کربلا میں پوشیدہ اسرار و رُموز
۱ ۔عوام کے سوئے ہوئے ضمیروں کی بیداری
امام حسین کی حیات مبارکہ میں ایک ایساپہلوموجو د ہے کہ جس نے ایک بہت ہی بلند وبالاپہاڑ کی مانند اطراف کی دیگر چیزوں کو اپنے دامن میں لیا ہوا ہے اور وہ’’ کربلا‘‘ ہے ۔ سید الشہدا کی زندگی میں اتنے اہم ترین واقعات ، مطالب ، احادیث ، خطبات اور پوری ایک تاریخ موجود ہے کہ اگر کربلا کا واقعہ رونمانہ بھی ہوتا توبھی آپ کی زندگی بقیہ دوسرے ہر معصوم کی مانند اسلامی احکامات اورروایات و احادیث کا منبع ہوتی لیکن واقعہ کربلا اتنا اہم ہے کہ آپ امام کی زندگی کے شاید ہی کسی اور پہلو یا واقعہ کو ذہن میں لائیں! واقعہ کربلا اتنا اہم ہے کہ آج روز ولادت باسعادت امام حسین کی زیارت یا دعا میں اُن کے بارے میں یوں نقل کیا گیا ہے کہ
’’بَکَتهُ السَمَآئُ وَمَن عَلیهَا‘‘
یا’’مَن فِیهَا
‘‘ اور ’’وَالاَرضُ وَمَن عَلَیهَا وَ لَمَّا يَطَآ لَا بَتَیهَا
‘‘
، ’’امام حس ین پر آسمان اور اہل آسمان و زمین اور اُس پر رہنے والوں نے گریہ کیا‘‘۔ سید الشہدا نے ابھی اِس جہان میں قدم نہیں رکھے ہیں لیکن زمین و آسمان نے اُن پر گریہ کیا، یہ واقعہ اتنی زیادہ اہمیت کا حامل ہے! یعنی تاریخ کے بے مثل و نظیر واقعہ کربلا اور شہادت عظمی کا درس اکسٹھ ہجری کے روزِ عاشورا سامنے آیالیکن یہ وہ واقعہ تھا کہ جس پرصدیوں سے زمین و آسمان کی نظریں جمی ہوئی تھیں، آخر یہ کیسا واقعہ تھا کہ جو پہلے سے مقدّر تھا؟ ’’اَلمَدعُوّ لِشَهادَتِهِ قَبلِ استِهلَا لِهِ وَ وِ لَادَتِهِ
‘‘ ،
’’قبل اِس کے کہ حس ین ابن علی دنیا میں قدم رکھیں اُنہیںدرجہ شہادت سے منسوب کیا جا تا اور شہید کے نام سے پکارا جاتا تھا‘‘۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ایک ایسا راز پوشیدہ ہے کہ جو ہمارے لیے ایک عظیم درس کی حیثیت رکھتا ہے۔
حضرت امام حسین کی شہادت سے متعلق بہت زیادہ گفتگو کی گئی ہے، اچھی بھی اور صحیح بھی اور ہر ایک نے اپنے فہم و ادراک کے مطابق اِس واقعہ کو سمجھا ہے۔ بعض نے اُسے حکومت کے حصول کے ہدف تک محدود کیا ہے، بعض نے اُسے دیگر مختلف مسائل تک بہت چھوٹا اور کم اہمیت والا بنا کر پیش کیا ہے جبکہ بعض ایسے افراد ہیںکہ جنہوں نے واقعہ کربلا کے عظیم پہلووں کو پہچانا، اُس پر گفتگو کی اور قلم اٹھایا کہ اِن میں سے میں کسی کو بھی بیان نہیں کرنا چاہتا؛وہ مطلب کے جسے بیان کرنامیرے مدّ نظر ہے، یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں ظہور کرنے والے اِس نئے مظہر ’’اسلام‘‘ کو اُس کے ظہور سے قبل یا ظہور کے آغاز سے لاحق خطرات کوپروردگار عالم کی طرف سے پہلے سے ہی بیان کردیا گیا تھا اور صرف یہی نہیں بلکہ اُن خطرات سے مقابلے کے وسائل کو بھی اسلام میںمدنظررکھاگیاتھا۔بالکل ایک صحیح وسالم بدن کی مانند کہ جس میں خداوند عالم نے اپنے دفاع کی قدرت اُس کے اندر رکھی ہے یا مثلاً ایک مشین کی مانند کہ جس کے موجد یا انجینئر نے اُس کی اصلاح کا وسیلہ اُس کے ساتھ رکھا ہے۔
دو قسم کے خطرات اور اُن سے مقابلے کی راہیں
اسلام اپنے ظہور سے ہی مختلف قسم کے خطرات کا سامنا کررہا ہے اور اُسے اِن خطرات کا مقابلہ کرنے کیلئے وسائل کی بھی ضرورت ہے ؛خداوند عالم نے اِن وسائل کو خود اسلام میں رکھا ہے۔
بیرونی دشمن
توجہ طلب بات یہ ہے کہ وہ خطرہ کیا ہے؟ دو بنیادی خطرے ہیں جو اسلام کو لاحق ہیں؛ اِن میں سے ایک بیرونی دشمنوں کا خطرہ ہے اور دوسرا اندرونی تباہی کا خطرہ۔بیرونی دشمن سے مراد یعنی سرحد پار مختلف قسم کے اسلحوں سے ایک نظام کے وجود، اُس کی فکر، اُس کی عقائدی بنیادوں، قوانین اور اُس کی تمام چیزوں کو اپنا نشانا بنانا۔ اِس خطرے کا آپ نے اسلامی جمہوریہ میں اپنی آنکھوں سے خود مشاہدہ کیا کہ دشمن نے یہ کہا کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ کے نظام کو صفحہ ہستی سے نابود کردیںاور بہت سے بیرونی دشمن تھے کہ جنہوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ اِس اسلامی نظام کو ختم کردیںگے۔ بیرونی دشمنوں سے کیا مراد ہے؟ بیرونی دشمن سے مرادصرف مخالف ملک ہی نہیں بلکہ ملکی نظام کے مخالف افرادبھی دشمن کے زُمرے میں آتے ہیں خواہ وہ ملک کے اندر ہی کیوں نہ ہوں۔
بہت سے ایسے دشمن بھی ہیں جو اِس نظام سے اپنی لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں اور اِس کے مخالف ہیں؛ یہ افراد بھی بیرونی دشمن ہی کے زمرے میںآتے ہیں۔ ہر قسم کے جدید ترین اسلحے، پروپیگنڈے اور اپنی دولت اور اپنے پاس موجود ہر چیز اور وسیلے کے ذیعہ اِس نظام کو نابو د کرنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں،یہ بھی ایک قسم دشمن ہے۔
اندرونی دشمن
دوسرا دشمن اور دوسری آفت ایک نظام کی اندرونی سطح پر ٹوٹ پھوٹ اور نابودی ہے اور یہ غیروں کی طرف سے نہیں ہوتی ہے بلکہ یہ نابودی ’’اپنوں‘‘ کے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہے۔ یہ ’’اپنے لوگ‘‘ ممکن ہے کہ ایک نظام میں رہتے ہوئے ذہنی اور فکری گمراہی ، صحیح راہ کی شناخت میںغلطی کا شکار ہونے، نفسانی خواہشات کے غالب آنے، مادی جلووں کو توجہ اور اہمیت دینے کی وجہ سے آفت کا شکار ہو جائیں، البتہ اِس کا خطرہ پہلے دشمن اور آفت کے خطرے سے بہت زیادہ ہے ۔ یہ دونوں قسم کے دشمن ? بیرونی اور اندرنی دشمن(آفت و بلا)? ہر نظام ومکتب کیلئے وجود رکھتے ہیں۔ اسلام نے اِن دونوں آفتوں کا مقابلہ کرنے کیلئے ’’جہاد‘‘ کو معین کیا ہے؛ جہاد صرف بیرونی دشمن کیلئے نہیں ہے۔’’جَاهِدِالکُفَّارَ وَالمُنَافِقِینَ
‘‘
،’’کفار اور منافق ین سے جہاد کرو‘‘،(کفار باہراور)منافق ہمیشہ ایک نظام و مکتب کے اندر رہ کر حملہ آور ہوتا ہے لہٰذا اِن سب سے جہاد کرنا چاہیے۔جہاد دراصل اُس دشمن سے مقابلہ ہے جو کسی بھی نظام پر یقین و اعتقاد نہ رکھنے اوراُس سے دشمنی کی وجہ سے اُس پر حملہ آور ہوتا ہے۔ اِسی طرح اندرونی سطح کی نابودی اور ٹوٹ پھوٹ کا مقابلہ کرنے کیلئے بہت ہی قیمتی اخلاقی تعلیمات موجود ہیں جو دُنیا کی حقیقت کو انسان کے سامنے کھل کر بیان کرتی ہیں،’’اِعلَمُوااَنَّمَا الحَيَاةُالدُّنيَالَعِب وَلَهو وَزِینَة و تَفَاخُر?بَینَکُم وَتَکَاثُر فِی الاَموَالِ وَاَولاَدِ ‘‘
’’ جان لو کہ دن یا کی زندگی صرف کھیل تماشا، ظاہری زینت، آپس میں فخر کرنا اور مال و اولادکی کثرت پر دنیوی فخر و مباہات کرنا ہے‘‘۔
صحیح ہے کہ دنیوی مال و دولت ، مادی جلوے، یہ دنیوی لذات آپ کے لیے لازمی ہیں، آپ اِن سے استفادہ کرنے میں مجبور ہیں اور آپ کی زندگی اِن سے وابستہ ہے ؛نیز اِس بات میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ آپ کو چاہیے کہ اِ ن کو اپنے لیے حاصل کریں لیکن ساتھ ہی یہ بھی جان لیں کہ اِن تمام دنیوی لذتوںو جلووں کو اپنا ہدف قرار دینا، اپنی اِن ضرورتوں کے پیچھے چشم بستہ حرکت کرنا اور اِن کے حصول اور اِن سے بہرہ مند ہونے کیلئے اپنے ہدف کو فراموش کردینا بہت خطرناک ہے۔
میدانِ جنگ کے شجاع ترین اور شیر دل انسان، امیر المومنین جب گفتگو فرماتے ہیں تو انسان اِس انتظار میں ہوتا ہے کہ اُن کی آدھی سے زیادہ گفتگو جہاد و جنگ اور قوتِ بازو کے بارے میں ہوگی لیکن جب ہم روایات اور نہج البلاغہ کے خطبات کی طرف رجوع کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ آپ کی زیادہ تر گفتگو اور نصیحتیں، زہدو تقوی،اخلاق، دنیا کی نفی اور اُس کی تحقیر اور بلند انسانی اور معنوی اقدار کی اہمیت اجاگر کرنے کے بارے میں ہیں۔
امام حسین کی حیات طیبہ خصوصاً واقعہ کربلا میں یہ دونوں پہلو یعنی جہاد و جنگ اور زہد و تقوی اور اخلاق، ایک ساتھ جلوہ افروز ہیں یعنی واقعہ کربلا میں دشمن اور نفس دونوں سے جہادنے سب سے بہترین صورت میں جلوہ کیا ہے۔ خداوند عالم اِس بات کو جانتا تھا کہ یہ واقعہ پیش آئے گا لہٰذا اِس کیلئے سب سے بہترین مثال پیش کرنا چاہتا تھاکہ جو سب کیلئے آئیڈیل بن سکے؛ جیسے کسی بھی شعبہ زندگی میں پہلے درجے پر آنے والے افراد اورچیمپیئن، اُسی شعبے میں دوسروں کی ترغیب کا باعث بنتے ہیں۔ البتہ یہ آپ کے ذہن کو حقیقت سے قریب کرنے کیلئے صرف ایک چھوٹی سی مثال ہے جبکہ عاشورا اور کربلابیرونی دشمن اور نفس کے دو محاذوں پر لڑی جانے والی عظیم ترین جنگ سے عبارت ہے۔ یعنی پہلا محاذ بیرونی دشمن سے مقابلے کا محاذ ہے جو عبارت ہے اُس زمانے کے بدترین نظام حکومت اور جونکوں کی مانند نظام قدرت و سلطنت سے چمٹے ہوئے دنیا طلب افراد سے ۔ یہ نظام حکومت و خلافت کہ جسے پیغمبر اکرم ۰ نے انسانوں کی نجات کیلئے ایک بہترین وسیلہ قرار دیا تھالیکن اِن دنیا طلب اور شہرت پرست افراد نے اسلام اور حضرت ختمی مرتبت ۰ کے بتائے ہوئے راستے کے بالکل مخالف سمت میں حرکت کی؛جبکہ دوسرا محاذ باطن کی برائیوں اور خواہشات نفسانی سے جہاد کا محاذ کہلاتا ہے کہ اُس معاشرے کی عمومی اور اجتماعی صورتحال یہ تھی کہ پورا معاشرا اپنی خواہشات نفسانی کے مطابق حرکت کررہا تھا۔
۲۔لوگوں کے خواب یدہ ضمیروں کو جگا نا
دوسرا نکتہ جو میری نظر میں پہلے نکتہ سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے اور وہ یہ کہ ایک طرف اگر حضرت ختمی مرتبت ۰ کے مبارک ہاتھوں اسلامی حکومت اور اسلامی معاشرے کی تشکیل کو کچھ عرصہ ہی ہوا تھا اور اِس سلسلے میں بنیادی اور اساسی ترین کاموں کا انجام دیا جاچکا تھاتودوسری جانب فتوحات نے اِسلامی مملکت کا دائرہ وسیع کردیا تھااور بیرونی دشمن اسلامی ممالک کے کونے کونے میں سرکوب کردیے گئے تھے ۔فتوحات کے نتیجے میں مسلمان فتح شدہ علاقوں سے آنے والے مالِ غنیمت کے سیلاب میں غوطہ ور ہونے لگے اوراِ س مالِ غنیمت کی غیر منصفانہ تقسیم کے نتیجے میں کچھ افراد مالدار اور ثروتمندبن گئے اور کچھ’’ طبقہ اشراف‘‘میں شمار کیے جانے لگے۔
بڑی اور بزرگ شخصیات کا دنیا داری میں مبتلا ہونا
یہ سب اُس وقت ہوا کہ جب اسلام نے اشرافیت ، طبقاتی نظام اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کے نتیجے میں امیر کے امیر تر اور غریب کے غریب تر ہونے کی روش کا قلع قمع کردیا تھا لیکن اِس اسلامی انقلاب کے کچھ عرصے بعد ہی ایک نئی ’’اشرافیت‘‘ نے دین کا لبادہ اوڑھ کر نئے تاسیس شدہ اسلامی معاشرے میں جنم لیا۔ بہت سے عناصر ، اسلام کا نام لے کر سامنے آئے، اُنہوں نے ’’فلاں صحابی ۱ کے بیٹے‘‘ اور’’ رسول اللہ ۰ کے فلاں رشتہ دار کے بیٹے‘‘ کے اسلامی عنوان سے ناشائستہ اور غیر مناسب کاموں کو انجام دیا کہ جن میں سے بعض افراد کے نام اُن کے سیاہ کرتوتوں کے ساتھ آج بھی تاریخ کے اوراق کو سیاہ کررہے ہیں۔ اِن حالات میں ایسے لوگ بھی سامنے آئے کہ جنہوںنے اپنی بیٹیوں کیلئے چار سو اسّی (۴۸۰ ) درہم کے مِہرُ السُّن ۃ (شرعی مہر) کہ جسے پیغمبر اکرم ۰ ، امیر المومنین اور اوائلِ اسلام کے دیگر مسلمانوں نے رائج کیا، کے بجائے دس لاکھ (ایک ملین) دینار اور ایک ملین مثقال خالص سونا قرار دیا!یہ کون لوگ تھے؟ رسول اکرم ۰ کے بڑے بڑے صحابیوں ۱ کے بیٹے، مثلاً مصعب ابن زیبر جیسے افراد۔ جب ہم کہتے ہیں کہ کسی نظام یا مکتب کا اندر سے خراب ہونا تو اُس کا معنی یہ ہوتا ہے کہ جب معاشرے میں اسلامی اور اخلاقی اقدار بدل جائیں! یعنی معاشرے میں ایسے افراد جنم لیں کہ جو دنیا زدگی، شہوت پرستی اور خواہشات نفسانی کی پیروی جیسی سرایت کرنے والی اپنی مہلک اخلاقی بیماریوں کے زہرکو آہستہ آہستہ معاشرے کی رگوں میں اتار دیں۔
ایسے ماحول میں کون سُورماتھا جو سامنے آتا جو شہامت وشجاعت اور جرآت و حوصلے کے ساتھ یزید ابن معاویہ کی حکومت کے خلاف آواز حق بلند کرتا؟ اُس بیمار معاشرے کا ایسا کون سا شخص تھا جو اُس نظام حکومت کے خلاف آواز اٹھانے کی فکر کرتا؟! معاشرے کی اکثریت اوراُس کی عمومی فضا ایسی تھی جو عیش و نوش اورشراب و کباب میں مبتلا تھی تو اِن حالات میں کس کو فکر ہوتی کہ ظلم و برائی کی بنیا دوں پر قائم یزید کے اِس با طل نظامِ حکومت کے سامنے مقابلے کیلئے کھڑا ہو!
ایسے حالات میں امام حسین کے عظیم قیام کیلئے راہ ہموار ہوئی کہ جس میں ظاہری و بیرونی دشمن سے بھی مقابلہ کیا گیا اور عام مسلمانوں کو تباہی اور انحراف کی طرف لے جانے والی برائیوں اور عیاشی اور راحت طلبی سے بھی جنگ کی گئی! یہ بہت اہم بات ہے یعنی امام حسین نے ایسا کام انجام دیا کہ لوگوں کے سوئے ہوئے ضمیروں کو بیدار کردیا۔ لہٰذا آپ توجہ فرمائیے کہ سید الشہدا کی شہادت کے بعد بہت سے اسلامی اور مذہبی قیام یکے بعد دیگرے وجود میں آتے رہے البتہ اِن قیاموں اور تحریکوں کو سرکوب کردیا گیا۔ اہم یہ بات نہیں ہے کہ کسی تحریک یا قیام کودشمن کی طرف سے سرکوب کردیا جائے البتہ یہ تلخ ضرور ہے لیکن اِس سے بھی زیادہ تلخ بات یہ ہے کہ ایک معاشرہ ایسی منزل پر پہنچ جائے کہ وہ اپنے دشمن کے مقابلے میں کسی بھی قسم کے ردعمل کو ظاہر کرنے کی صلاحیت و قدرت کو کھو بیٹھے اور یہ ایک معاشرے کیلئے بہت بڑا خطرہ ہے۔
۳ ۔امام حس ین کا تا ریخی کار نا مہ
سید الشہدا نے ایک ایسا کام انجام دیا کہ طاغوتی حکومتوں کے دور میں کچھ ایسے افراد پیدا ہوئے کہ جواوائلِ اسلام سے زمانی فاصلہ رکھنے کے با وجود امام حسن مجتبی کے دور میں ظلم و ستم کی حکومت سے مقابلے کرنے والے افرادسے زیادہ عزم و ارادے کے مالک تھے۔ صحیح ہے کہ یہ قیام اور تحریکیں سرکوب کردی گئیں لیکن بہرحال اِن لوگوں نے ظالمانِ وقت کے خلاف قیام کیا۔ اہل مدینہ کے قیام سے جو ’’واقعہ حرّہ‘‘ کے نام سے معروف ہے ، شروع کیجئے اور بعد کے واقعات اور توابین و مختار کے قیام تک اور وہاں سے بنی امیہ اور بنی عباس کے زمانے تک مختلف قسم کے قیام مسلسل وجود میں آتے رہے ، اِن تمام قیاموں کا بانی کون تھا؟ حسین ابن علی ! اگر سید الشہدا قیام نہیں فر ماتے تومعاشرے کی سستی و کاہلی اور ذمہ داریوں سے فرارکی عادت، ظلم ستیزی اور ذمہ داری کو قبول کرنے میں تبدیل نہیں ہوتی۔ کیوںکہتے ہیں کہ اُس معاشرے میں ذمہ داریوں کو قبول کرنے کی حس مرچکی تھی؟ اُس کی دلیل یہ ہے کہ امام حسین ، اسلام کی عظیم اور بزرگ ہستیوں کے مرکز ’’شہر مدینہ‘‘ سے مکہ تشریف لے گئے؛ ’’ابن عباس ۱ ‘‘ ، ’’پسر زبیر ۱ ‘‘ ،’’ ابن عمر ۱ ‘‘ اور صدر اسلام کے خلفا ۱ کے بیٹے سب ہی مدینے میں موجود تھے لیکن کوئی ایک بھی اِس بات کیلئے تیار نہیں ہوا کہ اُس خونی اور تاریخی قیام میں امام حسین کی مدد کرے۔
پس قیام امام حسین کے شروع سے قبل عالم اسلام کے خاص الخاص افراد اور بزرگ ہستیاںبھی ایک قدم اٹھانے کیلئے تیار نہیں تھیں لیکن امام حسین کے قیام و تحریک کی ابتدائ کے بعد یہ روح زندہ ہوگئی۔ یہ وہ عظیم درس ہے کہ جو واقعہ کربلا میں دوسرے درسوں کے ساتھ موجود ہے اور یہ ہے اِس واقعہ کی عظمت! یہ جو کہا گیا ہے کہ ’’اَلمَدعُوّ لِشَهَادَتِهِ قَبلَ اِستِهلَالِهِ وَوِلَادَتِه
‘‘ِ یا اُن کی ولادت باسعادت سے قبل ’’بَکَتهُ السَّمَآئُ وَ مَن فِیهَا وَالاَرضُ وَمَن عَلَیهَا
‘‘ کہا گیا ہے اور لوگوں کو امام حسین کے اِس عظیم غم اور عزائ اور اُس کے خاص احترام کی طرف متوجہ کیا گیا ہے اور اِن دعاوں اور زیارت کی تعبیرات میں اُن پر گریہ کیا گیا ہے تو اِن سب کی وجہ یہی ہے ۔
۴۔واقعہ کربلا ک ی انفرادیت و عظمت!
کربلا ،تا ریخ کے اُفق سے کبھی نہ غروب ہونے والا سورج ہے!واقعہ کر بلاکے تاریخ میں اتنے انمٹ نقوش چھوڑے جانے کی کیا وجوہات ہیں؟ میری نظر میں واقعہ کربلا اِ س جہت سے اہمیت و کمال کا حامل ہے کیونکہ اِس واقعہ کی ایثار وفداکاری، ایک استثنائی اور مافوق نوعیت کی تھی۔ تاریخ اسلام اپنی ابتدائ سے آج تک بے شمار جنگوں، شہادتوں اور ایثار و فداکاری کی داستانوں سے پُر ہے۔ ہم نے اپنے زمانے میں خود مشاہدہ کیا کہ بہت سے افراد نے راہ خدا میں جہاد کیا، ایثار و فداکاری کی نئی داستانوں کو رقم کیا اور سخت سے سخت سے حالات کوتحمل کیا۔ماضی میں بھی ایسی مثالیں فراوان ہیں اور آپ نے تاریخ میں اِن کا مطالعہ کیا ہے لیکن اِن سب میں سے کوئی ایک بھی واقعہ ، واقعہ کربلا سے قابل موازنہ نہیں ہے حتی کہ بدر واحد اور اوائلِ اسلام کے دیگر شہدائ سے بھی۔ انسان جب غوروفکر سے کام لیتا ہے تو سمجھتا ہے کہ ہمارے چند آئمہ میں سے نقل کیا گیا ہے کہ اُنہوں نے سید الشہدا کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’لَا يَومَ کَيَومِکَ يَا اَبَا عَبدِ اللّٰهِ
‘‘، یعنی ’’ اے ابا عبد
اللہ(امام حسین ) !کوئی واقعہ، آپ کے واقعہ کربلا اور کوئی دن آپ کے دن ’’عاشورا‘‘ کے جیسا نہیں ہے‘‘!
چونکہ واقعہ کربلا ایک استثنائی واقعہ ہے۔
واقعہ کربلا کا لبّ لباب یہ ہے کہ جب پوری دنیا ظلم و ستم اور برائیوں میں گھری ہوئی تھی تو یہ فقط امام حسین ہی تھے کہ جنہوں نے اسلام کی نجات کیلئے قیام کیا اور اتنی بڑی دنیا میں سے کسی بھی ایک (بزرگ و عظیم اسلامی شخصیت) نے اُن کی مدد نہیں کی! حتی آپ کے دوستوں نے بھی یعنی وہ افراد کہ جن میں سے ہر ایک کچھ افراد یا گروہ کو یزید سے مقابلہ کرنے کیلئے میدان میں لا سکتا تھا لیکن ہرکوئی کسی نہ کسی عذر و بہانے سے میدان سے فرار کرگیا۔ ابن عباس ۱ نے کوئی عذر تراشا، عبداللہ بن جعفر ۱ نے کوئی بہانہ بنایا، عبداللہ بن زبیر ۱ نے کسی اور شرعی حیلے کا سہارا لیا اور صحابہ ۱ او ر تابعین ۱ سے تعلق رکھنے والی باقی بزرگ ہستیوں نے کسی اور وسیلے سے اپنی جان بچانے میں ہی عافیت سمجھی، غرضیکہ مشہور و معروف شخصیات اور صاحبانِ مقام و منزلت نے میدانِ مبارزہ خالی کردیا۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب یہ سب افرادباتوں کی دنیا میں اسلام کے دفاع کو اہمیت دیتے اور اُسی کی بات کرتے تھے لیکن جب عمل کی منزل آئی اور دیکھا کہ یزیدی حکومت جو ظالم ہے، رحم نہیں کرتی اور سختی سے مخالف گروہوں اور افرادکو سرکوب کرتی ہے تو اِن سب میں سے ہر ایک نے میدان عمل سے فرار کیا اور کسی نہ کسی گوشہ و کنار میں جاکر پناہ لی اور امام حسین کو میدانِ جنگ میں یکتاو تنہا چھوڑ دیا۔ اور تو اور اپنے اِس کام کیلئے تو جیہات بھی کرنے لگے اور امام حسین کی خدمت میں آکر اُن سے اصرار کرنے لگے کہ ’’آقا! آپ یزید کے خلاف قیام و جنگ کا خیال دل سے نکال دیں اور یہ کام انجام نہ دیں‘‘۔
یہ درس کربلا کا ہے کہ خوف بس خدا کا ہے
یہ تاریخ کی ایک بڑی عجیب عبرت ہے کہ جہاں بڑی بڑی شخصیات خوف کا شکار ہو جا تی ہیں، جہاں دشمن اپنے تمام رُعب و دبدبے اور لاو لشکر کے ساتھ مقابلے پر آتا ہے ، جہاں سب اِس بات کا احساس کرتے ہیں کہ اگر اُنہوں نے میدان عمل میں قدم رکھا تو عالم غربت و تنہائی کا میدان جنگ اُنہیں ہضم کرجائے گا، وہ مقام کہ جہاں انسانوں کے باطن اور شخصیتوں کے جوہر پہچانے جاتے ہیں اور وہ وقت کہ جب وسیع و عریض عظیم اسلامی دنیا اپنی کثیر جمیعت و تعداد کے ساتھ موجود تھی توایسے میںمصمّم ارادوں کا مالک، آ ہنی عزم والا اور دشمن کے مقابلے میں جرآت و شہادت کا مظاہرہ کرنے والا صرف حسین ابن علی ہی تھا۔
واضح سی بات ہے کہ جب امام حسین جیسی معروف اسلامی شخصیت کوئی تحریک چلاتی یا قیام کرتی توکچھ افراد اُن کے گرد جمع ہوجاتے اور جمع بھی ہوئے۔ لیکن جب اُنہیں معلوم ہوا کہ یہ کام کتنا سخت و دشوار ہے تو یہی افراد ایک ایک کرکے امام کو چھوڑ گئے اوروہ افراد جو امام حسین کے ساتھ مکے سے چلے یا راستے میں حضرت کے ساتھ شامل ہوتے رہے، شب عاشورا اُن کی تعداد بہت کم رہ گئی کہ روزِ عاشورا اُن کی تعداد صرف بہتّر (۷۲ ) تھ ی! یہ ہے مظلومیت؛لیکن اِس مظلومیت کے نتیجے میں بے دردی سے قتل ہونے اور گھر والوں کے قیدی بنائے جانے کا معنی ذلت وپستی اور رُسوائی نہیں ہے۔ امام حسین تاریخِ اسلام کے عظیم ترین مجاہد و مبارز ہیں کیونکہ وہ ایسے خطرناک حالات میں اتنے سخت میدانِ جنگ میں قیام کیلئے کھڑے ہوئے اور ذرّہ برابر بھی خوف و تردید کا شکار نہیں ہوئے لیکن یہی عظیم انسان اپنی عظمت و بزرگی کے برابر مظلوم ہے، یہ شخصیت جتنی عظیم و بزرگ ہے اتنی ہی مظلوم ہے اور اُس نے عالم غربت و تنہائی میں ہی درجہ شہادت کو پایا۔
داد وتحسین اور عالم غربت میں لڑی جانے والی جنگ کا فرق
بہت فرق ہے اُس شخص میں جو ایک فداکار فوجی ہے اور جذبات کے ساتھ میدان میں قدم رکھتا ہے، عوام اُسی کیلئے نعرے لگاتی ہے اور اُس کی تمجید و بزرگی بیان کرتی ہے۔اُس کے میدان کے چاروں طرف جو ش وجذبات رکھنے والے افرادموجود ہوتے ہیں اور وہ جانتا ہے کہ اگر وہ زخمی یا شہید ہوجائے تو یہ لوگ کس قسم کے جذبات سے اُس کے ساتھ برتاو کریں گے اور اُس شخص میں جو عالم غربت و تنہائی اورانحراف و گمراہی کی ظلمت و تاریکی میں یاور و انصار اور کسی بھی قسم کی عوامی مدد و اِعانت کے بغیر دشمن کے تمام پروپیگنڈے کے باوجود سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند کھڑا ہوکر مقابلہ کرتا ہے اور اپنے جسم و جان کو قضائے الٰہی کے سپرد کرتے ہوئے راہ خدا میں قتل ہونے کیلئے تیار ہوجاتا ہے ؛یہ ہے شہدائے کربلا کی عظمت و بزرگی! یعنی یہ شہدائ ،راہِ خدا و دین میںجہاد کی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے دشمن کے رعب و دبدبے سے ہرگز خوف میں مبتلا نہیں ہوئے، نہ اپنی تنہائی کے خوف وو حشت نے اُ ن کے حوصلوں کو پست کیا اورنہ ہی اُنہوںنے اپنی تعداد کی کمی سے دشمن کے مقابلے سے فرار کا جواز فراہم کیا۔ یہی وہ چیز ہے کہ جو ایک انسان ، ایک رہبر اور ایک قوم کوعظمت و بزرگی بخشتی ہے یعنی دشمن کے ظاہری جاہ وجلال اور رعب و دبدبے کو کسی خاطر میں نہ لانا اور خوف میں مبتلا نہ ہونا۔
۵۔امام حس ین کی مختصر اور بڑی مدت کی کامیابی
سید الشہدا یہ بات جانتے تھے کہ آپ کی شہادت کے بعد آپ کا دشمن اُس معاشرے اور پوری دنیا کو اُن کے خلاف زہریلے پروپیگنڈے سے بھردے گا۔ امام حسین کوئی ایسی شخصیت نہیں تھے کہ جو اپنے زمانے، اُس کے تقاضوں ، وقت کے دھارے اور دشمن کو نہ پہچانیں؛ وہ اِس بات سے اچھی طرح آگاہ وبا خبرتھے کہ اُن کا دشمن کیا کیا خباثتیں کرے گا، اِس کے باجود وہ یہ ایمان اور امید رکھتے تھے کہ اُن کی یہی غریبانہ اور مظلومانہ تحریک و قیام بالآخر دشمن کو مختصر اور بڑی مدت میں شکست سے دوچار کردے گا اور بالکل ایسا ہی ہوا ۔ یہ سراسر غلطی ہے کہ جو یہ خیا ل کرے کہ سیدالشہدا شکست کھا گئے۔قتل ہو نا شکست کھانا نہیں ہے اور نہ ہی میدان جنگ میں دشمن کے ہاتھوں قتل ہونا شکست کھانے کے برابر ہوسکتاہے، جو اپنے ہدف کو حاصل نہ کرسکے درحقیقت شکست اُس کا مقدر بنتی ہے۔
امام حسین کے دشمنوں کا ہدف یہ تھا کہ اسلام اور نبوت اور اُس کی نشانیوں کو صفحہ ہستی سے مٹادیں لہٰذا اُن افراد نے شکست کھائی ہے اِس لیے کہ یہ افراد اپنے مقصد کے حصول میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ سید الشہدا کا ہدف یہ تھا کہ دشمنان اسلام کے منصوبوںکو ناکام بنادیں کہ جس کے مطابق وہ پورے معاشرے کو اپنے افکار و نظریات کے مطابق بناچکے تھے یا بنارہے تھے؛ آپ کا ہدف یہ تھا کہ اسلام اور اُس کی صدائے مظلومیت و حقانیت کو پوری دنیا میں پہنچادیں اوراسلام کا دشمن مغلوب ہوجائے اور ایسا ہی ہوا اور امام حسین مختصر مدت اور بڑی مدت میں کامیاب ہوئے۔
مختصر مدت کی کامیابی!
مختصر مدت میں آپ کواِس طرح کامیابی نصیب ہوئی کہ آپ کے اِس قیام، مظلومانہ شہادت اور اہل بیت کی اسیری نے بنی امیہ کی بنیادوں کو ہلا ڈالا، اِس واقعہ کے بعد جب دنیا ئے اسلام بالخصوص مکہ و مدینہ میں پے در پے واقعات رونما ہوئے جو آل ابو سفیان کی نابودی پر ختم ہوئے اور تین چار سال میں آل ابوسفیان مکمل طور پر نابود ہوگئے ۔ کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ امام حسین کو نہایت بے دردی اور مظلومیت سے کربلا میں شہید کرنے والی یہ عداوت و دشمنی اور صدیوں سے دل میں چھپایہ بغض و کینہ اِس طرح اُس مظلوم امام کی فریادِ مظلومیت کے سامنے مغلوب ہوجائے گا اور وہ بھی صرف تین یا چار سال میں؟!
بڑی مدت کی کامیابی!
بڑی مدت میں بھی امام حسین کامیاب ہوئے؛آپ تاریخ اسلام کو ملاحظہ کیجئے اور دیکھئے کہ دین نے کتنی وسعت پیدا کی ہے، اسلام کی جڑیں کتنی مستحکم ہوئی ہیں اور کتنی مسلمان اقوام نے رشد کیاہے؟! اسلامی علوم اور فقہ نے کتنی پیشرفت کی اور بالآخر کئی صدیاں گزرنے کے بعد بھی اسلام کا پرچم دنیا کے بلند ترین مقامات پر لہرا رہا ہے! کیا یزید اور اُس کا خاندان، اسلام کی اِس طرح دن بہ دن ترقی و پیشرفت سے راضی تھا؟ وہ تو چاہتے تھے کہ اسلام کو جڑوں سمیت نکال پھینکیں اور اُن کی خواہش تھی کہ روئے زمین پر قرآن اور پیغمبر ۰ کا نام لینے والا کوئی نہ ہو لیکن آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ نتیجہ اُن کی خواہشات کے برعکس ہے ۔ پس اللہ کی راہ کا وہ مجاہد و مبارز جو ظلم و ستم کی دنیا کے سامنے مظلومانہ طور پر کھڑا ہوا، جس کا خون بہایا گیا اور جس کے خاندان کو قیدی بنایا گیا، وہ تمام جہات سے اپنے دشمن پر غالب و کامیاب ہوگیا؛یہ قوموں کیلئے ایک عظیم درس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیائے معاصر کی بڑی بڑی شخصیات ، صدورِ مملکت اور سیاستدان حضرات حتی وہ افراد بھی جو مسلمان نہیں ہیں ، کہتے ہیں کہ ’’ہم نے مقابلے اور جدوجہد کا راستہ حسین ابن علی سے لیا ہے‘‘۔
ہمارا سلامی انقلاب، انقلاب کربلا کا ایک جلوہ ہے
خود ہماراا سلامی انقلاب بھی اِسی کی ایک زندہ مثال ہے۔ ہماری عوام نے جہاد و استقامت کو امام حسین سے سیکھا ہے اور اُنہوں نے اِس بات کو بھی اچھی طرح باور کرلیاہے کہ اپنے ہدف کے حصول کی راہ میں قتل ہونا، مغلوب ہونے اور شکست کھانے کی دلیل نہیں ہے۔ نیزاُنہوں نے اِس بات کو بھی اچھی طرح جان لیا کہ ظاہری طور پر مسلح دشمن کے سامنے عقب نشینی کرنا بدبختی اور روسیاہی کا باعث ہوتاہے اور دشمن کتنا ہی رعب و دبدبے والا کیوں نہ ہو، خدا کی راہ میں جہاد کرنے والا گروہ اور مجاہد اگر مومن ہوں اور خدا کی ذات پر توکل کرتے ہوئے اُس کی راہ میں جہاد کریں تو آخرکاردشمن کو شکست سے دوچار ہونا پڑے گا اور کامیابی اُس با ایمان گروہ کے قدم چومے گی۔
آج جو کچھ میں آپ بھائیوں اور بہنوں کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں ، وہ یہ ہے کہ آپ یہ بات اچھی طرح جان لیں کربلا تاقیامت ہمارے لیے مشعلِ راہ اور ایک زندہ و جاوید آئیڈیل ہے اور کربلا مثال ہے اِس چیز کی کہ انسان اپنے دشمن کے ظاہری رعب و دبدبے کو دیکھ کر خوف و تردید کا شکار نہ ہو اور ہم عملی طور پر اِس کا امتحان دے چکے ہیں۔
کربلا عزت وسر بلندی کا درس
صحیح ہے کہ اسلام کے ابتدائی زمانے میں حضرت حسین ابن علی صرف بہتر (۷۲ ) افراد کے ساتھ شہ ید ہو گئے لیکن اِس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ جو بھی سید الشہدا کی راہ پر قدم اٹھائے گا اور جہاد و استقامت کے پُرخطر راستے پر نکلے گا وہ حتماً شہیدہی ہوگا، نہیں ! ایرانی قوم الحمد للہ آج امام حسین کی راہ پر چلنے کا عملی امتحان دے چکی ہے اور آج مسلمان قوموں اور دیگر اقوام عالم کے سامنے عظمت و سربلندی سے کھڑی ہے۔ آپ نے انقلاب کی کامیابی سے قبل جو کچھ انجام دیا اور جس راہ پر قدم اٹھائے وہ امام حسین کی راہ تھی اور وہ دشمن سے نہ ڈرنا اور تا دندان مسلح دشمن کے مقابلے کیلئے آمادگی تھا۔
آٹھ سالہ جنگ کے دوران بھی یہی صورتحال تھی اور ہماری عوام یہ بات اچھی طرح جانتی تھی کہ اُس کے مقابلے پر مشرق و مغرب کا استعمار کھڑا ہے لیکن وہ کسی بھی قسم کے خوف کا شکار نہیں ہوئی۔ ہم نے اِس جنگ میں بہت قیمتی شہید دیئے ہیں، اپنے عزیز ترین افراد کی قربانی پیش کی ہے اور بہت سے افراد نے اپنی صحت و سلامتی کوراہِ خدا میںقربان کیا ہے۔ اِسی طرح بہت سے ایسے افراد ہیں کہ جو کئی سالوں تک دشمن کی قید میں رہے اور آج بھی کچھ افراد قید میں ہیں لیکن ہماری قوم اپنی اِس ایثار و فداکاری سے عزت و عظمت کی بلندیوں تک جا پہنچی ہے اور اسلام کامیاب ہوگیا ہے ؛آج اسلام کا پرچم دنیا پر لہرار ہا ہے اور یہ سب اُس استقامت کی برکت کانتیجہ ہے۔
____________________