امام حسين علیہ السلام دل رُبائے قلوب

امام حسين علیہ السلام دل رُبائے قلوب0%

امام حسين علیہ السلام دل رُبائے قلوب مؤلف:
زمرہ جات: امام حسین(علیہ السلام)

امام حسين علیہ السلام دل رُبائے قلوب

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حضرت آيت اللہ العظميٰ خامنہ اي حَفَظَہُ اللّٰہُ
زمرہ جات: مشاہدے: 12851
ڈاؤنلوڈ: 5496

امام حسين علیہ السلام دل رُبائے قلوب
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 22 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 12851 / ڈاؤنلوڈ: 5496
سائز سائز سائز
امام حسين علیہ السلام دل رُبائے قلوب

امام حسين علیہ السلام دل رُبائے قلوب

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


امام حسين علیہ السلام دل رُبائے قلوب

کربلا اور عبرتیں

کربلا،جائے عبرت

کربلا درس وسبق لینے کے علاوہ ایک جائے عبرت بھی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ اِس واقعہ کو غور سے دیکھے تاکہ وہ عبرت حاصل کرسکے۔ کربلا سے عبرت لینے کا کیا مطلب ہے؟ یعنی تاریخ کا قاری اپنے آپ کا اُن حالات اور نشیب و فراز سے موازنہ کرے تاکہ وہ دیکھے کس حال و وضع میں ہے، کون سا امر اُس کیلئے خطرے کا باعث ہے اور کس امر کی انجام دہی اُس کیلئے لازمی و ضروری ہے ؟ اِسے عبرت لینا کہتے ہیں۔ یعنی آپ ایک راستے سے گزر رہے ہیں تو آپ نے ایک گاڑی کو دیکھا کہ جو الٹ گئی ہے یا اُس کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آیا ہے، وہ نقصان سے دوچار ہوئی ہے اور نتیجے میں اُس کے مسافر ہلاک ہوگئے ہیں۔ آپ وہاں رک کر نگاہ کرتے ہیں، اِ س لیے کہ اِس حادثے سے عبرت لیں تاکہ یہ معلوم ہو کہ تیز رفتاری اور غیر محتاط ڈرائیونگ کا انجام یہ حادثہ ہوتا ہے ۔ یہ بھی درس و سبق لینا ہے لیکن یہ درس از راہ عبرت ہے لہٰذا اِ س جہت سے واقعہ کربلا میں غور وفکر کرنا چاہیے۔(۱)

پہلی عبرت:مسلمانوں کے ہا تھوں نواسہ رسول ۰ کی شہادت!

واقعہ کربلا میں پہلی عبرت جو ہمیں اپنی طرف متوجہ کرتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم یہ دیکھیں کہ پیغمبر اکرم ۰

کے وصال کے بعد اسلامی معاشرے میں وہ کون سے حالات وقوع پذیر ہوئے کہ نوبت یہاں تک آپہنچی کہ امام حسین جیسی شخصیت، اسلامی معاشرے کی نجات کیلئے ایسی فدا کاری کی زندہ مثال قائم کرے۔ اگر ایسا ہوتا کہ امام حسین رسول اکرم ۰ کی وفات کے ایک ہزار سال بعد اسلامی ممالک میں اسلام کی مخالف و معاند اقوام کے اصلاح و تربیت کیلئے ایسی فداکاری کرتے تو یہ ایک الگ بات ہے لیکن یہاں امام حسین وحی کے مرکزیعنی مکہ و مدینہ جیسے عظیم اسلامی شہروںمیں انقطاعِ وحی کہ پچاس سال بعد ایسے اوضاع و حالات کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ اُن کی اصلاح کیلئے اپنی جان کو فداکرنے اور قربانی دینے کے علاوہ کوئی اور چارہ کار نہیں پاتے! مگر وہ کون سے حالات تھے کہ جن کیلئے امام حسین نے یہ احساس کیا کہ فقط اپنی جان کی قربانی ہی کے ذریعہ اسلام کو زندہ کرنا ممکن ہے واِلَّا سمجھو کہ پانی سر سے گزر گیا! عبرت کا مقام یہ ہے۔

ایسا اسلامی معاشرہ کہ جس کے رہبر اور پیغمبر ۰ مکۃ و مدینہ میں بیٹھ کر اسلام کے پرچم کو مسلمانوں کے ہاتھوں میں دیتے تھے اور وہ جزیرۃ العرب کے کونے کونے میں جاتے اور شام و ایران و روم اُن کے وجود سے کپکپاتے تھے اور انہیں دیکھتے ہی فرار کرجانے میں اپنی غنیمت سمجھتے تھے، یوں مسلمان فاتحانہ اندار میں واپس لوٹتے تھے؛ بالکل جنگ تبوک کی مانند۔ یہی اسلامی معاشرہ تھا کہ جس کی مسجدوں اور کوچہ و بازار میں تلاوت قرآن کی صدا ئیںبلند ہوتی تھی اور پیغمبر اکرم ۰ بہ نفس نفیس خود اپنی تاثیر گزار صدا اور لحن سے آیات الٰہی کو لوگوں کیلئے تلاوت کرتے تھے اور عوام کو ہدایت کے ذریعہ انہیں بہت تیزی سے راہ ہدایت پر گامزن کرتے تھے۔

اب پچاس سال بعد کیا ہوگیا کہ یہی معاشرہ اور یہی شہر، اسلام سے اتنے دور ہوگئے کہ حسین ابن علی جیسی ہستی یہ دیکھتی ہے کہ اس معاشرے کی اصلاح و معالجہ ، سوائے قربانی کے کسی اور چیز سے ممکن نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ قربانی پوری تاریخ میں اپنی مثل و نظیر نہیں رکھتی ہے۔ آخر کیا وجوہات تھیں اور کیا علل و اسباب تھے کہ جو اِن حالات کا پیش خیمہ بنے؟ مقام عبرت یہ ہے ۔

دوسری عبرت :اسلامی معاشرے کی آفت وبیماری

موجودہ زمانے میں ہمیں چاہیے کہ اِس جہت و زاویے سے غور وفکر کریں۔ آج ہم بھی ایک اسلامی معاشرہ رکھتے ہیں،ہمیں تحقیق کرنی چاہیے کہ اُس اسلامی معاشرے کو کون سی آفت و بلا نے آگھیرا تھا کہ جس کے نتیجے میں یزید اُس کا حاکم بن بیٹھا تھا ( اور لوگ اُسے دیکھتے اور جانتے بوجھتے ہوئے بھی خاموش تھے)؟ آخر کیا ہوا کہ امیر المومنین کی شہادت کے بیس سال بعد اُسی شہر میں کہ جہاں امیر المومنین حکومت کرتے تھے اور جو آپ کی حکومت کا مرکز تھا، اولاد علی کے سروں کو نیزوں پر بلند کرکے پھرایا جاتا ہے (اور آل نبی ۰ کی خواتین کو قیدی بناکر اُسی شہر کے بازاروں اور درباروں میں لایا جاتا ہے)؟ !

کوفہ کو ئی دین سے بیگانہ شہر نہیں تھا، یہ کوفہ وہی شہر ہے کہ جہاں کے بازاروں میں امیر المومنین اپنے دور حکومت میں تازیانہ اٹھا کر چلتے تھے اور مسلمانوں کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کیا کرتے تھے؛ رات کی تاریکی میں غریبوں اور مسکینوں کی مدد کرتے ، پردئہ شب میں مسجد کوفہ میں علی کی مناجات اور صدائے تلاوت قرآن بلند ہوتی تھی اورآپ دن کی روشنی میں ایک مقتدر قاضی کی مانند حکومت کی باگ دوڑ کو سنبھالتے تھے۔ آج اکسٹھ ہجری میں یہ وہی کوفہ ہے کہ جہاں آل علی کی خواتین کو قیدی بناکر بازاروں میں پھرایا جارہا ہے!!اِن بیس سالوں میں یہ کیا ہوا تھا کہ حالات یہاں تک پہنچ گئے تھے!

۱۔ اصل ی عامل؛معاشرتی سطح پر پھیلنے والی گمراہی اور انحراف

اگر ایک معاشرے میں ایک بیماری موجود ہو تو وہ بیماری اُس معاشرے کوکہ جس کے حاکم پیغمبر اکرم ۰ اور امیر المومنین جیسی ہستیاںہیں، صرف چند دہائیوں میں اُن خاص حالات سے دوچار کردے تو سمجھنالیناچاہیے کہ یہ بیماری بہت ہی خطرناک ہے، لہٰذا ہمیں بھی اِس بیماری سے ڈرنا اور خوف کھانا چاہیے۔

امام خمینی ۲ جو خود کو پیغمبر اکرم ۰ کے شاگردوں میں سے ایک ادنی شاگرد سمجھتے تھے ، اُن کیلئے یہ با ت باعث فخر تھی کہ وہ پیغمبر اکرم ۰ کے احکامات کا ادراک کریں، اُن پر عمل کریں اور اُن کی تبلیغ کریں۔ امام خمینی ۲ کجا اور حضرت ختمی مرتبت ۰ کجا! اُس معاشرے کے موسس و بانی خود پیغمبر اکرم ۰ تھے کہ جو آپ ۰ کے وصال کے چند سالوں بعد ہی اِس بیماری میں مبتلا ہوگیا تھا۔ ہمارے معاشرے کو بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ وہ کہیں اُس بیماری میں مبتلا نہ ہوجائے، یہ ہے عبرت کا مقام! ہمیں چاہیے کہ اُس بیماری کو پہچانیں (کہ اُس کی کیا علامات ہیں، اُس کے نتائج کیا ہیں اور بیمار بدن آخر میں کس حالت سے دوچار ہوتا ہے) اور اِس سے دوری و اجتناب کریں ۔

میری نظر میں کربلا کا یہ پیغام، کربلا کے دوسرے پیغاموں اورد رسوں سے زیادہ آج ہمارے لیے سب سے زیادہ ضروری ہے۔ ہمیں اُن علل و اسباب کو تلاش کرنا چاہیے کہ جس کی وجہ سے اُس معاشرے پر ایسی بلا نازل ہوئی تھی کہ دنیائے اسلام کی عظیم ترین شخصیت اور خلیفہ مسلمین حضرت علی ابن ابیطالب کے فرزند حسین ابن علی کے بریدہ سر کو اُسی شہر میں کہ جہاں اُن کے والد حکومت کرتے تھے، پھرایا جائے اور کوئی بھی صدائے احتجاج بلند نہ کرے! اُسی شہر سے کچھ افراد کربلا جائیں اورنواسہ رسول ۰ اور اُس کے اہل بیت اصحاب کو تشنہ لب شہید کردیں اور حرم امیر المومنین کو قیدی بنائیں!

اِس موضوع میں بہت زیادہ گفتگو کی گنجائش موجود ہے۔ میں اِس سوال کے جواب میں صرف ایک آیت قرآن کی تلاوت کروں گا۔ قرآن نے اِس جواب کو اِس طرح بیان کیا ہے اور اُس بیماری کو مسلمانوں کیلئے اِس انداز سے پیش کیا ہے اور وہ آیت یہ ہے۔ ’’فَخَلَفَ مِن بَعدِهِم خَلف اَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَ اتَّبَعُوا الشَّهوَاتَ فَسَوفَ يَلقَونَ غَيًّا ‘‘(۲) ،’’اور اُن کے بعد ا یک ایسی نسل آئی کہ جس نے نماز کو ضایع کیا اور شہوات و خواہشات کی پیروی کی تو یہ لوگ بہت جلد اپنی گمراہی کا نتیجہ دیکھیں گے‘‘۔

گمراہی اور انحراف کی اصل وجہ؛

ذکرخدا ا ور معنویت سے دوری اور خواہشات کی پیروی

اِس گمراہی اورعمومی سطح کے انحراف کے دوعامل اور عنصر ہیں؛ ایک ذکرِ خد سے دوری کہ جس کا مظہر نماز ہے، یعنی خدا اور معنویت کو فراموش کرنا، معنویت و روحانیت کو زندگی سے نکال دینا، خدا کی طرف توجہ، ذکر ، دعا و

توسل ، خدا کی بارگاہ میں طلب و تضرّع و زاری، توکّل اور خدائی حساب کتاب کو زندگی سے باہر نکال پھینکنا اور دوسرا عنصر’’وَاتَّبَعُوا الشَّهوَاتَ ‘‘ شہوت رانی کے پیچھے جانا ، ہوا و ہوس اور خواہشات کی پیروی یا با الفاظ دیگر دنیا طلبی، مال وثروت کی جمع آوری کی فکر میں پڑنا اور لذات دنیوی سے لُطف اندو زہو کرخداو قیامت کو فراموش کردینااور اِن سب امور کو ’’اصل‘‘ جاننا اور ہدف و مقصد کو فراموش کردینا۔

اصلی اور بنیادی درد: ہدف کے حصول کی تڑپ کا دل سے نکل جانا

یہ ہے اُس معاشرے کا بنیادی اور اصلی درد و تکلیف ؛ ممکن ہے ہم بھی اِس درد و بیماری میں مبتلا ہوجائیں۔

اگر ہدف کے حصول کی لگن و تڑپ اسلامی معاشرے سے ختم ہوجائے یا ضعیف ہوجائے ،اگر ہم میں سے ہر شخص کی فکر یہ ہو کہ وہ اپنا اُلّو سیدھا کرے، ہم دنیا کی دوڑ میں دوسروں سے کہیں عقب نہ رہ جائیں، دوسروں نے اپنی جیبوں کو بھرا ہے اور ہم بھی دونوں ہاتھ پھیلا پھیلا کر جمع کریں گے جب معاشرے کے افراداپنے انفرادی مفادات کو اجتماعی مفادات پر ترجیح دیں توظاہر سی بات ہے کہ اِس قسم کی تاویلات سے معاشرہ اجتماعی سطح پر اِس قسم کی بلاوں سے دُچار ہوگا۔

اسلامی نظام، عمیق ایمانوں ، بلند ہمتوں ، آہنی عزموں ، بلند و بالا اہداف کی رہائی کیلئے با مقصد شِعَاروں کو بیان کرنے اور اُنہیں اہمیت دینے اور زندہ رکھنے سے وجود میں آتا ہے، اِنہی امور کے ذریعہ اُس کی حفاظت کی جاتی ہے اوروہ اِسی راہ کے ذریعہ ترقی و پیش رفت کرتا ہے۔ اِن شِعَاروں کو کم رنگ کرنے، اُنہیں کم اہمیت شمار کرنے، انقلاب و اسلام کے اصول و قوانین سے بے اعتنائی برتنے اور تمام امور اور چیزوں کو مادّیت کی نگاہ سے دیکھنے اور سمجھنے کے نتیجے میں معلوم ہے کہ معاشرہ ایسے مقام پر جا پہنچے گا کہ اُس کی اجتماعی صورتحال یہی ہوگی۔اوائلِ اسلام میں بھی معاشرہ اِسی حالت سے دوچار تھا۔

جب خلافت کے معیار و میزان تبدیل ہوجائیں!

ایک وہ زمانہ تھا کہ جب مسلمانوں کیلئے تمام شعبہ ہائے زندگی میں اسلام کی پیش رفت، ہر قیمت پر رضائے الٰہی کا حصول، اسلامی تعلیمات کا فروغ اور قرآن و قرآنی تعلیمات سے آشنائی ضروری و لازمی تھی۔ حکومتی نظام اور تمام محکمے و ادارے ، زھد و تقوی کے حصول میں کو شاںاور دنیا و مافیھا اور خواہشات نفسانی سے بے اعتنائی برتنے کے سائے میں پیش پیش تھے۔ اِنہی حالات میں علی ابن ابیطالب جیسی ہستی خلیفہ بنتی ہے اور حسین ابن علی ایک ممتاز شخصیت کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔ اِس لیے کہ اِن ہستیوں میں دوسروں سے زیادہ ہدایت و راہنمائی اور امامت و خلافت کے معیارات وجود رکھتے تھے۔

جب تقوی، دُنیا سے بے اعتنائی اور راہ خدا میں جہاد؛ امامت و خلافت کا معیار ہوں اور ایسے افراد جو اِن صلاحیتوں کے مالک ہوں ، حکومتی باگ ڈور سنبھالیں اور زمام کار کو اپنے ہاتھوں میں لیں تو معاشرہ، اسلامی معاشرہ ہوگا۔ لیکن جب امامت و خلافت کے انتخاب کے معیار ہی تبدیل ہوجائیں اور سب سے زیادہ دنیا طلب ، سب سے زیادہ شہوتوں اور خواہشات کا اسیر و غلام ، شخصی منافع کو جمع کرنے کیلئے سب سے زیادہ عیار و چالاک اور حیلہ گر اور دوسروں کی نسبت صداقت و سچائی سے بیگانہ و ناآشنا فرد حکومت کی باگ ڈور سنبھالے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ عمر ابن سعد، شمر اور عبید اللہ ابن زیاد جیسے افراد زیادہ ہوں گے اور حسین ابن علی جیسے افراد کو مقتل میں بے دردی سے قتل کردیا جائے گا۔

دلوں میں تڑپ رکھنے والے افراد، معیاروں کو تبدیل نہ ہونے دیں

یہ دو جمع دواور چار کا قاعدہ ہے ۔ لہٰذا دلوں میں میں تڑپ رکھنے والے افراد اِس بات کا موقع ہی نہ آنے دیں کہ معاشرے میں خدا کی طرف سے مقرر کیے گئے معیار اور اقدار تبدیل ہوں۔ اگر انتخابِ خلیفہ کیلئے تقوی کا معیار معاشرے میں تبدیل کردیا جائے تو ظاہر سی بات ہے کہ حسین ابن علی جیسی با تقوی ہستی کا خون آسانی سے بہایا جاسکتا ہے۔ اگر امّت کی زِعامت و ہدایت کیلئے دنیاوی امور میں عیاری ومکاری، چاپلوسی، کوتاہی، ناانصافی، دروغگوئی اور اسلامی اقدار سے بے اعتنائی ، معیار بن جائے تو معلوم ہے کہ یزید جیسا شخص تخت سلطنت پر براجمان ہوجائے گا اور عبید اللہ ابن زیاد جیسا انسان ، عراق کی شخصیت اوّل قرار پائے گا۔ اسلام کا کام ہی یہ تھا کہ (زمانہ جاہلیت کے) اِن معیاروں کو تبدیل کرے اور ہمارے اسلامی انقلاب کا بھی ایک مقصد یہ تھا کہ بین الاقوامی سطح پر معروف و رائج باطل ،غلط اورمادّی معیاروں کے مقابل سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائے اور اُنہیں تبدیل کردے۔

آج کی دُنیا، کذب و دروغ، ظلم و ستم، شہوت پرستی اور معنوی اقدار پر مادی اقدار کو ترجیح دینے کی دُنیا ہے؛ یہ ہے آج کی دنیا اور اِس کی یہ روش صرف آج سے مخصوص نہیں ہے، دنیا میںصدیوں سے روحانیت رُوبہ زوال اور کمزور رہی ہے۔ اِس معنویت و روحانیت کو ختم کرنے کیلئے باقاعدہ کوششیں کی گئی ہیں؛صاحبانِ قدرت واقتدار، دولت پرستوں اور سرمایہ داروں نے مادی نظام کاایک جال پوری دنیا میں پھیلایا ہے کہ جس کی سربراہی امریکہ جیسی بڑی طاقت کررہی ہے۔ سب سے زیادہ جھوٹی، سب سے زیادہ مکّار، انسانی مقامات و درجات میں سب سے زیادہ بے اعتنائی برتنے والی،انسانی حقوق کو سب سے زیادہ پائمال کرنے والی اور دنیا کے انسانوں کیلئے سب سے زیادہ بے رحم حکومت اِس مادی نظام کا نظم و نسق سنبھالے ہو ئے ہے اور اِس کے بعد دوسری طاقتیں اپنے اپنے درجات کے لحاظ سے اِ س میں شریک ہیں؛ یہ ہے ہماری دنیا کی حالت۔(۳)

____________________

۱ وہ معاشرہ جس میں امام حسین پروان چڑھے اور سب نے پیغمبر اکرم ۰ کا عمل دیکھا کہ وہ امام حسین سے کتنا پیار کرتے تھے، حضرت علی و حضرت فاطمہ ٭ کی کیا کیا فضیلتیں ہیں! ۱۱ ہجری سے ۶۱ ہجری تک یہ کیا ہوگیا کہ یہی امت، حسین کو قتل کرنے کربلا آگئی۔ وہی لوگ جو کل تک امام حسین کی عظمتوں کے گن گاتے تھے آج اُن کے خون کے پیاسے بن گئے ہیں؟! ۵۰ سالوں میں یہ کون سا سیاسی، اجتماعی اور ثقافتی انقلاب آیا کہ حالات بالکل بدل گئے اور اسلام و قرآن پر ایمان رکھنے والے لوگ ، فرزند رسول ۰ کے قاتل بن گئے؟! لہٰذا واقعہ کربلا کو سیاسی اور ثقافتی حالات کے پس منظر میں دیکھناچاہیے کہ جوہم سب کیلئے درس عبرت ہو۔(مترجم)

۲ سورئہ مریم / ۵۹

۳ کمانڈروں اور بسیج مقاومت فورس کے ماتمی دستوں سے خطاب ۲۲/ ۴/۱۳۷۱

واقعہ کر بلا کے پس پردہ عوامل

کیا حالات پیش آئے تھے کہ کربلا کا واقعہ رونما ہوا؟

میں نے ایک مرتبہ عبرت ہائے کربلا کے عنوان پر کئی تقاریر کیں تھیں کہ جن میں مَیں نے کہا تھا کہ ہم اِس تاریخی حادثے سے سیکھے جا نے والے درسوں کے علاوہ عبرتیں بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ ’’درس‘‘ ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے جبکہ ’’عبرتیں‘‘ ہم سے یہ کہتی ہیں کہ کیا حادثہ پیش آیا ہے اور کون سے واقعہ کے وقوع پذیر ہونے کا امکان ہے۔

کربلاسے حاصل کی جانے والی عبرتیں یہ ہیں کہ انسان غور وفکر کرے کہ وہ اسلامی معاشرہ کہ جس کی سربراہی پیغمبر خدا ۰ جیسی ایک غیر معمولی ہستی کے پاس تھی اور آپ ۰ نے دس سال تک انسانی توان و طاقت سے مافوق اپنی قدرت اور وحی الٰہی کے بحر بیکراں سے متصل ہوتے ہوئے اور بے مثل و نظیر اور بے انتہا حکمت کے ساتھ دس سال تک اُس معاشرے کی راہنمائی فرمائی۔ آپ ۰ کے کچھ عرصے (پچیس سال) بعد ہی امیر المومنین حضرت علی نے اُسی معاشرے پر حکومت کی اور مدینہ اور کوفہ کو بالترتیب اپنی حکومت کا مرکز قرار دیا۔ اُس وقت وہ کیا حادثہ وقوع پذیر ہوا تھا اور بیماری کاکون سا جرثومہ اُس معاشرے کے بدن میں سرایت کر گیا تھا کہ حضرت ختمی مرتبت ۰ کے وصال کے نصف صدی اور امیر المومنین کی شہادت کے بیس سال بعد ہی اِسی معاشرے اور اِنہی لوگوں کے درمیان حسین ابن علی جیسی عظیم المرتبت ہستی کو اُس دردناک طریقے سے شہید کردیا جاتا ہے؟!

آخر وہ کون سے علل و اسباب تھے کہ جس کے با عث اتنا بڑا حادثہ رونما ہوا؟ یہ کوئی بے نام و نشان اور گمنام ہستی نہیں تھی بلکہ یہ اپنے بچپنے میں ایسا بچہ تھا کہ جسے پیغمبر اکرم ۰ اپنی آغوش میں لیتے تھے اوراُس کے ساتھ منبر پر تشریف لے کر اصحاب ۱ سے گفتگو فرماتے تھے۔

وہ ایک ایسا فرزند تھا کہ جس کے بارے میں خدا کے رسول ۰ نے یہ فرمایا کہ ’’حُسَینُ مِنِّی وَاَنَا مِنَ الحُسِینِ ‘‘،’’حسین مجھے سے ہے اور میں حسین سے ہوں‘‘ اور اِن پسر وپدر کے درمیان ایک مضبوط رشتہ اور رابطہ قائم تھا۔ یہ ایک ایسافرزند تھا کہ جس کا شمار امیر المومنین کے دورِحکومت کی جنگ و صلح کے زمانوں میں حکومت کے بنیادی ارکان میں ہوتا تھا اورجو میدان سیاست میں وہ ایک روشن و تابناک خورشید کی مانند جگمگاتا تھا ۔ اِس کے باوجود اُس اسلامی معاشرے کا حال یہ ہوجائے کہ پیغمبر اکرم ۰ کا یہی معروف نواسہ اپنے عمل، تقوی، باعظمت شخصیت، عزت و آبرو، شہرِ مدینہ میں اپنے حلقہ درس کہ جس میں آپ کے چاہنے والے، اصحاب اور دنیائے اسلام کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے شیعہ شرکت کرتے تھے، کے باوجودایسے حالات میں گرفتار ہوجائے کہ جس کا نہایت بدترین طریقے سے محاصرہ کر کے اُسے پیاسا قتل کردیا جائے۔نہ صرف یہ کہ اُسے قتل کرتے ہیں بلکہ اُس کے ساتھ تمام مردوں حتی اُس کے شش ماہ شیر خوار بچے کو بھی قتل کردیتے ہیںاور صرف اِسی قتل و غارت پر اکتفائ نہیں کرتے بلکہ اُس کے بیوی بچوں اور دیگر خواتین کو جنگی قیدیوں کی مانند اسیر بنا کر شہر شہر گھماتے ہیں؛آخر قصّہ کیا تھا اور کیا حالات رونما ہوئے تھے؟ یہ ہے مقام عبرت!

آپ ایسے معاشرے کا اُس نبوی معاشرے سے موازنہ کریں تاکہ آپ کو دونوں کا فرق معلوم ہوسکے۔ ہمارے معاشرے کے سربراہ اور حاکم ، امام خمینی ۲ تھے جو بلاشک و شبہ ہمارے زمانے کی عظیم ترین شخصیت میں شمار ہوتے تھے لیکن امام خمینی ۲ کجا اور پیغمبر اکرم ۰ کجا؟ حضرت ختمی مرتبت ۰ نے اُس وقت معاشرے میں ایک ایسی روح پھونکی تھی کہ اُن بزرگوار کی رحلت کے بعد بھی کئی دہائیوں تک پیغمبر ۰ کا چلایا ہوا کارواں اپنے راستے پر گامزن رہا۔ آپ یہ خیال نہ کریں کہ پیغمبر اکرم ۰ کے بعد ہونے والی فتوحات میں خود پیغمبر ۰ کی ذات اقدس کے روحانی وجود کا اثر باقی نہیں تھا؛ یہ رسول اکرم ۰ کے وجود ہی کی برکت تھی کہ جو آپ ۰ کی رحلت کے بعد بھی اسلامی معاشرے کو آگے بڑھارہی تھی۔ گویا پیغمبر اکرم ۰ اُس معاشرے کی فتوحات اور ہمارے معاشرے (اور انقلاب) میں تاثیر رکھتے تھے کہ جس کا نتیجہ اِس صورت میں نکلا ہے۔

میں ہمیشہ نوجوانوں ،یونیورسٹی اور دینی مدارس کے طالب علموں اور دیگر افراد سے یہی کہتا ہوں کہ نہایت سنجیدگی سے تاریخ کا مطالعہ کریں، بہت توجہ سے اِس میں غور وفکر کریں اور دیکھیں کہ کیا حادثہ رونما ہوا ہے!

’’تِلکَ اُمَّة قَد خَلَت ‘‘،’’وہ ایک اُمّت تھی جو گزر گئی‘‘، گذشتہ امتوں سے عبرت آموزی، قرآن ہی کی تعلیم اور درس کا حصہ ہے۔اِس حادثے کے بنیادی اسباب ، چند امور ہیں،مَیں اُن کا تجزیہ و تحلیل نہیں کرنا چاہتا بلکہ صرف اجمالی طور پر بیان کروںگا اور یہ محقق افراد کی ذمہ داری ہے کہ وہ سرجوڑ کر بیٹھیں اور ایک ایک جملے پرغور وفکر کریں۔

اصلی عامل: دنیا پرستی اور برائی و بے حسی کا رواج پانا

اِس تاریخی حادثے کا ایک اصلی سبب یہ ہے تھا کہ ’’دنیا پرستی اور برائی و بے حسی نے دینی غیرت اور ایمان کے احساسِ ذمہ داری کو چھین لیا تھا۔ یہ جو ہم اخلاقی ، اجتماعی ، اقتصادی ، سیاسی اور ثقافتی برائیوں سے مقابلے کیلئے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کیلئے اتنی تاکید کرتے ہیںتو اِس کی ایک اصل وجہ یہ ہے کہ یہ تمام برائیاں معاشرے کو بے حس بنادیتی ہیں۔ وہ شہر مدینہ جو پہلی اسلامی حکومت کا پہلا مرکز تھا، کچھ مدت بعد بہترین موسیقاروں، گانا گانے والوں اور معروف ترین رقاصاوں کے مرکز میں تبدیل ہوگیا تھااور جب دربار شام میں بہترین مغنّیوں اور گویوں کو جمع کیا جاتا تو شہر مدینہ سے بہترین موسیقاروں اور خوبصورت آواز رکھنے والے مغنّیوںکو بلایا جاتا تھا!

یہ جسارت و گناہ، رسول اکرم ۰ کی رحلت کے سو یا دوسو سال بعد انجام نہیں دیئے گئے بلکہ جگر گوشہ حضرت زہرا ٭ اور نور چشم پیغمبر اکرم ۰ کی شہادت کے زمانے کے قریب حتی شہادت سے بھی قبل معاویہ کے زمانے میں انجام پائے۔ یہی وجہ ہے کہ مدینۃ الرسول ۰ برائیوں اور گناہان کبیرہ کا مرکز بن گیا اور بڑی بڑی شخصیات ، اصحاب اور تابعین کی اولاد حتی خاندان بنی ہاشم کے بعض نوجوان اِن برائیوں میں گرفتار ہوگئے! اِس فاسد حکومت کے سرکردہ افراد یہ جانتے تھے کہ اُنہیں کیا کام کرنا ہے ،اُنہیں مسلمانوں کے کن حساس اورکمزور نکات پر انگلی رکھنی ہے اور لوگوں کو حکومت اور اُس کی سیاست سے غافل رکھنے کیلئے کن چیزوں کی ترویج کرنی ہے۔یہ بلا اور کیفیت صرف شہر مدینہ سے ہی مخصوص نہیں تھی بلکہ دوسرے شہر بھی اِسی قسم کی برائیوں میں مبتلا تھے۔

برائیوں کی گندگی سے اپنے دامن کو آلودہ نہ ہونے دیں

دین کی پیروی ، تقوی سے تمسک، پاکدامنی کی اہمیت اور معنویت کی قدر وقیمت کا اندازہ یہاں ہوتا ہے۔ یہ جو ہم بارہا موجودہ زمانے کے بہترین نوجوانوں کو تاکید کرتے ہیں کہ آپ برائیوں کی گندگی سے اپنا دامن بچائے رکھیںتو اِس کی وجہ یہی ہے۔ آج اِن نوجوانوں کی طرح کون ہے جوانقلابِ اسلامی کے اُصولوں اور اہداف کا دفاع کرنے والے ہیں؟ یہ بسیجی (رضا کار) واقعاً بہترین نوجوان ہیں کہ جو علم، دین اور جہاد میں سب سے آگے آگے ہیں، دنیا میں ایسے نوجوان آپ کو کہاں نظر آئیں گے؟ یہ کم نظیر ہیں اور دنیا میں اتنی کثیر تعداد میں آپ کو کہیںنہیں ملیں گے؛بنابریں ، برائیوں کے سیلاب اور اُس کی اونچی اونچی موجوں سے ہوشیار رہیں۔

آج الحمد للہ خداوند عالم نے اِس انقلاب کی قداست و پاکیزگی ا ور معنویت کو محفوظ بنایا ہوا ہے، ہمارے نوجوان پاک و طاہر ہیں لیکن وہ اِس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیں کہ زن، زر اور زمین، عیش پرستی اور دنیا کی لذتیں بہت خطرناک چیزیں ہیں کہ جو مضبوط دلوں اور مستحکم ارادے والے انسانوںکے پائے ثبات میں لرزش پیدا کرنے کیلئے کافی ہیں لہٰذا اِن امور اور اِن کے وسوسوں کا مقابلہ کرنے کیلئے قیام کرنا چاہیے۔ وہ جہادِ اکبر کہ جس کی اتنی تاکید کی گئی ہے،یہی ہے؛ آپ نے جہادِ اصغر کو بطریق احسن انجام دیا ہے اور اب آپ اِس منزل پرآ پہنچے ہیں کہ جہادِ اکبر کو اچھی طرح انجام دے سکیں۔

الحمد للہ آج ہمارے نوجوان، مومن، حزب اللّٰہی اور بہترین نوجوان ہیں لہٰذا اِس نعمت کی قدر کرنی چاہیے۔ دشمن چاہتا ہے کہ تمام مسلمان اقوام سے یہ نعمت چھین لے اور اُس کی خواہش ہے کہ مسلمان قومیں؛ عیاشی، ذلت و رسوائی اور غفلت کا شکار ہوجائیں، برائیوں اور گناہوں کا دریا اُنہیں اپنے اندر غرق کر دے اور بیرونی طاقتیں اُن پر اپنا تسلط جما لیں جیسا کہ انقلاب سے قبل ہمارے یہی حالات تھے اور آج بھی دنیا کے بہت سے ممالک میں یہی کچھ ہورہا ہے۔

دوسرا عامل: عالم اسلام کے مستقبل سے اہل حق کی بے اعتنائی

دوسرا عامل و سبب کہ جس کی وجہ سے یہ حالات پیش آئے اور جسے انسان آئمہ طاہرین کی زندگی میں بھی مشاہدہ کرتا ہے،وہ یہ تھا کہ اہل حق نے جو ولایت و تشیع کی بنیاد تصور کیے جاتے تھے ، دنیائے اسلام کی سرنوشت و مستقبل سے بے اعتنائی برتی، اِس سے غافل ہوئے اور اِس مسئلے کی اہمیت کو دل و دماغ سے نکال دیا۔ بعض افراد نے کچھ ایام کیلئے تھوڑی بہت بہادری اور جوش و خروش کا مظاہرہ کیا کہ جس پر حکام وقت نے سخت گیری سے کام لیا۔ مثلاً یزید کے دور حکومت میں مدینۃ النبی پر حملہ ہوا، جس پر اہلِ مدینہ نے یزید کے خلاف آواز اٹھائی تویزید نے اِن لوگوں کو سرکوب کرنے کیلئے ایک ظالم شخص کو بھیجاکہ جس نے مدینہ میں قتل عام کیا،نتیجے میں اِن تمام افراد نے حالات سے سمجھوتہ کرلیا اور ہر قسم کی مزاحمتی تحریک کو روک کربگڑتے ہو ئے اجتماعی مسائل سے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ البتہ اِن افراد میں سب اہل مدینہ شامل نہیں ہیں بلکہ تھوڑے بہت ایسے افرادبھی تھے کہ جن کے درمیان خود اختلاف تھا۔ یزید کے خلاف مدینے میں اٹھنے والی تحریک میں اسلامی تعلیمات کے برخلاف عمل کیا گیا، یعنی نہ اُن میں اتحاد تھا، نہ اُن کے کام منظم تھے اور نہ ہی یہ گروہ اور طاقتیں آپس میں مکمل طورپرایک دوسرے سے مربوط و متصل تھیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دشمن نے بے رحمی اورنہایت سختی کے ساتھ اس تحریک کا سرکچل دیا اور پہلے ہی حملے میں اِن کی ہمتیں جواب دے گئیں اور اُنہوں نے عقب نشینی کرلی؛ یہ بہت اہم اور قابل توجہ نکتہ ہے۔

آپس میں مقابلہ کرنے اور ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے والی حق و باطل کی طاقتوں کی جد و جہد بہت واضح سی بات ہے، جس طرح حق ،باطل کو ختم کرنا چاہتا ہے اُسی طرح باطل بھی حق کی نابودی کیلئے کوشاںرہتا ہے۔ یہ حملے ہوتے رہتے ہیں اور قسمت کا فیصلہ اُس وقت ہوتا ہے کہ جب اِن طاقتوں میں سے کوئی ایک تھک جائے اور جو بھی پہلے کمزور پڑے گا تو شکست اُس کا مقدر بنے گی۔(۱)

____________________

۱ ۳ شعبان روز پاسدار کی مناسبت سے اندرون ملک نظم و نسق اور امن و امان برقرار کرنے والی نیروئے انتظامی اور سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی سے خطاب ۲۶/۲/۱۹۹۶