حصول بہشت کی دعا
أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ وَ هُوَ خَيْرُ نَاصِرِ وَ مُعِين وَ صَلَّى اللهُ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
.
(
وَ اجْعَلْني مِنْ وَرَثَةِ جَنَّةِ النَّعيم
)
قرآنی دعائوں میں سے ایک اہم دعا کو ذکر کرنا ہے جو کہ حصول بہشت کی دعا ہے۔،جنت کو حاصل کرنے کیلئے دعا ہے۔
یہ دعا کرنا کہ خالق کائنات ہمیں جنتی بنا دے،بہشتی بنا دے، جنت کے حوالے سے اتنے سوالات نہیں اٹھائے جاتے کیونکہ ہر کوئی طبیعۃ اور فطرتا یہی چاہتا ہے کہ خوشحال زندگی گذارے اس کی زندگی میں دکھ کا نام و نشان ہی نہ ہو۔ تو اس حوالے سے بہشت بنانا اور بہشت کی دائمی نعمتیں، انواع و اقسام کی متعدد نعمتیں، اس حوالے سے زیادہ سوالات نہیں کیے جاتے کہ ہم اس جہت سے زیادہ گفتگو کریں ۔
انسان جب اس دنیا کی زندگی پر نگاہ کرتا ہے تو یہی کہتا ہے کہ کاش جنت ہوتی،ہر کوئی یہ چاہتا ہے کہ یہ دنیا ہی بہشت بن جائے۔ اچھی زندگی ہو، امن امان ہو، خوشحالی ہو، سرحالی ہو، عدالت اور انصاف ہو، سب کو ان کے حقوق ملیں۔ ہر انسان اچھی زندگی بسر کرے، یہ ایک فطرتی تقاضا ہے۔ لیکن جب ہم اس دنیا کی زندگی پر نظر کرتے ہیں تو ہمیں یہ نظر نہیں آتا، یہ تزاحم کی زندگی ہے، تمانع کی زندگی ہے یہاں سب کے اپنے مفادات ہیں، ہر کوئی چاہتا ہے کہ اپنا مفاد حاصل کرے۔ ہر کوئی چاہتا ہے کہ اچھی زندگی گذارے، چاہے دوسروں کے حقوق پامال ہوں، دوسروں کو تکلیف ہو، اذیت ہو۔ کچھ بھی ہو، لیکن میری زندگی اچھی گذرے۔ تو پھر طبقاتی نظام وجود میں آتا ہے، ایک گروہ دوسروں پر غالب آجاتا ہے، حکومت کرتا ہے، ظلم کرتا ہے دوسروں کے حقوق کو پامال کرتا ہے۔
جنت کی نعمتیں
اس دنیا میں نہ خالص خوشی نظر آتی ہے نہ غم، یہاں کی زندگی میں خوشی اور غم ملے ہوے ہیں، انسان خوش ہوتے ہوے بھی مغموم ہوا کرتاہے۔ محزون ہوا کرتا ہے، ایک کام کی خوشی ہو تو سیکڑوں ایسے کام ہوتے ہیں جن کی وجہ سے وہ پریشانی محسوس کرتا ہے۔ پریشانی کے اندر خوشی ، نہ خالص خوشی نہ خالص غم ہے۔انسان چاہتا ہے خوشی ہو، خالق کائنات نے اس کیلئے جنت کو بنایا ہے، اور حقیقت یہی ہے مومنین کہ جنت ہے ہی فضل خدا۔خالق کائنات نے جو جنت کو بنایا ہے اور انواع اقسام کی نعمتوں سے مزین کیا ہے،(
جَنَّاتٍ تَجْري مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهار
)
وہاں نہریں جاری ہونگی، دود کی نہریں ہونگی، شہد کی نہریں ہونگی ، مسندوں پر ٹیک لگائے ہوئے ہوں گے۔ ان کے اطراف میں غلمان ان کی خدمت میں حاضر ہونگے، خدا ان کو بہشتی حوریں عطا فرمائے گا، جن کی بڑی بڑی آنکھیں ہوں گی اور جن کی صفات کو بیان کرنا مشکل ہے۔
البتہ روایات میں اس قسم کا تذکرہ ملتا ہے کہ اگر جنتی حور اپنی ایک جھلک کسی کو اس دنیا میں دکھا دے تو وہ شاید اس کا حسن برداشت نہ کر سکے اور بے ہوش ہو جائے۔
اتنی حسین اور خوبصورت حوریں خدا نے انسانوں کیلئے بنائی ہیں۔ ہر ایک کیلئے تمام انواع اقسام کی ضروریات جتنی بھی ہیں اس کا مکمل خیال ہے جنت میں، کھانے کیلئے انواع و اقسام کے کھانے ہونگے، پرندوں کا بھنا ہوا گوشت ہوگا
(
و وَلَحْمِ طَيْرٍ مِمَّا يَشْتَهُون
)
جو چاہیں گے وہ ملے گا ان کو، پینے کیلئے انواع و اقسام کے مشروبات ہونگے یہاں تک کے خدا انہیں شراب طہور پلائے گا، پاکیزہ جام چلیں گے وہاں پر، جنت کو خالق کائنات نے ایسا بنایا ہے کہ ہر انسان یہی چاہتا ہے کہ اسے مل جائے۔سب سے بڑی نعمت جو اولیا کیلئے ہوسکتی ہے، وہ کونسی ہے؟ یہ جتنی بھی صفات ہیں نہریں بہہ رہی ہونگی باغات ہونگے، نعمتیں ہونگی، انواع و اقسام کے پھل اورمیوہ جات ہونگے، وہ بھی ایسے کہ ایک جیسے ہونگے، کوئی چاہے گا کہ ایک پھل کو تناول کرے تو ٹہنی خود جھک جائے گی اور پھل اس کے ہاتھوں میں آجائے گا، جیسے ہی اسے چھوڑ دیا دوسرا پھل وہاں لگ گیا، یہ تمام نعمتیں مادی نعمتیں ہیں جسمانی نعمتیں ہیں۔
جنت کی سب سے بڑی معنوی نعمت
لیکن روح کیلئے معنویات کیلئے بہترین نعمت جنت کی کونسی ہے؟ یہ بھی اپنی جگہ پر نعمتیں ہیں لیکن جیسا کہ امام علیؑ نے ارشاد فرمایا کہ اگر مجھے اختیار دیا جائے کہ میں مسجد میں بیٹھوں یا جنت میں بیٹھوں ، تو میں مسجد میں بیٹھنے کو ترجیح دونگا، یعنی جناب علیؑ فرماتے ہیں مسجد میں بیٹھنا میرے لئے جنت میں بیٹھنے سے بہتر ہے، کیونکہ جنت میں بیٹھنے سے میرا نفس راضی ہوگا جبکہ مسجد میں بیٹھنے سے میرا خدا راضی ہوگا۔
اولیا کیلئے عرفا کیلئے اہل خدا کیلئے سب سے بڑی نعمت یہی ہوتی ہے کہ رب راضی ہوجائے۔
و رضوان من اللّ ہ جنت ک ی بڑی نعمت، اولیا کیلئے خدا کے دوستوں کیلئے انبیا کیلئے آئمہ کیلئے یہی ہے کہ خدا ان سے راضی ہوگا۔ خدا کا راضی ہونا بہت بڑی نعمت ہے جو کہ انسان کو جنت میں ملے گی، جب جنت اتنی نعمتوں سے آراستہ و مزین ہے تو قطعا ہر کوئی یہی دعا کرتا ہے کہ خدا جنت عطا فرمائے اور خدا نے وعدہ دیا ہے کہ جو بھی اس دنیا میں ایمان لے آئے گا عمل صالح کرے گا خدا اسے جنت عطا کرے گا، البتہ صحیح مطلب یہ ہے کہ دنیا میں نیک اعمال کی جزا نہیں ملتی ، حقیقی جزا آخرت میں ملے گی اس دنیا میں گنجائش نہیں ہے کہ نیکیوں کی جزا مل سکے۔یہ دنیا بہت حقیر ہے، بہت پست ہے، بہت چھوٹی ہے، مختصر ہے۔ اللہ نے اپنے اولیا کیلئے اپنے دوستوں کیلئے جو نعمتیں معین کی ہیں وہ اس دنیا میں دی ہی نہیں جا سکتیں ، اس کیلئے خدا نے ان کیلئے جنت کو بنایا ہے۔یہ حضرت ابراہیم کی دعا ہے کہ واجعلنی من ورثة جن ہ النعیم؛ خدا مجھے جنت نعیم کا وارث بنا دے، مجھے جنت کا وارث بنا دے۔
وراثت جنت کی دعا
قرآن کی تعبیر یہ ہے وارث، یعنی جسے میراث ملے، میراث بغیر کسی زحمت کے ملتی ہے، دوسروں کا سرمایہ ہوتا ہے دوسروں کی کمائی ہوتی ہو جو بیٹھے مل جائے اسے میراث کہا جاتا ہے، خدا نہ کرے کسی کے والد کا انتقال ہو جائے اس کا مال متاع سب کچھ اسے ملتا ہے میراث میں؛ اس نے زحمت نہیں کی، اور حقیقت بھی یہی ہے کہ جنت کی اتنی نعمتیں ہیں اس کے مقابلے میں ہمارے عمل ہیں ہی کیا کہ ہمارے اعمال کا وہ نتیجہ ہو، یہ خدا کا لطف ہے کہ وہ ہمارے ناقص اعمال کو قبول کرتا ہے اپنی بارگاہ میں اور پھر جزا بھی دیتا ہے، وہ بھی بہترین جزا، یہ سب خدا کا فضل و لطف و احسان و اکرام ہے۔ وگرنہ ہمارے عمل اس قابل ہی نہیں ہیں کہ ان کے بدلے میں کچھ دیا جائے، ایک معمولی چیز کے حقدار بھی نہیں ہیں ہمارے اعمال۔ اس کے حقدار تو قطعا نہیں ہیں کہ خدا اسے جنت بھیج دے لہذا جنت سراسر ہی سراسر اللہ کا فضل و احسان ہے۔
ہماری عبادات کی قیمت
امام خمینی ؒ اپنی کتاب عدالت میں بہترین مثال دیتے ہیں کہ ذرا انسان محاسبہ کر کے دیکھے، تجارت کی نگاہ سے عبادت کو دیکھتے ہیں ، خدا نے کیا فرمایا ہے اس دنیا میں نیک اعمال کرو نماز پڑہو روزا رکھو، زندگی میں ایک بار حج کرو، دوسروں پر ظلم نہ کرو، اگر ہم ایک تاجرانہ نگاہ ڈالیں ان عبادات پر، ان عبادتوں کی کتنی قیمت ہو سکتی ہے، فرض کریں انسان روزا نماز پڑہتا ہے صرف واجب نمازوں کو لے لیتے ہیں دو رکعات صبح کی ۴ ، ۴ ظہر و عصر، ۳ مغرب ۴ عشا، نماز آیات کبھی کبھی واجب ہو گئی، یہ واجب نمازوں کی ۱۷ رکعت ہیں، کبھی کبھی نماز آیات ہوئی۔ کتنا ٹائیم لگے گا، اچھا کسی کے عزیز کا جب انتقال ہو جاتا ہے اس کیلئے اس کے وارث آتے ہیں مراجع کے دفتر میں ان کی قضا نماز پڑہوانی ہے، کبھی اگر آپ کا اتفاق ہوا ہو ایک سال کی نمازوں کے کتنے پیسے دئے جاتے ہیں ہر جگہ کا ہر علائقہ کا اپنا اپنا حساب ہے۔ میں صرف اس نکتہ کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں جس کی طرف امام خمینی نے متوجہ کیا ہے کہ ہمارے عمل ہیں ہی کیا، ایک سال کی نماز کیلئے زیادہ سے زیادہ اگر پئسے دئے جائین ۵۰ ہزار روپے، کم ہی ملتے ہیں کہیں ۵ یا ۱۰ ہزار، حساب کرتے ہیں ۵۰ ہزا؛سال میں ایک مہینہ روزا رکھنے ہیں اس کا کتنا حساب کریں، ۱۰ یا ۲۰ چلیں اس کیلئے ۵۰ ہزار؛زندگی میں ایک مرتبہ حج کرنا ہے ۱۰ لاکھ روپے زیادہ سے زیادہ، یعنی ایک سال کی نمازیں ۵۰ ہزار ایک سال کے روزے ۵۰ ہزار، ایک لاکھ ہوا، ایک سال آپ کے یہ نماز و روزے کی قیمت ایک لاکھ ہوئی، بالفرض آپ خمس بھی نکالتے ہیں، زکوات بھی نکالتے ہیں، صدقات بھی دیتے ہیں، صلہ رحم کرتے ہیں۔ یہ سب کام کرتے ہیں ایک لاکھ اور لگا دیجئے ۲ لاکھ ، ہر انسان ایک سال میں ۲ لاکھ خرچ کر تا ہے اللھ کیلئے۔ انسان کی زندگی کتنی ہے، متوسط دیکھ لیں آجکل زندگی مختصر سے مختصر سے ہوتی جا رہی ہے زیادہ سے زیادہ ۷۰ ، اگر کسی کی عمر ۷۰ سال ہو تو پہلے ۱۵ سال مکلف ہوتا ہی نہیں ہے اس پر نماز روزہ واجب نہیں ہوتا ان کو نکالیں اس کے علاوہ ۵۵ سال، ۵۵ سال میں آپ ہر سال میں ۲ لاکھ خرچ کر رہے ہیں بنے ۱۱۰ لاکھ، ۱۰ لاکھ حج کر لیں زیارات بھی کرلیں کتنا خرچ ہوا زیادہ سے زیادہ ایک کروڑ۔ ان روپیوں کا اس دنیا میں زیادہ سے زیادہ کسی مہنگے علائقے میں ایک مکان، لیکن خدا جنت دے رہا ہے،بنایا بھی اس نے سب کچھ اس نے دیا پھر کہا نیک عمل کرو پھر جزا دوں گا جنت دونگا، جنت بھی ایسی عرضھا السموات و الارض، ایک انسان، ایک مومن کو ملنے والی جنت اس دنیا سے اس زمین سے بڑہ کر ہے پوری زمین سے، اس کی وسعت ہے اور کیسی کیسی نعمتیں ہونگی وہاں پر کہ نہ کسی نے دیکھی ہونگی، نہ سنی ہونگی، نہ کسی کے ذہن میں ان کا تصور بھی آیا ہوگا، یعنی جنت ہمارے تصور سے بھی بڑہ کر ہے یہ ہمارے اعمال ہیں جبکہ خدا تو اس دنیا میں ہی دے رہا ہے ہم حکومت کی بجلی استعمال کرتے ہیں کبھی ہوتی ہے کبھی نہیں، اس کا بل دینا پڑتا ہے، پوری زندگی سورج کی توانائی سے استفادہ کرتے ہیں کبھی بل ہی نہیں دیا، یہ شب و روز کی نعمتیں ہمارے لئے ہیں، یہ اناج، یہ بارش، یہ موسم، یہ انواع و اقسام کی مادی اور معنوی نعمتیں، ظاہر اور باطنی نعمتیں انسان شکر ہی ادا نہیں کر سکتا۔
اگر خدا عدل و انصاف سے کام لینا چاہے تو ہم میں سے کون ہے جو اس دنیامیں رزق کا حقدار ہو۔رزق کا حقدار ہو سکے، خالق نے لطف کیا فضل کیا ہے کہ اس دنیا میں رزق ہمارے عمل کے بغیر دے رہا ہے وگرنہ ہمارے عمل اس قابل نہیں کہ اس دنیا میں ہمیں رزق دیا جائے۔کوئی اپنے گھر نوکر رکھتا ہے، ۸ گھنٹے ڈیوٹی کرواتا ہے تو کیا دیتا ہے؟ کیا ہم اللہ کی اتنی اطاعت کر رہے ہیں، وہ فضل پر فضل کئے جا رہا ہے۔ بہترین یہی دعا ہے کہ خدا سے جنت کی دعا کریں اور خدا اپنے فضل سے عطا کرے گا۔ اس نے اعلان فرما دیا ہے کہ جو بھی ایمان لے آئےعمل صالح کرے اس کیلئے جنات ہیں ، حضرت ابراہیم نے یہی دعا کی ہے واجعلنی من ورثة جنة النعیم، بار الہا مجھے جنت نعیم کا وارث بنا دے،مجھے اپنے دائمی نعمتوں کا مستحق قرار دے، جس طرح تو نے اس دنیا مجھ پر فضل کیا، احسان کیا ہے۔ اس دنیا میں مجھے فضل اور احسان کا حقدار بنا دے۔ میرے اعمال ایسے ہوں کہ جن کا نتیجہ جنت نکلے۔
بہترین کامیابی
اور عزیزو بہترین کامیابی یہ ہے کہ انسان جنتی بن جائے، کیونکہ نتیجہ کو دیکھنا پڑتا ہے کہ نتیجہ کیا ہوا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ عمل کا معیار اس کا خاتمہ ہوا کرتا ہے، نتیجہ ہوا کرتا ہے، ارشاد فرماتے ہیں کہملاک العمل خواتیمه
عمل کا معیار اس کا نتیجہ ہے کیا نکلا، پوری زندگی کا نتیجہ کیا نکلا، اگر جنت ہے تو کامیابی ہے سعادت ہے، خدا نخواستہ اگر جہنم ہے تو پھر ناکامی ہے ہمیشہ کی حسرت اور پشیمانی ہے۔ اس حوالے سے امام صادق ارشاد فرماتے ہیں کہ خیر الامور خیر ہا عاقبة
بہترین کام وہ ہے جس کا نتیجہ بہترین ہو، سب سے بڑہ کر بہترین نتیجہ جنت کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے،والعاقبة للمتقین: اچھا نتیجہ بہترین نتیجہ متقین کیلئے ہے۔یہ دنیا چند دنوں کی دنیا ہے، محدود ہے، جیسے تیسے کٹ جائے گی، ختم ہو جائے گی، لیکن وہ دنیا حقیقی دنیا ہے، دائمی ہے، ابدی ہے ، ایسا نہ ہو کہ ہم خسارہ کر بیٹھیں، چند دنوں کے بدلے میں اتنی دائمی زندگی، جنت کی نعمتیں، بہشت وہ رضوان خدا، وہ رضایت پروردگار، کچھ بھی ہمیں نہ ملے، ان چند دنوں کی لذت جھوٹی لذت ،سراب، اس کے بدلے میں انسان جہنمی بن بیٹھے، اس دنیا کی خواہشات سراب ہیں سراب، سراب آپ سمجھ رہے ہیں نہ، َحسَبُہُ الظَّمآنُ ماءً
دور سے پیاسا اگر دیکھے تو اسے پانی دکھائی دیتا ہے لیکن نزدیک جا کر دیکھے تو کچھ بھی نہیں ہے۔اس دنیا کی خواہشات ایسی ہیں انسان یہ چاہتا ہے کہ یہ بھی ملے لیکن جب ملتا ہے سیر نہیں ہوتا، اس کا نفس راضی نہیں ہوتا اور چاہیے اور چاہیے اس کا مطلب یہی ہے کہ کچھ حقیقت نہیں ہے۔ یہ سراب ہے، ہم اسے پانی سمجھتے تھے۔ اگر یہ حقیقی طور پر پانی ہوتا ہماری پیاس بجھ جاتی،یہ جو امام علیؑ ارشاد فرماتے ہیں کہ من ہومان لا یشبعان؛ دو بھوکھے ایسے ہیں کبھی سیر نہیں ہوتے طالب دنیا اور طالب علم، طالب دنیا اسی بنیاد پر ہے کیونکہ دنیا کوئی حقیقت نہیں ہے کہ جو مل جائے تو انسان کا نفس راضی ہو جائےیہ سراب ہے، دھوکہ ہے نظروں کا دھوکہ ہے وہم اور گمان اور خیال ہے۔انسان یہ سمجھتا ہے کہ اس میں کوئی حقیقت ہے کچھ مل جائے گا کچھ بھی نہیں ملتا۔لہذا اگر انسان آخرت کو مد نظر رکھے وہان سب کچھ ہے،اس دنیا کی تکالیف کچھ نہیں ہے۔
جناب آسیہ کی دعا
جناب آسیہ کو قرآن مجید نے ایک اسوہ اور ایک نمونہ بنا کر پیش کیا ہے، سورہ تحریم میں خالق کائنات ارشاد فرماتے ہیں(
وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً لِلَّذينَ آمَنُوا امْرَأَتَ فِرْعَوْن
)
خدا مثال بیان کر رہا ہے اہل ایمان کیلئے فرعون کی بیوی کی، دیکھے فرعون کتنا بڑا بدبخت اور جناب آسیہ کتنی خوشبخت اور خوش قسمت ہیں، کوئی یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ میرے گھر والے ایسے ہیں تو میں بھی ایسا بن گیا۔ وہ فرعون کی بیوی تھی۔ فرعون ربوبیت اور خدائی کا دعوی کرنے والا تھا۔انسانوں کو اپنا غلام اور نوکر سمجھنے والا تھا، انسانوں کو اپنے سامنے سجدہ کرانے والا تھا۔ لیکن جناب موسی علیہ السلام نے معجزہ دکھایا جادوگر ایمان لے آئے، جناب آسیہ بھی ایمان لے آئیں۔ فرعون نے بہت دھمکیاں دیں، جادوگروں کو کہا کہ میں تمہیں مروادونگا، تمہارے ہاتھ اور پائوں کٹوا دوں گا۔ کہا جو کرنا ہے کرلے۔ہم نے اللہ کی معرفت حاصل کر لی ہے، اس پر ایمان لے آئے ہیں۔ سمجھ رہے تھے کہ یہ زیادہ سے زیادہ مار دے گا اس سے زیادہ کیا کر سکتا ہے۔ لیکن اس موت کا پھر نتیجہ کیا ہوگا ہمارے لئے دائمی اور ابدی نعمتیں ہونگی۔ یہ دنیا کوئی حرف آخر نہیں ہے کوئی نیستی اور نابودی نہیں ہے۔ یہ موت ایک انتقال ہے، دوسری دنیا میں جانے کا نام ہے اور اگر وہ شہادت کی موت ہو تو رضایت پروردگار کا سبب بنتی ہے اور ہمیشہ کی نعمتیں ہیں۔ ہم نہیں ڈرتے ، فرعون کو جو کرنا تھا اس نے کر لیا، اس نے جناب آسیہ کو تپتی ہوئی ریت پر لٹایا اور اس کے جسم کو کیلوں سے بند کر دیا وہ سورج کی تپتی ہوئی گرمی پر یہی دعا کر رہیں تھیں اذ قالت رب ابنی لی عندک بیتا فی الجنة؛
بار الہا میرے لئے اپنی جنت میں جگہ بنا دے گھر بنا دے ، وہ سمجھتی تھی کہ اس دنیا میں فرعون کی بیوی ہونا بادشاہ کی بیوی ہونا دنیا کی تمام نعمتیں اسے میسر ہیں، ملکہ ہیں ملکہ، سب کچھ انہیں میسر ہے، کنیزوں کی لائین لگی ہوئی ہے ان کے حکم صادر کرنے کی دیر ہے سب کچھ حاضر ہوگا، کہا نہیں۔ بار الہا یہ سب کچھ تیری جنت کے مقابلے میں، تیری رضا کی مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے۔نعمتیں تو وہ ہیں جہاں پر نہ کوئی دکھ ہوگا نہ غم ہوگا، نہ سستی ہوگی نہ کوتاہی ہوگی، خوشحالی ہوگی نعمتیں ہوں گی سکھ ہی سکھ ہونگے،اور پروردگار تیری رضایت ہوگی۔ یہ کچھ بھی نہیں ہے جتنی چاہے ہمیں تکلیف دے دیں۔
جنت کے درجات
اہل ایمان ہمیشہ اس بات کو نظر میں رکھتے ہیں کہ خدا کی مرضی کیا ہے،اور کامیابی یہی ہے کہ خدا راضی ہوجائے تو سب کچھ مل جاتا ہے انسان کو، وہ اگر ناراض ہے تو سب کچھ ہوتے ہوے بھی کچھ بھی نہیں ہے ، لیکن یاد رکھیے گا جنت کے مراتب ہیں، درجات ہیں، اگر ہم قرآن مجید کی تعبیروں پر غور فکر کریں، مختلف جنتوں کی طرف اشارہ کیا ہے واجعلنی من ورثةُ جنةُ النعیم، ایک جنت نعیم، جنات عدن ہے، مختلف درجات ہیں اس کے۔ لیکن خالق کائنات اپنی بہترین جنت انہیں دیتا ہے جو صاحب نفس مطمئنہ ہوا کرتے ہیں یہ دعا کرتے ہیں بار الہا جنت دے دے اور نفس مطمئنہ کیلئے خدا دعوت نامہ بھیجتا ہےسورہ فجر کی آخری آیات میں ہم یہی پڑہتے ہیں کہ خدا خطاب کرتا ہے
(
يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً فَادْخُلي في عِبادي وَ ادْخُلي جَنَّتي
)
اے نفس مطمئنہ پلٹ آ اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ تو اپنے رب سے راضی وہ تجھ سے راضی ہے میرے بندوں میں داخل ہوجا اور میری جنت میں داخل ہو جا۔ یہ عام انسان جس جنت کی تمنا کرتے ہیں، دعائیں کرتے ہیں، وہ جنت کچھ اور ہے اور خالق کائنات جس جنت کی دعوت دے رہا ہے نفس مطمئنہ کو وہ جنت کچھ اور ہےیعنی جہاں پر جنات کا لفظ ملتا ہے قرآن مجید میں جنات تجری من تحت ہا الانہار اس م یں یہ نعمت ہوگی وہ نعمت ہوگی یہ سب اپنی جگہ پر ہیں لیکن اصل جنت وہی ہے جو نفس مطمئنہ کیلئے ہو خدا یہ فرمائے فادخلی ۔ میری جنت میں داخل ہو جا۔نفس مطمئنہ یہ ہے۔اور اسی لئے اس سورت کو بعض روایات کے مطابق ، سورۃ الحسین بھی کہا گیا ہے۔ یہ حسین کی سورہ ہے اس میں حسین ابن علی کی قربانیوں کے نتیجے میں خدا نے جو انہیں انعام و اکرام دیا ہے فادخلی فی جنتی، کا جو لقب دیا ہے یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔انسان نفس مطمئنہ کا مالک بن جائے یہ کیسے ہو سکتا ہے کیسے ممکن ہے ایسے ہی جیسے قرآن نے بیان کیا ہے
(
أَلا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوب؛
)
ذکر الہی سے انسان اس منزل پر پہنچ سکتا ہے کہ صاحب نفس مطمئنہ بن جائے، قلب مطمئنہ کا مالک بن جائے اور پھر جنت کا حقدار بن جائے، حسین ابن علی کیسے ذاکر الہی تھے سب کچھ دینے کے بعد بھی زبان پر شکر الہی جاری ہے، سب کچھ دینے کے بعد بھی آخر میں سر سجدے میں رکھ دیتے ہیں سبحان ربی الاعلی؛ کیسا ذاکر الہی تھا کیسا وہ قاری قرآن تھا کہ دنیا میں تلاوت کرتا رہا بعد از شہادت نوک نیزہ پر بھی تلاوت کر رہا ہے۔ خدا اگر طرح کسی کو انعام اور اکرام دینا چاہتا ہے تو ایسا، انسان اس دنیا میں ذاکر بن جائے، خدا اس کا ذاکر بن جاتا ہے،(
فَاذْكُرُوني أَذْكُرْكُم
)
تم میرا ذکر کرو میرے ذکر میں زندگی بسر کرو میں تمہارا ذکر کروں گا۔یہاں قدردانی ہوا کرتی ہے۔خدا کسی کو چھوڑ نہیں دیتا، کسی کے عمل کو ضایع نہیں کرتا
(
فَإِنَّ اللَّهَ لا يُضيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنين
)
خدا ضایع نہیں کرتا، اجر محسن کو دے دیتا ہے۔ ہر ایک کی جزا دے دیتا ہے۔
ایک بہترین مثال
یہ شیطان ہے جو انسان کو دھوکا دیتا ہے دعوت دیتا ہے بلاتا ہے اور پھر چھوڑ دیتا ہے، لیکن پھر بھی عجیب بات یہ ہے کہ ہم شیطان کے ہی پیچھے جاتے ہیں۔ قرآن مجید نے بہت ہی دلچسپ مثال بیان کی ہے، کہ شیطان کی مثال ایسے ہے کہ وہ انسان کو کہتا ہے
(
إِذْ قالَ لِلْإِنْسانِ اكْفُرْ فَلَمَّا كَفَرَ قالَ إِنِّي بَريءٌ مِنْك
)
کافر بن جائو، دعوت دیتا ہے کفر کی، جب انسان کفر اختیار کر لیتا ہے تو کہتا ہے کہ انی بری منک؛ میں تم سے بری ہوں میرا تم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔یہ ایسا ہے۔اور وہ کتنا کریم ہے کہا میرا بندہ اگر خلوص دل سے مجھے ایک مرتبہ بلاتا ہے تو میں دس مرتبہ لبیک کہتا ہوں، لیکن کبھی اس حوالے سے ہم نے سوچا، کامیابی یہی ہے کہ انسان خدا کا ہوجائے، جنت بھی کچھ نہیں ہے، اصل وہی رضوان من اللہ رضایت پروردگار اس دنیا میں انسان کو حاصل ہوجائے، اللہ کی رضا سب کچھ ہے اس کیلئے، وہ رضائے رب پر راضی ہوتا ہے، وہ دیکھ رہا ہے کہ میرا کچھ بھی نہیں ہے، تکبر کیسا غرور کیسا، کچھ بھی تو نہیں میرا سب کچھ اسی کا ہے، تو سب سے بڑی کامیابی انسان کی یہی ہے کہ انسان اس دنیا میں اس فکر کے ساتھ زندگی گذارے کہ وہ مخلوق ہے وہ عبد ہے اس کا کوئی معبود ہے اس کا کوئی خالق ہے اس کی رضا کس میں ہے؟ انسان اس دنیا میں کامیابی کی دعا کرے آخرت میں کامیابی کی دعا کرے اور حضرت ابراہیمؑ کی اس دعا کو پڑہتا رہےواجعلنی من ورثة جنة النعیم
؛
دعا ہے کہ خالق کائنات ہمیں اور آپ کو یہ توفیق عطا فرمائے کہ ہم خلوص دل سے یہ دعا مانگیں اور خداوند متعال ہماری دعا کو مستجاب فرمائے۔
والسلام علیکم و رحمة اللَّهِ و برکاته
طلب ہدایت کی دعا
أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ وَ هُوَ خَيْرُ نَاصِرِ وَ مُعِين وَ صَلَّى اللهُ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
.
(
اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقيمَ (*)صِراطَ الَّذينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَ لاَ الضَّالِّين
)
آج جس دعا کے حوالے سے گفتگو کرنی ہے وہ طلب ہدایت کی دعا ہے۔
انسان اس دنیا میں ہر لمحہ ہدایت کا محتاج ہے۔ اگر ایک لمحہ کیلئے بھی خدا کا فضل، خدا کی نگاہ کرم انسان سے ہٹ جائے تو انسان انتہائی گہرائیوں میں سقوط کرے گا۔ ہر لمحہ ضروری ہے کہ خدا کی نگاہ کرم اس پر پڑتی رہے ہر لمحہ وہ خدا سے ملا رہے، متصل رہے۔اور اسے مرکز خدا سے ہدایت ملتی رہے۔اور یہ اہم ترین دعا ہے جو قرآن مجید نے بیان کی ہے، کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ پورے قرآن مجید کا اگر خلاصہ کیا جائے تو سورہ فاتحہ بنتی ہے، سورہ حمد ۔ جس میں تمام آداب دعا ذکر ہوئے ہیں، بیان ہوے ہیں۔ پہلے حمد الہی بیان کی جا رہی ہے، الحمد لل ہ رب العالم ین، پھر صفات خدا کو بیان کیا جا رہا، الرحمن الرحیم، مالک یوم الدین، پھر اپنی بندگی اور عبودیت کا اعلان کیا جا رہا ہےایاک نعبد و ایاک نستعین
اورپھر بہترین مدد یہی ہے خدا کی، بہترین مدد یہی ہے کہ خدا ہماری ہدایت کردے، اس کے فورا بعد یہی آیا ہے کہاهدنا الصراط المستقیم
، خدا کی بہترین مدد ایاک نستعین کا بہترین مصداق بہترین مورد اگر ہو سکتا ہے تو وہ ہدایت ہے اس لئے ہم طلب ہدایت کرتے ہیں کہاهدنا الصراط المستقیم
ہمیں صراط مستقیم کی ہدایت عطا فرما۔ اگرچہ بعض مترجمین یہ ترجمہ کرتے ہیں کہ ہمیں سیدہے راستے پر ثبات قدمی عطا فرما، ہمیں استقامت عطا فرما، لیکن مطلب یہی ہے کہ اگر انسان ایک لمحہ کیلئے بھی خطا کا مرتکب ہو، غافل ہو جائے تو وہ ایک لمحہ اس کے سقوط کیلئے کافی ہے، بہت بڑی بڑی مثالیں ہیں، بڑے بڑے عابد زاہد عارف انسان جب ایک لمحہ کیلئے غفلت کرتے ہیں تو ہم نے دیکھا کہ بہت بڑے اچھے انسان کس طرح ذلیل و رسوا و خوار ہو گئے۔ خدا نہ کرے کہ ایک لمحہ کیلئے بھی خدا ہمیں اپنے حال پر چھوڑ دے۔ اس لئے دعائوں میں یہی ملتا ہے کہ ایک بہترین دعا یہ ہے کہ ہم خدا سے یہی چاہتے رہیںلا تکلنی الی نفسی طرفة عین ابدا
؛
خدایا ایک لمحہ کیلئے بھی ایک پل کیلئے بھی ایک پل جس میں آنکھ جھپک سکتی ہے اس مقدار کیلئے بھی ہمیں اپنے حوالے نہ کر، ہم جانتے ہیں اگر ہمیں اپنے حوالے کر دیا جائے سقوط کے علاوہ، بدبختی کے علاوہ، اسفل السافلین میں پہنچنے کے علاوہ، ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ ہر لمحہ ہمیں ضرورت ہے یعنی ہماری مثال بلکل اس طرح ہے کہ جیسے بلب ہوتا ہے ایک لائٹ ہوتی ہے وہ اس وقت تک روشن رہی گی جب تک اس کا رابطہ مرکز سے، ٹرانسفرم سے، بجلی گھر سے اور پاور اسٹیشن سے بنا رہے گا۔ اگر ایک لمحہ کیلئے بھی یہ رابطہ کٹ جائے تو کچھ بھی نہیں، کسی کام کی نہیں کوئی روشنی نہیں دے گی۔ تاریکی ہی تاریکی ہے۔ایک لمحہ کیلئے بھی اس کا رابطہ منقطع نہیں ہونا چاہیے۔اس لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اسی سورہ کو پڑہتے تھے نماز میں، ا ہدنا الصراط المستق یم، آئمہ بھی اگرچہ معصوم ہیں ان کیلئے شک و تردید کی جگہ ہی نہیں ہے، خدا نے ان کو محفوظ رکھا ہوا ہے۔لیکن یہ موضوع اتنا اہم ہے وہ بھی یہی دعا کرتے تھے ہمیں بھی یہی دعا کرتے رہنی چاہیے ایک لمحہ کیلئے بھی اگر ہم خدا سے غافل ہو گئے تو وہ بدبختی کا لمحہ ہوگا۔
شیطان کی غفلت
مگر شیطان نے کیا کیا تھا، کیا مقرب بندا نہیں تھا، مقرب مخلوق نہیں تھا، فرشتوں کے درمیان کیا نہیں رہتا تھا، کیا فرشتے اس کا احترام نہیں کرتے تھے، چھ ہزار سال اس نے عبادت کی تھی اور بقول امام علی علیہ السلام کے جو کہ نہج البلاغہ میں ہے،
وہ چھ ہزار سال معلوم نہیں کہ وہ سال دنیوی سال تھے کہ جس ایک سال میں ۳۶۵ دن ہوتے ہیں ایک دن میں ۲۴ گھنٹے ہوتے ہیں، یا وہ آخرت کے نوری سال تھے جس میں ایک سال ۵۰ ہزار سال کا ہوتا ہے۔ جب خدا سے غافل ہوا خدا کے مد مقابل آگیا جب سرکش بن گیا ایک لمحہ وہ عابد اور زاہد ، استاد ملائکہ سے شیطان رجیم بن گیا ملعون بن گیا۔
بلعم باعور کی غفلت
بلعم باعور کا قصہ جس کو قرآن مجید نے نقل کیا ہے مستجاب الدعا تھا، جو دعا کرتا تھا خدا اس کی دعا قبول کرتا تھا، لیکن جب انسان غافل ہوجائے شیطان کے دھوکے میں آجائے، شیطان کے جال میں پھنس جائے شیطان کا شکار ہو جائے، مسخ ہو کر رہ گیا، ختم ہو گیا سب کچھ۔ انسان اس دنیا میں سفر پر ہے، بہت تیزی کے ساتھ یہ سفر جا رہا ہے بہت تیزی کے ساتھ، آپ تصور کریں وہ معمولی رفتار ہے جس میں گاڑیاں چلتی ہیں نوری رفتار کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے۔ اگر ایک گاڑی ۱۱۰ کی رفتار سے کسی اترائی سے اتر رہی ہو اور اس کی بریک فیل ہو جائے کیا نتیجہ ہوگیا، کتنا بڑا سقوط ہے، ہر لمحہ انسان سفر میں ہے، سفر جاری ہے، جس راستہ پر انسان جا رہا ہے، وہ پر خطر ہے، اس میں نشیب و فراز ہیں، کانٹے و درخت ہیں۔ ایک لمحہ کیلئے یہ انسان اگر غفلت کرے تو وہ جنتی سے جہنمی بن سکتا ہے،ہر طرف سے اس کے شکار کرنے کیلئے شیطانی قویں موجود ہیں شیطانی دشمن، خود شیطان، قسم کھایا ہوا دشمن، کافی ہے، اس لئے انسان کو مسلسل بیدار رہنا ہے اور متوجہ رہنا ہے،خدا سے یہ دعا مانگتے رہنی ہے کہ بار الہا اسی صراط مستقیم پر باقی رکھ، اسی اپنے سیدھے راستے پر ہمیں قائم فرما، مسلسل ہدایت دیتا رہ ہمیں۔
نفسانی خواہشات ہماری اندرونی دشمن جس کیلئے روایات میں تعبیر یہ بتائی ہے کہاعدی عدوک نفسک
سب سے بڑا دشمن تو ہمارا نفس ہی ہے، یہ خواہشات نفسانی یہ توہمات یہ خیالات یہ لمبی لمبی امیدیں آرزوئیں انسان کیلئے مہلک ہیں خطرناک ہیں، ابلیس تو بیرونی دشمن ہے،انسان نما شیطان، انسانی روپ میں شیطان اور اس کے چیلے بہت ہیں، یہ پر خطر سفر ہے جس میں غفلت اور کوتاہی انسان کو پشیمانی کے علاوہ کچھ نہیں دینے والی۔
صراط مستقیم کی حقیقت
صراط مسقیم،اور یہ قرآن مجید کی جالب تعبیر ہے، صراط کا لفظ ۴۰ بار کے قریب استعمال ہوا ہے، اور قرآن مجید نے اسے عام طور پر حق کے راستے میں استعمال کیا ہے الف لام لگا کے معین راستے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ یہ یہی خدا کا راستہ ہے، یہ وہی راستہ ہے جو مستقیم ہے، سیدھا ہے منحرف نہیں ہے، افراط اور تفریط نہیں ہے اس میں، میانہ روی کا راستہ ہے، صحیح راستہ ہے، ان اعبدونی ھذا صراط مستقیم؛ اللہ کی عبادت اور بندگی کا راستہ ہی سیدھا راستہ ہے۔ یہ سیدھا راستہ ہی ہے جو رسول اللہ کا راستہ ہے،(
يس (*)وَ الْقُرْآنِ الْحَكيمِ (*)إِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلينَ (*)عَلى صِراطٍ مُسْتَقيمٍ
)
یہ اولیائے الہی کا راستہ ہے،
(
اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقيمَ صِراطَ الَّذينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَ لاَ الضَّالِّين
)
؛
ان کا راستہ ہے جن پر خدا نے اپنی نعمتوں کو نازل کیا ہے یہ ان کا راستہ نہیں ہے جن پر خدا کا غضب نازل ہوا یا خدا ان سے ناراض ہو گیا، اور ان پر عذاب نازل کر دیا۔ یہ مستقیم ہےمیانہ راستہ ہے،اس میں افراط اور تفریط نہیں ہے، انحراف نہیں ہے، اعوجاج نہیں ہے، کجی نہیں ہے، میانہ روی کا راستہ ہے۔
اس میں یہی تعلیم دی گئی ہے خیر الامور اوسط ہا بہتر ین کام میانہ روی ہے، اور تعلیمات قرآن بھی یہی ہے کہ خدا کی نعمتیں ہیں خدا نے تمہارے لئے بنائی ہیں
کلوا واشربوا کھائو پیئو لیکن ولا تسرفوا؛ اسراف نہیں ہونا چاہیے، اسراف کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اسراف نہیں میانہ روی، خدا نے انسان کے اندر جتنے جذبات پیدا کیے ہیں محبت ہو نفرت ہو ہر ایک اپنی اپنی جگہ پر اچھا لگتا ہے، ہر جذبہ کا اپنا موقعہ و محل ہے، نفرت بھی اچھی ہے لیکن وہیں کرنی چاہئے جہاں کرنی چاہیے۔ محبت بھی اچھی ہے وہیں کرنی چاہیے جہاں کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس لئے مومنین کی اہل ایمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب اور حقیقی ساتھیوں کی ایک نشانی یہی ہے
(
مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَ الَّذينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَماءُ بَيْنَهُم
)
کافروں کی بنسبت یہ شدید اور سخت ہیں ان کے ساتھ ایمان کو متزلزل کرنے والی بنیادوں پر کوئی صلح صفائی نہیں کرتے، لیکن آپس میں نرمدل ہیں نرم مزاج ہیں خوش اخلاق ہیں، ہر ایک کا اپنا اپنا محل ہے، دین میانہ روی کا درس دیتا ہے اعتدال کا درس دیتا ہے ہر چیز کو اپنی اپنی جگہ پر ہونا چاہیے، والدین کی اطاعت کرو، ان کا احترام کرو ان کیلئے دعا مانگو
(
رَبِّ ارْحَمْهُما كَما رَبَّياني صَغيرا
)
لیکن ہاں اگر یہ تمہیں شرک کرنے کا حکم دیں، کافر بننے کا حکم دیں، گناہ کرنے کا حکم دیں، نہیں، پھر وہاں اطاعت نہیں کرنی چاہیے۔ والدین کی اطاعت اچھی چیز ہے لیکن امام علیؑ کے فرمان کے مطابق
لاطاعة لمخلوق فی معصیة الخالق
؛
جب خدا کے مقابلے میں حکم دینا چاہیں نہیں اب نہیں دے سکتے۔
حق اور باطل کی تشخیص
ہرلمحہ انسان کو صحیح راستہ کی، صحیح پہچان کی، صحیح تشخیص کی ضرورت ہوتی ہے، یہ دنیا تزاحم کی دنیا کی ہے، تضاد کی دنیا ہے، یہاں انواع و اقسام کی چیزیں ہیں، یہاں اگر حق، حق کی صورت میں آئے باطل، باطل کی صورت میں آئے تو فیصلہ کرنا آسان ہے۔ لیکن مصیبت یہی ہے کہ باطل کبھی باطل کی صورت میں نہیں آتا، بلکہ حق کا لبادہ اوڑہ کر آتا ہے، حق کے لباس میں آتا ہے، حق کی صورت میں آتا ہے۔ خود کو باطل نہیں، حق کہتا ہے۔ وہاں تشخیص دینا مشکل ہو جاتا ہے، وہاں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ حق کیا ہے باطل کیا ہے، تاریخ میں اس کی مثالیں ہیں، جنگ جمل بہت بڑی مثال ہے، ایک شخص حیران ہو کر مولا علی علیہ السلام کی بارگاہ میں پہنچتا ہے کہ میں فیصلہ نہیں کر پا رہا ہوں،
ایک طرف آپ ہیں، علی علیہ السلام ہیں بھائی ہیں رسول اللہ کے، اخو رسول اللہ و وصی رسول اللہ ہیں، داماد پیامبر ہیں، آپ کے مقابلے میں کون ہیں؟ وہ بھی زوجہ رسول ہے، کس طرح بات پیچیدہ ہو جاتی ہے مسئلا مشکل ہو جاتا ہے، وہاں پر فرق کرنا یہی وہ جگہ ہے جہاں انسان ، اللہ سے توسل کرے اور اللہ کی بارگاہ میں دست بہ دعا ہو، بار الہا تو ہی ہدایت فرما، تو صحیح تشخیص دینے کی توفیق عطا فرما، بصیرت اور معرفت عطا فرما، اور انسان پرہیزگاری اختیار کرے، اللہ سے ڈرتا رہے، اللہ کے حکم کی اطاعت کرے تو خداوند متعال اسے فرقان عطا کرتا ہے۔ تشخیص دینے کی قوت عطا کرتا ہے کہ ہر وقت وہ تشخیص دے سکتا ہے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے۔
انسانی زندگی میں بہت بڑے مشکل دور آتے ہیں بڑے مشکل موڑ آتے ہیں جہاں انسان پھسل جاتا ہے، بہک جاتا ہے، غافل ہو جاتا ہے، فیصلہ نہیں کرپاتا کہ حق کیا ہے باطل کیا ہے؟ وہاں پر انسان دعا کرے یہ دعا ہی اس کے لئے کارساز ہے ،مشکل گشا ہے، اس کی مشکل حل ہو سکتی ہے، خدا سے انسان طلب ہدایت کرے۔اور یہ ہر لمحہ ہر ایک کیلئے ۔کبھی انسان یہ نہ سمجھے کہ اب میں مستقل ہو گیا ہوں، اب میں اپنے پائوں پر کھڑا ہو سکتا ہوں، میں کچھ ہوں۔ جہاں بھی انسان اپنے آپ کو کچھ سمجھنے لگا ہے وہی نقطہ اس کے تنزل کا نقطہ ہوتا ہے۔تکبر، بڑہائی غرور بہت بڑے دشمن ہیں۔
انسان ہر لمحہ خدا کی نعمتوں کو یاد کرے بہرحال جوکچھ میرے پاس ہے تیرا لطف ہے، کون ہے اس دنیا میں جو خدا کے پاس انبیا سے بڑہ کر فضیلت رکھتا ہو؟ منزلت رکھتا ہو آئمہ سے بڑہ کر؟لیکن ان کی سیرت یہی ہے کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کوئی فضیلت بیان کرتے تھے اپنی، فورا فرماتے تھے ولا فخر؛ (کنز العمال۔ ح ۳۱۸۸۳ ۔)
تکبر کی بات نہیں ہے۔ یہ لطف خدا ہے، یہ سب تمہارا کرم ہے آقا۔ یہ اصل دین ہے، اساس دین ہے، جو کچھ ہے وہی اس کا فضل ہے، میں کچھ بھی نہیں ہوں، کچھ بھی نہیں ہوں، سب اس کا فضل ہے۔ یہی انبیا کا درس ہے، یہی آئمہ کا درس ہے، اپنا کوئی کمال نہیں ہے، اپنا کوئی فضل نہیں ہے۔ سب کچھ اسی کا ہے دوسروں کی دی ہوئی بات پر تکبر کرنا کیسا؟
راسخون فی العلم کی دعا
اور یہ دعا اتنی اہم دعا ہے عزیزو کہ ہم جن کے فضائل پڑہتے رہتے ہیں، جو عالم قرآن ہیں، جو مفسر قرآن ہیں، وارث قرآن ہیں، ناطق قرآ ن ہیں، راسخون فی العلم ہیں، سورہ آل عمران میں ان کا ذکر ہوتا ہے کہ قرآن میں محکم اور متشابہ آیتں ہیں ان کی کوئی تاویل نہیں جانتا سوائے راسخون فی العلم کے، بعد والی آیت میں ذکر ہوا ہے کہ وہ کیا دعا کرتے ہیں، دعا کرتے ہیں
(
رَبَّنا لاتُزِغْ قُلُوبَنا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنا
)
بار الہا جب تم نے ہماری ہدایت کر دی ہے، اب ہدایت کے بعد ہماری قلوب کو زیغ و زنگ سے محفوظ فرما، اب ہم منحرف اور گمراہ نہ ہونے پائیں۔ اب گمراہی کا ہم پر غلبہ نہ ہونے پائے۔ہدایت کے بعد استقامت اور استمرار ہدایت کی دعا، جب یہ ہدایت مل گئی ہے جب یہ خزانہ ہمارے پاس آیا ہے، یہ معرفت آئی ہے تو ہمارے پاس باقی رہے۔ہدایت پا لینا زیادہ مشکل نہیں ہوتا، پانے کے بعد اس کی حفاظت مشکل ہوتا ہے۔ اور راسخون فی العلم کی یہی دعا ہوتی ہے،ربنا لا تزغ قلوبنا
؛
ہمارے دلوں میں کجی پیدا نہ ہونے پائے، ہم منحرف نہ ہونے پائیں، پھر گمراہی کی طرف نہ جائیں، کہیں شیطان پھر ہمیں بہکا نہ دے سبز باغ دکھا کر، دھوکا دے کر، جال بچھا کر، شکار نہ کر دے۔
اہل علم اور راسخون فی العلم کی بہترین دعا یہی ہے، اب نور ہدایت آ چکا ہے، خدایا اس نور کو باقی رکھ۔ یہ نور ہمیشہ ہمارے پاس رہے، ہمیشہ ہماری رہنمائی ہوتی رہے، خالق کائنات نے انسان کو انا ھدیناہ السبیل؛ عقل بھی دیا ہے، فطرت بھی دی ہے، ضمیر بھی دیا ہے، قلب بھی دیا ہے، یہ اندرونی ہدایت کے وسائل ہیں، وہاں سے آئمہ ہیں، انبیا ہیں، اولیا ہیں، کتب آسمانی ہیں، خدا کی ہدایت ہے، انسان ہر لمحہ اگر ان سے متمسک رہے تو شیطان کو موقعہ ہی نہیں ملے گا کہ اسے گمراہ کر سکے۔ اور اگر کبھی انسان کچھ لمحوں کیلئے شیطانی جال میں پھنس بھی جائے تو خدا کے دوستوں کی،محبان خدا کی، اہل خدا کی نشانی یہ ہے کہ جب بھی شیطان انہیں گمراہ کرنا چاہتا ہے، بیدار ہو جاتے ہیں، متوجہ ہو جاتے ہیں اور خدا کی پناہ میں آ جاتے ہیں۔
غفلت بہت بڑی بیماری ہے، سب سے بڑا خطرہ غفلت ہے، ہر لمحہ ہدایت کی دعا ، اگر انسان یہ جان لے کہ استقامت کے کتنے فائدے ہیں، خالق کائنات نے بہترین بشارت دی ہے ثابت قدم رہنے والوں کو، جنہوں نے جان لیا معرفت حاصل کی، ایمان لے آئے عمل صالح کرنے لگے اب ظاہر ہے کہ پھر پریشانیاں آئیں گی مشکلات آئیں گی، رکاوٹیں آئیں گی۔ انسان ان کی پرواہ نہ کرے، خطرہ کی پرواہ نہ کرے، پریشانیوں میں پریشان نہ ہوجائے، اللہ پر توکل کرتے ہوے بھروسہ کرتے ہوے ان کا مقابلہ کرے۔ اگر انسان استقامت کا مظاہرہ کرے تو خالق کائنات فرماتا ہے کہتتنزل علیهم الملائکة
،
جو ایمان لے آئے ثم استقاموا پھر انہوں نے استقامت کا مظاہرہ کیا، ڈٹے رہے، اپنے راستے سے اپنے مقصد سے کوئی چیز انہیں دور نہ کر سکے، نہ لالچ کی وجہ سے وہ گمراہ ہو سکیں، نہ ڈر اور خوف انہیں ڈرا سکے، اہل ایمان ایسے ہوتے ہیں، جن کا اعتبار خداپر ہوتا ہے۔ اولیا الہی ایسے ہوتے ہیں۔ مگر کیا آئمہ کو انبیا کو لالچ نہیں دی گئی؟ انہیں لالچ کے ذریعہ سے، انہیں ڈر کے ذریعہ سے منحرف کرنے کی کوشش نہیں کی گئی؟
رسول اکرم(ص) کی استقامت
رسول کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو قریش نے کیا کیا پیکیج نہیں دیے، اگر آپ چاہتے ہیں بہترین خوبصورت خاتون سے آپ کی شادی کر دی جائے، ہم حاضر ہیں۔ آپ کو انواع و اقسام کے وسائل میسر کرتے ہیں، آپ خوشحال زندگی بسر کریں۔ شاہانہ زندگی گذاریں، جو چاہتے ہیں آپ کو دے دیتے ہیں، آپ ایمان کی دعوت نہ دیں، آپ ہمارے بتوں کی مخالفت نہ کریں، آپ ہمارے آباء اور اجداد کے دین کی مخالفت نہ کریں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہی فرماتے تھے، سورج کو میرے دائیں اور چاند کو بائیں ہاتھ پر رکھ دو تب بھی میں اپنی دعوت سے دستبردار نہیں ہونگا
ایسی استقامت کہ کوئی چیز انہیں گمراہ نہیں کر سکتی، منحرف نہیں کر سکتی ،اپنے مقصد سے دور نہیں کر سکتی۔ اہل ایمان اگر اسی طرح استقامت کا مظاہرہ کریں استقاموا پر عمل کریں تو پھر تتنزل علی ہم الملائکة ، ملائکہ ان پر نازل ہوتے ہیں ، کہتے ہیں خوف نہ کھائو، ڈرو نہیں، تمہیں بشارت ہو، خوشخبری ہو جنت کی، ملائکہ نازل ہو کر انہیں خوشخبری دیتے ہیں جنت کی، ان کی تشویق کرتے ہیں انہیں شوق دلاتے ہیں انہیں ترغیب دلاتے ہیں، ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ان کیلئے تو ملائکہ دعا کرتے رہتے ہیں سکان السموات و الارض زمین اور آسمان کے رہنے والے ان کیلئے دعا کرتے ہیں ۔
کبھی کبھی ہمیں یہ سوال پیش آتا ہے کہ آخر خدا اپنے اولیا کی مدد کیوں نہیں کرتا؟ بڑا اہم نکتہ ہے عزیزو، جتنے بھی خدا کے دوست ہیں، اولیا ہیں، انبیا ہیں، آئمہ ہیں ان کو مشکلات تھیں۔ خدا نے ان کی ظاہری اتنی مدد کیوں نہیں کی؟ اگرچہ کی ہے ایک حد تک، لیکن یاد رکھیے گا اللہ کی سب سے بڑی مدد ان کیلئے یہی ہے کہ خالق کائنات نے انہیں استقامت عطا کی، بڑی مدد اللہ کی یہی ہے، آپ سورہ فاتحہ میں یہی تو پڑہتے ہیںایاک نعبد و ایاک نستعین اهدنا الصراط المستقیم
؛ اللہ کی بہترین مدد یہی ہے کہ خدا اپنے دوستوں کو، اولیا کو ،آئمہ کو، انبیا کو ہدایت دیتا رہتا ہے، انہیں ثبات قدم عطا کرتا ہے کوئی پریشانی انہیں پریشان نہیں کر سکتی، اپنے راستہ سے منحرف نہیں کر سکتی۔ سب کچھ دے دیتے ہیں پھر بھی مطمئن رہتے ہیں۔ یہ اللہ کی سب سے بڑی مدد ہے۔
باطل کاموں میں آپ دیکھیں پریشانی، ٹینشن اسٹرس کے علاوہ کیا ملتا ہے، لیکن یہاں آپ سب دینے کے بعد بھی مطمئن رہتے ہیں، دوست دے کر، احباب دے کر، انصار دے کر، بچے دے کر، جوان دے کر، نوجون دے کر بھی حسین بن علی علیہ السلام کتنے اطمینان سے ریت کربلا پر سجدہ کرتا ہیں سبحان ربی الاعلی و بحمد ہ۔ یہ اللہ کی مدد نہیں تو پھر کیا ہے۔
یہ صراط مستقیم کی دعا، اولیا کی دعا ہے، یہ انسان کو لائین دیتی ہے، خط فکری دیتی ہے۔ تمہاری تمام تر مشکلات کا حل یہی ہے کہ خدا سے لو لگا ئے رکھو، خدا سے متصل رہو، اس مرکز سے تمہارا رابطہ رہے، ایک لمحہ کیلئے بھی یہ رابطہ کٹنے نہ پائے، منقطع نہیں ہونا چاہیے، ایسا کام نہ کرو جس کی وجہ سے یہ سگنل جو تمہارے اور خدا کے درمیان ہیں، وہ ختم ہونے لگیں رابطہ منقطع ہونے لگے، نہیں، عبادت کے ذریعہ سے انسان خدا سے متصل رہے، رابطہ رکھے اور یہ دعا کرتا رہے(
اهدنا الصراط المستقیم
)
۔ یہ دعا کرتا رہے(
رَبَّنا لا تُزِغْ قُلُوبَنا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنا؛
)
دعا ہے کہ خالق کائنات ہمیں اور آپ کو ایمان کے راستے پر ثابت قدم فرمائے۔
والسلام علیکم و رحمة اللَّهِ و برکاته