف ہیں ا ن کو عطا فرمائے پھر وہ انبیاء یا غیر انبیا کو دیں۔

امیرالمومنین(ع)اورعلم الکتاب

یہاں ایک نکتہ کی طرف اشارہ کرتا ہوں ۔آیت قرآن ہےکہ:

( قُلْ كَفى‏ بِاللَّهِ شَهيداً بَيْني‏ وَ بَيْنَكُمْ وَ مَنْ عِنْدَهُ عِلْمُ الْكِتاب )

سورہ رعد، آیت ۴۳

کہہ دیجئے کہ ہمارے اور تمہارے درمیان رسالت کی گواہی کےلئے خدا کافی ہےاور وہ شخص کافی ہےجس کےپاس پوری کتاب کا علم ہے۔

روایات میں وارد ہوا ہےکہ

من عنده علم الکتاب

سےمراد امیرالمومنین (ع) ہیں۔

شواھد التنزیل، ج ۱ ، ص ۳۰۸

یہ آیت مکہ میں رسول اللہ پر نازل ہوئی جس دورمیں کافرآکرپیغمبرسےسوال جواب کرتے تھےابھی تک انہوں نےرسالت کو قبول نہیں کیا تھا خدا فرما رہا ہےپیغمبرکےپاس دو گواہ ہیں ایک خدا اور دوسراے وہ جن کےپاس علم الکتاب ہےیعنی امیرالمومنین (ع)۔

امیرالمومنین(ع)کی مکہ میں عمرکچھ زیادہ نہ تھی، ابھی تک تو ظاہری امامت کوبھی نہیں پہنچے تھے لیکن اس زمانےمیں بھی علم الکتاب رکھتے تھے کیونکہ ان کا علم ذاتی ہےدنیا میں آنےسےپہلے ہی سب کچھ جانتے تھے ۔

منقول ہےکہ جب حضرت علی (ع)دنیا میں پیدا ہوئے تو ان کی آنکھیں بند تھیں، آنکھیں نہیں کھولیں۔ لیکن جیسےحضرت کو پیغمبر کےہاتھوں میں دیا پیغمبر کےہاتھوں پر آنکھیں کھولیں یعنی یا رسول اللہ فقط آپ کا جمال دیکھنےکیلئے میری آنکھیں کھلیں گی پھر مولا نےان آیتوں کی تلاوت کی:

( بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحيمِ‏قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذينَ هُمْ في‏ صَلاتِهِمْ خاشِعُونَ وَ الَّذينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ؛)

سورہ مومنون، آیت ۱ تا۳

یقیناصاحبانِ ایمان کامیاب ہوگئےجواپنی نمازوں میں گڑگڑانےوالےہیں اورلغوباتوں سےاعراض کرنےوالےہیں۔

کیسےہوسکتا ہےکہ ابھی پیغمبر نےنبوت کا اعلان نہیں کیا، ابھی پیغمبر پر قرآن نازل نہیں ہوا، امیرالمومنین(ع)نےقرآن کی تلاوت کی؟ اس کا جواب سورہ رحمان میں آیا ہےخدا فرماتا ہے:

( الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ خَلَقَ الْإِنْسان؛ )

وہ خدا بڑا مہربان ہےاس نےقرآن کی تعلیم دی ہےانسان کو پیدا کیا ہےاور اسےبیان سکھایا ہے۔

یعنی ہم نےعالم نورانیت میں حضرت علی(ع)کو قرآن کی تعلیم دی پھر علی کو پیدا کیا پہلے قرآن جانتے تھے پھر پیدا ہوئے۔

انسان سےمراد حضرت علی (ع)ہیں کیونکہ سورہ دھر کا دوسرا نام جو کہ حضرت کی شان میں نازل ہوئی، انسان ہے۔ حقیقت میں بتانا یہ چاہتے ہیں کہ وہ انسان جو پروردگار جہاں کا مظھر کامل ہےوہ سورہ دھر میں ملے گا دوسرے افراد تو اس کےمشابہ ہیں جتنا رشد کرینگے اتنا ہی انسانیت کےنزدیک ہوں گے اس بنا پر خلق الانسان کی معنی خلق علیا علی کو خلق کیا ہے۔

تفسیر نور الثقلین، ج ۵ ، ص ۱۸۸

معلم کون ہے؟ معلم خود خدا ہے،

الرَّحمنُ

درس کا موضوع کیا ہے؟ قرآن،

عَلَّمَ القُرآنَ

شاگرد کون ہے؟ علی،

خَلَقَ الْإِنْسان

یہاں ایک سوال اٹھتاہےکہ حضرت نےپیداہوتےوقت سورہ مومنون کی تلاوت کیوں کی؟اسلئےتاکہ رسول اللہ کہہ سکیں

اےعلی! تمہاری وجہ سےمومنین کامیاب ہونگے۔جوبھی تم سےجداہوگا وہ کبھی بھی فلاح وکامیابی نہیں پائےگا۔

انبیا کا خلاصہ

زیارت جامعہ کےدوسرے حصہ میں پڑھتے ہیں :

وَسُلَالَةُ النَّبِيِّينَ وَ صَفْوَةُ الْمُرْسَلِين‏؛

سلالہ کی معنی ہےکسی پھل کا جوس، نچوڑ، اصل جوھر یعنی اگر تمام انبیا کا خلاصہ جو کہ علم و حقائق و معارف ہیں، ایک جگہ جمع ہوں تو ان تمام کمالات کا نچوڑ آئمہ ہیں۔

صفوة المرسلین

یعنی اگربہترین اورخالص مسلمانوں کوجداکیاجائے،بہترین مرسل اورخداکی طرفسےبھیجےہوےبہترین پیغام لانےوالےآپ ہیں۔جب گل کا پانی نکالا جاتا ہےتو گلاب بن جاتا ہےاب اگر دوبارہ اس کو ابال کر دوبارہ آب لیا جائے تو اسےسلالہ کہتے ہیں یعنی گلاب۔

سلالة النبین

بتا رہا ہےکہ انبیا گل ہیں اور آپ آئمہ گلاب ہیں۔

صفو ة المرسلین

بتا رہا ہےکہ ۳۱۳ رسول گلاب کےمانند ہیں آپ اس گلاب کی عطر اور خوشبو ہیں۔

تقرب کا برترین مقام

زیارت کےایک اور حصہ میں عرض کرتے ہیں:

فَبَلَغَ اللَّهُ بِكُمْ أَشْرَفَ مَحَلِّ الْمُكَرَّمِينَ وَ أَعْلَى مَنَازِلِ الْمُقَرَّبِينَ وَ أَرْفَعَ دَرَجَاتِ الْمُرْسَلِين‏؛

پس خدا نےآپ کو صاحبان عظمت کےبلند مقام پر پہنچایا اور اپنےمقربین کی بلندمنزلوں تک لے گیا اور اپنےپیغمبروں کےاونچے مراتب عطا فرمائے۔

یہاں فقط یہ نہیں کہا جا رہا کہ آپ مقام نبوت و رسالت رکھتے ہیں بلکہ کہا جا رہا ہے: آپ نبوت کا عالی درجہ رکھتے ہیں جو کہ وہی پیغمبر اکرم کا درجہ ہےیعنی آپ کا مقام پیغمبر کےمقام کےبرابر ہے۔

اس جملے سےجو دوسری معنا سمجھ میں آتی ہےوہ بکم میں جو با ہےوہ سببیت کی معنی میں ہےیعنی خدانےآپ کی وجہ سےمرسلین کو بلند وبالا درجہ عطا کیا اورمقربین کو مقرب بنایا جو بھی تقرب کےاعلی درجہ پر فائز ہوا ہےاور رسالت کےاعلی درجہ پر پہنچا ہےآپ کےصدقہ میں خداوند نےاسےوہ مقام عطا کیا ہے۔ ان جملات کو اگر ملائیں تو اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ نبوتیں اور رسالتیں ایک منبع اور سرچشمہ سےنکلی ہیں جو کہ چھاردہ معصومین کا وجود اقدس ہے۔

آٹھویں مجلس

قرآن کی نظرمیں اہلبیت کا باب اللہ ہونا

اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا )

سورہ بقرہ، آیت ۱۸۹

اور مکانات میں دروازوں کی طرف سےآئیں۔

امام علی نقی زیارت جامعہ میں ارشاد فرماتے ہیں :

وَ الْبَابُ الْمُبْتَلَى بِهِ النَّاسُ

اور وہ دروازہ ہیں جس کےذریعے لوگوں کا امتحان لیا جاتا ہے۔

زیارت جامعہ کےاس حصے میں ائمہ معصومین کو باب اللہ سےتشبیہ دی گئی ہے۔

وَ الْبَابُ الْمُبْتَلَى بِهِ النَّاسُ

یعنی ائمہ معصومین اللہ تعالی کےدروازوں میں سےایک دروازہ ہیں جس کےذریعے اللہ تعالی اپنےبندوں کا امتحان لیتا ہے۔

سب سےپہلےتویہ سوال پیداہوتاہےکہ: اللہ تعالی نےاہلبیت کی پہچان کیلئےتشبیہ کاسہاراکیوں لیاہے؟کبھی ائمہ معصومین کونجات کی کشتی کہا گیا ہے،کبھی ائمہ معصومین کو ہدایت کا چراغ کہا گیا ہے،کبھی ائمہ معصومین کو پاک درخت کہا گیا ہے، کبھی ائمہ معصومین کو چاند اورستاروں سےتشبیہ دی گئی ہے۔ ان تمام تشبیہات کا مقصد تمام انسانوں کو اہلبیت کی عظمت سمجھانا تھا کیونکہ اس دور میں عرب فکری بلندی نہ رکھتا تھا اس لئے مجبورا عقلی چیزوں کو محسوسات کےذریعے سمجھانا پڑتا تھا اسلئے ان کو اہلبیت کی عظمت سمجھانےکیلئے ان چیزوں سےتشبیہ دی جاتی تھی جس کو وہ آسانی سےسمجھ سکیں ۔

مثال کےطور پر رسول اکرم(ص) نےیہ سمجھانےکیلئے کہ : اہلبیت تمام فضائل اور کمالات کےمالک ہیں بہت ساری تشبیہات سےاستفادہ کیا ہے۔ کبھی ائمہ معصومین کو چراغ سےتو کبھی کشتی سےتشبیہ دی ہےاس طرح سےرسول اکرم(ص) سمجھانا چاہتے ہیں کہ جس طرح تمام انسان چراغ اور کشتی سےفائدہ حاصل کرتےہیں اس طرح اہلبیت کا وجود تمام انسانوں کیلئے فائدہ مند ہے۔

اہلبیت کو باب اللہ سےتشبیہ دینےکا سبب

ہم اس مقدمے کی روشنی میں سمجھنےکی کوشش کرتے ہیں کہ اہلبیت کودروازے سےکیوں تشبیہ دی گئی؟ اللہ تعالی نےقرآن مجید میں سورہ بقرہ کےدو مقامات پر ائمہ معصومین کو دروازے سےتشبیہ دی ہے۔

اللہ تعالی سورہ بقرہ کےایک مقام پر ارشاد فرماتا ہے:

( وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَن تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِن ظُهُورِهَا وَلَـٰكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَىٰ وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا )

سورہ بقرہ، آیت ۱۸۹ ۔

اور یہ کوئی نیکی نہیں ہےکہ مکانات میں پچھواڑے کی طرف سےآؤ،بلکہ نیکی ان کےلئے ہےجو پرہیزگار ہوں اور مکانات میں دروازوں کی طرف سےآئیں۔

یہ بات عقل کےمطابق نہیں اوریہ اچھی بات نہیں کہ کوئی انسان مکان کےپچھواڑےسےگھرمیں داخل ہو۔ انسان اسوقت تک مکان کےپچھواڑےسےگھرمیں داخل نہیں ہوسکتاجب تک اس گھرکونہ توڑےیاخراب نہ کرےپھروہاں سےگھرمیں داخل ہو۔

کیااللہ تعالی اس آیت میں ایک ایسےمسئلےکوبیان کرنا چاہتا ہےجس کو سب جانتے ہیں؟کیا اللہ تعالی اس آیت میں صرف یہ بیان کرناچاہتاہےکہ اپنےاوراپنےدوستوں کےگھروں میں پچھواڑےسےداخل نہ ہواکرو؟ نہیں! یہ مرادنہیں۔اس گھرسےمرادتوحیدکاگھرہے، رسالت کاگھرہے، قرآن کاگھرہے،گھرہے۔ اگر ہم کسی مادی گھرمیں پچھواڑےکی طرف سےداخل نہیں ہوسکتے تو اگر ہم اس معنوی گھر میں داخل ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں دروازے سےداخل ہونا چاہیے ۔ اب دیکھنا یہ ہےکہ اس معنوی گھر کا دروازہ کہاں ہے؟ توحید، رسالت، ایمان، اخلاق کا دوازہ کہاں ہے؟ روایتوں میں آیا ہےکہ اس معنوی گھر توحید، رسالت، ایمان، اخلاق کا دروازہ اہلبیت ہیں۔

اصبغ ابن نباتہ فرماتے ہیں:

كُنْتُ جَالِساً عِنْدَ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ ع فَجَاءَ ابْنُ الْكَوَّاء

میں امیرالمومنین (ع) کی خدمت میں تھا اتنےمیں ابن کوا، داخل ہوا جو منافقین کا سردار تھا اور امام علی کےسخت دشمنوں میں شمار ہوتا تھا ۔ ابن کوا نےامیرالمومنین (ع) سےسوال کیا :

وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَن تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِن ظُهُورِهَا وَلَـٰكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَىٰ وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا

اس آیت کی تفسیرکیاہے؟امیرالمومنین(ع)نےجواب میں فرمایا:

نَحْنُ الْبُيُوتُ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ أَنْ يُؤْتَى مِنْ أَبْوَابِهَا وَ نَحْنُ بَابُ اللَّهِ وَ بُيُوتُهُ الَّتِي يُؤْتَى مِنْهُ فَمَنْ بَايَعَنَا وَ أَقَرَّ بِوَلَآیتنَا فَقَدْ أَتَى الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا وَ مَنْ خَالَفَنَا وَ فَضَّلَ علینَا غَيْرَنَا فَقَدْ أَتَى الْبُيُوتَ مِنْ ظُهُورِهَا

بحارالانوار، ج۲۳، ص ۳۲۹

ہم وہ باب اللہ ہیں جسکےبارےمیں اللہ تعالی نےحکم فرمایا ہےکہ میرےگھرمیں اہلبیت کےدروازےسےداخل ہوں اب جوبھی ہماری پیروی کرےگااورہماری ولایت کااقرارکرےگاوہ اسطرح ہےجیسےوہ گھرمیں دروازےسےداخل ہوا۔لیکن جوہماری مخالفت کرےگا اورہمارےحکم سےمنہ موڑےگااوردوسروں کوہم پرمقدم کرےگا وہ اسطرح ہےجیسےوہ گھرمیں دروازےسےداخل نہیں ہوا بلکہ وہ پچھواڑےسےداخل ہواہے۔

کون ہےجو گھر میں پچھواڑے سےداخل ہوتا ہے؟ وہ جو چوری کی نیت سےداخل ہوتا ہے۔ اب جو بھی معنوی گھر میں داخل ہونا چاہتا ہے، توحید، رسالت، ایمان، اخلاق کےگھر میں داخل ہونا چاہتا ہےوہ اہلبیت کےدروازے سےداخل نہ ہو تو وہ چور شمار ہوگا ۔

روایتوں میں آیا ہےکہ اس طرح کےافراد چور کی طرح ہیں، امام صادق (ع) فرماتے ہیں :

سَرَقُوا أَكْرَمَ آيَةٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ

بحارالانوار، ج۸۹، ص ۲۳۶۔

قرآن کی سب سےافضل آیت

( بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ )

جس کو چوری کیا گیا ہےاور کہتے ہیں

( بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ )

قرآن کی سورتوں کا جزء نہیں ۔

کون ہیں جو اس طرح کہتے ہیں ؟ وہی جو دروازے سےداخل نہیں ہوئے اور دوسروں کو امیرالمومنین (ع) کی ولایت پر مقدم کرتےہیں ۔

گناہوں کی معافی کا دروازہ

سورہ بقرہ کی ایک اور آیت میں اللہ تعالی بنی اسرائیل سےفرماتا ہے:

( وَ إِذْ قُلْنَا ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ فَكُلُوا مِنْها حَيْثُ شِئْتُمْ رَغَداً وَ ادْخُلُوا الْبابَ سُجَّداً وَ قُولُوا حِطَّةٌ نَغْفِرْ لَكُمْ خَطاياكُمْ وَ سَنَزِيدُ الْمُحْسِنِين )

سورہ بقرہ، آیت ۵۸۔

اوروہ وقت بھی یاد کروجب ہم نےکہا کہ اس قریہ میں داخل ہوجاؤ اور جہاں چاہو اطمینان سےکھاؤ اور دروازہ سےسجدہ کرتے ہوئے اور حط کہتے ہوئے داخل ہو کہ ہم تمہاری خطائیں معاف کردیں گے اور ہم نیک عمل والوں کی جزا میں اضافہ بھی کردیتے ہیں

جب بنی اسرائیل نےبیت المقدس کو فتح کرنا چاہا، بلعم باعور نےبنی اسرائیل پر لعنت کرنا چاہی تو اس کی زبان گنگ ہو گئی اس نےحکم دیا کہ کچھ عورتیں سینگار کر کہ بنی اسرائیل کےلشکر میں داخل ہو جائیں تاکہ ان کو گمراہ کر سکیں اور جنگ سےباز رکھیں۔ اس وجہ سےان میں طاعون کا مرض پھیل گیا اور بنی اسرائیل چالیس سال تک بیابان میں گم پھرتے رہے۔ پھر اللہ تعالی نےبنی اسرائیل سےفرمایا : اب بیت المقدس کےشہر میں داخل ہو جاؤ اس حال میں کہ سر سجدے میں ہو اور زبان پر گناہوں کی معافی کی دعا ہو ۔ جب بنی اسرائیل شہر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ شہر کا دروازہ بہت بڑا ہےتو انہوں نےسجدہ نہ کیا اور اللہ تعالی کےحکم سےمنہ موڑا ۔

روایتوں میں آیا ہےکہ : اللہ تعالی نےبنی اسرائیل کو سجدے کا حکم اس لئے دیا کہ شہر کےدروازے پہ امام علی کی تصویر لگی ہوئی تھی۔

تفسیر صافی، ج ۱ ، ص ۱۳۶ ۔

اللہ تعالی فرماتا ہے: جب شہر میں داخل ہوں تو امام علی کی تصویر کےسامنےسجدہ کریں ۔ اللہ تعالی نےیہ نہیں فرمایا کہ(رکعا) رکوع کی حالت میں بلکہ فرمایا

( وَ ادخُلُوا البابَ سُجَّداً )

کہ سجدے کی حالت میں شہر کےدروازے میں داخل ہو جاؤ۔

ہم یہاں ایک نکتہ بیان کرتے ہیں : امام معصوم کےسامنےسجدہ کرنےکا کیا حکم ہے؟ شہید اول فرماتے ہیں : امام رضا اور ائمہ معصومین کی زیارت کےآداب میں سےایک یہ ہےجب ضریع میں، حرم میں داخل ہونا چاہیں تو زائر کو چاہیے پہلے بوسہ لے اور پیشانی کو زمین پہ رکھ کر اللہ تعالی کا شکر ادا کرے۔

دروس، ج ۲ ، ص ۲۵

حقیقت میں جب ہم امام کی زیارت کرتے ہیں تو اللہ تعالی کو سجدہ کرتےہیں جس طرح اللہ تعالی نےفرشتوں کو حکم دیا جب حضرت آدم پر نظر پڑے تو سجدہ کریں اور اللہ تعالی کا شکر ادا کریں۔ جب حضرت آدم کو فرشتے سجدہ کر سکتے ہیں تو امام معصوم کو جو کہ پوری کائنات کےساتھ ساتھ حضرت آدم کی بھی تخلیق کا سبب ہیں ان کو سجدہ کیوں نہ کیا جائے!

کچھ لوگ سوال کرتے ہیں کہ یہ کام ٹھیک نہیں ؟ لیکن کئی بار میں نےخود دیکھا ہےکہ مرحوم اراکی جب زیارت کیلئے ضریع میں داخل ہوتے تو اپنی پیشانی کو فرش پہ رکھتے اور چومتے ۔ حضرت آیت اللہ بہجت جب خلوت میں ہوتے تو خود کو زمین پہ گراتے اور چوکھٹ کو چومتے رہتے۔

آیت آگے بڑھتی ہےاور فرماتی ہے

وَ قُولُوا حِطَّةٌ:

جب سجدہ کرو تو کہنا : معافی معافی یعنی اللہ تعالی ہمارے گناہ معاف فرما۔ اس آیت کی تفسیر میں امام باقر فرماتے ہیں کہ :

نَحْنُ بَابُ حِطَّتِكُمْ

تفسیر برھان، ج ۱ ، ص ۱۰۴: نورالثقلین، ج ۱ ، ص ۸۳

ہم گناہوں کی بخشش کا دروازہ ہیں ۔ ایک اور روایت میں امام علی فرماتے ہیں کہ:

( نَحْنُ) أَنَا بَابُ حِطَّة

بحارالانوار، ج ۶۵ ، ص ۶۱ ۔

وہ دروازہ جس کےسامنےبنی اسرائیل گناہوں کی بخشش طلب کررہےتھے وہ دروازہ ہم ائمہ معصومین ہیں۔ اللہ تعالی فرماتا ہےجب تک بنی اسرائیل سےامیرالمومنین (ع) اور ائمہ معصومین (ع)راضی نہ ہوں گے اللہ تعالی ان کےگناہ معاف نہیں کرے گا ۔

بنی اسرائیل حطہ کی جگہ پہ حنطہ

بحارالانوار، ج ۱۳ ، ص ۱۷۹ ۔

یعنی گندم پکار رہےتھے۔ اگر انسان کی فکر مادی ہوگی تو وہ قرآن کی تفسیر بھی مادی کرے گا ۔

زیارت جامعہ کےایک حصے میں ارشاد ہوتا ہےکہ :

يَا وَلِيَّ اللَّهِ إِنَّ بَيْنِي وَ بَيْنَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ ذُنُوبا لا يَأْتِي علیها إِلا رِضَاكُمْ

اے خدا کےولی میرے اور خدائے عزوجل کےدرمیان وہ گناہ ہیں جو سوائے آپ کی رضامندی کےمحو نہیں ہو سکتے۔

اگر ہم لاکھوں مرتبہ استغفار کریں پوری رات صبح تک گریہ کریں کو ئی فائدہ نہیں ۔ پس کس طرح ہم اپنےگناہوں کی بخشش کروائیں ؟

روایتوں میں آیا ہےکہ پیر یا جمعرات کو ہمارے نامہ اعمال امام معصوم کےسامنےپیش ہوتے ہیں وہ ہمارے اعمال کو دیکھتے ہیں جب ہم نیک عمل کرتے ہیں تو امام ہمارے لئے توفیق کےاضافے کی دعا کرتے ہیں اور جب ہم برے اعمال کرتے ہیں تو امام ہمارے لئے استغفار کرتے ہیں ان کا استغفار ہمارےلئے فائدہ مند ہے۔

تفسیر نورالثقلین، ج ۲ ، ص ۲۶۴ ۔

رسول اکرم(ص) کےزمانےمیں بھی اسی طرح تھا ۔ استغفار کےآداب میں ہےکہ لوگ رسول اکرم(ص) کی خدمت حاضر ہوں تاکہ رسول اکرم(ص)ان کیلئےاستغفار کریں اوراللہ تعالی ان کےگناہوں کو معاف کرے۔

مدینہ المعاجز، ج ۸ ، ص ۲۷۱ ۔

حقیقت میں ولایت کااعتقادگناہوں کی بخشش کاذریعہ ہے۔جب ہم ولایت پرایمان رکھتے ہیں توہماری استغفارمیں اثرپیدا ہوتا ہے، ہماری نمازمیں اثر پیدا ہوتاہے، ہماری توبہ میں اثر پیدا ہوتاہے، ہمارےرونےمیں اثر پیدا ہوتاہے، ہماری زیارت میں اثر پیدا ہوتا ہےاور اگر ہمیں ولایت پر یقین نہ ہو تو ان تمام اعمال کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ حقیقت میں اثر، ولایت کا ہے۔

نویں مجلس

روایات میں ائمہ معصومین کا باب اللہ ہونا

اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَكُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُّبِينٍ )

سورہ یس، آیت ۱۲ ۔

اور ہم نےہر شے کو ایک روشن امام میں جمع کردیا ہے۔

رسول اکرم(ص) نےارشاد فرمایا :

ان علیا باب اله الاکبر

بحار، ج ۴۰ ، ص ۵۵ ۔

بتحقیق حضرت علی (ع)اللہ تعالی کا بڑا دروازہ ہے۔

گذشتہ بحث میں ہم نےان آیات کو ذکر کیا جن سےائمہ معصومین کا باب اللہ ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اس مورد میں ہم ان روایات کو ذکر کرتے ہیں جن سےائمہ معصومین کا باب اللہ ہونا ثابت ہوتا ہےوہ روایات بہت زیادہ ہیں حد تواتر سےبھی زیادہ ۔ ہم یہاں اس موضوع میں چند روایتوں کا ذکر کرتے ہیں ۔

رسول اکرم(ص) ایک روایت میں ارشاد فرماتے ہیں :

ان علیا باب اله الاکبر

امیرالمومنین (ع) اللہ تعالی کی طرف اور توحید کی طرف رہنمائی کرنےوالا بزرگترین دروازہ ہے۔اسی طرح رسول اکرم(ص) ایک اور روایت میں ارشاد فرماتے ہیں :

أَنَّ علیاً بَابُ الْهُدَى بعْدِي‏؛

امالی الصدوق، ص ۲۰ ۔

امیرالمومنین (ع) میرے بعد باب ہدایت ہیں۔ تمام انبیاء اللہ تعالی تک پہنچنےکا ذریعہ ہیں لیکن وہ انبیاء بھی اللہ تعالی تک پہنچنےکیلئے ایک دروازے اور ذریعے کےمحتاج ہیں جو کہ بزرگترین باب اللہ ہیں اور بزرگترین باب اللہ امیرالمومنین (ع) اور ائمہ معصومین ہیں ۔

سلیم بن قیس ہلالی کوفی حضرت سلمان سےنقل کرتے ہیں کہ :

فَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ مُؤْمِناً وَ مَنْ خَرَجَ مِنْهُ كَانَ كَافِرا ؛

کتاب سلیم بن قیس، ص ۱۶۸ ؛ بحار، ج ۴۰ ، ص ۹۷ ۔

امیر المومنین باب اللہ ہیں جو ان کےراستے اور اس دروازے سےاسلام میں داخل ہوا وہ مومن ہےاور جو اس دروازے سےخارج ہوا وہ کافر ہے۔

ایمان اور کفر

ہم یہاں ایک علمی نکتے کو بیان کرتے ہیں : ہر کلمہ اور صفت کا ایک ضد اور مقابل ہوتا ہےجیسےنور کا ظلمت، رات کا دن، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ ایمان کا ضد اور مقابل کیا ہے؟ کیا ایمان کا ضد مسلمان ہے؟ نہیں ۔ اگر ہم ان آیتوں کو ملاحظہ کریں جواللہ تعالی نےایمان کےمتعلق نازل فرمائی ہیں تو پتا چلتا ہےکہ اللہ تعالی نےایمان کےمقابل اور ضد کےطور پر کلمہ فاسق کو استعمال کیا ہے۔

اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:

( أَفَمَن كَانَ مُؤْمِنًا كَمَن كَانَ فَاسِقًا لَّا يَسْتَوُونَ ۔)

کیا وہ شخص جو صاحبِ ایمان ہےاس کےمثل ہوجائے گا جو فاسق ہےہرگز نہیں دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔

احادیث اور روایات میں مومن سےمراد وہ انسان ہےجو ائمہ معصومین کی امامت کو قبول کرے۔ حقیقت میں ایمان کا رکن، امامت اور ولایت ائمہ معصومین (ع)ہے۔ جو ولایت نہیں رکھتا وہ مومن نہیں اور جو مومن نہیں وہ مومن کا ضد اور مقابل ہےیعنی وہ کفر کی صف میں کھڑاہےاور ضروری ہےکہ اسےکافر گنا جائے۔

ہم زیارت جامعہ میں پڑھتے ہیں کہ :

مَنْ أَتَاكُمْ نَجَا وَ مَنْ لَمْ يَأْتِكُمْ هَلَكَ

جو آپ کےپاس آگیا اس نےنجات پالی اور جو نہ آیا ہلاک ہو گیا۔

حضرت سلمان فرماتےہیں: جوبھی امامت کےماننےکےبعدامامت کامنکرہواوہ کافرہے۔لیکن امام علی نقی زیارت جامعہ میں اس بھی آگےبڑھ کرفرماتے ہیں: جوبھی امامت اورولایت کونہیں مانتا وہ کافرہے۔اوریہ سچا مطلب رسول اکرم(ص)کی حدیث سےلیاگیاہےجس میں رسول اکرم(ص)فرماتے ہیں:جوبھی اس حال میں مرا کہ اپنےزمانےکےامام کی معرفت نہیں رکھتا وہ جاہلیت کی موت مرا ۔ جیسا کہ پہلے اشارہ ہوا کہ زمان جاہلیت کفر والا زمانہ تھا۔

اللہ تعالی کی معرفت کا دروازہ

ایک اورروایت میں امام صادق(ع)فرماتے ہیں:

الاوصیاءُ هم ابواب الله عزوجل التي يوتى منهاولولاهم ماعرف الله بهم احتج الله علی خلقه؛

کافی، ج ۱ ، ص ۱۹۳ ۔

اوصیا ہی باب اللہ ہیں جس سےداخل ہوا جاتا ہے۔ اگر وہ نہ ہوتے تو اللہ کی معرفت حاصل نہ کہ جا سکتی ان کےذریعہ سےہی خداوندمتعال نےلوگوں پر اتمام حجت کی ہے۔

یعنی رسول اکرم(ص)کےجانشین ناقابل شکست باب اللہ ہیں جن سےاللہ تعالی ہرایک کوعطاکرتاہےہمیں چاہیے ان کےدرسےتوحید کو حاصل کریں اگر یہ نہ ہوتے تواللہ تعالی کی معرفت ممکن نہ تھی اور ان کےسبب اللہ تعالی نےتمام مخلوق پر حجت کو تمام کیاہے۔اس روایت میں امام صادق(ع)نےائمہ معصومین کو باب اللہ پکاراہےیعنی جو بھی چاہتا ہےکہ اللہ تعالی کی معرفت حاصل کرے اسےچاہیے اہلبیت کےراستے سےخدا تک پہنچے ورنہ اہلبیت کےراستے کو چھوڑ کر اللہ تعالی تک پہنچنا محال ہے؛ کیونکہ اہلبیت کےعلاوہ کوئی اللہ تعالی کی معرفت نہیں رکھتا ۔

سیدالشہداء امام حسین اس آیت

( وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ )

کی تفسیر میں ارشاد فرماتے ہیں :

إِنَّ اللَّهَ جَلَّ ذِكْرُهُ مَا خَلَقَ الْعِبَادَ إِلَّا لِيَعْرِفُوهُ فَإِذَا عَرَفُوهُ عَبَدُوهُ فَإِذَا عَبَدُوهُ اسْتَغْنَوْا بِعِبَادَتِهِ عَنْ عِبَادَةِ مَا سِوَاهُ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَ أُمِّي فَمَا مَعْرِفَةُ اللَّهِ قَالَ مَعْرِفَةُ أَهْلِ كُلِّ زَمَانٍ إِمَامَهُمُ الَّذِي يَجِبُ علیهمْ طَاعَتُهُ؛

تفسیرصافی، ج ۵ ، ص ۷۵ ۔

پوری کائنات کی خلقت کامقصد اللہ تعالی کی معرفت حاصل کرناہےاورجب اللہ تعالی کی معرفت ہوگی تواللہ تعالی کی عبادت کی جائےگی اورجب اللہ تعالی کی عبادت ہوگی توغیرکی عبادت سےانسان کی جان چھوٹ جائےگی۔

ہم دعائےکمیل میں پڑھتے ہیں کہ:اللہ تعالی کی بندگی انسان کوغیرسےبے نیازبنادیتی ہے۔ہم جو کہ دنیاکی ہوا، ہوس، زرق اور برق میں مبتلا ہیں کیسےدنیاسےبےنیازہوسکتےہیں؟ہم جب اللہ تعالی کےبندے بن جائیںگےسب قیدوں سےآزادہوجائیںگےاورتمام چیزوں سےبےنیازہوجائیںگے۔اسکےبعدراوی نےسوال کیا:اللہ تعالی کی معرفت سےکیامرادہے؟ہم کیسےاللہ تعالی کی معرفت حاصل کریں؟امام نےفرمایا:اللہ تعالی کی معرفت سےمرادانسان کااپنےوقت کےامام کوپہچاننا ہےجسکی اطاعت اللہ تعالی نےواجب قراردی ہے۔

اس بنا پر اگر ہم نےامام زمانہ کو پہچانا تو ہم اللہ تعالی کی معرفت بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر نہج البلاغہ نہ ہوتا، صحیفہ سجادیہ نہ ہوتا، اہلبیت کےکلمات نہ ہوتے توہم اللہ تعالی کو کیسےپہچانتے؟ جس طرح اہلسنت حضرات اللہ کو نہیں پہچان سکےاور ان میں سےاکثر اللہ تعالی کی جسمانیت کےقائل ہوگئے ہیں۔

امام صادق (ع) فرماتے ہیں :

َ ذِرْوَةُ الْأَمْرِ وَ سَنَامُهُ وَ مِفْتَاحُهُ وَ بَابُ الْأَنْبِيَاءِ وَ رِضَى الرَّحْمَنِ الطَّاعَةُ لِلْإِمَامِ بَعْدَ مَعْرِفَتِه‏؛

بحار، ج ۲۳ ، ص ۲۹۴ ۔

جو بھی اسلام کےبلند قلعے میں داخل ہونا چاہتا ہے، اور جو بھی اسلام کےبلند قلعے کی چابی چاہتا ہے،اور جو بھی اللہ تعالی کی رضایت چاہتا ہے، جو بھی تمام چیزوں کو حاصل کرنا چاہتا ہے(جیسےسیاست، اقتصاد، اخلاق، اعتقاد، عرفان، عبادت) اس کو دو کام کرنےچاہییں۔

پہلا : امام کی معرفت۔ دوسرا : امام کی اطاعت۔

فکر کی اصلاح (حکمت نظری)امام کی معرفت میں ہےاور عمل کی اصلاح (حکمت عملی) امام کی پیروی میں ہے۔ہم اس کام کےذریعے تمام چیزوں کو حاصل کر سکتے ہیں۔ پہلے امام کو پہچان کر قبول کریں پھر امام کی اطاعت کرنےکی کوشش کریں۔

( وَلِلَّـهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ )

سورہ اعراف، آیت ۱۸۰ ۔

(اور اللہ ہی کےلئےبہترین نام ہیں)اس آیت کی تفسیرمیں فرماتے ہیں:

امام رضا:

نحن واللَّـهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ؛

کافی، ج ۱ ، ص ۱۴۴ ۔

اللہ تعالی کی قسم ! اللہ تعالی کےاسماء حسنی ہم اہلبیت ہیں ۔

اسم آئینےکو کہتے ہیں جس کےسامنےکسی چیز کو دیکھا جائے اور پہچانا جائے۔

اس بناءپرہم کہتےہیں اللہ تعالی کےاسماء حسنی اہلبیت ہیں۔اسکاکیامطلب ہوا؟جب ہم اپنا چہرہ دیکھنا چاہتے ہیں تو آئینےکی طرف جاتے ہیں اوراپناچہرہ دیکھتے ہیں۔اگرہم اللہ تعالی کی قدرت،عظمت، رحمت، کودیکھناچاہتےہیں توبھی ایک آئینےکی ضرورت ہے۔اورائمہ معصومین وہ آئینہ ہیں۔اگرتم اللہ تعالی کی قدرت،عظمت، رحمت، کودیکھنا چاہتےہو توجاؤاہلبیت کی قدرت،عظمت اوررحمت،کو دیکھو۔جب اہلبیت کی قدرت، عظمت اوررحمت، دیکھ سکوتواللہ تعالی کی قدرت،عظمت اوررحمت کوبھی دیکھ سکوگے۔

ایک روایت میں امام زین العابدین فرماتےہیں :

نَحْنُ أَبْوَابُ اللَّهِ وَ نَحْنُ الصِّرَاطُ الْمُسْتَقِيم‏؛

معانی الاخبار، ص ۱۴ ۔

ہم ہی باب اللہ ہیں ہم ہی سیدھا راستہ ہیں۔

( قُلْ أَرَآیتمْ إِنْ أَصْبَحَ مَاؤُكُمْ غَوْرًا فَمَن يَأْتِيكُم بِمَاءٍ مَّعِينٍ )

سورہ ملک، آیت ۳۰.

کہہ دیجئےکہ تمہاراکیاخیال ہےاگرتمہاراساراپانی زمین کےاندرجذب ہوجائےتوتمہارےلئےچشمہ کاپانی بہاکرکون لائےگا)اس آیت کی تفسیرمیں فرماتے ہیں :

مَاؤُكُمْ أَبْوَابُكُمْ أَيِ الْأَئِمَّةُ وَ الْأَئِمَّةُ أَبْوَابُ اللَّهِ بَيْنَهُ وَ بَيْنَ خَلْقِه‏؛

بحار، ج ۲۴ ، ص ۱۰۰ ۔

یعنی ائمہ معصومین اللہ تعالی اور اس کی مخلوق کےدرمیان دروازہ ہیں ۔

یعنی توحید پر ایمان، معاد پر ایمان، رسالت پر ایمان، ملائکہ پر ایمان، غیب پر ایمان کا ایک دراوزہ ہےجو کہ ہم اہلبیت ہیں ۔ جو ہم اہلبیت پر ایمان نہیں رکھتا اس کےپاس توحید، معاد، رسالت، ملائکہ، غیب پر ایمان نہیں ہے۔

اسی طرح شہر احکام، شہراخلاق، شہر یقین اورشہرعلم کا ایک دروازہ ہےجو کہ اہلبیت کی ذات ہے۔

قرآن کادروازہ اہلبیت ہیں۔جوقرآن پڑہناچاہتاہے، قرآن سمجھنا چاہتاہے، قرآن کےباطن کی آگاہی حاصل کرناچاہتاہے،تفسیرقرآن کو جانناچاہتاہے، قرآن کی لطافتوں اورنزاکتوں کاعلم حاصل کرناچاہتاہےتواسےدراہلبیت سےفیض حاصل کرناپڑےگا۔

پہلی مجلس

اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَعَلَامَاتٍ وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ )

سورہ نحل، آیت ۱۶

اور علامات معین کردیں اور لوگ ستاروں سےبھی راستے دریافت کرلیتے ہیں۔

امام علی نقی (ع)زیارت جامعہ میں ارشاد فرماتے ہیں :

مَوَالِيَّ لا أُحْصِي ثَنَاءَكُمْ وَ لا أَبْلُغُ مِنَ الْمَدْحِ كُنْهَكُمْ؛

اے ہمارے پیشوا، آپ کی تعریف کا احصاء نہیں ہو سکتا اور میں مدح میں آپ کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا ۔

شیعوں کا سب اہم وظیفہ امام معصوم کی پہچان ہےاور یہ صرف شیعوں کا وظیفہ نہیں بلکہ تمام انسانوں کا وظیفہ ہے۔ ا س روایت کےمطابق جو رسول اکرم (ص) سےمنقول ہے، جسےتمام شیعہ اور سنی علماء نےبیان کیا، جس میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں ۔ رسول اکر م (ص) فرماتے ہیں:

مَنْ مَاتَ وَ لَمْ يَعْرِفْ إِمَامَ زَمَانِهِ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّة؛

بحارالانوار جلد ۳۲ ، صفحہ ۳۳۱ ینابیع المودہ، جلد ۳ صفحہ ۳۷۲

اگر امام کی معرفت نہ ہو تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔

جاہلیت کا زمانہ، خدا کےانکار، نبوت اور رسالت کی نفی، وحشی گری، بت پرستی، بے حیائی اور کفرکا زمانہ تھا ۔

زیارت جامعہ، امام کی معرفت کا درس

اس کےباوجود کہ امام علی نقی(ع) نے ۳۴ چونتیس سال امامت کی، امام کا زمانہ انتہائی ظلم و جورکا زمانہ شمار ہوتا ہے۔ امام کےدور میں بنی عباس کےخبیث ترین خلیفہ متوکل عباسی کی حکومت تھی، جس نےامام کو لوگوں سےدور کرنےکیلئے سامرا جلا وطن کیا اور وہاں امام کا محاصرہ کیا، لیکن امام ہادی ؑنےکمال امامت کےساتھ وہ کام کیا کہ ہر شیعہ کو حیرانی اور پریشانی سےنجات بخشی۔

اگر امامت کےموضوع پر کوئی آیت اور روایت نہ ہوتی تو بھی زیارت جامعہ امام کی معرفت کیلئے کافی تھی ۔ امام علی نقی (ع) اس زیارت کےذریعے قیامت تک کےانسانوں کو امام کی معرفت کا درس دیتے ہیں ۔ مرحوم سید عبد الہادی شیرازی

(نجف اشرف کےعظیم مرجع تقلید)اس بارے میں فرماتے ہیں: زیارت جامعہ، امام کا کلام ہونےکی وجہ سےہمارے افکار کی تصحیح کرتی ہے۔

زیارت جامعہ کی سند

ہم دیکھتے ہیں کہ کبھی فضائل ائمہ معصومین(ع) والی روایتوں کی سند کےبارے میں تحقیق کی جاتی ہےکہ اس روایت کی سند ضعیف ہےیا قوی؟ اس لحاظ سےہم چاہتے ہیں کہ پہلے زیارت جامعہ کی سند پر تحقیق پیش کریں تاکہ اس کی صحت کا اطمنان پیدا ہو جا ئے اور کوئی بھی اس پر اعتراض نہ کرسکے۔ اس تحقیق میں ہم زیارت جامعہ پر چند زاویوں سےنظر ڈالتے ہیں۔

۱ ۔ قوت متن

کچھ روایتوں پہ نظر پڑتے ہی ان کی صحت اور صداقت کا یقین ہو جاتا ہے؛ کیونکہ ان کا متن ہی ان کےسچے اور کلام امام ہونےکی تصدیق کرتا ہےان میں سےایک زیارت جامعہ ہے۔

ہمارے استاد مرحوم شیخ عبدالکریم حامد فرماتے تھے: بعض لوگ کہتےہیں: مناجات خمسہ عشر کی سند ضعیف ہے۔ تم سےجو بھی یہ بات کہےاس کو جواب میں کہو: تمہاری عقل ضعیف ہے۔ معصوم کےعلاوہ کوئی بھی اللہ تعالی سےاس قسم کی مناجات نہیں کر سکتا کیونکہ معصوم کےعلاوہ کوئی ایسی معرفت نہیں رکھتا ۔

جیسےکچھ لوگ حدیث کساکےبارے میں بحث کرتے ہیں کہ: اسکی صحیح سند موجود ہےیا نہیں؟

جنگ کےزمانےمیں آیت اللہ بہاء الدین اپنےچند دوستوں کےساتھ درود (ایران کا ایک شہر )میں تھے۔ ان کےساتھ ہمارے استاد حاج آقا سوشتری بھی موجودتھے، جو اس وقت شہر (درود) کےامام جمعہ تھے۔

انہوں نےآیت اللہ بھاء الدین سےسوال کیا: دشمن اس جگہ پرمسلسل بمباری کر رہا ہےآپ کیا حکم دیتے ہیں؟

آیت اللہ بھاء الدین نےجواب دیا: میری ماں زہرا(س) نےمجھ سےکہا ہےکہ لوگوں سےکہو:حدیث کساء پڑھیں۔

لوگوں نےحدیث کسا پڑھنا شروع کردی اس دن کےبعد درود میں کبھی بم کا دھماکہ نہیں ہوا ۔

وہ فرماتے ہیں: اس وقت ہم نےدشمن کےایک پائلٹ کو پکڑا۔ اس سےبات چیت کی میں نےخود وہ بات چیت سنی۔ اس سےپوچھا گیا: تمہاری ڈیوٹی کہاں تھی ؟

پائلٹ نےجواب میں کہا: میری ڈیوٹی درود میں تھی۔ جب میں یہاں آیا میں نےشہر( درود)کو دیکھا۔

لیکن جب نزدیک آیا تو مجھے ایک دریا نظر آیا، اس لئے میں نےاس پر بمباری نہیں کی اور کہیں اور بمباری کی۔

جب ہم نےتحقیق کی توپتاچلاحدیث کساپڑھنےکےبعدیہ واقعہ پیش آیاتھا۔اس دلیل کےہوتےہوئےکوئی اسکی صحت میں شک کرسکتا ہے؟ کیا یہ حدیث من بلغ (کافی، ج ۲ ، ص ۸۷) سےکمتر ہےجس پر مستحبات اور مکروہات پر عمل کیا جاتا ہے؟

اسی طرح کچھ لوگ سوال کرتے ہیں جمکران کی سند ہےیا نہیں ؟حالانکہ بہت زیادہ افرادنےوہاں امام زمانہ(ع) کی زیارت کی ہےاور وہاں سےاپنی مرادیں پائی ہیں۔ ہم اپنےدوستوں کےساتھ آیت اللہ بھاء الدین کی خدمت میں تھے، جب جمکران کی بات آئی۔

تو انہوں نےفرمایا: کتنی ہی بار ایسا ہوا ہےکہ جب ہم جمکران کےقریب جاتے ہیں تو ہماری حالت تبدیل ہو جاتی ہے۔

احادیث من بلغ سےمراد وہ احادیث ہیں جن کا مضمون یہ ہےکہ اگر تمہارے پاس کوئی روایت پہنچے جس میں کسی عمل کا ثواب ذکر ہوا ہو اور تم اطاعت کرتے ہوئے اس پر عمل کرع تو اتنا ثواب تمہیں ملے گا اگرچہ وہ روایت ضعیف ہو، البتہ اس حدیث پر زیادہ تر عمل مستحبات اور مکروہات میں کیا جاتا ہے۔

۲ ۔ معتبر کتابوں میں نقل ہونا

زیارت جامعہ کو اکثر بزرگوں نےاپنی کتابوں میں نقل کیا ہے۔ شیعوں کےپاس قرآن کےبعد چار کتابیں معتبر ہیں جن کو کتب اربعہ کہا جاتا ہے۔ جو کہ شیعوں کی بنیادی کتابیں ہیں۔ان میں سےایک کتاب، اصول اور فروع کافی ہے۔ جس کو شیخ کلینی نےلکھا ہے۔ دوسری کتاب من لا یحضر ہ الفقیہ ہےجس کو رئیس المحدثین شیخ صدوق نےلکھا ہے، ج کہ و امام زمانہ (ع)کی دعا سےپیدا ہوئے۔ بعض بزرگان فرماتے ہیں : امام زمانہ(ع) بعض اوقات ان کی قبر پر جاتے ہیں۔تیسری اور چوتھی کتاب تہذیب اور استبصار ہے۔جس کےمصنف شیخ طوسی ہیں ۔

شیخ طوسی تہذیب الاحکام، جلد ۶ ، صفحہ ۹۵ میں اورشیخ صدوق من لا یحضرہ الفقیہ، جلد ۲ ، صفحہ ۶۰۹ میں زیارات کےباب میں اس دعا کو ذکر کرتے ہیں مخصوصا شیخ صدوق اپنی کتاب کی ابتدا میں فرماتے ہیں: میں اس کتاب میں نقل کردہ تمام روایات کی صحت اورصدق کااعتقادرکھتا ہوں اور اسکی صحت اور صدق کا فتوی دیتا ہوں۔

آپ لوگو ں نےملاحظہ کیا کہ تین معتبر کتابوں کےدو بزرگوار عالم اپنی کتابوں میں اس زیارت کو نقل کرتے ہیں ۔

ائمہ معصومین(ع)کی تائید

دوسرےعلماءبھی جیسےعلامہ محمدتقی مجلسی اپنی کتابوں میں زیارت جامعہ کی تصدیق کرتےہیں اورروضہ المتقین کی پانچویں جلدمیں فرماتے ہیں: مجھے خواب میں امام رضا (ع) کی زیارت کا شرف حاصل ہوا۔ میں نےدیکھا کہ: جب مجھے امام رضا(ع) کی زیارت نصیب ہوئی تو میں زیارت جامعہ پڑھ رہاتھا۔

امام نےفرمایا : احسنت، احسنت یعنی بہت خوب۔ امام (ع)نےزیارت جامعہ کی تعریف کی اور زیارت جامعہ پڑھنےپرمیری بھی تعریف کی۔

روضة المتقین، جلد ۵ ، صفحہ ۴۵۱

اس کےبعد وہ فرماتے ہیں : جب میں امام علی(ع) کی خدمت میں تہذیب اور ریاضت میں مشغول تھا۔ مجھے رواق عمرا ن میں ایک مکاشفہ ہوا۔ میں نےدیکھا کہ: میں سامرا میں امام زمانہ (ع)کی خدمت میں کھڑے ہو کر زیارت جامعہ کی تلاوت میں مشغول ہوں۔ جب زیارت تمام ہوئی امام زمانہ (ع)نےارشاد فرمایا : نعمت الزیارۃ۔ یہ بہترین زیارت ہے۔

اس مکاشفہ کےذکر کےبعد علامہ مجلسی فرماتے ہیں:

والحاصل لا شک لی انه من انشائات امام الهادي(ع)

مجھے یقین ہےکہ زیارت جامعہ، امام علی نقی (ع) سےوارد ہوئی ہے۔ ہم ہمیشہ حرم اور غیر حرم میں جب کسی معصوم (ع) کی زیارت پڑھتے ہیں تو زیارت جامعہ کی تلاوت کرتے ہیں۔

روضة المتقین، جلد ۵ ، صفحہ ۴۵۲

علامہ نےاپنی کتاب روضہ المتقین کی پانچویں جلدمیں زیارت جامعہ کی سندکےسلسلےمیں بحث کی ہےاوراسےقابل اعتمادقراردیاہے۔

علامہ مجلسی کےکلام میں زیارت جامعہ کی خصوصیات

مرحوم علامہ محمدباقرمجلسی، علامہ محمدتقی مجلسی کےفرزند اپنےنورانی کتاب بحارالانوارمیں فرماتے ہیں:

إنما بسطت الكلام في شرح تلك الزيارة قليلا و إن لم أستوف حقها حذرا من الإطالة لأنها أصح الزيارات سندا و أعمها موردا و أفصحها لفظا و أبلغها معنى و أعلاها شأنا ۔

بحارالانوار جلد۹۹، صفحہ ۱۴۴

ہم نےزیارت جامعہ کو کچھ تفصیل سےبیان کیا ہے۔ اگر چہ اس کاحق ادا نہیں کر سکےکیونکہ زیارت جامعہ سند کےلحاظ سےصحیح ترین زیارت ہے، اور لفظ کےلحاظ سےفصیح ترین زیارت ہے، معنی کےلحاظ سےموثر ترین زیارت ہےاور اس زیارت کی شان بہت بلند ہے۔

جب میں نےزیارتوں کو نقل کرنا چاہا اور بات زیارت جامعہ تک پہنچی تو میں نےمندرجہ ذیل دلائل کی وجہ سےاس کو شرح کی ہے:

الف) زیارت جامعہ شیعوں کی زیارتوں میں سےصحیح ترین زیارت ہے۔ زیارت امین اللہ بھی صحیح ہےاور زیارت امام رضا اور حضرت معصومہ بھی صحیح ہے۔ لیکن صحیح ترین اور سند کےلحاظ سےمحکم ترین زیارت، زیارت جامعہ ہے۔

ب) زیارت جامعہ کےعلاوہ تمام زیارتیں کسی ایک مقام اور کسی ایک امام یا چند مقام اور چند اماموں کےساتھ مخصوص ہیں۔ صرف زیارت جامعہ ہی ہےجو تمام اماموں اورمعصومین کی زیارت میں پڑھی جا سکتی ہے۔

ج )عبارت کےلحاظ سےزیارت جامعہ بہت ہی بلند، فصیح اور خوبصورت ہےکوئی کلام اتنا بلند، فصیح اور خوبصورت نہیں ہو سکتا ۔

د)تمام زیارتیں بلاغت کا نمونہ ہیں۔ لیکن ان زیارتوں میں کچھ عبارتیں بہت مشکل ہیں جو ہر ایک کو اچھی طرح سمجھ میں نہیں آسکتیں۔ لیکن زیارت جامعہ معنی کےلحاظ سےاور مطلب کو پہنچانےمیں عجیب تاثیر رکھتی ہے۔ بلاغت کا بے نظیر نمونہ ہےجس کو ہر ایک آسانی سےسمجھ سکتا ہے۔

ھ)دوسری زیارتوں میں ائمہ معصومین (ع) کےچند ایک فضائل اور منصب ذکر ہوئے ہیں۔ لیکن زیارت جامعہ وہ تنہا زیارت ہےجس میں امامت اور ولایت کےتمام مسائل تفصیل سےبیان ہوئے ہیں ۔

علامہ مجلسی فرماتے ہیں: ان پانچ اسباب کی بنیاد پر میں نےچاہا کہ زیارت جامعہ پر ایک مختصر شرح لکھوں ۔

حکایت سیدرشتی

جن بزرگوں نےزیارت جامعہ کو نقل کیا ہےان میں سےایک مرحوم شیخ عباس قمی ہیں۔ وہ اپنی کتاب مفاتیح الجنان میں زیارت جامعہ کےباب میں سیدرشتی کی حکایت کو ذکرکرتے ہوئے فرماتےہیں:مرحوم سیدرشتی اپنےقافلے سےبچھڑ گیا اوربہت پیچھے رہ گیا تو ان کو امام زمانہ(ع)کی زیارت کاشرف نصیب ہوا، امام زمانہ(ع)نےان کوتین چیزوں کی سفارش کی۔

امام زمانہ (ع) فرماتے ہیں: تم لوگ نافلہ نماز کیوں نہیں پڑھتے ؟ نافلہ، نافلہ، نافلہ ۔تم لوگ زیارت عاشورا کیوں نہیں پڑھتے؟ عاشورا، عاشورا، عاشورا۔ تم لوگ زیارت جامعہ کیوں نہیں پڑھتے؟ جامعہ، جامعہ، جامعہ

اس حکایت میں ایک اہم نکتہ یہ ہےکہ : بھلا گم ہونےکا زیارت جامعہ سےکیا واسطہ؟ واسطہ یہ ہےکہ: اگر ظاہری چیز گم ہو جائےامام زمانہ(ع)کو پکارو۔ اگرمعنوی چیز گم ہو جائے!معنوی مسئلےمیں حیران اور پریشان ہوں، اگرتمہیں پتا نہ چلے کہ اللہ تعالی سےکیسےرابطہ رکھیں تو بھی امام زمانہ(ع)کو پکارو۔ اب ہرچیز کیلئے امام زمانہ(ع)کو پکاریں لیکن امام زمانہ(ع) کی معرفت حاصل کرنےکیلئےکیا کریں؟امام زمانہ کی معرفت کیلئےزیارت جامعہ پڑھیں۔جس کی معرفت میں اضافہ ہوگاوہی امام کویا اباصالح المہدی کہہ کر بلائےگااورامام بھی اس کی فریادکوآئےگااوراس مسئلہ حل کرےگا ۔

ہمارےایک استادعقائدپر درس دےرہےتھے۔ میں بھی پہلےتوحید، امامت اورولایت کےبارےمیں وسوسےکاشکارتھا۔ میں آیت اللہ مرعشی نجفی کی خدمت میں گیا اور اپنا مسئلہ بیان کیا تو انہوں نےارشاد فرمایا: تمہیں چاہیے لگاتار زیارت جامعہ کی تلاوت کرو۔ میں نےاس بات پرعمل کیا نہ صرف وسوسےدور ہوگئے بلکہ مجھےکچھ معنوی مقامات بھی نصیب ہوئے ۔

یہ تمام چیزیں مقدمہ تھیں تاکہ ہم اصل بحث میں داخل ہوسکیں ۔

اللہ تعالی سےدعا ہےکہ ہمیں توفیق نصیب ہو کہ ہمارا روزبروز دعائوں اورزیارتوں سےتعلق گہراہوتا جائے۔انشاء اللہ

دوسری مجلس

اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:

( فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّـهُ أَن تُرْفَعَ وَيُذْكَرَفِيهَا اسْمُهُ )

سورہ نور، آیت ۳۶ ۔

یہ چراغ ان گھروں میں ہےجن کےبارے میں خدا کاحکم ہےکہ ان کی بلندی کا اعتراف کیا جائے اوران میں اس کےنام کا ذکر کیا جائے۔

امام علی نقی(ع) زیارت جامعہ میں ارشاد فرماتے ہیں :

كَيْفَ أَصِفُ حُسْنَ ثَنَائِكُمْ

میں کیونکر آپ کی بہترین تعریف کر سکتا ہوں؟!

زیارت جامعہ کی نظر میں امامت کےمسائل،

اس بحث میں داخل ہونےسےپہلےہم کچھ نکات بیان کرنا چاہتے ہیں۔

پہلا نکتہ : فضائل کامجموعہ

زیارت جامعہ حقیقت میں ائمہ معصومین(ع)کےفضائل کا مجموعہ ہے۔جس میں ائمہ معصومین(ع) کےفضائل کی سیکڑوں حدیثیں بیان ہوئی ہیں۔ اگرکوئی ائمہ معصومین(ع)کےفضائل جانناچاہتاہے، اسےسالوں لگ جائیں گےہزاروں کتاب ڈھونڈنےپڑیں گے۔ لیکن امام علی نقی(ع)نےان تمام فضائل کو جمع کردیاہے۔

اب کہا جاسکتا ہے: زیارت جامعہ حقیقت میں ائمہ معصومین(ع) کےفضائل کی وہ کتاب ہےجو لاکھوں صفحات پرمشتمل ہے۔ تمام شیعہ اور سنی کتابوں میں موجود آئمہ معصومین(ع) کےفضائل ایک طرف اور زیارت جامعہ دوسری طرف، ان تمام کی برابری کرتی ہےبلکہ ان تمام پر برتری رکھتی ہے۔

دوسرا نکتہ: تکبیرکا فلسفہ

مرحوم محمدتقی مجلسی، مرحوم محمد باقرمجلسی، مرحوم شیخ عباس قمی اور بہت سارے بزرگوں نےفرمایا ہے: زیارت جامعہ پڑھنےکا طریقہ یہ ہےکہ: حرم میں داخل ہو جائیں اور زیارت جامعہ پڑھنےسےپہلے تیس مرتبہ، اللہ اکبر کہیں۔ پھر ضریح کی طرف چند قدم آگے بڑھیں، پھر تیس مرتبہ، اللہ اکبر کہیں۔ پھر ضریع کی طرف چند قدم آگے بڑہیں پھر چالیس مرتبہ، اللہ اکبر کہیں اور ضریح کےبلکل نزدیک ہو جائیں۔ جب ۱۰۰ سو تکبیریں پوری ہو جائیں تو زیارت جامعہ کی تلاوت شروع کریں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ: ان تکبیرات کا فلسفہ کیا ہے؟ ان تکبیروں کا فلسفہ یہ ہےکہ: جب انسان زیارت جامعہ کی تلاوت کرے تو ممکن ہےاس کو غلو کی بو آئے اور وہ سوچنےلگے کہ یہ تو خدائی صفات ہیں۔ کیونکہ بعض ضعیف عقیدہ افرادکو زیارت جامعہ غلو لگتی ہے۔ اس لئے پہلے سو بار، اللہ اکبر کہہ کر اعلان کریں کہ اللہ تعالی اس سےبھی بلندہے۔

مجھ حقیرکی نظرمیں، ان تکبیروں کاایک اورفلسفہ بھی ہوسکتا ہے۔وہ یہ کہ: زیارت جامعہ کی تعلیم امام علی نقی(ع)نےدی ہے۔اگر اس میں غلو ہوتا تو امام تعلیم نہ فرماتے۔بلکہ ائمہ معصومین(ع)کا مقام اس سےبھی بلند ہے۔امام علی نقی(ع) کا منظورہمیں سمجھانا تھا، اس لئے زیارت جامعہ میں اسان انداز اپنایا۔ اگر ہماری عقلیں سمجھ سکتیں تو ائمہ معصومین(ع) کی معرفت اس سےکہیں زیادہ بلند ہے۔ امام علی نقی(ع) اس سےبہتر انداز میں بیا ن کرتے۔

زیارت جامعہ میں تدبر

ہم جب کسی امام (ع) کی خدمت میں زیارت جامعہ کی تلاوت کرتےہیں تو اس نا آشنا کی طرح ہوتے ہیں جو کسی کی معرفت حاصل کرنا چاہتا ہو۔ اس لئے ہم سےکہا جاتا ہےہمیں مخاطب کر کےکلام کرو۔اس لئے ہم کہتے ہیں:

السَّلامُ علیكُمْ يَا أَهْلَ بَيْتِ النُّبُوَّةِ

سلام ہو آپ پر اے نبوت کےاہلبیت!

یہ تمام سلام، اہلبیت(ع) کو مخاطب کر کےہیں۔ کیونکہ ہم پہلے مہمان کی طرح ہیں۔ اس لئے اہلبیت (ع)نہیں چاہتے کہ کو ئی مہمان نا امید ہو۔ اس لئے ہمیں مخاطبانہ کلام کی اجازت دیتے ہیں! پھر جب انسان متوجہ ہوتا ہےکہ وہ کس سےکلام کر رہا ہے؟ تو ارشاد ہوتا ہے: اب دوبارہ پلٹ جاؤ اور غائبانہ طور پر ہم سےکلام کرو اور کہو:

السَّلامُ عَلَى أَئِمَّةِ الْهُدَى وَ مَصَابِيحِ الدُّجَى وَ

سلام ہو ہدایت کےائمہ پر اور تاریکیوں کےچراغ پر!

اس حصے میں زائر، ائمہ معصومین(ع)سےغائبانہ کلام کرتا ہےتو اہلبیت(ع) فرماتے ہیں: ہم سےغائبانہ کلام کرچکےاور ہمیں کسی حد تک پہچان لیا۔ اس لئے ہم سےدوبارہ مخاطبانہ کلام کرو۔ زائر کہتا ہے:

أَشْهَدُأَنَّكُمُ الْأَئِمَّةُ الرَّاشِدُونَ الْمَهْدِيُّونَ

اورمیں گواہی دیتا ہوں کہ آپ سب ائمہ ہادی اور مہدی ہیں۔

یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ:آپ ائمہ معصومین، آپ اہلبیت (ع) ہدایت کرنےوالے ہیں!

غائبانہ کلام سےمخاطبانہ کلام کی طرف آنےکو بلاغت میں التفات کہتے ہیں۔ زیارت جامعہ میں یہ انداز کس لئے ہے؟ اس انداز کا مطلب یہ سمجھانا ہےکہ حقیقیت میں اہلبیت(ع) اس سےبھی بہت زیادہ بلند ہیں۔ یہ زیارت جامعہ میں بیان شدہ صفتیں تو کچھ بھی نہیں۔ اہلبیت (ع) ان صفتوں کےعلاوہ بھی ہزاروں عظیم صفتوں کےمالک ہیں ۔ آپ لوگ صرف یہ نہ سمجھیں کہ: اللہ تعالی نےاہلبیت(ع) کو پیدا کیا اور فقط یہ فضائل اور کمالات ان کےنام کردئے۔ نہیں! اہلبیت(ع) کی ایک اور صفت بھی ہے۔ جو زیارت جامعہ میں بیان نہیں ہوئی۔ وہ یہ ہےکہ: اہلبیت (ع) کا وہ بلند مقام ہےکہ: جس کو سمجھنا ممکن نہیں۔ کیونکہ ہماری عقلیں اتنی سمجھ نہیں رکھتیں۔ اس لئے اس نورانی مقام کو بیان نہیں کیا گیا۔

ایک بزرگ فرماتے ہیں: اہلبیت(ع) کےمقام کو ایک لطیف نکتے کےذریعے سمجھنےکی کوشش کی جاسکتی ہے۔ وہ نکتہ یہ ہےکہ: اللہ تعالی نےقرآن میں ارشاد فرمایا ہے:

( وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ )

سورہ ذاریات، آیت ۵۶۔

اورمیں نےجنات اورانسانوں کوصرف اپنی عبادت کےلئے پیداکیاہے۔

عبادت کی بہت فضیلت ہے۔ لیکن معرفت کا درجہ اس سےبھی بلند ہے۔ تو اللہ تعالی نےیہ کیوں نہیں فرمایا کہ: انسانوں اور جنوں کو معرفت کیلئے پیدا کیا گیا ہے؟ وہ بزرگ فرماتے ہیں: عبادت بندے کا کام ہےاور معرفت اللہ تعالی کا کام ہے۔ معرفت بندے کےبس کی بات نہیں کہ اللہ تعالی مقصد خلقت، معرفت کو قرار دے۔ معرفت ایسی بلند چیز ہےجس کو انسان خود حاصل نہیں کر سکتا بلکہ معرفت دینا اللہ تعالی کا کام ہے۔ اس لئے ارشاد ہوتا ہے:

أَنَّ الْمَعْرِفَةَ مِنْ صُنْعِ اللَّه‏

کافی، ج ۲ ، ص ۲۱۲ ۔

معرفت دینا اللہ تعالی کاکام ہے۔ اس لئے اللہ تعالی انسانوں اور جنوں کی خلقت کیلئے عبادت کو مقصد قرار دیتا ہے۔ اور اس کا نتیجہ دینا اللھ تعالی کا کام ہے۔ اس لئے ہم پڑھتے ہیں:

اللَّهُمَّ عَرِّفْنِي نَفْسَكَ فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِي نَفْسَكَ لَمْ أَعْرِفْ رَسُولَكَ اللَّهُمَّ عَرِّفْنِي رَسُولَكَ فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِي رَسُولَكَ لَمْ أَعْرِفْ حُجَّتَكَ اللَّهُمَّ عَرِّفْنِي حُجَّتَكَ فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِي حُجَّتَكَ ضَلَلْتُ عَنْ دِينِ

(حوالہ:مفاتیح الجنان، غیبت کےدورمیں امام زمانہ (ع)کی دعاکاایک حصہ) ۔

پروردگارامجھےاپنی معرفت عطا فرما۔اگرتومجھےاپنی معرفت عطانہ کرےگاتومیں تیرےرسول کی معرفت حاصل نہ کرپاوںگا۔

پروردگارا مجھے اپنےرسول کی معرفت عطافرما؛ کیونکہ اگر تو نےمجھے اپنےرسول کی معرفت عطا نہ کی تو میں تیری حجت کی معرفت حاصل نہ کر پاؤں گا۔ پروردگارا! مجھے اپنی حجت کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو نےمجھے اپنی حجت کی معرفت عطا نہ کی تو میں اپنےدین سےگمراہ ہوجاؤں گا۔

تیسرا نکتہ: بے انتہا فضائل

ائمہ معصومین (ع)کی زندگی، ائمہ معصومین(ع)کی خصوصیتیں، ائمہ معصومین(ع)کےاخلاق حسنہ کابیان ایک زاویہ یادس زاویوں یاسوزاویوں میں محدودنہیں ہو سکتا۔ہماری تعبیرکےمطابق ائمہ معصومین(ع) اللہ تعالی کی نسبت متناہی اورمحدود ہیں۔لیکن ہم انسانوں کی نسبت نا متناہی اورغیر محدود ہیں۔ اب جب ائمہ معصومین(ع) غیر متناہی صفتوں کےمالک ہیں تو کیسےممکن ہےہم ائمہ معصومین(ع) کےبارے میں مکمل گفتگو کر سکیں !

زیارت جامعہ میں بھی دو مقامات پر اس نکتے کی طرف اشارہ ہوا ہے۔

پہلا مقام: اس عبارت میں

مَوَالِيَّ لا أُحْصِي ثَنَاءَكُمْ وَ لا أَبْلُغُ مِنَ الْمَدْحِ كُنْهَكُمْ وَ مِنَ الْوَصْفِ قَدْرَكُمْ

دوسرا مقام:

كَيْفَ أَصِفُ حُسْنَ ثَنَائِكُمْ

میں کیونکر آپ کی بہترین تعریف کر سکتا ہوں۔

یہ سچی بات ہےکہ ہم زیارت جامعہ کو پڑھتے اور سمجھتے ہیں لیکن ائمہ معصومین (ع) کی ذات کو اور خصوصیات کو کو ئی شمار نہیں کر سکتا ۔ رسول اکرم(ص) امام علی(ع) کےبارے میں فرماتے ہیں :

إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى جَعَلَ لِأَخِي علی بْنِ أَبِي طَالِبٍ ع فَضَائِلَ لَا تُحْصَى كَثْرَةً ؛

بحار، ج ۲۶ ، ص ۲۲۲۹ ۔

اللہ تعالی نےمیرے بھائی علی کیلئے اتنی فضیلتیں رکھی ہیں کہ جن کی تعداد کو کوئی شمار نہیں کر سکتا۔

بحارالانوار، ج ۲۶ ، و ۲۲۹ ۔

ممکن ہےیہاں کوئی اعتراض کرے کہ : حضرت علی (ع) کی فضیلتیں ایک فرد شمار نہ کر سکتا ہو یہ ممکن ہےلیکن کیسےممکن ہےتمام مخلوقات مل کر بھی حضرت علی (ع) کی فضیلتیں شمار نہ کر سکیں؟

رسول اکرم(ص) ایک اور روایت میں ارشاد فرماتے ہیں :

لَوْ أَنَّ الرِّيَاضَ أَقْلَامٌ وَ الْبَحْرَ مِدَادٌ وَ الْجِنَّ حُسَّابٌ وَ الْإِنْسَ كُتَّابٌ مَا أَحْصَوْا فَضَائِلَ علی بْنِ أَبِي طَالِبٍ ؛

بحار، ج ۳۸ ، ص ۱۹۷ ۔

اگرتمام درخت قلم بن جائیں اور تمام دریا سیاہی بن جائیں اورتمام جن شمارکرنےبیٹھیں اورتمام انسان لکھنےبیٹھیں تو بھی امام علی (ع) کےفضائل نہیں لکھ سکتے۔

بحار، ج ۳۸ ، ص ۱۹۷ ۔

امام صادق (ع) ایک روایت میں فرماتے ہیں :

لَا يَقْدِرُ الْخَلَائِقُ عَلَى كُنْهِ صِفَةِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَل‏؛

تمام مخلوقات جس طرح اللہ تعالی کاحق ہےاللہ تعالی کی ایسی معرفت حاصل نہیں کرسکتیں۔

بحار، ج ۶۴ ، ص ۶۵ ۔

جیسا کہ یہ قرآنی آیت بھی اسی مضمون کو بیان کر رہی ہے:

( وَ ما قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِه‏؛ )

سورہ انعام، آیت ۲۱ ۔

اس کےبعد امام (ع) نےارشاد فرمایا :

فَكَمَا لَا يَقْدِرُ عَلَى كُنْهِ صِفَةِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَكَذَلِكَ لَا يَقْدِرُ عَلَى كُنْهِ صِفَةِ رَسُولِ اللَّهِ ؛

جس طرح تمام مخلوقات اللہ تعالی کی معرفت حاصل نہیں کرسکتیں اسی طرح تمام مخلوقات رسول اکرم(ص) کی صفتوں کو شمار نہیں کر سکتیں اور رسول اکرم(ص) کی معرفت حاصل نہیں کر سکتیں۔

اس کےبعد امام (ع) نےفرمایا : جس طرح تمام مخلوقات رسول اکرم(ص) کی معرفت حاصل نہیں کر سکتیں اسی طرح ائمہ معصومیں (ع) کی بھی معرفت حاصل نہیں کر سکتیں۔ اسی طرح ایک حقیقی مومن کی معرفت بھی حاصل نہیں کر سکتیں۔ اس لئے اللہ تعالی نےارشاد فرمایا ہے:

( وَ ما أُوتيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلاَّ قَليلا )

سورہ اسرا، آیت ۸۵ ۔

یعنی اللہ تعالی کےبارے میں، امامت اور ائمہ معصومین (ع) کی فضیلتوں کےبارے میں تمہارا علم بہت کم ہے۔

چوتھا نکتہ: ائمہ معصومین (ع)کی توصیف سےانسان کی عاجزی

اگر ہم ائمہ معصومین (ع) کی چند صفتیں جانتے بھی ہیں تو بھی اس طرح نہیں جانتے جیسےجاننےکا حق ہےیعنی ائمہ معصومین (ع)کی بےشمارصفتیں ہیں اورہرصفت کےبےشمارپہلو ہیں۔

امام رضا (ع) اپنےعظیم الشان خطبہ میں ۔ جو انہوں نےامامت کےبارے میں ارشاد فرمایا ہے۔ فرماتے ہیں :

ضَلَّتِ الْعُقُولُ وَ تَاهَتِ الْحُلُومُ وَ حَارَتِ الْأَلْبَابُ وَ حَسَرَتِ الْعُيُونُ وَ تَصَاغَرَتِ الْعُظَمَاءُ وَ تَحَيَّرَتِ الْحُكَمَاءُ وَ تَقَاصَرَتِ الْحُلَمَاءُ وَ حَصِرَتِ الْخُطَبَاءُ وَ جَهِلَتِ الْأَلِبَّاءُ وَ كَلَّتِ الشُّعَرَاءُ وَ عَجَزَتِ الْأُدَبَاءُ وَ عَيِيَتِ الْبُلَغَاءُ عَنْ وَصْفِ شَأْنٍ مِنْ شَأْنِهِ أَوْ فَضِيلَةٍ مِنْ فَضَائِلِه‏؛

کافی، ج ۱ ، ص ۲۰۱ ۔

لوگوں کی عقلیں گمراہ ہو گئیں ہیں، فہم اور ادراک سرگشتہ اور پریشان ہیں، عقہل حیران ہیں، آنکھیں ادراک سےقاصر ہیں، عظیم المرتبت لوگ اس امر میں حقیر ثابت ہوئے، حکماء حیران ہو گئے، ذی عقل چکرا گئے، خطیب لوگ عاجز ہو گئے، عقول پر جہالت کا پردہ پڑ گیا، شعرا تھک کر رہ گئے، اہل ادب عاجز ہوگئے، صاحبان بلاغت عاجز آگئے، امام کی کسی ایک شان کو بیان نہ کر سکےاور اس کی ایک فضیلت کی تعریف نہ کر سکے۔

یعنی اگر کائنات کی تمام عقلین اتحاد کریں، تمام علماء اور دانشمند مل بیٹھیں، تمام تاریخ دان اور لکھنےوالے جمع ہوں اور ائمہ معصومین (ع) کی کسی ایک صفت کو کماحقہ بیان کرنےکی کوشش کریں تو اس ایک صفت کو بھی کما حقہ بیان نہیں کر سکتے۔

کافی، ج ۱ ، ص ۲۰۱ ۔

مثال کےطور پر زیارت جامعہ میں ائمہ معصومین (ع) کی ایک صفت خزان العلم بیان ہوئی ہے۔ کیاہم اپنی عقل، فکر اور دانش کی بنیاد پر ائمہ معصومین (ع) کےعلم کو جان سکتے ہیں؟ کیا ہم سمجھ سکتے ہیں کہ ائمہ معصومین (ع) کےعلم کی حد کیا ہے؟

اگر کوئی تاجر اپنا پورا کاروبار کسی کےحوالے کرنا چاہےتو ضروری ہےکہ سامنےوالابھی اس کاروبار سےواقف ہوتاکہ اس کاروبار کو مناسب طریقے سےچلا سکے۔ یا اگر کسی کےحوالے پورا ملک کرنا ہو تو ضروری کہ وہ جانتا ہو کہ اس ملک میں کیا ہےاوراس ملک کو کیسےچلایا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالی نےاپنےعلم کا خزانچی اہلبیت کو قرار دیا ہےلیکن اللہ تعالی کا علم، قدرت اور صفتیں غیر محدود ہیں :

لَيْسَ لِصِفَتِهِ حَدٌّ مَحْدُودٌ وَ لَا نَعْتٌ مَوْجُود

نہج البلاغہ، خطبہ اول۔

اس کی ذات کیلئے نہ کوئی معین حد ہےاور نہ توصیفی کلمات۔

اس بنا پر کوئی کیسےجان سکتا ہےکہ ائمہ معصومین (ع) کا علم کتنا ہے؟ کیونکہ ائمہ معصومین (ع) اللہ تعالی کےعلم کےخزانچی ہیں اس بنا پر ائمہ معصومین (ع) کا علم بھی غیر محدود ہوا۔

ابن عباس فرماتے ہیں : میں ایک رات امیرالمومنین (ع) کی خدمت میں تھا امیرالمومنین (ع) سورج کےغروب ہونےسےسورج کےطلوع ہونےتک الحمد للہ کی الف کےبارے میں بتاتے رہےلیکن میں زیادہ مطالب کو فراموش کر چکا ہوں اور مجھے یاد نہیں رہےاور آخر میں ارشاد فرمایا : اے ابن عباس! اگر میں چاہوں تو سورہ حمد کی تفسیر میں اتنا بیان کروں کہ ستر اونٹ بھی اس وزن کو نہ اٹھا سکیں۔

بحار، ج ۴۰ ، ص ۱۵۷ ۔

اللہ تعالی سےدعاءہےکہ اہلبیت علیہم السلام کےمتعلق ہماری معرفت میں روزبروزاضافہ فرمائےانشاءاللہ۔

تیسری مجلس

اہلبیت نبوت

اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا )

سورہ حشر، آیت ۷ ۔

اور جو کچھ بھی رسول تمہیں دیدے اسےلے لو اور جس چیز سےمنع کردے اس سےرک جاؤ۔

امام علی نقی (ع) زیارت جامعہ میں ارشاد فرماتے ہیں :

السَّلامُ علیكُمْ يَا أَهْلَ بَيْتِ النُّبُوَّةِ

سلام ہو آپ پر اے نبوت کےاہلبیت!

ہماراموضوع زیارت جامعہ کی نظرمیں ائمہ معصومین (ع)کامقام ہےہم اپنی بحث کی ابتدا میں مقام امامت اورائمہ معصومین(ع)کا مقام نبوت اورانبیاءسےمقایسہ کریں گے ۔

زیارت جامعہ کا سب سےپہلا جملہ یہ ہے:

السَّلامُ علیكُمْ يَا أَهْلَ بَيْتِ النُّبُوَّةِ

یہاں اہلبیت نبوت کہا گیا ہے۔ یہ نہیں کہا گیا :

السَّلامُ علیكُمْ يَا أَهْلَ بَيْتِ النبی

اس جملےسےسمجھ میں آتاہےکہ رسول اکرم(ص)کےدوگھرہیں: ایک ظاہری اورمادی گھردوسراباطنی، روحانی اورمعنوی گھر،ظاہری اورنسبی لحاظ سےتو بحث کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ سب جانتے ہیں حضرت زہرا(ع)اورائمہ معصومین(ع)، رسول اکرم(ص) کےنسبی فرزند ہیں۔

رسول اکرم(ص) کےدوسرے گھر سےمراد مقام نبوت اور مقام خاتمیت ہےکہ جس گھر کا سامان اللہ تعالی کےنام اور صفتیں ہیں یعنی نبوت کا گھر اللہ تعالی کی قدرت مطلقہ، حیات مطلقہ اور اللہ تعالی کی ملکوتی اور جبروتی صفتوں سےبنایا گیا ہے۔ ایک بزرگ نےاس بارے میں بہترین تعبیر استعمال کی ہےوہ فرماتے ہیں : نبوت کےگھر کےدو، دروازے ہیں ایک دروازہ عالم وحدت، عالم توحید اور اللہ تعالی کی طرف کھلتا ہےاور دوسرا دروازہ عالم کثرت اور عالم خلق کی طرف کھلا ہو ا ہے۔ رسول اکرم(ص) عالم توحید سےعلم، رحمت، حیات، اور تمام کمالات لیتے ہیں اور دوسرے دروازے سےرسول اکرم(ص) وہ علم، رحمت، حیات، اور تمام کمالات، پوری مخلوق کےحوالے کرتے ہیں یہاں تک کہ انبیاء اور فرشتوں کو بھی فیض آپ کےدروازے سےملتا ہے۔

شرح زیارت جامعہ فخر المحققین، شیخ الاسلام شیرازی، ج ۱ ، ص ۲۶ ۔

مثال کےطورپرہمارےپاس بجلی کا ایک آلہ ہےجسےہم فیوزکہتے ہیں اسکاکام یہ ہےکہ وہ آگےسےبجلی لیتاہےاورگھرکےتمام بجلی والےسامان کوجیسےلائٹیں وغیرہ سب کو ان کےحساب اورظرفیت جتنی بجلی دیتا ہے۔ اسی طرح رسول اکرم(ص) بھی اللہ تعالی سےبرکتوں اور رحمتوں کو لیتےہیں اورہرانسان اورہرموجود کواس کی ظرفیت کےلحاظ سےدیتے ہیں۔

قرآن میں بھی اس کی مثال موجود ہےجو گذشتہ مثال سےبھی بہت بہتر ہے۔ اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّـهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا )

سورہ آل عمران، آیہ ۱۰۳ ۔

اور اللہ کی ر سّی کو مضبوطی سےپکڑے رہو اور آپس میں تفرقہ نہ پیدا کرو ۔

یعنی قرآن نےحضرت علی(ع) اور ائمہ معصومین(ع) کو ایک رسی سےتشبیہ دی ہے۔

تفسیر صافی، ج ۱ ، ص ۳۶۵ ۔

اب سوال یہ پیداہوتاہےکہ قرآن نےحضرت علی(ع)اورائمہ معصومین(ع)کورسی سےتشبیہ کیوں دی ہے؟ہم اس سوال کےچند جواب دیتے ہیں :

پہلا:

کیونکہ رسی اوپر سےنیچے کی طرف لٹکتی ہے۔ اللہ تعالی بھی یہی سمجھانا چاہتا ہےکہ جیسےہم نےقرآن کو اوپر سےتمہاری طرف نازل کیا ہےاسی طرح اہلبیت(ع) کوبھی عالم بالا اور عالم معنی سےتمہاری ہدایت کیلئے تمہاری طرف بھیجا ہے۔

دسرا:

رسی کےدو، سرے ہوتے ہیں ایک سرا نیچے کی طرف اور دوسرا، سرا، اوپر کی طرف ہوتا ہےائمہ معصومین(ع) بھی اسی طرح دو شخصیتوں کےمالک ہیں : ایک شخصیت بشری اور دوسری شخصیت نور الاہی والی ہے۔ ائمہ معصومین(ع) رسی کےاوپر والے حصے کےذریعے، اپنی نور والی شخصیت کےذریعے اللہ تعالی سےمتصل ہیں اور عالم وحدت اور عالم توحیدسےرازونیاز کرتے ہیں۔ اور رسی کےدوسرے حصے کےذریعے، یعنی اپنی بشری شخصیت کےذریعے اس دنیا میں آئے ہیں تاکہ ہم دنیا تک اللہ تعالی کا پیغام پہنچا سکیں اورہمیں دنیاکےکنویں، پستی اور تہ سےاللہ تعالی کی بارگاہ تک پہنچائیں۔

ائمہ معصومین(ع) میں رسول اکرم(ص)کی خوبیاں

اس بناپرکہ ائمہ معصومین(ع)، اہل بیت نبوت ہیں تووہ نہ صرف نبی کےگھروالےہیں بلکہ نبوت کےگھروالےبھی ہیں۔وہ تمام صفات جورسول اکرم(ص) کےباطنی اورمعنوی گھرمیں ہیں وہ اہل بیت بھی میں پائی جا تی ہیں۔اس مطلب کی تائیدکیلئےہم چندروایتوں کی طرف اشارہ کرتےہیں :

پہلی روایت:

امام صادق(ع) فرماتے ہیں :

مَاجَاءَ بِهِ علی ع آخُذُ بِهِ وَمَا نَهَى عَنْهُ أَنْتَهِي عَنْهُ جَرَى لَهُ مِنَ الْفَضْلِ مَاجَرَى لِمُحَمَّدٍ ص وَ لِمُحَمَّدٍ ص الْفَضْلُ عَلَى جَمِيعِ مَنْ خَلَقَ اللَّهُ؛

جس کا حضرت علی(ع) حکم دیتے ہیں ہم انجام دیتے ہیں اور جس سےحضرت علی(ع) روکتے ہیں ہم رک جاتے ہیں ۔ کیوں ؟ کیونکہ جتنےفضائل اور کمالات کےمالک رسول اکرم(ص) ہیں اتنےفضائل اور کمالات حضرت علی(ع) میں بھی پائے جاتے ہیں۔

اس بنا پر جب قرآن فرماتا ہے:

( وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا )

سورہ حشر، آیت۷۔

اور جو کچھ بھی رسول تمہیں دیدے اسےلے لو اور جس چیز سےمنع کردے اس سےرک جاؤ۔

یعنی جو رسول اکرم(ص) دے دے اسےلے لو اور جس سےمنع کرے اس سےرک جاؤ یہ روایت اس کےساتھ لگائیں تو اس طرح ہو جائے گا :

وَمَا آتَاكُمُ علی فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا

سورہ حشر، آیت ۷ ۔

اورجوکچھ بھی حضرت علی(ع)تمہیں دیدے اسےلےلواورجس چیزسےمنع کردےاسسےرک جاؤ۔ کیونکہ رسول اکرم(ص)اورحضرت علی(ع)دونوں کےفضائل اورکمالات برابرہیں۔رسول اکرم(ص)تمام مخلوق سےافضل ہیں حضرت علی(ع)،رسول اکرم(ص)کےبرابر ہیں اس سےیہ نتیجہ نکلتا ہےکہ حضرت علی(ع) بھی رسول اکرم(ص) کی طرح تمام مخلوق سےافضل ہیں۔ روایت اس سےآگے بڑھتی ہےاور ارشاد ہوتا ہےکہ :

و کذلک یجری لائمة الهدی واحد بعد واحد؛

یہ رسول اکرم(ص)کی برابری والاحکم اورتمام مخلوق سےافضلیت والاحکم ایک کےبعددوسرےتمام ائمہ معصومین(ع)میں پایاجاتاہے۔

ہم یہاں پر ایک دلچسپ نکتہ بیان کرنےکیلئے ایک سوال پیش کرتےہیں : اللہ تعالی نےاپنی لاریب کتاب قرآن مجید میں مباہلہ والی آیت

سورہ آل عمران، آیت ۶۱ ۔

میں جمع کا صیغہ کیوں ارشاد فرمایاہے؟ حالانکہ اس سےمراد صرف حضرت علی(ع) ہیں جو اکیلے ہیں ۔ یا جب

( الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ )

سورہ مائدہ، آیت ۵۵ ۔

وہ صاحبانِ ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوِٰ دیتے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نےمسجد میں نماز کےاندر حالت رکوع میں حضرت علی(ع) کی سخاوت کا تذکرہ کیاہےتو جمع کا صیغہ کیوں ارشاد فرماتا ہے؟ حالانکہ اس سےمراد صرف حضرت علی(ع) ہیں جو اکیلے ہیں ؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے: کہ جب ان تمام آیتوں میں حضرت علی(ع) اکیلے مراد ہیں تو قرآن نےجمع کا صیغہ کیوں استعمال کیا ہے؟

زمحشری جو کہ اہلسنت کےعلماء میں سےہیں فرماتے ہیں : یہ آیت درس دینےکیلئے ہےتربیت کرنےکیلئے ہےکہ آپ لوگ بھی اس کام کوانجام دیں۔ لیکن یہ بات غلط ہےکیونکہ دوسرےافراد لاکھوں انگوٹھیاں بھی دیں تو بھی کوئی آیت نازل نہ ہوگی۔ یہ واقعہ مخصو ص ہےشان امامت کےساتھ کہ اللہ تعالی ان کےہر کام کیلئے آیت نازل کرتاہے۔

یا جہاں قرآن نےحضرت علی(ع) کےرسول اکرم(ص) کےبستر پر سونےکا اور اپنی جان کو رسول اکرم(ص) کی جان پر فدا کرنےکا تذکرہ کیا ہےتو جمع کا صیغہ کیوں استعمال کیاہے؟

سورہ بقرہ، آیت ۲۰۷ ۔

حالانکہ اس سےمراد صرف حضرت علی(ع) ہیں جو اکیلے ہیں ؟ تو ان تمام سوالوں کا جواب یہ ہےکہ : ان آیتوں کےمصداق تمام ائمہ معصومین(ع) ہیں کیونکہ تمام ائمہ معصومین(ع) کی حققیت ایک ہےاللہ تعالی نےچاہا کہ تمام ائمہ معصومین(ع) کو ایک ساتھ بیان کرے ۔ اس لئے اللہ تعالی نےقرآن میں جمع کا صیغہ استعمال کیا ہے۔

اب دوسرا سوال یہ وجود میں آتا ہےکیسےممکن ہےحضرت علی(ع) کےکام کو اللہ تعالی تمام ائمہ معصومین(ع) کی طرف نسبت دے؟ تو اس بات کا جواب خود قرآن مجید میں موجود ہےجہاں اللہ تعالی نےحضرت علی(ع) کو رسول اکرم(ص) کا نفس قرار دیا ہےاور حضرت علی(ع) کےفعل کو رسول اکرم(ص) کا فعل قرار دیاہے۔ اب جب ان کا نفس ایک ہےتو اس بات سےان کا اتحاد ثابت ہوگا اور ان کا فعل بھی ایک ہوگا اب یہ صرف حضرت علی(ع) کا فعل شمار نہ ہوگا بلکہ تمام ائمہ معصومین(ع) کا فعل ہوگا مثلا اگر حضرت علی (ع) نےانگو ٹھی دی تو ہم کہہ سکتے ہیں امام صادق(ع) نےنماز کی حالت رکوع میں انگوٹھی دی۔

ہم اس بات کی تائید کیلئے ایک مطلب کو بیان کرتے ہیں جو امام صادق(ع)نےارشاد فرمایا،جس کومفضل نےنقل کیا ہےجو بہت تفصیلی روایت ہےتقریبا تیس صفحوں کی روایت ہے۔ اس میں امام(ع) ارشاد فرماتے ہیں : جب امام زمانہ(ع) ظہور فرمائیں گے پہلے اور دوسرے کو ان کی قبروں سےباہر نکالیں گے اور ان کو تازیانےماریں گے۔

نوائب الدھور، ج ۳ ، ص ۱۳۲ ۔

دوسری طرف امام محمد تقی(ع) جب تین یاچار سال کےتھے تو انہوں نےارشاد فرمایا :اللہ تعالی کی قسم میں پہلے اور دوسرے کو ان کی قبروں سےنکال کر جلاو ٔں گا اور ان کی مٹی کو ہوا میں اڑاؤں گا۔

بیت الاحزان، ص ۱۲۴ ۔

اب ان دو روایتوں کو کیسےجمع کیا جائے؟ اب اس کام کو کون انجام دے گا امام زمانہ(ع) یا امام محمد تقی(ع) ؟ اس سوال کا ایک جواب تو یہ ہےکہ : ان دونوں میں کوئی فرق نہیں امام زمانہ(ع) انجام دیں یا امام محمد تقی(ع) بات ایک ہی ہےکیونکہ ان کی حقیقت ایک ہےتوان کا فعل بھی ایک ہےاسلئے ایک کےکام کو دوسرے کا کام کہا جا سکتا ہے۔

دوسری روایت

امام علی(ع) فرماتے ہیں :

إِنِّي وَ إِيَّاهُ لَعَلَى سَبِيلٍ وَاحِدٍ إِلَّا أَنَّهُ هُوَ الْمَدْعُوُّ بِاسْمِه‏

بحار، ج ۲۵ ، ص ۳۵۴ ۔

میں اور رسول اکرم(ص) ایک راستے پر ہیں فرق صرف یہ ہےرسول اکرم(ص) کو ان کےنام سےپکا را جاتا ہے۔

یعنی ہم میں کوئی فرق نہیں فرق صرف یہ ہےمیرا نام علی (ع) ہےاور رسول اکرم(ص) کا نام محمد ہےمجھے نبی نہیں کہا جاتا اور ان کو نبی کہا جاتا ہےوہ نبی ہیں اور میں وصی ہوں۔ حضرت علی(ع) فرمانا چاہتے ہیں کہ : مجھے بنی نہیں پکار ا جاتا لیکن نفس نبوت اور حقیقت نبوت میرے اندرموجود ہے۔

لقمان اورنبوت

حضرت لقمان کا قصہ بھی ایسا ہےاللہ تعالی نےحضرت لقمان کی طرف فرشتے کو پیغام دے کر بھیجا لقمان سےپوچھو کیا میں تمہیں لوگوں کی ہدایت کیلئے نبی مقرر کروں ؟ لقمان نےفرشتے سےپوچھا : یہ حکم ہےیا میری مرضی پر ہے؟ اللہ تعالی کا جواب آیا : تیری مرضی پر ہے۔ تو لقمان نےعرض کیا : پروردگارا ! اگر میری مرضی پر ہےتو میں اس ذمیداری کو اٹھانا نہیں چاہتا۔

تفسیر صافی، ج ۴ ، ص ۱۴۱

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ :اگر لقمان نبوت کی صلاحیت نہیں رکھتے تو کیا اللہ تعالی اس پر ابلاغ نہیں کرتا ؟ اس واقعے کی بنیاد پر حضرت لقمان نبی نہیں تھے۔ لیکن شان نبوت رکھتے تھے اور کئی نبیوں سےافضل تھے ۔ قرآن مجید میں بہت سارے نبیوں کےنام پر سورتیں ہیں جیسےآدم، ابراہیم، یوسف، نوح اور تمام نبیوں کےنام پہ ایک سورت، سورت انبیاء آئی ہےاور حضرت لقمان کےنام پہ ایک سورت نازل ہوئی ہےاس سےحضرت لقمان کی منزلت کا اندازہ ہوتا ہے۔

اس بناپر ممکن ہےکوئی ظاہرا نبی اور رسول نہ ہو لیکن نبوت اور رسالت والا مرتبہ، صلاحیت اور شان رکھتا ہو جیسا کہ کہا جا تا ہےرسول اکرم(ص) کی امت کےعلماء بنی اسرائیل کےنبیوں سےافضل ہیں۔

المزار شیخ مفید، ص ۶ ۔

اس بات پر تعجب نہ کریں کیونکہ اس دور میں نبوت نہیں ہےورنہ بہت سارے افراد نبوت والی شان رکھتے ہیں (لیکن کوئی بھی نہ رسول اکرم(ص) جتنی شان رکھتا ہےنہ ائمہ معصومین(ع) جتنی لیاقت )

تیسری روایت :

ایک دن ابوذر، سلمان کےپاس آئے اورعرض کیا : اے سلمان! امیرالمومنین(ع) کی معرفت کیسی ہے؟ سلمان بھی ہوشیار آدمی تھا ۔ اس نےجواب میں کہا : خود امیرالمومنین(ع) سےپوچھتے ہیں ؟ وہ دونوں امیرالمومنین(ع) کی خدمت میں آئے اور سوال کیا مولا آپ کی معرفت کیسی ہے؟ حضرت علی(ع) نےجواب میں فرمایا :

مَعْرِفَتِي بِالنُّورَانِيَّةِ مَعْرِفَةُ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ مَعْرِفَةُ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ مَعْرِفَتِي بِالنُّورَانِيَّة

بحارالانوار، ج۲۶، ص ۲

جس نےہماری نورانی معرفت کو سمجھا اسےاللہ تعالی کی معرفت حاصل ہوئی اور جسےاللہ تعالی کی معرفت ملی اسےہماری نورانی معرفت حاصل ہوگی۔

اب یہاں دو چیزیں نہیں بلکہ ایک چیز ہے۔ ہماری معرفت، اللہ تعالی کی معرفت ہےاور اللہ تعالی کی معرفت، ہماری معرفت ہے۔ اس کےبعد امیرالمومنین نےفرمایا :

أَنَا مُحَمَّدٌ وَ مُحَمَّدٌ أَنَا وَ أَنَا مِنْ مُحَمَّدٍ وَ مُحَمَّدٌ مِنِّي‏؛

میں، محمد ہوں اور محمد، علی ہے۔ میں محمدمیں سےہوں اور محمد، مجھ سےہے۔ اس کےبعد امیرالمومنین(ع) نےفرمایا:

أَنَا الَّذِي حَمَلْتُ نُوحاً فِي السَّفِينَةِ بِأَمْرِ رَبِّي وَ أَنَا الَّذِي أَخْرَجْتُ يُونُسَ مِنْ بَطْنِ الْحُوتِ بِإِذْنِ رَبِّي‏ وَ أَنَا الَّذِي أَخْرَجْتُ إِبْرَاهِيمَ مِنَ النَّارِ بِإِذْنِ رَبِّي‏ َنَا أُحْيِي وَ أُمِيتُ بِإِذْنِ رَبِّي وَ أَنَا أُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَأْكُلُونَ وَ مَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ بِإِذْنِ رَبِّي وَ أَنَا عَالِمٌ بِضَمَائِرِ قُلُوبِكُم‏؛

نوح(ع)، کو غرق ہونےسےبچانےوالا میں ہوں ۔ یونس(ع)، کو مچھلی کےپیٹ سےنجات دینےوالے میں ہوں ۔ ابراہیم(ع)، کو فرعون کی آگ سےبچانےوالا ۔اللہ تعالی کےحکم سے۔ میں ہوں ۔ میں اللہ تعالی کےحکم سےزندہ کرتا ہوں، میں اللہ تعالی کےحکم سےمارتا ہوں، میں لوگوں کےگھروں اور دلوں کےحال بتاتا ہوں، میں تم لوگوں کےباطن سےآگاہ ہوں۔

امیرالمومنین(ع) کلام کرتے رہےیہاں تک کہ ارشاد فرمایا :

وَ الْأَئِمَّةُ مِنْ أَوْلَادِي ع يَعْلَمُونَ وَ يَفْعَلُون‏؛

یہ خصوصیتیں تمام ائمہ معصومین(ع) کی ہیں ۔ کیوں ؟ کیونکہ ہم ایک نور سےہیں اور لانا کلنا محمد؛ ہم سب کےسب محمد ہیں ۔

أَوَّلُنَامُحَمَّدٌوَآخِرُنَامُحَمَّدٌوَأَوْسَطُنَامُحَمَّدٌوَكُلُّنَامُحَمَّدٌفَلَاتَفَرَّقُوابَيْنَنَاوَنَحْنُ إِذَاشِئْنَاشَاءَاللَّهُ وَإِذَا كَرِهْنَا كَرِهَ اللَّه‏؛

ہم میں سےپہلا بھی محمد ہےاور آخری بھی محمد ہےاور بیچ والا بھی محمد ہے۔ ہم میں کوئی فرق نہیں اگر ہم چاہتے ہیں تو اللہ تعالی بھی چاہتا ہے۔ اگر ہم کسی چیز کو پسند نہیں کرتے تو اسےاللہ تعالی بھی پسند نہیں کرتا ۔

ان تمام باتوں سےنتیجہ نکلا کہ ائمہ معصومین(ع) تمام فضائل اور کمالات میں رسول اکرم(ص) کےبرابرہیں اور تمام ائمہ معصومین (ع) بھی تمام فضائل اور کمالات میں مشترک ہیں ۔

چوتھی مجلس

رسول اکرم(ص)اورامیرالمومنین(ع)کی مشترک خصوصیتیں

اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:

( فَسْئَلُواأَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُون ‏)

سورہ نحل، آیت ۴۳ ۔

اگرتم نہیں جانتے ہو تو جاننےوالوں سےدریافت کرو۔

امام علی(ع) نقی زیارت جامعہ میں ارشاد فرماتے ہیں :

السَّلامُ علیكُمْ يَا أَهْلَ بَيْتِ النُّبُوَّةِ

سلام ہو آپ پر اے نبوت کےاہلبیت!

ہماری گفتگو زیارت جامعہ کےمتعلق تھی جو یہاں تک پہنچی کہ : بہت ساری حدیثوں سےاور روایتوں سےپتا چلتا ہےکہ ائمہ معصومین(ع) تمام فضائل اور کمالات میں رسول اکرم(ص) کےبرابرہیں اور تمام ائمہ معصومین (ع) بھی تمام فضائل اور کمالات میں مشترک ہیں ۔ جو بھی رسول اکرم(ص) کا کمال ہےوہ حضرت علی(ع) کا کمال ہےاور تمام ائمہ معصومین(ع) کا کمال ہےاس بات کی زیادہ وضاحت کیلئے ہم یہاں رسول اکرم(ص) اور امیرالمومنین(ع) کی چند مشترک خصوصیتیں بیان کرتے ہیں۔ ان مشترک خصوصیتوں کو اہلسنت کےدو بزرگ عالموں نےبیان کیا ہےایک کا نام سلمان بلخی ہےجنہوں نےاپنی کتاب ینابیع المودہ میں بیان کیا ہے۔ دوسرے بزرگ عالم کا نام میر سید علی ہمدانی ہےجنہوں نےاپنی کتاب مودہ القربی میں نقل کیا ہے۔

اخلاق حسنہ اورصفتوں میں برابری

رسول اکرم(ص)ایک روایت میں ارشاد فرماتے ہیں :

اشبه خلقک خلقی و اشبه خلقی خلقک؛

اے علی ! تیرا، اخلاق، صفتیں اور رفتار میری طرح ہےاور میرا، اخلاق، صفتیں اور رفتار تمہاری طرح ہے۔

قادتنا کیف نعرفھم، ج ۱ ، ص ۳۳۳ ۔

رسول اکرم(ص) اس حدیث میں صرف چند صفتوں کی بات نہیں کر رہےبلکہ رسول اکرم (ص) کا فرمان تمام اخلاق اور صفتوں کےبارے میں ہے۔ قرآن کا فرمان ہےکہ:

( وَ إِنَّكَ لَعَلى‏ خُلُقٍ عَظيم )

سوره قلم، آیت۴

رسول اکرم(ص) خلق عظیم کےمالک ہیں۔ حضرت علی (ع)کا اخلاق رسول اکرم(ص) کےاخلاق کی طرح ہےیعنی اے علی! انک لعلی خلق عظیم؛ حضرت علی (ع)بھی خلق عظیم کےمالک ہیں۔ یہاں دلچسپ نکتہ یہ ہےکہ رسول اکرم(ص) نےصرف حضرت علی (ع)کو خود سےتشبیہ نہیں دی بلکہ خود کو بھی حضرت علی (ع)سےتشبیہ دی ہےتاکہ یہاں کوئی یہ خیال نہ کرے کہ اصل اور فرع کی بات ہےنہیں! یہاں برابری ہےحضرت علی (ع)کو رسول اکرم(ص) جیسا کہیں یا، رسول اکرم(ص) کو حضرت علی (ع)جیسا کہیں کوئی فرق نہیں بات ایک ہی ہے۔

اللَّهُمَّ عَظُمَ الْبَلَاء والی دعا میں ہم پڑہتے ہیں یامحمد یاعلی، یاعلی یا محمد، علی کی جگہ محمد کا نام رکھتے ہیں اور محمد کی جگہ علی کا نام رکھتے ہیں ۔ ایک کی جگہ دوسرے کا نام رکھنا کس بات کی خبردیتا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہےکہ رسول اکرم(ص) کا نام پہلے لو یا حضرت علی (ع)کا بات ایک ہےکیونکہ یہ دونوں تمام کمالات میں برابر ہیں۔

اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَ لَوْلا فَضْلُ اللَّهِ علیكُمْ وَ رَحْمَتُه )

سورہ نور، آیت ۲۱

اوراگرتم پر اللہ کافضل اوراس کی رحمت نہ ہوتی۔

اس آیت کی تفسیرمیں موجود روایتوں میں آیا ہےکہ: فضل اللہ سےمراد رسول اکرم(ص) ہیں اور رحمتہ سےمراد حضرت علی (ع)ہیں۔

البرھان، ج ۱ ، ص ۳۹۸ ۔

یا دوسری روایت کےمطابق فضل اللہ سےمراد حضرت علی (ع)ہیں اور رحمتہ سےمراد رسول اکرم(ص) ہیں۔

ان روایتوں کا مقصد یہ ہےکہ فضل اللہ سےمراد رسول اکرم(ص) لیں یا حضرت علی (ع)بات ایک ہےاسلئے رسول اکرم(ص) نےارشاد فرمایا :

يَا علی أَنْتَ مِنِّي وَ أَنَا مِنْك‏؛

مناقب ابن شھر آشوب، ج ۲ ، ص ۳۳ ۔

اے علی ! تو مجھ سےہےاور میں تم سےہوں۔

اوپر والی روایت (شباہت والی روایت ) سےیہ بات بھی سمجھ میں آتی ہےکہ ہم قیامت تک رسول اکرم(ص) اور حضرت علی (ع)کی شباہتوں کو شمار کرتے رہیں پھر بھی ختم نہ ہونگی۔اس لئے جس سنی عالم نےاس روایت کو ذکر کیا ہےوہ عالم فرماتے ہیں : رسول اکرم(ص) اور حضرت علی (ع)کی شباہتیں آسمان کےستاروں اور صحراء میں موجود ریت کےذروں سےبھی زیادہ ہیں۔

خلقت میں برابری

رسول اکرم(ص) نےعبداللھ بن مسعود سےارشاد فرمایا:

كُنْتُ أَنَا وَ علی نُوراً بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ آدَمَ بِأَرْبَعَةَ عَشَرَ أَلْفَ عَام‏

بحار، ج ۳۵ ، ص ۲۴ ۔

میں اورعلی،خداکےسامنےایک ہی نورتھےخدا کےآدم کوپیداکرنےسےچودہ ھزارسال پہلے، پھرآدم کےصلب میں منتقل ہوئےپھراسی طرح ایک ہی نورکی صورت میں صلب ابراھیم میں قرارپائےیہاں تک کہ اس نورکےدو ٹکڑےہوےآدھ عبداللہ کےصلب میں اورآدھاابو طالب کےصلب میں منتقل ہوا۔خدانےفرمایا:میں اس نورکےدوحصےکرتاہوں پیغمب کونبوت اورامیرالمومنین (ع)کووصایت عطا کرتا ہوں۔

چودہ ہزارسال سےمرادشاید یہ ہوکہ خداوندنےحضرت آدم کوپیداکرنےسےپہلےچودہ معصومین کےنورکوپیداکیا۔

اخوت اوربرادری

ایک سنی عالم کا کہنا ہے:خداوندمتعال نےرسول اللہ کوحکم دیا کہ اپنےاورعلی کےدرمیان عقد اخوت پڑھے۔رسول اکرم(ص)نےجب ہجرت کےبعدمسلمانوں کےدرمیان عقد اخوت جاری کیا تو اس کام کو انجام دیا۔ اس برادری کا مطلب یہ تھا کہ کمالات، صفات اورمسئولیت کےاعتبار سےیہ دونوں معنوی برادر ایک جیسےہیں۔

اسی طرح رسول اللہ سےحدیث معراج میں منقول ہےکہ آپ نےفرمایا: جب میں معراج پر گیا تو کسی نےحجاب کےاس طرف سےندادی:

نِعْمَ الْأَبُ أَبُوكَ إِبْرَاهِيمُ وَنِعْمَ الْأَخُ أَخُوكَ علی‏ فاستوص به

طرائف، ص ۴۱۴ ۔

اچھے باپ حضرت ابراہیم ہیں اوراچھےبھائی علی ہیں اپنی امت کواسی کی وصیت کرنا اسےاپنا وصی بنانا۔

جن روایات کوشیعہ اورسنی دونوں نےنقل کیاہے،ان میں آیاہےکہ رسول اکرم(ص)نےجان کنی اوراحتضارکےوقت فرمایا:میرےبھائی کوکہوکہ میرےپاس آئےعائشہ اورحفصہ نےابوبکرکوبلانےکےلئےکہاجب وہ آئےتوپیغمبرنےفرمایا:میں نےکہاکہ میرےبھائی کوبلاوپھران دونوں نےعمرکو بلانےکیلئے کسی کوبھیجا۔ جب وہ آیا تو آنحضرت نےفرمایا: میں نےکہا کہ میرےبھائی کوبلاؤ۔ تیسری بارعثمان کوبلانےکیلئےکسی کوبھیجنا چاہاتو ام سلمہ نےچیخ کرکہا، کسی کوعلی کوبلانےکیلئےبھیجو کیاتمہیں پتانہیں کہ پیغمبرکابھائی علی ہے؟پھرمجبورامولاکوبلوانےکیلئےکسی کوبھیجا،جب امیرالمومنین تشریف لائے تو لوگوں کی طرف پیٹھ کر کےرسول اللہ سےباتیں کرنےلگےبعدجب حضرت سےپوچھا گیا کہ جب آپ لوگوں کی طرف پیٹھ کرکےبیٹھےتورسول اللہ نےآپ کوکیا فرمایا؟جواب دیا:رسول اللہ نےمجھےہزارباب کی تعلیم دی اور پھر ہر باب میں سےمیرے لئے دو ہزار باب کھولے

کافی، ج ۱ ، ص ۲۹۶ ؛ میزان الاعتدال، ج ۲ ، ص ۴۸۳ ۔

امام خمینی اس قضیہ کو بڑی اچھی تعبیرسےبیان کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے:علم کےوہ ہزارچشمے ان علوم میں سےنہیں ہیں جو ہم تک پھنچے ہیں مطلب یہ کہ علم فقہ، اصول، کلام وغیرہ نہیں ہیں بلکہ ان سےما فوق اور بڑہ کر ہیں ان کےپاس ایسےعلوم ہیں جن کو ہم سمجھ ہی نہیں سکتے، ہمیں نہیں معلوم کہ وہ کس قسم کےعلوم ہیں۔

صحیفہ نور، ج ۱۹ ، ص ۷ ۔

مدت عمرمیں برابری

رسول اکرم(ص)اورامام علی کی تیسری شباہت یہ ہےکہ ان دونوں کی مدت عمر ۶۳ سال تھی۔ ان سب میں کوئی رازہے۔منقول ہےکہ حضرت کی خدمت میں فالودہ لے کر آئے تو حضرت نےتناول نہیں کیا اور ارشاد فرمایا: میرے حبیب نےتناول نہیں کیا تو میں بھی نہیں کھاونگا۔

بحار، ج ۴۰ ، ص ۳۲۷ ۔

یعنی ان دو ہستیوں کا آپس میں اتنا گہرا رابطہ تھا یا یہ جو منقول ہےکہ حضرت علی (ع)کبھی بھی مکہ میں سوئے نہیں جب حضرت سےسوال کیا گیا کہ کیوں آپ مکےمیں سوئے نہیں، رات کو اتنی مشقت اٹھاتے ہیں کہ مکےسےباھر جا کر سوئیں؟ فرمایا: کیوں کہ میرے حبیب کو مکہ سےجلا وطن کیا گیا، میں نہیں چاہتا اس میں آرام کروں۔

علل الشرایع، ج ۲ ، ص ۳۱۱

بشرکی بنسبت اولی ہونا

وہ سنی عالم، احکام اور قوانین میں سب انسانوں کےبنسبت رسول اکرم(ص) اور علی کےاولی ہونےکیلئے اس آیت کو پیش کرتا ہے:

( إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْراهيمَ لَلَّذينَ اتَّبَعُوهُ وَ هذَا النَّبِي‏؛ )

سوره آل عمران، آیت۶۸

یقینا ابراہیم علیہ السّلام سےقریب تر ان کےپیرو ہیں۔

ابراہیم کےنزدیک وہی لوگ ہیں جو ایک تو حضرت ابراہیم کی اطاعت کریں اور دوسرا یے کہ اس رسول کو مانتے ہوں البتہ یہاں ابراہیم کی اطاعت سےرسول اللہ کی استثنا کی گئی ہے۔

پھر دوسری آیت لے آتا ہے:

( النَّبِيُّ أَوْلى‏ بِالْمُؤْمِنينَ مِنْ أَنْفُسِهِم )

سوره احزاب، آیت ۶ ۔

بیشک نبی تمام مومنین سےان کےنفس کےبہ نسبت زیادہ اولیٰ ہے۔

جالب یہ ہےکہ یہ نہیں فرمایامِنْ فسِهِم بلکہ فرمایاہےمِنْ أَنْفُسِهِم کیونکہ مقصد یہ ہےکہ رسول اکرم(ص)لوگوں کی جان کی بنسبت،شخص و شخصیت کی بنسبت اولویت رکھتے ہیں،اولویت کا سبب یہ ہےکہ رسول اکرم(ص)وہی خداوالاحکم رکھتے ہیں،یعنی جس طرح خداکائنات پرحاکم ہے،رسول اللہ بھی حاکم ہیں۔اگرکہا جائےکہ کیوں حضرت خضرن جرم سےپہلے قصاص لیا اوراس جوان کو قتل کردیا؟ جواب میں ہم کہیں گے کہ جو کام نبی خدا سےصادر ہو وہ وہی ہےجو خدا سےصادر ہو۔

( مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ‏ اللَّه )

سورہ نسا ، آیت ۸ ۔

جو رسول کی اطاعت کرے گا اس نےاللہ کی اطاعت کی

( لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنينَ إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ ؛ )

سورہ فتح، آیت۱۸۔

یقیناخداصاحبانِ ایمان سےاس وقت راضی ہوگیاجب وہ درخت کےنیچےآپ کی بیعت کررہےتھے

بریدہ نقل کرتا ہے: میں حضرت علی (ع)کےزیر رکاب یمن میں جھاد کر رہا تھا میں نےعلی میں کچھ دیکھا جب میں نےوہ بات رسول اللہ کو بتائی اور علی پر اعتراض کیا میں نےدیکھا کہ رسول اللہ کا مبارک چہرا سرخ ہو گیا اور آپ نےفرمایا:

أَلَسْتُ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِم‏

اے بریدہ کیا میں مومنین کی بنسبت ان سےزیادہ حق نہیں رکھتا ؟ میں نےعرض کیا جی ہاں آپ نےفرمایا:

فَمَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعلی مَوْلَاهُ؛

یعنی جس طرح میں تم پر حق رکھتا ہوں میرے بعدعلی بھی تم سب پر زیادہ حق رکھتے ہیں۔

ینابیع المودہ، ج ۱ ، ص ۱۰۶ ۔

پہلےمسلمان

قرآن مجید میں ایک آیت ہےجو پہلے مسلمان کو بیان کر رہی ہے:

( لا شَريكَ لَهُ وَ بِذلِكَ أُمِرْتُ وَ أَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمين )

سورہ انعام، آیت۱۶۳۔

اس کا کوئی شریک نہیں ہےاور اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہےاور میں سب سےپہلا مسلمان ہوں۔

یہ آیت رسول اللہ کےبارے میں ہےآپ ارشاد فرماتے ہیں : پہلا مسلمان اور خدا کےسامنےپہلا تسلیم ہونےوالا میں ہوں پھر وہ سنی عالم کہتا ہے:

أَنَّ علیاً أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ

ینابیع المودہ، ج ۱ ، ص ۱۹۱

بتحقیق سب سےپہلےاسلام قبول کرنےوالےعلی ہیں اسی طرح رسول اکرم(ص)جو پہلے مسلمان ہیں، حضرت علی (ع)کیلئے فرمارہےہیں :

هَذَا أَفْضَلُكُمْ حِلْماً وَ أَعْلَمُكُمْ عِلْماً وَ أَقْدَمُكُمْ سِلْما علی حلم

بحار، ج ۳۸ ، ص ۸۸ ۔

میں تم سب سےافضل ہیں، علم میں تم سب سےبڑےعالم ہیں،اسلام میں تم سب پرسبقت کرنےوالےہیں۔ یعنی جس طرح پیغمبرپہلےمسلمان ہیں علی بھی پہلے مسلمان ہیں، خدا و رسول کےآگےتسلیم ہیں۔

پیغمبر و علی کےسائے تلے

وہ کہتاہے: ایک شخص رسول اکرم(ص)کی خدمت میں آیا، عرض کرنےلگا: یا رسول اللہ آپ انبیاءکےدرمیان کونسا منصب رکھتے ہیں ؟ حضرت نےفرمایا:

آدَمُ وَ مَنْ دُونَهُ تَحْتَ لِوَائِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ؛

ینابیع المودہ، ج ۲ ، ص ۲۶۳ ۔

آدم اور اس کےبعد آنےوالے (چاہےنبی ہوں یا امتی) قیامت کےدن میرے پرچم تلے ہونگے۔ حضرت علی (ع)کےبارے میں بھی رسول اکرم(ص) فرماتے ہیں :

بِيَدِهِ لِوَاءُ الْحَمْد؛

ینابیع المودہ، ج ۲ ، ص ۲۷۰ ۔

حق کا پرچم علی کےہاتھ میں ہوگا۔ اس جملے کی یہ معنی نہیں ہےکہ مولا کےہاتھوں میں ایک علم ہوگا جس کےسائے میں سب ہونگے بلکہ آپ تو ایک تکوینی اورحقیقی مطلب کو بیان کرنا چاہتے ہیں مطلب یہ کہ لوائےحمد کی حقیقت خود مولا علی ہےکیونکہ مولا علی کا فرمان ہے: بسم اللہ کی "با" کےنیچے والا نقطہ میں ہی ہوں

ینابیع المودہ، ج ۲ ، ص ۲۱۳ ۔

اور بشرسےصادر ہونےوالا پہلا حرف "با "ہےجیسا کہ اس آیت میں ہے

( أَ لَسْتُ بِرَبِّكُمْ قالُوا بَلى )

سورہ اعراف، آیت ۱۷۲۔

کیا میں تمھارا خدا نہیں ہوں تو سب نےکہا بیشک ہم اس کےگواہ ہیں۔

اس لئے خدا نےحرف با کا انتخاب کیا اور بسم اللہ میں اسےلے آئے۔

رسالات الاسلامیہ، ص ۸۹ ۔

پس علی کا ہاتھ یداللھ ہےوہ بھی ایسا ہاتھ جو تمام حقائق و معارف رکھتا ہےجو کچھ خدا کےہاتھ میں ہےوہ سب امیرالمومنین (ع) کےہاتھ میں ہے۔

پیغمبر کو ستانا، علی کو ستانا ہے

ستانےکےبارے میں خداوند متعال قرآن مجید میں ارشاد فرمارہا ہے:

( إِنَّ الَّذينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيا وَ الْآخِرَةِ وَ أَعَدَّ لَهُمْ عَذاباً مُهينا )

سورہ احزاب، آیت۵۷

یقیناجولوگ خدا اور اس کےرسول کو ستاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں خدا کی لعنت ہےاور خدا نےان کےلئے رسواکن عذاب مہیاّ کر رکھا ہے۔یہ ایک سنی عالم کہہ رہا ہے: رسول اللہ نےارشاد فرمایا:

مَنْ آذَى علیاً فَقَدْ آذَانِي وَ مَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَى اللَّه‏؛

ینابیع المودہ، ج ۲ ، ص ۱۰۱ ۔

جس نےبھی علی کو تکلیف دی اس نےمجھے تکلیف دی جس نےمجھے ستایا اس نےخدا کو ستایا ۔

علی سےجدا ہونا

وہی سنی عالم، حضرت علی (ع)سےجدا ہونےکےبارے میں کہہ رہاہے:

مَنْ فَارَقَ علیاً فَقَدْ فَارَقَنِي و مَنْ فَارَقَنِي فَقَدْ فَارَقَ اللَّهَ ؛

ینابیع المودہ، ج ۱ ، ص ۱۷۳

علی سےمفارقت رسول اللہ سےمفارقت اورجدائی ہےکیونکہ رسول اللہ کاارشادہے:جوبھی علی سےجدا ہوا وہ مجھ سےجدا ہوا اورجومجھ سےجدا ہوا وہ خداسےجدا ہوا۔

ولایت علی

رسول اکرم(ص)اورمولا علی کی شباہتوں میں سےایک ولایت کامسئلہ ہےیعنی جس طرح رسول اکرم (ص) مومنین پرولایت رکھتےہیں اور ان کی ولایت قبول کئے بغیر کوئی بھی عبادت قبول نہیں ہوتی بالکل اسی اطرح مولا علی بھی ولایت رکھتے ہیں رسول اکرم(ص)نےفرمایا:

مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعلی مَوْلَاهُ اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالاهُ وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ وَ انْصُرْ مَنْ نَصَرَهُ وَ اخْذُلْ مَنْ خَذَلَه‏

ینابیع المودہ، ج ۱ ، ص ۹۸

رسول اکرم(ص)کس کےمولا ہیں؟ تمام انبیا، فرشتوں کےبلکہ پوری کائنات کےمولا ہیں یعنی رسول اکرم(ص)فرما رہےہیں : خدایا میں جس کابھی مولا ہوں، درجہ اورمرتبہ کوکم زیادہ کئےبغیر علی بھی اس کےمولا ہیں۔


3

4

5

6

7