فضائل اہلبیت علیہم السلام زیارت جامعہ کبیرہ کی روشنی میں

فضائل اہلبیت علیہم السلام زیارت جامعہ کبیرہ کی روشنی میں0%

فضائل اہلبیت علیہم السلام زیارت جامعہ کبیرہ کی روشنی میں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

فضائل اہلبیت علیہم السلام زیارت جامعہ کبیرہ کی روشنی میں

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: استاد شیخ حسین گنجی
زمرہ جات: مشاہدے: 13352
ڈاؤنلوڈ: 3699

تبصرے:

فضائل اہلبیت علیہم السلام زیارت جامعہ کبیرہ کی روشنی میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 17 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 13352 / ڈاؤنلوڈ: 3699
سائز سائز سائز
فضائل اہلبیت علیہم السلام زیارت جامعہ کبیرہ کی روشنی میں

فضائل اہلبیت علیہم السلام زیارت جامعہ کبیرہ کی روشنی میں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

پندرہویں مجلس

تمام کائنات سےولایت کا سوال

اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتَابِ لَدَيْنَا لَعلی حَكِيمٌ )

سورہ زخرف، آیت ۴ ۔

اوریہ ہمارے پاس لوح محفوظ میں نہایت درجہ بلنداور اَپرازحکمت کتاب ہے۔امام علی النقی زیارت جامعہ میں ارشادفرماتےہیں:

آتَاكُمُ اللَّهُ مَا لَمْ يُؤْتِ أَحَدا مِنَ الْعَالَمِينَ

خدا نےآپ کو وہ مقام عطا کیا ہےجو عالمین میں سےکسی کو عطا نہیں کیا۔

یعنی اللہ تعالی نےجو چیز ائمہ معصومین کو دی ہےوہ کسی نبی، کسی ملائکہ، کسی انسان کو نہیں دی۔ ممکن ہےہم کہیں جو چیزیں اللہ تعالی نےتمام انبیاء، تمام ملائکہ، تمام اولیاء، تمام انسانوں کو الگ الگ دی ہیں وہ تمام چیزیں اللہ تعالی نےآپ کو ایک ساتھ دی ہیں۔ اس لئے رسول اکرم(ص) نےارشاد فرمایا :

مَنْ أَرَادَ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى آدَمَ فِي عِلْمِهِ وَ إِلَى نُوحٍ فِي فَهْمِهِ وَ إِلَى يَحْيَى بْنِ زَكَرِيَّا فِي زُهْدِهِ وَ إِلَى مُوسَى بْنِ عِمْرَانَ فِي بَطْشِهِ فَلْيَنْظُرْ إِلَى علی بْنِ أَبِي طَالِب‏؛

بحار، ج ۳۹ ، ص ۳۹ ۔

جوبھی آدم کوعلم کےساتھ، نوح کوحلم کےساتھ، یحیی کوزہد کےساتھ، موسی کوغضب کےساتھ،ابراہیم کوحکمت کےساتھ،عیسی کو عبادت کےساتھ دیکھنا چاہتا ہےاسےچاہیے وہ امیرالمومنین (ع) کو دیکھے۔ یعنی حضرت علی (ع)تنہا ان تمام انبیاء کےکمالات رکھتے ہیں۔ یہ تو اہلبیت کےفضائل پر ایک نظر ہے۔ زیارت جامعہ میں اس طریقے سےبیان ہوئے ہیں:

وَ عِنْدَكُمْ مَا نَزَلَتْ بِهِ رُسُلُهُ وَ هَبَطَتْ بِهِ مَلائِكَتُهُ

اور آپ کےپاس وہ سب کچھ ہےجسےخدا کےنمائندے لائے یا ملائکہ لے کر نازل ہوئے ہیں۔

یعنی جو چیزین اللہ تعالی نےتمام انبیاء، تمام ملائکہ، تمام اولیاء، تمام انسانوں پر ابتدائے خلق سےلے کر رسول اکرم(ص) کےزمانےتک نازل فرمائیں وہ تمام چیزیں ہر امام معصوم کےپاس ہیں۔زیارت جامعہ کی اس عبارت کےمطابق تمام انبیاء، تمام ملائکہ، تمام اولیاء، تمام انسانوں کےفضائل ملاکر ائمہ معصومین کےفضائل کےساتھ مساوی اور برابر ہیں لیکن ائمہ معصومین کےلئے کچھ اور فضائل بھی ہیں جو کسی اور میں نہیں یعنی ہر امام معصوم میں وہ تمام چیزیں ہیں جو تمام انبیاء میں ہیں اور اس سےبڑھ کر کچھ چیزیں بھی ہیں جو کسی اور میں نہیں۔

آتَاكُمُ اللَّهُ مَا لَمْ يُؤْتِ أَحَدا مِنَ الْعَالَمِينَ

خدا نےآپ کو وہ مقام عطا کیا ہےجو عالمین میں سےکسی کو عطا نہیں کیا۔

یعنی اللہ تعالی نےآپ کو وہ چیزیں عنایت فرمائیں جو آپ کےعلاوہ پورے جہان میں سےکسی کےپاس نہیں چاہےانبیاء ہوں یا غیر انبیاء۔

عالم ذرمیں ولایت

اللہ تعالی نےجوکچھ ائمہ معصومین کو عطا فرمایا ان میں سےایک چیز، تمام کائنات پر ائمہ معصومیں کی ولایت اور ان پر ایمان کو فرض کرناہےچاہےجن ہوں یا انسان، نباتات ہوں یا جمادات۔حقیقت میں پوری کائنات میں ایسی کوئی چیز نہیں جس پر اللہ تعالی نےائمہ معصومین کی ولایت اوردوستی فرض نہ کی ہو۔ قرآن کریم میں ایک آیت ہےجسکا نام آیت ذر ہے۔ اللہ تعالی اس آیت میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَىٰ شَهِدْنَا )

سورہ اعراف، آیت ۱۷۲ ۔

اورجب تمھارےپروردگارنےفرزندان آدم علیہ السّلام کی پشتوں سےانکی ذرّیت کولےکرانھیں خود انکےاوپرگواہ بناکرسوال کیاکہ کیامیں تمھارا خدا نہیں ہوں تو سب نےکہا بیشک ہم اس کےگواہ ہیں۔

اس عالم کو عالم ذر کہتے ہیں کیونکہ اللہ تعالی نےجب حضرت آدم کوپیدا کیا تو اس کی اولاد اور ذریت کو ذرات کی صورت میں آدم کےصلب میں قرار دیا اس کےبعد ان ذرات کو صلب آدم سےباہر نکالا اور انہیں قوت فہم اور ادراک بخشی اور قوت فیصلہ دے کر ان سب کا وہان امتحان لیا۔ زیارت حضرت زہرا میں بھی اس عالم ذر کی طرف اشارہ ہوا ہے:

السَّلَامُ علیكِ يَا مُمْتَحَنَةُ امْتَحَنَكِ الَّذِي خَلَقَكِ فَوَجَدَكِ لِمَا امْتَحَنَكِ صَابِرَةً؛

مفاتیح زیارت حضرت زھراء۔

سلام ہو آپ پر اے آزمائش شدہ بیبی آپ کا اس اللہ نےامتحان لیا جس نےآپ کو پیدا کیا اس نےآپ کو آپ کی خلقت سےپہلے ہی صابرہ پایا۔

خلقت سےپہلے حضرت زہرا کس عالم میں خالص تھی ؟یہاں مقصود وہی عالم ذر اور خلقت نورانی ہےکہ جہاں اللہ تعالی نےحضرت زہرا کا اپنےلئے انتخاب فرمایا۔ دوسو ۲۰۰ سےزیادہ روایات عالم ذر کےبارے میں موجود ہیں جن میں اشارہ ہوا ہےکہ الست بربکم کےعلاوہ دو سوال اور پوچھے گئے یعنی کل تین سوال پوچھے گئے چوتھا کوئی سوال نہیں تھا۔ اللہ تعالی نےحضرت آدم اور تمام اولاد آدم سےیہ تین سوال پوچھے ۔

پہلا سوال:الست بربکم ؛ کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟

دوسرا سوال :ا لیس محمد نبیکم ؛ کیا حضرت محمد تمہارے نبی نہیں ہیں؟

تیسرا سوال :الیس علی و الائمة المعصومون ائمتکم ؛

کیا حضرت علی (ع)اور ائمہ معصومین تمہارے امام نہیں ہیں؟

تفسیر فرات، ص ۱۴۷

سب سےبہترین جواب نبیوں نےدیا باقی کسی نےایک سوال کا جواب دیا کسی نےدو سوالوں کےجواب دیے لیکن شیعہ اور اہلبیت کےمحبوں نےتینوںسوالوں کےٹھیک ٹھیک جواب دیے ۔ انہوں نےتیسرے سوال کا جواب بھی دیا اور ائمہ معصومین کی ولایت کو قبول کیا۔یہ تو ایک نمونہ ہےجس سےپتا چلتا ہےکہ کس طرح اللہ تعالی نےائمہ معصومین کی ولایت کو تمام موجودات پر پیش کیا۔

انبیاء کا وعدہ

ایک اور آیت میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

( وَاسْأَلْ مَنْ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رُّسُلِنَا )

سورہ زخرف، آیہ ۴۵ ۔

اور آپ ان رسولوں سےسوال کریں جنہیں آپ سےپہلے بھیجا گیا ہے۔

یعنی اےرسول اکرم(ص) آپ تمام نبیوں سےسوال کرو اور پوچھو ان کو کیوں بھیجا گیا؟

روایات میں اس آیت کا شان نزول اس انداز سےبیان ہوا ہےجب رسول اکرم(ص) معراج پہ گئے وہاں تمام انبیاء نےرسول اکرم(ص) کا استقبال کیااور تمام انبیاء نےآپ کی اقتداء میں نماز ادا کی اس موقعے پر آواز قدرت آئی: اے پیمبر تمام نبیوں سےسوال کرو اور پوچھو ان کو کس بنیاد پر نبی بنایا گیا؟سب نےایک آواز ہو کہ کہا :

بُعِثْنَا عَلَى شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَ الْإِقْرَارِ بِنُبُوَّتِكَ وَ عَلَى الْوَلَايَةِ لِعلی بْنِ أَبِي طَالِبٍ ع؛

شواہد التنزیل، ج ۲ ، ص ۲۲۴ ۔

اللہ تعالی نےہم پیغمبروں کو تین چیزوں کی وجہ سےنبی بنایا ہےپہلا توحید کی گواہی، دوسرا تمہاری نبوت اور رسالت کا اقرار، تیسرا حضرت علی (ع)کی ولایت اور امامت ۔ اللہ تعالی نےعالم ذر میں تمام انبیاء سےولایت کےعہد اور پیمان کےبعد ہمیں دنیا میں نبی اور رسول بنا کےبھیجا اور اس کےبعد بھی فرمایا : میں تمہیں مبعوث کرتا ہوں تاکہ اپنی اپنی امتوں میں رسول اکرم(ص) اور امیرالمومنین (ع) کی پہچان کرواؤ۔

بہت ساری روایات میں آیا ہےکہ حضرت علی (ع)کی امامت اور ولایت سابقہ نبیوں اور سابقہ امتوں میں رائج تھی یعنی حضرت علی (ع)ابتدا سےانتھا تک سب پر ولایت رکھتے ہیں۔

ولایت کےتوسل سےبارش کی درخواست

ہم نمونےکےطورپرایک واقعہ ذکرکرتےہیں: جب حضرت موسی نےاللہ تعالی سےپانی کا سوال کیا اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَإِذِ اسْتَسْقَىٰ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ ) ۔

سورہ بقرہ، آیت ۶۰ ۔

اور اس موقع کو یاد کرو جب موسٰی علیہ السّلام نےاپنی قوم کےلئے پانی کا مطالبہ کیا۔

یعنی جب حضرت موسی نےاللہ تعالی سےپانی کا سوال کیا تو اللہ تعالی نےجواب میں فرمایا : اے موسی لوگوں کو جمع کر اور بیاباں میں لے جا۔ حضرت موسی نےاس کام کو انجام دیا اور اللہ تعالی کی بارگاہ میں التجا کی :

فَقَالَ مُوسَى إِلَهِي بِحَقِّ مُحَمَّدٍ سَيِّدِ الْأَنْبِيَاءِ وَ بِحَقِّ علی سَيِّدِ الْأَوْصِيَاءِ وَ بِحَقِّ فَاطِمَةَ سَيِّدَةِ النِّسَاءِ وَ بِحَقِّ الْحَسَنِ سَيِّدِ الْأَوْلِيَاءِ وَ بِحَقِّ الْحُسَيْنِ سَيِّدِ الشُّهَدَاءِ وَ بِحَقِّ عِتْرَتِهِمْ وَ خُلَفَائِهِمْ سَادَةِ الْأَزْكِيَاءِ لَمَّا سَقَيْتَ عِبَادَكَ هَؤُلَاء؛

مستدرک، ج ۵ ، ص ۲۳۶ ۔

یعنی پروردگارا تمہیں رسول اکرم(ص)، حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن، حضرت حسین کا واسطہ ہمیں سیراب فرما۔ اس عبارت سےپتا چلتا ہےکہ تمام انبیاء کا وظیفہ اپنی امتوں میں ائمہ معصومین کی پہچان کروانا تھا اور مشکلات میں ان سےمدد طلب کرناتھا اگر پہچان نہ کروائی ہوتی تو انکی قوم ان سےضرور سوال کرتی : اللہ تعالی کوجن ہستیوں کا واسطہ دے رہےہو یہ کون ہیں؟

عبادت، ولایت کا مقدمہ ہے

یہاں سوال پیدا ہوتا ہےکہ عالم ذر میں نماز، روزہ، حج، خمس اور اس کےعلاوہ دسیوں فروع دین کا ذکر کیوں نہیں؟اس کا جواب یہ ہےکہ انبیاء کا مقصد صرف توحید، رسول اکرم(ص) کی نبوت، اہلبیت کی ولایت کی معرفت کروانا ہے۔ لیکن ان تین چیزوں کی بقا ء اور حفاظت کیلئے ایک قانون کےمجموعے کی ضررت ہے۔ وہ قانون نماز، روزہ، حج، خمس اور باقی فروع دین ہے۔

اگر اللہ تعالی مجھ سےکہےتم پر مکہ جانا واجب ہےتو ہوائی جہاز کی ٹکٹ لینا اور ہوائی جہاز میں سفر کرنا بھی واجب ہوگا کیونکہ مکہ تک پہنچنےکیلئے یہ مقدمات انجام دینا ضروری ہیں۔

اسی طرح اصلی واجب تین چیزیں ہیں توحید، نبوت، ولایت ۔ لیکن ا ن تین چیزوں تک پہنچے کیلئے اور پہنچنےکےبعد ان کی حفاظت کیلئے اوران میں اور زیادہ مضبوط ہونےکیلئے فروع دین اور عبادت کی ضرورت ہے۔

اس بنا پرتمام عبادات اور اخلاقی مسائل کا فلسفہ ولایت تک پہنچنا ہے۔ اگر علی کی ولایت کسی کےپاس نہیں اس کےتمام اعمال اور عبادات باطل ہیں۔ اس طرح ہیں جیسےجل کر خاک ہوگئے ہوں اور ہوا میں اڑ گئے ہوں ۔اس کا فلسفہ بھی روشن ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی فرماتا ہے: اصلی واجب تین چیزیں ہیں توحید، نبوت، ولایت باقی تمام اعمال ا ن تین چیزوں کیلئے مقدمہ ہیں۔ اگر تمہارے پاس ولایت نہیں ہوگی تمہارے اعمال کس کام کے؟ تمہارے اعمال کا بھی کوئی فائدہ نہیں، وہ باطل ہیں اگر ولایت نہ ہوتی تو اللہ تعالی نماز، روزہ اور دوسرے اعمال واجب نہ کرتا۔

امام صادق (ع) ایک روایت میں ارشاد فرماتے ہیں :

نَحْنُ الصَّلَاةُ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ نَحْنُ الزَّكَاةُ وَ نَحْنُ الصِّيَامُ وَ نَحْنُ الْحَجُّ وَ نَحْنُ الشَّهْرُ الْحَرَامُ وَ نَحْنُ الْبَلَدُ الْحَرَامُ وَ نَحْنُ كَعْبَةُ اللَّهِ وَ نَحْنُ قِبْلَةُ اللَّهِ وَ نَحْنُ وَجْهُ اللَّهِ وَ نَحْنُ الْآيَاتُ وَ نَحْنُ الْبَيِّنَات؛

بحار، ج ۲۴ ، ص ۳۰۳ ۔

قرآن میں نماز سےمراد ہم ہیں، زکات ہم ہیں، روزہ ہم ہیں، حج ہم ہیں، عزت والے مہینےہم ہیں، کعبہ ہم ہیں، قبلہ ہم ہیں، اللہ کا چہرہ ہم ہیں، اللہ تعالی کی آیتیں ہم ہیں، اللہ تعالی کی روشن نشانیاں ہم ہیں۔

یعنی اللہ تعالی نےاحکام اور عبادات کیلئے ایک ویٹامن رکھا ہےاگر وہ ویٹامن حاصل نہ ہوا تو ان احکام اور عبادات کا کوئی فائدہ نہیں اور وہ ویٹامن ولایت ہے۔

سولہویں مجلس

سابقہ امتوں میں علی کی ولایت

اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ ۔)

سورہ حجر، آیہ ۸۷ ۔

اور ہم نےآپ کو سبع مثانی اور قرآن عظیم عطا کیا ہے۔

امام علی نقی زیارت جامعہ میں ارشاد فرماتے ہیں :

آتَاكُمُ اللَّهُ مَا لَمْ يُؤْتِ أَحَدا مِنَ الْعَالَمِينَ

خدا نےآپ کو وہ مقام عطا کیا ہےجو عالمین میں سےکسی کو عطا نہیں کیا۔

سب سےپہلی بات جواللہ تعالی نےائمہ معصومین کو عنایت فرمائی وہ اللہ تعالی کےعلاوہ تمام موجودات پر ان کی ولایت کو پیش کرنا ہے۔

ساتویں امام حضرت موسی کاظم ایک روایت میں ارشاد فرماتے ہیں :

وَلَايَةُ علی مَكْتُوبَةٌ فِي جَمِيعِ صُحُفِ الْأَنْبِيَاءِ وَ لَنْ يَبْعَثَ اللَّهُ نَبِيّاً إِلَّا بِنُبُوَّةِ مُحَمَّدٍ وَ وَصِيَّةِ علی صَلَوَاتُ اللَّهِ علیهمَا ؛

کافی، ج ۱ ، ص ۴۳۷ ۔

اللہ تعالی نےامیرالمومنین (ع) کی ولایت مطلقہ کو تمام کتابوں اور تمام ا نبیا کےصحیفوں میں لکھ دیا ہےاور اللہ تعالی نےکسی نبی کو مقرر نہیں فرمایا مگر ولایت رسول اکرم(ص) اور ولایت وصی رسول اکرم(ص) حضرت علی (ع)پر۔

حضرت علی(ع)کا نام قرآن میں

ہم یہاں ایک نکتہ کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں: اس حدیث اور اس جیسی سیکڑوں حدیثوں کا مطلب یہ ہےکہ عبری، سریانی اور دوسری زبانوں میں امام علی کا نام اور تذکرہ تمام آسمانی کتابوں میں آیا ہےاب سوال یہ ہےکہ کیا قرآن میں امام علی کا نام اور تذکرہ آیا ہے؟ ہم کچھ جگہوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جہاں قرآن میں امام علی کانام موجود ہے:

۱ ۔ اللہ تعالی نےقرآن میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتَابِ لَدَيْنَا لَعلی حَكِيمٌ )

سورہ زخرف، آیت ۴ ۔

اور یہ ہمارے پاس لوح محفوظ میں نہایت درجہ بلند اور اَپراز حکمت کتاب ہے۔ یعنی بتحقیق جسکا نام ام الکتاب میں یعنی سورہ حمد میں آیا ہےہمارے نزدیک علی صاحب حکمت ہے۔حدیث میں آیا ہےکہ لعلی حکیم سےمراد امیرالمومنین (ع) ہیں کیونکہ سورہ حمد میں صراط مستقیم سےمراد بھی امیرالمومنین (ع) ہیں

معانی الاخبار، ص ۳۲ ۔

ہم دعائے ندبہ میں امام زمانہ کےبارے میں پڑہتے ہیں :

يَا ابْنَ مَنْ هُوَ فِي أُمِّ الْكِتَابِ لَدَى اللَّهِ علی حَكِيم‏؛

اس کےفرزند جو ام الکتاب آیا ہےہمارے نزدیک علی صاحب حکمت ہے۔

۲ ۔ دوسری جگہ جہاں قرآن میں حضرت علی (ع)کا نام آیا ہے۔ اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتاہے:

( قَالَ هَـٰذَا صِرَاطٌ علی مُسْتَقِيمٌ )

سورہ حجر، آیت ۴۱ ۔

ارشاد ہوا کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے۔یعنی یہ میرا رستہ اور یہ میرا رہبرمستقیم ہیں ۔ حدیث میں آیا ہےکہ

صِرَاطٌ علی مُسْتَقِيمٌ

اس آیت سےمراد بھی امیرالمومنین (ع) ہیں۔

نور الثقلین، ج ۳ ، ص ۱۵ ؛ بحار، ج ۳۵ ، ص ۳۶۳ ۔

مرحوم آیت اللہ نجابت شیرازی جب اس آیت پہ پہنچتے تو مسکرانا شروع کرتے اور فرماتے :اس جگہ ادبیات کےلحاظ سےعلی زبر کےساتھ بلکل مناسب نہیں یہان علی مولا کا نام ہونا چاہیے کیونکہ دوسری آیتوں میں مناسبت پائی جاتی ہے۔

( وَ أَنَّ هذا صِراطي‏ مُسْتَقيماً فَاتَّبِعُوه )

سورہ انعام، آیت۱۵۳.

حدیث کےمطابق اس آیت میں صراط مستقیم سےمراد بھی امیرالمومنین (ع) ہیں۔

نور الثقلین، ج ۱ ، ص ۷۷۹ ؛ بحار، ج ۳۵ ، ص ۳۷۱ ۔

۳ ۔ تیسری جگہ جہاں قرآن میں حضرت علی (ع)کا نام آیا ہے۔ اللہ تعالی قرآن میں سورہ یاسین میں ارشاد فرماتاہے:

( إِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ عَلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ )

سورہ یس، آیت تا ۳ ۔

آپ مرسلین میں سےہیں بالکل سیدھے راستے پر ہیں۔یعنی یہاں ہم علی پڑہتے ہیں او رہےبھی علی لیکن حدیث میں آیا ہےکہ علی صراط مستقیم اس آیت سےمراد بھی امیرالمومنین (ع) ہیں یعنی علی صراط مستقیم ہے

کافی، ج ۱ ، ص ۴۱۷ ۔

ان توضیحات کےبعد کوئی کیسےکہ سکتا ہےکہ دوسری تمام آسمانی کتابوں میں علی کا نام اور تذکرہ ہےلیکن قرآن میں علی کا نام اور تذکرہ نہیں؟ بلکہ سوال یہ ہونا چاہیے کہ قرآن کس مقصد کیلیے نازل ہوا ہے؟قرآن خود جواب دیتا ہےکہ :

( انَّ هَـٰذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ )

سورہ اسرا، آیت ۹ ۔

بیشک یہ قرآن اس راستہ کی ہدایت کرتا ہےجو بالکل سیدھا ہے۔یعنی یہ قرآن محکم اورمستقیم راستے کی طرف انسان کی ہدایت کرنےکیلیےا ٓیا ہے۔ امام صادق (ع) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :

قَالَ يَهْدِي إِلَى الْإِمَامِ يَهْدِي إِلَى الولآیت؛

تفسیر صافی، ج ۳ ، ص ۱۸۰ ۔

قرآن جس محکم اورمستقیم راستےکی ہدایت کرتاہےوہ محکم اورمستقیم راستہ ہماری امامت اورولایت ہےان دومطالب کوملانےسےپتا چلتا ہےکہ قرآن، ولایت اور فضائل اہلبیت کی پہچان کیلیے آیا ہے۔ قرآن علی کی پہچان کیلیے آیا ہے۔ اب اس بحث کی جگہ ہی نہیں رہتی کہ قرآن میں امامت اور ولایت کاتذکرہ ہےیا نہیں۔

ولایت ہمیشہ سےہی اصول دین میں شامل ہے

تمام آسمانی کتابوں میں امیرالمومنین(ع)کا تذکرہ ہے۔اب ممکن ہےکوئی سوال کرےسابقہ امتوں کی کتابوں کارسول اکرم(ص)کی امت سےکیا ربط ہےاورکیوں وہ علی کی معرفت کےمحتاج ہیں؟ہم جواب میں کہیںگےامیرالمومنین(ع)کی ولایت اورباقی ائمہ کی ولایت تمام انبیاءاورسابقہ امتوں کےاصول دین میں شامل تھی اورسب کیلیےضروری تھاان پراجمالی طورپرایمان رکھیں۔امام صادق(ع)ایک روایت میں ارشادفرماتےہیں:

إِنَّ اللَّهَ جَعَلَ وَلَآیتنَا أَهْلَ الْبَيْتِ قُطْبَ الْقُرْآنِ وَ قُطْبَ جَمِيعِ الْكُتُب‏ ؛

تفسیر عیاشی، ج ۱ ، ص ۵

اللہ تعالی نےہم اہلبیت کوتمام آسمانی کتابوں اورقرآن کریم کامرکزی محورقرارکیاہے۔اگرتمام آسمانی کتابوں اورقرآن کریم سےہماراذکرمٹادیاجائےتووہ کسی کام کےنہ رہیںگےاورکوئی فائدہ نہ دیںگےاسیلئےجب جنگ صفین میں عمروعاص کےحکم پرقرآن کونیزےپرچڑھایا گیاحضرت علی(ع)نےفرمایا:ان صفحوں پرتوجہ نہ کرومیں قرآن ناطق ہوں،ان صفحوں کی کوئی قیت نہیں۔وہ کلمات قرآن کےذریعےقرآن ناطق اور ولایت سےلڑنا چاہتے ہیں۔

ہر جگہ علی کا نام

رسول اکرم(ص) نےارشاد فرمایا جب میں معراج پر گیا اور جنت اور جہنم کو دیکھا میں نےدیکھا کہ:

الْجَنَّةُ فِيهَا ثَمَانِيَةُ أَبْوَاب‏؛

جنت کےآٹھ دروازے ہیں

عَلَى كُلِّ بَابٍ مِنْهَا أَرْبَعُ كَلِمَات‏؛

اور ہر دروازے ہر چار کلمے لکھے ہوئے ہیں جن میں سےتیسرا علی ولی اللہ ہے۔

بحار، ج ۸ ، ص ۱۴۴ ۔

ایک اور حدیث میں رسول اکرم(ص) نےارشاد فرمایا: جب میں معراج پر گیا میں نےنہ کوئی پردہ دیکھا نہ حجاب، نہ کوئی پتھر دیکھا نہ درخت، نہ کوئی پتا دیکھا سوائے یہ کہ ہر چیز پر علی علی علی لکھا تھا۔

مدینہ المعاجز، ج ۲ ،ص ۳۹۰ ۔

یعنی تمام چیزوں کےباطن اور احساس میں علی اور مسئلہ ولایت ہے۔ ایک اورحدیث میں رسول اکرم(ص)نےارشادفرمایا:چاند،سورج کےماتھے پراورتمام آسمان پرعلی کانام لکھاہے۔اسی طرح ارشادفرمایا :

مَا اسْتَقَرَّ الْكُرْسِيُّ وَ الْعَرْشُ وَ لَا دَارَ الْفَلَكُ وَ لَا قَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَ الْأَرْضُ إِلَّا بِأَنْ كُتِبَ علیها لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ علی أَمِيرُ الْمُؤْمِنِين‏؛

الیقین، ص ۲۳۹ ۔

عرش اورکرسی اپنی جگہ پہ کھڑے نہ تھے زمین اور آسمان اپنی جگہ پہ کھڑے نہ تھے مگر یہ کہ اللہ تعالی نےان پہ تین جملے لکھے

لااله الا اللَّه، محمد رسول اللَّه، علی ولی اللَّه ۔

کیاان تمام باتوں کےبعد بھی اس سوال کی جگہ باقی رہتی ہےکہ ولایت اصول دین میں سےہےیا اصول مذہب میں سے؟

اللہ کی ولایت

ایک روا یت میں امام صادق (ع) ارشاد فرماتے ہیں:

وَلَآیتنَا وَلَايَةُ اللَّهِ الَّتِي لَمْ يَبْعَثْ نَبِيّاً قَطُّ إِلَّا بِهَا ؛

کافی، ج ۱ ، ص ۴۳۷ ۔

ماری ولایت اللہ تعالی کی لایت ہےاللہ تعالی نےکوئی نبی نہیں بھیجامگر ہماری ولایت پر۔

اب اس روایت کی ایک معنی تو یہ ہےکہ جس کا بھی اللہ تعالی نےامتحان لیااوروہ کامیاب ہوااسےاللہ تعالی نےنبی بنایااوروہ امتحان ائمہ معصومیں کی ولایت پرایمان اوران کی پیروی کاتھا۔اوراس روایت کی دوسری معنی یہ ہےکہ انبیاءکوبھیجنےکامقصدولایت کی پہچان کرواناہےیعنی اللہ تعالی نےنبیوں کوبھیجا تاکہ وہ اپنی امتوں میں امیرالمومنین(ع)اوراہلبیت کی پہچان کروائیں۔تمام انبیاءمیں سےاولوالعزم نبی پانچ کیوں ہیں؟اور ۳۱۳ رسول کیوں ہیں؟ ہماری روایتوں میں آیا ہےکہ تمام نبیوں میں سےجس نبی نےہماری ولایت کو اچھی طرح قبول کیاوہ اعلی مقام پرفائزہوا۔اولوالعزم نبیوں نےائمہ معصومین کی ولایت کو اچھے طریقے سےقبول کیا اس لئے اللہ تعالی نےان کا نام الوالعزم رکھا یعنی ائمہ معصومین کی ولایت کو قبول کرنےکا عزم کرنےوالے۔

ا ب سوال یہ ہےکہ حضرت آدم اولوالعزم نبیوں میں سےکیوں نہ ہوئے؟ اللہ تعالی قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہےکہ:

( وَلَقَدْ عَهِدْنَا إِلَىٰ آدَمَ مِن قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْمًا )

سورہ طہ، آیت ۱۱۵ ۔

اورہم نےآدم سےاس سےپہلےعہدلیامگرانہوں نےاسےترک کردیااورہم نےانکےپاس عزم وثبات نہیں پایا۔

یعنی ہم نےآدم میں عزم نہ پایا۔اللہ تعالی نےجنت میں حضرت آدم سےیہ فرمایاتھاکہ: تم اورحواجوچاہوجنت میں کھاؤلیکن اس ولایت کےپاک درخت کےقریب نہ جانا۔یہ درخت ائمہ معصومین سےمخصوص ہےاورکسی کااس میں کوئی حصہ نہیں،لیکن حضرت آدم نےاس درخت سےکچھ مقدارکھائی توآوازقدرت آئی: تیری اس نافرمانی اورترک اولی پرتمہیں جنت سےنکالاجاتاہے۔

ان باتوں سےیہ نتیجہ نکلاکہ ولایت اورامامت نہ صرف دین اسلام اوراس امت میں بلکہ تمام ادیان مسیحیت، یھودیت اورتمام کائنات میں عالم ذر سےآج تک اصول دین تھی ہےاوررہےگی۔

سترہویں مجلس

تمام کائنات پر ولایت کو پیش کیا گیا

اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَكُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُّبِينٍ )

سورہ یس، آیت ۱۲

اورہم نےہرشےکوایک روشن امام میں جمع کردیاہے۔

امام علی نقی زیارت جامعہ میں ارشادفرماتےہیں:

آتَاكُمُ اللَّهُ مَا لَمْ يُؤْتِ أَحَدا مِنَ الْعَالَمِينَ

خدانےآپکووہ مقام عطاکیاہےجوعالمین میں سےکسی کوعطا نہیں کیا۔

ائمہ معصومین کی ولایت کوتمام کائنات پرپیش کیاگیاہے۔ابتدامیں یہ سوال پیداہوتاہےکہ کیااللہ تعالی نےاس کائنات(جس میں انسان زندگی گذاررہےہیں)کےعلاوہ کوئی اورکائنات پیدا کی ہیں؟اگراللہ تعالی نےدوسری کائنات پیداکی ہیں توان پراللہ تعالی کی حجت اوران کاامام کون ہے؟

امام صادق(ع)نےایک روایت میں ارشادفرمایا :

إِنَّ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ اثْنَيْ عَشَرَأَلْفَ عَالَمٍ كُلُّ عَالَمٍ مِنْهُمْ أَكْبَرُ مِنْ سَبْعِ سَمَاوَاتٍ وَ سَبْعِ أَرَضِينَ مَا يَرَى عَالَمٌ مِنْهُمْ أَنَّ لِلَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ عَالَماً غَيْرَهُمْ وَ إِنِّي الْحُجَّةُ علیهمْ؛

خصال، ج ۲ ، ص ۶۳۹ ۔

اللہ تعالی نےبارہ ہزاردنیائیں پیدا کی ہیں ان میں سےہرکائنات ہماری کائنات(جس میں سات آسمان اورسات زمینیں شامل ہیں)سےبڑی ہے۔میں تمام کائناتوں کیلئےاللہ تعالی کی حجت ہوں اوران کا امام ہوں۔

اب کوئی تعجب کا مقام نہیں!اگر قنبر مولا علی کےبارے میں فضہ سےپوچھے امیر المومنین کہاں ہیں؟ اور فضہ جواب میں کہے:

عرج المولی الی السماء لیقسم ارزاق العباد؛

میرےمولا بندوں کارزق تقسیم کرنےآسمان کی طرف گئے ہیں۔قنبرنےسمجھافضہ مذاق کررہی ہیں۔قنبرمولاعلی کوڈھونڈتےایک باغ میں مولاعلی کوپاتےہیں۔اورمولاعلی سےیہ ماجری بیان کرتےہیں مولاعلی نےجواب میں فرمایا:قنبرآرام سے!گویاتم ہم پراورہماری ولایت پرحقیقی ایمان نہیں رکھتے!اےقنبریہ دنیااورجوکچھ اس دنیا میں ہےہمارےلئےاس اخروٹ کی طرح ہےجوہماری ہاتھ میں ہو۔

شرح زیارت جامعہ، حسین گنجی، ج ۲ ، ص ۱۸۲ ۔

اس سےپتاچلتاہےفضہ کامقام قنبرسےبلندہےاورقنبرکواتناپتانہیں جتنافضہ جانتی ہیں کیونکہ قنبرباہررہتےتھےاورفضہ گھرمیں رہتی تھیں۔

ائمہ کی وسعت امامت

امام کےاس قول کا مقصد صرف اس دنیا کا امام نہیں بلکہ ان کا امام ہونا اور اللہ تعالی کی طرف سےحجت ہونا سب کو شامل ہےیعنی اللہ تعالی کےعلاوہ سب پر حجت ہیں اور ان کی امامت تمام کائناتوں پر فرض ہے۔جیسا کہ:

( وَهُوَ الَّذِي فِي السَّمَاءِ إِلَـٰهٌ وَفِي الْأَرْضِ إِلَـٰهٌ )

سورہ زخرف، آیت۸۴.

اور وہی وہ ہےجو آسمان میں بھی خدا ہےاور زمین میں بھی خدا ہے)اس آیت کی تفسیر میں وارد ہوا ہےکہ یہا ں:

(وَفِي الْأَرْضِ إِلَـٰهٌ )

سےمراد ائمہ معصومین اور امیرالمومنین(ع) ہیں۔

تفسیر نور الثقلین، ج ۴ ، ص ۶۱۷ ۔

یعنی امام تمام کائناتوں پرحاضر اور ناظر ہیں ۔اور امام مسافت طے کرنےکا محتاج نہیں جیسا کہ قنبر نےسوچا۔ کیونکہ تمام کائناتیں امام کےسامنےاخروٹ کی طرح ہیں ۔اخروٹ کو الٹ پلٹ کرنےاور دیکھنےمیں کتنا ٹائم لگتا ہے؟ ایک سیکنڈ یا اس سےبھی کم بلکہ اخروٹ کو دیکھنےکیلئے ٹائم نہیں لگتا کیونکہ وہ ہمارے سامنےہے۔

رسول اکرم(ص)کےدور میں ۳۹ انتالیس افرادمیں اختلاف ہوا ان میں سےہرایک کادعوی تھاکہ ہم نےرات امام علی کی مہمان نوازی کی ہےاوران میں ہرایک قسم کھارہاتھا کہ رات امام علی ہمارےمہمان تھے۔ وہ سب رسول اکرم(ص)کی بارگاہ میں آئےتاکہ اس مسئلےکوحل کریں۔جب رسول اکرم(ص)کواپنی بات بتاچکےتورسول اکرم(ص)نےفرمایاعلی تورات میرےمہمان تھے۔لوگوں نےدیکھا کہ مشکل حل نہیں ہوئی بلکہ ایک اورفردکااضافہ ہوگیا۔اب چالیس ۴۰ افرادہوگئےجن کادعوی تھاکہ رات علی ان کےمہمان تھے۔اب تمام لوگ وحی کاانتظارکرنےلگےاسوقت جبرئیل نازل ہوئےاورفرمایااےاحمد!اللہ تعالی کاسلام قبول فرمائیں اللہ تعالی فرماتاہےکہ کل رات علی میرےپاس عرش پہ میرےمہمان تھے۔

صحیفہ الابرار، ج ۲ ، ص ۸۴ ۔

یعنی تمام کائنات میں علی تھےاورعلی کےوجودسےکوئی جگہ خالی نہ تھی۔

اسی طرح جب رسول اکرم(ص) معراج سےپلٹے تو حضرت علی (ع)، رسول اکرم(ص) کو آسمانوں کےبارے میں بتانےلگے اور معراج کا ماجرا بتایا رسول اکرم(ص) نےپوچھا اے علی! کیا تم عرش پر میرے ساتھ تھے؟امام نےفرمایا: نہیں! بلکہ میں یہیں سےمشاہدہ کر رہا تھا۔

بحار، ج ۱۶ ، ص ۳۱۸ ۔

یعنی حضرت علی (ع) عرش کی باتیں جاننےکیلئے عرش پہ جانےکےمحتاج نہیں۔ اب یہ حکمت کا تقاضہ تھا کہ حضرت علی (ع)اس طرح بیان کریں کیونکہ ہم انسانوں کی ناقص عقلیں اس سےزیادہ کو سمجھ نہیں سکتیں۔ اگر اس سےزیادہ ہماری عقلیں سمجھ سکتیں تو امام علی کسی اور طریقے سےبیان کرتے کہ اللہ تعالی کےعلاوہ تمام موجودات ہماری ولایت کےتابع ہیں۔

موجودات پر ولایت

اللہ تعالی کےعلاوہ تمام موجودات پر ولایت کا پیش کیا جانا:

دوسرا قابل ذکرموضوع یہ ہےکہ ائمہ کی ولایت اللہ تعالی کےعلاوہ تمام موجودات کوشامل ہےجس میں آسمان، زمین، جمادات اور نباتات ہیں۔

ایک روایت میں امام رضا فرماتے ہیں :

عَرَضَ اللَّهُ الْوَلَايَةَ عَلَى أَهْلِ السَّمَاوَاتِ؛

اقبال الااعمال، ج ۲ ، ص ۲۶۲ ۔

اللہ تعالی نےہماری ولایت کو آسمان والوں اور زمین والوں پر فرض کیا ہے۔ آسمانوں میں سےساتویں آسمان نےہماری ولایت قبول کرنےمیں سبقت کی تو اللہ تعالی نےاسےزینت دی کہ عرش بنا دیا۔ اس کےبعد چوتھے آسمان نےہماری ولایت کو قبول کیاتو اللہ تعالی نےاسےبیت المعمور سےزینت بخشی۔ اس کےبعد دنیا کےآسمان نےہماری ولایت قبول کی تو اللہ تعالی نےاسےستاروں سےزینت بخشی۔

اس کےبعد ہماری ولایت کو زمین پر پیش کیا گیا جس زمین نےسب سےپہلے ہماری ولایت کو قبول کیا وہ مکہ کی سر زمین تھی تو اللہ تعالی نےاسےاپنےگھرسےزینت بخشی۔ اسکےبعد مدینہ کی سرزمین نےہماری ولایت کو قبول کیا تو اللہ تعالی نےاسےرسول اکرم(ص) کےروضے سےزینت بخشی۔ اس کےبعد کوفہ کی سرزمین نےہماری ولایت کو قبول کیا تو اللہ تعالی نےاسےحضرت علی (ع)کےروضے سےزینت بخشی ۔اس کےبعد ہماری ولایت کوپانی پر پیش کیاگیا جس پانی نےہماری ولایت کو قبول کیا وہ پانی میٹھا ہو گیا اور جس پانی نےہمای ولایت کو قبول نہ کیا وہ پانی کڑوا ہو گیا۔ اس کےبعد ہماری ولایت کو نباتات پر پیش کیا گیا جس نےہماری ولایت کو قبول کیا وہ نباتات باارزش بن گئی۔

ایک اور روایت میں امام علی ارشاد فرماتے ہیں:

إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى عَرَضَ وَلَآیتنَا عَلَى أَهْلِ السَّمَاوَاتِ وَ أَهْلِ الْأَرْضِ مِنَ الْجِنِّ وَ الْإِنْسِ وَ الثَّمَرِ وَ غَيْرِ ذَلِكَ فَمَا قَبِلَ مِنْهُ وَلَآیتنَا طَابَ وَ طهرَ وَ عَذُبَ وَ مَا لَمْ يَقْبَلْ مِنْهُ خَبُثَ وَ رَدِيَ وَ نَتُنَ؛

مستدرک الوسائل، ج ۱۶ ، ص ۴۱۳ ۔

اللہ تعالی نےہماری ولایت کوآسمان والوں، زمیں والوں، انسانوں اورجنوں پرپیش کیاجس نےہماری ولایت کوقبول کیاوہ اعلی اورپاکیزہ بن گیااورجس نےہماری ولایت کوقبول نہ کیاوہ پست اوربدبودارہوگیا۔حیوانات میں سےبھی جس نےہماری ولایت کوقبول کیاوہ خوش آوازبن گیااورجس نےہماری ولایت کوقبول نہ کیاوہ بدآوازبن گیاجیسےگدھاجسےقرآن میں سب سےبدآوازکہاگیاہے۔

سورہ لقان، آیت ۱۹ ۔

امام رضاعلی السلام ایک حدیث میں ارشادفرماتےہیں:

فِي جَنَاحِ كُلِّ هُدْهُدٍ خَلَقَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَكْتُوبٌ بِالسُّرْيَانِيَّةِ آلُ مُحَمَّدٍ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ؛

کافی، ج ۶ ، ص ۲۲۴ ۔

تمام موجودات میں سےہدہدکےپروں پرسریانی زبان میں یہ لکھاہےکہ آل محمدتمام موجودات میں سےبہترین مخلوق ہیں۔اس وجہ سےہدہدکاخون بہانااورگوشت کھانامکروہ ہے۔

داؤد رقی نقل کرتےہیں میں امام صادق(ع)کی خدمت میں تھااتنےمیں ایک شخص داخل ہواجسکےہاتھ میں ایک ذبح شدہ پرندہ تھاجس کا خون اس کےہاتھوں سےٹپک رہاتھا۔امام اس پرغضبناک ہوئےاوراسکےہاتھ سےوہ ذبح شدہ پرندہ لےکہ زمین پہ رکھااورفرمایاتمہارے عالم یامجتہدنےتمہیں اسےذبح کرنےکاحکم دیاہے؟کیاتمہیں پتانہیں یہ پرندہ آسمان کیطرف پروازکرتاہےاورہمیشہ آل محمدکےمصائب پہ گریہ کرتا ہےاور اس پرندے کی تسبیح سورہ حمد ہے۔ کیا جو پرندہ اہلبیت سےمحبت کرےاور سورہ حمد کی تلاوت کرے اسےذبح کیا جائے؟

خصال، ج ۱ ، ص ۳۲۶ ۔

اسی طرح ایک پرندہ ہےجسےقنابرکہا جاتا ہےاس پرندےکا ورد زباں یہ ذکر ہے:

الْعَنْ مُبْغِضِي علی ع اللَّهُمَّ أَبْغِضْ مَنْ أَبْغَضَهُ وَ أَحِبَّ مَنْ أَحَبَّهُ؛

علل الشرایع، ج ۱ ، ص ۱۴۳ ۔

پروردگارا!دشمنان علی پہ لعنت کر،جوبھی علی سےبغض رکھےتوبھی اس سےبغض رکھ جوبھی علی سےمحبت کرےتوبھی اس سےمحبت کر۔

اسکےعلاوہ روایات میں آیاہےکہ رسول اکرم(ص)نےفرمایا جبرئیل کےایک پرپہ لکھاہے:

لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ النَّبِيُّ

کوئی اللہ نہیں سوائےاس ایک اللہ کےاورمحمداسکارسول ہے۔ اوردوسرےپرپہ لکھاہے:

وَ مَكْتُوبٌ عَلَى الْآخَرِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ علی الْوَصِيُّ؛

صراط مستقیم، ج ۱ ، ص ۲۴۳ ۔؛ مدینہ المعاجز، ج ۲ ، ص ۴۰۸ ۔

کوئی اللہ نہیں سوائے اس ایک اللہ کےاورعلی وصی ہے۔ یعنی قدرت نےجو جبرئیل کو طاقت پرواز دی ہےاور اتنی عظمت والا قرار دیا ہےاسکا سبب جبرئیل کا توحید، رسالت، اور ولایت کی گواہی دینا ہے۔

ان تمام باتوں کےساتھ یہ کہنا بھی ضروری ہےانسانوں میں اہلبیت کےفضائل سننےکی آمادگی نہ تھی۔ آپ دیکھیں مسلمانوں نےاپنی حدیث کی کتابوں میں سلمان سےکتنی روایتیں نقل کی ہیں؟ ابوذر سےکتنی روایتیں نقل کی ہیں؟جابر بن عبداللہ انصاری سےکتنی روایتیں نقل کی ہیں؟ سلمان سےنقل کی ہوئی روایتیں شاید پچاس ۵۰ تک بھی نہ پہنچیں حالانکہ رسول اکرم(ص)کےقول کےمطابق سلمان اہلبیت میں سےتھا کیارسول اکرم(ص) نےسلمان سےمطالب بیان نہ کئے ہوں گے ؟ جن مطالب کی تعلیم رسول اکرم(ص) نےسلمان کو دی وہ بہت بلندمطالب ہیں۔ بلکہ روایات میں آیا ے کہ:

سَلْمَانُ بَحْرٌ لَا يُنْزَفُ وَ كَنْزٌ لَا يَنْفَدُ؛

بحار، ج ۲۲ ، ص ۳۴۸ ۔

سلمان اس سمندر کی طرح ہےجسکاکوئی کنارانہیں۔سلمان ایساخزانہ ہےجوکبھی ختم نہیں ہوتا؛کیونکہ رسول اکرم(ص)نےملاحظہ فرمایا کہ اکثریت ان مطالب کونہیں سمجھ سکتی اسلئےبلندمطالب کی تعلیم سلمان کودی اورباقی چھوٹےموٹےمطالب اکثریت کوبتائے۔

اٹھارویں مجلس

توحید، اسلام، ایمان اور ولایت

اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ بِنَصْرِ اللَّـهِ يَنصُرُ مَن يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ )

سورہ روم، آیت۵.

اور اسی دن صاحبانِ ایمان خوشی منائیں گے اللہ کی نصرت و امداد کےسہارے کہ وہ جس کی امداد چاہتا ہےکردیتا ہےاور وہ صاحب عزت بھی ہےاور مہربان بھی ہے۔

امام علی نقی(ع) زیارت جامعہ میں ارشاد فرماتے ہیں :

آتَاكُمُ اللَّهُ مَا لَمْ يُؤْتِ أَحَدا مِنَ الْعَالَمِينَ

خدانےآپ کو وہ مقام عطاکیاہےجوعالمین میں سےکسی کوعطانہیں کیا۔

گزشتہ ابحاث میں بیان ہواکہ خداوندمتعال نےآئمہ معصومین کی ولایت کوتمام کائنات کےآگےپیش کیا، یہاں ہم یہ دیکھناچاہتے ہیں کہ ولایت اورتوحید، اسلام اورایمان میں کونسارابطہ ہے۔

ولایت اورتوحید

جب ہم ولایت اور توحید کےمتعلق حدیثوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتا چلتا ہےکہ ولایت اور توحیددو الگ الگ چیزیں نہیں بلکہ حقیقت میں ایک چیز کےدو نام ہیں۔ ولایت اور توحیدمیں کوئی فرق نہیں۔ ولایت کا کام توحید کو پہنچانا ہےاور اس سےیہ نتیجہ بھی نکلتا ہےکہ جو ولایت کےدائرے میں نہیں وہ توحید کےدائرے سےباہر ہےجس کےپاس ولایت کی نعمت نہیں اسےموحد کہلانےکا کوئی حق نہیں۔

ہم اس مطلب کا اثبات دو ایسی حدیثوں سےکرتے ہیں جو سند کےلحاظ سےعلماکےدرمیان سلسلہ الذہب کےنام سےمشہور ہیں یعنی ان کےراوی آئمہ اور فرشتے ہیں اور یہ ان حدیثوں کی ہی خصوصیت ہےکہ اگر ان حدیثوں کی سند کو زعفران سےلکھ کہ پانی میں ملا کےکسی مریض کو پلائیں تو اللہ تعالی کےحکم سےشفایاب ہوگا۔

صحیفہ الابرار، ج ۲ ، ص ۸۴ ۔

ان دوحدیثوں میں سےایک تووہ حدیث ہےجو امام علی رضا(ع)نےہزاروں راویوں کی موجودگی میں نیشاپورکےمقام پہ ارشادفرمائی:

لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ حِصْنِي فَمَنْ دَخَلَ حِصْنِي أَمِنَ عَذَابِي قَالَ فَلَمَّا مَرَّتِ الرَّاحِلَةُ نَادَانَا بِشُرُوطها وَ أَنَا مِنْ شُرُوطها؛

بحار، ج ۳ ،ص ۷ ۔

کلمہ لاالہ الا اللہ، اللہ تعالی کامضبوط قلعہ ہےجوبھی یہ کلمہ زبان پرلاتاہےوہ اللہ تعالی کےمضبوط قلعے میں داخل ہوجاتاہےاور عذاب الہی سےامان پاتاہے۔

اس حدیث کےآخر میں امام(ع) فرماتے ہیں اللہ تعالی کےمضبوط قلعے میں داخل ہونےکیلئے اور عذاب الہی سےامان پانےکیلئے چودہ شرطیں ہیں جوکہ چودہ معصومین ہیں ان شرائط میں سےایک میری امامت اور ولایت کا عقیدہ ہے۔

دوسری حدیث میں ارشاد ہوتا ہے:

وَلَايَةُ علی بْنِ أَبِي طَالِبٍ حِصْنِي فَمَنْ دَخَلَ حِصْنِي أَمِنَ مِنْ عَذَابِي؛

بحار، ج ۳۹ ، ص ۲۴۶ ۔

کلمہ کی طرح حضرت علی(ع) کی ولایت بھی اللہ کا مضبوط قلعہ ہےجوبھی حضرت علی(ع)کی ولایت کا اقرار کرتا ہےوہ اللہ تعالی کےمضبوط قلعے میں داخل ہوتا ہےاور عذاب الہی سےامان پاتا ہے۔

اس مقام پہ سوال اٹھتاہےکہ کیااللہ تعالی کےدومختلف ،قلعے ہیں ایک کانام توحیداوردوسرےکانام ولایت ہے، یا اللہ تعالی کا ایک ہی قلعہ ہےجس کےتوحید اور ولایت دو نام ہیں؟ جواب یہ ہےکہ اللہ تعالی کا ایک ہی قلعہ ہےجس کےتوحیداورولایت دو نام ہیں۔ توحیدکےظہورکانام ولایت ہےاوراللہ تعا لی نےائمہ معصومین(ع)کی زباں میں کلام کیاہےاب جوبھی ولایت کاقائل نہیں وہ حقیقت میں توحیدکامنکرہے۔

ایک شخص رسول اکرم(ص)کی بارگاہ میں کسی چیز کا سوال کرتا ہےتو آنحضرت (ص) جواب میں فرماتے ہیں : اگر اللہ تعالی نےچاہا اور امیرالمومنین (ع)نےچاہا تو ہوجائے گا۔

القطرہ من بحار مناقاب النبی والعترہ، ج ۱ ، ص ۱۹۳ ۔

یعنی اللہ تعالی کی مشیت اورامیرالمومنین (ع) کی چاہت ایک ہی ہیں۔ عالم امکان میں کسی چیز کےظاہر ہونےکیلئے ولایت کی چاہت بھی ضروری ہے۔ہم یہاں نمونےکےطور پر دومقامات کی طرف اشارہ کرتے ہیں :

پہلا نمونہ:

آپ حدیث کسامیں ملاحظہ فرماتےہیں جبرئیل اللہ تعالی سےکسامیں جانےکی اجازت طلب کرتےہیں جب اللہ تعالی اجازت دیتاہےتوزمین پرآتے ہیں اوررسول اکرم(ص)کی بارگاہ میں آسمانی ماجراکو بیان کرتے ہیں اور عرض کرتے ہی :

یا رسول اللہ کیا آپ مجھے کسامیں آنےکی اجازت دیتے ہیں ؟ اگر اللہ تعالی نےاجازت دی ہےتو پھر دوسری اجازت کس لئے؟ اس سےسمجھ میں آیا اللہ تعالی کی اجازت کےساتھ رسالت اور ولایت کی اجازت بھی ضروری ہے۔

دوسرانمونہ:

زیارت جامعہ میں ہم پڑہتے ہیں :

لا يَأْتِي علیها إِلا رِضَاكُمْ

سوائے آپ کی رضامندی کےمحونہیں ہو سکتے۔

یعنی اےمیرےسردار!میرےاورمیرے اللہ کےدرمیان وہ گناہ ہیں جومجھ سےسرزدہوئےہیں آپکی رضاکےعلاوہ ان گناہوں کوکوئی مٹانہیں سکتا۔اللہ تعالی نےگناہوں کی معافی کیلئےرضائےاہلبیت کی شرط رکھی ہےیعنی اللہ تعالی نےیہ اختیاراہلبیت کےسپردکیاہے۔

زیارت جامعہ میں دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے

مَنْ أَرَادَ اللَّهَ بَدَأَ بِكُمْ وَ مَنْ وَحَّدَهُ قَبِلَ عَنْكُمْ وَ مَنْ قَصَدَهُ تَوَجَّهَ بِكُمْ

یقینا جس نےاللہ کا ارادہ کیا اس نےآپ سےشروع کیااور جس نےاللہ کو ایک جانا اس نےآپ کی تعلیم کو قبول کیا اور جس نےخدا کا قصد کیاوہ آپ کےذریعے متوجہ ہوا ۔

یعنی جو بھی اللہ تعالی کی معرفت چاہتا ہےآپ سےابتدا کرتا ہے۔ اگر میں نہیں جانتا کہ کس طرح اللہ کےشہر میں داخل ہو جاؤں مجھے کہنا چاہیے اے امیرالمومنین (ع)! اے فاطمہ زہرا(ع)!اے ائمہ معصومین(ع)! اے صاحب الزمان(ع)! میں اللہ کےشہر میں داخل ہونا چاہتا ہوں اور مجھے پتا نہیں وہ کہاں ہے! لیکن اتنا پتا ہےکہ آپ جانتے ہیں اور آپ اس میں رہتے ہیں کیا ممکن ہےآپ میرا ہاتھ تھام کر مجھے بھی اللہ تعالی کےشہر میں داخل کریں؟

جس نےبھی اللہ تعالی کی وحدانیت کوماناہےیعنی اللہ کوواحد، احد، فرد،صمدماناہےاسکی ایک نشانی ہےوہ نشانی یہ ہےکہ وہ آپ لوگوں کومانتاہےاورآپ کےفضائل، کمالات، صفات اورکلمات کومانتاہے۔

جوبھی اللہ کےنزدیک ہوناچاہتاہےاوراسکادیدارکرناچاہتاہےاسےچاہیےآٓپ کوذریعہ قراردے۔ کیونکہ جوبھی نمازپڑھتاہےیاروزہ رکھتاہےیاحج انجام دیتاہےہم قطعی حکم نہیں لگا سکتے کہ وہ اللہ کی راہ کامسافرہےکیونکہ ہم سےزیادہ ہمارےمخالف اوردشمن نمازی، روزہ دار اور حج کرنےوالے ہیں۔ اللہ کےراہ کی نشانی یہ ہےکہ وہ چہاردہ معصومین کی طرف سفر کرے۔

جوبھی اللہ تعالی کادیدارکرناچاہتاہےاسےچاہیےآئینہ خداکی زیارت کرےیعنی ائمہ کی زیارت کوجائےکیونکہ اللہ کی صفات، اللہ کی عظمت، اللہ کی رحمت سب ان میں دیکھی جا سکتی ہیں۔

علامہ مجلسی تحفہ الزائرکی ساتویں زیارت میں حضرت علی(ع)کو اس جملےسےخطاب کرتے ہیں:

َ السَّلَامُ عَلَى نَفْسِ اللَّهِ تَعَالَى الْقَائِمَةِ فِيهِ بِالسُّنَن‏؛

تحفہ الزائر، ص ۱۰۶ ۔

سلام ہواس نفس الہی پرجس کی بدولت اللہ کی سنتیں قائم ہیں۔ نفس الہی پرسلام کا مطلب کیاہے؟ یعنی اس پر سلام جس میں اللہ تعالی کی تمام صفات ہیں جس میں اللہ تعالی کےتمام کمالات ہیں ۔ جوخارج میں اللہ تعالی کےتمام افعال کووجوددیتا ہے، یہ ساری صفات امیرالمومنین (ع) کےوجود میں جمع ہیں۔

امام صادق (ع) سےمنقول ایک روایت میں امام ارشاد فرماتے ہیں:

بِنَا عُبِدَ اللَّهُ وَ بِنَا عُرِفَ اللَّهُ وَ بِنَا وُحِّدَ اللَّه‏؛

کافی، ج ۱ ، ص ۱۴۵ ۔

اللہ تعالی کی بندگی ہمارے ذریعے ہوتی ہےاللہ تعالی کی معرفت ہمارے ذریعے ہوتی ہےاور ہمارے ہی ذریعے خدا کو ایک مان کر اس کی عبادت کی جاتی ہے۔ اس جملے کی دو معنی ہو سکتی ہیں پہلی معنی: اگر اللہ تعالی ہمیں پیدا نہ کرتا تو کوئی اللہ تعالی کی بندگی نہ کرسکتا اور کوئی بھی اللہ تعالی کی معرفت حاصل نہ کرسکتا یعنی کوئی بھی توحید کی کلاس میں نہ بیٹھ سکتا۔ ہمارے سبب خدا کی پہچان ہوئی، اللہ تعالی کی یکتائی ہمارے سبب ہےورنہ لوگ اللہ تعالی کی معرفت اور بندگی میں ہزاروں چیزوں کو شریک کر لیتے۔

دوسری معنی یہ ہےکہ: اگر ہم معصوم امام نہ ہوتے لوگوں کےپاس اللہ تعالی کی بندگی اور معرفت کا کوئی ذریعہ نہ ہوتا وہ اللہ تعالی کی توحید کو نہ سمجھ سکتے اسی طرح ارشاد فرمایا چاہےکوئی نبی ہو یا غیر نبی اس نےتوحید ہم سےسیکھی ہےہم توحید کےستون ہیں۔دعائے ماہ رجب میں امام زمانہ ارشاد فرماتے ہیں:

فَبِهِمْ مَلَأْتَ سَمَاءَكَ وَ أَرْضَكَ حَتَّى ظَهَرَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْت‏؛

مفاتیح الجنان، ماہ رجب میں ھر روز کی پانچویں دعا۔

پروردگارا!ائمہ معصومین کےاسما،کمالات اورصفات سےتونےزمین اورآسمان کوپرکردیایہاں تک کہ ہرچیزتوحیدکی گواہی دینےلگی۔

اللہ تعالی حدیث قدسی میں ارشادفرماتے ہیں :

كنت كنزا مخفيا فأحببت أن أعرف فخلقت الخلق لكي أعرف‏؛

بحار، ج ۸۴ ، ص ۱۹۹ ۔

میں مخفی خزانہ تھا کسی کو میری معرفت نہ تھی میں نےچاہا کہ پہچانا جاؤں۔ اب میں کیا کروں کہ لوگ مجھے پہچان لیں کہ میں خدا ہوں؟ اس وقت اللہ تعالی نےاپنی صفات اور کمالات ائمہ معصومین (ع)کو عطا فرمائیں تاکہ وہ توحید کی پہچان کروائیں۔

اب سوال یہ ہےکہ اللہ تعالی توحیدذات کوچاہتاتھایاتوحید صفات کو؟ذات خدا کی حقیقت کو کوئی نہیں سمجھ سکتا، خداوند کریم کی ذات یکتا ہےہم توحید صفاتی کےمکلف ہیں اور جس نےہمیں توحید صفات اور توحید اسما سکھائی وہ ائمہ معصومین ہیں۔

جو بھی ولایت کو قبول نہیں کرتا وہ حقیقت میں اللہ تعالی کی توحیدکونہیں مانتاہمیں حق نہیں کہ اسےموحد کہیں کیونکہ وہ اللہ تعالی کا منکر ہے۔

جو ائمہ معصومین(ع)کےعلاوہ توحید تک پہنچنا چاہتا ہےاورکسی کو خدا کےنام سےپکارتا ہےاس کا خدا واقعی نہیں کیونکہ واقعی خدا تو وہ ہےجس کا تعارف آئمہ معصومین نےکروایا ہے۔

ولایت اور اسلام

احادیث متواترہ کےمطابق نہ صرف ولایت اسلام کا رکن ہےبلکہ اسلام کا بلند ترین رکن ولایت ہے۔ ہم نمونےکےطور اس آیت کا ذکرکرتے ہیں جوواقعہ غدیرکےبعد ولایت کی پہچان میں نازل ہوئی :

( الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ علیكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا )

سورہ مائدہ، آیت ہ ۳ ۔

آج میں نےتمہارے لئے دین کو کامل کردیا ہےاور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا ہےاور تمہارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنادیا ہے۔

یہاں مذھبکم نہیں آیا بلکہ دینکم آیا ہےیعنی ولایت صرف مذہب کو مکمل نہیں کرتی بلکہ ولایت دین کو مکمل کرنےوالی چیز ہے؛ کیونکہ ولایت کےبغیر اللہ تعالی کی نعمتیں ناقص ہیں۔آخر میں اللہ تعالی فرماتا ہےاب میں تمہارے دین اسلام سےراضی ہوں۔ یعنی اللہ تعالی اس جملے کےذریعے فرمانا چاہتا ہےولایت اسلام کا جزٔ ہے، اسلام کا رکن ہے۔نہ کہ اصول مذہب اسلئے ارشاد ہوا :بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ الْوَلَايَةِ وَ الصَّلَاةِ وَ الزَّكَاةِ وَ الصَّوْمِ وَ الْحَجِّ وَ لَمْ يُنَادَ بِشَيْ‏ءٍ مَا نُودِيَ بِالْوَلَايَة ؛

وسایل الشیعہ، ج ۱ ، ص ۱۸ ۔

اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہےنماز، زکات، روزہ، حج اور لایت جتنی تاکید ولایت کےبارے میں کی گئی ہےاتنی تاکید کسی چیز کےبارے میں نہیں۔

وہ ولایت جو نماز اور روزہ کےمقابل ہےوہ ولایت سےدوستی اور ولایت کی پیروی کی معنی میں ہےلیکن ولایت پر ایمان اور امامت، اصول دین میں سےہےاور توحید اور رسالت سےالگ ہیں۔

ولایت اور ایمان

جو آیت غدیر کےدن نازل ہوئی اس کےآخر میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

( إنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ )

اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے۔

جو لوگ غدیر خم میں جمع ہوئے تھے کیا وہ مسلمان نہیں تھے؟ ظاہر میں سب مسلمان تھے اور حج کےاعمال انجام دے کر آرہےتھے کیونکہ کوئی کافر مکہ نہیں جاتا اور حج کو قبول نہیں کرتا۔ اب یہ کون کافر ہیں جن کی اللہ تعالی ہدایت نہیں کرتا؟ پہلی ،دوسری، تیسری لسٹ میں وہ افراد ہیں جو ولایت کےمنکر ہیں۔جو بھی ولایت کا منکر ہےہم اسےمسلمان نہیں کہہ سکتے بلکہ حقیقت میں وہ کافر ہےجیسا کہ زیارت جامعہ میں ارشاد ہوتا ہے:

وَ مَنْ جَحَدَكُمْ كَافِرٌ وَ مَنْ حَارَبَكُمْ مُشْرِكٌ وَ مَنْ رَدَّ علیكُمْ فِي أَسْفَلِ دَرْكٍ مِنَ الْجَحِيمِ

اور جس نےآپ کا انکارکیا وہ کافرہےاور جس نےآپ سےجنگ کی وہ مشرک ہےاور جس نےآپ کےحکم کو رد کیا وہ جہنم کےپست طبقہ میں ہے۔یعنی جس نےبھی آپ کی ولایت اور امامت کا انکار کیا وہ کافر ہےاور جس نےبھی آپ سےجنگ کی وہ مشرک ہےاور جس نےبھی آپ کےخلاف حکم لگایا وہ جہنم کےنچلے ٹھکانےمیں ہے۔ حضرت سلمان نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم(ص) صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےارشاد فرمایا اے علی تیری مثال سورہ توحید جیسی ہے۔

امالی صدوق، ص ۸ ۔

رسول اکرم(ص) صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےحضرت علی (ع)کو سورہ توحید سےشباہت کیوں دی؟ ایک جہت شباہت تو معرفت میں ہے، ولایت امیرالمومنین (ع) بلند معارف میں سےہےاور اسےتوحید کےساتھ ہونا چاہیے۔ اس لئے فرمایا جو ایک بار سورہ توحید کی تلاوت ایک تہائی قرآن کی تلاوت کےبرابر ہے۔ دوبار سورہ توحید کی تلاوت دو تہائی قرآن کی تلاوت کےبرابر ہے۔ اور تین بار سورہ توحید کی تلاوت پورے قرآن کی تلاوت کےبرابر ہے۔ جس نےحضرت علی (ع)کو دوست رکھا وہ ایک تہائی ایماندار ہےاور جس نےحضرت علی (ع)کو دوست رکھنےکےساتھ زبان سےبھی اظہار کیا وہ دو تہائی ایماندار ہے۔ اور جس نےحضرت علی (ع)کودل سےدوست رکھنےکےساتھ زبان سےبھی اظہار کیا اور اس کا عمل بھی ولایت اور محبت کی نشاندہی کرنےوالا ہو وہ پوراایماندار ہے۔

اسی طرح ارشاد فرمایا :

يَا علی حُبُّكَ إِيمَانٌ وَ بُغْضُكَ نِفَاقٌ وَ كُفْرٌ؛

معانی الاخبار، ص ۲۰۶ ۔

اے علی تیری محبت ایمان ہےاور تجھ سےدشمنی نفاق اور شرک ہے۔

اسی طرح رسول اکرم(ص) نےجنگ خیبرکےبعد ارشاد فرمایا :

يَا علی لَا يُحِبُّكَ إِلَّا مُؤْمِنٌ وَ لَا يُبْغِضُكَ إِلَّا مُنَافِقٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ؛

بحار، ج ۳۹ ، ص ۲۸۷ ۔

اےعلی(ع)قیامت تک تجھ کوکوئی دوست نہیں رکھےگاسوائےمومن کےاورکوئی دشمن نہیں رکھےگاسوائےمنافق کے۔

جابر بن عبداللہ انصاری فرماتےہیں جب سےرسول اکرم(ص)نےارشادفرمایا:اےلوگواپنےبچوں کوعلی(ع)کی محبت سکھاؤ۔ہم اپنےبچوں کےسامنےعلی(ع)کی محبت رکھتے ہیں جوعلی(ع) کی محبت کوقبول کرتاہےہم سمجھ جاتےہیں وہ ہماری اولادہےاورجوعلی(ع) سےمحبت نہیں کرتا ہم اسےاپنی اولاد نہیں سمجھتے۔

بحار، ج ۲۷ ، ص ۱۵۱

ولایت اورتقوی

اللہ تعالی سورہ بقرہ میں مومن کی پہچان کرواتے ہوئے فرماتا ہے:

( وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ )

وہ ان تمام باتوں پر بھی ایمان رکھتے ہیں جنہیں (اے رسول)ہم نےآپ پر نازل کیا ہے۔

یعنی جوکچھ تم پراےرسول نازل ہواہےاس پرایمان رکھتے ہیں۔اب سوال یہ پیداہوتاہےکہ رسول اکرم(ص)پرکیانازل ہواہے؟

ماانزل الیک سےکیا مراد ہے؟جو آیت غدیر کےدن نازل ہوئی اس میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

( يَا آیتا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ )

سورہ مائدہ، آیہ ۶۷ ۔

اے پیغمبر آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کےپروردگار کی طرف سےنازل کیا گیا ہے۔

یعنی اے رسول جو کچھ تم پر نازل ہوا ہےلوگوں تک پہنچاؤ۔ شیعہ سنی متفق ہیں کہ یہ آیت امیرالمومنین (ع) کی شان میں نازل ہوئی۔(ینابیع المودہ،)

یعنی قرآن انکی ہدایت کرتاہےجوولایت پرایمان رکھتےہیں اورجوکچھ رسول اکرم(ص)پرنازل ہوااس پرایمان رکھتےہیں۔کیونکہ ارشادہوتا ہےقرآن متقین کیلئےہدایت ہےاس بناپرنتیجہ یہ نکلتاہےکہ جسکاولایت پرایمان نہیں وہ مومن نہیں۔

۲ ۔ وہ ہدایت یافتہ نہیں۔ اب جو ہدایت یافتہ نہیں وہ قطعا گمراہ ہے۔