امام حسین اُسوہ انسانیت
امام حسین ،دلربائے قلوب
میرے عزیز دوستو! حسین ابن علی کا نام گرامی بہت ہی دلکش نام ہے ؛ جب ہم احساسات کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں میں امام حسین کے نام کی خاصیت اورحقیقت و معرفت یہ ہے کہ یہ نام دلربائے قلوب ہے اور مقناطیس کی مانند دلوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ البتہ مسلمانوں میں بہت سے ایسے افراد بھی ہیں جو ایسے نہیں ہیں اور امام حسین کی معرفت و شناخت سے بے بہرہ ہیں، دوسری طرف ایسے افراد بھی پائے جاتے ہیں کہ جن کا شمار اہل بیت کے شیعوں میں نہیں ہوتا لیکن اُن کے درمیان بہت سے ایسے افراد ہیںکہ حسین ابن علی کا مظلوم نام سنتے ہی اُن کی آنکھوں سے اشکوں کا سیلاب جاری ہو جاتاہے ور اُن کے دل منقلب ہوجاتے ہیں۔ خداوند عالم نے امام حسین کے نام میں ایسی تاثیر رکھی ہے کہ جب اُن کا نام لیا جاتا ہے تو ہماری قوم سمیت دیگر ممالک کے شیعوں کے دل و جان پر ایک روحانی کیفیت طاری ہوجاتی ہے ۔ یہ ہے حضرت امام حسین کی مقدس ذات سے احساساتی لگاو کی تفسیر۔
اہل بصیرت کے درمیان ہمیشہ سے یہی ہوتا رہا ہے جیسا کہ روایات اور تاریخ سے بھی معلوم ہوتا ہے ، حضرت ختمی مرتبت ۰ اور امیر المومنین کے گھر اور اِن بزرگوار ہستیوں کی زندگی میں بھی اِس عظیم ذات کو مر کزیت حاصل تھی اور یہ ہمیشہ اِن عظیم المرتبت ہستیوں کے عشق و محبت کا محور رہا ہے اور آج بھی ایسا ہی ہے۔
امام حسین کی تعلیمات اور دعائیں
تعلیمات اور دعاوں کے لحاظ سے بھی یہ عظیم المرتبت ہستی اور اُن کا اسم شریف بھی کہ جو اُن کے عظیم القدر مسمّی(ذات) کی طرف اشارہ کرتا ہے، اِسی طرح ہے۔ آپ کے کلمات و ارشادات ، معرفت الٰہی کے گرانبہا گوہروں سے لبریز ہیں۔ آپ روز عرفہ ، امام حسین کی اِسی دعائے عرفہ کو ملاحظہ کیجئے تو آپ دیکھیں گے کہ یہ بھی زبور آل محمد ۰ ( صحیفہ سجادیہ)کی مانند عشق و معرفت الٰہی کے خزانوں اور اُس کے حسن و جمال کے حَسِین نغموں سے مالا مال ہے ۔ یہاں تک کہ انسان جب امام سجاد کی بعض دعاؤں کا دعائے عرفہ سے موازنہ کرتا ہے تو وہ محسوس کرتا ہے کہ امام سجاد کی دعائیں در حقیقت امام حسین کی دعائے عرفہ کی ہی تشریح و توضیح ہیں، یعنی دعائے عرفہ ’’اصل ‘‘ ہے اور صحیفہ سجادیہ کی دعائیں اُس کی ’’فرع‘‘۔ عجیب و غریب دعائے عرفہ، واقعہ کربلا اور زندگی کے دیگر مواقع پر آپ کے ارشادات ،کلمات اور خطبات ایک عجیب معانی اور روح رکھتے ہیں اور عالم ملکوت کے حقائق اور عالی ترین معارف الہٰیہ کاایسا بحر بیکراں ہیں کہ آثار اہل بیت میں جن کی نظیر بہت کم ہے۔
سید الشہدا ، انسانوں کے آئیڈیل
بزرگ ہستیوں کی تآسّی وپیروی اور اولیائے خدا سے انتساب و نسبت، اہل عقل و خرد ہی کا شیوہ رہا ہے۔ دنیا کا ہر ذی حیات موجود، آئیڈیل کی تلاش اور اُسوہ و مثالی نمونے کی جستجو میں ہے ،لیکن یہ سب اپنے آئیڈیل کی تلاش میں صحیح راستے پر قدم نہیں اٹھاتے ہیں۔ اِس دنیا میں بعض افراد ایسے بھی ہیں کہ اگر اُن سے دریافت کیا جائے کہ وہ کون سی شخصیت ہے کہ جو آپ کے ذہن و قلب پر چھائی ہوئی ہے تو آپ دیکھیں گے کہ اُن حقیر اور پست انسانوں کا پتہ بتائیں گے کہ جنہوں نے اپنی زندگی خواہشات نفسانی کی بندگی و غلامی میں گزاری ہے۔ اِن آئیڈیل بننے والے افراد کی عادات و صفات ،غافل انسانوں کے سِوا کسی اورکو اچھی نہیں لگتیں اور یہ معمولی اور غافل انسانوں کو ہی صرف چند لمحوں کیلئے سرگرم کرتے ہیں اور دنیا کے معمولی انسانوں کے ایک گروہ کیلئے تصوّراتی شخصیت بن جاتے ہیں۔ بعض افراد اپنے آئیڈیل کی تلاش میں بڑے بڑے سیاستدانوں اور تاریخی ہیرووں کے پیچھے چل پڑتے ہیں اور اُنہیں اپنے لیے مثالی نمونہ اور اُسوہ قرار دیتے ہیں لیکن عقلمند ترین انسان وہ ہیں جو اولیائے خدا کو اپنا اُسوہ اور آئیڈیل بناتے ہیںکیونکہ اولیائے الٰہی کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اِ س حد تک شجاع ، قدرت مند اور صاحب ارادہ واختیار ہوتے ہیں کہ اپنے نفس اور جان و دل کے خود حاکم و امیر ہوتے ہیں یعنی اپنے نفس اور نفسانی خواہشات کے غلام اور اسیر نہیں بنتے۔
ایک حکیم (دانا)کا بے مثال جواب
قدیم حکمائ اور فلسفیوں میں سے کسی سے کیلئے منسوب ہے کہ اُس نے اسکندر رومی_ مقدونی_ سے کہا کہ ’’تم ہمارے غلاموں کے غلام ہو۔‘‘ اسکندر اعظم یہ بات سن کر برہم ہوگیا۔ اُس حکیم نے کہا کہ ’’غصہ نہ کرو، تم اپنے غصے اور شہوت کے غلام ہو۔ تم جب بھی کسی چیز کو حاصل کرتے ہوتو اُس وقت بھی بے تاب اور مضطرب ہوتے ہو اور جب غصہ کرتے ہو تو اُس وقت بھی پریشانی و بے کلی کی کیفیت تم پر سوار رہتی ہے اور یہ شہوت و غضب کے مقابلے میں تمہاری غلامی کی علامت ہے جبکہ میری شہوت و غضب میرے غلام ہیں‘‘۔
ممکن ہے کہ یہ قصہ صحیح ہو اور ممکن ہے کہ یہ بالکل حقیقت نہ رکھتا ہو لیکن اولیائے خدا ، پیغمبروں اور بشریت کیلئے خدائی ہدایت کی شاہراہ کے راہنماوں کیلئے یہ بات بالکل صادق آتی ہے۔ اِس کی زندہ مثالیں حضرت یوسف ، حضرت ابراہیم اور حضرت موسی ہیں اور اِ س کی متعدد مثالیں ہمیں اولیائے الٰہی کی زندگی میں نظر آتی ہیں۔ اہل عقل و خرد وہ انسان ہیں کہ جو اِن بزرگ ہستیوںاور اِن شجاع اور صاحب ارادہ و اختیار انسانوں کو اپنا آئیدیل قرار دیتے ہیں اور اِس راستے پر گامزن ہو کر اپنے باطن میں اپنے ارادے و اختیار کے مالک بن جاتے ہیں۔
واقعہ کربلا سے قبل امام حسین کی شخصیت و فعالیت
اِن بزرگ ہستیوں کے درمیان بھی بہت سی عظیم شخصیات پائی جاتی ہیں کہ جن میں سے ایک شخصیت حضرت امام حسین کی ہے۔ حق تو یہ ہے کہ یہ کہنا چاہیے کہ ہم خاکی ، حقیر اور ناقابل انسان بلکہ تمام عوالم وجود ، بزرگان و اولیائ کی ارواح اور تمام ملائکہ مقربین اور اِن عوالم میں موجود تمام چیزوں کیلئے جو ہمارے لیے واضح و آشکار نہیں ہیں، امام حسین کا نورِ مبارک، آفتاب کی مانند تابناک و درخشاں ہے۔ اگر انسان اِس نورِ آفتاب کے زیر سایہ زندگی بسر کرے تو اُس کا یہ قدم بہت سود مند ہوگا۔
توجہ کیجئے کہ امام حسین نہ صرف یہ کہ فرزند پیغمبر ۰ تھے بلکہ علی ابن ابی طالب و فاطمہ زہرا ٭ کے بھی نور چشم تھے اور یہ وہ چیزیں ہیں کہ جو ایک انسان کو عظمت عطا کرتی ہیں۔ سید الشہدا عظیم خاندان نبوت، دامن ولایت و عصمت اور جنتی اور معنوی فضاو ماحول کے تربیت یافتہ تھے لیکن اُنہوں نے صرف اسی پر ہی اکتفا نہیں کیا۔ جب حضرت ختمی مرتبت ۰ کا وصال ہوا تو آپ کی عمر مبارک آٹھ ، نو برس کی تھی اور جب امیر المومنین نے جام شہادت نوش کیا تو آپ سینتیس یا اڑتیس سال کے نوجوان تھے۔ امیر المومنین کے زمانہ خلافت میں کہ جو امتحان و آزمایش اور محنت و جدوجہد کا زمانہ تھا، آپ نے اپنے پدر بزرگوار کے زیر سایہ اپنی صلاحیتوں اور استعداد کو پروان چڑھانے میں بھرپور محنت کی اور ایک مضبوط و مستحکم اور درخشاں و تابناک شخصیت کی حیثیت سے اُبھرے۔
اگر ایک انسان کا حوصلہ اور ہمت ہمارے جیسے انسانوں کی مانند ہو تو وہ کہے گا کہ بس اتنی ہمت و حوصلہ کافی ہے، بس اتنا ہی اچھا ہے اور خدا کی عبادت اور دین کی خدمت کیلئے ہمت و حوصلے کی اتنی مقدار ہمارے لیے کافی ہو گی لیکن یہ حسینی ہمت و حوصلہ نہیں ہے۔ امام حسین نے اپنے برادر بزگوار کے زمانہ امامت میں کہ آپ ماموم اور امام حسن امام تھے، اپنی پوری طاقت و توانائی کو اُن کیلئے وقف کردیا تاکہ اسلامی تحریک کو آگے بڑھایا جاسکے ؛ یہ دراصل اپنے برادر بزرگوار کے شانہ بشانہ وظائف کی انجام دہی ، پیشرفت اور اپنے امامِ زمانہ کی مطلق اطاعت ہے اور یہ سب ایک انسان کیلئے عظمت و فضیلت کا باعث ہے۔ آپ امام حسین کی زندگی میں ایک ایک لمحے پر غور کیجئے۔ شہادت امام حسن کے وقت اور اُس کے بعد جو ناگوار حالات پیش آئے ، آپ نے اُن سب کا ثابت قدمی سے مقابلہ کیا اور تمام مشکلات کو برداشت کیا۔ امام حسن کی شہادت کے بعد آپ تقریباً دس سال اور چند ماہ زندہ رہے؛ لہٰذا آپ توجہ کیجئے کہ امام حسین نے واقعہ کربلا سے دس سال قبل کیا کام انجام دیئے۔
دین میں ہونے والی تحریفات سے مقابلہ
امام حسین کی عبادت اورتضرّع وزاری، توسُّل ، حرم پیغمبر ۰ میں آپ کا اعتکاف اور آپ کی معنوی ریاضت اور سیر و سلوک؛ سب امام حسین کی حیات مبارک کا ایک رُخ ہے۔ آپ کی زندگی کا دوسرا رُخ علم اور تعلیمات اسلامی کے فروغ میںآپ کی خدمات اور تحریفات سے مقابلہ کیے جانے سے عبارت ہے۔ اُس زمانے میں ہونے والی تحریف دین درحقیقت اسلام کیلئے ایک بہت بڑی آفت و بلا تھی کہ جس نے برائیوں کے سیلاب کی مانند پورے اسلامی معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب اسلامی سلطنت کے شہروں، ممالک اور مسلمان قوموں کے درمیان اِس بات کی تاکید کی جاتی تھی کہ اسلام کی سب سے عظیم ترین شخصیت پر لعن اور سبّ و شتم کریں۔ اگر کسی پر الزام ہوتا کہ یہ امیر المومنین کی ولایت و امامت کا طرفدار اور حمایتی ہے تو اُس کے خلاف قانونی کاروائی کی جاتی، ’’اَلقَتلُ بِالظَنَّةِ وَالآَخذُ بِالتُّهمَةِ
‘‘،(صرف اِس گمان و خیال کی بنا پر کہ یہ امیرالمو منین کا حمایتی ہے ، قتل کردیا جاتا اور صرف الزام کی وجہ سے اُس کا مال و دولت لوٹ لیا جاتا اور بیت المال سے اُس کاوظیفہ بند کردیا جاتا)۔
اِن دشوار حالات میں امام حسین ایک مضبوط چٹان کی مانند جمے رہے اور آپ نے تیز اور برندہ تلوار کی مانند دین پر پڑے ہوئے تحریفات کے تمام پردوں کو چاک کردیا، (میدان منی میں) آپ کا وہ مشہور و معروف خطبہ اور علما سے آپ کے ارشادات یہ سب تاریخ میںمحفوظ ہیں اور اِس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ امام حسین اِس سلسلے میں کتنی بڑی تحریک کے روح رواں تھے۔
امر بالمعروف و نہی عن المنکر
آپ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بھی وسیع پیمانے پر انجام دیا اور یہ امر و نہی، معاویہ کے نام آپ کے خط کی صورت میں تاریخ کے اوراق کی ایک ناقابل انکار حقیقت اور قابل دید حصّہ ہیں۔ اتفاق کی بات تو یہ ہے کہ اِ س خط کو کہ جہاں تک میرے ذہن میں ہے، اہل سنت مورخین نے نقل کیا ہے، یعنی میں نے نہیں دیکھا کہ شیعہ مورخین نے اُسے نقل کیا ہویا اگر نقل بھی کیا ہے تو سنی مورخین سے نقل کیا ہے۔ آپ کا وہ عظیم الشّان خط اور آپ کا مجاہدانہ اور دلیرانہ انداز سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر انجام دینا دراصل یزید کے سلطنت پر قابض ہونے سے لے کر مدینے سے کربلا کیلئے آپ کی روانگی تک کے عرصے پر مشتمل ہے۔ اِس دوران آپ کے تمام اقدامات، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر تھے۔ آپ خود فرماتے ہیں کہ’’اُرِیدُ اَن آمُرَ باِلمَعرُوفِ و اَنهٰی عَنِ المُنکَرِ
‘‘، ’’میں نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
زندگی کے تین میدانوں میں امام حسین کی جدوجہد
توجہ فرمائیے کہ ایک انسان مثلا امام حسین اپنی انفرادی زندگی _ تہذیب نفس اور تقوی_ میں بھی اتنی بڑی تحریک کے روح رواں ہیں اورساتھ ساتھ ثقافتی میدان میں بھی تحریفات سے مقابلہ، احکام الہی کی ترویج و اشاعت ، شاگردوں اور عظیم الشان انسانوں کی تربیت کو بھی انجام دیتے ہیںنیز سیاسی میدان میں بھی کہ جو اُن کے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے عبارت ہے، عظیم جدوجہد اور تحریک کے پرچم کو بھی خود بلند کرتے ہیں۔ یہ عظیم انسان انفرادی ، ثقافتی اور سیاسی زندگی میں بھی اپنی خود سازی میں مصروف عمل ہے۔
امام حسین کی حیا ت طیبہ کا اجمالی جا ئزہ
امام حسین کی زندگی کے تین دور
سب سے پہلے مرحلے پر یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ واقعہ کتنا عظیم ہے تاکہ اِس کہ علل و اسباب کو تلاش کیا جائے۔ کوئی یہ نہ کہے کہ واقعہ کربلا میں صرف قتل ہوا ہے اور چند افراد قتل کردیے گئے ہیں۔ جیسا کہ ہم سب زیارت عاشورا میں پڑھتے ہیں کہ ’’لَقَد عَظُمَتِ الرَّزِيَّةُ وَ جَلَّت وَ عَظُمَتِ المُصِیبَةُ
‘‘۔ یہ مصائب و مشکلات بہت بڑی تھیں۔ ’’رزیۃ‘‘ یعنی بہت عظیم حادثہ؛ یہ حادثہ اور واقعہ بہت عظیم اور کمر توڑ دینے والا اور اپنی نوعیت کا بے نظیر واقعہ ہے ۔ لہٰذا اِس واقعہ کی عظمت و بزرگی کا اندازہ لگانے کیلئے میں سید الشہدا کی حیات طیبہ سے تین ادوار کو اجمالی طور پر آپ کے سامنے بیان کرتا ہوں۔ آپ ملاحظہ فرمائیے کہ سید الشہدا کی حیات کے اِن تین ادوار کا مطالعہ کرنے والا شخص اِن تینوں زمانوں میں ایک ایسی شخصیت کو سامنے پاتا ہے کہ جس کیلئے یہ گمان بھی نہیں کیا جاسکتا ہے کہ نوبت یہاں تک جا پہنچے گی کہ اِس شخصیت کے جدّ کی امت کے کچھ افراد روز عاشورا اُس کا محاصرہ کرلیں اور اُسے اور اُس کے اصحاب و اہل بیت کا نہایت سفاکانہ اور دردناک طریقے سے قتل عام کریں اور خواتین کو اسیر و قیدی بنالیں!
اِن تینوں زمانوں میں سے ایک دور پیغمبر اکرم ۰ کی حیات کا زمانہ ہے ، دوسرا زمانہ آپ کی جوانی یعنی رسول اکرم ۰ کے وصال کے بعد پچیس سال اور امیر المومنین کی حکومت تک کا زمانہ ہے جبکہ تیسرا زمانہ امیر المومنین کی شہادت کے بعد بیس سال کے عرصے پر محیط ہے۔
دورِ طفولیت
پیغمبر اکرم ۰ کی حیات طیبہ کے اِس نورانی دور میں امام حسین حضرت ختمی مرتبت ۰ کے نور چشم تھے۔ پیغمبر اکرم ۰ کی ایک صاحبزادی تھیں بنام فاطمہ کہ اُس زمانے کے تمام مسلمان جانتے تھے کہ پیغمبر اکرم ۰ نے اُن کے بارے میں فرمایا کہ ’’اِنَّ اللّٰهَ لِيَغضِبَ لِغَضَبِ فَاطِمَة وَ يَرضی لِرِضَاهَا
‘‘
، ’’اگر کس ی نے فاطمہ کو غضبناک کیا تو اُس نے غضب خدا کو دعوت دی ہے اور اگر کسی نے فاطمہ کو خوش کیا تو اُس نے خدا کو خوشنود کیا‘‘۔ توجہ فرمائیے کہ یہ صاحبزادی کتنی عظیم المرتبت ہے کہ حضرت ختمی مرتبت ۰ مجمع عام میں اور کثیر تعداد کے سامنے اپنی بیٹی کے بارے میں اِس طرح گفتگو فرماتے ہیں؛ یہ کوئی عام بات نہیں ہے۔
پیغمبر اکرم ۰ نے اپنی اِس بیٹی کا ہاتھ اسلامی معاشرے کے اُس فرد کے ہاتھ میں دیا کہ جو عظمت و بلندی اور اپنی شجاعت و کارناموں کی وجہ سے بہت بلند درجے پر فائز تھا، یعنی علی ابن ابی طالب ۔ یہ جوان، شجاع ، شریف، سب سے زیادہ با ایمان، مسلمانوں میں سب سے زیادہ شاندار ماضی کاحامل، سب سے زیادہ شجاع اور تمام نبرد و میدان عمل میں آگے آگے تھا ۔ یہ وہ ہستی ہے کہ اسلام جس کی شمشیر کا مرہونِ منت ہے، یہ جوان ہر اُس جگہ آگے آگے نظر آتا ہے کہ جہاں سب (بڑے بڑے سورما اور دلیر)پیچھے رہ جاتے ہیں، اپنے مضبوط ہاتھوں سے گھتّیوں کو سلجھاتا ہے اور راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کوتہس نہس کردیتا ہے؛ یہ وہ عزیز ترین اور محبوب ترین داماد ہے کہ جسے خدا کے آخری رسول ۰ نے اپنی بیٹی دی ہے ۔ اُس کی یہ محبوبیت رشتہ داری اور اقربا پروری اور اِسی جیسے دیگر امور کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اُس شخصیت کی عظمت کی وجہ سے ہے۔ اِس عظیم جوان اور اِس عظیم المرتبت بیٹی سے ایک ایسا بچہ جنم لیتا ہے کہ جو حسین ابن علی کہلاتاہے۔
البتہ یہی تمام باتیں اور عظمتیں امام حسن کے بارے میں بھی ہیں لیکن ابھی ہماری بحث صرف سید الشہدا کے بارے میں ہے۔ حسین ابن علی ،پیغمبر اکرم ۰ کے نزدیک لوگوں میں سب سے زیادہ عزیزہیں۔ حضرت ختمی مرتبت ۰ جو دنیائے اسلام کے سربراہ ، اسلامی معاشرے کے حاکم اور تمام مسلمانوں کے محبوب رسول اور قائد ہیں، اِس بچے کو اپنی آغوش میں لیتے ہیں اور اُسے اپنے ساتھ مسجد میں لےجاتے ہیں۔ سب ہی یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ بچہ ، تمام مسلمانوں کی محبوب ترین ہستی کے دل کا چین، آنکھوں کا نور اور اُس کا محبوب ہے۔ رسول اکرم ۰ ، منبر پر خطبہ دینے میں مصروف ہیں، اِس بچے کا پیر کسی چیز سے الجھتا ہے اور زمین پر گر جاتا ہے ، پیغمبر اکرم ۰ منبر سے نیچے تشریف لاتے ہیں، اُسے اپنی گود میں اٹھا کر پیار اور نوازش کرتے ہیں؛ یہ ہے اِس بچے کی اہمیت و حقیقت!
پیغمبر اکرم ۰ نے چھ سات سال کے امام حسن اور امام حسین کے متعلق فرمایا کہ ’’سَيِّدی شَبَابِ اَهلِ الجَنَّةِ
‘‘
یہ دونوں جوانان جنت کے سردار ہیں ۔ (یا رسول اللہ!) یہ تو ابھی بچے ہیں، ابھی تو سن بلوغ کوبھی نہیں پہنچے اور انہوں نے جوانی کی دہلیزمیں ابھی تک قدم نہیں رکھا ہے؛ لیکن رسول اکرم ۰ فرماتے ہیں کہ یہ جوانان جنت کے سردار ہیں یعنی یہ بچے چھ سات سال میں بھی ایک جوان کی مانند ہیں، یہ سمجھتے ہیں، ادراک رکھتے ہیں ،عملی اقدام کرتے ہیں اور شرافت و عظمت اِن کے وجود میں موجزن ہے۔ اگر اُسی زمانے میں کوئی یہ کہتا کہ یہ بچہ، اِسی پیغمبر کی اُمت کے ہاتھوں بغیر کسی جرم و خطا کے قتل کردیا جائے گا تو اُس معاشرے کا کوئی بھی شخص اِس بات کو ہرگز تسلیم نہیں کرتا۔ جیسا کہ پیغمبر ۰ نے یہ فرمایا اور گریہ کیا تو سب افراد نے تعجب کیا کہ کیا ایسا بھی ہوسکتا ہے؟!
____________________