دسویں مجلس
ائمہ معصومین، تمام کمالات کےلحاظ سےباب اللہ ہیں( ۱)
اللہ تعالی نےقرآن میں ارشاد فرماتا ہے:
(
وَلِلَّـهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ فَادْعُوهُ بِهَا
)
سورہ اعراف، آیت ۱۸ ۔
اور اللہ ہی کےلئے بہترین نام ہیں لہذا اسےان ہی کےذریعہ پکارو ۔
زیارت جامعہ میں ہے:
وَ الْبَابُ الْمُبْتَلَى بِهِ النَّاس
ہماری گفتگو کا موضوع یہ تھا کہ اہلبیت تمام کمالات میں باب اللہ ہیں۔
اب یہاں ہم اہلبیت کےباب اللہ ہونےکےمصداق بیان کررہےہیں۔
کبھی کوئی شخص کسی کا باب اوردربان ہوتاہےاس معنی میں کہ اس کامشاوراقتصادی ہوتاہےلیکن وہ سیاسی مشاورنہیں ہوتااور کبھی اسکامشاورسیاسی ہوتاہےلیکن وہ اقتصادی مشاور نہیں ہوتا۔اب سوال یہ پیدا ہوتاہےکہ کیاائمہ معصومین کسی خاص جہت سےباب اللہ ہیں یاچندجہتوں سےباب اللہ ہیں؟جیسےتوحیدکی جہت سےباب اللہ ہوں لیکن اللہ تعالی کی رحمت کےلحاظ سےباب اللہ نہ ہوں؟
جب ہم روایات پہ نظرڈالتے ہیں تومعلوم ہوتا ہےکہ اہلبیت تمام کمالات، تمام تکوینی اور تشریعی خوبیوں میں باب اللہ ہیں یعنی کوئی انسان کسی کمال تک نہیں پہنچ سکتا سوائے امامت کےراستے پر چل کر اور ائمہ معصومین کی پیروی کر کے۔ ہم یہاں نمونےکےطورامام صادق(ع)کی ایک روایت ذکرکرتےہیں امام فرماتےہیں:
نَحْنُ أَصْلُ كُلِّ خَيْرٍ وَ مِنْ فُرُوعِنَا كُلُّ بِرٍّ وَ مِنَ الْبِرِّ التَّوْحِيدُ وَ الصَّلَاةُ وَ الصِّيَامُ وَ كَظْمُ الْغَيْظِ وَ الْعَفْوُ عَنِ الْمُسِيء؛
بحار، ج ۲۴ ، ص ۳۰۳ ۔
ہم تمام نیکیوں اور خوبیوں کی اصل ہیں اور تمام نیکیاں اورخوبیاں ہماری شاخیں ہیں۔توحید، نماز، روزہ،کسی کی خطا سےدرگذر کرنا،اپنےغصےکو پینابھی ان نیکیوں میں سےہیں۔ یعنی ہم تمام نیکیوں اور خوبیوں کی اصل ہیں اس جملے کا مطلب یہ ہےکہ اصول دین، فروع دین، مسائل اخلاقی، مسائل عبادی اورتمام کمالات جو اس عالم میں پائے جاتے ہیں سب کا منبع اوراصل، ائمہ معصومین ہیں۔ کوئی بھی انسان کوئی بھی خوبی رکھتا ہو چاہےجانےیا نہ جانےلیکن حقیقت یہ ہےکہ اس نےیہ خوبی ائمہ معصومین سےلی ہے۔ اسلئےامام نےارشاد فرمایا : تمام نیکیاں اور خوبیاں ہماری شاخیں ہیں، ان نیکیوں اور شاخوں میں سےایک توحید ہےیعنی اگر کوئی اللہ تعالی کی توحید کا قائل ہےچاہےنبی ہویا فرشتہ ہو یا انسان ہو اس نےتوحید ہم سےلی ہے۔
ایک خوبصورت روایت میں رسول اکرم، ابن مسعودسےفرماتے ہیں: ہم نےسبحان اللہ کہا تو فرشتوں نےبھی سبحان اللہ کہا، ہم نےلاالہ الا اللہ کہاتوفرشتوں نےبھی لاالہ الا اللہ کہا، ہم نےاللہ اکبرکہا تو فرشتوں نےبھی اللہ اکبرکہا۔
علل الشرایر، ج ۱ ، ص ۵ ۔
حضرت آدم بھی تسبیح اور تھلیل اور تکبیر کہنا نہیں جانتے تھے اسلئے اللہ تعالی نےقرآن میں ارشاد فرمایا :
(
وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا
)
سورہ بقرہ، آیت ۳۱ ۔
اور خدا نےآدم علیہ السّلام کو تمام اسماء کی تعلیم دی۔
یعنی حضرت آدم کےاستاد اورمعلم امیرالمومنین (ع) اور ائمہ معصومین (ع)ہیں۔
علامہ مجلسی اس موضوع کےذیل میں ارشاد فرماتے ہیں :
فقد ثبت من الاخبار المستفیضة ان العلوم والمعارف و الرحمات يفيض الي سائر الخلق بواستطهم حتى الانبياءِ والملائکة؛
مراہ العقول ، ج ۱ ، ص ۳۰ ۔
متعددروایات سےثابت ہےکہ تمام علوم اورمعارف ائمہ معصومین کےوسیلےسےتمام مخلوق تک پہنچتے ہیں یہاں تک کہ تمام انبیاء اورفرشتوں نےبھی تمام علوم اورمعارف کو ائمہ معصومین(ع)سےلیاہے۔ علامہ مجلسی ان روایات سےیہ خوبصورت نتیجہ نکالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: ائمہ معصومین (ع) تمام مادی اور معنوی فیوضات کا سرچشمہ ہیں۔
اس مطلب کو علامہ مجلسی نےبیان کیا ہےاس کی شخصیت کےبارے میں آیت اللہ مرعشی نجفی اپنےفقہ کےدرس خارج میں بیان کرتے ہیں : میرے والد نےرسول اکرم(ص) کو خواب میں دیکھا وہ نور کےمنبر پہ جلوہ افروز تھے اور ان کےگرد علماء ربانی اور ولایت کےرستے پر چلنےوالے تشریف فرما تھے جو شخص رسول اکرم(ص) کےسب سےنزدیک تھے وہ علامہ مجلسی تھے اس حالت میں رسول اکرم(ص) نےسب کےسامنےبحارالانوار کی کتاب پیش کی اور اس کتاب کو علماء کےسپرد کیا یعنی جاؤ اس کتاب کو پڑھو بعض بزرگان اس بات پر فخر کرتے تھے کہ ہم نےپوری بحارالانوار کا ایک بار مطالعہ کیا ہے۔
معصومین سےفیض پانا
مرحوم مرزا اسماعیل دولابی فرماتے تھے : میں طالبعلم تھا مجھے علم اور دانش سےبہت پیار تھا میں نےاس مبارک سر زمین سےاپنےسینےکو اتنا رگڑا کہ میرا سینہ زخمی ہو گیا میں پھر بھی کہہ رہا تھا مجھے علم اور دانش چاہیےمیرے سینےکو علم اور دانش سےبھر دو ! ایک دن میں امام حسین کےحرم گیا اور ہاتھوں کو پھیلا کر اس جملے کا تکرار کرنےلگا : جو ایک نظر کرم سےمٹی کو کیمیا بناتے ہیں کیا ممکن ہےمجھ پر تھوڑی نظر کرم کریں ! اچانک میں نےدیکھا کہ میرا سینا کھلا، حکمت اور معارف سےپر ہوگیا اس بنا پر علوم کو سیکھنا صرف مدرسہ پڑھنےپر موقوف نہیں اک اور راستہ بھی ہےوہ ہےاہلبیت سےتوسل۔ یہ اہلبیت کی صفت ہےاور اہلبیت سےہی مخصوص ہے؛ کیونکہ ابتدائے خلقت سےلے کر انتہا تک اللہ تعالی اور تمام مخلوق کےدرمیان واسطہ فیض مطلق اہلبیت ہیں۔ ہم امام حسین کی زیارت مطلقہ میں پڑھتے ہیں :
إِرَادَةُ الرَّبِّ فِي مَقَادیر أُمُورِهِ تَهْبِطُ إِلَيْكُمْ وَ تَصْدُرُ مِنْ بُيُوتِكُم؛
مفاتیح، زیارت مطلقہ امام حسین علیہ السلام کا ایک حصہ
تمام امورکےمتعلق ارادہ الہی اور مقادیر الہی پہلے آپکےگھرآتےہیں اورپھرآپ کےگھرسےصادرہوتے ہیں۔یعنی تمام مقدرات پہلے اہلبیت کےقلب پر نازل ہوتے ہیں پھرتمام افرادکی ظرفیت اورتوسل کےلحاظ سےاہلبیت سےان کی طرف منتقل ہوتےہیں۔
کمیل ابن زیاد امام علی کےرازدار ساتھیوں میں سےتھے وہ حضرت علی (ع)کی خدمت میں آئے اور عرض کیا : ما الحقیقہ؛مولا بتائیے حقیقت کیا ہے؟ امام نےفرمایا :
هما لک و الحقیقه؛
تم حقیقت کا کیا کرو گے؟ کمیل نےجواب دیا :
او لست صاحب سرک؛
مولاکیامیں آپکےرازدارساتھیوں میں سےنہیں ہوں؟مجھے یہ رازبتائیے۔امام نےفرمایا: ہاں تم میرےرازدارساتھیوں میں سےہو لیکن سارےرازنہیں جانتےحقیقت یہ ہےکہ جب ہم پانی پیتےہیں توہمارےہونٹوں پہ جو پانی کےقطرےسےبہت کم نمی آتی ہےاتنا راز تمہیں بتا رہا ہوں۔
نور البراھین، ج ۱ ، ص ۲۲۱ ۔
کلام کےامیر
اسی طرح امیرالمومنین (ع) نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں :
و انا لامراء الکلام؛
ہم امیرکلام ہیں۔ اس جملے کی دومعنی ہو سکتی ہیں۔
پہلی معنی : کسی بھی موضوع پر اورکسی بھی باب میں کوئی ائمہ معصومین سےبہترکلام نہیں بول سکتا۔ امام فرماتے ہیں :
وَ إِنَّا لَأُمَرَاءُ الْكَلَام؛
نہج البلاغہ ، خطبہ ۲۳۳ ۔
ہم امیرکلام ہیں، کلام کی اصل ہمارےگھرسےہےاورکلام کی شاخیں اورپتےبھی ہمارےگھرسےجڑےہوئےہیں۔
ہم زیارت جامعہ میں پڑھتے ہیں :
کلامکم نور؛
آپ کا کلام نورہے۔نورکی طرح حق کےراستےکوباطل سےجدا کرتاہے۔ ان جملوں میں کچھ پیغام ہےوہ پیغام یہ ہےکہ ہم کسی بھی موضوع پر اور کسی بھی باب میں کوئی کلام کرنا چاہیں توہمیں ائمہ معصومین کا سہارا لینا پڑے گا نہ یہ کہ ہم مغرب کی طرف جائیں اور ان کےکتابوں کی جستجو کریں!
دوسری معنی : ہم کلام کےامیر ہیں اور علم کلام توحید، نبوت، معاد وغیرہ سےگفتگو کرتا ہےیعنی ہم علم توحید، علم معاد کےامام ہیں۔
نمازکی روح
اس روایت میں آگے چل کہ امیرالمومنین (ع) فرماتے ہیں :
وَ مِنَ الْبِرِّ التَّوْحِيدُ وَ الصَّلَاةُ ؛
بحار، ج ۲۴ ، ص ۳۰۳
توحید اورنمازنیکیوں میں سےہیں یعنی نماز بھی ہماری فرع ہے۔دسیوں دیگرروایتوں میں ائمہ معصومین نےخودکونمازکی اصل اورنمازکواپنی فرع بتایاہے۔یہاں سوال یہ پیداہوتاہےکہ نمازافضل ہےیاامام؟کہاجاتاہےکہ امام حسین نمازپرفداہوگئے۔حالانکہ یہ بات غلط ہے؛کیونکہ نمازامام حسین پرفداہوئی ہے۔ اگرآپ فقہاءسےسوال کریں نمازاورامام کی جان بچانےمیں سےکونساکام اہم ہے؟تمام فقہاء کامتفقہ فیصلہ ہوگاامام کی جان بچاناضروری ہےاس حالت میں نمازکوچھوڑدیناچاہیے۔
ایک روایت میں امام فرماتےہیں:رسول اکرم(ص)کاسرمبارک امیرالمومنین(ع)کی گودمیں تھاکہ سورج غروب ہوگیا۔جب رسول اکرم(ص)بیدارہوئےتوفرمایا:اےعلی!تونےنمازعصر پڑھی ہے؟ امام نےفرمایا:نہیں رسول اکرم نےپوچھا:کیوں؟امام نےفرمایا:کیونکہ آپ کاسرمیری گودمیں تھاآپ کاسونا میری نمازعصرسےبہترتھا ۔
کافی، ج ۴ ، ص ۵۶۲
حقیقت نمازاورنمازکےوجوب کافلسفہ، رسول اکرم(ص)ہیں۔اللہ تعالی نےامامت اورنبوت تک پہنچنےکیلئےنمازکوواجب کیاہے۔رسول اکرم(ص)نےدعا فرمائی کہ اللہ تعالی سورج کوواپس پلٹائےسورج واپس پلٹااورامیرالمومنین(ع)نےنمازعصرادا کی۔
امام صادق(ع)نےفرمایا :
وَ هَلِ الدِّينُ إِلَّا الْحُب؛
خصال، ص ۲۱ ۔
کیادین ائمہ معصومین سےمحبت اوردوستی کےعلاہ کوئی اورچیزہے؟ائمہ معصومین دین سےافضل ہیں دین کوان پرفداہوناچاہیے۔امام صادق(ع)کی روایت سےیہ نتیجہ نکلاکہ توحید،نماز، روزہ، غصےکو پینا، ہمسایوں سےاچھاسلوک،کسی کی خطاکومعاف کرنا، اخلاق، عبادات ان سب کی اصل اہلبیت ہیں اوریہ اہلبیت تک پہنچنےکاذریعہ ہیں۔
زیارت جامعہ کےایک اورحصے میں آیا ہے
إِنْ ذُكِرَ الْخَيْرُ كُنْتُمْ أَوَّلَهُ وَ أَصْلَهُ وَ فَرْعَهُ وَ مَعْدِنَهُ وَ مَأْوَاهُ وَ مُنْتَهَاه؛
اگر خیر کا تذکرہ کیا جائے تو آپ اس کی ابتدا اصل اور فرع ہیں۔
تمام نیکیوں کا آغاز
اگرنیکی کی بات آئےتوآپ سب سےمقدم ہیں۔ معارف نیکی ہیں،عبادات نیکی ہیں،مسائل اخلاقی نیکی ہیں،فطرت نیکی ہےلیکن آپ سب سےمقدم ہیں اس معنی میں کہ اللہ تعالی نےتمام مخلوقات میں سےسب سےپہلےچہاردہ معصومین کوپیداکیاجسطرح پہلےاشارہ ہواکہ چہاردہ معصومین کی خلقت نورانی ایک ہی وقت ایک ساتھ ہوئی ہےخلقت کی لحاظ سےان چہاردہ معصومین میں سےکوئی کسی سےپہلےاوربعدمیں نہیں لیکن جب اللہ تعالی نےانہیں اس دنیامیں بھیجناچاہاتو یہ زمانی فاصلہ وجودمیں آیا۔
امام صادق (ع) نےفرمایا :
لَوْ لَا مُحَمَّدٌ ص وَ الْأَوْصِيَاءُ مِنْ وُلْدِهِ لَكُنْتُمْ حَيَارَى كَالْبَهَائِمِ لَا تَعْرِفُونَ فَرْضاً مِنَ الْفَرَائِض؛
بحار، ج ۷۵ ، ص ۳۷۶
اگررسول اکرم(ص)اورانکےجانشین نہ ہوتےتوتمام لوگ حیوانوں کی طرح حیران اورپریشان ہوتےاوراصول دین اورفروع دین کےبارےمیں کچھ نہ جانتے۔
تمام نیکیوں کی جڑ
آپ تمام نیکیوں اورخوبیوں کی جڑ ہیں امام صادق (ع) فرماتے ہیں :
نحن اصل کل بر؛
ہم تمام نیکیوں اورخوبیوں کی جڑہیں اگرکوئی ذرابرابربھی نیکی اورخوبی رکھتاہےتو اسکامطلب ہےاسکےدل میں اہلبیت کی محبت اوردوستی پائی جاتی ہے۔
امام صادق (ع)فرماتے ہیں :
إن شيعتنا منا خلقوا من فاضل طينتنا و عجنوا بماء ولآیتنا؛
شجرہ طوبی، ج ۱ ، ص ۶
ہمارےشیعہ نیکیوں اورفضیلتوں کےمالک ہیں کیونکہ انکاوجودائمہ معصومین کی فاضل طینیت سےبنایاگیاہےاورانکوہماری ولایت سےسیراب کیاگیاہے۔
امیرالمومنین(ع)نےسلمان سےفرمایا: تمہارے پاس جوکچھ ہےہمارےسبب ہےکیونکہ تمہاراوجودہماری فاضل طینیت سےبنایاگیاہےاور تمہیں ہماری ولایت سےسیراب کیاگیاہے۔ اسلئےتم
منا اهل البیت؛
ہم اہلبیت میں سےہو۔
الاحتجاج، ج ۱ ، ص ۳۸۷ ۔
نیکی کی معدن
اللہ تعالی نےہرچیزکی معدن بنائی ہےسونےکی ایک معدن ہے،چاندی کی ایک معدن ہے۔اسیطرح تمام فضائل اورکمالات کی معدن ائمہ معصومین ہیں ہرپیغمبراورہروصی پیغمبراورہرولی اورہرمومن نےکچھ مقدارمیں اس معدن سےکمال اورنیکیاں لی ہیں۔
نیکی کا مقام
ماوی یعنی کسی چیز کا مقام معدن کےعلاوہ کسی چیز کےپلٹنےکی جگہ یعنی تمام کمالات کی ابتدا اور معدن آپ ہیں اور تمام کمالات کےپلٹنےکی جگہ بھی ائمہ معصومین ہیں۔
ہر نیکی اورفضیلت کا ایک کمال ہےجس تک کوئی انسان نہیں پہنچ سکتا۔اگرکوئی انسان تمام نیکیاں اورفضیلتیں حاصل بھی کرلےتو بھی اس نیکی اورفضیلت کےانتہائی درجہ تک نہیں پہنچ سکتا کیونکہ تمام نیکیوں اورفضیلتوں کی انتہا آپ ائمہ معصومین ہیں۔حقیقت میں علم کی انتہا،حلم کی انتہا،تقوی کی انتہا،ہرنیکی اورکمال جواس دنیا میں پایاجاتاہےاسکی انتہاائمہ معصومین ہیں۔
زیارت جامعہ میں ایک اور جگہ پر آیا ہے:
حَيْثُ لا يَلْحَقُهُ لاحِقٌ وَ لا يَفُوقُهُ فَائِقٌ وَ لا يَسْبِقُهُ سَابِقٌ وَ لا يَطْمَعُ فِي إِدْرَاكِهِ طَامِعٌ
کہ اس درجہ تک کوئی بعدمیں نہ پہنچ سکا اوراس سےبلندمرتبہ تک کسی کیلئے راہ نہیں اوراس تک کوئی پہلےبھی نہیں پہنچااوراس مقام کےپانےکی کوئی لالچ نہیں کر سکتا ہے۔
یعنی کوئی بھی انسان ائمہ معصومین(ع)کےمقام تک نہیں پہنچ سکتااوران سےآگےنہیں بڑھ سکتا، کوئی انکےمرتبےتک پہنچنےکی تمنا اورلالچ بھی نہیں کرسکتا۔کیونکہ کسی چیزکی تمنااورلالچ کیلئےضروری ہےکہ انسان کی فکر اس چیز تک پہنچے اب کون ہےجس کی فکر اس مقام تک پہنچے اور وہ اس کی آرزو کرے ؟
اللہ تعالی ہم سب کو ائمہ معصومین کی ولایت جیسی عظیم نعمت کےقدردانوں میں قرار دے ۔
گیارہویں مجلس
ائمہ معصومین تمام کمالات کےلحاظ سےباب اللہ ہیں( ۲) اللہ تعالی قرآن میں ارشادفرماتا ہے:
(
يَا آیتا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ
۔)
سورہ مائدہ، آیت ۳۵ ۔
ایمان والواللہ سےڈرواوراس تک پہنچےکاوسیلہ تلاش کرو۔امام علی نقی زیارت جامعہ میں ارشادفرماتے ہیں:
وَ الْبَابُ الْمُبْتَلَى بِهِ النَّاسُ
اور وہ دروازہ ہیں جسکےذریعے لوگوں کا امتحان لیا جاتا ہے۔ہم نےذکرکیاکہ ائمہ معصومین تمام کمالات اورفضائل کےدروازےہیں۔ اس لحاظ سےتمام حاجتوں کی برآوری کیلئےاورتمام مشکلات کےحل کیلئے ان سےمدد لی جاسکتی ہے۔ہم تمام کےتمام سرسےپاؤں تک ان کےنیازمندہیں؛کیونکہ ہم بہت ساری مادی اورمعنوی مشکلات رکھتے ہیں۔ہم میں سےکوئی ایسانہیں جویہ کہہ سکےکہ مجھےکسی چیزکی ضرورت نہیں میں کسی کامحتاج نہیں۔دعائوں میں بھی ہماری یہ نشانی بیان کی گئی ہےکہ:
لَا يَمْلِكُ لِنَفْسِهِ نَفْعاً وَ لَا ضَرّاً وَ لَا مَوْتاً وَ لَا حَيَاةً وَ لَا نُشُورا؛
مفاتیح الجنان، تعقیب نماز عصر
نہ ہم اپنےفائدہ کےمالک ہیں، نہ ہم اپنےنقصان کےمالک ہیں، نہ ہم اپنی موت کےمالک ہیں، نہ ہم اپنےدوبارہ محشورہونےکےمالک ہیں،نہ ہم اپنےحساب کتاب کےمالک ہیں۔امیرالمومنین(ع)مناجات مسجدکوفہ میں فرماتےہیں ہم عبدہیں، ہم بندےہیں، ہم فقیرہیں، ہمارے پاس کوئی کمال نہیں۔
مفاتیح الجنان، مناجات مسجد کوفہ
کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم تمام کےتمام سرسےپاؤں تک نیازمندہیں ہم خوداپنےدم پرکچھ کرنےکی قدرت نہیں رکھتے۔
دوسرانکتہ یہ ہےکہ: جب ہم قرآنی آیات، روایات اوراحادیث کی طرف دیکھتےہیں توپتاچلتاہےکہ ائمہ معصومین غنی اوربےنیازہیں تمام فضائل اورکمالات انکےوجودمیں جمع ہوئےہیں جیساکہ ہم نےاشارہ کیاتمام مخلوق تک انکےذریعےفیض پہنچتاہے۔ اللہ تعالی قرآن میں رسول اکرم(ص)کیلئےارشادفرماتاہے:
(
وَوَجَدَكَ عَائِلًا فَأَغْنَىٰ
)
سورہ ضحی، آیت ۸ ۔
اورتم کوتنگ دست(یاصاحب عیال)پاکرغنی نہیں بنایاہے۔
یہاں عیال سےمرادصرف رسول اکرم(ص)کےگھروالےنہیں کیونکہ ہمیں معلوم ہےکہ رسول اکرم(ص)کی بہت بڑی عیال نہیں تھی بلکہ روایات میں آیاہےکہ رسول اکرم(ص)کی عیال سےمرادتمام انسان ہیں تمام مخلوق آپکی عیال ہیں اورروزانہ اپنی روزی کیلئےآپکےدرپرآتے ہیں اسلئےاللہ تعالی نےآپکوغنی اوربےنیازکیاہےتاکہ تمام مخلوق تک انکےذریعےفیض پہنچتارہے۔
بحار، ج ۱۹ ، ص ۶۳ ۔
جیساکہ ہم جانتےہیں رسول اکرم(ص)کی کنیتوں میں سےایک کنیت ابوالقاسم ہے۔اسکی عام معنی تویہ ہےکہ رسول اکرم(ص)کا ایک بیٹاتھاجسکانام قاسم تھا۔لیکن امام صادق(ع)ایک روایت میں فرماتےہیں:قاسم امیرالمومنین(ع)کانام ہے۔
بحار، ج ۱۶ ، ص ۹۵ ۔
امیرالمومنین (ع) کو قاسم کیوں کہتے ہیں؟ کیونکہ امیرالمومنین (ع) لوگوں کا رزق تقسیم کرتے ہیں یہاں تک کہ فرشتے بھی اپنا معنوی رزق امیرالمومنین (ع) کےہاتھ سےلیتے ہیں۔ امیرالمومنین (ع) دنیا اور آخرت میں رزق باٹنےوالے ہیں کیونکہ رسول اکرم(ص) نےفرمایا ہے:
علی قَسِيمَ الْجَنَّةِ وَ النَّار؛
بحار، ج ۵۳ ، ص ۴۸ ۔
حضرت علی(ع)جنت اوردوزخ کوتقسیم کرنےوالےہیں آخرت میں مومنوں کوجنت اورکافروں کو دوزخ بھیجنےوالےامیرالمومنین (ع)ہیں۔کوئی بھی اپنی مراد تک نہیں پہنچ سکتاسوائےاہلبیت کےوسیلےسےاوراہلبیت کےدروازےسےیہاں تک کہ کافروں کی حاجتیں بھی اہلبیت کےدروازےسےرواہوتی ہیں۔
اہل مکاشفہ میں سےایک بزرگ فرماتےہیں:ہرایک کوعطاکرنےوالی ذات امیرالمومنین(ع)کی ہےیہاں تک کہ ہندمیں جوریاضت کرنےوالےہیں انکو بھی امیرالمومنین(ع)عطاکرتےہیں۔ریاضت کےبعدعالم مکاشفہ میں دیکھاگیا کہ اس جگہ امیرالمومنین(ع)تشریف لاتےہیں اورتمام ریاضت کرنےوالوں کوانکی ریاضت کےحساب سےعطاکرتےہیں۔امام سجادابوحمزہ سےفرماتےہیں :
يَا أَبَا حَمْزَةَ لَا تَنَامَنَّ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ فَإِنِّي أَكْرَهُهَا لَكَ إِنَّ اللَّهَ يُقَسِّمُ فِي ذَلِكَ الْوَقْتِ أَرْزَاقَ الْعِبَادِ وَ عَلَى أَيْدِينَا يُجْرِيهَا؛
بحار، ج ۴۶ ، ص ۲۳ ۔
اے ابوحمزہ!طلوع آفتاب سےپہلےمت سونامیں اس بات کوتمہارےلئےپسندنہیں کرتاکیونکہ مادی اورمعنوی رزق مخلوق میں اسوقت تقسیم کیاجاتاہےاوریہ کام بھی ہمارےہاتھ سےانجام پاتاہے۔ دوسری طرف امیرالمومنین(ع)ارشادفرماتےہیں:
ان رسول الله ادبه الله عز وجل وهو ادبنی و انا اودب المومنین؛
بحار، ج ۷۴ ، ص ۲۶۷ ۔
بتحقیق اللہ تعالی نےرسول اکرم(ص) کی تربیت کی ہےاور رسول اکرم(ص) نےمیری تربیت کی ہےاور میں مومنوں کی تربیت کرنےوالا ہوں۔ کیونکہ رسول اکرم(ص) نےحضرت علی (ع)کی تربیت کی ہےاس بنا پر وہ حضرت علی (ع)کےوالد ہوئے اور ان کی کنیت ابو القاسم یعنی قاسم (امیرالمومنین (ع) )کےبابا طے پائی۔
اہلبیت واسطہ فیض ہیں
اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:
(
يَا آیتا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ
)
سورہ مائدہ، آیت ۳۵ ۔
ایمان والو اللہ سےڈرو اور اس تک پہنچے کا وسیلہ تلاش کرو ۔یعنی محتاج اورنیازمندانسانو!اب پتاچلاکہ انسان محتاج اورنیازمندہےجب پتاچل گیاتوآؤ!انکےدروازےپرجو اللہ تعالی کےنمائندےہیں اورائمہ معصومین کےدروازےسےحاصل کرو۔اس وسیلےسےکیامرادہےجو تقوی والوں کیلئےقراردیاگیاہے؟رسول اکرم(ص)ارشادفرماتےہیں:
نَحْنُ الْوَسِيلَة؛
بحار، ج ۲۵ ، ص ۲۳ ۔
ہم (اہلبیت) وسیلہ ہیں۔ یعنی ہمارے وسیلے تقوی تک پہنچا جا سکتا ہےجو بھی تقوی چاہتا ہےہمارے دروازے پر ا ٓئے تا کہ اس کی مشکل آسان ہو اور اس کی محتاجی دور ہو۔ عقل کا بھی یہی فیصلہ ہےکہ فقیر انسان کو چاہیے غنی کےدروازے پہ جائے تاکہ اس کی حاجت بر آئے جیسا کہ روایات بھی یہی کہتی ہیں۔امام محمد باقر ایک اور روایت میں ارشاد فرماتے ہیں :
مَنْ دَعَا اللَّهَ بِنَا أَفْلَحَ وَ مَنْ دَعَاهُ بغیرنَا هَلَكَ وَ اسْتَهْلَكَ ؛
وسائل، ج ۷ ، ص ۱۰۳ ۔
جواللہ تعالی کوہماراوسیلہ دےکرمناجات کرتاہےوہ اپنےمقصدمیں کامیاب ہوتاہےجو ہمارےوسیلےکےبغیردعامانگتاہےہمارےعلاوہ کوئی اوروسیلہ تلاش کرتاہےوہ خودبھی ہلاک ہوتاہےاوردوسروں کوبھی ہلاک کرتاہے۔جوبھی اہلبیت سےمنہ موڑتاہےوہ گمراہ اورنابودہوجاتاہے۔ اگرغیرشیعہ لوگوں کودیکھیں تواس بات کاسچ ہوناسمجھ میں آئےگاجب ہم اہلسنت کی معتبرکتابوں کوملاحظہ کرتےہیں توان میں مسئلہ توحیدکےمتعلق بہت سارےخرافات پائےجاتےہیں۔ان میں سےکوئی اللہ تعالی کےجسم اورجسمانیت کاقائل ہے۔وہ اپنےکتابوں میں لکھتےہیں اللہ تعالی نمازکےوقت عرش سےنیچےتشریف لاتاہے(نعوذباللہ)۔
اوردوسری جگہ لکھتےہیں اللہ تعالی ہنستاہے،اللہ تعالی چہرہ،آنکھیں،ہاتھ،انگلیاں، پاؤں رکھتاہے،اللہ تعالی قیامت میں اپنی پنڈلی کھولےگا، یااس آیت کےظاہرکو لیتےہوئےکہتےہیں اللہ تعالی قابل مشاہدہ ہے،
سیری در صحیحین، ص ۱۰۹ ۔
اوراس بات کی دلیل
(
وَجَاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا
)
سورہ فجر، آیت ۲۲ ۔
اس آیت کےظاہرکو قراردیتے ہیں۔ان میں سےکچھ جبرکےقائل ہیں اورکچھ تفویض کے،لیکن شیعہ نہ جبرکےقائل ہیں نہ تفویض کے؛کیونکہ شیعوں کےپاس امامت کی نعمت موجودہےجودوسروں کےپاس نہیں۔اس وجہ سےوہ قرآن کےظاہرکولینےپرمجبورہیں۔
عرفان میں انحراف
اہلسنت کےبعض علماءبھی بہت زیادہ انحراف کاشکارہیں جیسےغزالی اورابن فارض۔نمونےکےطورپرغزالی کی یہ بات پیش ہےجوانہوں نےلعن کےباب میں بیان کی ہےوہ لکھتےہیں:ہمیں یزیدپرلعنت نہیں کرنی چاہیےکیونکہ شایدانہوں نےتوبہ کرلی ہو۔
احیا العلوم، ج ۳ ، ص ۱۲۵
یعنی وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر کوئی امام کاقتل کرےاورپھر توبہ کرےتو اس کی توبہ قبول ہے۔ یہ بات بھی تو ایک بدعت ہے!
یا ابن فارض اپنےدیوان میں لکھتے ہیں : جب فرعون دریا میں غرق ہو رہا تھا تو اس نےکہا : پروردگارا! میں نےتوبہ کی مجھے اب سمجھ میں آیا ہےکہ میں بندہ ہوں تو خدا ہے۔ اللہ تعالی نےبھی جبرئیل سےکہا : جلدی جاؤ ! فرعون کےمنہ میں مٹی ڈالو تاکہ پشیمان ہو کر کفر سےنہ پلٹے ۔ اس بنا پر فرعون، موحد اور اللہ تعالی کو ماننےوالا بن کہ اس دنیا سےگیا ۔ حالانکہ آیت قرآنی صراحت سےبیا ن کر رہی ہےکہ :
(
آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنتَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ
)
سورہ یونس، آیت ۹۱ ۔
اب جب کہ تو پہلےنافرمانی کرچکاہےاورتیراشمارمفسدوں میں ہوچکاہے۔
کیا یہ عارف ہیں ؟ کیا یہ عرفان ہے؟ اسلئے امام صادق (ع) فرماتے ہیں :
شَرِّقَا وَ غَرِّبَا لَنْ تَجِدَا عِلْماً صَحِيحاً إِلَّا شَيْئاً يَخْرُجُ مِنْ عِنْدِنَا أَهْلَ الْبَيْتِ ؛
بحار، ج ۲ ، ص ۹۲ ۔
مشرق سےمغرب تک سفرکرواورمغرب سےمشرق تک سفرکروتمہیں کوئی صحیح علم نہ ملےگاسوائاسکےجوہمارےدروازےسےنکلاہو۔
اسی طرح امام محمدباقرارشادفرماتےہیں:
ُ لَيْسَ عِنْدَ أَحَدٍ مِنَ النَّاسِ حَقٌّ وَ لَا صَوَابٌ إِلَّا شَيْءٌ أَخَذُوهُ مِنَّا أَهْلَ الْبَيْتِ وَ لَا أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ يَقْضِي بِحَقٍّ وَ عَدْلٍ إِلَّا وَ مِفْتَاحُ ذَلِكَ الْقَضَاءِ وَ بَابُهُ وَ أَوَّلُهُ وَ سُنَنُهُ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ علی بْنُ أَبِي طَالِبٍ ع فَإِذَا اشْتُبِهَتْ علیهمُ الْأُمُورُ كَانَ الْخَطَأُ مِنْ قِبَلِهِمْ إِذَا أَخْطَئُوا وَ الصَّوَابُ مِنْ قِبَلِ علی بْنِ أَبِي طَالِبٍ ع
کسی انسان کےپاس کوئی اچھائی،خوبی اورحق نہ ملےگاسوائےجواچھائی، خوبی اورحق ہم اہلبیت کےدروازےسےنکلاہو۔اگرلوگوں میں اختلاف ہوجائےتوخطالوگوں کی طرف سےاورحق اورسچائی امیرالمومنین(ع)کی طرف سےہوگی۔
کافی، ج ۱ ، ص ۳۹۹ ۔
پوری کائنات میں جہاں بھی جوبھی انسان سچ اورحق کوپسندکرتاہےاس نےیہ بات ائمہ معصومین سےلی ہے۔
مستدرک سفینہ البحارمیں شیخ علی نمازی اپنےاستادمرزامہدی اصفہانی کاایک واقعہ نقل کرتےہوئےفرماتےہیں، انہوں نےاپنےشاگردوں سےفرمایا:جس طرح میرےاستاد آیت اللہ سیداحمدکربلائی نےمیری رہنمائی کی میں نےاسی طرح عرفان اورسیروسلوک کےتمام مراحل طےکئےآخرمیں میرےاستادنےفرمایاتم نےتمام مراحل طےکرلئے۔لیکن میرےدل کوچین نہیں تھامیں نےپورافلسفہ پڑھالیکن میرےدل کوچین نہ آیا۔میں نےدوسرےعلوم چھانےمگرمیرےدل کو چین نہ آیا۔میں صحرامیں گیااورفریادکرنےلگا:اےمہدی!سب کچھ پڑھ لیالیکن دل کوچین نہ آیااب کیاکروں جس سےدل کوچین آئے؟میں نےبہت زیادہ گریہ اورمناجات کی یہاں تک کہ عالم مکاشفہ میں امام مہدی کادیدارنصیب ہوا۔امام ارشادفرمارہےتھے:
طلب الهدآیت او المعارف من غیرنا مساوق لانکارنا؛
مستدرک السفینة ، ج ۱۰ ، ص ۵۰۳ ۔
ہم اہلبیت کوچھوڑکےکسی اورسےہدایت اورمعارف کوطلب کرناہم اہلبیت کےانکارکرنےکےبرابرہے۔یعنی اگرکوئی عرفان اورسیروسلوک کی طرف جاتاہےلیکن ہم اہلبیت کوچھوڑکےکسی اورراستےسےتویہ ہم اہلبیت کےانکارکرنےکےبرابرہے۔
بارہویں مجلس
علم اورحکمت کا دروازہ
اللہ تعالی نےقرآن میں ارشاد فرماتا ہے:
(
وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا
)
سورہ بقرہ، آیت ۱۸۹ ۔
اور مکانات میں دروازوں کی طرف سےآئیں۔ امام علی نقی زیارت جامعہ میں ارشاد فرماتے ہیں :
وَ الْبَابُ الْمُبْتَلَى بِهِ النَّاسُ
اور وہ دروازہ ہیں جس کےذریعے لوگوں کا امتحان لیا جاتا ہے۔ بہت ساری حدیثوں میں آیا ہےکہ ائمہ معصومین اللہ تعالی کا دروازہ ہیں اور ان حدیثوں سےیہ نتیجہ بھی نکلتا ہےکہ ائمہ معصومین ہر لحاظ سےاللہ تعالی کا دروازہ ہیں۔ ائمہ معصومین (ع)کےاللہ تعالی کا دروازہ ہونےکا ایک مصداق یہ ہےکہ ائمہ معصومین، رسول اکرم(ص) کےعلم اور حکمت کا دروازہ ہیں یعنی اگر کوئی رسول اکرم(ص) کےعلم اور حکمت تک پہچنا چاہتا ہےتو اسےچاہیے کہ امامت کےراستے اس علم تک پہنچے۔بہت ساری حدیثوں میں آیا ہےکہ رسول اکرم(ص)نےارشاد فرمایا:
أَنَا مَدِينَةُ الْعِلْمِ وَ علی بَابُهَا فَمَنْ أَرَادَ الْعِلْمَ فَلْيَأْتِ الْبَاب؛
بحار، ج ۳۸ ، ص ۱۸۹ ۔
میں علم کاشہر ہوں اورامیرالمومنین(ع)اس کادروازہ ہیں جوعلم حاصل کرناچاہتاہےاسےچاہیےاس دروازےسےآئے۔یہاں لطیف نکتہ یہ ہےکہ اہلسنت نےبھی ان روایات کونقل کیاہےلیکن اپنےخلفاءکومحروم نہ رکھنےکیلئےچندجملوں کااضافہ کیاہےجیسےکہتےہیں علی،رسول اکرم(ص)کےعلم کےشہرکادرازہ ہے،عثمان رسول اکرم(ص)کےعلم کےشہرکی چھت ہے، عمررسول اکرم(ص)کےعلم کےشہر کی دیوارہے۔
ینابیع المودہ، ج ۲ ، ص ۹۱ ۔
امام سجاد نےکتنا خوبصورت جملہ ارشاد فرمایا ہے:
الحمدلله الذى جعل اعدائنا من الحمقاء
الغدیر، ج۷، ص۱۹۷؛ کشف الخفاء، ج۱، ص۲۰۴.
حمد اس خدا کی جس نےہمارے دشمنوں کہ احمق قرار دیا۔ کسی شہر کیلئے اہم چیز وہ دروازہ ہوتا ہےجس سےشہر میں داخل ہوا جاتا ہےدیوار اور چھت سےتو انسان شہر میں داخل نہیں ہو سکتا اور شہر کیلئے ان چیزوں کی ضرورت نہیں۔ یہ ممکن ہےکہ ان چیزوں کی معنی یہ ہو کہ باطن میں اس شہر کیلئے یہ چھت اور دیواریں ہیں یعنی شہر رحمت میں داخل ہونےسےروکنےوالے ہیں اتفاقا یہی معنی درست ہےکیونکہ امت کےرسول اکرم(ص) کی رحمت سےفائدہ اٹھانےسےیہ افراد مانع بنتے تھے جیسےچھت اور دیوار گھر تک پہچنےسےروکتے ہیں اس طرح یہ بھی رسول اکرم(ص) تک پہچنےسےروکتے تھے۔ایک اور روایت میں رسول اکرم(ص) ارشاد فرماتے ہیں:
أَنَا مَدِينَةُ الْحِكْمَةِ علی بَابُهَا؛
بحار، ج ۳۷ ، ص ۱۰۹
میں حکمت کا شہر ہوں اور امیرالمومنین (ع) اس کا دروازہ ہیں۔حکمت علم سےبڑی چیز ہے؛ کیونکہ حکمت یقینی علم کو کہتے ہیں اور اس علم کو کہتے ہیں جس میں کوئی خدشہ نہ ہویعنی دنیا کےرسمی علوم کی طرح نہیں جن میں وقت کےگذرنےسےتبدیلی آتی رہتی ہے۔اس لئے اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:
(
وَمَن يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا
)
سورہ بقرہ، آیت ۲۶۹ ۔
اورجسےحکمت عطا کردی جائےاسےگویاخیرکثیرعطاکردیاگیا۔جسکو حکمت ملی اسکوبہت زیادہ خیرملا۔ بعض روایتوں میں آیاہےکہ حکمت سےمرادامام کی معرفت ہے۔دوسری جگہ پرآیاہےکہ امام کےفرمان پہ چلنےکانام حکمت ہے،اسی طرح ایک اورجگہ پہ آیاہےکہ قرآن حکمت ہےیابعض دوسری روایتوں میں آیاہےکہ توحیدحکمت ہے۔
بحار، ص ۲۱۵ ۔
اللہ تعالی نےاپنےکچھ بندوں کوعلم اورحکمت عطا فرمایاہےیعنی انکودین اورفقہ کےاسراراوررموزسمجھائےہیں جسکوعلم بلایا اورمنایاکہتے ہیں۔ان افراد میں سےایک مرحوم شیخ رجب علی خیاط ہیں جنکےبارےمیں بہت سارےواقعات ہیں۔وہ فرماتےہیں ایک شخص جوانی میں پاؤں کےدردمیں مبتلاہوا، ڈاکٹروں نےبہت ساری ٹیسٹیں کیں۔لیکن دردکا سبب پتا نہ چلا۔وہ شیخ رجب علی کےپاس آیا اورکہنےلگا:شیخ صاحب میرےپاؤں میں دردہےلیکن پتانہیں اسکاسبب کیاہے؟شیخ رجب علی نےغورسےدیکھااورفرمایا: تم اپنےوالد کی طرف پاؤں پھیلاتے ہو! جسےمعنوی دنیا میں بے ادب کو ادب سکھانا کہتے ہیں۔
اس بنا پر رسول اکرم(ص) ارشاد فرماتے ہیں : اللہ تعالی کی معرفت، فہم قرآن، کائنات کےاسرار کی معرفت،نبوت شناسی، معاد شناسی، انسان شناسی اور بہت سارے علوم اور حکمتیں رسول اکرم کےوجود میں خلاصہ ہیں جن تک پہنچنےکا راستہ اور دروازہ امیرالمومنین (ع) ہیں۔ تیسری روایت میں رسول اکرم(ص) ارشاد فرماتے ہیں :
أَنَا دَارُ الْحِكْمَةِ وَ علی مِفْتَاحُهَا
بحار، ج ۳۸ ، ص ۱۰۲ ۔
میں حکمت کا گھر ہوں علی اس کی چابی ہے۔
جس گھر میں خلقت آدم سےلیکر خلقت کےآخر تک کی تمام حکمتیں جمع ہیں نہ صرف اس دنیا میں حکمت کا گھر ہےبلکہ آخرت میں بھی اور عالم ذر اور میثاق میں بھی رسول اکرم(ص) حکمت کا گھر ہیں۔ کوئی بھی اس گھر سےفائدہ حاصل نہیں کر سکتا سوائے جس کےپاس اس گھر کی چابی ہو اور اس گھر کی چابی امیرالمومنین (ع) ہیں۔ اس روایت سےپتا چلتا ہےکہ اہلسنت کےپاس رسول اکرم(ص) کا کوئی علم نہیں اور ہ رسول اکرم(ص) کےکسی علم کےبارے میں نہیں جانتے۔ انہوں نےاسلام کو صرف فائدہ حاصل کرنےکیلئے اختیار کیا ہےاور قبلہ کی طرف منہ کرکےکھڑے ہو گئے ہیں ۔ صرف قبلہ کی طرف منہ کرنےکا تو کوئی فائدہ ہی نہیں انہوں نےنما ز، روزہ، حج، قرآن، احکام سےکچھ فائدہ نہ پایا۔
کیا ابوحنیفہ نےنہیں کہا؟
لولا السنتان لهلک النعمان؛
قادتنا کیف نعرفہم، ج ۶ ، ص ۲۴۷ ۔
اگروہ دوسال نہ ہوتے جن میں امام صادق(ع)سےمیں نےعلم حاصل کیاتو میں ہلاک ہوجاتا۔ اسی طرح کہتے ہیں:اگرامام صادق(ع)نہ ہوتےلوگ حج کےاحکام نہ جان پاتے۔ہم فقہ کےتمام موضوعات اورابواب میں رسول اکرم(ص)کی تین سو یا چارسوروایتوں سےزیادہ نہیں رکھتے ہم کس طرح ان گنی چنی روایتوں کےسہارے قیامت تک زندگی بسر کرسکتے ہیں؟ ہم صرف نماز کےبارے میں ۴۰۰۰ چارہزار مسئلوں کا سامنا کرتے ہیں دوسرے موضوعات تو اپنی جگہ پر رہے! ان مسائل اور ان کی جزئیات کو کہاں سےسمجھیں گے؟ کون ان کی تحقیق کرے گا؟ نتیجہ یہ ہوگا کہ احکام محدود ہو جائیں گے کیونکہ رسول اکرم(ص) کی روایتیں تو اتنی ہی ہیں۔ لیکن فقہ شیعہ بہت وسیع ہےہر موضوع کےجزئی اور کلی تمام مسائل کا جواب رکھتی ہے۔ ہزاروں روایات ائمہ معصومین کےذریعے ہم تک پہنچی ہیں لیکن وہ قیاس اور استحسان کرنےپر مجبور ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ وہ اہلبیت سےدور ہیں اور شہر علم کےدروازے تک نہیں پہنچے۔
اسی لئے رسول اکرم(ص) نےفرمایا :
الآئمة ابواب العلم فی امتی؛
امالی صدوق، ص ۱۳ ۔
میری امت میں ائمہ معصومین علم کےدروازے ہیں۔ یعنی کوئی بھی درست علم تک نہیں پہنچ سکتا مگر اہلبیت ذریعے سے۔
جب اللہ تعالی نےاپنےحبیب کوحکم دیا :اے حبیب !اپنےصحابہ سےاورتمام لوگوں سےکہہ دو مسجدکی طرف کھلنےوالے دروازے بند کردو۔ پہلا اور دوسرا رسول اکرم(ص) کی خدمت میں یہ خواہش لے کےحاضر ہوئےکہ انکادروازہ کھلارہے۔ رسول اکرم(ص) نےفرمایا یہ نہیں ہو سکتا ۔ انہوں نےعرض کیا تھوڑا سوراخ رہنےدیں تاکہ مسجدکودیکھ سکیں۔رسول اکرم نےمنع کردیا۔ انہوں نےفرمایا:اللہ تعالی کاحکم ہےاپنےدروازےبندکردو۔یہاں تک کہ رسول اکرم(ص) کےچچا عباس نےبھی دروازہ کھلا رکھنےکی خواہش ظاہرکی لیکن رسول اکرم(ص)نےمنع کردیا۔اس وقت حضرت زہراءاپنےگھرمیں تشریف فرماتھیں انہوں نےیہ حکم سناتورسول اکرم(ص)سےسوال کیا: کیا ہمارےگھرکا دروازہ بھی بندہونا چاہیے؟حضرت زہراءجانتی تھیں لیکن سوال کرکہ سمجھایا کہ اگرحکم ہمارےلئےہےتو ہم اطاعت کرنےپرتیارہیں۔رسول اکرم(ص)نےجواب میں فرمایا:مجھ پروحی ہوئی ہےکہ یہ حکم زہراءاور علی کیلئےنہیں بلکہ دوسروں کیلئےہے۔
مناقب امیر المومنین، ج ۲ ، ص ۴۶۱: مسند احمد، ص ۳۶۹ ۔
یعنی اللہ تعالی چاہتا تھا کہ تمام دروازے بند کئے جائیں تاکہ یہ ایک دروازہ کھلا رہےاور تمام لوگ مجبورا اس دروازے سےمسجد میں داخل ہوں۔
اسی طرح اللہ تعالی سمجھاناچاہتا تھا کہ جیسےظاہری طور پرمسجدالنبی میں ایک دروازہ کھلاہےجواہلبیت سےمخصوص ہےاسی طرح تکوینی طورپراللہ تعالی نےجنت،سعادت، توحید، معارف، کا دروازہ اہل بیت کےگھرکی طرف کھولاہے۔
سَدَّ الْأَبْوَابَ إِلَّا بَابَه؛
مفاتیح، دعا ندبہ
تمام دروازوں کوبندکیاسوائے علی کےگھرکےدروازےکے۔
آخرمیں ہم اس نتیجہ پہ پہنچےکہ ہرکوئی علم تک نہیں پہنچ سکتا،امامت کےعلاوہ کوئی علم تک پہنچنےکاراستہ نہیں۔اسی طرح ہر کوئی عمل تک نہیں پہنچ سکتاکیونکہ علم اورجانےبغیرکیسےعمل کیاجاسکتاہے!
تیرہویں مجلس
اعمال کی قبولیت
اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:
(
وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا
)
اور مکانات میں دروازوں کی طرف سےآئیں۔
امام علی نقی زیارت جامعہ میں ارشاد فرماتے ہیں :
وَ الْبَابُ الْمُبْتَلَى بِهِ النَّاسُ
اور وہ دروازہ ہیں جس کےذریعے لوگوں کا امتحان لیا جاتا ہے۔
اللہ تعالی نےمصلحت کیلئےاور انسان کےکمال کیلئے کچھ چیزوں کو واجب کیا ہےاور کچھ چیزوں کو حرام کیا ہے۔جیسےنماز اور روزہ واجب ہے، شراب اور جھوٹ حرام ہے۔ اللہ تعالی حکیم ہےاور اس نےحکمت کی بناپر اس کام کو انجام دیا ہے۔ حقیقت میں ہر وہ چیز جو انسان کےکمال کےمنافی ہو اور انسان کےنقصان میں ہو وہ حرام ہےاور ہر وہ چیز جو انسان کی ہدایت اور اس کی شخصیت کےکمال میں اثر انداز ہوتی ہےوہ چیز واجب ہے۔
اللہ تعالی نےاعمال اور عبادات کی قبولیت کےلئے بھی کچھ شرطیں رکھی ہیں اور ان شرائط میں سےاہم ترین شرط ولایت کو قبول کرناہےاس لئے اللہ تعالی فرماتا ہے: جو بھی ائمہ معصومین کو مانےگا میں اس کےاعمال قبول کروں گا اور اس کےگناہوں سےدرگذرکروں گا اس بنا پر اہلبیت کی ولایت اللہ تعالی کی طرف سےاعمال اور عبادات کی قبولیت کا دروازہ بھی شمار ہوتی ہے۔ جس طرح نماز کی قبولیت کیلئے وضو کی شرط ہے، قبلہ کی طرف کھڑے ہونےکی شرط ہے، معنوی اور باطنی شرائط میں سےصحیح نیت شرط ہےاسی طرح سےاہم ترین شرط، ولایت کو قبول کرناہے۔ اگر انسان سو رکعتیں بہترین انداز میں پڑہےلیکن قبلہ کی طرف پشت ہو تو باطل ہیں اور اللہ تعالی اسےقبول نہیں کرتا تو جو ولایت اور امامت کو قبول نہ کرتا ہو اللہ تعالی اس کےاعمال اور عبادات کو کیسےقبول کرے گا؟ کیونکہ عبادت کی روح ائمہ معصومین کی ولایت ہے۔
رسول اکرم(ص) نےامام علی کو مخاطب کرکےفرمایا :
يَا علی لَوْ أَنَّ عَبْداً عَبَدَ اللَّهَ مِثْلَ مَا قَامَ نُوحٌ فِي قَوْمِهِ وَ كَانَ لَهُ مِثْلُ أُحُدٍ ذَهَباً فَأَنْفَقَهُ فِي سَبِيلِ ثُمَّ لَمْ يُوَالِكَ يَا علی لَمْ يَشَمَّ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ وَ لَمْ يَدْخُلْهَا؛
بحار، ج ۳۷ ، ص ۱۹۴ ۔
اگر کوئی انسان نوح کی زندگی جتنی اللہ تعالی کی بندگی کرے، ہزار بار پیدل حج کرے، احد کےپہاڑ کےبرابر سونا اللہ تعالی کی راہ میں انفاق کرے، صفا اور مروہ کےدرمیاں سعی کرتے ہوئے مظلوم شہید ہو جائے لیکن آپ کی ولایت کو قبول نہ کرتا ہو تو وہ جنت میں نہ جائے گا اور جنت کی خوشبو بھی نہ سونگھ پائے گا ۔
آئمہ معصومین کی محبت اور ولایت کو قبول کرنا نہ صرف تمام اعمال اور عبادات کی قبولیت کی شرط ہےبلکہ ذاتا واجب ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہےکہ اگر کوئی انسان ائمہ معصومین کی محبت اور ولایت کو قبول کرتاہو لیکن نیک عمل نہ رکھتا ہو کیا اسےیہ محبت اور ولایت فائدہ دے گی؟ جی ہاں وہ انسان اس دنیا میں یا برزخ میں اپنےاعمال کی سزا پاکر آخرت میں جنت میں جائے گا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی انسان ائمہ معصومین کی محبت اور ولایت کوقبول کرتا ہو اور جنت میں نہ جائے لیکن اس کےمقابل جوانسان ائمہ معصومین کی محبت اور ولایت کو قبول نہیں کرتا وہ جہنم میں جائے گا اور اگر ائمہ معصومین سےبغض اور دشمنی رکھے گا وہ ہمیشہ کیلئے جہنم میں جائے گا۔
ایک روایت میں امام محمد باقر ارشاد فرماتے ہیں:
أَمَا لَوْ أَنَّ رَجُلًا قَامَ لَيْلَهُ وَ صَامَ نَهَارَهُ وَ تَصَدَّقَ بِجَمِيعِ مَالِهِ وَ حَجَّ جَمِيعَ دَهْرِهِ وَ لَمْ يَعْرِفْ وَلَايَةَ وَلِيِّ اللَّهِ فَيُوَالِيَهُ وَ يَكُونَ جَمِيعُ أَعْمَالِهِ بِدَلَالَةٍ مِنْهُ إِلَيْهِ مَا كَانَ لَهُ عَلَى اللَّهِ حَقٌّ فِي ثَوَابِهِ وَ لَا كَانَ مِنْ أَهْلِ الْإِيمَان؛
کافی، ج ۲ ، ص ۱۹ ۔
اگرکوئی انسان تمام راتیں نماز میں بسرکرےاورمناجات کرے،تمام دنوں میں روزےرکھے،اپنےتمام مال کو اللہ تعالی کی راہ میں انفاق کرے،پوری زندگی ہرسال پیدل مکہ جائےحج کرےلیکن ائمہ معصومین کی ولایت کوقبول نہ کرےتو یہ انسان مومن نہیں اوراللہ تعالی اسےثواب میں سےکوئی حصہ نہ دے گا۔
اور اللہ تعالی اس سےکہےگا : میرے اعمال اور عبادات کی قبولیت والے دروازے سےکیوں نہیں آیا؟ ایک روایت میں ہےکہ رسول اکرم(ص) نےاپنےصحابہ سےفرمایا:
مَا بَالُ أَقْوَامٍ إِذَا ذَكَرُوا آلَ إِبْرَاهِيمَ وَ آلَ عِمْرَانَ اسْتَبْشَرُوا وَ إِذَا ذَكَرُوا آلَ مُحَمَّدٍ اشْمَأَزَّتْ قُلُوبُهُم؛
بحار، ج ۲۳ ، ص ۲۲۱ ۔
کیاہواہےکہ میرے صحابہ میں سےایک گروہ جب بھی آل ابراہیم اورآلعمران کا ذکر آتا ہےخوش ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں(یہودیوں اورمسیحیوں کی طرف مائل ہیں)لیکن جب میرے اہلبیت(امیرالمومنین(ع)اورحضرت زہراء) کا ذکر آتا ہےان کےدل تنگ ہوتے ہیں اور وہ ناراض ہوتے ہیں؟
اس وقت رسول اکرم(ص) نےیہ جملہ ارشاد فرمایا :
وَ الَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَوْ أَنَّ أَحَدَهُمْ وَافَى بِعَمَلِ سَبْعِينَ نَبِيّاً يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَا قَبِلَ اللَّهُ مِنْهُ حَتَّى يُوَافِيَ بِوَلَآیتي وَ وَلَايَةِ علی بْنِ أَبِي طَالِبٍ ؛
اللہ تعالی کی قسم جسکےقبضہ قدرت میں میری جان ہےاگرکوئی انسان سترنبیوں جتنےاعمال اورعبادات انجام دےلیکن قیامت کےدن اللہ تعالی سےاس حال میں ملاقات کرےکہ اہلبیت کی ولایت کو قبول نہ کرتا ہوتو اللہ تعالی اسکا کوئی عمل قبول نہ کرےگا۔ اسی طرح ایک اور روایت میں رسول اکرم(ص) نےارشاد فرمایا :
لِكُلِّ شَيْءٍ جَوَازٌ وَ جَوَازُ الصِّرَاطِ حُبُّ علی بْنِ أَبِي طَالِبٍ ؛
بحار، ج ۳۹ ، ص ۲۰۲
ہرملک میں جانےکیلئےویزہ ہوتاہے، پل صراط سےگذرنےکاویزہ امیرالمومنین(ع)کی محبت اوردوستی ہے۔
اسی طرح ایک اور روایت میں رسول اکرم(ص)نےارشاد فرمایا :
عُنْوَانُ صَحِيفَةِ الْمُؤْمِنِ حُبُّ علی بْنِ أَبِي طَالِبٍ ع ؛
ینابیع المودہ، ج ۱ ، ص ۳۷۳ ۔
ہرچیزکاایک عنوان ہوتاہےاورمومن کےصحیفہ کاعنوان علی کی محبت ہے۔
قیامت کےدن مومنین کےہاتھوں میں جو نامہ اعمال دیا جائے گا اس کےاوپر مظہربسم اللہ، علی ابن ابی طالب کا نام لکھا ہوگا یعنی وہ امام علی سےدوستی رکھتا ہےاگر یہ لکھا ہوا ہوگا تو اس وے اعمال کا ثواب ملے گا اگر کسی کےنامہ اعمال میں یہ لکھا ہوا نہ ہوگا تواس کےاعمال باطل شمار ہوں گے کیونکہ اللہ تعالی نےقرآن میں ارشاد فرمایا ہے:
(
مَّثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ أَعْمَالُهُمْ كَرَمَادٍ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ فِي يَوْمٍ عَاصِفٍ لَّا يَقْدِرُونَ مِمَّا كَسَبُوا عَلَىٰ شَيْءٍ
)
سورہ ابراہیم، آیت ۱۸ ۔
جن لوگوں نےاپنےپروردگارکا انکارکیا انکےاعمال کی مثال اس راکھ کی ہےجسےاندھڑکےدن کی تندہوا اڑالےجائے کہ وہ اپنےحاصل کئےہوئےپربھی کوئی اختیارنہ رکھیں گے۔
کیا کافر کوئی عمل کرتا ہے؟ یہ آیت جو کہہ رہی ہےکہ کافر کےاعمال برباد ہوں گے۔ کیا کافر نماز پڑہتا ہے؟ روزہ رکھتا ہے؟ یا کوئی اور عمل انجام دیتا ہے؟
مرحوم علی ابن ابراہیم قمی اپنی تفسیر میں جب اس آیت پہ پہنچتے ہیں تو لکھتے ہیں:
مَنْ لَمْ يُقِرَّ بِوَلَايَةِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ؛
تفسیر قمی، ج ۱ ، ص ۳۶۸ ۔
یہاں مراد وہ لوگ ہیں جو امیرالمومنین (ع) کی ولایت کا انکار کرتے ہیں۔ امام صادق (ع) کا ایک صحابی امام کی خدمت میں عرض کرتا ہے:
يَتَوَالَى أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ ع وَ يَتَبَرَّأُ مِنْ عَدُوِّهِ وَ يَقُولُ كُلَّ شَيْءٍ يَقُولُ إِلَّا أَنَّهُ يَقُولُ ؛
بحار، ج ۲۳ ، ص ۸۰
مولا ایک بندہ ہےجو آپ کو دوست رکھتا ہے، آپ کےدشمنوں سےبرائت اختیار کرتا ہے، آپ کےحلال کو حلال سمجھتا ہے، آپ کےحرام کو حرام سجھتا ہے، اس کا اعتقاد ہےکہ امامت آپ کا حق ہےلیکن وہ کہتا ہےکہ : کیونکہ امر خلافت اور امامت میں رسول اکرم(ص) کےصحابہ میں اختلاف ہوا ہےاس لئے میں اس کو قبول کرتا ہوں جس پر اجماع ہوا ہےاور سب نےاس کا تعارف کروایا ہے۔
کیا یہ شخص نجات پائے گا یاہلاک ہو جائے گا؟ امام نےارشاد فرمایا :
إِنْ مَاتَ هَذَا مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً ؛
اگر یہ اس حال میں مرے گا تو جاہلیت کی موت مرے گا۔ صرف ہماری امامت کا اعتقاد کافی نہیں بلکہ ہمیں امام سمجھے اور ہماری امامت میں لوگوں کےمشورے قبول نہ کرے۔ اسی لئے رسول اکرم(ص) نےعمار یاسر سےارشاد فرمایا:
فَإِنْ سَلَكَ النَّاسُ كُلُّهُمْ وَادِياً وَ سَلَكَ علی وَادِياً فَاسْلُكْ وَادِيَ علی وَ خَلِّ عَنِ النَّاس؛
بحار، ج ۳۳ ، ص ۳۵۲ ۔
اگر تمام انسان ایک طرف جائیں اور اکیلا امام علی دوسری طرف جائے تو امام علی کی پیروی کرنا اور تمام انسانوں کی پیروی نہ کرنا کیونکہ حق وہاں ہےجہاں علی ہیں۔اسی طرح ایک اور روایت میں رسول اکرم(ص) نےارشاد فرمایا:
علی مَعَ الْحَقِّ وَ الْحَقُّ مَعَ علی يَدُورُ حَيْثُمَا دَارَ ؛
بحار، ج ۱۰ ، ص ۴۳۲ ۔
علی حق کےساتھ ہےاورحق علی کےساتھ ہےاورجہاں علی جاتےہیں وہاں انکےپیچھےحق جاتاہے۔
چودہویں مجلس
اہلبیت اور کائنات کی تربیت
اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:
(
الرَّحْمَـٰنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ خَلَقَ الْإِنسَانَ
)
وہ خدا بڑا مہربان ہےاس نےقرآن کی تعلیم دی ہےانسان کو پیدا کیا ہے۔
امیر المومنین فرماتے ہیں:
فَإِنَّا صَنَائِعُ رَبِّنَا وَ النَّاسُ بَعْدُ صَنَائِعُ لَنَا
۔
ائمہ معصومین اللہ تعالی کا دروازہ ہیں اس کی ایک دلیل یہ ہےکہ آپ کےہاتھ میں کائنات کی تربیت ہے۔ حضرت علی (ع)اس بارے میں فرماتے ہیں کہ :
ُ فَإِنَّا صَنَائِعُ رَبِّنَا وَ النَّاسُ بَعْدُ صَنَائِعُ لَنَا؛
نہج البلاغہ، مکتوب ۲۸ ۔
ہم اللہ تعالی کےبنائے ہوئے ہیں اور انسان ہمارے بنائے ہوئے ہیں۔ اس جملے کی دو معنی ممکن ہیں۔پہلی معنی : اللہ تعالی نےرسول اکرم(ص)، امیرالمومنین (ع) اور ائمہ معصومین کو اپنےخاص نور سےخلق فرمایا ہےلیکن باقی مخلوقات کو ائمہ معصومین کےنور سےپیدا کیا ہے۔ نمونہ کےطور پر یہ حدیث پیش ہے: اللہ تعالی نےجنت اور حور کو حضرت حسین کےنور سےپیدا کیا ہے۔ اللہ تعالی نےچاند اور سورج کو حضرت حسن کےنور سےپیدا کیا ہے۔ اللہ تعالی نےجبرئیل کو اور تمام ملائکہ کو حضرت علی (ع)کےنور سےپیدا کیا ہے۔ اللہ تعالی نےزمین کو حضرت زہرا کےنور سےپیدا کیا ہے۔
بحار، ج ۲۵ ، ص ۱۷ ۔
ایک معنی: اب خالق تو اللہ تعالی ہےلیکن ائمہ معصومین بھی اس خلقت کو اپنی طرف نسبت دے سکتے ہیں اور کہہ سکتے ہیں تمہیں ہمارے نورسےبنایاگیاہے۔
دوسری معنی : نہج البلاغہ پر شرح لکھنےوالوں میں سےاکثر نےاس معنی کو قبول کیا ہے۔وہ معنی یہ ہےحضرت علی (ع)فرمانا چاہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالی کےتربیت یافتہ ہیں اور انسان ہمارے تربیت یافتہ ہیں یعنی آدم، ابراہیم، موسی، عیسی اور تمام انبیاء اور اولیاء ہمارے تربیت یافتہ ہیں کیونکہ جتنی بھی ان کی تربیت ہوئی ہے، کوئی فیض پہنچا ہے، اس کا واسطہ، علم کا واسطہ، توفیق کا واسطہ، عبادت کا واسطہ، ہم اہلبیت ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہےکہ : کیا ائمہ معصومین مجھے اور آپ کو شیطان اور نفس امارہ سےنجات دے سکتے ہیں ؟ اس کا جواب ہاں میں ہے۔ ہم سوچیں ہماری نماز روزے ہمیں ہمارے نفس اور شیطان سےبچائیں گے یہ درست نہ؛یں کیونکہ عبادت کی کچھ مدت بعد انسان اپنی عبادت سےخوش ہوجاتا ہےاور فرعون کی طرح خدا ہونےکا دعوی کرتا ہے۔
مرحوم آیت اللہ شیخ محمد کوہستانی سےسوال کیا گیا: نفس امارہ کیا چیز ہے؟ انہوں نےجواب دیا ایک بندہ بیس ۲۰ سال تک خیال کرتا رہا کہ وہ اللہ تعالی کی عبادت کرتا ہےاس کےبعد اللہ تعالی نےاسےمتوجہ کیا کہ وہ اللہ تعالی کی عبادت نہیں کررہا تھا بلکہ اس کا نفس دو حصوں میں تقسیم ہو گیا تھا۔ایک حصہ خدا بن کر حکم دے رہا تھا اور دوسرا اس کی عبادت کر رہا تھااور اس کےحکم کو مان رہا تھا۔یہ قصہ بیس سال چلتا رہا اور وہ سمجھتا رہا کہ وہ اللہ تعالی کو مان رہا ہےاور بیس سال بعد پتا چلا کہ وہ اللہ تعالی کو نہیں مان رہا۔ مرحوم آیت اللہ شیخ محمدجواد انصاری ہمدانی نےبھی فرمایا تھا: ایک مرتبہ میں نے ۳۶۰ مرتبہ یااللہ کہہ کہ پکارا اورجب بھی میں یا اللہ پکارتا تھا ہر بار صداآتی تھی لبیک میرے بندے کیا کہنا چاہتے ہو؟ بعدمیں اللہ تعالی کےکرم سےمیں نےجانا کہ ۳۶۰ مرتبہ مجھے شیطان نےلبیک کہا تھا اور جواب دیا تھا۔
شرح زیارت جامعہ ، حسین گنجی، ج ۲ ، ص ۱۵۷ ۔
نوف بکالی فرماتے ہیں : میں نےرات کےاندھیرے میں امیرالمومنین (ع) کو کہیں جاتے دیکھا۔میں نےامیرالمومنین (ع) کےپاس جا کرعرض کیا: شیطانی وسوسےمجھے تنگ کرتے ہیں ؟ حضرت نےفرمایا:
أَعْرِضْ عَنِ النَّازِلَةِ فِي قَلْبِك؛
بحار، ج ۹۱ ، ص ۹۴ ۔
ان خیالات کو اپنےذہن اور دل سےنکال دو یعنی استغفار کرو۔ اس کےبعد حضرت نےفرمایا : اس کام کی خود میں عادت ڈالو اور اسےانجام دو
فَأَنَا الضَّامِنُ مِنْ مَوْرِدِهَا؛
میں ان خیالات او وسوسوں کےآنےکا ضامن ہوں۔ یعنی میں تمہارے لئے نفس امارہ اور شیطان کےسامنےڈھال بن جاؤں گا۔ اسلئے جو چاہتاہےنفس امارہ سےنجات حاصل کرے اسےچاہیے حضرت علی (ع)کو واسطہ قرار دے۔
اگر کسی ذرے پہ امام علی کا لطف ہو جائے وہ آسمان پر جاکر سورج کا کام کرے۔
ایک ولی خدا ارشاد فرماتے ہیں: میں نجف میں مشغول زیارت تھا مجھے عالم مکاشفہ اور عالم معنوی میں حضرت کی زیارت نصیب ہوئی حضرت نےفرمایا : اے فلان! ہمارا دست عنایت تم پر ہےورنہ تم بھی خیبر کےمرحب سےکم نہیں۔ اگرتم پر ہمارا کرم نہ ہوتا تم بھی مرحب بن کر ہماری جنگ کو آتے۔
معصومین کی الہی تربیت
اللہ تعالی نےمعصومین کی تربیت کیسےکی ہے؟ ہم یہاں دو نمونےذکر کرتے ہیں :
امام حسن مجتبی کو ان کی کنیز نےتحفے میں گلاب کےپھول پیش کئے تو حضرت نےفرمایا:
أَنْتِ حُرَّةٌ لِوَجْهِ اللَّه؛
بحار، ج ۲۴ ، ص ۱۹۵ ۔
تم اللہ تعالی کی خوشنودی کےخاطر آزاد ہو۔ جو لوگ بخیل تھے انہیں بہت زیادہ تعجب ہوا کہ ایک گلاب کےپھول کےبدلے میں کنیز کو آزادکردیا؟حضرت نےجواب میں فرمایا :
کذَا أَدَّبنَا اللَّه؛
ہماری اللہ تعالی نےاس طرح تربیت کی ہے۔
ایک ناصبی پر حضرت علی (ع)کی عنایت
ایک سنی ناصبی اور ایک شیعہ ایک دوسرے کےہمسائے تھے۔ ناصبی، شیعہ کو بہت تنگ کرتا تھا۔ ناصبی اس کی اور حضرت علی (ع)کی بہت توہین کرتا تھا ۔ شیعہ، ناصبی سےکہتا تھا مجھے تنگ نہ کرو ورنہ میں اپنےمولاحضرت علی (ع)سےتمہاری شکایت کروں گا۔ ناصبی بھی کہتا تھا : جاؤ شکایت کرو تیرا مولا کیا کر سکتا ہے؟ شیعہ جب بھی دعا کرتا کوئی جواب نہیں آتا یہاں تک کہ ایک دن ناصبی نےشیعہ کو بہت تنگ کیا اور کہا دیکھا تیرا مولا کچھ نہیں کر سکتا؟ شیعہ بھی روتا ہوا امام کےحرم میں حاضر ہوا اور فریاد کرنےلگا : مولا میں برداشت کر کےبہت تھک گیا ہوں کیوں کچھ نہیں کرتے؟کیا آپ نہیں دیکھ رہےکہ وہ آپ کی کتنی توہین کرتا ہے؟ وہ فریاد کر کےحرم سےباہر آیا رات کو سویا خواب میں امام علی کی زیارت نصیب ہوئی امام نےفرمایا : یہاں آؤ اسےمعاف کردو ہم سےاسکی شکایت نہ کرو ۔ اس شخص نےکہا مولا اس نےمجھے بہت تنگ کیا ہےاور آپ کی بہت توہین کی ہے۔ حضرت علی (ع)نےفرمایا سب سچ ہےپر اس کا میری گردن پہ ایک حق ہےکیونکہ وہ ایک بار گھوڑے پر سوار جا رہا تھا کہ اس کی نظر میرے روضے پہ پڑی وہ میرے روضے کےاحترام میں گھوڑے سےاترا اور پیدل چلنےلگا اس لئے اس کا میری گردن پر ایک حق ہے۔
صبح جب وہ خواب سےبیدار ہوا تو ناصبی نےاس کو پھر تنگ کیا اور کہا جاؤ میری شکایت کرو۔ شیعہ نےجواب دیا : جتنا چاہےتنگ کرواب میں کسی سےشکایت نہ کروں گا ۔ ناصبی نےکہا : کیوں؟ شیعہ نےجواب دیا : میں نےخواب میں دیکھا ہےحضرت علی (ع)یہ فرمارہےتھے۔ ناصبی نےکہا : میں تو اکیلا تھا اس واقعہ کی کسی کو خبر نہیں۔ کیا ممکن ہےمیرے ایک بار احترام کرنےکی وجہ سےکوئی اتنا برداشت کرے اور ایسا سلوک کرے؟ اور اس کےبعد اس نےبلا فاصلہ کہا : اے امیرالمومنین (ع) مجھ سےغلطی ہوگئی ہےمجھے معاف کردو میں جاہل تھا اس بات کو سمجھ نہ پایا۔ اور وہ شیعہ ہوگیا۔
کیا یہ سب اس بات کی نشانیاں نہیں کہ ائمہ معصومین اللہ تعالی کےتربیت یافتہ ہیں؟ ایک گلاب کےپھول کےبدلے اور ایک بار احترام کےبدلے ایسا سلوک کرنا؟ !لیکن حضرت علی (ع) نےخود فرمایا : رسول ا کرم کو اللہ تعالی نےادب سکھایا ہےاور مجھے رسول اکرم(ص) نےادب سکھایا ہےاور میں مومنوں کو ادب سکھانےوالا ہوں۔ یعنی اس پوری کائنات میں کوئی ایسا نہیں جس نےواسطہ کےساتھ یا بلاواسطہ ولایت سےتربیت نہ پائی ہو ۔
پوری کائنات کی تربیت
حقیقت میں اللہ تعالی نےاپنی تمام صفات ائمہ معصومین کو دے دی ہیں اورپوری کائنات کی تربیت ائمہ معصومین کےہاتھ میں ہےتمام کائنات پر ولایت مطلقہ ائمہ معصومین کی ہےاور پوری کائنات کےمربی ائمہ معصومین ہیں۔ کیا ہم زیارت آل یاسین میں نہیں پڑہتے؟
السَّلَامُ علیكَ يَا رَبَّانِيَّ آيَاتِه؛
سلام ہو آپ پہ! اے اللہ کی آیات کی تربیت کرنےوالے۔ کیونکہ تمام چیزیں اللہ تعالی کی آیتیں ہیں۔ امام زمانہ بھی کائنات کےمربی ہیں۔
مرحوم شیخ رجب علی خیاط فرماتے ہیں : جب میں بیمار تھااور میں نےدوا کی ضرورت محسوس کی میں نےجب بھی دوائی استعمال کی دوائی کی آواز آئی :اے اباالحسن ! کیا مجھے اجازت ہےکہ میں رجب علی پر اثر کروں؟ میں متوجہ ہوا کہ دوائی بھی امام زمانہ کےحکم سےاثر کرتی ہے۔
حقیقت میں شفا دینےوالا اہلبیت کا نام اور ذکر ہےاسی طرح حضرت علی (ع)ارشاد فرماتے ہیں :
ذِكْرُنَا أَهْلَ الْبَيْتِ شِفَاءٌ مِنَ الْوَعْكِ وَ الْأَسْقَامِ وَ وَسْوَاسِ الرَّيْب؛
بحار، ج ۲ ، ص ۱۴۵ ۔
بخار، بیماری، وسوسے، شک اور تردید سےہم اہلبیت کی یاد شفا ہے۔
ایک اور روایت میں امام صادق (ع) ارشاد فرماتے ہیں :
خَلَقَ اللَّهُ الْمَشِيَّةَ بِنَفْسِهَا ثُمَّ خَلَقَ الْأَشْيَاءَ بِالْمَشِيَّةِ؛
کافی، ج ۱ ، ص ۱۱۰
اللہ تعالی نےخودمشیئت کو پیدا کیا اور انسان کو، جنات کو، فرشتوں کو اور پوری کائنات کو اللہ تعالی نےمشیئت کےذریعے پیدا کیا اور حضرت نےفرمایا وہ مشیئت ہم ہیں۔
مجمع النورین، ص ۲۱۵ ۔
اللہ تعالی نےخود بے واسطہ ہم ائمہ معصومین (ع)کو پیدا کیا اگر ہم نہ ہوتے اللہ تعالی کسی چیزکو پیدا نہ کرتا۔
رسول اکرم(ص)نےحضرت علی (ع)سےفرمایا:
لَوْ لَا نَحْنُ مَا خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ وَ لَا حَوَّاءَ وَ لَا الْجَنَّةَ وَ لَا النَّارَ وَ لَا السَّمَاءَ وَ لَا الْأَرْض؛
کمال الدین، ص ۲۵۴ ۔
اگر ہم نہ ہوتے اللہ تعالی آدم، حوا، جنت، دوزخ، آسمان، زمین کسی چیز کو نہ بناتا۔