قرآنی دعائیں

قرآنی دعائیں0%

قرآنی دعائیں مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن

قرآنی دعائیں

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجۃ الاسلام غلام قاسم تسنیمی
زمرہ جات: مشاہدے: 30612
ڈاؤنلوڈ: 4184

تبصرے:

قرآنی دعائیں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 21 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 30612 / ڈاؤنلوڈ: 4184
سائز سائز سائز
قرآنی دعائیں

قرآنی دعائیں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

عذاب دوزخ سے بچنے کی دعا

أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ وَ هُوَ خَيْرُ نَاصِرِ وَ مُعِين وَ صَلَّى‏ اللهُ‏ عَلَى‏ مُحَمَّدٍ وَ آلِ‏ مُحَمَّدٍ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ .

( وَ الَّذينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذابَ جَهَنَّمَ إِنَّ عَذابَها كانَ غَراما ) (۳۲)

مومنین کرام قرآنی دعائوں کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں، آج جس دعا کو پیش کرنا ہے آپ کی بارگاہ میں وہ قیامت اور دوزخ کے عذاب سے محفوظ رہنے کی دعا ہے۔

اس حوالے سے جو سوال پیش آتے ہیں وہ یہ ہیں کہ اصلا خالق کائنات نے جہنم کو پیدا ہی کیوں کیا ہے، وہ اتنا بڑا کریم ہے، رحیم غفار ہے، بخش دیتا تمام گناہوں کو، جہنم کو پیدا ہی کیوں کیا ہے؟

اور اگر جہنم کو بنایا بھی سزائوں کو مقرر بھی کیا تو جہنم ہمیشہ کیلئے کیوں ہے؟ خالدین فیِ ہِا وہ ہمیشہ ہمیشہ اسی میں رہینگے، اور پھر ایسے ایسے عذاب

( إِذِ الْأَغْلالُ‏ في‏ أَعْناقِهِمْ وَ السَّلاسِلُ يُسْحَبُون ) (۳۳)

گردن میں زنجیریں ہوں گی، پینے کو ابلا ہوا پانی دیا جائے گا، انسان کی ایک کھال جل جائے گی انسان تمنا کرے گا کہ مر جائے لیکن اسے موت نہیں آ گی۔ جیسے ہی جلد جل جائے گی فورا دوسری جلد کو پیدا کیا جائے گا اور کہا جائے گا چکھو عذاب الہی کو، کیا جہنم کا وجود لطف الہی پر ایک اشکال نہیں ہے؟

دیکھیے خداوند متعال نے اس کائنات کو بیہودہ پیدا نہیں کیا بغیر مقصد پیدا نہیں کیا افحبتم انما خلقناکم ابثا، کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں بیکار پیدا کر دیا ہے ،صرف اسی لئے پیدا کیا تھا کہ اس دنیا میں کھائو پیئو منوں ٹن پانی اور کھانے کو خرچ کرو، دنیا میں دکھ اور سکھ برداشت کرو پھر جا کر سو جائو بات ختم ہو گئی، کوئی تماشا تھا کوئی بازی تھی، کیا ہے، نہیں اس دنیا کو پیدا کرنے کا ایک مقصد ہے ایک ہدف ہے، کیا ہے؟ کمال کو پہنچنا۔ خالق کائنات چاہتا ہے کہ ہر مخلوق اپنے کمال کو پہنچے، کمال کیسے حاصل ہوگا؟ جب انسان رضائے الہی کو حاصل کر لے گا،

( و ما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون ،)

میں نے انس اور جن کو پیدا نہیں کیا سوائے اپنی بندی کیلئے ، کب بندگی کر سکیں گے جب معرفت حاصل کرینگے، خدا نے پوری کائنات کو بنایا انسان کیلئے

خلقت الاشیاء لاجلک و خلقتک لی

(۳۴)

میں نے پوری مخلوقات کو تمہارے لئے بنایا ہے اور تمہیں میں نے اپنے لیے بنایا ہے۔حساب و کتاب کے مطابق یہ دنیا پیدا ہوئی ہے۔ اگر یہ حساب و کتاب نہ ہو تو مقصد نہیں، کوئی ہدف نہیں اس زندگی کا۔ اگر حساب و کتاب نہ ہو تو اس دنیا میں کیسے زندگی بسر کی جا سکتی ہے، اگر ظالم کو پتا ہو کہ اس کے ظلم کا کوئی حساب نہیں ہو گا، اگر مظلوم کو پتا ہو کہ جو وہ ظلم برداشت کر رہا اس کا کوئی ثواب نہیں ملے گا کوئی نتیجہ نہیں ملے گا تو کس بنیاد پر صبر کرے گا، کونسی سے چیز ہے جو ظالم کو روک سکتی ہے ظلم سے، مظلوم کو امید دلا سکتی ہے وہ حساب و کتاب ہے۔ اعمال کا حساب و کتاب ۔

( فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقالَ‏ ذَرَّةٍ خَيْراً يَرَه ) (۳۵)

ذرہ برابر اگر کوئی نیکی کرے گا تو اسے اس کا بدلہ ملے گا نعمت کی صورت میں بہشت کی صورت میں،

( وَ مَنْ يَعْمَلْ مِثْقالَ‏ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَه‏ ) (۳۶)

برائی کرے گا تو اس کا بھی نتیجہ اسے دیکھنے پڑا گا، عذاب کی صورت میں، جلتی آگ کی صورت میں۔

دوزخ کیوں؟

در حقیقت محقق متکلمین کی نگاہ میں یہ جہنم خدا نے نہیں بنائی اس طرح، بلکہ جو ہمارا نظریہ ہے امامیہ کا تجسم اعمال کی صورت میں جتنے بھی عذاب ہیں جہنم کے، یہ ہمارے اعمال ہیں ہمارا اپنا عمل ہے۔ انسان جب اس دنیا میں کسی کا مال کھاتا ہے اس کی حقیقی تصویر یہ ہے کہ وہ آگ کھا رہا ہے، یہ جہنم کے جتنے سارے عذاب ہیں ایسا نہیں ہیں کہ دنیا کی طرح ہوں، کہ عمل کچھ ہے سزا کچھ اور ہے، جہنم کے عذاب انسانی عملوں کی تصویر ہیں، جو انسان نے یہاں کیا ہے وہی اسے دکھایا جائے گا، کوئی نئی صورت نہیں ہے۔ قرآن میں بار بار کہا گیا ہے کہ یہ وہی جزا ہے جو تم نے کی تھی، یہ وہی کچھ ہے جو تو نے انجام دیا تھا، جہنم اور اس کا عذاب کوئی الگ سے سزا نہیں ہے جس طرح دنیاوی سزائیں ہیں، اگر ہم کلامی اصطلاح استعمال کریں تو رابطہ تکوینی ہے گناہ اور جہنم کی سزا میں، اب اگر کوئی اپنے ہاتھ سے کلہاڑی ما کر اپنا پائوں کاٹ دے کیا کوئی کہہ سکتا ہے خدا کریم ہے، نہیں اس نے اپنی مرضی و اختیار سے اختیار کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوے خود کو عذاب میں مبتلا کر دیا، خدا کے رحم و کرم کا اس میں عمل دخل نہیں ہے، خدا نے تو صرف پیدا کیا اسے اختیار دیا اسے تمام وسائل پیدا کئے

( إِنَّا هَدَيْناهُ‏ السَّبيلَ إِمَّا شاكِراً وَ إِمَّا كَفُورا ) (۳۷)

راستہ کی رہنمائی کر دی اب انسان پر ہے کہ کس راستے پر چلتا ہے، در حقیقیت جہنم اور اس کے عذاب انسانی عمل کا نتیجہ ہیں، یہ جو قرآن میں ہے کہ

( وَ لا يَغْتَبْ‏ بَعْضُكُمْ بَعْضا ) (۳۸)

غیبت نہ کرو؛ کیونکہ یہ اپنے مردہ بھائی کے گوشت کھانے کے مترادف ہے در حقیقت بتایا یہ جا رہا ہے کہ اس غیبت کرنے کی اصلی تصویر یہی ہے، جو غیبت کر رہا ہے گویا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھا رہا ہے؛ ہم دیکھنے میں بھی کبھی غلطی کر جاتے ہیں آخرت کا عذاب بھی اسی طرح ہے، ہم یہ سمجھ رہے ہیں کہ کوئی الگ چیز ہے، نہیں یہ ہمارے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے، دنیا کا ظلم ، ظلمات ہے قیامت میں تاریکیوں کی صورت میں عذاب کی صورت میں، یہ ہمارے عمل ہیں جو وہ روپ اپنا لینگے۔جس طرح روایات میں ہے کہ نیکیوں کا جسم بن جائے گا کوئی اگر قرآن کی تلاوت کرتے ہے تو اچھے خوبصورت انسان کی صورت میں قیامت میں اس کے پاس آکر اسے تسلی دیتا ہے کہتا ہے میں وہی تلاوت ہوں،(۳۹)

انسان وہاں جتنے نور دیکھے گا اس نیکیوں کا نتیجہ ہوگا جو وہ وہاں انجام دے چکا ہو گا، عذاب برائیوں کا نتیجہ ہوگا،در حقیقت یہ جہنم خدا کی طرف سے نہیں ہے انسان اپنے اعمال سے خود تیار کرتا ہے۔بلکہ خالق کائنات نے یہ جہنم کو رکھا ہے کہ انسان صحیح راستے پر چلتا رہے۔

حضرت علامہ جوادی آملی فرماتے ہیں قیامت کے دن کتنے ہی انسان جہنم کو جا کر بوسے دینگے کہ تمہارے ڈر کی وجہ ہم نے اللہ کی اطاعت کی آج جنت میں جا رہے ہیں(۴۰)

ہر ایک کا اپنا درجہ ہوتا ہے کچھ خوف کی وجہ سے عبادت کرتے ہیں کچھ لالچ کی وجہ سے عبادت کرتے ہیں لیکن امام علی کے فرمان کے مطابق خدایا میں نے تیری عبادت جنت کی لالچ میں کی ہے نہ جہنم کے خوف سے

بل وجدتک اهلا للعباده (۴۱)

بلکہ اس لئے کی ہے کہ تو اہل عبادت ہے۔اس پیشانی کو یہیں جھکنا چاہیے۔ در حقیقت ایک رابطہ تکوینی ہے۔ اعمال میں اور جزا و سزا میں۔

دوزخ ہمیشہ کے لئے کیوں؟

اب یہ ہمیشہ کیلئے کیوں ہے؟ اس کا بھی جواب روایات میں یہ دیا گیا ہے کہ اگرچہ انسان کو زندگی کم ہی دی گئی ہے لیکن انسان کا ارادہ تو دائمی ہے۔ہر انسان کو پتا ہے اگر میں رہوں گا تو یہی کروں گا، نیک انسان کہتا ہے جب تک رہوں گا نیکی کرتا رہوں گا، برے برائیوں کے پیچھے ہوتے ہیں، ان کی نیت کا بھی حساب و کتاب ہے ، نیت کی وجہ سے ہمیشہ رہینگے۔(۴۲)

اب یہ کوئی کہے ایک گناہ انسان اس دنیا میں چند منٹوں میں انجام دیتا ہے اس کو اتنی لمبی سزا کیوں دی جا رہی ہے؟ جواب اسی دنیا میں ہی ہے اگر کوئی ایک منٹ میں گولی چلا کر قتل کر دیتا ہے تو دنیا میں اسے بھی ہمیشہ جیل میں رکھا جاتا ہے یعنی ایسا نہیں ہے کہ جتنے منٹ یا جتنی مدت میں کام کیا جائے اس کی سزا بھی اتنی ہو، گناہ کو دیکھا جا ئے گا کہ کتنا ہے اس کی مدت کو نہیں دیکھا جائے گا، اس کے مطابق سزا دی جائے گی۔گناہ اور آخرت کا عذاب بھی اسی طرح ہیں۔

خالق کائنات نے اہل ایمان کی عباد الرحمن اور بندگان خدا کی نشانیاں بتاتی ہیں کہ اللہ کے بندے وہ ہیں جو زمین پر چلتے ہیں تو تواضعانہ چلتے ہیں، انکساری کے ساتھ چلتے ہیں

( عباد الرحمن الذین یمشون علی الارض هونا؛ وَ إِذا خاطَبَهُمُ‏ الْجاهِلُونَ قالُوا سَلاما ) (۴۳)

رحمن کے بندے وہ ہیں کہ متواضعانہ چلتے ہیں اور جب جاہلین آکر ان سے خطاب کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ تم پر سلامتی ہو یعنی جاہلوں سے جاہلانہ سلوک نہیں کرتے یہ تو جاہل ہیں اپنی جہالت کی وجہ سے ، بلکل ایسے جب حضرت لقمان سے پوچھا گیا کہ آپ نے ادب کس سے سیکھا ہے فرمایا بے ادبوں سے، میں ان کی بے ادبی دیکھ کر میں ان کے بر عکس کر کے با ادب بن گیا ہوں۔

جہنم کے عذاب

رحمن کے بندوں کی ایک نشانی یہ ہے کہ جاہلوں سے جاہلانہ سلوک نہیں کرتے،

( وَ الَّذينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذابَ جَهَنَّمَ إِنَّ عَذابَها كانَ غَراما ) (۴۴)

اور عباد الرحمن وہ ہیں جو دعا کرتے ہیں اے ہمارے پروردگار! عذاب جہنم کو ہم سے دور کر دے، یقینا جہنم کا عذاب بہت بڑا عذاب ہے، بہت بڑی چیز ہے کوئی معمولی چیز نہیں ہے۔ ہم بسا اوقات جو غفلت کرتے ہیں اس لئے کہ نہیں جانتے کہ جہنم کیا چیز ہے جہنم کے عذاب کیا ہیں؟ غفلت میں ہیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں اگر پتا چل جائے کیا ہے جہنم؟ اس دنیاکی لذتین جہنم کے عذاب کے سامنے کچھ بھی نہیں ہے، انسان کتنا عذاب برداشت کر سکتا ہے جہنم کا، دنیا کی آگ برداشت نہیں کر سکتا تو آخرت کی آگ کو کیسے برداشت کر سکے گا،نارٌ حامِيَة (۴۵) ؛

جلد کو ہی نہیں جلائی گی ہڈیوں کو دل تک جلا دے گی، بڑی بات یہی ہے کہ وہاں آدمی کہے گا کہ موت آجائے لیکن نہیں آئے گی۔ یہاں دنیا میں تو انسان تکلیف برداشت کر کرکے مر جاتا ہے، تکلیف ختم ہو جاتی ہے وہاں موت بھی نہیں ہے، ایک جلد ختم ہوئی دوسری وہ ختم ہوئی تیسری، لیکن موت نہیں ہے۔

امام زین العابدین  کی دعا

جہنم کوئی معمولی چیز نہیں ہے اس لئے امام زین العابدین صحیفہ سجادیہ کی ایک دعا میں ارشاد فرماتے ہیں کہ بار الہا ! نعوذبک من الحسرۃ العظمی،

عظیم حسرت سے تیری پناہ چاہتے ہیں ، سب سے بڑی حسرت یہی ہو گی کہ انسان قیامت میں جہنم میں جائے، کیونکہ کے اس کے بعد کرنے کیلئے کچھ بھی نہیں ہے جو کچھ کرنا تھا اس دنیا میں ہی کرنا تھا، بڑی حسرت یہ کرے گا، بار الہا ! مجھے دنیا میں دوبارہ بھیج دے۔ اب اچھا بنوں گا، تجھ پر ایمان لے آتا ہوں، تیرے رسولوں کو مان لیتا ہوں، تیرے اوامر کی اطاعت کروں گا، فرمانبردار بن جائوں گا، مجھے دوبارہ دنیا میں بھیج دے، دوبارہ موقعہ دے، ایک مہلت دے دے؛ نہیں مہلت جو دینی تھے وہ دے چکے، عظیم حسرت جس حسرت کے بعد کچھ کر نہیں سکتا۔

و المصیبة الکبری، و اشقی الاشقیا

بد بختی کی انتہایہ ہے، حد یہ ہے کہ انسان جہنمی بن جائے، امام زین العابدین کی دعا کے الفاظ ہیںو حرمان الثواب و حلول العقاب (۴۶)

؛بار الہا! تیری پناہ چاہتے ہیں ہم ثواب سے محروم رہیں اور عذاب کے حقدار بن جائیں۔ جہنمی بننے میں دو قسم کے عذاب ہیں، بڑے عذاب ہیں، ایک تو جسمانی عذاب ہے، انسان جل رہا ہے ، اسے ابلتا پانی دیا جا رہا ہے پینے کیلئے، عجیب غریب چیزوں سے اس کی پذیرائی ہوگی، مہمان نوازی اور دعوت ہوگی جن کو دکھ کر انسان تصور بھی نہیں کر سکتا، اور دوسرا عذاب خدا سے دوری کا ہے، اور اولیا الہی کیلئے یہ عذاب جسمانی عذاب سے بہت بڑا ہے۔

مولا علی علیہ السلام دعائے کمیل میں کہتے ہیں صبرت علی حر نارک بار الہا میں تیری جہنم کی گرمی پر صبر کرسکتا ہوں لیکن تیرے فراق اور تیرے لطف نظر سے دوری پر کیسے صبر کروں۔ واقعا بہت بڑا عذاب ہے انسان مومن، اس دنیا میں جو لوگوں کو کہتا تھا تم کافر ہو تم مشرک ہو جہنم میں جائوگے قیامت کے دن اپنے اعمال کی وجہ سے جہنم میں جائے، وہ طعنے نہیں دینگے۔ تم تو کہتے تھے ہم مومن ہیں، خدا والے ہیں، تم یہاں کیوں آئے ہو۔یہ ڈبل عذاب ہے۔خدا سے دوری، لطف الہی سے دوری۔

حضرت ابراہیم  کی دعا

حضرت ابراہیم علیہ السلام کیا دعا مانگ رہے ہیں قرآن مجید حضرت ابراہیم یہ دعا موجود ہے،

( وَ لا تُخْزِني‏ يَوْمَ يُبْعَثُون ) (۴۷)

بار الہا ! قیامت کے دن مجھے رسوا نہ کرنا، یہ رسوائی بہت بڑی رسوائی ہے کہ انسان عذاب اور جہنم میں جائے، جہنم کے عذاب کو اور خدا کی دوری کو خدا کی ناراضگی کو برداشت کرے۔ بہت بڑی بات ہے۔ اس لئے عباد الرحمن یہ دعا کرتے ہیں کہ بار الہا ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا لے۔

فرشتوں کی دعا

فرشتے مومنوں کیلئے دعا کرتے ہیں اور جو فرشتے دعا کرتے ہیں ان کی ایک اہم ترین دعا یہی ہے کہ بار الہا جو اہل ایمان ہیں ان کو قیامت کے دن رسوائی سے بچا لے انہین جہنم کے عذاب سے بچا لے۔وہ یہ دعا کرتے ہیں( فَاغْفِرْ لِلَّذينَ تابُوا وَ اتَّبَعُوا سَبيلَكَ‏ وَ قِهِمْ عَذابَ الْجَحيم ) (۴۸) بار الہا توبہ کرنے والوں کو بخش دے جو ت یرے راستے پر چلتے ہیں تیرے حکم کی پیروی کرتے ہیں۔ تیری فرمان کی اطاعت کرتے ہیں ان کو بخش دے وَ قِ ہِم عَذابَ الجَحم انہ یں جہنم کے عذاب سے بچا لے۔

فرشتے جانتے ہیں جہنم کا عذاب کیا ہے، لہذا جب جب اہل ایمان کیلئے دعا کرتے ہیں تو یہی دعا کرتے ہیں ، جو تیرے فرمان کی اطاعت کرتے ہیں انہیں بخش دے اور انہیں جہنم کے عذاب سے بچا لے۔ جہنم کا عذاب بہت بڑا عذاب ہے، خاص طور ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ یہی دعا مانگا کرو،

( ربنا آتنا فی الدنیا حسنة و فی الآخرة حسنة و قنا عذاب النار ) ؛

بار الہا دنیا کی بھی نیکی عطا فرما آخرت کی نیکیاں عطا فرما اور ہمیں جہنم کی آگ سے جہنم کے عذاب سے بچا لے۔دنیا اور آخرت کی دعا ایک طرف ہے اور جہنم سے محفوظ رہنے کی دعا ایک طرف ہے، حسنہ دنیا اور حسنہ آخرت ایک طرف ہے و قنا عذاب النار ایک طرف ہے۔انسان کو جہنم سے محفوظ رہنے کی دعا کرنی چاہیے کہ بار الہا اس عذاب نار سے ہمیں نجات عطا فرما۔ اور سب سے بڑی بدبختی یہی ہے، سب سے بڑی پریشانی یہی ہے خسارہ یہی ہے ۔ قرآن مجید نے فرمایا ہے کہ سب سے بڑا خسارہ یہی ہے الذین خسروا انفس ہم؛ اپنے نفس کو ز یان میں مبتلا کرتے ہیں اور اپنے آپ کو جہنمی بنا لیتے ہیں سب سے بڑا خسارہ یہی ہے، سب سے بڑی بدبختی یہی ہے کہ انسان جہنمی بن جائے۔جب کہ خداوند متعال بخشش کے اتنے سارے وسائل دے رکھے ہیں، خدا کتنا کریم ہے۔

حضرت آدم علیہ السلام نے ایک روایت کے مطابق دعا کی بار الہا تو نے شیطان کو پیدا کیا، اسے مہلت دی، اسے مجھ پر مسلط کر دیا ہے۔ میرے لئے کیا ہے؟ فرمایا اے آدم تیری اولاد میں سے اگر کوئی بھی گناہ کرے، پوری زندگی گناہ کرتا رہے، اگر مرنے سے ایک سال پہلے توبہ کر لے میں اسے بخش دیتا ہوں۔ کہا رب زدنی بار الہا کچھ مزید عطا فرما، فرمایا اگر ایک مہینہ پہلے توبہ کر لے تو بھی بخش دیتا ہوں، کہا اور زیادہ، فرمایا ایک ہفتہ پہلے توبہ کرے یہاں تک کہ ایک دن پہلے بلکہ موت یقینی ہونے سے پہلے بھی اگر توبہ کر لے تو اسے بخش دیتا ہوں، کتنا کریم ہے۔

توبہ قبول کر کے ایسا بنا دیتا ہے کہ گویا انسان نے کچھ کیا ہی نہیں تھا۔ یہ زمین قیامت کے گواہی دے گی لیکن انسان مومن توبہ کر لیتا ہے خدا زمین سے بھلوا دیتا ہے، گویا کسے بھی یاد نہیں رہے گا کہ اس نے کوئی گناہ کیا تھا، ہمارے اعضا و جوارح کو یاد ہی نہیں رہے گا اس نے گناہ کیا تھا اتنا کریم ہے خدا، سب سے بڑا گناہ یہی ہے کہ انسان رحمت الہی سے مایوس ہوجائے۔اتنی رحمت وسیع رحمت کے باوجود ،سبقت رحمتة غضبة (۴۹)

؛ اللہ کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے، اس رحمت واسعہ کے باوجود اگر جہنمی بن جائے تو بڑی بدبختی ہے ۔

یہ جو قرآن نے فرمایا ہے کہ خالدین فیھا ، یہ مومنین کیلئے نہیں ہے بلکہ کافرین کیلئے بھی نہیں ہے، مومن اپنے گناہ کی وجہ سے شاید جہنم میں جائے کچھ عرصہ رہے عذاب میں مبتلا ہونے کے بعد اسے بخش دیا جائے پھر اسے جنت میں بھیج دیا جائے گا، یہ خالدین فیھا ان کیلئے ہے جو سرکش تھے، جانتے بوجھتے خدا کی نافرمانی کرتے تھے، خدا کو ماننا تو کیا بلکہ( فَقالَ أَنَا رَبُّكُمُ الْأَعْلى ) (۵۰)

اپنی ربوبیت کی دعوی کرتے تھے، یہ ان طاغوت کیلئے ہے، خالدین فیھا کا یہ مطلب ہی نہیں ہے کہ ہمیشہ یعنی ناختم ہونا بلکہ بہت بڑا زمانہ ہوگا جس میں وہ رہینگے، ہمارے پاس مزید فرصت نہیں کہ اس کی تفصیل میں جائیں، آپ المیزان یا تفسیر نمونہ کو دیکھیں ان تمام آیات کو جب جمع کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ مراتب ہیں۔ ہر چھوٹا بڑا گناہ خالدین فی ہا کا سبب نہیں بنتا، گناہ کی کیفیت اور کمیت پر ہے۔

خدا تو اتنا کریم ہے جب حساب کتاب ہو چکا ہوگا تو کسی کہا جائے گا یہ جہنمی ہے اسے لے جائو، وہ جاتے پلٹ کر دیکھے گا، آواز قدرت آئی گی کیا دیکھ رہے ہو، کہا بار الہا تیری رحمت کا امیدوار تھا ، تو خدا اسے بخش دے گا، اگر تم میری رحمت کے امیدوار ہو تو میری رحمت بہت وسیع ہے اتنی رحمت کے باوجود اگر کوئی انسان بدبخت بن کر جہنمی بن جائے تو رحمت الہی کا قصورنہیں ہے یہ اس کی اپنی بدبختی ہے۔ لہذا ہمیں آئمہ اور انبیا کی تعلیم یہی کہ یہی دعا کرتے رہا کرو بار الہا

( فَاغْفِرْ لِلَّذينَ تابُوا وَ اتَّبَعُوا سَبيلَكَ‏ وَ قِهِمْ عَذابَ الْجَحيم‏ )

امام علی علیہ السلام کی سیرت

امام علی علیہ السلام کی سیرت میں بہت پیاری بات ہے، امام علی نے اپنے کتنے باغ وقف کر دئے خدا کیلئے۔ کبھی علی علیہ السلام کو اسی طرح بھی دیکھا کیجیئے صرف فاتح خیبر نہ بنائیں علی کو، میدان زندگی میں بھی دیکھ لیجیے۔

کتنے باغ بنائے سب کو اللہ کی راہ میں وقف کر دیا، اور جب وقف نامہ لکھتے تھے تو یہی لکھتے تھے بار الہا میں اس باغ کو وقف کر رہا ہوں تا کہ تیرے جہنم کے عذاب سے محفوظ رہوں۔(۵۱)

نگاہ یہ ہونی چاہیے۔

اہلبیت نے جب تین دن روزا رکھا بچوں بڑوں نے افطار کے وقت اپنا سب کچھ اٹھا کر یتیم مسکین اور اسیر کو دے دیا تو یہی کہا کہ

( إِنَّما نُطْعِمُكُمْ‏ لِوَجْهِ اللَّهِ لا نُريدُ مِنْكُمْ جَزاءً وَ لا شُكُورا ) (۵۲)

اللہ کیلئے دے رہے ہیں تم سے کسی چیز کی توقع نہیں ہے اور ہم قیامت کے عذاب سے ڈرتے ہیں بسا اوقات یہ ہوتا ہے ہم بڑے محفوظ اور مطمئن رہتے ہیں کہ قیامت کا عذاب دوسروں کیلئے ہے یہ حضرت ابراہیم کی دعا تھی ۔

یہ علی علیہ السلام کی سیرت ہے یہ انبیا کی دعائیں ہیں، یہ فرشتوں کی دعا

( فَاغْفِرْ لِلَّذينَ تابُوا وَ اتَّبَعُوا سَبيلَک ) (۵۳)

یعنی کوئی انسان نہیں ہے جو سمجھ لے کہ میں یقینی طور پر جنت میں جائوں گا، جہنم سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہر وقت انسان کو متوجہ اور بیدار رہنے کی ضرورت ہے کہیں شیطان ہمیں دہوکہ نہ دے۔ قرآن نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ یہ نصاری اور یہ یہود کیا سمجھتے ہیں کہ حضرت عزیر ابن اللہ ہیں یا حضرت عیسی۔ یہ کہتے ہیں کہ ہم جنتی ہیں اگر دوزخ میں جائینگے تو چند دن ہی رہینگے۔ یہ عقیدہ ہمارا نہیں ہے،ہمارا عقیدہ یہی ہے

( من یعمل ذرة خیرا یره و من یعمل مثقال ذرة شر یره، )

کوئی معاف شدہ نہیں ہےاور آئمہ نے یہ تاکید کی ہےیاد رکھو ہمارے اور خدا کے درمیان کوئی رشتہ داری نہیں ہے یہ نہ سمجھنا کہ رشتہ داری کی بنیاد پر تم بخش دئے جائو گے۔ ہم سے نسبت کی بنیاد پر بخش دئے جائوگے۔

داستان حاجب

شفاعت حق ہے، لیکن شفاعت کا بہانا بنا کر گناہ کرنا جائز نہیں ہے،حاجب ایک بہت بڑے شاعر تھا اس نے ایک شعر کہا کہ

حاجب اگر قیامت کے دن حساب علی علیہ السلام نے کرنا ہے تو پھر ہمیں حساب کا کوئی خوف نہیں ہے۔سو گئے رات کو نینند میں دیکھا آیت اللہ جعفر سبحانی نے اپنی کتاب میں اسے نقل کیا ہے، خواب میں دیکھا علی علیہ السلام آئے ہیں فرمایا تم نے کیا شعر کہا ہے؟ عرض کیا میں نے کہا ہے کہ حاجب اگر قیامت کے دن حساب علی نے کرنا ہے تو گھبرانے کی ضرورت نہیں ۔فرمایا: یوں کیوں نہیں کہتے کہ حاجب اگر قیامت کے دن علیؑ نے حساب کرنا ہے تو شرم کرو، علی کو کیا منہ دکھائوگے۔کیا کہوگے کہ میں تمہارا ماننے والا ہوں۔(۵۴)

پس ہمیں قیامت کے عذاب کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے، قرآن نے جہنم کی کیا حالت بتائی ہے، ان کا کھانا کیا ہوگا، ان کی چیخیں، ان کی پکاریں ان کی فریادیں، کوئی معمولی چیز نہیں ہے۔ انسان کو ہمیشہ یہ دعا کرنی چاہیے بار الہا ہمیں جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما۔

والسلام علیکم و رحمة اللَّه و برکاته

رسوائی سے بچنے کی دعا

أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ وَ هُوَ خَيْرُ نَاصِرِ وَ مُعِين وَ صَلَّى‏ اللهُ‏ عَلَى‏ مُحَمَّدٍ وَ آلِ‏ مُحَمَّدٍ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ .

( رَبَّنا وَ آتِنا ما وَعَدْتَنا عَلى‏ رُسُلِكَ وَ لا تُخْزِنا يَوْمَ الْقِيامَةِ إِنَّكَ لا تُخْلِفُ الْميعاد ) (۵۵)

مومنین کرام قرآنی دعائوں کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں، آج رسوائی سے بچنے کی دعا پیش کرنی ہے۔

انسان کا بہت ہی عظیم سرمایہ اس کی عزت اور آبرو ہوا کرتی ہے، یہ دوسری سب چیزیں آنے جانے والی چیزیں ہیں ان کی اتنی زیادہ اہمیت نہیں ہے جتنی انسان کی عزت کی، اس کی حیثیت کی ہے۔یہ دعا جو ہم پیش کر رہے ہیں یہ قرآن مجید میں اولو الالباب کے عنوان سے مانگی گئی ہے۔ یعنی قرآن مجید نے اولا الاباب کی دعائیں نقل کی ہیں، صاحبان عقل کی دعائیں نقل کی ہیں، ان میں ایک دعا یہ ہے، کہتے ہیں کہ بار الہا ہمیں وہ چیز عطا فرما جس کا تو نے اپنے رسولوں کے ذریعہ سے ہم سے وعدہ کیا ہے،( ولا تخزنا یوم القیامة ؛) قیامت کے دن رسوا نہ فرما، بیشک تو وعدہ کے خلاف ورزی نہیں کرتا،۔ یہ صاحبان عقل کی دعا ہے اور بہت ہی اہم دعا ہے، جس میں عزت اور آبرو مانگی گئی ہے، رسوائی سے بچنے کی دعا کی گئی ہے، کہا جا رہا کہ بار الہا ہمیں وہ سب کچھ عطا فرما جس کا وعدہ تو نے اپنے رسولوں کے ذریعہ سے ہم کیا ہے۔

دنیا میں رسوائی سے بچنے کی دعا

انبیا اور ان کے ماننے والوں کا ایک بہت بڑا مسئلہ یہ ہوا کرتا تھا کہ ان کا تعلق عام طور پر نچلے طبقہ سے ہوا کرتا تھا، تاریخ پر نظر ڈالیں تو اکثر انبیا علیہ السلام غریب طبقہ سے تعلق رکھتے تھے، معمولی معمولی پیشہ کے افراد تھے، دنیوی نگاہ سے دیکھا جائے ان کی بہت زیادہ اہمیت نہیں ہوا کرتی تھی، ان کے ماننے والوں کی حالت بھی یہی ہوا کرتی تھی، عام طور پر غریب، مسکین، اور فقیر لوگ ان پر ایمان لے آتھے تھے جن کا دل گواہی دیتا تھا، جن کا ضمیر بیدار تھا، جن کی فطرت صحیح اور سالم تھی وہ ان کے فطرتی پیغام کو سمجھ لیتے تھے اور ان کو قبول کر لیتے تھے، لیکن جو امرا، شرفا اور حکمرانوں کا طبقہ ہوا کرتا تھا انہیں یہ اچھا نہیں لگتا تھا، اس لیے بعض اوقات ہم تاریخ میں دیکھتے ہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس جب امیر لوگ آئے یا خود رسول اکرم نے خود جب ان کو دعوت دی کہ میرے پروگرام میں شریک ہو جائو، مجھ پر ایمان لے آئو، ان کو سب سے بڑی پریشانی یہ ہوتی ہم کیسے آئیں آپ کے پاس، آپ کی مجلس میں کیسے آئیں، آپ کی محفل میں کیسے آئیں، ہم ان غریب لوگوں کے ساتھ کیسے بیٹھیں، ان کو بڑی پریشانی یہ ہوتی کہ یہ غریب طبقہ کے لوگ ہیں، ہمارا درجہ بلند ہے، ہمارا اسٹیٹس الگ ہے، ہمای ان کے ساتھ نہیں بن سکتی، لہذا اس بنیاد پر ان کا مزاق بھی اڑایا جاتا تھا، جب انبیا علیہ السلام دعوت دیتے تھے دوسروں کو کہ ایمان لے آئو وہ لوگ یہ کہتے تھے کہ یہ دیکھو کہ تم پر کون کون ایمان لے آیا ہے، ان کو اراذل کے نام سے یاد کر کے کہتے تھے کہ یہ تو پست پست لوگ ایمان لے آئے ہیں، کیا ہم بھی ایمان لے آکر ان جیسے بن جائیں، یہ وہ مشکل مرحلہ تھا جب اہل ایمان دعا مانگتے تھے، بار الہا اب یہ ہماری توہین کرنے لگے ہیں، ہمارا مزاق اڑا رہیں ہیں، مسخرہ کر رہے ہیں، یہ ظاہری حالت دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ ہمارا کوئی پشت پناہ نہیں ہے، ہماری کوئی عزت، حیثیت اور آبرو نہیں ہے، تیرا وعدہ یہی ہے کہ تو صالحین کی مدد کرتا ہے، تیرا وعدہ تو یہ ہے کہ تو صالح انسانوں کی عزت کو محفوظ رکھے گا اور دوسروں پر ان کو غالب کر دے گا، لہذا پروردگارا اپنے وعدہ کو سچ کر دکھا؛ وہ کونسا وعدہ تھا جو خالق کائنات اپنے رسولوں کے ذریعہ انسانوں کے ساتھ کیا ہے، یہ وہی وعدہ ہے جو دوسری جگہ پر قرآن مجید میں ذکر ہوا، فرمایا گیا ہے :

( إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنا وَ الَّذينَ آمَنُوا فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَ يَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهادُ ) (۵۶)

ہم ضرور بضرور اپنے رسولوں کی مدد کرینگے، ہم اہل ایمان کی مدد کرینگے، اور خالق کائنات قیامت میں کافروں کو عذاب دیتے وقت یہ فرمائے گا کہ یہ اس چیز کا بدلہ ہے جو تم دنیا میں مومنوں کا مزاق اڑا کرتے تھے، آج تمہارا مزاق اڑایا جائے گا، تم کل مومنوں کو رسوا کیا کرتے تھے، آج تمہاری رسوائی ہو رہی ہے، یہ عزت اور رسوائی بہت اہم چیز ہے، عزت بہت قیمتی چیز ہے، اور رسوائی کو کوئی قبول نہیں کرنا چاہتا، خاص طور اگر وہ رسوائی قیامت کی رسوائی ہو، کیونکہ اہل ایمان کا تو یقین ہے کہ یہ دنیا چند دنوں کی ہے یہاں جیسی تیسی گذر جائے گی اصل مسئلہ اس زندگی کا ہے جو دائمی ہے، جو ابدی ہے، جو ہمیشہ والی ہے،وہاں کی عزت اور اس دنیا کی عزت میں اصلا کوئی مقایسہ نہیں کیا جا سکتا، اصلا قابل قیاس ہی نہیں ہیں، قابل ذکر ہی نہیں ہے یہ دنیا کی زندگی، اصل عزت وہی ہے جو خدا کسی کو عطا فرماتا ہے، اور رسوائی وہی ہے جو قیامت کے دن کی رسوائی ہے، وہ رسوائی کس بنیاد پر ہوگی،سب عمل دوسروں کے سامنے لائے جائینگے۔

خدا کی پردہ پوشی

قیامت کا ایک نام تبلی السرائر ہے،( يَوْمَ تُبْلَى‏ السَّرائِر؛ ) (۵۷)

جب رازوں کو کھول دیا جائے گا، ہر ایک کی مکمل شخصیت ابھر کر سامنے آئے گی، اس دنیا میں تو خداوند متعال بہت پردوں میں ہمیں رکھا ہے، خدا نہ کرے یہ پردے ہٹا دئے جائیں اور ہم ایک دوسرے کو اس حالت میں دیکھیں جس میں دیکھنا نہیں چاہتے، خدا نے پردہ پوشی کی ہے۔

اس لیے امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام ارشاد فرما رہے ہیں کہ

الحذر الحذر فوالله لقد ستر، حتی کانه قد غفر ؛(۵۸)

ڈرو خدا سے ڈرواس نے پردہ پوشی کی ہوئی ہے، اتنی پردہ پوشی کی ہے گویا کہ تمہیں معاف کر دیا گیا ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ حجاب ختم کر دیے جائیں، اور خدا نہ خواستہ یہ حجاب ہٹا دیے جائیں تو ہم میں کتنے قابل ہیں کہ دوسروں کی نظروں کے سامنے رہ سکیں، ایک دوسرے کیلئے احترام، یہ دوسروں کیلئے عزت اس بنیاد پر ہے خالق کائنات نے پردہ پوشی کی ہے اور خدا اس پردہ پوشی کو باقی رکھے، اور ہمارے گناہوں کو بخش دے، بلکہ گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے، وہ رسوائی جو قیامت کے دن ہوگی، سب کے سامنے نامہ اعمال دکھایا جائے گا، بہت بڑی رسوائی ہے، اس دنیا میں تنہائی کی بھی رسوائی ہے، لہذا اولو الالباب کی دعا ہے یہ بار الہا ہمیں دنیا و آخرت کی عزت عطا فرما، دنیا کی عزت کیا ہے؟ جس کا وعدہ تو نے اپنے رسولوں کے ذریعہ سے ہم سے کیا تھا اس کو پورا فرما، ہماری مدد فرما، ہماری نصرف فرما، وہ سمجھتے ہیں یہ کمزور ہیں، کچھ بھی نہیں کرسکتے، یہ تو فقیر غریب اور مسکین ہیں، ہماری مدد فرما، خدا کس طرح مدد فرماتا ہے، کل جو غلام بنا کر بازار مصر میں بکنے آیا تھا، خدا اس طرح عزت عطا فرماتا ہے کہ اس کو بادشاہ بنا دیتا ہے، اور جن کی نیت خالص نہ ہو ان کو غلام بنا دیتا ہے، یہ وہ وعدہ ہے جو خدا نے اپنے رسولوں کے ذریعہ سے کیا ہے، رسولوں سے کیا ہے، اہل ایمان کے ساتھ کیا ہے، اگر تم ان کا ساتھ دو تو تمہیں کوئی رسوا نہیں کر سکتا، دنیا میں تم صاحب عزت رہوگے، کم ہوتے ہوئے دوسروں پر غالب رہوگے،

( كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَليلَةٍ غَلَبَتْ‏ فِئَةً كَثيرَة ) (۵۹)

کتنے چھوٹے گروہ بڑے گروہوں پر کامیاب ہوئے ہیں، خدا نے ا ن کو کامیابی عطا کی ہے،خدایا دنیا میں ہمیں عزت عطا فرما، کسی سے مغلوب نہ بنیں، اور خدا کا یہ وعدہ ہے وہ اپنے دین کو غالب کر کے رہے گا ، خدا اپنے دین کی مدد کرے گا، یہ وعدہ ہے جو رسول کے ذریعہ سے خدا نے ہم سے کیا ہے کہ خدا کے دین والے کامیاب رہیں گے، مشرکوں کو جتنا گراں گذرے، یہ جو کرنا چاہیں کر لیں، لیکن خدا کے ارادہ میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، دین خدا غالب ہوکر رہے گا، یہ ان کی دعا ہے کہ دنیا میں ہمیں وہ کچھ عطا فرما جس کا تو نے رسولوں کے ذریعہ سے ہم سے وعدہ کیا ہے،لا تخزنا قیامت کے دن ہمیں رسوا نہ فرما، قیامت کے دن ہماری عزت کو محفوظ رکھ، جس دن رازوں کو کھول دیا جائے بار الہا اس دنیا میں ہمارے ان گناہوں کو بخش دے جو قیامت میں ہماری رسوائی کا سبب بنیں، اور دوسروں کے سامنے ہمیں رسوا و خوار کیا جائے اور یہ رسوائی بہت بڑی رسوائی ہے۔

اس لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب دعا مانبا چاہیے تو ایک دعا یہ مانگی ک ہ( و لا تُخْزِني‏ يَوْمَ يُبْعَثُون ) (۶۰)

بار الہا!مبعوث ہونے والے دن، محشور ہونے والے دن، قیامت کے دن، مجھے رسوا نہ کرنا، جناب ابراہیم علیہ السلام کی قیامت کے حوالے یہی دعا ہے کہ انہیں رسوائی سے بچا لیا جائے، جہنم کے عذاب کا تذکرہ نہیں کرتے، جہنم کی سزائوں کا ذکر نہیں فرماتے، جہنم کی آگ کا ذکر نہیں کرتے، انواع اور اقسام کے عذابوں کی بات نہیں کرتے، جو دعا مانگتے ہیں وہ یہ کہ قیامت کے دن رسوائی نہ ہو،یہ قیامت کی رسوائی بہت بڑی رسوائی ہوگی، اس دنیا اگر رسوائی ہو بھی جائے پھر بھی موقعہ ملتا ہے کہ آدمی دوبارہ کچھ کوشش کرلے، کبھی غلط رسوائی بھی ہوجاتی ہے، لیکن وہاں ایسی کوئی گنجائش نہیں ہوگی، کام کرنے کی اجازت نہیں ہوگی، دوبارہ نیک اعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی، وہاں کی رسوائی پھر ہمشہ کی رسوائی ہے، یہاں کی رسوائی چند لوگوں کے سامنے چند دنوں کیلئے ہوگی، وہاں سب کے سامنے ہوگی، وہ بھی ہمیشہ کیلئے۔

لہذا رسول کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت ہے کہ آپ نے ابن مسعود کو ارشاد فرمایا کہ اے ابن مسعود! ڈرو اس دن سے، جس دن پردوں کو ہٹا دیا جائے گا(۶۱)

اور وہ رسوائی کا دن ہوگا، کیونکہ اس دن میزان عدل کو نصب کیا جائے گا اعمال تولے جائینگے،راز کھول دیے جائینگے،زمین اپنا سب کچھ اگل دے گی،

( وَ أَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقالَها ) (۶۲)

سب کچھ اگل دے گی، تمام رازوں کو ظاہر کر دیا جائے گا، پھر وہاں یہی ہے کہ دعائیں کام آئیں، بار الہا ہمیں دنیا و آخرت کی عزت عطا فرما، دنیا میں عزت انبیا، اولیائےا لہی اور آئمہ کے راستہ پر چلنے میں ہے، جو ان کے راستہ پر چلے گا جو ان کے ہدف کیلئے کام کرے گا ان کو عزت ملے گی ، کیونکہ حقیقی طور پر عزت تو ہے ہی خدا کی،

( وَ لِلَّهِ الْعِزَّةُ وَ لِرَسُولِهِ وَ لِلْمُؤْمِنين ) (۶۳)

عزت خدا کی ہے، اور اس کے رسول ہے اور پھر ان کی ہے جو خدا اور اس کے رسول پر ایمان لے آئیں۔ اب اگر کبھی ایسا دور آجائے کہ انسان کو انتخاب کرنا پڑے کہ وہ عزت کی موت مر جائے یا ذلت کی زندگی بسر کرے، تو وہاں سید الشہدا حسین بن علی کے اس درس کو یاد رکھنا چاہیے جس میں آپ علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے، ایسے جینے کا کیا فائدہ جس میں عزت نہ ہو، وہاں جینے کا کیا فائدہ جہاں انسان ظالم کا ظلم برداشت کرے اور کچھ کر بھی نہ سکے، کہنے کا مطلب یہ ہے زندگی صرف سانس لینے کا نام نہیں ہے، اقدار کی حفاظت کا نام ہے۔

اس لیے قرآن مجید نے شہیدوں کو زندہ کہا ہے،

( وَلا تَحْسَبَنَ‏ الَّذينَ قُتِلُوا في‏ سَبيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياء ) (۶۴)

انہیں مردہ فکر بھی نہ کرو، وہ زندہ ہیں، زندگی ظاہری طور پر سانس لینے، کھانے، پینے، اٹھنے، بیٹھنے کا نام نہیں ہے، مقصد کی کامیابی کا نام زندگی ہے۔ لہذا جب جناب زینب علیہ السلام کو دربار یزید میں لایا گیا اور وہاں پر یزید غرور میں مبتلا ہو رہا تھا، وہ اس بڑہائی میں مست ہو رہا تھا کہ ہم کامیاب ہو گئے، ہم نے اپنے دشمن کو ختم کر دیا، تو فرمایا: نہیں یہ تمہاری خام خیالی ہے، خدا کی قسم تو کبھی بھی ہمارے ذکر کو مٹا نہیں سکتا(۶۵)

تو نے تو شہید کر کے ان کو وہ مقام دلایا ہے جو محبوبیت خدا کا مقام ہے، اس شہادت کے ذریعہ سے انہوں نے عزت حاصل کر لی ہے اور تو نے ذلت اور رسوائی کو اپنا مقدر بنا لیا ہے، اہل ایمان سب سے بڑی یہ دعا ہے کہ بار الہا ہمیں رسوائی سے بچا لے، ان کی عزت ان کی آبرو ان کا سرمایہ ہوا کرتی ہے۔

خوف و رجا

اور ایک اہم نکتہ جو اس دعا سے ہمیں سمجھ میں آتا ہے جو اولو الالباب نے مانگی، وہ یہ ہے کہ انسان کو ہمیشہ خوف اور رجا کے درمیان رہنا چاہیے، یعنی امید بھی ہونی چاہیے، اور ڈرنا بھی چاہیے، ایسا نہ ہو کہ انسان اتنا پر امید ہو جائے ، وہ یہ سمجھنے لگے کہ اب میں جو بھی گناہ کرلوں خدا بڑا رحیم ہے مجھے بخش دے گا، ایسا نہیں کرنا چاہیے کہ خدا کی رحمت پر بھروسہ کرتے ہوئے کھلے عام گناہوں میں مبتلا ہو جائے اور ایسا بھی نہیں ہے کہ خدا کے ڈرنے کی وجہ سے، خوف خدا کی وجہ سےاتنا ڈر جائے کہ وہ مایوس ہوجائے، بلکہ خدا یہ چاہتا ہے کہ مومن کے اندر یہ دونوں صفتیں برابر رہیں، مومن خوف اور رجا کی حالت میں رہے، امید بھی ہو اور خوف بھی ہے، ڈر بھی ہو، یہی کامیابی کی اساس اور بنیاد ہے۔اس کے ذریعہ سے انسان کامیابیاں حاصل کرتا ہے کہ کبھی بھی ایک طرف نہ چلا جائے۔

انبیاء بشیر اور نذیر

لہذا خالق کائنات نے انبیاؑ کو جو دو بہترین صفتیں دی ہیں وہ یہ کہ بشیر ہیں اور نذیر بھی ہیں۔ جب انسان مایوسی میں مبتلا ہو رہے ہوں، سمجھ رہے ہوں سب کچھ ختم ہوگیا، کچھ باقی نہیں رہا، اب کچھ بھی نہیں ہو سکتا، ان کو بشارت دیتے ہیں کہ نہ گھبرائو، صرف یہ دنیا نہیں ہے، وہ دنیا بھی ہے آخرت بھی ہے جنت بھی ہے، اس کی نعمتیں بھی ہیں، اور جو صرف اس دنیا کو سمجھتے ہوئے عیش و عشرت میں مست ہوجائیں ان کو ڈراتے ہیں،انذار کرتے ہیں، یعنی جس طر ح خدا نے انبیا کو ان دو صفتوں کے ساتھ بھیجا ہے بشیر بھی ہیں اور نذیر بھی ہیں، خدا چاہتا ہیں کہ مومن کے اندر بھی یہ دونوں صفتیں رہیں، کہ اس کے اندر خوف بھی رہے لیکن اتنا نہیں مایوس ہو جائے۔ امید بھی رہے لیکن اتنی نہیں کہ وہ گناہوں کیلئے ڈرنا چھوڑ دے اور گناہوں کا مرتکب ہوتا چلا جائے۔ یہ دونوں چیزیں ایک ساتھ رہیں، کبھی اگر یہ غالب ہونا چاہے تو دوسری کا سہارا لیا جائے، کبھی وہ غالب آنا چاہے تو اس کا سہارا لیا جائے، اور اس طرح ان دونوں احساسات کو برابر رکھتے ہوئے انسان زندگی بسر کرے تو اسے دنیا و آخرت دونوں کی سعادت مل سکتی ہے، یہ اہم نکتہ ہے جو ان دعائوں سے ہمیں ملتا ہے، خدا سے امید بھی رکھو، مایوس نہ بنو۔ لیکن رحمت کی امید پر گناہوں کیلئے بے باک اور نڈر نہ بن جائو۔

امام صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ مومن کے اندر دو چیزیں ہوتی ہیں، خوف اور رجا۔ ان کو اگر تولا جائے تو یہ دونوں برابر ہوتے ہیں(۶۶)

در حقیقت یہ دو پر ہیں جو انسان کو بلندیوں کی طرف پرواز کرنے میں مدد دیتے ہیں، تم اگر بلندیوں کی طرف پرواز کرنا چاہتے ہو تو تمہیں یہ دونوں پر درکار ہیں خوف اور رجا دونوں ہونی چاہیں۔ امید بھی ہو تمہارے پاس، اور خوف خدا بھی ہو، یہ دو چیزیں ہیں جو تمہیں کامیابی کی طرف لیکر جائیں گی، تمہاری معراج کی طرف پرواز کرنے میں مدد دیں گی، جہاں صرف ایک صفت رہےوہاں ناکامی مقدر بن جاتی ہے۔لہذا کبھی آئمہ علیہ السلام تسلی دیتے ہیں کہ نہ گھبرائو ہم تمہاری شفاعت کرینگے، اور کبھی ڈراتے ہیں کہ یہ نہ سمجھنا کہ ہمارے اور خدا کے درمیان کوئی رشتہ دار ہے اس رشتہ داری کی بنیاد پر تمہیں بخش دیا جائے گا، یعنی کسی قسم میں دھوکہ میں نہیں رہنا چاہیے، کسی خام خیالی میں نہیں رہنا چاہیے، کسی غلط فہمی نہیں رہنا چاہیے، حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں صفتیں برابر ہیں ان کو ایک ساتھ رہنا ہے اور یہی انبیا کا مقصد ہے کہ بشارت اور انذار دونوں ہونی چاہیں، خوف اور امید اگر ابرابر طور پر انسان کے اندر ہوں تو دنیا بھی آباد رہے گی اور آخرت بھی آباد ہوگی۔ اولو الالباب اورانبیا کی دعا ہے، جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا فرمائی کہ ولا تخزنی یوم یبعثون۔ دعا ہے خالق کائنات ہمیں دنیا اور آخرت کی رسوائی سے محفوظ رکھے۔

والسلام علیکم و رحمة اللَّهِ و برکاته