دعا کی فضیلت اور آداب
أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ وَ هُوَ خَيْرُ نَاصِرِ وَ مُعِين وَصَلَّى اللهُ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ.
(
وَ إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَ لْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ
)
مومنین کرام! قرآنی دعائوں کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں ۔ ہم جو سلسلہ شروع کر رہے ہیں، دعا ہے کہ خالق کائنات ہمارے اور آپ کیلیے مفید قرار دے۔
دعا کسے کہتے ہیں؟ دعا کی تعریف کیا ہے؟ دعا کی فضیلت کیا ہے؟ آداب دعا کیا ہیں؟ اور پھر کن چیزوں دعا کرنی چاہیے؟ خاص طور پر قرآن مجید میں کونسی دعائیں نقل ہوئی ہیں؟ ہمارا اصلی موضوع قرآنی دعائیں ہیں لیکن کیونکہ پہلی گفتگو ہے اس حوالے سے تمہید کے طور پر مقدمے کے طور پر ہمیں دعا کی معنی، دعا کی فضیلت، آداب دعا کی طرف اشارا کرنا پڑے گا۔
دعا کی معنی ہے
دعا پکارنا، بلانا، ندا دینا، عبادت کرنا، ان چیزوں کیلئے ان معانی کیلئے استعمال ہوتا ہے، کیونکہ ہم جب بھی کسی پریشانی میں مبتلا ہوتے ہیں، جب ہمیں کوئی بھی مسئلا درپیش ہوتا ہے تو ہم خدا کو بلاتے ہیں، پکارتے ہیں، اسی کی بارگاہ میں فریاد کرتے ہیں، اسی سے فریاد رسی کی امید رکھتے ہیں، اسے دعا کہا جاتا ہے۔
دعا مکتب اہلبیت کی روشنی میں ایک کارخانہ ہے، ایک عظیم خزانہ ہے، جو عالی مضامین دعائوں میں بیان ہوئے ہیں ، اہلبیت سے منقول ہیں یا قرآن مجید نے جن دعائوں کو نقل کیا ہے ؛چاہے وہ انبیا کی ہوں، چاہے صالح انسانوں کی ہوں، چاہے وہ مرد حضرات سے نقل ہوئی ہوں یا خواتین سے، مقدس بیبیوں سے ؛ یہ سب معرفت کا ایک اعلی خزانہ ہیں۔ جو بھی انسان اگر مقایسہ کرے رسول کائنات اور اہلبیت کے فرمودات کا ،ارشادات کا روایات اور احادیث کا، اور پھر وہ مطالعہ کرے ان دعائوں کا جو ان سے نقل ہوئی ہیں، اسے واضح طور پر پتا چلے گا کہ ان میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔
دیکھئے توحید ایک اہم موضوع ہے، توحید کے حوالے سے جو گفتگو روایات میں ہوئی ہے، احادیث میں ہوئی ہے، جب بھی یہی مسئلہ ہم دعائوں میں دیکھتے ہیں کہ آئمہ، رسول کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خدا سے کس طرح ہمکلام ہوتے ہیں، دعائوں میں خدا سے کس انداز سے گفتگو کرتے ہیں۔ تو ہمیں ان دونوں مضامین میں زمین سے آسمان کا فرق ملے گا اور اس فرق کا بنیادی سبب یہی ہے کہ روایات میں مخاطب انسان ہوا کرتے تھے، کوئی راوی آ گیا، کوئی سائل آگیا، صحابی آ گیا اس نے سوال کیا۔ امام کیونکہ جانتے ہیں کہ اس کی معرفت کتنی ہے ،اس کی فکری سطح کتنی ہے، اس کی معلومات کتنی ہے۔ جب انہوں نے ہمیں یہ حکم دیا ہے
کلم الناس علی قدر عقولِهم
؛
لوگوں سے ان کے عقل کے مطابق گفتگو کرو۔ تاکہ وہ تمہاری بات کچھ سمجھ پائیں، کچھ حاصل کر سکیں۔ تو انہوں نے بھی اس قانون کے مطابق حدیث ارشاد فرمائی ہے۔ کیونکہ روایت میں مخاطب انسان ہوتے تھے، ان کے درجات معارف مختلف ہوا کرتے تھے۔ اس حوالےسے ان کے مطابق جواب دیا گیا ہے ۔لیکن یہی انبیا، یا آئمہ جب خدا سے مخاطب ہوتے ہیں، جب گفتگو خدا سے ہو رہی ہو تو انداز بدل جاتا ہے، معارف بدل جاتے ہیں، مضامین بدل جاتے ہیں، پھر یہ گفتگو زمینی اور بشری اور انسانی قیودات میں مقید نہیں ہوتی پھر یہ آسمانی اور عارفانہ گفتگو بن جاتی ہے، اس لیے ہم دیکھیں کہ جن دعائوں میں خدا سے ہمکلامی کی گئی ہے چاہے وہ دعائے کمیل ہو، چاہے مناجات شعبانیہ ہو، چاہے وہ دعائے ابو حمزہ ثمالی ہو یا دوسری ادعیہ۔ ہم ملے گا کہ کتنا فرق ہے۔ اگر ایک انسان دعائے عرفہ میں آ کر خدا کو پہچاننا چاہے اور امام حسینؑ کی زبانی وہ خدا کی صفات کو ، انعام اور اکرام کو، خدا کی نعمتیں کو پہچاننا چاہے۔ واقعا ایک بہت بڑا خزانہ ہے جو دعا کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے، اسی لیے قرآن مجید نے دعا کی بہت زیادہ تاکید کی ہے۔
دعااورخودشناسی
یہ دعا ہے جو انسان کو نفس شناسی کا درس دیتی ہے، اس دعا کے ذریعہ سے انسان خود کو پہچان لیتا ہے کہ میں کیا ہوں؟ جب انسان دست دراز کرتا ہے خدا کے سامنے، اپنے عاجز ہونے کا، اپنے محدود ہونے کا ، اپنے محتاج ہونے کا، اہنے مسکین ہونے کا اعلان کرتا ہے خدا کی بارگاہ میں تو در حقیقت وہ دعا میں خود شناسی بھی حاصل کرتا ہے، معرفت نفس بھی حاصل کرتا ہے اور معرفت رب بھی حاصل کرتا ہے۔ بار الہا! میں محتاج ہوں تو غنی ہے، میں محدود ہوں تو لا محدود ہے، میں فقیر ہوں، مسکین ہوں تو صمد ہے تو بے نیاز ہے۔ تیرے ہاں کسی چیز کی کمی نہیں ہے، تو دیتا ہے تو تب بھی تیرے خزانے میں کوئی کمی نہیں آتی۔
دعا کا یہ پہلو اہم پہلو ہے، کہ انسان اپنے عجز کا اعلان کرے۔ میں عاجز ہوں، فقیر ہوں، مسکین ہوں، میرا کچھ بھی نہیں ہے، میں کچھ بھی نہیں ہوں۔ سب کچھ تو ہی ہے، سب نیکیاں تمہاری طرف سے ہیں، سب برکات تیری طرف سے ہیں، یہ سب فضل و کمال تیرا ہی ہے۔ اس لئے جب دعا کی فضیلت بیان کی گئی۔ روایات میں فرمایا گیا کہ
الدعاء مخ العبادة
؛
دعا مغز عبادت ہے، دعا روح عبادت ہے، دعا اصل و اساس عبادت ہے۔
دعا کی فضیلت
یہ جو دعا میں انسان اپنے عاجز ہونے کا اعلان کرتا ہے، اپنی محتاجی کو بیان کرتا ہے اور خالق کائنات کی بے نیازی کو بیان کرتا ہے، یہی تو عبادت ہے۔ قرآن کی نظر میں اگر دعا کی فضیلت دیکھنا چاہیں کتنی ہی آیات ہیں جن سے دعا کی فضیلت واضح ہوتی ہے ۔سورہ بقرہ کی آیت ہے:
(
وَ إِذا سَأَلَكَ عِبادي عَنِّي فَإِنِّي قَريبٌ أُجيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذا دَعانِ فَلْيَسْتَجيبُوا لي وَ لْيُؤْمِنُوا بي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُون
)
اے میرے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ! جب میرے بندے تم سے پوچھنے آئیں میرے بارے میں ، ہوا یہ کہ کچھ لوگ پوچھنے آئے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ! آپ یہ بتائیے کہ خدا ہمارے نزدیک ہے تو ہم آہستہ مناجات کریں، اس سے آہستہ بات کریں، ہمارے قریب ہے تو سن لے گا یا ہم سے دور ہے تو بلند آواز سے اس کو پکاریں۔ یہ سوال تھا ان کا، خالق کائنات نے آیت نازل کر کے آداب بتا دیے۔ فرمایا :
(
وَ إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَ لْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ
)
اگر یہ میرے بندے تم سے میرے بارے میں ہوچھنے آئیں خدا قریب ہے یا خدا دور ہے؟ تو انہیں کہہ دو کہ میں قریب ہوں ان کے، میں نزدیک ہوں ان کے، اور حقیقت میں وہ ہمارے اتنا نزدیک ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی اور نزدیک ہو ہی نہیں سکتا، اتنا قریب ہے کہ اس سے زیادہ قرب کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا،
(
وَ نَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَريد
)
خدا فرما رہا ہے کہ ہم انسان کی شہ رگ حیات سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں، یعنی دوری کا کوئی تصور ہی نہیں ہے، دوری کیلئے کوئی فاصلہ ہی نہیں ہے، کوئی مساحت نہیں ہے کہ پیمانے کے ذریعہ سے ناپا جائے۔ اس کا اندازہ لگایا جائے کتنا دور ہے یا نزدیک۔ اس سے زیادہ نزدیکی ہو ہی نہیں سکتی۔
اسی لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہی ارشاد فرمایا ہے کہ
مَنْ عَرَفَ نَفْسَهُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّه
جوخودکوپہچان لیتاہےخداکو پہچان لیتاہے،معرفت نفس اورمعرفت خدالازم وملزوم ہیں،جب تم نےاپنےآپکوپہچان لیا،اپنی حقیقت کوجان لیاتمہیں پتاچلےگاتم نہیں تھےمعدوم تھےکوئی ہےجسنےتمہیں وجودعطاکیا،تم محتاج ہوکوئی غنی ہے،تم محدودہوکوئی لامحدودہے،معرفت نفس کےساتھ معرفت خداحاصل ہوتی ہے،خدا نزدیک ہے۔فرمایا فانی قریب میں تمہارےنزدیک ہوں،کتنا نزدیک ہےشہ رگ حیات سےبھی زیادہ نزدیک ہے۔
پھرخودحکم دیا میں تمہارےنزدیک ہوں ادعونی مجھ سے دعا کرو مجھ سے مانگو، مجھ سے سوال کرو کتنا کریم ہے وہ، اس نے بغیر ہمارے کہے ہمیں اتنی نعمتیں عطا کیں ، ہم حق سوال نہیں رکھتے تھے اس نے ہمیں وجود عطا کیا، اتنی مادی اور معنوی عطا کیں، ظاہری اور باطنی نعمتیں عطا کیں، جن کا کوئی شمار نہیں ہے، لا تعداد ہیں بے حساب ہیں اور فرمایا کہ:
(
وَ إِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها
)
؛
اگر تم نعمتیں گننا بھی چاہو تو نہیں گن سکتے، پھر فرمایا کہ مجھ سے ہی مانگو ۔
دعا مانگنے کا حکم
یہ جو کہا جاتا ہے کہ خدا دیکھ رہا ہے، خدا جانتا ہے، اسے سب پتا ہے میں کیوں مانگوں؟ یہ آداب بندگی کے برخلاف ہے۔ جب وہ خود حکم دے رہا ہے کہ ادعونی مجھ سے مانگو، مطلب یہی ہے کہ دینے والا وہی ہے۔ لیکن اس نے دینے کیلئے آداب مقرر کیے ہیں، طریقے کار معین کیا ہے، سسٹم بنایا ہے میں ہی دیتا ہوں، سب کچھ اسی کی طرف سے ہے، لیکن طریقہ کار یہی ہونا چاہیے ، ہمیں مانگنے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے اس کی عطا میں کوئی کمی نہیں ہے، ہمیں آداب دعا کے ساتھ دعا کرنی چاہیے، دینے میں اس نے کبھی بخل کیا ہی نہیں ہے، ادعونی مجھ سے مانگو استجب لکم ، میں تمہیں دونگا۔
اللہ اکبر! وہ کتنا کریم ہے، دنیا کے بڑے بڑے کریم بڑے بڑے سخی جب آپ ان کو ملا کے دیکھیں خدا کے کرم سے کچھ بھی نہیں ہیں ، سورج تلے اک چراغ کی مانند بھی نہیں ہیں، جو مال دیتے ہیں ان کا اپنا نہیں ہوتا، محدود دیتے ہیں، لیکن خداکو دینا بہت زیادہ پسند ہے۔ رسول کی پیاری حدیث ہے فرمایا احب العباد الی اللہ الدعا؛ خالق کائنات کو سب سے زیادہ پسند وہ بندہ ہے جو سب سے زیادہ دعا کرے، جو خدا سے سب سے زیادہ مانگے وہ اسے بہت اچھا لگتا ہے، دیکھیں کتنا تضاد ہے جو ہم سے مانگے ہمیں اتنا اچھا نہیں لگتا، اور اگر بار بار مانگے کوئی کسی کو کتنا دے گا ایک بار دو بار، دینے کے احسان جتانا پھر منوانا، فرمایا مجھ سے مانگو، مجھے بہت اچھا لگتا ہے وہ جو مجھ سے مانگتا ہے، اپنی عاجزی اور میری بے نیازی کا اعلان کرتا ہے ۔
امام علی علیہ السلام نےیہ ارشادفرمایاکہ ہرچیزخداسےمانگوہرچیز،حتی کہ اپنےکھانےکیلئےنمک بھی خداسےمانگو
اپنے جوتے کا تسمہ بھی خدا سے مانگو، ہر چیز خدا سے مانگو وہی دینے اور عطا کرنے والا ہے، وہ جتنا دیتا ہے اس کی عطا اور زیادہ ہوجاتی ہے اور کوئی کمی نہیں آتی۔
دعا قبول نہ ہونے کے اسباب
ابھی یہ سوال پیش آتا ہے کہ ہم بہت مانگتے ہیں دعا کرتے ہیں قبول نہیں ہوتیں، جبکہ خدا نے وعدہ کیا ہے ادعونی استجب لکم، پھر بھی قبول نہیں ہوتیں۔
علامہ طباطبائی نے تفسیر المیزان میں بہت بہترین جواب دیا ہے،
فرمایا: لحن آیت پر توجہ کریں آیت کیا فرما رہی ہے، ادعونی تم مانگو مجھ سے، استجب لکم میں تمہیں عطا کروں گا، اب جو چیزیں ہمیں نہیں ملتیں یا تو یہ ہے کہ ہم نے دعا نہیں کی، کیونکہ دعا صرف لفظ دہرانے کا نام نہیں ہے، لب کے ہلانے کا نام نہیں ہے، دعا حقیقی طور پر طلب کرنے کا نام ہے، یعنی واقعا میں دل سے روح کی گہرائیوں سے وہ چیز چاہوں ، افسوس ہوتا ہے کبھی ہم دعا اس لئے کرتے ہیں تا کہ خدا کو آزمائیں کہ دعا قبول کرتا ہے یا نہیں، مجھے وہ چیز حقیقتا چاہیے نہیں، میں صرف اس لئے دعا کرتا ہوں کہ خدا دیتا ہے یا نہیں یہ دعا نہیں ہے، دعا طلب واقعی کو کہتے ہیں، جسے واقعا ایک چیز کی ضرورت ہو اس کے مانگنے کا انداز کوئی اور ہوتا ہے، جسے ضرورت نہ ہو اس کے مانگنے کا انداز کچھ اور ہوتا ہے، ادعونی خدا نے فرمایا تم دعا کرو، دل و روح کی گہرائیوں سے چیز کو طلب کرو، اس میں دکھاوا نہ ہو اس میں ریاکاری نہ ہو، اس میں خدا کی آزمایش نہ ہو خدا کا امتحان نہ ہو، اس میں شک اور تردید نہ ہو، پتا نہیں ملے گی نہیں ملے گی، یقین کے ساتھ اس یقین کے ساتھ دعا کرو کہ خدا دے گا تو خدا ضرور دے گا، یا تو یہ ہے کہ وہ دعا نہیں ہوتی، یا پھر ہم خدا سے نہیں مانگتے، جبکہ اس نے کہا ہے کہ مجھ سے مانگو۔
کبھی ہمارا اعتماد ہمارا بھروسہ دوسری چیزوں پر ہوتا ہے، عادی زندگی میں ہم کیا خدا کی طرف اتنا متوجہ ہوتے ہیں، لبوں سے کہہ تو دیتے ہیں کہ خدا شفا عطا فرما لیکن دل سے دیکھیں ہمارا اعتماد ڈاکٹر پر زیادہ ہے یا خدا پر، بار الہا روزی میں برکت عطا فرما خدا پر زیادہ اعتماد ہے یا اپنی نوکری پر، کس پر زیادہ اعتماد ہے، اور اہم بات اس میں یہی ہے کہ خالق کائنات نے فرما دیا ہے استجب لکم، عربی قانون کے حساب سے لکم خدا نے یہاں پر لام استعمال کیا ہے، یعنی جو چیز تمہارے فائدے میں ہوگی وہ دونگا، خدا حکیم ہے، حکیم کا ہر کام حکمت کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ میں ہی تمہیں دونگا لیکن ہر چیز نہیں دونگا جو تم مانگو گے، جو حکمت کے مطابق ہو گی جو تمہارے فائدے اور بھلائی میں ہوگی۔
بسا اوقات ہم عام زندگی میں مشاہدہ کرتے ہیں ہمارے بچے ہم سے کچھ مانگتے ہیں اگر ہمیں پتا ہو کہ اس میں اس کا نقصان ہے تو نہیں دیتے۔ اسی طرح ہم دعائیں مانگتے ہیں شاید وہ ہماری بھلائی اور فائدے میں نہ ہوں ۔کتنی مرتبہ ایسا ہوا ہے مانگا اصرار سے مانگا، جب مل گیا پھر پتا چلا کہ نہیں مانگنا چاہیے تھا، یہ ہمارا مشاہدہ ہے، بسا اوقات ہم اپنے محدود علم کی بنیاد پر اپنی خواہشات کی بنیاد پر اپنے تعلقات کی بنیاد پر وابستگی کی بنیاد پر خدا سے ایسی چیزیں مانگتے ہیں جو ہمارے فائدے میں نہیں ہوتی۔ خدا نے فرمایا میں ہی دونگا جو تمہارے فائدہ میں ہوگا۔
قبولیت دعا کی مختلف صورتیں
روایات میں واضح طور پر آیا ہے ہر دعا قبول ہوتی ہے ہر دعا قبول ہوتی ہے، لیکن قبول کا یہ مطلب نہیں ہے جو ہم نے مانگا ہو خدا وہی دے دے۔ خدا یہ دیکھتا ہے کہ ہمارے فائدے میں ہے یا نہیں، اگر فائدہ نہ ہو خدا اس دعا کی برکت سے، اس دعا کے نتیجے میں کسی آنے والی پریشانی کو ٹال دیتا ہے، آنے والی مشکل کو ٹال دیتا ہے۔ اس دنیا میں اس کا نتیجہ مل گیا، کبھی جو چیز ہم نے مانگی اگر وہ میرے فائدہ میں بہتر نہ ہو تو جو بہتر ہو خدا وہ عطا کر دیتا ہے۔ اور اگر اس دعا کا اس دنیا میں فائدہ نہ ہو تو آخرت کا ذخیرہ قرار دیتا ہے ۔
یہ روایت بہت ہی عجیب ہے، جب انسان اپنا نامہ اعمال دیکھں گے بڑی بڑی عبادتوں کا ثواب دیکھ کر، حیران ہو کر کہیں گے یہ تو ہم نے کیں ہی نہیں تھیں۔ خدا فرمائے گا: یہ ان دعائوں کا ثواب ہے جو دنیا میں قبول نہیں ہویں۔ پھر انسان کہے گا: کاش میری کوئی دعا قبول نہ ہوتی
کیونکہ اس دنیا میں اگر ایک دروازا بند ہو تو دس کھل جاتے ہیں لیکن وہاں وہی وسیلہ ہے، پھر انسان یہی کہے گا کہ کاش دینا میں کوئی دعا قبول نہ ہوتی، استجب لکم جو چیز تمہارے فائدے میں ہو کیونکہ وہان کوئی کام نہیں آئے گا، یہاں بہت زیادہ اسباب و وسائل ہیں لیکن وہاں وہی وسیلہ ہے۔ پھر انسان کہے گا کاش میری کوئی دعا قبول نہیں ہوتی۔
تو دعا قبول ہوتی ہے جو چیز انسان کے فائدے میں ہو گی۔ ہم دعا کرتے ہیں خدایا بیٹا عطا فرما لیکن وہ جانتا ہے میرا بیٹا کیسا ہوگا، کتنے بیٹے ایسے کہ ان سے بیٹیاں اچھی ہوتی ہیں۔ وہاں مجھے نوکری مل جائے شاید وہاں جانے سے میرا دین ختم ہو جائے، یہ چیزیں ہیں جو خدا جانتا ہے۔مصلحت کی بنیاد پر عطا کرتا ہے، دعا مانگنے کا خدا نے ہی حکم دیا ہے دعا کو قبول بھی وہی کرتا ہے ۔
ارشاد فرمایا:
(
وَ قالَ رَبُّكُمُ ادْعُوني أَسْتَجِبْ لَكُم
)
تمہارا رب تمہیں کہہ رہا کہ دعا کرو میں قبول کروں گا۔ لیکن اس دعا کرنے کے بعد جو خالق کائنات نے تعبیر استعمال کی ہے وہ یہ ہے
(
إِنَّ الَّذينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبادَتي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ داخِرين
؛)
اور وہ لوگ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں میرے سامنے جھکنے سے منہ پھیرتے ہیں سیدخلون جھنم یہ جہنم میں جائینگے، الٹے منہ، منہ کے بل جہنم میں جائینگے، اگر ہم ابتدا ئے آیہ کو دیکھیں دعا کی بات ہو رہی ہے ۔لیکن دعا کے بعد خدا یہ فرمایا رہا ہے وہ لوگ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں، اس کا مطلب یہی ہے کہ دعا ہی عبادت ہے
اور جو دعا نہیں کررہا گویا کہ وہ تکبر کا مرتکب ہو رہا ہے۔ خدا سے نہیں مانگ رہا، اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھتا ہے کہ خدا سے نہیں مانگ رہا۔ لہذا یہاں قرآن مجید نے دعا کو عبادت کہا ہے اور جو دعا نہیں کرتے گویا تکبر میں مبتلا ہو رہے ہیں، خدا کی الوہیت میں شک کر رہے ہیں تردید کر رہے ہیں اور ردائے الہی میں خدا سے جھگڑا کر رہے ہیں، خدا کو ایسے بندے پسند نہیں ہیں یہ جہنمی ہیں۔
آداب دعا
خداوند متعال حکم دے رہا ہے کہ مانگو، البتہ مانگنے کے کچھ آداب ہیں؛ کیونکہ تمہیدی گفتگو ہے مختصر طورپرعرض کروں۔ امام صادق کے پاس کوئی شخص آیا، کہنے لگا میں دعا کرتا ہوں قبول نہیں ہوتی جبکہ خدا کا وعدہ ہے کہ دعا کرو میں قبول کروں گا۔ فرمایا ہاں، کیونکہ تم جس سے دعا مانگ رہے ہو اس کی معرفت ہی نہیں رکھتے تمہیں پتا تو ہونا چاہیے کہ کس سے دعا مانگ رہے ہو، خدا کی کتنی معرفت رکھتے ہو۔ جس راستے سے دعا جا رہی اسے پاک کیا ہے، تمہارا کھانا حلال ہے حلال رزق ہے، یا حرام کھا کر دعا کر رہے ہیں حرام کمائی سے اگر انسان استفادہ کرے اور پھر دعا کرے یہ دعا اوپر جاتی ہی نہیں ہے۔ وہاں پہنچتی ہی نہیں ہے، اب دیکھو تم جس راستے سے دعا کرو اسے پاکیزہ ہونا چاہیے، پھر آداب قرآنی دعائوں میں ملاحظہ کریں گے دعا کی پہلی سیڑہی یہی ہے۔ پہلے خدا کی حمد و ثنا کی جائے۔
سورہ حمد کو ہی دیکھ لیجیے جب ہم خالق کائنات سے اپنی ہدایت کا سوال کرتے ہیں تو پہلے اس کی تعریف کرتے ہیں
(
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحيمِ *الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمينَ *الرَّحْمنِ الرَّحيمِ *مالِكِ يَوْمِ الدِّينِ؛
)
حمد تیرے لئے ثنا تیرے لئے ہے، تو رحمن ہے، رحیم ہے، روز جزا کا تو ہی مالک ہے۔ پھر اپنی بندگی کا اظہار کرتے ہیں، اپنے عاجزی کا اعلان کرتے ہیں۔ ایاک نعبد تیرے ہی عبادت کرتے ہیں تجھ سے ہی مدد طللب کرتے ہیں۔ اپنی عاجزی کا اعلان، خدا کی بے نیازی کا اعلان، اب جا کر دعا کرتے ہیں کہ
(
اهدنا الصراط المستقیم
،)
ہمیں صراط مستقیم کی ہدایت عطا فرما۔
دعا کیلئے آداب ہیں، پہلے حمد الہی بجا لائو، خدا کی تعریف کرو، خدا کی تمجید کرو، تسبیح کرو، خدا کی اوصاف جمیلہ اور اوصاف حمیدہ کو بیان کرو، اپنی عاجزی کا اعلان کرو، خدا کی نعمتوں کو بیان کرو، اپنے گناہوں کو بیان کرو ربنا ظلمنا انفسنا، بار الہا ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے۔ طالوت اور جالوت کو واقعے میں جب ہم قرآن میں دیکھیں ، جب انہیں احساس ہو گیا کہ لا طاقة لنا ہم کچھ بھی نہیں کرسکتے خدا کی بڑائی بیان کی انت مولانا تو ہمارا آقا ہے، ہمارا مولا ہے، تو ہمیں بخش دے۔
دعا آداب رکھتی ہے، خدا کی حمد ثنا تسبیح تمجید تقدیس اس کی نعمتوں کا بیان اپنے عاجز محتاج ہونے، اپنے گناہوں کا اعلان، اس کےبعد خدایا جب اتنی نعمتیں دی ہیں، اتنا کرم کیا ہے، اتنا فضل کیا ہے تو یہ نعمت بھی عطا کر دے، اور ان دعائوں کو ان آداب کو اگر دیکھنا ہو تو اہلبیت کی دعائوں کو دیکھیں، امام حسین کی دعائے عرفہ کو دیکھیں، انت الذی کتنی مرتبہ امام کہہ رہے ہیں انت الذی خدایا تو ہی ہے۔ تو نے رزق دیا، تو نے وجود عطا کیا، اس کی بقا کے اسباب عطا کئے، میں ہی ہوں شکر نہیں کرتا، میں ہی ہوں تیری نعمتوں کے بعد گناہ کر رہا ہوں۔ تو بلا رہا ہے میں تیری طرف نہیں آ رہا ہوں۔
ان آداب کے ساتھ دعا کی جائے تو قبول ہوتی ہے ۔قرآنی دعائوں کا یہ سلسلہ جارے رہے گا، اس میں قرآن میں نقل ہونے والی دعائوں کو موضوعاتی طور پر آپ کی خدمت میں پیش کرینگے، انشا اللہ خدا ہم اور آپ کی توفیقات میں اضافہ فرمائے، و السلام علیکم۔
شر شیطان سے پناہ مانگنے کی دعا
أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ وَ هُوَ خَيْرُ نَاصِرِ وَ مُعِين وَ صَلَّى اللهُ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ.
(
وَ قُلْ رَبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزاتِ الشَّياطينِ
)
مومنین کرام قرآنی دعائوں کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں آج شر شیطان سے پناہ مانگنے کی دعا کو ذکر کیا جائے گا۔
اس دعا کو ذکر کرنے کیلئے بھی ہمیں تمہیدی طور پر کچھ چیزوں کو بیان کرنے پڑے گا۔
پہلی بات یہ کہ خالق کائنات نے شیطان کو پیدا ہی کیوں کیا؟ خدا شیطان کو بناتا ہی نہیں تو شیطان ہمیں گمراہ کرتا، نہ ہم گمراہ ہوتے نہ خدا کے در سے دور ہوتے، نہ شیطان کے جال میں گرفتار ہوتے اور نہ ہی یہ سب مسائل پیدا ہوتے، کتنا اچھا تھا کہ خدا شیطان کو بناتا ہی نہیں فلسفہ تخلیق ابلیس کیا ہے؟ بنایا ہی کیوں ہے؟ اس ضمن میں بہت سوالات آتے ہیں بنا ہی لیا تھا تو اسے مہلت کیوں دی، پھر انسانوں پر مسلط ہی کیوں کیا، انسان کو گمراہ کیوں کر سکتا ہے؟ پھر یہ کہ انسان کو گمراہ کیسے کرتا ہے؟ پھر پناہ مانگنے کی معنی کیا ہے؟یہ
(
اعوذ بِاللهِ قل اعوذ برب الناس
)
پناہ مانگنے کی معنا کیا ہے؟ استعاذہ کی معنی کیا ہے؟ کس طرح پناہ مانگے؟ کیسے پناہ ملے گی پناہ کیسے ہوتی ہے؟ یہ اہم مضامین ہیں۔
فلسفہ تخلیق ابلیس
خالق کائنات فیاض علی الاطلاق ہے، وہ دائم الفضل و الاحسان ہے، ہر چیز کو اس نے اپنے فضل اور احسان سے پیدا کیا ہے۔ اس پیاری گفتگو کو قرآن نے نقل کیا ہے۔ حضرت موسی اور فرعون کے درمیان ہونے والی گفتگو، جب حضرت موسی آتے ہیں اور فرعون کو دعوت دیتے ہیں خالق کائنات پر ایمان لے آئو میرے پروردگار کو قبول کر لو، اسی کا کلمہ پڑہ لو تو وہ پوچھتا ہے: تمہارا رب کون ہے؟ سورہ طہ کی آیہ ۵۰ وہ جواب میں ارشاد فرماتے ہیں
(
قالَ رَبُّنَا الَّذي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى
)
؛
خدا کا تعارف فرما رہے ہیں، فرماتے ہیں کہ میرا رب وہ ہے جس نے ہر ممکن چیز کو لباس وجود عطا کیا ہے، خدا کا فضل اور احسان کسی ایک چیز کیلئے کسی ایک مخلوق کیلئے نہیں ہے، ہر چیز کیلئے ہے ہر مخلوق کیلئے ہے، جس بھی چیز میں موجود ہونے کی صلاحیت ہے خدا نےا سے وجود عطا کیا ہے، تمام موجودات کا وجود فضل الہی ہے۔
خالق کائنا ت نے ہر ممکن چیز کو لباس وجود عطا کیا ہے وہ ابلیس ہی کیوں نہ ہو ابلیس ایک وجود ہے ممکن ہے، ہو سکتا ہے خدا کی بنی ہوی مخلوق ہو اور خدا کے مقابلے میں آ کھڑی ہو، خدا کا فضل خدا کے احسان کا تقاضا یہی ہے کہ وہ اسے بھی وجود عطا کرے، یہ آیت بتا رہی ہے کہ ہر ممکن چیز کو لباس وجود عطا کیا گیا ہے، شیطان کو بھی اسی حوالے سے خدا نے فضل و احسان کرتے ہوے وجود عطا کیا، اسے پھر مختار بنایا یہ ایک اور احسان ہے، خالق کائنات نے کچھ چیزوں کو اختیار دیا ہےکہ وہ اپنی مرضی سے اپنے ارادے سے اپنے راستے کو متعین کریں۔ خدا نے اختیار دیا ہے، معرفت کے وسائل دیے ہیں، ہدایت کرنے کے وسائل دیے ہیں۔ پھر اختیار دیا تمہاری مرضی، جس طرح انسان کو خدا نے پیدا کرنے کے بعد اسے ارادہ اور اختیار عطا کیا۔ اور فرمایا کہ
(
إِنَّا هَدَيْناهُ السَّبيلَ إِمَّا شاكِراً وَ إِمَّا كَفُورا
)
ہم نے انسان کو راستہ دکھا دیا ہے اسے معرفت دے دی ہے، حق اور باطل کی پہچان اسے دے دی ہے، اب اس کی اپنی مرضی ہے اب یہ چاہے تو حق کو قبول کر لے شکر گذار بن جائے، چاہے تو حق کا انکار کر کے باطل کو مان کے ناشکرا بن جائے، اسی باب میں خالق کائنات نے ابلیس کو وجود عطا کیا اسے اختیار دیا۔ اس نے پہلے اپنے اختیار کو صحیح استعمال کیا، زمین سے عرشی جا کر بنا، فرشوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے لگا۔
اس بنیاد پر خدا کی تخلیق پر کوئی اشکال نہیں کیا جا سکتا، اس نے مخلوق پیدا کی، اسے اختیار دیا۔ اس نے اپنے اختیار کو جب صحیح استعمال کیا تو فرشتوں کا ہمنشین بن گیا۔ لیکن جن اپنے اخیتار کا غلط استعمال کیا، جب اس نے خالق کائنات کے سامنے کھڑے ہونے کی بات کی، حکم الہی پر اشکال اور اعتراض کیا، کہ مجھے آگ سے بنایا گیا ہے میں افضل ہوں۔ وہ مٹی سے بنا ہے وہ مفضول ہے ۔مجھے خلیفہ بننا چاہیے تھا، تب جا کر وہ ملعون بنا، لعنت کا حقدار بنا، شیطان کی مثال اسی طرح ہے کہ وہ ایک وجود ہے، ممکن ہے، خدا نے اپنے احسان سے اسے پیدا کیا۔ اسے اختیار عطا کیا، بلکل انسان کی طرح۔ کتنے انسان ہیں جو خدائی کا دعوی کرتے ہیں۔ یہ اشکال صرف ابلیس پر نہیں ہوتا، فرعون و نمرود پر بھی ہو سکتا ہے ۔ طاغوت پر بھی ہو سکتا ہے، ظالم حکمران پر بھی ہو سکتا ہے۔ خدا نے انہیں ایسا نہیں بنایا تھا خدا نے انہیں صحیح اور سالم بنایا تھا، اپنے اختیار سے انہوں نے اس راستے کو انتخاب کیا۔
ابلیس کو مہلت دینے کا سبب
اور پھر دوسرا سوال کہ خدا نے اسے مہلت کیوں دی، خدا تو ہر ایک کو مہلت دیتا ہے، تمام انسانوں کو مہلت دی ہے۔ یہ اشکال بھی صرف ابلیس پر نہیں ہے ، اب یہ اشکال کہ خدا نے اسے ہم پر مسلط کیوں کیا کیوں گمراہ کر سکتا ہے؟ یہ بھی حکمت الہی ہے جب خدا نے انسان کو ارادہ اور اختیار دیا تو تمام وسائل اور اسباب بھی فراہم کیے انسان کی ہدایت کیلئے خدا نے اسے ضمیر بھی عطا کیا، عقل بھی عطا کیا، فطرت بھی عطا کی، اندرونی وسائل بھی عطا کیے، خدا نے بیرونی وسائل بھی دئیے، انبیا کو بھیجا، کتابوں کو نازل کیا، فرشتے ہیں جو نیکی کی طرف بلاتے ہیں، دعوت دیتے ہیں، نیکی کرنے والے کو شوق دلاتے ہیں۔ اور پھر وہاں سے برائی کیلئے نفس بنایا، اور بیرونی وسائل بھی بنائے شیطانی قوتیں، خدا نے تمام چیزیں مہیا کیں اب یہ انسان کے اختیار میں ہے کہ وہ کہاں جاتا ہے۔اگر ابلیس باطل کی دعوت دے رہا ہے تو وہاں انبیا ہیں، خدا کی دعوت ہے، آسمانی کتاب ہیں صحیفے ہیں، انسان کی اپنی مرضی ہے تو شیطان کے حوالے سے یہ کوئی اعتراض نہیں ہے اور پھر جب شیطان گمراہ کرنے والا ہے تو خدا نے اپنا فضل اور احسان بھی تو کیا ہے، آجائو توبہ کر لو میں تمہیں بخش دونگا کتنا بڑا فضل ہے خدا کا۔
رسول کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
التائب من الذنب کمن لا ذنب لهُ
جو گناہ کرنے کے بعد توبہ کرتا ہے وہ ایسا پاک بن جاتا ہے کہ گویا اس نے گناہ ہی نہیں کیا، خدا نے اتنا فضل بھی کیا ہے۔ بہرحال خدا نے شیطان کو بنایا یہ تمام حکمت کی چیزیں ہیں حکمت کی بنیاد پر ہیں۔
ہمیں فرمایا شیطان سے پناہ مانگو، قل رب اعوذ بک اے رسول کہہ دو کہ بار الہا میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں شیطانی خیالوں سے، وسوسوں سے جو شیطانی جال ہیں، جو ذہن میں خیال ڈال دیتا ہے، جو امیدوں اور آرزوں کو پیدا کرتا ہے، جو گناہوں کو اچھا کر کے پیش کرتا ہے، نیکیوں کو سخت کر کے پیش کرتا ہے کہ یہ مشکل ہے،
(
قل رب اعوذ من هُمزات الشیاطین،
)
خدایا تجھ سے پناہ چاہتا ہوں تو پناہ دے۔ رسول کو یہ حکم دیا جا رہا ہے نبی کو حکم دیا جا رہا ہے کہ وہ شیطان سے پناہ مانگےاس کے شر سے خدا کی پناہ مانگے، ہم تو معمولی انسان ہیں ہمیں ہر وقت اس ملعون دشمن سے پناہ مانگی چاہیے ۔
والسلام علیکم و رحمة الله و برکاتهُ
۔
اعمال بد سے محفوظ رہنے کی دعا
أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ وَ هُوَ خَيْرُ نَاصِرِ وَ مُعِين وَ صَلَّى اللهُ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
(
قالَ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلين
)
مومنین کرام قرآنی دعائوں کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں، آج جس دعا کی طرف اشارہ کیا جائے گا، جس دعا کے حوالے گفتگو کی جائے گی وہ اعمال بد سے محفوظ رہنے کی دعا ہے۔
کائنات کے بارے میں، مخلوقات کے بارے میں قرآن کا اپنا ہی نظریہ ہے۔ ہم انسان اپنے محدود علم کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ اس دنیا میں صاحب شعور مخلوق صرف انسان ہی ہے، عام انسان یہ سمجھتے ہیں کہ اس دینا میں صرف ہم اپنی مرضی سے کام کرتے ہیں اور دنیا کی تمام بقیہ موجودات بے شعور ہیں۔ وہ ادراک نہیں رکھتیں، شعور نہیں رکھتیں ہیں ، بغیر اختیار اور شعور کے جس چیز کو کام کیلئے بنایا گیا ہے وہ اس عمل کو انجام دے رہی ہیں۔ لیکن قرآن کی منطق اس کے بلکل برخلاف ہے، قرآن مجید کا نظریہ یہ ہے کہ کائنات کی ہر چیز شعور اور ادراک رکھتی ہے با فہم ہے، با شعور ہے۔ اس لئے قرآن نے جہاں خدا کی تسبیح کا تذکرہ کیا ہے تو صرف یہ نہیں فرمایا کہ انسان ہے جو خدا کی تسبیح کر رہا ہے، انسان ہے جو خدا کی تقدیس، تمجید انجام دیتا ہےبلکہ کائنات کی ہر چیز، ہر مخلوق، ذرہ ذرہ اللہ کی تسبیح کر رہا ہے۔
(
يُسَبِّحُ لِلَّهِ ما فِي السَّماواتِ وَ ما فِي الْأَرْضِ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ الْعَزيزِ الْحَكيم
)
یسبح سے کتنی سورتوں کی ابتدا ہو رہی ہے آغاز ہو رہا ہے، کائنات کا ذرہ ذرہ جو کچھ زمینوں میں ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے، اللہ کی تسبیح کر رہا ہے۔
اور دوسری آیت میں خدا نے تصریح سے ارشاد فرمایا:
(
وَ إِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلاَّ يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَ لكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبيحَهُم
)
کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو اللہ کی حمد و ثنا نہ کرتی ہو، کائنات کی ہر چیز خدا کی تسبیح کر رہی ہے، اور پھر دلچسپ بات یہ ہے کہ فرمایا لیکن تم اس تسبیح کو نہیں سمجھتے ، حساب بلکل برعکس ہے، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم شعور رکھتے ہیں، فہم رکھتے ہیں، ہمارے علاوہ کسی چیز کو کوئی شعور نہیں فہم اور ادراک نہیں ہے، لیکن قرآن فرما رہا ہے کہ ہر چیز با شعور ہے، اپنے ارادے اور اختیار سے اللہ کی تسبیح بیان کر رہی ہے، اور تسبیح بھی ایسی تسبیح کہ اس میں مخالفت کا کوئی تصور نہیں ہے، بلکہ انسان یہ تم ہو جو خدا کی معصیت کرتے ہو، کائنات کی ہر چیز تو اللہ کی اطاعت میں مشغول ہے، خالق نے جس چیز کو جس مقصد کیلئے بنایا ہے وہ چیز اسی مقصد کی طرف جا رہی ہے گامزن ہے، انسان تم ہو جو اس پوری کائنات میں اپنے محور سے منحرف ہو جاتے ہو۔
کائنات کی ہر چیز کا اپنے مقصد کی طرف سفر جا رہی ہے۔ سور ج اپنے مدار میں سفر کر رہا۔
(
وَ الشَّمْسُ تَجْري لِمُسْتَقَرٍّ لَها ذلِكَ تَقْديرُ الْعَزيزِ الْعَليم
)
سورج اپنے مدار اور اپنی بنائے ہوئی جگہ میں گردش کر رہا ہے، نہ سورج قمر کو درک کر سکتا ،ہے نہ چاند سورج کی گردش میں خلل ڈال سکتا ہے۔ ہر چیز اپنے راستے کی طرف گامزن ہے، خدا نے ہر ایک کو اپنے مقصد کی ہدایت کر دی ہے۔ وہ اسی مقصد کی طرف سفر کر رہی ہے، بس ہر چیز شعور رکھتی ہے،کائنات کا ذرہ ذرہ شعور رکھتا ہے اور تسبیح کرتا ہے ہم نہیں سمجھتے۔ اور یہ کائنات کی تسبیح کرنا شعور کی دلیل ہے۔
دوسری دلیل جب یوم الحساب ہوگا قیامت کا دن آئے گا ہر ایک سے اس کا حساب لیا جائے گا، جو اس دنیا میں جھوٹ بولنے والے انسان ہیں وہاں خدا کے سامنے کھڑے ہو کر بھی جھوٹ بول دینگے۔ خدا فرمائے گا یہ کام تم نے کیا؟ وہاں انکار کر دینگے، ہم نے تو ایسا کچھ بھی نہیں کیا۔ اس دن خدا حکم دے گا.
(
الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلى أَفْواهِهِمْ وَ تُكَلِّمُنا أَيْديهِمْ وَ تَشْهَدُ أَرْجُلُهُمْ بِما كانُوا يَكْسِبُون
)
آج کے دن ان کی زبانوں پر تالا لگایا جائے گا، ان کے ہاتھ بولیں گے ان کے پائوں گواہی دینگے، ہم تو ان ہاتھوں کو بے شعور سمجھ رہے تھے، ہم تو یہ سمجھتے تھے کہ صرف زبان بول اور کلام کر سکتی ہے۔ قرآن فرما رہا ہے تمہارے ہاتھ گواہی دینگے تمہارے خلاف گواہی دینگے، جلد تمہارے خلاف گواہی دے گی۔ انسان حیرت سے پوچھے گا میرے ہاتھ کو کیا ہو گیا؟ میرے خلاف گواہی دے رہا ہے، میرے پائوں اور جلد کو کیا ہو گیا ہے، جلد سے کہے گا تم میرے خلاف کیوں گواہی دے رہی ہو وہ کہے گی
(
وَ قالُوا لِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنا قالُوا أَنْطَقَنَا اللَّهُ الَّذي أَنْطَقَ كُلَّ شَيْء
)
اس کا حکم تھا جس ہر چیز کو بولنا سکھایا ہے، ہمارے اعضا و جوارح کا گواہی دینا بتاتا ہے کہ یہ بھی شعور رکھتے ہیں، نہ صرف انسانی اعضا و جوارح بلکہ کہا گیا کہ انسان جس جگہ پر نماز پڑہتا ہے وہ جگہ قیامت کے دن گواہی دے گی کہ بار الہا اس نے میرے اوپر تیرے سامنے سجدہ کیا تھا ، زمان اور مکان گواہی دے گا۔
(
يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبارَها
)
اس دن قیامت میں زمین سب خبروں کو ظاہر کر دے گی، تمام رازوں کو برملا کر دے گی آشکار کر دے گی، زمین بھی شعور رکھتی ہے تو کائنات کی ہر چیز شعور و ادراک رکھتی ہے، اب انسان کا عمل پوری کائنات پر اثر انداز ہوا کرتا ہے۔
عزیزوہمیں اپنے اعمال کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے، ہمیں یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ جو عمل میں کر رہا ہوں اس کا اثر صرف مجھ پر ہو گا نہیں، پورے معاشرے پر اثر ہوتا ہے، بلکہ پوری کائنات پر اثر ہوتا ہے، اعمال بد کا نتیجہ تمام انسانوں پر مترتب ہوگا۔ نہ صرف انسانوں پر بلکہ زمیں اور آسمان پر، یہ قرآن کی منطق ہے اور بہت عجیب منطق ہے اور بہت ہی دقیق اور علمی منطق ہے۔ قرآن کا نظریہ یہ ہے کہ زمین و آسمان میں جو کچھ فساد ہو رہا ہے وہ انسان کے اعمال کی وجہ سے ہے۔
(
ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِما كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذيقَهُمْ بَعْضَ الَّذي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُون
)
زمین اور آسمان میں جو کچھ فساد پیدا ہو رہا ہے وہ ان اعمال کا نتیجہ ہے جو انسان انجام دیتے ہیں۔ اس لئے ہم جب روایات میں مشاہدہ کرتے ہیں کہ اگر کوئی نیکی کیلئے نکلتا ہے خاص طور دین کی تعلیم حاصل کرنے کیلئے نکلتا ہے تو اس کیلئے سمندر کی مچھلیاں استغفار کرتی ہیں؛کیونکہ اس کی نیکی کا نتیجہ سمندر پر بھی مترتب ہوگا۔ خشکی پر بھی مترتب ہو گا، زمیں پر بھی، آسمان پر بھی مترتب ہو گا، اور اسی طرح اگر کوئی گناہ کرتا ہے تو گناہ کا نتیجہ بھی پوری کائنات پر مترتب ہوتا ہے یہ جو کچھ فساد ہو رہا ہے یہ جو کچھ قحط ہو جاتا ہے، بارش نازل نہیں ہوتی، اناج پیدا نہیں ہوتا،انواع و اقسام کے عذاب نازل ہوتے ہیں یہ سب انسانی اعمال کا نتیجہ ہوا کرتا ہے۔تو انسان تو اپنے عمل کو معمولی نہ سمجھ، بلکہ ہمیشہ دعا کر کے اللہ تجھے محفوظ رکھے برے اعمال اور ان کے اثرات سے۔
جہالت سے دور ہونی کی دعا
انبیا کی دعائوں میں ملاحظہ کریں جو قرآن نے نقل کی ہیں ، جہالت بہت بڑی بیماری ہے، بری چیز ہےاور ہر وہ چیز بری ہے جو انسان کو خدا سے دور کر دے،لہذا جب حضرت موسی علیہ السلام نے خالق کائنات کے حکم سے اپنی قوم کو یہ پیغام دیا کہ خدا کہہ رہا ہے ایک گائے کو ذبح کرو، تو انہوں نے کہا اتتخذنا ہزوا؛ آپ ہمار مذاق اڑانا چاہتے ہ یں، داستان در اصل یہ ہے کہ ایک قتل ہو گیا ، ہر قبیلا یہ کہہ رہا تھا یہ قتل اس نے کیا ہے اس نے کیا ہے، اب بارہ قبیلوں میں جنگ کا خوف پیدا ہونے لگا کہ کہیں قبیلائی جنگ شروع نہ ہو جائے۔قبیلے آئے موسی علیہ السلام کے پاس آپ معاملے کو حل کیجیے ، حضرت موسی علیہ السلام نے خدا کے حکم سے انہیں فرمایا کہ ایک گائے ذبح کرو، انہوں نے سمجھا کہ یہ مزاق کر رہے ہیں گائے ذبح کرنے سے یہ مسئلا کیسے حل ہو گا، تو یہاں حضرت موسی علیہ السلام نے جہالت اور اس کے آثار سے اس کے نتائج سے اللہ کی پنای مانگی ہے
(
اعوذ بالله ان اکون من الجاهلین
،)
میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ جاہلین میں سے بن جائوں، میں تمہارا مسخرہ کیوں اڑائوں گا، مسخرے بازے کیوں کرون گا یہ عمل جاہلوں کا عمل ہے اور انبیا جہالت سے دور ہیں۔
ایک دعا ہمیں یہ کرنی چاہیے کہ ہم جہالت سے دور رہیں، یہ جہالت انسان کو پتا چلے بغیر گناہوں میں دھکیل دیتی ہے،اسے پتا ہی نہیں چلتا، اسی لئے رسول کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حکم دیا گیا(
وَ قُلْ رَبِّ زِدْني عِلْما
)
؛
یہ دعا کیا کرو کہ بار الہا میرے علم میں اضافہ فرما، مجھے صاحب بصیرت بنا دے مجھے فہم اور شعور اور ادراک اور معرفت عطا فرما، کیونکہ جہالت انسان کی دشمن ہے اور انسان جہالت کے دشمن ہیں جس چیز کو نہیں جانتے اس سے دشمنی کرتے ہیں۔ یہ بھی رسول کی عظیم الشان اخلاقی سیرت کا نتیجہ ہے کہ جب لوگ آپ کو نہیں پہچانتے تھے امت آپ کو نہیں پہچانتے تھی، کافر نہ پہچاننے کہ وجہ سے آپ پر ظلم کر رہے تھے، وہ پتھر مار رہے تھے اور آپ کے لبوں پر دعا تھی
اللهم اهدی قومی فانهم لا یعلمون
( ۲۵)
بار الہا ان کی ہدایت فرما انہیں نہیں معلوم کہ میں کون ہوں اور یہ کیا کر رہے ہیں، جہالت سے خدا کی پناہ مانگنی چاہیے کہ انسان کہیں جہالت میں مبتلا نہ ہو جائے، جہالت انسان کو کہاں پہنچا دیتی ہے، انسان اگر ماننے پر اتر آئے پتا نہیں کس کس کو امام مان لیتا ہے۔ نہ مانے تو علیؑ جیسے عظیم الشان انسان کو امام ماننے سے انکار کر دیتا ہے۔ یہ جہالت اور نادانی کا نتیجہ ہے۔ تو یہاں حضرت موسیؑ یہ دعا کر رہے ہیں پناہ مانگ رہے ہیں
(
اعوذ بالله ان اکون من الجاهلین
)
خدا کا لطف کیا ہے، کیسے خدا مسئلوں کو حل کرتا ہے، ایک گائے کو ذبح کیا گیاہے، مردہ گائے اس کے گوشت کا ایک حصہ اٹھا کر مقتول پر مارا گیا۔ ایک مردہ چیز کو ایک مردہ پر لگایا گیا، حکم الہی سے وہ زندہ ہو گیا۔
یہ قدرت خداوندی ہے، مردہ کو مردہ پر لگا کر زندہ کر دینا یہ اللہ کا کمال ہے، زندہ ہو گیا اس نے بتایا میرا قاتل کون ہے اور مسئلا حل ہو گیا۔ تو انسان کو پناہ مانگنی چاہیے جہالت سے۔
اور یہی دعا جناب نوح علیہ السلام نے کی، جب خالق کائنات نے فرمایا کہ کشتی بنائو اور پھر پانی آنے لگا، خدا نے وعدہ دے دیا تھا کہ میں تمہارے اہل کو محفوظ رکھوں گا۔ اب یہ کشتی پانی پر چلنے لگی، پانی بڑہتا چلا گیا۔ لوگ پہاڑوں کی طرف بھاگنے لگے۔ ان میں حضرت کا بیٹا بھی تھا۔ حضرت نے اپنے بیٹے کو بلایا، آجائو! کہا آج میں پہاڑ پر جا کر پناہ لونگا۔ فرمایا آج کوئی پناہ نہیں سوائے خدا کی پناہ کے، نہیں آ رہا تھا۔ حضرت نے دعا کیلئے ہاتھ بلند کیے، بار الہا! تیرا وعدہ تھا کہ تیری اہل کو بچا لوں گا۔ یہ میرا بیٹا ہے، میرا اہل ہے۔ فرمایا: نہیں! ایسا سوال نہ کرو ۔اب اسے پتا چلا ،متوجہ ہوا کہ اس نے ایک نادانی کی بات کر دی ہے۔ فورا یہی کہا :
(
قالَ رَبِّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ أَنْ أَسْئَلَكَ ما لَيْسَ لي بِهِ عِلْم
)
بار الہا میں تیری پناہ مانگتا ہوں، میں تجھ سے ایسی چیز کا سوال کروں جس کے بارے میں میں نہیں جانتا۔
جہاں انسان کو پتا نہ ہو کہ اس میری مصلحت ہے یا نہیں تو وہان اصرار نہیں کرنا چاہیے، پناہ مانگتا ہوں کہ جس چیز کا علم نہیں رکھتا، اس کا سوال کرنے لگوں اور فورا یہ کہا:
(
وَ إِلاَّ تَغْفِرْ لي وَ تَرْحَمْني
)
اگر تونے میری بخشش نہیں کی اور مجھے معاف کیا مجھے پر رحم نہیں کیا تو میں خاسرین میں سے بن جائوں گا، سب سے بڑا خسارہ یہی ہے کہ انسان خدا کے نزدیک مورد عتاب قرار پائے، جس چیز کو نہیں جانتا اس کا سوال کر بیٹھے، انسان کو پناہ مانگنی چاہیے خدا کے سامنے، خدا کی بارگاہ میں، بار الہا ہم تجھ سے پناہ مانگتے ہیں، ان چیزوں سے جن کا ہمیں علم نہیں ہے اور کتنے اعمال ہیں ہم ان کے بارے میں علم نہیں رکھتے لیکن انجام دیتے ہیں خدا کی پناہ مانگنی چاہیے، اور یہ اعمال کتنے موثر ہوتے ہیں، انسان کو کہاں لے جاتے ہیں۔ اس لئے روایات میں مشاہدہ کریں علما نے پوری کتابیں لکھ ڈالی ہیں اعمال کے نتیجے پر، انسان کے عمل کا نتیجہ کا کیا ہوتا ہے، اگر وہ نیکی کا کام کرے تو نتیجہ کہاں تک مترتب ہوتا ہے نہ صرف اسے فائدہ پہنچتا ہے اس معاشرے کو بلکہ زمین و آسمان کو فائدہ پہنچتا ہے اور اگر انسان گناہ کرنے لگے اس سے نہ صرف انسان کو نقصان ہو گا بلکہ زمین و آسمان کو نقصان ہو گا۔ گناہوں سے دور اور محفوظ رہنے کی دعا کرنی چاہیے گناہ کے جتنے اثرات ہیں انسان کو تباہ و برباد کر دینگے۔
یہ بھی خدا کا کرم ہے کہ فرمایا اگر انسان نیکیاں کرنے لگیں اور زمین اور آسمان کے دروازے کھول دوں گا ان کیلئے، ارشاد رب العزت ہے کہو
(
لَوْأَنَّ أَهْلَ الْقُرى آمَنُوا وَ اتَّقَوْا لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَ الْأَرْض
)
اگر یہ اہل زمین اگر یہ شہروں اور دیہاتوں والے اللہ پر ایمان لے آئیں اور تقوا اور پرہیزگاری اختیار کریں تو ان کیلئے آسمان اور زمین کے دروازے کھول دینگے۔ ان پر نعمتوں کی بارش ہونے لگے گی۔ یعنی اگر انسانی معاشروں میں قحط سالی ہوتی ہے، مسائل ہوتے ہیں، مشکلات ہوتی ہیں، ان کی اہم وجہ ہمارے اپنے اعمال ہیں، اور یہ واضح طور پر فرما گیا ہے کہ جب انسان ایسے گناہ کرنے لگیں جو پہلے ہوا ہی نہیں کرتے تھے، یہ آج کل کی ماڈرن دنیا ہے، جدید دنیا ہے، جہاں جدید وسائل آ گئے ہیں، جدید جدید گناہ آ گئے ہیں ۔پہلے اس طرح کے گناہ کہاں تھے، اور آج کا انسان جو اپنے آپ کو روشن فکر کہتا ہے، ترقی یافتہ کہتا ہے، ۲۱ صدی کا ماڈرن انسان کہتا ہے، اس نے اپنے قوانین کیسے بنا لیے ہیں، کتنے ممالک ہیں جہاں پر رسمی طور پر قانونی طور پر یہ پاس کیا گیا ہے مرد مرد سے شادی کر سکتا ہے عورت عورت سے، تاریخ میں کہاں ہے اس طرح، انواع و اقسام کے جدید گناہ ، روایت میں ہے اگر انسان ایسے گناہ کرنے لگیں جو پہلے نہیں ہوا کرتے تھے نئے گناہ کرنے لگیں تو خدا انہیں نئے نئے عذابوں میں مبتلا کرے گا۔
انسان کو پناہ مانگنی چاہیے ان اعمال سے، حضرت لوط نے یہی دعا کی بار الہا،
(
رَبِّ نَجِّني وَ أَهْلي مِمَّا يَعْمَلُون
)
بار الہا مجھے بچا لے میری اہل و عیال کو بچا لے اس عمل سے جو یہ انجام دیتے ہیں، نہ صرف انسان خود کو بچائے گناہ سے بچنے کی دعا کرے بلکہ اپنے اہل و عیال کو بچا لے ان کے بچنے کی دعا کرے، اپنے اہل و عیال کو صرف مادی خطرات سے بچا دینا یہ کافی نہیں معنوی خطرات سے ، گناہ انسان کی زندگی میں کیا نشیب و فراز پیدا کر دیتے ہیں، انسان کو ان اعمال سے بچنے کی دعا کرنی چاہیے، نہ صرف برائیوں سے بچنے کی دعا کرنی چاہیے بلکہ بدکاروں سے بچنے کی دعا کرنی چاہیے بار الہا ! ہمیں بروں کی دوستی سے بچا، ان کی صحبت سے بچا۔ یہ برے انسانوں کی صحبت انسان کو کہاں پہنچا دیتی ہے، مگر کیا وہ حضرت نوح کا بیٹا نہیں تھا جو غرق ہو گیا، دعا مانگی حضرت نوح نے ، خدا نے فرمایا ایسی چیز کا سوال نہ کرو جس کے بارے میں تمہیں علم نہیں ہے۔ بدکاروں سے دوستی انسان کو برا بنا دیتی ہے اس کے مقابلے میں اچھوں کی دوستی انسان کو اچھا بنا دیتی ہے، بروں سے بھی اظہار برائت کرنا چاہیے ان سے بھی بچننا چاہیے، جناب آسیہ نے یہی دعا کی:
(
رَبِّ ابْنِ لي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّة
)
بار الہا !میری ان تمام مشکلات کے مقابلے میں جو دنیا میں مجھے پیش آئی ہیں آخرت میں جنت کا سوال کرتی ہوں میرے لیے جنت میں گھر بنادے، اور پھر مجھے نجات عطا فرما فرعون سے اور فرعون کے کارندوں سے، جگہ جگہ قرآن میں دعا موجود ہے کہ بار الہا ہمیں ظالموں سے نجات عطا فرما، یعنی شریعت یہ درس دینا چاہ رہی ہے کہ جس طرح تمہیں ظالم نہیں بننا چاہیے اسی مظلوم بھی نہیں بننا چاہیے۔ یہ کافی نہیں کہ ہم صرف ظالم نہ بنیں لازمی ہے کہ ہم ظلم کے مقابلے میں سکوت نہ کریں خاموش نہ بیٹھیں، خاموشی ظلم پر راضی رہنے کی نشانی ہے۔
حضرت صالح علیہ السلام کی قوم نے کیا کیا تھا مگر، کتنے افراد تھے جو آکر ناقے کو انہوں نے نحر کر دیا ذبح کر دیا کتنے لوگ تھے، ایک،
عذاب کتنوں پر آیا
(
فَعَقَرُوها فَدَمْدَمَ عَلَيْهِمْ رَبُّهُمْ بِذَنْبِهِمْ فَسَوَّاها
؛)
پوری قوم ختم ہو گئی، کام ایک فرد کا سزا پوری قوم کو، کیوں؟ کہا یہ ان کے ظلم پر خاموش بیٹھے رہے ان کی خاموشی اس بات کی نشانی تھی وہ بھی اس ظلم پر راضی تھے۔ اس لئے نہ صرف یہ کہ انسان کو ظالم نہیں بننا چاہئے مظلوم بھی نہیں بننا چاہئے یہ دعا کرنی چاہیے بار الہا ہمیں ظالم کے شر سے نجات عطا فرما۔
اور آج کل کے یہ ہمارے ظالم حکمران مغرب کے ایجنٹ حکمران، بہت بڑی برائی ہیں ہمیں یہ دعا کرتے رہنی چاہیے خدا ان کے شر سے محفوظ رکھے امت اسلامیہ کو محفوظ رکھے، یہ کیسے مسلمان حکمران ہیں مسلمانوں پر اگر کوئی ظلم ہوتا ہے تو کوئی آواز نہیں اٹھاتے بلکہ ان کے دربار ی علما فتوا دے دیتے ہیں اسرائیل کے خلاف احتجاج کرنا حرام ہے، رسول اللہ کی گستاخی کے خلاف احتجاج کرنا حرام ہے، لیکن اگر کہیں اسرائیل پر کوئی جارحیت ہوتی ہے تو وہاں سب واویلا کرنے لگتے ہیں یہ ظالم جابر ان کے شر سے بچنے کی دعا کرنی چاہیے۔
اور اگر ہم روایات کی طرف چلے جائیں تو امام زین العابدین علیہ السلام نے صحیفہ سجادیہ کی ۸ دعا میں کتنی چیزوں کے بارے میں خدا کی پناہ طلب کی ہے؛ بار الہا میں تجھ سے پناہ چاہتا ہوں ان چیزوں سے پورے صحیفہ سجادیہ کا مطالعہ کیا جائے تو امام نےتین سو چیزوں کے نام لئے ہیں ، اصول کافی کی روایت کے مطابق یہ دعا کرتے رہنا چاہیے
اعوذ بک یا رب من علم لا ینفع
،
بار الہا میں تجھ سے اس علم سے پناہ چاہتا ہوں جو فائدہ نہ دے، جو مفید علم نہ ہو، اس سے پناہ مانگنی چاہیے کسی کام کا نہیں ہے اور وہ دل جس میں خشوع و خضوع نہ ہو
و من قلب لا یخشع
؛
اور دعا ابی حمزہ ثمالی آیا ہے امام نے یہ فرمایا ہے کہ بار الہا میں سستی سے کاتاہی سے غفلت سے تیری پناہ چاہتا ہوں، یہ اعمال انسان کو
خسر الدنیا و الاخره
بنا دیتے ہیں یعنی انسان کی دنیا بھی برباد ہو جاتی ہے آخرت بھی برباد ہو جاتی ہے، اگر اپنی دنیا اور آخرت کو آباد کرنا ہے تو ان اعمال سے دوری اختیار کرنا پڑی گی اور خدا کی پناہ مانگنی پڑے گی کہ بار الہا ہمیں ان ان چیزوں سے دوری نصیب فرمائے۔
یہ ابی حمزہ کی دعا کا ایک جملہ ہے
(اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْكَسَلِ وَ الْفَشَل
)
بار الہا ! سستی سے تیری پناہ چاہتا ہوں یہ سستی یہ کم ہمتی انسان کی دنیا کو بھی برباد کر دیتی ہے آخرت کو بھی برباد کر دیتی ہے، سست انسان کسی کام کا نہیں ہے۔ واقعا دعائوں میں کتنے معارف ہیں کتنے خزانے ہیں وہ چیزیں جن کے بارے میں ہم تصور بھی نہیں کر سکتے امام نے دعا میں ہمیں بتادی ہیں ، تعلیم دی ہیں۔
امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں بار الہا میں تیری پناہ چاہتا ہوں غصہ کے غالب آ جانے سے، حسد کے غالب آ جانے سے، یہ چیزیں ہیں جن کی طرف ہمیں توجہ کرنی چاہیے اور ان چھوٹی چھوٹی چیزوں کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے یہ مل مل کر بہت بڑی بن جاتی ہیں۔ پھر انسان کے عظیم خسارے کا سبب بن جاتی ہیں۔
والسلام علیکم رحمَة اللَّهِ و برکاته