امام حسين علیہ السلام دل رُبائے قلوب

امام حسين علیہ السلام دل رُبائے قلوب0%

امام حسين علیہ السلام دل رُبائے قلوب مؤلف:
زمرہ جات: امام حسین(علیہ السلام)

امام حسين علیہ السلام دل رُبائے قلوب

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حضرت آيت اللہ العظميٰ خامنہ اي حَفَظَہُ اللّٰہُ
زمرہ جات: مشاہدے: 12847
ڈاؤنلوڈ: 5496

امام حسين علیہ السلام دل رُبائے قلوب
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 22 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 12847 / ڈاؤنلوڈ: 5496
سائز سائز سائز
امام حسين علیہ السلام دل رُبائے قلوب

امام حسين علیہ السلام دل رُبائے قلوب

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


امام حسين علیہ السلام دل رُبائے قلوب

ہدف کے حصول میں امام حسین کا عزم وحوصلہ اور شجا عت

دشمن کے خلاف جنگ کی بہترین حکمت عملی

میرے دوستو! ایسا انسان اسوہ عمل قرار دیئے جانے کا حقدار ہے۔ یہ تمام باتیں اور یہ (انفرادی ، ثقافتی اور سیاسی میدان اور اِن میں آپ کی فعالیت) واقعہ کربلا سے قبل ہے۔ ان تینوں مراحل میں امام حسین نے ایک لمحے کیلئے توقف نہیں فرمایا اور ہر آن و ہر لمحے اپنے ہدف کی جانب بڑھتے رہے۔ لہٰذا ہمیں بھی کسی بھی لمحے کو ضایع نہیں کرنا چاہیے ممکن ہے وہی ایک لمحے کا توقف و آرام دشمن کے تسلط کا باعث بن جائے۔ دشمن ہماری کمزوریوں اور فصیل کے غیر محفوظ حصوںکی تلاش میں ہے تاکہ اندر نفوذ کرسکے اور وہ اِس بات کا منتظر ہے کہ ہم رُکیں اور وہ حملہ کرے۔ دشمن کے حملے کو روکنے اور اُسے غافل گیر کرنے کا سب سے بہترین راستہ آپ کا حملہ ہے اور آپ کی اپنے مقصد کی طرف پیشقدمی اور پیشرفت دراصل دشمن پر کاری ضرب ہے۔

بعض افرا یہ خیال کرتے ہیں کہ دشمن پر حملے کا مطلب یہ ہے کہ انسان صرف توپ اور بندوق وغیرہ کو ہی دشمن کے خلاف استعمال کرے یا سیاسی میدان میں فریاد بلند کرے، البتہ یہ تمام امور اپنے اپنے مقام پر صحیح اور لازمی ہیں ؛جی بالکل لازمی ہے کہ انسان سیاسی میدان میں اپنی آواز دوسروں تک پہنچائے۔ بعض افراد یہ خیال نہ کریں کہ ہم ثقافت کی بات کرتے ہیں تو اِس کا مطلب دشمن کے خلاف فریاد بلند کرنا ہے تاکہ وہ اپنے ثقافتی حملوں کو روک دے،نہیں؛ البتہ یہ کام اپنی جگہ درست اور لازمی ہے لیکن راہ حل صرف یہ ایک عمل نہیں ہے۔

انسان کا اپنے لیے ، اپنی اولاد، ماتحت افراد اور امت مسلمہ کیلئے تعمیر نو کے حوالے سے کام کرنا دراصل عظیم ترین کاموں سے تعلق رکھتا ہے ۔ دشمن مسلسل کوششیں کررہا ہے تاکہ کسی طرح بھی ہو سکے ہم میں نفوذ کرے؛ یہ تو نہیں ہوسکتا کہ دشمن ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دے! ہمارا دشمن اپنی تمام تر ظاہری خوبصورتی کے ساتھ ہمارے مقابلے پر ہے اور پورے مغربی استکبار اور اپنی منحرف شدہ جاہلانہ اور طاغوتی ثقافت کے ساتھ ہمارے سامنے موجود ہے۔ یہ دشمن کئی صدیوں قبل وجود میں آچکا ہے اور اِس نے پوری دنیا کے اقتصادی، ثقافتی ، انسانی اور سیاسی وسائل پر اپنے ہاتھ پیر جمالیے ہیں۔ لیکن اب اِسے ایک اہم ترین مانع_سچے اور خالص اسلام _کا سامنا ہے۔ یہ اسلام کھوکھلا اور ظاہری و خشک اسلام نہیں ہے کہ جس نے دشمن کا راستہ روکا ہے؛ ہاں ایک ظاہری اور کھوکھلا اسلام بھی موجود ہے کہ جس کے پیروکاروں کا نام صرف مسلمان ہے۔ یہ عالم استکبار اِن نام نہاد مسلمانوں کے ساتھ ہم نوالہ و ہم پیالہ ہے ،یہ مل کر آپس میں گپ لگاتے ہیں اور ظاہر سی بات ہے کہ انہیں ایسے مسلمانوں اور اسلام سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔

خالص اسلام کی نشانی

دشمن کی آنکھ کا کانٹا اور اُس کی راہ کی رکاوٹ دراصل وہ سچا اور خالص اسلام ہے کہ جسے قرآن روشناس کرتا ہے اور وہ ’’لَن يَجعَلَ اللّٰهُ لِلکَافِرِینَ عَلَی المُومنِینَ سَبِیلاً ‘‘ ،’’اللہ نے اہل ایمان پر کافروں کی برتری و فضیلت کی کوئی راہ قرار نہیں دی ہے‘‘ اور ’’اَن الحُکمُ اِلَّا لِلّٰهِ ‘‘ ،’’حکم صرف خدا ہی کا ہے‘‘ ،کا اسلام ہے۔ اگر آپ کسی دائرے کوتھوڑا سا کم کریں تو آپ دائرے کے مرکز سے نزدیک ہوجائیں گے، یعنی یہ واقعی اور خالص اسلام ’’اِنَّ اللّٰهَ اشتری مِنَ المُومِنِيْنَ اَنفُسَهُم و اَموالَهُم باَنَّ لَهُمُ الجَنَّةُ ‘‘ ،’’اللہ نے مومنین میں سے کچھ کی جانوں اور مالوں کو خرید لیا ہے اور اُن کیلئے جنت قرار دی ہے‘‘ ،کا اسلام ہے۔ یہ آپ لوگوںکا اسلام ہے کہ جن کے جسموں میں ابھی تک دشمن کی گولیاں موجود ہیں اورجو سرتاپا جہاد فی سبیل اللہ اور راہ خدا میں جنگ کا منہ بولتا ثبوت ہیں، خواہ وہ جنگ میں زخمی و معلول ہونے والے افراد ہوں یا شہدائ کے گھر والے ہوں یا پھر وہ لوگ جو درجہ شہادت پر فائز ہوئے یا الحمد للہ غازی بن کر میدان جنگ سے لوٹے؛ دشمن کی راہ کی اصلی رکاوٹ یہ لوگ ہیں۔

دشمن سے ہر صورت میں مقابلہ

ہمارا دشمن اِس رکاوٹ سے ہرگز غافل نہیں ہے اُس کی مسلسل کوشش ہے کہ اِ س رکاوٹ کو اپنی راہ سے ہٹادے لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اپنی بہترین حکمت عملی اور زیرکی سے دشمن کا مقابلہ کریں۔ مسلسل حرکت اور جدوجہد ہر صورت میں لازمی ہے،خودسازی اور تعمیر ذات کے میدان میں بھی کہ یہ تمام امور پر مقدم ہے، بالکل میرے اور آپ کے سرور و آقا حسین کی مانند اورسیاسی میدان میںبھی مسلسل حرکت کا جاری رہنا بہت ضروری ہے کہ جو امر بالمروف اور نہی عن المنکر اور سیاسی میدان میں ہماری مسلسل جدّوجہد اور ثابت قدمی سے عبارت ہے۔ دنیائے استکبار کے مقابلے میں جہاں لازم ہو وہاں اپنے سیاسی موقف کو بیان کرنا اور اُس کی وضاحت کرنا چاہیے۔ اِسی طرح یہ مسلسل حرکت اور جدوجہد ثقافتی میدان میں بھی ضروری ہے یعنی انسان سازی، خودسازی، فکری تعمیر اور صحیح و سالم فکر و ثقافت کی ترویج؛ اُن تمام افراد کا وظیفہ ہے کہ جو امام حسین کو اپنے لئے اسوہ عمل قرار دیتے ہیں۔ بہت خوشی کی بات ہے کہ ہماری قوم امام حسین کی بہت دلدادہ اور عاشق ہے اور امام حسین ہمارے نزدیک ایک عظیم المرتبت شخصیت کے مالک ہیں حتی غیر مسلم افرادکے نزدیک بھی ایسا ہی ہے۔

ظلمت و ظلم کے پورے جہان سے امام حسین کا مقابلہ

اب ہم واقعہ کربلا کی طرف رُخ کرتے ہیں ۔ واقعہ کربلا ایک جہت سے بہت اہم واقعہ ہے اورخود یہ مسئلہ اُن افراد کیلئے درس ہے کہ جو امام حسین کو اپنا آئیڈیل قرار دیتے ہیں۔

میرے دوستو ! توجہ کیجئے کہ واقعہ کربلا آدھے دن یا اِس سے تھوڑی سی زیادہ مدت پر محیط ہے اور اُس میں بہتر (۷۲ ) کے قر یب افراد شہید ہوئے ہیں ۔ دنیا میں اور بھی سینکڑوں شہدائ ہیں لیکن واقعہ کربلا نے اپنی مختصر مدت اور شہدائ کی ایک مختصر سی جماعت کے ساتھ اتنی عظمت حاصل کی ہے اور حق بھی یہی ہے ؛ بلکہ یہ واقعہ اِ س سے بھی زیادہ عظیم ہے کیونکہ اِس واقعہ نے وجود بشر کی گہرائیوں میں نفوذ کیا ہے اور یہ سب صرف اور صرف اِس واقعہ کی روح کی وجہ سے ہے۔ یہ واقعہ اپنی کمیت و جسامت کے لحاظ سے بہت زیادہ پُر حجم نہیں ہے، دنیا میں بہت سے چھوٹے بچے قتل کیے گئے ہیں جبکہ کربلا میں صرف ایک شش ماہ کا بچہ قتل کیا گیا ہے، دشمنوں نے بہت سی جگہ قتل عام کا بازار گرم کیا ہے اور سینکڑوں بچوں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے (جبکہ کربلا میں صرف ایک ہی بچہ قتل ہوا ہے اور یہ دوسرے بچوں کے قتل کی تعداد کے مقابلے میں ایک فیصد یا اس سے بھی کم ہے)؛ واقعہ کربلا اپنی کمیت کے لحاظ سے قابل توجہ نہیں بلکہ روح اور معنی کے لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے۔

روح کربلا

واقعہ کربلا کی روح و حقیقت یہ ہے کہ امام حسین اِ س واقعہ میں ایک لشکر یا انسانوں کی ایک گروہ کے مد مقابل نہیں تھے، ہرچند کہ وہ تعداد میںامام حسین کے چند سو برابر تھے،بلکہ آپ انحراف و ظلمات کی ایک دنیا کے مد مقابل کھڑے تھے اور اِ س واقعہ کی یہی بات قابل اہمیت ہے ۔ سالار شہیدان اُس وقت کج روی، ظلمت اور ظلم کی ایک پوری دنیا کے مقابلے میں کھڑے تھے اور یہ پوری دنیا تمام مادی اسباب و سائل کی مالک تھی یعنی مال و دولت، طاقت ، شعر، کتاب، جھوٹے راوی اور درباری ملا، سب ہی اُس کے ساتھ تھے اور جہان ظلم و ظلمت اور انحراف کی یہی چیزیں دوسروں کی وحشت کا سبب بنی ہوئی تھیں۔ایک معمولی انسان یا اُس سے ذرا بڑھ کر ایک اور انسان کا بدن اُس دنیا ئے ظلمت و ظلم کی ظاہری حشمت ، شان وشوکت اور رعب و دبدبہ کو دیکھ کر لرز اٹھتا تھا لیکن یہ سرور شہیداں تھے کہ آپ کے قدم و قلب اُس جہان شر کے مقابلے میں ہرگز نہیں لرزے ، آپ میں کسی بھی قسم کا ضعف و کمزوری نہیں آئی اور نہ ہی آپ نے (اپنی راہ کے حق اور مدمقابل گروہ کے باطل ہونے میں) کسی قسم کا شک وتردید کیا، (جب آپ نے انحرافات اور ظلم و زیادتی کا مشاہدہ کیا تو) آپ فوراً میدان میں اتر آئے۔ اس واقعہ کی عظمت کاپہلو یہی ہے کہ اس میں خالصتاً خدا ہی کیلئے قیام کیا گیا تھا۔

’’حُسَین مِنِّی وَاَنَا مِنَ الحُسَینِ ‘‘کا معنی

کربلا میں امام حسین کا کام بعثت میں آپ کے جد مطہر حضرت ختمی مرتبت ۰ کے کاموں سے قابل تشبیہ و قابل موازنہ ہے، یہ ہے حقیقت۔ جس طرح پیغمبر اکرم ۰ نے تن تنہا پوری ایک دنیا سے مقابلہ کیا تھا امام حسین بھی واقعہ کربلا میں جہانِ با طل کے مدمقابل تھے؛ حضرت رسول اکرم ۰ بھی ہرگز نہیں گھبرائے ، راہ حق میں ثابت قدم رہے اور منزل کی جانب پیشقدمی کرتے رہے، اسی طرح سید الشہدا بھی نہیں گھبرائے، ثابت قدم رہے اور آپ نے دشمن کے مقابل آکر آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔ تحریک نبوی ۰ اور تحریک حسینی کا محور و مرکز ایک ہی ہے اور دونوں ایک ہی جہت کی طرف گامزن تھے۔ یہ وہ مقام ہے کہجهاں’’حُسَین مِنِّی وَاَنَا مِنَ الحُسَینِ ‘‘ کا معنی سمجھ میں آتا ہے ۔ یہ ہے امام حسین کے کام کی عظمت۔

قیام امام حسین کی عظمت!

امام حسین نے شب عاشور اپنے اصحاب و انصار سے فرمایا تھا کہ’’ آپ سب چلے جائیے اور یہاں کوئی نہ رہے ، میں اپنی بیعت تم سب پر سے اٹھالیتا ہوں اور میرے اہل بیت کو بھی اپنی ساتھ لے جاو، کیونکہ یہ میرے خون کے پیاسے ہیں‘‘۔ امام حسین کے یہ جملے کوئی مزاح نہیں تھے؛ فرض کیجئے کہ اگر اُن کے اصحاب قبول بھی کرلیتے اور امام حسین یکتا و تنہا یا دس افراد کے ساتھ میدان میں رہ جاتے تو آپ کے خیال میں کیا سید الشہدا کے کام کی عظمت کم ہوجاتی ؟ ہرگز نہیں ! وہ اُس وقت بھی اسی عظمت و اہمیت کے حامل ہوتے ۔ اگر اِن بہتر (۷۲ ) افراد ک ی جگہ بہتر ہزار افراد امام حسین کا ساتھ دیتے تو کیا اِن کے کام ا ور اُس تحریک کی عظمت کم ہوجاتی؟

امام حسین کی عظمت و شجاعت

امام حسین کے کام کی عظمت یہ تھی کہ آپ نے ظالم و جابر، خلافت رسول ۰ کے مدعی اور انحراف کے

پورے ایک جہان کے دباو کو قبول نہیں کیا۔ یہ وہ مقام ہے کہ جہاں معمولی نوعیت کے انسان اپنے مد مقابل طاقت کے ظاہری روپ اور ظلم کو دیکھ کر شک و تردید کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جیسا کہ بارہا عرض کیا ہے کہ عبداللہ ابن عباس جو ایک بزرگ شخصیت ہیں اور اسی طرح خاندان قریش کے افراد اِس تمام صورتحال پر ناراض تھے۔ عبداللہ ابن زبیر ۱ ، عبدا للہ ابن عمر ۱ ، عبدالرحمان ابن ابی بکر ۱ ، بڑے بڑے اصحاب کے فرزند اور خود بعض اصحاب کی بھی یہی حالت تھی۔ مدینے میں صحابہ کرام کی اچھی خاصی تعداد موجود تھی اور سب باغیرت تھے، ایسا نہیں ہے کہ آپ یہ خیال کریں کہ اُن میں غیرت نہیں تھی؛ یہ وہی اصحاب ہیں کہ جنہوں نے واقعہ کربلا کے بعد مدینہ میں رونما ہونے والے واقعہ حرّہ میں مسلم ابن عقبہ کے قتل عام کے مقابلے میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا اور جنگ کی ۔ یہ خیال نہ کیجئے کہ یہ لوگ ڈر و خوف کا شکار ہوگئے، ہرگز نہیں بلکہ وہ بہترین شمشیر زن و شجاع تھے۔

لیکن میدان جنگ میں قدم رکھنے کیلئے شجاعت بذاتِ خود ایک موضوع ہے جبکہ ایک پورے جہان سے مقابلے کیلئے شجاعت کا حامل ہونا ایک الگ مسئلہ ہے۔ امام حسین اِس دوسری شجاعت کے مالک تھے؛ یہی وجہ ہے کہ ہم نے بارہا تاکید کی ہے کہ امام خمینی ۲ کی تحریک دراصل امام حسین کی تحریک کی مانند تھی اور اُن کی تحریک دراصل ہمارے زمانے میں امام حسین کی تحریک کی ایک جھلک تھی اگر بعض لوگ یہ کہیں کہ امام حسین توصحرائے کربلا میں تشنہ شہید ہوئے جبکہ امام خمینی ۲ نے عزت و سربلندی کے ساتھ حکومت کی، زندگی بسر کی اور جب آپ کا انتقال ہوا تو آپ کی بے مثال تشییع جنازہ ہوئی! لیکن ہماری مراد یہ پہلو نہیں ہے؛ اِس واقعہ کربلا کی عظمت کا پہلو یہ ہے کہ امام حسین ایک ایسی طاقت و قدرت کے مد مقابل سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے کہ جو تمام مادی اسباب و وسائل کی مالک تھی۔ قبلاً آپ کی خدمت میں عرض کیا ہے کہ امام حسین کے دشمن کے پاس مال و دولت تھی ، وہ قدرت و طاقت کا مالک تھا، اسلحہ سے لیس سپاہی اس کی فوج میں شامل تھے اور ثقافتی و معاشرتی میدانوں کو فتح کرنے والے مبلغ و مروج اورمخلص افراد کا لشکر بھی اُس کے ساتھ تھا۔ کربلا قیامت تک پوری دنیا پر محیط ہے ، کربلا صرف میدان کربلا کے چند سو میٹر رقبے پر پھیلی ہوئی جگہ کا نام نہیں ہے۔ آج کی دنیائے استکبار و ظلم اسلامی جمہوریہ کے سامنے کھڑی ہے۔

امام حسین کا ہدف، اسلامی نظام اور اسلامی معاشرے کی تعمیر نو

آج میں نے نیت کی ہے روز عاشورا کے حوالے سے امام حسین کی تحریک کے بارے میں گفتگو کروں؛ امام حسین کی تحریک بہت ہی عجیب و غریب تحریک ہے۔ ہم سب کی زندگی سید الشہدا کی یادو ذکر سے لبریز و معطر ہے اور ہم اِس پر خدا کے شاکر ہیں ۔ اِس عظیم شخصیت کی تحریک کے متعلق بہت زیادہ باتیں کی گئی ہیں لیکن اِس کے باوجود انسان اِس بارے میں جتنا بھی غور وفکر کرتا ہے تو فکر و بحث اور تحقیق ومطالعہ کا میدان اتنا ہی وسعت پیدا کرتا جاتا ہے۔ اِس بے مثل و نظیر اورعظیم واقعہ کے متعلق بہت زیادہ گفتگو کی گئی ہے کہ جس کے بارے میں غوروفکرکرنا اور اُسے ایک دوسرے کیلئے بیان کرنا چاہیے۔

چند ماہ کی تحریک اور سو سے زیادہ درس

اِس واقعہ پر توجہ کیجئے؛ حضرت سید الشہدا اُس دن سے لے کے جب آپ نے مدینے سے اپنا سفر شروع کیا اور مکے کی جانب قدم بڑھائے، کربلا میں جام شہادت نوش کرنے تک اِن چند ماہ (۲۸ رجب تا ۱۰ محرم) م یں شاید انسان سو سے زیادہ درس عبرت کو شمار کرسکتا ہے؛ میں ہزاروں درس عبرت کہنا نہیں چاہتا اِس لئے کہ ہزاروں درس عبرت حاصل کیے جاسکتے ہیں کیونکہ ممکن ہے امام حسین کا ہر ہر اشارہ ایک درس ہو۔

یہ جو ہم نے بیان کیا ہے کہ سو سے زیادہ درس تو اِس کا مطلب ہے کہ ہم امام عالی مقام کے اِن تمام کاموں کا نہایت سنجیدگی اور توجہ سے مطالعہ کریں۔ اِسی طرح تحریک کربلا سے سو عنوان و سو باب اخذ کیے جاسکتے ہیں کہ جن میں سے ہر ایک باب، ایک قوم، ایک پوری تاریخ، ایک ملک ، ذاتی تربیت، معاشرتی اصلاح اور قرب خدا کیلئے اپنی جگہ ایک مکمل درس کی حیثیت رکھتاہے۔

اِن سب کی وجہ یہ ہے کہ حسین ابن علی کی شخصیت؛ ہماری جانیں اُن کے نام و ذکر پر فدا ہوں، دنیا کے تمام مقدس اور پاکیزہ افراد کے درمیان خورشید کی مانند روشن و درخشاں ہے، آپ ؛انبیائ، اولیائ ،آئمہ ، شہدائ اور صالحین کو دیکھئے اگر یہ ماہ و ستارے ہیں تو یہ بزرگوار شخصیت خورشید کی مانند روشن و تابناک ہے؛ لیکن یہ سو درسِ عبرت ایک طرف اور امام حسین کا اصلی اور اہم ترین درس ایک طرف۔

اصلی درس : سید الشہدا نے قیام کیوں کیا؟

میں آج کوشش کروں گا کہ اِس واقعہ کے اصلی درس کو آپ کے سامنے بیان کروں۔ ا س واقعہ کے دوسرے پہلوجانبی حیثیت رکھتے ہیں جبکہ اِس اصلی درس کو مرکزیت حاصل ہے کہ امام حسین نے قیام کیوں فرما یا تھا؟

امام حسین ؛آپ کی شخصیت مدینہ اور مکہ میں قابل احترام ہے اور یمن میں بھی آپ کے شیعہ اور محبین موجود ہیں لہٰذا کسی بھی شہر تشریف لے جائیے؛ یزید سے سروکار رکھنے کی آپ کو کوئی ضرورت نہیں ہے اور اس طرح یزید بھی آپ کو تنگ نہیں کرے گا! آپ کے چاہنے والے شیعوں کی اتنی بڑی تعداد موجود ہے، جائیے اُن کے درمیان عزت و احترام سے زندگی بسر کیجئے اور دل کھول کر اسلام کی تبلیغ کیجئے ! آپ نے یزید کے خلاف قیام کیوں کیا؟ اِس واقعہ کی حقیقت کیا ہے؟

یہ ہے اِس تحریک کربلا کا اصلی اور بنیادی سوال اور یہی اِس واقعہ کا اصلی درس ہے۔ ہم یہ دعوی نہیں کرتے کہ کسی اور نے اِن مطالب کو بیان نہیں کیا ہے؛کیوں نہیں ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اِس سلسلے میں بہت محنت سے کام کیا گیا ہے اور اس بارے میں نظریات کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ لیکن ہم جو مطالب آپ کی خدمت میں عرض کررہے ہیں یہ ہماری نظر میں اِس واقعہ کا ایک بالکل نیا پہلو ہے جو تازگی کا حامل اور اچھوتا پہلو ہے۔