وسعت رزق کی دعا
أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ وَ هُوَ خَيْرُ نَاصِرِ وَ مُعِين وَ صَلَّى اللهُ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
.
(
فَقالَ رَبِّ إِنِّي لِما أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقير
)
آج جس مشکل کا حل پیش کرنا ہے، جس دعاکو پیش کرنا ہے، وہ وسعت رزق ہے۔
رزق و روزی کا معاملہ بہت ہی پیچیدہ معاملہ ہے ،بسا اوقات خالق کائنات کی عدالت پر اعتراض کئے جاتے ہیں۔ ان میں سے اہم ترین اعتراض یہ ہوتا ہے کہ آخر خالق کائنات نے سب کو ایک جتنا کیوں نہیں دیا؟ کسی کے پاس اتنا زیادہ ہے کہ اسے گننے کی فرصت نہیں اور کوئی ایک ایک دانے کو ترستا ہے۔ اتنا طبقاتی نظام کیوں نظر آتا ہے؟ اتنا طبقاتی اختلاف کیوں نظر آتا ہے؟ کسی کے جانوروں کا کسی کے کتے کا ہائی لیول کا علاج ہوتا ہے،جس پر ہزاروں ڈالر خرچ ہوتا ہے۔ اور کوئی انسان ایک معمولی سی ٹیبلیٹ کو حاصل نہیں کر سکتا، تڑپ تڑپ کر اپنی جان دے دیتا ہے۔ ہر انسان یہ چاہتا ہے کہ اس کے پاس دولت بہت زیادہ ہو، اس کا سبب کیا ہے؟ رزق میں وسعت کیسے لائی جا ئے؟ رزق کا موضوع واقعا ایک پیچیدہ موضوع ہے، خالق کائنات نے بنیادی طور پر جو کچھ پیدا کیا ہے وہ سب کیلئے پیدا کیا ہے۔
طبقاتی نظام انسان نے بنایا ہے
البتہ یہ جوہمیں اختلاف نظر آتا ہے، یہ جو ہمیں مختلف طبقات نظر آتے ہیں، یہ خود انسانوں کے اپنے بنائے ہوئے ہیں، کیونکہ خالق نے سب کیلئے پیدا کیا ہے۔ لیکن کچھ لوگ اپنے اختیار کا غلط استعمال کرتے ہوئے وسائل پر قبضہ کر لیتے ہیں اور دوسروں کو محروم کر دیتے ہیں۔ خدا نے جو کچھ بنایا ہے وہ سب کیلئے بنایا ہے، کسی چیز پر کسی کا نام نہیں لکھا۔ یہ اختلاف انسانوں کی وجہ سے ہیں، اس میں مختلف عوامل و اسباب ہیں کچھ لوگوں نے کوتاہی کی، سستی کی، جدوجہد نہیں کی کوشش نہیں کی ، لازمی علم حاصل نہیں کیا، استفادے کے صحیح وسائل نہیں بنائے۔ یہ وہ اسباب ہیں جو طبقاتی اختلاف کا اصلی سبب ہیں۔ بہرحال اس میں کوئی شک نہیں کہ رزق و روزی دینے والا خدا ہے۔
رزق کے ذریعہ امتحان
خدا کا ارشاد ہے: زمیں میں کوئی حرکت کرنے والا جانور ایسا نہیں مگر یہ کہ اس کا رزق اللہ کے ذمے پر ہے، رزق کی ذمہ داری اس کی ہے،
(
وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلاَّ عَلَى اللَّهِ رِزْقُها
)
رزق کی ذمہ داری اسی پر ہے۔ البتہ وہ جس کو چاہتا ہے کم دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے زیادہ دیتا ہے،
(
اللَّهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشاءُ وَ يَقْدِر
)
خدا جسے چاہتا ہے بہت زیادہ دیتا ہے، جسے چاہتا ہے کم دیتا ہے۔ لیکن یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ خدا جس کو زیادہ دیتا ہے یہ بھی امتحان کیلئے ہوتا ہے ، آزمائش کیلئے ہوتا ہے۔ جسے کم دیتا ہے یہ بھی امتحان کیلئے ہوتا ہے۔ نہ جسے زیادہ جا رہا ہے وہ اس زیادتی پر خوش ہو جائے کہ وہ منظور کرم ہے اور نہ جسے کم دیا جا رہا ہے وہ اس بات پر نالاں رہے کہ خدا اس سے ناراض ہے، کیونکہ یہ دنیا امتحان کی دنیا ہے یہاں ہر چیز خدا نے امتحان کیلئے بنائی ہے
(
وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوعِ وَ نَقْصٍ مِنَ الْأَمْوالِ وَ الْأَنْفُسِ وَ الثَّمَراتِ وَ بَشِّرِ الصَّابِرين
)
ہم نے امتحان کیلئے بنایا ہے ضرور بضرور تمہارا امتحان لیں گے خوف کے ذریعہ سے ڈر، رزق میں کمی کے ذریعہ سے نفوس میں کمی کے ذریعہ سے ثمرات میں کمی کے ذریعہ سے اور پھر بشارت دے دو صابرین کو جن پر کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم اللہ کی طرف سے ہیں اور اللہ کی طرف لوٹ جائیں گے، یہ دینا اور نہ دینا دونوں امتحان ہیں خدا کسی کو دے کر آزما رہا ہے کسی سے لے کر آزما رہا ہے۔
اور یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ جب خدا نہ دے کر آزمائےتو یہ امتحان آسان ہوتا ہے۔ بلکل ہمارے بر عکس، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے پاس آ جائے تو آسان ہے۔ جی نہیں، خدا کم دےیا نہ دے تو آسان ہے؛ کیونکہ نہ دینے کی صورت میں کم دینے کی صورت میں انسان متوجہ رہتا ہے وہ اللہ اللہ کرتا ہے وہ خدا کو یاد رکھتا ہے، اور جسے اگر دے دیا جائے
(
كَلاَّ إِنَّ الْإِنْسانَ لَيَطْغى،أَنْ رَآهُ اسْتَغْنى
)
جب انسان اپنے آپ کو بے نیاز دیکھتا ہے، طغیان کرتا ہے، سرکش بن جاتا ہے۔ پھر خدا کو بھول جاتا ہے، وہ کہتا ہے یہ سب کچھ میں نے اپنے بل بوتے پر جمع کیا ہے ۔بلکل قارون و ہامان کی طرح، وہ یہ سمجھتے تھے جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ اتیت ہ علی علم، ایسا نہیں ہے یہ سب خدا کی طرف سے ہے۔ البتہ اس میں انسان کا بھی عمل دخل ہوتا ہے، انسان کی محنت، انسان کو کوشش، انسان کا ارادہ مختلف عوامل و اسباب ، سب سے اہم دعا رزق کی کمی اور وسعت میں موثر ہوتی ہے۔ انسان ہر چیز میں محتاج ہے، دنیا ایسی ہے اگر کسی ایک انسان کو اپنے مال پر غرور آجائے تو ایک لمحے میں اس کا غرور ختم ہو سکتا ہے۔ ایک معمولی سی زمینی یا آسمانی آفت اس کی تمام چیزوں کو ختم کر سکتی ہے۔ کیا ہمارا روز کا مشاہدہ نہیں ہے کتنے امرا اور روسا تھے کہ ایک دن میں غریب بن گئے؟ کتنے غریب ایسے تھے کہ زمانے کی گردش نے انہیں بادشاہ بنا دیا؟ انسان خدا سے متوسل رہے اس کی ذات سے مرتبط رہے تو ہر حال میں خوش رہے گا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں کہ:
سلو الله ما بدا بکم من حوائجکم حتی شسع النعل فانه ان لم یسره لم یتیسر
؛
جو بھی تمہیں ضرورت پیش آئے خدا سے مانگو، ہر چیز خدا سے مانگو ایسا نہیں ہے کہ یہ میں خود کر لوں گا یہ خدا سے مانگ لیتا ہوں، ہم کون ہوتے ہیں؟ ہم کیا ہوتے ہیں؟ اس کے ارادے کےسامنے، اس کی قدرت کے سامنے، کوئی بھی کچھ بھی نہیں ہے۔ ہر چیز خدا سے مانگو، یہاں تک کہ اگر تمہارے جوتے کا تسمہ ٹوٹ جائے تو اس کا بھی سوال خدا سے کرو، کیونکہ اگر خدا اسے ممکن نہ بنائے، آسان نہ بنائے، وہ کبھی بھی تمہارے لیے آسان ہو ہی نہیں سکتا،خدا کی قدرت ہے، اگر بھروسہ کرنا ہے تو خدا کی قدرت پر بھروسہ کرو۔ اس پر توکل کرو، اپنی کسی چیز پر بھروسہ نہ کرو؛ کیونکہ کوئی بھی چیز تمہاری نہیں ہے۔ہمیں دوکھا اسی لیے ہوتا ہے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں یہ ہمارا ہے، یہ انسان دوکھا کھاجاتا ہے، غفلت کا شکار ہو جاتا ہے اور شیطان اسے اپنی جال میں پھنسا لیتا ہے، بہرحال رزق کی دعا کرنی چاہیے دعا سے رزق میں اضافی کیا جا سکتا ہے۔
حضرت ابراہیمؑ خداوند متعال کا تعارف کراتے ہیں تو یہ کہتے ہیں :
(
وَ الَّذي هُوَ يُطْعِمُني وَ يَسْقين
)
خدا وہی ہے جو مجھے کھلاتا ہے اور پلاتا ہے، کھانا دینا بھی اسی کا کام ہے، پانی دینا بھی اسی کا کام ہے۔یہ چیز جسے ہم معمولی سمجھتے ہیں کھانے اور پینے کو، یہ معمولی نہیں۔ بہت قیمتی چیزیں ہیں، خدا اسی چیز سے اپنا تعارف کروا رہا ہے۔ کتنی جگہوں پر خدا نے فرمایا ہے لوگو جس پانی کو تم پی رہے ہو اگر ہم اسے تلخ اور کڑوا بنا دیں تو کون ہے جو اس پانی کو شیرین اور گوارا بنا سکے۔ خدا نے اپنی قدرت سے اس پانی کو میٹا بنایا، ہمارے پینے کے قابل بنایا ہے۔ اگر یہ زمین میں موجود پانی سمندر کی طرح کڑوا بن جائے، کون اسے پھر پینے کے قابل بنا سکے؟ کتنی بڑی نعمت ہے خدا کی، پانی کتنی بڑی نعمت ہے؛ کیونکہ آسانی سے ہمیں مل جاتا ہے اس لیے قدر نہیں ہوتی۔ اس وقت قدر ہوتی ہے جب پینے کیلئے کچھ نہ ملے تب پتا چلتا ہے کہ یہ کتنی بڑی نعمتیں ہیں۔ خدا ہی پلاتا ہے انسان اپنی رزق و روزی کا سوال بھی اسی سے کرے۔
حضرت موسی علیہ السلام اور رزق کے لئے دعا
حضرت موسیؑ فرعون کے شر سے فرار کرنے کیلئے نکل پڑے وہاں سے، صحرا میں سفر کرتے رہے، اس زمانے میں تو کھانے پینے کا بندوبست تو نہیں تھا صحرا میں جو کچھ ملا کھا لیا زندہ رہنے کیلئے، جب مدین پہنچے اور باہر ہی باہر انہوں نے عجیب منظر دیکھا، جس میں ہمارے لئے بھی بہت ہی درس ہیں، دیکھا ایک کنواں ہے لوگ جمع ہیں مرد ہیں وہاں پر، دو خواتیں ہیں جو سائیڈ پر کھڑی ہوی ہیں۔ مرد ہیں وہ پہلے آ رہے ہیں، اپنی ضرورت کا پانی نکال رہے ہیں۔ اپنے جانوروں کو پلا رہے ہیں۔ یہ سائیڈ پر کھڑی ہیں، حضرت ان کے پاس جاتے ہیں، کہتے ہیں تمہیں کیا ہوا ہے؟ خاتون کو اسلام گھر سے باہر نکلنے سے روکتا نہیں ہے، خدا نے روکا نہیں ہے، اگر نکلنے کی ضرورت ہو تو نکلے۔ لیکن ادب کے ساتھ، اپنے پردے کا خیال کرتے ہوے، اپنے وقار کو محفوظ رکھتے ہوے، انہوں نے یہی کہا جب سب چلے جائینگے تب ہم نکال لینگے۔ یہ ایک درس ہے ہم سب کیلئے، اگر ضرورت ہے مرد بوڑھا ہو گیا ہے، کوئی کام کرنے والا نہیں ہے تو عورت ،خاتون باہر جا سکتی ہے۔ اپنی ضروریات انجام دے سکتی ہے، پردے کے ساتھ نکلنے میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ مردوں کے ساتھ مخلوط نہیں ہو رہی اپنے وقار کو باقی رکھے ہوئے ہے، حضرت موسیؑ ان کو پانی نکال کے دیتے ہیں، بیٹیاں جب لے آتی ہیں تو باپ کو احساس ہو جاتا ہے کہ آج یہ جلدی آگئی ہیں۔ یعنی جو بیٹیاں گھر سے باہر جاتی ہیں ہمیں ان کا خیال رہے کہ وہ کب آتی ہیں، ان کو کب تک آ جانا چاہیے۔ دیکھا آج جلدی آئی ہیں تو پوچھ لیا کیوں؟ اگر دیر سے آئیں تو بھی پوچھ لینا چاہیے،۔ماں باپ اگر خیال نہ رکھیں اور اولاد فاسد ہو جائے تو یہ ان کی تربیت میں کوتاہی شمار ہوگی۔ اسلام یہ نہیں کہتا کہ بچیوں کو اجازت نہ دو کہ علم حاصل کریں اور ضروریات زندگی کو حاصل نہ کریں۔ ضرورت کے مطابق ادب و احترام کے ساتھ حجاب کا خیال رکھتے ہوے نکل سکتیں ہیں۔ البتہ شیطان کو موقع نہ دیں کہ وہ ان پر قابو پا سکے۔
انہوں نے کہا ایک شخص جو کہ شریف اور با ادب تھا، اس نے ہمیں بھر کے دیا، کیا ہی اچھا ہو کہ آپ اسے اپنے ہاں رکھ دیں، فرمایا اس کو بلا کر آئو، آتی ہیں انہیں بلائیں، یہ وہ وقت تھا جس حضرت موسیؑ سائے میں جا کر دعا کرنے لگے: رب انی لما انزلت الی من خیر فقیر
بار الہا! میں تیرے رزق کا بہت زیادہ محتاج ہوں جو تو مجھے اپنی طرف سے عطا کرے، حضرت موسیؑ روایات کے مطابق نان و نفقہ کی دعا کر رہے ہیں کھانے کی دعا کر رہے ہیں،
اتنے کمزور پڑہ چکے ہیں کہ صحرا و جنگل میں سفر کرتے ہوئے وہاں جو کچھ ملا تھا کھا لیتے تھے، اب بہت نقاہت آ چکی تھی، اب خدا کی بارگاہ میں دست بلند کر کے روٹی کی دعا کر رہے ہیں۔ فسقی ل ہما؛ پہلے ان دونوں عورتوں کو پان ی بھر کے دیا۔ ثم تولی الی الظل پھر آ کے سائے میں بیٹھے اور دعا کرنے لگے رب انی ۔ فقیر، خدایا میں محتاج ہوں روٹی کا محتاج ہوں۔ روٹی کی دعا کوئی معمولی دعا نہیں ہے، یہ ہمیں اس کا احساس اس لئے نہیں ہوتا کیونکہ ہم نے کبھی اس کا سامنا نہیں کیا۔ آج کل تو ارتباط کی دنیا کی ہے اگر دیکھنا ہے تو ان ممالک کو دیکھیں جہاں استکبار نے قبضہ کیا ہوا ہے، جہاں لوگ دانے دانے کو ترستے ہیں۔ اگر بیمار ہو جائیں تو علاج کے وسائل نہیں ہوتے، سالانہ کتنے لوگ بھوک کی وجہ سے مر رہے ہیں۔ دوسری طرف کتنے ٹن غذا نام نہاد ترقی یافتہ ملکوں میں اسراف و ضائع ہو رہی ہے۔کیا ہم ان چیزوں کے مسئول نہیں ہے، ہماری کوئی ذمہ داری نہیں ہے، یہ سب اسی لئے کہ ہمیں احساس ہو خدا کبھی یہ دکھانا چاہتا ہے تا کہ انہیں احساس ہو، حضرت موسیؑ روٹی کا سوال کر رہے ہیں۔
یہ بیٹیاں واپس آتی ہیں، آ کر کہتی ہیں آپ کو بابا بلا رہے ہیں۔ حضرت ان کے ساتھ جاتے ہیں کیونکہ راستہ کا انکو پتا ہے وہ آگے آگے ہیں اب حضرت کا ادب دیکھئے، ان آداب کو انبیا سے سیکھنا چاہیے۔ اگر عورت کے ساتھ جانا ہی پڑے تو بھی آگے آگے چلنا چاہیے، اگرچہ پتا نہ ہو وہ بتاتی جا رہی ہیں، ادب یہی ہے ضرورت کے مطابق خواتین باہر نکلیں تو مردوں کا یہ رویہ ہونا چاہیے۔ ان کے وقار و عزت کو ٹھیس نہیں پہنچنا چاہیے، عورت کا اصل سرمایہ اس کا دامن ہوتا ہے پاکدامنی بہت بڑا سرمایہ ہے۔
یہ دعا کا نتیجہ تھا حضرت شعیب اسے اپنے ہاں رکھ لیتے ہیں، اس کا نکاح اپنی بیٹیوں سے کر دیتے ہیں۔ اپنا سب کچھ اسے دے دیتے ہیں یہ سب اس دعا کا نتیجہ ہے
،
حضر ت موسیؑ نے تو فقط روٹی کی دعا مانگی تھی۔ لیکن خدا نے ہر چیز کا انتظام کر دیا۔
پانی کے لئے دعا
پھر جب وہ وقت آتا ہے تو اپنی قوم کی طرف لوٹ آتے ہیں اور قحط کا وقت آتا ہے تو پانی کی دعا کرتے ہیں
(
وَ إِذِ اسْتَسْقى مُوسى لِقَوْمِه
)
اور وہ وقت یاد کرو جب جناب موسیؑ نے اپنی قوم کیلئے پانی طلب کیا۔
پانی بہت بڑی قیمتی چیز ہے۔(
وَ جَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَي
،)
ہم نے ہر زندہ چیز کو پانی سے بنایا ہے، اس کی زندگی کی بقا پانی پر ہے۔ پانی نہ ہو تو زندگی کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔پانی بہت قیمتی ہے۔ پانی کیلئے دعا کر رہے ہیں کہ بار الہا! پانی عطا فرما، پانی کی قلت ہے، خشک سالی ہے، جانور مر رہے ہیں، بچے گڑگڑا رہے ہیں، خواتین کا شیون اور نالا بلند ہے، مرد دعا کر رہے ہیں۔ اب خالق کائنات نے فرمایا کہ پتھر پرعصی مارو
(
فانفجرت منه اثنتا عشرة عینا؛
)
اس پتھر سے بارہ چشمہ پھوٹ پڑے، پانی کی دعا کی خالق کائنات انہیں پانی سے مالا مال کر دیا۔ جس چیز کی ضروت ہو خدا سے مانگو۔ البتہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آداب مد نظر نہیں رکھنے چاہیں۔ آداب ہیں دعا کے جو ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں۔ توسل کی نفی نہیں ہو رہی ہے یہاں پر، تقویت ہو رہی ہے۔ قوم آتی ہے اپنے نبی کے سامنے، نبی دعا کر رہے ہیں قوم کیلئے۔
توسل اصل و اساس ہے دعا میں، اور اسلام نے بھی طریقہ رکھا ہے جب بھی قحط ہو خشک سالی ہو ، پانی کی قلت ہو تو دعا مانگیں اور خاص نماز بتائی ہے نماز استسقا، طلب باران کیلئے بارش ہونے کی دعا کریں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دور میں جب قحط ہوتا تھا لوگ رسول کے پاس آکر دعا کرایا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد لوگ آپ کے روضہ پر آتے تھے اور آج بھی جب قحط سالی ہوتی ہے روضہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اوپر جو گنبد میں کھڑکی ہے، اسے کھول دیا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر جب کھلے آسمان کے نیچے آجاتی ہے اور مسلمان ہاتھ بلند کر کے خدا سے بارش کی دعا کرتے ہیں تو خالق کائنات اپنی رحمت کا نزول فرماتا ہے۔ طلب باران کی نماز ہے، خاص نماز ہے ،دعا کرو، تین دن روزہ رکھو، مرد عورت جدا ہوں، بچے جدا کیے جائیں، جانور جدا کیے جائیں، سب گڑگڑائیں، نالا کریں۔ گریہ کریں، فریاد کریں خدا کی بارگاہ میں، خالق کائنات اپنی رحمت کا نزول فرمائے گا۔
اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ کبھی کبھی قحط اور خشک سالی ہمارے گناہوں کا نتیجہ ہوتی ہیں جیسے جیسے انسان نئے نئے گناہوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں خالق کائنات بھی نئے نئے عذاب ان پر نازل کرتا ہے۔ ان کو نئے نئے عذابوں میں گرفتار کر دیتا ہے۔ نئیں نئیں بلائیں نازل ہوتی ہیں۔ نئے نئے مسائل کھڑے ہو جاتے ہیں۔ عجیب و غریب قسم کے نفسیاتی اور غیر نفسیاتی مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔دعا کریں، لیکن رزق اور روزی میں دعا کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہمیں کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ اس لیے کہ آئمہ نے بہت زیادہ تاکید کی ہےرزق کے معاملے زیادہ پریشان نہ ہویا کرو،؛کیونکہ رزق کی ذمہ داری اس کیلئے رکھی ہے۔اور یاد رکھو جس چیز کا ذمہ خدا نے لے لیا ہے اس کے بارے میں سوچ سوچ کر اپنے واجبات سے غافل نہ ہو جانا، ایسا نہ ہو کہ رزق کی تلاش میں تم اتنا منہمک ہو جائو، اتنے مدہوش ہو جائو، اتنے غافل ہو جائو، اپنے واجبات کو چھوڑ دو، نہیں! رزق کی تلاش کرو، کوشش کرو، دعا بھی کرو۔ اللہ پر بھروسہ اور توکل بھی کرو
امام صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ طلوعین کے درمیان یعنی آذان فجر سے طلوع خورشید تک یہ وقت ایسا ہے اگر اس وقت میں انسان دعا کرے اور سورج نکلنے کے بعد جا کر کام کرے تو یہ دعا اس کے دن کی روزی کیلئے کافی ہے۔
یعنی یہ دعا کا ٹائیم ہے اس میں جو دعا کرے گا اس کے ہاں برکت آئے گی۔ لیکن آج کل ٹائیم ٹیبل ایسا ہو چکا ہے ہمیں نیند ہی اسی ٹائیم پر آتی ہے جو معنوی نعمتوں کے نزول کا وقت ہوتا ہے۔ انسان اگر فطرت کے برخلاف قدم اٹھائے گا تو اسے نفسیاتی معاملات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ خدا نے دن کو روزی کی تلاش کیلئے بنایا ہے۔ فرمایا جمعہ کے دن نماز جمعہ کیلئے جمع ہو جائو
(
فَإِذا قُضِيَتِ الصَّلاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَ ابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ الله
)
جب نماز پوری ہوجائے تو زمیں پر پھیل جائو، جائو رزق اور روزی کی تلاش کرو۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ خدا کچھ لوگوں کی دعا کو مستجاب نہیں کرتا؛ایک وہ شخص جو گھر میں بیٹھ کر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر دعا کرے کہ بار الہا! میرے رزق میں وسعت عطا فرما۔ اس کے رزق میں کبھی وسعت نہیں آئی گی۔
تم اپنی ذمہ داری کو پورا کرو پھر خدا سے سوال کرو، خدا اپنی ذمہ داری کو پورا کرتا ہے۔ہم انسان ہیں جو کوتاہی کرتے ہیں، غفلت کرتے ہیں، اپنے اختیار اور ارادے کا غلط استعمال کرتے ہیں، لیکن آیات اور روایات نے ہمیں ایک اور چیز کی طرف بھی متوجہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ رزق کی تلاش اور رزق کو بڑہانے اور گھٹانی والی چیزیں صرف ظاہری اور ہمارا عمل نہیں ہوتا۔معنوی چیزوں کا بھی ان میں عمل دخل ہوتا ہے۔
صدقہ اور وسعت رزق
امام علی علیہ السلام نےنہج البلاغہ میں کتنی ہی بہترین حکمت ارشاد فرمائی ہے۔ فرماتے ہیں
(اذا املقتم فتاجروا الله بالصدقة؛
)
جب تمہیں غربت کا سامنا ہو، جب تنگ دستی آجائے تمہارے پاس، اب خدا سے معاملہ کرو۔ تجارت کرنی ہو تو خدا سے تجارت کرو، تجارت میں یہی ہوتا ہے تھوڑا بہت پیسہ لگایا جاتا ہے پھر اس پر منفعت اور فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ فرمایا جب بھی تمہیں تنگ دستی گھیر لے تو خدا سے معاملہ کرو، صدقہ کے ذریعہ سے، اللہ کی راہ میں تھوڑا سا دو اللہ برکت عطا فرمائے گا۔ یعنی رزق کو بڑہانے کا ایک عمل یہی ہے کہ صدقہ دو اللہ کے نام پر دو۔ جس نے تمہیں دیا ہے اسے یاد رکھو، شکرانے کے طور پر کچھ اس کے نام پر دو اور یہ خدا کا وعدہ ہے کہ لئن شکرتم لازیدنکم: تم شکر کرو شکرانہ کے طور پر اس نعمت میں دوسروں کو شریک کر لو خدا اور زیادہ برکت ڈالے گا اس میں، اور ہمیشہ برکت یہ نہیں ہوتی کہ زیادہ ہو جائے کبھی کبھی کم چیز بڑی چیز سے زیادہ اچھی ہوا کرتی ہے، اگر زیادہ ہو لیکن اس میں برکت نہ ہو کسی کام کا نہیں ہے، مختصر ہو لیکن اس میں خدا کا لطف شامل ہو فضل الہی ہو تو وہ کم بھی بہت زیادہ ہو جاتا ہے ورنہ بہت زیادہ بھی کسی کام کا نہیں ہوتا۔
دوسری جگہ پر اما علیؑ ارشاد فرماتے ہیں
استنزلوا الرزق بالصدقة
اگر تم چاہتے ہو کہ آسمان سے تمہارے لئے رزق نازل ہو تو صدقہ دو، وسعت رزق کے بہت سارے اسباب ہیں؛ دعا بھی کرو، شکر بھی کرو، اللہ کی راہ میں خرچ بھی کرو۔ اللہ تمہیں دے گا۔ جتنا شکر کروگے اتنا ہی زیادہ عطا فرمائے گا، اور اس میں برکت ہوگی تھوڑا ہوتے ہوے بہت زیادہ ہوگا، وگرنہ بہت زیادہ ہوتے ہوے بھی کسی کام کا نہیں ہوتا ہے اور انسان کے پاس جتنا زیادہ ہو جائے اتنا ہی زیادہ اس کے پیاس بڑہتی چلی جاتی ہے۔ وہ کبھی سیراب ہونے کا نام بھی نہیں لیتا تو ہمیں خدا سے ایسی رزق کی دعا کرنی چاہیے جو رزق مقصد تخلیق کے حصول میں ہمارےی مدد کرے اور ہمیں اس کے نزدیک کرے، جو بھی رزق ہمیں مقصد تخلیق سے دور کر دے علامہ اقبال کے بقول اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی۔جو رزق انسان کو مقصد تخلیق سے دور کردے ،وہ حرام رزق، کبھی بھی انسان کو فائدہ نہیں دے سکتا۔ بار الہا ہم سب کو رزق میں وسعت عطا فرما ہمیں ایسا رزق عطا کر دے جو ہمیں دوسروں سے بے نیاز کر دے اور تیری بندگی میں ہماری مدد فرمائے۔
والسلام علیکم و رحمة اللَّهِ و برکاته