امام حسين علیہ السلام دل رُبائے قلوب

امام حسين علیہ السلام دل رُبائے قلوب0%

امام حسين علیہ السلام دل رُبائے قلوب مؤلف:
زمرہ جات: امام حسین(علیہ السلام)

امام حسين علیہ السلام دل رُبائے قلوب

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حضرت آيت اللہ العظميٰ خامنہ اي حَفَظَہُ اللّٰہُ
زمرہ جات: مشاہدے: 12845
ڈاؤنلوڈ: 5496

امام حسين علیہ السلام دل رُبائے قلوب
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 22 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 12845 / ڈاؤنلوڈ: 5496
سائز سائز سائز
امام حسين علیہ السلام دل رُبائے قلوب

امام حسين علیہ السلام دل رُبائے قلوب

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


امام حسين علیہ السلام دل رُبائے قلوب

قیام کربلا کا فلسفہ

روز اربعین امام حسین کی زیارت میں ایک بہت ہی پُر معنٰی جملہ موجود ہے اور وہ یہ ہےکه’’ وَ بَذَلَ مُهجَتَهُ فِیکَ لِيَستَنقِذَ عِبَادَکَ مِنَ الجَهَالَةِ وَحَیرَةِ الضَّلَالَةِ ‘‘(۱) ،امام حس ین کی فدا کاری اور شہادت کے فلسفے کو اِس ایک جملے میں سمو دیا گیا ہے ۔اِس جملے میں ہم کہتے ہیں کہ ’’بار الھا! تیرے اِس بندے _ حسین ابن علی _ نے اپنے خون کو تیری راہ میں قربان کردیا تاکہ تیرے بندوں کو جہالت سے باہر نکالے اوراُنہیں گمراہی میں حیرت و سردگردانی سے نجات دے‘‘۔ دیکھئے کہ یہ کتنا پُر معنٰی جملہ ہے اور کتنے ہی عظیم مفاہیم اِس ایک جملے میں موجود ہیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ بشریت ہمیشہ شیطانی ہاتھوں میں بازیچہ بنی رہی ہے، بڑے چھوٹے شیطانوں کی ہمیشہ سے یہی کوشش رہی ہے کہ اپنے مقاصد تک رسائی کیلئے انسانوں اور قوموں کو قربان کردیں۔ آپ نے تاریخ میں اِن تمام حالات و واقعات کو خود دیکھا ہے اور جابر و ستمگر سلاطین کے حالات زندگی ، قوموں سے اُن کی روش و برتاو ، موجودہ دنیا کی حالت زار اور بڑی طاقتوں کے سلوک کا آپ نے بہ چشم دید مشاہدہ کیا ہے۔ انسان ، شیطانی مکرو فریب کے نشانے پر ہے لہٰذا اِس انسان کی مدد کرنی چاہیے اور بندگان الٰہی کی فریاد رسی کے اسباب فراہم کرنے چاہئیں تاکہ وہ خود کو جہالت کے اندھیروں سے نجات دے سکیں اور حیرت و سرگردانی سے خود کو باہر نکال سکیں۔

وہ کون ہے کہ جو ہلاکت کی طرف گامزن بشریت کی نجات کیلئے اپنے دست نجات کو پھیلائے ؟ وہ لوگ تو اِس سلسلے میں ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھائیں گے جو اپنی خواہشات نفسانی اور شہوتوں کے اسیر و غلام ہیں کیونکہ یہ لوگ خود گمراہ ہیں،لہٰذا جو لوگ اپنی خواہشات کے اسیر و غلام ہوں وہ بشریت کو کیسے نجات دے سکتے ہیں؟! یہ نجات دہندہ کوئی ایسا فردہو جو اِن سب کو نجات سے ہمکنار کرے یا لطف الٰہی اُن کے شامل حامل ہو اور اُن کا ارادہ مستحکم ہوجائے تاکہ خود کو خواہشات و شہوات کی اسیری کی زنجیروں سے رہائی دلاسکیں۔ وہ ذات جو بشر کو نجات ورہائی دے اُسے درگذر کا مالک ہونا چاہیے تاکہ ایثار و فداکاری سے کام لے سکے اور اپنی شیطانی شہوت و خواہشات کو چھوڑ دے، اپنی انانیت ، خود پرستی، خود خواہی، حرص ، ہوا وہوس، حسد، بُخل اور دیگر برائیوں کی قید سے باہر آکر گمراہی میں سرگرداں بشریت کی نجات کیلئے شمع روشن کرسکے۔

امام حسین کا ہدف اور اُس کی راہ میں حائل رکا وٹیں

کربلا کا خورشید لازوال اگرچہ محرم اور کربلا اور اُس کے عظیم نتائج کے بارے میں بہت زیادہ قیمتی گفتگو کی گئی ہے لیکن زمانہ جتنا جتنا آگے بڑھتا رہتا ہے کربلا کا خورشیدِ منور کہ جسے خورشید شہادت اور غریبانہ و مظلومانہ جہاد کے خورشید سے تعبیرکیا جاسکتا ہے اور جسے حسین ابن علی اور اُن کے اصحاب باوفا نے روشنی بخشی ہے ، پہلے سے زیادہ آشکار ہوتا جاتا ہے اور کربلا کی برکتیں اور فوائد پہلے سے زیادہ جلوہ افروز ہوتے رہتے ہیں۔ جس دن یہ واقعہ رونما ہوا اُس دن سے لے کر آج تک اِس واقعہ کے بنیادی اثرات بتدریج آشکار ہوتے جارہے ہیں۔ اُسی زمانے میں کچھ لوگوں نے اِس بات کو محسوس کیا کہ اُن کے ذمے کچھ وظائف عائد ہوتے ہیں؛ قیام توّابین اور بنی ہاشم و بنی الحسن کے طولانی مقابلے کے واقعات سامنے آئے، یہاں تک کہ بنو امیہ کے خلاف چلائی جانے والی بنو عباس کی تحریک دوسری صدی ہجری کے وسط میں چلائی گئی اور اِس تحریک نے عالم اسلام میں خصوصاً مشرقی ایران و خراسان وغیرہ کی طرف اپنے مبلّغین بھیجے اور یوں اُنہوں نے بنو امیہ کی نسل پرست اور ظالم و مستکبر حکومت کے قلع قمع کیلئے زمین ہموار کی، بالآخر بنو عباس کی تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ بنو امیہ کے خلاف بنو عباس کی تحریک امام حسین کے نام اور اُن کی مظلومیت کے نام سے شروع کی گئی، آپ تاریخ کا مطالعہ کریں تو مشاہدہ کریں گے کہ جب بنو امیہ کے مبلغین عالم اسلام کے گوشہ و کنار میں گئے تو اُنہوں نے حسین ابن علی کے خون ، اُن کی مظلومیت و شہادت، فرزند پیغمبر ۰ کے خون کے انتقام اور جگر گوشہ فاطمہ زہرا٭ کے سفاکانہ قتل کو بطور حربہ استعمال کیا تاکہ عوام میں اپنی تبلیغ و پیغام کو موثر بناسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں نے اُن کی بات قبول کی۔ اِس کام کیلئے بنو عباس نے (نفسیاتی جنگ لڑی اور) پانچ سو سال تک اپنے رسمی لباس اور پرچم کا رنگ سیاہ قرار دیا، اُنہوں کالے رنگ کے لباس کو امام حسین کی عزاداری کا رسمی لباس قرار دیا؛ بنو عباس اُس وقت یہ نعرہ لگاتے تھے کہ ’’ھَذَا حِدَادُ آلِ مُحَمَّدٍ ‘‘ ،یہ آل محمد ۰ کی عزاداری کا لباس ہے،بنو عباس نے اپنی تحریک اِس طرح شروع کی اور ایک بڑی تبدیلی کا باعث بنے۔ البتہ یہ لوگ خود منحرف ہوگئے اور بعد میں خود ہی بنو امیہ کے کاموں کو آگے بڑھانے لگے ،یہ سب کربلا کے اثرات اور نتائج ہیںاور پوری تاریخ میں ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ جو کچھ ہمارے زمانے میں وقوع پذیر ہوا وہ اِن سب سے زیادہ تھا، ہمارے زمانے میں ظلم و کفر پورے عالم پر مسلّط ہے اور قانون کی خلاف ورزی، عدل و انصاف کی پائمالی اور ظلم و ستم ایک قانون کی شکل میں بین الاقوامی سطح پر رائج ہے۔

معرفت کربلا، تعلیمات اسلامی کی اوج و بلندی اسلامی تعلیمات اور اقدار کا بہترین خزانہ یہاں ہے اور اِن اقدار و تعلیمات کی اُوج و بلندی ، معرفت کربلا ہے لہٰذا اِس کی قدر کرنی چاہیے اور ہماری خواہش ہے کہ ہم اِن تعلیمات کو دنیا کے سامنے پیش کریں۔ میرے دوستو! اور اے حسین ابن علی پر ایمان رکھنے والو! یہ امام حسین ہی ہیں جو دنیا کو نجات دے سکتے ہیں، صرف شرط یہ ہے کہ ہم کربلا کے چہرے اور اُس کی تعلیمات کو تحریف سے مسخ نہ کریں۔ آپ اِس بات کی ہرگز اجازت نہ دیں کہ تحریفی مفاہیم، خرافات اور بے منطق کام، لوگوں کے چشم و قلب کو سید الشہدا کے چہرہ پُرنور سے دور کردیں؛ ہمیں اِن تحریفات اور خرافات کا مقابلہ کرنا چا ہیے۔

میری مراد صرف دو جملے ہیں؛ ایک یہ کہ خود واقعہ کربلا اور سید الشہدا کی تحریک؛ منبر پر فضائل و مصائب بیان ہونے کی شکل میں اُسی قدیم وروایتی طور پر باقی رہے یعنی شب عاشورااور صبح و روز عاشورا کے واقعات کو بیان کیا جائے۔ عام نوعیت کے حادثات و واقعات حتی بڑے بڑے واقعات، زمانہ گذرنے کے ساتھ ساتھ اپنی تاثیر کھو بیٹھے ہیں لیکن واقعہ کربلا اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ اِسی منبر کی برکت سے آج تک باقی ہے، البتہ کربلا کے واقعات کو مستند طور پر بیان کرنا چاہیے۔ جیسا کہ مقاتل کی کتابوں مثلاً ابن طاوس کے مقتل ’’لہوف‘‘ اور شیخ مفید کی کتاب’’ ارشاد‘‘ میں بیان کیا گیا ہے، نہ کہ اپنی طرف سے جعلی، من گھڑت اور عقل و منطق سے دور (اور اہل بیت کی شان و منزلت کو کم کرنے والی) باتوں کے ذریعہ سے۔ مجلس اور حدیث و خطابت کو حقیقی معنی میں حدیث ۱ و خطابت ہونا چاہیے۔ خطابت، نوحہ خوانی، سلام و مرثیہ خوانی، ذکر مصائب اور ماتم زنی کے وقت کربلا کے واقعات اور سید الشہدا کے ہدف کو بیان کرنا چاہیے۔

امام حسین کے اہداف کا بیان وہ مطالب جو خود امام حسین کے کلمات میں موجود ہیں کہ

’’ما خَرَجتُ اَشِرًا وَلَا بَطَراً وَلَا ظَالِماً وَلَا مُفسِدًا بَل اِنَّمَا خَرَجتُ لِطَلَبِ الاِصلَاحِ فِی اُمَّةِ جَدِّی ‘‘، یا ی ہ جو آپ نے فرمایا کہ’’اَيُّها النَّاسُ اِنَّ رَسُولَ اللّٰهِ (صَلَّی اللّٰه عَلَیه وآلِه) قَالَ: مَن رَآَی سُلطَاناً جَآئِرًا مُستَحِلًّا لِحَرامِ اللّٰهِ نَاکِثًا لِعَهدِ اللّٰهِ ، مُخَالِفًا لِسُنَّةِ رَسُولِ اللّٰهِ يَعمَلُ فِی عِبَادِ اللّٰهِ بِالاِثمَ وَالعُدوَانِ ثُمَّ لَم يُغيِّر بِقَولٍ وَلَافِعلٍ کَانَ حَقًّا عَلٰى اللّٰهِ اَن يَدخُلَهُ مَدخَلَهُ ‘‘۔ آپ کا یہ حدیث نقل فرمانا خود ایک درس ہے یا یہ کہ آپ نے

نے یہ فر ما یا کہ ’’فمن کان با ذلاً فینا مھجتہ و موطناًعلی لقا ئِ اللہ نفسہ فلیر حل معنا‘‘،یہاں امام ملاقات خدا سے ملاقات کی گفتگو کررہے ہیں اور آپ کا ہدف،وہی خلقت بشر کا ہدف ہے یعنی ملاقات خدا۔’’یاَيُّهَا الاِنسَانُ اِنَّکَ کَادِح? اِلٰی رَبِّکَ کَدحًا فَمُلَا قِیهِ ‘‘،’’اے انسان!تجھے اپنے پرودگار کی

طرف سختیوں کے ساتھ سفر کرنا ہے اُس کے بعد تو اُس سے ملاقات کرے گا‘‘، اِن تمام زحمتوں اور سختیوں کا ہدف خدا سے ملاقات (فَمُلَاقِیہِ)ہے۔ جو بھی ملاقات خدا کیلئے تیار ہے اور اُس نے لقائ اللہ کیلئے اپنے نفس کو آمادہ کرلیا ہے،’’فَليَرحَل مَعَنَا ‘‘ ، ’’تو اُسے چاہیے کہ وہ ہمارے ساتھ چلے ‘‘؛اُسے حسین ابن علی کے ساتھ قدم بقدم ہوناچاہیے اور ایسا شخص گھر میں نہیں بیٹھ سکتا۔ اِن حالات میں دنیا اور اُس کی لذتوں سے لطف اندوز نہیں ہوا جاسکتا اور نہ ہی راہ حسین ابن علی سے غافل ہوا جاسکتا ہے لہٰذاہمیں ہر صورت میںامام حسین کے ساتھ ہمراہ ہونا پڑے گا۔ امام عالی مقام کے ساتھ ساتھ یہ قدم اٹھانااور اُن کے ہمراہ ہونا دراصل ہمارے اپنے اندرکی دنیایعنی نفس اور تہذیب نفس سے شروع ہوتا ہے اور اِس کا دائرہ معاشرے اور دنیا تک پھیل جاتا ہے لہٰذا اِن تمام باتوں کو بیان کرنا چاہیے۔ یہ سب سید الشہدا کے اہداف اور حسینی تحریک کا خلاصہ ہے۔(۲)

فداکاری اور بصیرت ، دفاع دین کے لازمی اصول

کربلا اپنے دامن میں بہت سے پیغاموں اور درسوں کو سمیٹے ہوئے ہے۔ کربلا کا درس یہ ہے کہ دین کی حفاظت کیلئے فداکاری سے کام لینا چاہیے اور راہ قرآن میں کسی چیز کی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ کربلا ہمیں درس دیتی ہے کہ حق و باطل کے میدانِ نبرد میں سب کے سب، چھوٹے بڑے ، مردو زن، پیر وجوان، باشرف و حقیر، امام اور رعایا سب ایک ہی صف میں میں کھڑے ہوجائیں اور یہ جان لیں کہ دشمن اپنی تمام ترظاہری طاقت و اسلحے کے باوجود اندر سے بہت کمزور ہے۔ جیسا کہ بنو امیہ کے محاذ نے اسیرانِ کربلا کے قافلےکے ہاتھوں کوفہ، شام اور مدینے میں نقصان اٹھایا اور سفیانی محاذ کی مانند شکست و نابودی اُس کا مقدر بنی۔

کربلا ہمیں درس دیتی ہے کہ دفاعِ دین کے میدان میں انسان کیلئے سب سے زیادہ اہم اور ضروری چیز ’’لازمی بصیرت‘‘ ہے۔ بے بصیرت افراد دھوکہ و فریب کا شکار ہوکرباطل طاقتوں کا حصہ بن جاتے ہیں اور اُنہیں خودبھی اِس بات کا شعور نہیں ہوتا؛ جیسا کہ ابن زیاد کے ساتھ بہت سے ایسے افراد تھے کہ جو فاسق و فاجر نہیں تھے لیکن وہ بصیرت سے خالی تھے۔یہ سب کربلا کے درس ہیں؛ البتہ یہی تمام درس کافی ہیں کہ ایک قوم کو ذلت کی پستیوں سے نکال کر عزت کی بلندیوںتک پہنچادیں۔ اِن درسوں میں اتنی قدرت ہے کہ یہ کفر و استکبار کو شکست سے دوچار کرسکتے ہیںکیونکہ یہ سب تعمیر زندگی کے درس ہیں ۔(۳)

حسینی ثبات قدم ا ور استقامت

سید الشہدا کے ثبات قدم اور اُن کی استقامت کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اُنہوں نے اِس بات کا قطعی فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ یزید اور اُس کی ظالم و جابر حکومت کے سامنے ہرگز تسلیم نہیں ہوں گے۔ امام حسین کا مقابلہ یہیںسے شروع ہوتا ہے کہ ایک فاسق و فاجر نظام حکومت کے مقابل اپنے سر کو ہرگز خم نہ کیا جائے کہ جس نے دین کو بالکل تبدیل کردیا تھا۔ امام نے مدینے سے اِسی نیت و قصد کے ساتھ حرکت کی تھی؛ مکہ پہنچنے کے بعد جب آپ نے اِس بات کا احساس کیا کہ کچھ یار و مددگار آپ کے ساتھ شامل ہوگئے ہیں تو آپ نے اپنے اِس قصد و نیت کے ساتھ ساتھ قیام کو بھی ہمراہ کرلیا۔ اگر آپ کویہ یارو اصحاب نہ بھی ملتے تب بھی آپ کی تحریک کا اصل مقصد ایک ایسی حکومت کے خلاف اعتراض کرنا اور اُس سے مقابلہ تھا کہ جو امام کے نزدیک اسلامی اصولوں کے مطابق ناقابل تحمل اور ناقابل قبول تھی۔ سید الشہدا کا سب سے پہلا اقدام یہ تھا کہ آپ اِس حکومت کے سامنے کھڑے ہوگئے؛ اِس قیام کے بعد امام حسین ایک کے بعد دوسری مشکلات کا سامنا کرنے لگے،چناچہ آپ کو ناگزیر طور پر مکہ سے نکلنا پڑا اور اِس کے بعد کربلا میں آپ کا محاصرہ کرلیا گیا۔ اِس کے بعد کربلا کا وہ دلخراش واقعہ پیس آیا کہ جس میں امام حسین کو مصائب نے سب سے زیادہ نشانہ بنایا۔

شرعی عذر، انسان کی راہ کی رکاوٹ

اُن من جملہ چیزوں میں سے جو انسان کو عظیم اہداف تک رسائی سے روک دیتے ہیں، ایک شرعی عذر ہے۔ انسان کو چاہیے کہ شرعی واجبات اور ذمہ داریوں کو انجام دے، لیکن جب ایک کام میں ایک بہت بڑا احتمال یا اعتراض واردہوجائے مثلاً اِس کام کی انجام دہی میں بہت سے افراد قتل کردیئے جائیں گے تو اِن حالات میں انسان یہ سوچتا ہے کہ اُس پر کوئی چیز واجب نہیں ہے اِس لیے کہ درمیان میں سینکڑوں بے گناہ افراد کی جانوں کا معاملہ ہے۔ آپ ملاحظہ کیجئے کہ سید الشہدا کے سامنے بھی ایسے بہت سے شرعی عُذر ایک ایک کرکے ظاہر ہوتے رہے کہ جو ایک سطحی نگاہ رکھنے والے انسان کو اُس کے راستے سے ہٹانے کیلئے کافی تھے۔

سب سے پہلا شرعی عذر ، کوفہ کے لوگوں کا پلٹ جانا اور حضرت مسلم کا قتل تھا۔ یہاں امام حسین کو یہ کہنا چاہیے تھا کہ اب شرعی عذر آگیا ہے اور جن لوگوں نے خود دعوت دی تھی اُنہوں نے خود ہی اپنا رُخ موڑ لیا لہٰذا اب کوئی کام واجب نہیں اور ذمہ داری ساقط ہو گئی ہے۔ ہم یہ چاہتے تھے کہ یزیدکی بیعت نہ کریں لیکن اب حالات کا رُخ کچھ اور ہے اور اِن اوضاع و احوال میں یہ کام انجام نہیں دیا جاسکتا اور لوگ بھی اِ س چیز کو برداشت نہیں کرسکتے، چنانچہ اب ہماری ذمہ داری ساقط ہے اور ہمارے پاس اب یزید کی بیعت کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ کار نہیں۔

دوسرا سامنے آنے والا شرعی عذرخود واقعہ کربلا ہے؛ اِس مقام پر بھی سید الشہدا ایک مسئلے کے روبرو ہونے کی بنا پر جذباتی انداز سے اس مسئلے کو حل کرسکتے تھے اور یہ کہتے کہ اِن خواتین اور بچوں میں اِس تپتے ہوئے صحرا کی گرمی اور سورج کی تمازت برداشت کرنے کی ہمت نہیں ہے ، لہٰذا اب اِن حالات میں ہم پرکوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی ہے اور اُنہوں نے جس چیز کو ابھی تک قبول نہیں کیا تھا اِن حالات اور عذر شرعی کی بنا پر قبول کرلیتے۔

تیسر عذرشرعی اُس وقت سامنے آیا کہ جب خود واقعہ کربلا میں روز عاشورا کا سورج طلوع ہوا اور دشمن نے حملہ کرنا شروع کیا تو اِس جنگ میں امام حسین کے بہت سے اصحاب شہید ہوگئے۔ اِس مقام پر بھی بہت سی مشکلات نے امام حسین کو آگھیرا تو آپ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ اب حالات نے رُخ موڑ لیا ہے اور اب اِس مقابلے کو جاری نہیں رکھا جاسکتا لہٰذا اب عقب نشینی کرنی چاہیے۔

چوتھا عذرشرعی اُس وقت پیش آیا کہ اُس وقت کہ جب آپ کو یقین ہوگیا کہ آپ شہید کر دیئے جائیں گے اورآپ کی شہادت کے بعد آل رسول ۰ اور آل علی کو نامحرموں کے درمیان قیدی بناکر صحرائے کربلا میں تنہا رہنا پڑے گا۔ یہاں عزت و ناموس کا مسئلہ پیش تھا لہٰذا سید الشہدا یہاں بھی ایک غیرت مند انسان کی طرح یہ کہہ سکتے تھے کہ اب عزت و ناموس کا مسئلہ درپیش ہے لہٰذا اب تو ذمہ داری بالکل ہی ساقط ہے اگر ہم اب بھی اِسی مقابلے کی راہ پر قدم اٹھائیں اور قتل ہوجائیں تو نتیجے میں خاندان نبوت اور آل علی کی خواتین اور بیٹیاں اور عالم اسلام کی پاکیزہ ترین ہستیاں ایسے دشمنوں کے ہاتھوں قیدی بن جائیں گی کہ جو عزت و شرف اورناموس کی الف ب سے بھی واقف نہیں ہیں لہٰذا حالات میں ذمہ داری ساقط ہے۔

محترم بھائیو اور بہنو! توجہ کیجئے، یہ بہت ہی اہم مطلب ہے لہٰذا اِس نظر وزاویے سے واقعہ کربلا میں بہت سنجیدگی سے غوروفکر کرنا چاہیے کہ اگر امام حسین شہادت حضرت علی اصغر ، بچوں کی تشنگی، جوانان بنی ہاشم کے قتل ، خاندان رسول ۰ کی خواتینِ عصمت و طہارت کی اسیری جیسے دیگر تلخ اور دشوار حالات و مصائب کے مقابلے میں ایک معمولی دیندار انسان کی حیثیت سے بھی نگاہ کرتے تو اپنے عظیم ہدف اور پیغام کو فراموش کردیتے؛ وہ کوفہ میں حضرت مسلم کی شہادت اور اُس کے بعد رُونما ہونے حالات سے لے کر روزِ عاشورا کے مختلف حوادث تک قدم قدم پر عقب نشینی کرسکتے تھے اور وہ یہ کہنے میں حق بجانب تھے کہ اب ہماری کوئی شرعی ذمہ داری نہیں ہے، بس اب ہمارے پاس یزید کی بیعت کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے۔ ’’اَلضَّرُورَاتُ تُبِیحُ المَعذُورَاتِ‘‘، وقت اور ضرورت ہر چیز کو اپنے لیے مباح اور جائز بنالیتے ہیں لیکن امام حسین نے ایسا ہرگز نہیں کیا ۔ یہ ہے امام حسین کا راہ خدا میں ثباتِ قدم او راستقامت !

شرعی عذر سے مقابلے میں استقامت کی ضرورت!

استقامت کا معنی یہ نہیں ہے کہ انسان ہر جگہ مشکلات و سختیوں کو برداشت کرے اور صبر سے کام لے۔ عظیم اور بڑے انسانوں کیلئے مشکلات کو تحمل کرنا اُن چیزوں کی نسبت آسان ہے جو شرعی، عرفی اور عقلی اصول ، قوانین کی روشنی میں ممکن ہے کہ مصلحت کے خلاف نظر آئیں لہٰذا ایسے امور کو تحمل اور برداشت کرنا عام نوعیت کی مشکلات اور سختیوں پر تحمل سے زیادہ دشوار اور مشکل ہے۔

ایک وقت ایک انسان سے کہا جاتا ہے کہ اِس راہ پر قدم نہ اٹھاو ورنہ تم کو شکنجہ کیا جائے اور تم کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا؛ وہ مضبوط ارادے کا مالک انسان یہ کہتا ہے کہ مجھے مختلف قسم کے شکنجوں کا سامنا کرنے پڑے گا تو اِس میں کیا بات ہے؟! اپنے سفر کو جاری رکھوں گا یا ایک آدمی سے کہا جاتا ہے کہ یہ کام نہ کرو ، ممکن ہے کہ اس کام کی انجام دہی کے نتیجے میں تم قتل کردیے جاو۔ مضبوط عزم و ارادے والایہ انسان کہتا ہے کہ قتل کردیا جاوں تو کردیا جاوں، اِس میں کیا خاص بات ہے؟ میں اپنے ہدف کی خاطر موت کو بھی خوشی خوشی گلے لگالوں گا لہٰذا میں اپنے سفر کو جاری رکھوں گا۔ ایک وقت انسان سے قتل ہونے ، شکنجہ ہونے اور مصائب و مشکلات کا سامنا کرنے کی بات نہیں کی جاتی بلکہ اُ س سے کہا جاتا ہے کہ یہ کام انجام نہ دو کیونکہ ممکن ہے کہ تمہارے اِس فعل کی وجہ سے دسیوں لوگوں کا خون بہایا جائے، یہاں تمہاری اپنی ذات کا مسئلہ نہیں بلکہ دوسروں کی جانوں کا معاملہ درپیش ہے چنانچہ تم نہ جاو، ممکن ہے کہ تمہارے اِس فعل کے نتیجے میں بہت سی خواتین ، مرد اور بچے سختی اور پریشانیوں کا شکار ہوجائیں ۔ یہی وہ جگہ ہے کہ جہاں اُن افراد کے پاوں لڑکھڑانے لگتے ہیں کہ جن کیلئے اپنے مقصد کے حصول کی راہ میں قتل ہونا کوئی اہم بات نہیں ہے۔ لہٰذا اِس مقام پر کسی کے پاوں نہیں لڑکھڑاتے تو اُسے سب سے پہلے مرحلے میں انتہائی اعلی درجے کی بصیرت کا مالک ہونا چاہیے اور وہ یہ سمجھے کہ وہ کیا بڑا کام انجام دے رہا ہے ۔ دوسرے مرحلے میں اُسے انتہائی قدرت نفس کا مالک ہونا چاہیے تاکہ اُس کا اندرونی خوف و ضُعف اُس کے پاوں کی زنجیر نہ بن جائے ۔ یہ وہ دو خصوصیات ہیں کہ جنہیں امام حسین نے کربلا میں عملی طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا۔ یہی وجہ ہے کہ واقعہ کربلا ایک تابناک اور روشن خورشید کی مانند پوری تاریخ پر جگمگا رہا ہے، یہ خورشید آج بھی اپنی کرنیں بکھیررہا ہے اور تاقیامت اسی طرح نور افشانی کرتا رہے گا۔(۴)

___________________

۱ زیارت اربعین، مفاتیح الجنان

۲حدیث سے مراد نئی با ت؛یعنی مراد یہ ہے کہ حدیث اور خطابت میں تعلیمات وقرآن واہل بیت کے نئے علمی مطالب، گوشوں ،زاویوں اور نئے پہلووں کو سامعین کے سامنے بیان کرنا چاہیے،جو اُن کی دینی معلومات میں اضا فے کے ساتھ ساتھ اُ ن کے ایمان ویقین کی پختگی کا سبب بنے۔(مترجم)

۳ آمد محرم پر علما، مبلغین اور نوحہ خواں حضرات سے خطاب ۳/ ۳/ ۱۳۷۴

۴ کمانڈروں اور مقاومت فورس کے ماتمی دستوں سے خطاب ۲۲/ ۴/ ۱۳۷۱