غدیر اہل سنت کی نگاہ میں

غدیر اہل سنت کی نگاہ میں0%

غدیر اہل سنت کی نگاہ میں مؤلف:
زمرہ جات: امامت

غدیر اہل سنت کی نگاہ میں

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: ڈاکٹرمحمدحسینی قزوینی
زمرہ جات: مشاہدے: 13813
ڈاؤنلوڈ: 3120

تبصرے:

غدیر اہل سنت کی نگاہ میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 11 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 13813 / ڈاؤنلوڈ: 3120
سائز سائز سائز
غدیر اہل سنت کی نگاہ میں

غدیر اہل سنت کی نگاہ میں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

پہلی فصل

امام کا تعین خدا کرتا ہے یا لوگ

جیسا کہ ہم جانتے ہیں شیعہ اور اہلسنت، امام کے وجود کو ضروری جانتے ہیں حتی کہ ابن تیمیہ وہابیت کے بانی نے اعتراف کیا ہے

ولاة آمرالناس مِن آعظمِ واجبات الدِین بَل لاقیامَ للدین اِلابها

(السیاسةالشرقیة ۱۶۵،)

امامت اور خلافت لوگوں پربزرگترین واجبات میں سے ہے اور معاشرہ میں امام کے وجود کے بغیر دین متحقق نہیں ہوتا۔

شیعہ اور سنی فکر میں بنیادی فرق ہے اس طرح کہ:

آیا لوگ اپنے لیے امام اور رہبر منتخب کر سکتے ہیں یا یہ کہ یہ فقط خدا کے ہاتھ میں ہے؟

یا لوگ ایک گروہ اور مجلس و شوریٰ تشکیل دیں جو امام کا انتخاب کرے ؟

یا یہ کہ انسان کی عقل اور کوشش اس سے عاجز ہے کہ اس بارے میں کوئی قدم اٹھائے؟

شیعہ قرآن کی رو سے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ امامت ضروریات دین میں سے ہے اور جس طرح پیغمبراکرم ﷺ کا انتخاب خدا کی طرف سے ہے اسی طرح امام کا منصوب ہونا بھی فقط خدا کی طرف سےہی ہے۔

اللہ تعالی، قرآن میں حضرت ابراہیم کی رسالت کے انتخاب کے بارے میں فرماتا ہے

(وکلاْجعلنانبیاّ )

(مریم:۴۹)

ہم نے سب (ابراہیم اور ان کی اولاد)کو نبی قرار دیا۔ ایک اور جگہ پرفرمایا

(انّی جاعلک للناس اماما )

(بقره:۱۲۴)

اے ابراہیم میں نے تمہیں لوگوں کے لیے امام بنایا ۔

خدا نے حضرت ابراہیم کی امامت کو لوگوں کے سپرد نہیں کیا اور نہ ہی حضرت ابراہیم کو حکم دیا کہ وہ لوگوں سےاپنی امامت کی درخواست کریں ،حضرت موسی نے بھی اپنے بھائی کی امامت و وصایت کی تمنا کی ،مگر لوگوں کو یہ نہیں کہا کہ میں نے ہارون کو اپنا وصی بنایا اور نہ ہی لوگوں سے اس بارے میں رائے لی بلکہ خدا وند سے درخواست کی

(واجعل لی وزیرامن اهلی،هارون أخی )

(سوره طه: ۲۹ و ۳۰)

اے خدا میرے بھائی ھارون کو میرا وزیر اور جانشین بنا

پھر خدا وند عالم نے فرمایا

(قال قد اوتیت سولک یا موسی )

(سوره طه / آیه ۳۶)

اے موسی میں نے تیری دعا قبول کر لی ۔

پیشوایان بنی اسرائیل کے بارے میں بھی اسی طرح کی تعبیر قرآن میں ہے

(وَجَعلناهم آئمة یهدونَ بِآمرنا )

(انبیا:۷۳ )

ہم نے انکو امام بنایا تا کہ لوگوں کو ہماری طرف ہدایت کریں۔ پس آیات قرآن کی بنا پرصرف خداہی امام بنا سکتا ہے نہ کہ بشر۔

از لحاظ سنت، اہلسنت کی تمام تاریخی کتابوں(تاریخ طبری ،الکامل فی التاریخ سےلےکر تاریخ ابن خلدون اورابن کثیردانشوی،البدایہ والنھایہ،سیرہ ابن ھشام والمغازی)میں لکھاہےکہ جب پیغمبراکرم ﷺنےعرب کے قبائل سے اپنی رسالت کا اظہارکیا توقبیلہ بنی عامر اور قبیلہ ہودہ کی طرح بعض قبائل والوں نے کہا کہ ہم اس شرط پر آپ کی بیعت کریں گےکہ آپکےبعدخلیفہ اور جانشین ہم میں سے ہو گا تو رسول اکرم نے فرمایا:

الآمر الی الله یضعه حیث یشاء

(سیرة النبویّه ؛ ابن هشام:۲/۳۳؛ سیرة الحلبیة : ۲/۳ ؛سیرة الحلبیة : ۲/۳ ؛الغدیر : ۵/۳۷۶)

میرے جانشین کا اختیار خدا کے پاس ہے وہ جسے چاہے انتخاب کرے،

اسی طرح غدیر کے روز خدا نے فرمایا ؛

(یا ایها الرسول بلغ ما اَنزل الیک من ربّک )

(مائده:۶۷ )

اس آیت شریفہ میں نہ فقط جانشینی امام علی علیہ السلام کا حکم ہے بلکہ جانشینی کے علاوہ امامت کے خدا کی طرف سے ہونے کا بھی اعلان ہے۔سال دہم ہجری میں اسلام سراسرجزیرۃالعرب میں پھیل چکا تھا عرب کے سب قبائل دین اسلام اختیار کر چکے تھے اور پیغمبراکرم ﷺ کی رسالت کا اقرار کرتے تھے ۔ آنحضرت نے بعثت کے ۲۳ سالوں میں اسلام پھیلانے میں کوتاہی نہیں برتی اور جانتے تھے کہ رحلت کا وقت نزدیک ہے اس لیے پے درپے سعی و کوشش کرتے رہتے تا کہ جتنا ممکن ہو اسلام کے قوانین اور آداب مسلمانوں کو یاد کرائیں۔

اسی سال پیغمبر ﷺ نے سفر حج کا ارادہ کیا اس لیے اپنے اصحاب کو حکم دیا کہ وہ قبایل عرب میں اعلان کریں کہ پیغمبراکرم ﷺ اس سال حج کے لیے مکہ کا ارادہ رکھتے ہیں اس خبرکےپھیلتے ہی اطراف عربستان سے لوگ بڑے شوق سے مدینہ کیطرف آنے لگے تاکہ پیغمبراکرم ﷺ کے ساتھ اعمال حج بجالائیں ۔

بالآخر پیغمبراکرم ﷺنے آخر ذیقعدسال دہم ہجری مکہ کے قصدسے روانہ ہوئے اور قربانی کے لئے اپنے ساتھ سو اونٹ لائے

( امتناع الاسماع : ۵۱۰ - سیره الحلبی :۳/۳۰۹ )

بہت سے لوگ پیغمبراکرم ﷺ کے ساتھ تھے لیکن بعض مسلمان بیماری کی وجہ سے پیغمبراکرم ﷺ کے ساتھ نہ جا سکے ۔

(سیره الحلبی :۳/۳۰۸)

موّرخین نے پیغمبراکرم ﷺ کے ساتھ جانیوالوں کی تعداد چالیس ہزار سے ایک لاکھ چوبیس ہزار تک ذکر کی ہے۔

(سیره زینی دحلان :۲/۱۴۳؛ سیره الحلبی :۳/۳۰۸؛ امتناع الاسماع :۵۱۲ منقول از کتاب الغدیر:۱/۳۰)

یہ تعداد فقط ان لوگوں کی ہے جوپیغمبراکرم ﷺکےساتھ مدینہ سےآئےتھے اور دوسرے علاقوں سے آنیوالے جس طرح یمن کے لوگ جو حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ مکہ آئے۔

(مترجم: اہلسنت کے بعض بزرگان نے کہا ہے :کہ حضرت علی علیہ السلام پیامبر اکرم(ص)کے ساتھ حجۃ الوداع میں اصلا تھے ہی نہیں۔جبکہ صحاح ستّہ میں تاکید ہوئی ہے کہ حضرت علی علیہ السلام ایّام حج سے پہلے کچھ مسلمانوں کے ساتھ یمن سے مکّہ کی طرف آئے اور پیامبر اکرم سے ملاقات کی۔یہ کتابیں درج ذیل ہیں ۔دیکہیں:

(صحیح بخاری:۲/۱۷۱ ؛صحیح مسلم:۴/۴۰ ؛سنن ابن ماجه:۲/۱۰۲۴؛سنن ابن داوود:۲/۱۵۸؛سنن ترمذی:۲/۲۱۶؛سیره ابن هشام:۳/۵۷؛سیره حلبیه:۲/۳۸۶و )

اورپیغمبراکرم ﷺ کے ساتھ حج کے اعمال انجام دیئے انکی تعداد اس سے کہیں زیادہ تھی ۔

اسی طرح حجۃ الوداع کا پیغمبراکرم ﷺ کے باقی سفروں کے ساتھ مقایسہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی سفر میں حجۃ الوداع والی خصوصیات نہیں ہیں ۔پیغمبراکرمﷺ نے کسی بھی سفر میں عمومی اعلان نہیں کیا اور نہ ہی اپنے ہمراہ آنے کا فرمایا اور نہ ہی حجۃ الوداع کے علاوہ کسی اور سفر میں پیغمبراکرم ﷺ کی سب بیویاں آپ کے ساتھ تہیں ۔انہی وجوہات کی بنا پر معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبراکرم ﷺ شروع سے ہی اپنے جانشین کے اعلان کاارادہ رکھتے تھے۔

پیغمبراکرمﷺ اس سفر کو اپنا آخری سفر حج جانتے تھے اور مختلف مقامات پر مسلمانوں کے درمیان جا کر خطبے دیئے ۔ ان خطبوں میں وصیت کے طور پر کچھ سفارشات بیان فرمائیں تاکہ انکی رحلت کے بعد لوگ گمراہ نہ ہوں۔

اس سفر میں ان پانچ جگہوں پر خطبہ دیا:

۱ ۔آٹھ ذی الحجہ(یوم الترویہ) مکہ میں

(سیره حلبیه:۳/۳۶۹: طبقات ابن سعد : ۲/۱۸۷؛ سنن بیهقی: ۵/۹۵؛ الدر المنثور:۱/۳۹۱؛ البدایه والنهایه: ۴/۱۰۴)

۲ ۔نو ذی الحجہ کو عرفات میں

(سیره نبوی ابن هشام:۴/۲۴۸؛ الکامل فی التاریخ؛۲/۳۰۲؛تاریخ طبری:۲/۲۰۵؛سیره حلبیه :۳/۳۷۲؛صحیح ترمذی:۵/۶۶۲)

۳ ۔دس ذی الحجہ(روز عید قربان)منی میں

(سیره حلبیه ۳/۳۷۶؛ تاریخ طبری:۲/۲۰۶؛سنن کبری:۵/۱۴۰؛تاریخ یعقوبی:۲/۲۰۹؛طبقات ابن سعد:۲/۱۸۳)

۴ ۔گیارہ ذی الحجہ منی میں

(سیره حلبیه:۳/۲۷۲؛ البدایه والنهایه: ۵/۲۲۲؛ سنن کبری: ۵/۲۱۰)

۵ ۔اٹھارہ ذی الحجہ غدیر خم میں

اگرچہ تاریخی کتابوں میں اس سفرمیں مسلمانوں کے مکہ پہنچنے سے پہلے کی جزئیات کو بیان نہیں کیا گیا البتہ مکہ میں رسول اکرم کے بہت سارے خطبےجو کہ واقعہ غدیر کا پیش خیمہ ہیں،بہت واضح ہیں۔

چھارم ذی الحجہ کو پیغمبراکرم ﷺ کاخطبہ اور صحابہ کی مخالفت

صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے

(مترجم:اس نکتہ کی طرف توجّہ کرانا ضروری ہے کہ اہلسنت قرآن کے بعد ان دو کتابیں کہ معتبر ترین سمجھتے ہیں اور اعتقاد رکہتے ہیں کہاگر کوِئی صحیح بخاری اور مسلم کی روایت پراعتراض کرے تو وہ زندیق اور ملحد ہے۔)

کہ پیغمبراکرم ﷺ نے چار ذہی الحجہ کو مراسم حج کے انجام سے پہلے اپنے اصحاب کو فرمایا: کہ جن کے پاس ھدی(قربانی کے جانور اونٹ بھیڑ بکری وغیرہ) نہیں ہے وہ اپنے احرام کو احرام عمرہ تمتع قرار دیں اور طواف اور سعی کریں اور تقصیر کریں اور احرام سے باہر آئیں پھر دوبارہ حج تمتع کے لیے احرام باندہیں ۔ یہ بات بعض صحابہ پر گراں گزری ،انہوں نے سوال کیا اگر ہم احرام سے باہر آئیں تو کیا چیز ہم پر حلال ہو گی؟تو آپ نے فرمایا ہر چیز جو احرام کی وجہ سے تم پر حرام تھی حلال ہو جائے گی۔

(صحیح بخاری : ۲/۱۵۲/۱۴۸۹)

صحیح مسلم میں ہے کہ عائشہ کہتی ہے:پیغمبراکرمﷺ چوتھی یا پانچویں ذی الحجہ کو میرے کمرے میں داخل ہوئے اور ان کے چہرے پر غضب کے اثرات واضح تھے

(فقلت من آغضبک یا رسول الله ،آدخله الله النار)

(صحیح مسلم : ۴/۳۴)

کس نے آپ کو غضبناک کیا خدا اسکو واصل آتش جہنم کرے

مسند احمد میں ذکرہےپیغمبرﷺنے عائشہ کےجواب میں فرمایا:پریشان کیسے نہ ہوں؟ کیونکہ اصحاب کو دستور دیتا ہوں اور وہ میرے دستور کی اطاعت نہیں کرتے۔

(قال ومالی لا اغضب واناامر بالامر فلا اتبع؛مسند احمد :۴/۲۸۶)

قرآن کی صراحت کے باوجود یہ مخالفت:

(وَ مَا ءَاتَئكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَ مَا نهَئكُمْ عَنْهُ فَانتَهُو )

(حشر:۷)

جو کچھ رسول تمہیں دے دے لے لو اور جس چیز سے منع کردے اس سے رک جاؤ

جو پیغمبرﷺ حکم دیں اسکی اطاعت کرنا اور جس سے روکیں اس کو ترک کرنا سب پر واجب ہے اسی طرح

(إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ لَعَنهَمُ اللَّهُ فىِ الدُّنْيَا وَ الاَخِرَةِ وَ أَعَدَّ لهَمْ عَذَابٔا مُّهِينٔا )

(احزاب :۵۷)

یقینا جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو ستاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں خدا کی لعنت ہے اور خدا نے ان کے لئے رسوا کن عذاب مہیا کر رکھا ہے۔

صحاح ستہ اہلسنت سے سنن ابن ماجہ میں جابر بن عبداللہ انصاری سے روایت ہے جب پیغمبر ﷺ نے فرمایا کہ احرام سے باہر آئیں تو صحابہ نے اعتراض کیا اور کہا یا رسول اللہ کیا ہم احرام سے باہر آئیں اور پھر اپنی بیویوں سے ہم بستر بھی ہوں ؟ و ۔ ۔ ۔

(سنن ابن ماجه :۲/۹۹۲؛)

اس کے علاوہ اہلسنت کی تاریخی اور تفسیری مصادر میں دو سو مصدر ہیں جیسے

رک مسند احمد :۳/۳۱۷؛ صحیح ابن حیان :۹/۲۳۲؛ تفسیر کبیر: ۵/۱۸۱ ؛تفسیر ثعالبی: ۱/۴۱۶)

یہ روایت شیعہ کتابوں میں واضح بیان ہوئی ہے مثال کے طور پر امام صادق علیہ السلام سے بھی یہی روایت جو کہ سنن ابن ماجہ اور مسند احمد میں ہے اس سے تھوڑے اضافے کے ساتھ نقل ہوئی ہے

(ان رجلا قام فقال یا رسول الله نخرج حجاجا و روسا تقط؟

ایک صحابی اٹھا اور کہا رسول خدا جب ہمارے سروں سے پانی ٹپک رہا ہو تو ہم اس حالت میں عرفات جائیں ؟

اس اعتراض کے بعد پیغمبر ﷺ نے اس فرمایا :

(انک لن تو من بهذا آبدا )

(کافی :۴/۲۴۹)

تو اس حکم پر ہرگز ایمان نہیں لائے گا

یہاں پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ احرام سے باہر آنے میں صحابہ کی پیغمبر ﷺ سے مخالفت کی کیا وجہ تھی؟

صحیح بخاری میں ہے کہ عرب اور بالخصوص قریش کا یہ عقیدہ تھا کہ اگر کوئی ایام حج میں عمرہ سے باہر آئے اور حج کے لیے دوبارہ احرام باندھے تو وہ فاجر ہے۔

انکی نظر میں احرام سے باہر آنا کرہ زمین پر بد ترین فسق ہے اسی لیے جب پیغمبر ﷺ نے فرمایا کہ احرام سے باہر آو تو عرب جس کے بہت معتقد تھے اس سے دستبردار ہونا ان کے لیے بہت سخت تھا۔

(صحیح بخاری:۲/۱۵۲/۱۵۸۹؛صحیح مسلم:۱۱/۱۷)

ایک اور روایت ابن عباس سے ہے:

والله ما آمر رسول الله فی ذی الحجة الا لیقطع بذلک آمر اهل شرک

(سنن ابن ابی داوود :۱/۴۴۲/۱۹۸۷ ؛فتح الباری :۳/۳۳۷؛ معجم کبیر :۱۱/۱۷)

پیغمبر ﷺ نے اس لیے احرام سے باہر آنے کا حکم دیا کیونکہ وہ مشرکین کی رسوم ختم کرنا چاہتے تھے ۔

اسی طرح ابن حجر نے شرح صحیح بخاری

(مترجم: اہلسنت میں دو ابن حجر ہیں۔ایک ابن حجر عسقلانی جنکی رجال ،ففہ اور حدیث میں بہت سی کتابیں ہیں انکی وفات ۸۵۲ہجری ہے ۔دوسرے ابن حجرہیثمی ،جو ابن حجر مکّی کے نام سے مشہور ہیں انکی وفات ۹۷۴ہجری میں ہے اور(الصواعق المحرقة) انکی کتاب ہے۔بعض اوقات بعض مؤلفین ابن حجر عسقلانی اور ابن حجر مکی میں اشتباہ کرجاتے ہیں)

اورعینی نے عمدۃ القاری میں بھی اس روایت کو نقل کیا ہے اور اس حکم سے پیغمبراکرم ﷺ کا مقصد مشرکین کے اعتقاد کو ختم کرنا تھا ۔

(فتح الباری :۳/۳۳۷؛عمدة القاری:۹/۱۹۹)

یہ حکم خلیفہ اول کے زمانے اور خلیفہ دوم کی خلافت کے آدھے زمانے تک جاری تھا مگر خلیفہ دوم نے حکم دیا کہ پیغمبراکرم ﷺ کے اس حکم کو ترک کر دو اور کہا:

متعتان محللتان فی زمن رسول الله و آنا آحرمهما وآعاقب علیهما

پیغمبراکرمﷺ کے زمانے میں دو متعہ حلال تھے اور میں (عمر)ان دونوں کو حرام کرتا ہوں جو بھی ان کو انجام دے اس کو سزا دوں گا۔

اسی حدیث کو ابن قدّامہ مقدسی نے کتاب المغنی جو کہ حنبلی مذہب اہلسنت پرمفصل فقہی کتاب ہے ، میں نقل کیا ہے اور یہ کتاب وہابیوں کی مورد تایید ہے اور اس کو صحیح شمار کرتے ہیں۔

(مغنی :۷/۱۳۶)

مذہب حنفی کے مشہور فقیہ سرخسی نے بھی کتاب المبسوط

(المبسوط :۴/۲۷؛صحیح مسلم اور بخاری)

(میں بھی ہے کہ خلیفہ دوّم نے حکم دیا کہ کسی کو حق نہیں کہ وہ احرام سے خارج ہو ،اس نے کہا: مجھے اچھا نہیں لگتا کہ کوئی حج پرآئے اور اپنی بیوی سے ہم بستر ہو اور غسل کرے حالانکہ راستے کا غبار اس کے چہرہ پر نہ ہو اور وہ صحراے عرفات میں حاضرہو)

میں اسی طرح لکھا ہے۔صحیح ترمذی میں ہے کسی نے عبد اللہ بن عمر سے پوچھاکیا متعۃ الحج ٹھیک ہے اور ہم احرام سے باہر آکر دوبارہ حج کے لیےاحرام باندہیں؟ تو اس نے کہا ہاں احرام سے باہر آنا ضروری ہے اس نے پھر پوچھا لیکن آپ کے باپ نے عمرہ کو حج کے ساتھ متصل کرنے کا حکم دیا ہے تو عبد اللہ ابن عمرنے جواب دیا :مگر پیغمبرﷺنےاحرام سے باہرآنےکاحکم دیا ہے۔ کیا پیغمبراکرم ﷺ کے حکم کی اطاعت صحیح ہےیا میرےباپ کی اطاعت؟

(رجلا من اهل شام و هو یساًل عبد الله بن عمر عن التمتع بالعمره الی الحج ،فقال عبد الله بن عمر: هی حلال فقال الشامی اًن اباک قد نهی عنها

فقال عبد الله بن عمر:اًرایت ان کان ابی نهی عنها و صنعها رسول الله ﷺ اًمر ابی یتبع اًم اًمر رسول الله ﷺ رکسنن ترمذی :۲/۱۵۹)

قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ جب صحابہ نے پیغمبراکرم ﷺ کےزمانے میں ان کی مخالفت کی تو بعد از رحلت پیغمبراکرم ﷺ جانشینی حضرت علی علیہ السلام کےحکم کی مخالفت بعید از قیاس نہیں ہے۔

کیا سب اصحاب عادل تھے؟

اس بحث کے ضمن میں اہلسنت کے عقیدہ کے مطابق صحابہ کی عدالت کے بارے میں اشارہ کیا جا سکتا ہے۔جس عقیدہ کی قرآن وسنت اور تاریخ میں کوئی واقعیت نہیں، قرآن سب اصحاب کی عدالت کو قبول نہیں کرتا اور سنت بھی تمام اصحاب کی عدالت پر اشکال کرتی ہے،واقعیت تاریخ بھی سب اصحاب کی عدالت کو بیان نہیں کرتی۔

کتاب تقریب الراوی میں سیوطی کے بقول پیغمبراکرم ﷺکی رحلت کے وقت ایک لاکھ سولہ ہزار اصحاب تھے مگر شیعہ کے نزدیک یہ سب فقط پیغمبراکرم ﷺ کی صحبت اور آپ کی زیارت سے عادل نہیں ہو جائیں گے، ان میں سے بھی دوسرے لوگوں کی طرح بعض عادل ہوں گے اور بعض فاسق ۔

آیت شریفہ

(إِن جَاءَكمُ‏ فَاسِقُ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُو )

(حجرات :۷)

یہ آیت ولید بن عقبہ صحابی کے بارے میں ہے اور واضح کرتی ہے کہ سب اصحاب کو عادل جاننا ایک افسانہ سے زیادہ کچھ نہیں ۔ اہلسنت کی سب تفاسیر اس شخص سے مراد ولید

(الدر المنثور:۶/۸۸و۸۹؛جامع البیان :۲۶/۱۶۰و۱۶۱؛اسباب النزول :۲۶۱؛ تفسیرثعلبی :۹/۷۷ ؛ تفسیر قرطبی :۱۴/۱۰۵)

کے ہونے پر اتفاق کرتی ہیں ۔ ابن عبدالبر نے واضح کہا ہے کہ اس فاسق سے مراد ولید ہے

(الاستیعاب :۴/۱۵۵)

وہی ولید جو خلیفہ سوّم کے زمانے میں کوفہ کا والی تھا، جس نے شراب پی کر مسجد میں صبح کی چار رکعت پڑھائیں ،جب لوگوں نے اعتراض کیا تو کہا:آج میں بہت خوش ہوں اگر چاہوں تو چھ رکعت پڑھا دوں۔

( استیعاب :۴/۱۵۵۲؛امتاع الاسماع :۱۳/۲۱۷)

اسی طرح سورہ جمعہ کی آ یت ۱۱ :

(وَ إِذَا رَأَوْاْ تجِارَةٔ أَوْ لهَؤا انفَضُّواْ إِلَيهْا وَ تَرَكُوكَ قَائمٔا )

پیغمبر ﷺ مسجد مدینہ میں نماز جمعہ میں مشغول تھے کہ اچانک تاجروں کی آوازیں سنائی دیں جو کہ اپنی اشیا بیچنے میں مشغول تھے۔بارہ لوگوں کے علاوہ سب صحابہ پیغمبر ﷺ کو چھوڑ کر مسجد سے چلےگئے حالانکہ پیغمبر ﷺ نماز جمعہ کا خطبہ دے رہے تھےجبکہ سب جانتے ہیں کہ خطبہ نمازجمعہ، نماز کا حصہ ہے۔آیا ایسے اصحاب عادل تھے؟

(احیح بخاری :۱/۲۲۵؛ صحیح مسلم :۳/۱۰)

صحابی پیغمبر ابا قدّامہ بن مظعون نے شراب پی تو اس کو خلیفہ دوّم کے پاس لےگئے،خلیفہ نے اس پر شراب کی حد جاری کی ،یہ ان اصحاب میں سے تھے جو جنگ بدر میں شریک تھے ۔

بعنوان نمونہ:عبدالرحمن بن عمر صحابی پیغمبر ﷺ اور خلیفہ دوم کے بیٹے کو دو بار شراب کی حد جاری ہوئی۔

(سنن الکبری؛ بیهقی:۸/۳۱۲؛المصنف؛عبدالرزاق:۹/۲۳۳؛تاریخ بغداد :۳/۷۵)

عقبہ بن حارث اصحاب بدر سے تھا جس پر خلیفہ دوم نے حد جاری کی

(سنن الکبری؛ بیهقی:۸/۳۱۲؛المصنف؛عبدالرزاق:۹/۲۳۳؛تاریخ بغداد :۳/۷۵)

ابو محجن ثقفی نے سات بار شراب پی اور اس پر حد جاری ہوئی،

(البدایه والنهایه :۷/۵۷؛تاریخ طبری:۳/۳۹۷ الکامل فی التاریخ:۲/۱۲۴)

ولیدبن عقبہ نے شراب پی کر صبح کی چار رکعتیں پڑھا دیں اور اس پر حد جاری ہوئی ،

(استیعاب :۴/۱۵۵۲ ؛ امتاع الاسماع :۱۳/۲۱۷)

حتی پیغمبراکرم ﷺ کے زمانے میں چند اصحاب آپ کے حکم سے سنگسار ہوئے یا ہاتھ کاٹے گئے۔

شیعہ کے نزدیک نہ ہی سب اصحاب فاسق ہیں اور نہ ہی سب عادل صحابہ میں سے کچھ عادل ،عالم ، فاضل اور با وفا تھے۔

انہوں نےپیغمبر ﷺ کی رکاب میں جنگیں لڑیں اور شہید ہوئے اور بعض پیغمبرﷺ کی وصیت کے مطابق امیرالمومنین علیہ السلام کی رکاب میں بھی تھے اسی طرح مرحوم شیخ طوسی نے اپنی رجال میں سات سو( ۷۰۰) سے زیادہ اصحاب کے نام لکھے ہیں اور ان کی عدالت پر یقین رکھتے تھے ۔

بیعت رضوان اور عدالت صحابہ

اہلسنت بیعت رضوان والے واقعہ سے استناد کرتے ہوئے سب اصحاب رسول کی عدالت کے قائل ہیں یہ وضاحت کرتے ہوئے کہ صلح حدیبیہ کے وقت کچھ مسلمانوں نے ایک درخت کے نیچے پیغمبراکرم کی بیعت کی اور اس کے بعد یہ بیعت رضوان کے نام سے مشہور ہوئی،جس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔

(إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ الله )

(فتح:۱۰)

(لَّقَدْ رَضىِ‏ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تحَتَ الشَّجَرَةِ )

(فتح:۱۸)

بیشک جو لوگ آپ کی بیعت کرتے ہیں وہدرحقیقت اللہ کی بیعت کرتے ہیں،یقینا خدا صاحبان ایمان سے اس وقت راضی ہو گیا جب وہ درخت کے نیچے آپ کی بیعت کر رہے تھے۔

اہلسنت کا عقیدہ ہے کہ یہ ممکن نہیں کہ ایک شخص سے خدا راضی ہو اور بپھر وہ منحرف ہو جائے۔ اس بیعت میں ابوبکر،عمر،عثمان،خالد بن ولید اور جیسے دوسرے لوگ شامل تھے، جبکہ شیعہ اس استدلال کے جواب میں کہتے ہیں اولا:یہ آیت فرما رہی ہے

(لقددرضی اللّٰه عن المومنین )

خدا مومنین سے راضی ہو گیا

اس بنا پر رضایت خداوند ایمان کے ساتھ مقیّد ہےاگر قید، منتفی ہو جائے تو مقید بھی منتفی ہو جائے گا

ثانیا: اس آیت میں رضایت کو اذ ظرفیۃ کے ساتھ مقیّد کیا ہے۔یعنی آیت یہ بیان کر رہی ہے کہ جس وقت انہوں نے پیغمبراکرم ﷺ کی بیعت کی اس وقت خدا ان سے راضی ہو گیا۔اس لیے کہ بیعت سے پہلے یا بعد میں بھی خدا ان سے راضی ہو مشروط ہے کہ یہ لوگ اس سعادت کومحفوظ رکہیں۔

اہلسنت کے بہت بڑے علما ابن کثیر،طبری ا ورسیوطی کہتے ہیں بلعم بن باعورا کا مقام معنوی اس قدر بلند تھا کہ خدا نے اسے اسم اعظم عطا کیا تھا قرآن بھی اس بارے میں فرماتا ہے:

(وَ اتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ الَّذِى ءَاتَيْنَاهُ ءَايَاتِنَا فَانسَلَخَ مِنْهَا )

(اعراف:۱۷۵)

اور انہیں اس شخص کی خبر سنایے جس کو ہم نے اپنی آیتیں عطا کیں اور پھر وہ ان سے بالکل الگ ہو گیا

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بیعت رضوان میں شامل لوگوں سے بلعم بن عورا کا مقام زیادہ تھا کیونکہ اس کے پاس اسم اعظم تھا ۔مگر

(فَأَتْبَعَهُ الشَّيْطَنُ فَكاَنَ مِنَ الْغَاوِين )

(اعراف:۱۷۵)

اورشیطان نے اس کا پیچھا پکڑ لیا تو وہ گمراہ ہو گیا

نتیجہ یہ ہوا کہ اگر خدا وند کسی سے راضی ہو اور اس وقت اظہار رضایت کرے تو یہ رضایت اس وقت تک

مفید ہے جب تک وہ اس سعادت کو ضایع نہ کرے کیونکہ بہت سے لوگ عالی مرتبہ تھے پھر بعد میں گمراہ ہو گئے۔

مثلا عبداللہ بن ابی صرع،صحابی پیغمبر ﷺ اور پہلا کاتب وحی بھی تھا لیکن کچھ عرصے بعد مرتد ہو گیا اورپیغمبر ﷺ کا مزاق اڑانے لگا یہاں تک کہ پیغمبر ﷺ نے فتح مکہ پر فرمایا :کچھ لوگ اگر پردہ کعبہ کوبھی تھامے ہوئے ہوں تو ان کی گردن کاٹ دو اور عبداللہ بن عمر انہی میں سے ایک تھا۔

حتیٰ کہ خدا نے پیغمبراکرم ﷺ جو سب سے افضل ہیں کو فرمایا:

(َ لَئنِ‏ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُک )

(زمر:۶۵)

اگر تم شرک اختیار کرو گے تو تمہارے تمام اعمال برباد کردیےجائیں

وہ آیات اورجو صحابہ کے بارے میں نازل ہوئیں ان کو شیعہ بھی قبول کرتے ہیں مگر کتنے اصحاب نے اس مقام کو محفوظ رکھا اور اپنی عدالت پر باقی رہے اس میں غوروفکر کی ضرورت ہے۔

اسی طرح صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ''حدیث حوض" کے نام سے ایک حدیث جو پیغمبراکرم ﷺ سے نقل ہوئی ،

یَرِدُعلیَّ یَوم القیامة رهط مِن اصحابی فآقول یا رب اصحابی،فیقول انّک لا علم لک بما احدثوا بعدک، انهم ارتدّوا علی ادبارِهم اقهقری ،

(صحیح بخاری:۷/۲۰۸؛شواهد التنزیل:۱/۲۸۴)

قیامت کےدن میرے کچھ اصحاب کو آتش جہنم کی طرف لے جائیں گے ۔میں سوال کروں گا کہ ان کو کہاں لے جا رہے ہیں کہیں گے جہنم کی طرف میں پوچھوں گا کہ انہوں نے کیا کیا ہے تو کہیں گے: یہ آپ کے بعد مرتد ہو گئے تھےاورجاہلیت کی طرف پلٹ گئے تھے ۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ بخاری نے کہا:کہ ان میں سے بہت کم تعداد(جتنی کہ ایک ریوڑ سے بھیڑیں جدا ہوتی ہیں)نجات پائے گی۔

عائشہ کہتی ہے:

لما قبضَ رسول اللّٰه ارتدَّ العربَ قاطبة

رحلت پیغمبراکرم ﷺ کے بعد تمام عرب مرتد ہو گئے ۔

(البدایه والنهایه :۶/۳۳۶؛تاریخ مدینه دمشق:۳۰/۳۱۶)

وہابی شیعوں پر اعتراض کرتے ہیں کہ تم کہتے ہو کہ پیامبرکے بعد چھار لوگوں کے علاوہ باقی سارے مرتد ہوگئےتھے ،یعنی پیغمبر کی تئیس سالہ زحمت کا نتیجہ فقط چھارہ لوگ تھے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کہتے ہیں چھار لوگ،ام الموًمنین عائشہ کہتی ہے: سب مسلمان مرتدہوگئےتھے۔البتہ شیعہ کے نزدیک ارتداد سے مراد ایمان سے ارتداد نہیں بلکہ پیامبر کے دستورات کی مخالفت ہے۔)

خلیفہ دوّم کے زمانے میں جب کوئی صحابی اس دنیا سے رحلت کرتا جب تک حذیفہ اس کی تایید نہ کرتا کہ یہ منافقین میں سے نہیں ہے اس وقت تک خلیفہ اسکی نماز جنازہ نہ پڑھاتا،کیونکہ شیعہ اور سنی حذیفہ کا رازدارِ پیغمبراکرم ﷺ ہونے کو مانتے ہیں اور یہ کہ پیغمبراکرم ﷺ نے حذیفہ کو منافقین کے نام بتائے تھے۔

(قال ابن کثیر ان عمر ابن الخطابرضی الله عنه:کان اذا مات ممن یری انه منهم نظراِلی حذیفه و ان صلی علیه و الاترکه ؛تفسیر ابن کثیر:۲/۳۹۹)

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صدر اسلام میں کوئی بھی سب اصحاب کے عادل ہونے پر یقین نہیں رکھتا تھا۔اور یہاں تک کہ بعض صحابہ فاسق اور منافق تھے۔

حدیث ثقلین کی جانچ پڑتال

حجۃالوداع کے اکثرخطبوں میں بیان ہونے والی احادیث میں سے ایک حدیث، حدیث ثقلین ہے ، اھل سنت اور شیعہ کی کتابوں میں تقریبأ ایک سو( ۱۰۰) روایات اسی مضمون کے بیان ہوئی ہےاور اسی وجہ سے متواترہے اسکے باوجود حدیث ثقلین پر دوسری روایات جو أئمہ علیھم السلام کےبارے میں سب سے زیادہ اشکال ہوئے ہیں خصوصأ آیت

(بلِّغ ما انزِل اِلیک )

(مائده ۱۸)

میں شبھہ وارد ہوا ہے حدیث غدیر کے بارے میں سولہ ۱۶ شبھات اور اشکال وارد ہوئے ہیں اور آیۃ کمال کے بارے میں بھی صرف تئیس ۲۳ ،اشکال وارد ہوئے ہیں

مگر حدیث ثقلین پرتقریبأ ایک سو اڑتالیس ۱۴۸ ، اشکال وارد ہوئے ہیں

اسی لیے مرحوم آیۃ ۔۔۔العظمیٰ بروجردی بہت اصرار کرتے تھےکہ جب بھی ولایت کے بارے بحث ہو تو حدیث غدیر یا حدیثِ منزلت یا اِنذار۔۔۔ کی بجائے بحث کو حدیث ثقلین سے شروع کریں

صحیح مسلم میں بھی حدیث ثقلین ہے لیکن افسوس کےساتھ اس میں قرآن کےبارےتووضاحت کی گئی ہے لیکن اھل بیت علیھم السلام کےبارےمیں کوئی وضاحت نہیں کی گئی فقط بیان کیا گیا:

و أهل بيتي ، أذكِّرَكُمُ الله في أهل بيتي ، أذكِّرَكُمُ الله في أهل بيتي ، أذكِّرَكُمُ الله في أهل بيتي

(صحیح مسلم:۷/۱۲۳)

ابن حجر ھیثمی نےکتاب الصواعق المحرقہ میں لکھا ہے

(ابن حجر ہیثمی، مفتی مکہ مکرمہ،وفات ۹۷۴ ہے اس اپنی کتاب شیعہ عقائد کے ردّ میں لکھیں کتاب کے مقدمہ میں کہتا ہے :میں دیکھا شیعہ مذہب اطراف مکہ میں پھیل رہا ہے تو اس لئے ان کے مقابلے میں یہ کتاب لکھی )

کہ پیغمبراکرم ﷺ نے بہت سےمقامات پر حدیث ثقلین بیان فرمائی ہے۔ جنگ حنین کے بعد طائف سے واپسی پر، روز ِعرفہ میں،غدیر کے دن،مسجدالنبی میں جب آپ ﷺ مریض تھے اور زندگی کے آخری لحظات میں بھی بیان فرمائی:

انّ لحدیث التسک بهما طُرُقا کثیرا وردت مِن نیف و عشرین صحابیا

(صواعق المحرقه:۱۲۴)

پھر لکھتا ہے حدیث ثقلین کو بیس ۲۰ سے زیادہ اصحاب نے نقل کیا ہے،بہت سارے بزرگان اہل سنّت کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ حدیث ثقلین میں صحیح عبارت یہ ہے ،

(کتاب الله و عترتی )

(ناصر الدین البانی جو علماً معاصر وہابی ہے جس کو بخاری دران کے ساتھ تعبیر کیا جاتا ہےاور سعودی عرب کے مفتی اعظم بن باز اسے امام حدیث گردانتے تھے،وہ حدیث کتاب اللہ و عترتی کو صحیح شمار کرتے تھے۔

(صحیح لجامع الصغیر :۲/۲۱۷؛مجمع الزوائد:۱/۱۷۰؛صواعق المحرقه:۱۲۲بعض روایات میں انّی تارک فیکم خلیفتین کِتاب الله و عترتیبہی آیا ہے مسند احمد :۵/۱۸۹؛مجمع الزوائد:۱/۱۷۰)

یہ حدیث درج ذیل دلائل کی بنا پر بہت اہمیّت کی حامل ہے ۔

۱- حدیث ثقلین میں قرآن و عترت ایک دوسرے کے مقابل اور برابر ہیں جس طرح قرآن تا روز ِ قیامت باقی ہے اسی طرح عترت بھی باقی ہے اگر ایک دن قرآن ہو اور عترت نہ ہو تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ پیغمبراکرم ﷺ کا فرمان جھوٹا ہے(نعوذباللہ) کیونکہ پیغمبراکرم ﷺ نے فرمایا

(لن یفترقا)

یہ عقیدہ فقط شیعوں کی تائید کرتا ہے جن کا عقیدہ ہے کہ امام زمان علیہ السلام قید ِ حیات میں ہیں اور آئمہ طاھرین(علیہم السلام) میں سے ہیں جس طرح قرآن میں خطا اور اشتباہ نہیں اسی طرح عترت علیہم السلام بھی معصوم عن الخطا ہیں۔

پیغمبراکرمﷺ نے امّت پر اپنی عترت کےساتھ تمسک واجب کیا ہے کیونکہ جس طرح قرآن کی پیروی گمراھی سے بچاتی ہے اسی طرح اطاعت ِ اہلبیت (عترت) بھی گمراہی سے بچاتی ہے پیغمبراکرم ﷺکےاس حکم سے پتہ چلتا ہے کہ آئمہ (علیہم السلام) بھی قرآن کی طرح معصوم ہیں کیونکہ اگر معصوم نہ ہوں توغلط دستور دیتے جو امّت کی گمراھی کا سبب بنتا اور اس طرح یہ پیغمبراکرم ﷺ کے بیان کے مخالف ہوجاتا کیونکہ آپ ﷺ نے فرمایا "اگر اہلبیت(ع) سے تمسک رکھو گے تو گمراہ نہیں ہو گے ۔ شیعہ اس پر یقین رکھتے ہیں کہ پیغمبراکرم ﷺ نے عترت کوقرآن کیساتھ قرار دیا ہے جس طرح عترت قرآن کے بغیر موجب گمراہی ہے اسی طرح قرآن بھی عترت کے علاوہ موجب ضلالت ہےجو بھی ان دونوں سے تمسک رکھے گا اس نے صحیح راستہ پا لیا اور ہر قسم کے انحرافات اور گمراھی سے نجات پا گیا لیکن افسوس کیساتھ علما اہل سنّت اپنی تقاریر میں صحیح مسلم میں یہ جملہ کتاب اللہ و عترتی اور اہل سنت کی پانچ سو( ۵۰۰) کتابوں میں ذکر ہونے کے باوجود کتاب اللہ وسنّتی کہتے ہیں اورکتاب اللہ و عترتی کانام نہیں لیتے حالانکہ یہ جملہ (کتاب اللہ وسنتی)اہلسنت کی کسی بھی معتبر مصادر میں نہیں ہے یہ فقط موطا مالک

(مالک بن انس نے منصور دوانقی کےحکم سے اپنی کتاب موطا لکھی،منصور نے اس شرط کے ساتھ مالک کو اس کتاب کے لکھنے کی اجازت دی کہ اس میں کہیں بھی حضرت علی علیہ السلام کا نام یا ان سے کوئی روایت ذکر نہ ہو ۔)

مرفوع اور مرسل ذکر ہوئی ہے

(حدیث مرفوع وہ حدیث ہے جس میں راویوں کی سند کا سلسلہ حزف ہو اور معلوم نہ ہو کہ یہ حدیث کس سے مروی ہے۔)

اور روایت مرفوع اہلسنت کے نزدیک معتبر نہیں ہے اسکے باوجود یہی بیان کرتے ہیں

یہاں پر ایک سوال ہوتا ہے کہ نبی مکرم اسلام ﷺ کی اہل بیت سے مراد کون ہیں ؟

اس سوال کے جواب میں یہ کہنا ضروری ہے کہ شیعہ اور اہل سنت کے درمیان اہل بیت کے مصداق کے بارے میں اختلاف ہے۔

شیعہ اورکچھ علما بزرگ اہل سنت کےنزدیک اہل بیت سے مرادفقط ، امام علی، جناب فاطمہ زہرا، امام حسن، امام حسین علیہم السلام ہیں مگر بہت سارے اہل سنت یا تو تمام بنی ھاشم کو اہل بیت کا حصہ یاحد اقلّ زوجات پیغمبراکرم ﷺ کو اہل بیت کا حصہ سمجھتے ہیں اس موضوع کی تحقیق سے پہلے سورہ احزاب کی وہ آیات جو اہل بیت کے متعلق ہیں انکی تحقیق کرتے ہیں اس سورہ میں آیت اٹھائیس ( ۲۸) سے ( ۳۳) تک زوجات پیغمبراکرم ﷺ کے بارے میں ہے

" (يَأَيهُّا النَّبىِ‏ قُل لّأِزْوَاجِكَ إِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَوةَ الدُّنْيَا وَ زِينَتَهَا فَتَعَالَينْ‏ أُمَتِّعْكُنَّ وَ أُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحٔا جَمِيلٔا (۲۸)

وَ إِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ وَ الدَّارَ الاَخِرَةَ فَإِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَتِ مِنكُنَّ أَجْرٔا عَظِيمٔا(۲۹)

يَانِسَاءَ النَّبىِ‏ مَن يَأْتِ مِنكُنَّ بِفَحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ يُضَعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَينْ‏ وَ كاَنَ ذَالِكَ عَلىَ اللَّهِ يَسِيرٔا(۳۰)

وَ مَن يَقْنُتْ مِنكُنَّ لِلَّهِ وَ رَسُولِهِ وَ تَعْمَلْ صَلِحٔا نُّؤْتِهَا أَجْرَهَا مَرَّتَينْ‏ وَ أَعْتَدْنَا لهَ رِزْقٔا كَرِيمٔا(۳۱)

يَنِسَاءَ النَّبىِ‏ لَسْتنُ‏ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ إِنِ اتَّقَيْتنُ‏ فَلَا تخضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِى فىِ قَلْبِهِ مَرَضٌ وَ قُلْنَ قَوْلٔا مَّعْرُوفٔا(۳۲)

وَ قَرْنَ فىِ بُيُوتِكُنَّ وَ لَا تَبرَّجْنَ تَبرَّجَ الْجَهِلِيَّةِ الْأُولىَ‏ وَ أَقِمْنَ الصَّلَوةَ وَ ءَاتِينَ الزَّكَوةَ وَ أَطِعْنَ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ(۳۳) إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكمُ‏ تَطْهِيرٔ )

انہی آیات سےمعلوم ہوجاتاہے کہ پیغمبراکرم ﷺ کی بیویاں اہلبیت میں شامل نہیں ہیں کیونکہ اٹھائیس ۲۳ آیت سےلیکر تئیس تک سب ضمیریں جو زوجات کے بارے میں آئیں وہ جمع مونث ہیں لیکن جب اہل بیت کا ذکرہوا توجمع مذکرکی ضمیراستعمال ہوئی ہےجسکی وجہ سےپتاچلتاہے کہ زوجاتِ پیغمبراکرم ﷺ اہل بیت میں شامل نہیں ہیں اسی طرح زوجات پیغمبراکرم ﷺ آٹھ( ۸) یا نَو ( ۹) گھروں میں رہتی تہیں ۔ اسی لیےجب بھی قرآن میں انکے بارے میں ذکر ہوا کلمہ (بُیُوت)(بَیت)گھرکی جمع استعمال ہوا ہےلیکن جب بھی اہل بیت کا ذکرہوامفرد(بیت)استعمال ہواہے اسلیے اگر خداوند کی اہل بیت علیہم السلام سےمراد زوجات ِپیغمبراکرم ﷺبھی ہوتی تو کلمہ اہل البیوت جمع ذکرہوتا جس طرح گذشتہ آیات میں

( وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ )

آیا ہے۔ صحیح مسلم میں عائشہ سے منقول ہے کہ جب آیت تطہیر نازل ہوئی تو پیغمبراکرم ﷺ (ص)نے حضرت علی، حضرت فاطمہ ، حسن ، حسین(علیھم السلام) کو عبا کے نیچے جمع کیا اور فرمایا

(اللهم هؤلاء أهل بيتي (إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرٔا )

(صحیح مسلم:۷/۱۳۰)

دوسری روایت امّ سلمہ سے منقول ہےکہ جب آیت تطہیر نازل ہوئی تو نبی مکرّم (ص) نے ان چار انوار کو عبا کے نیچے جمع کیا تو میں نے عرض کیا

( يا رسول الله ، ما أنا من أهل البيت ؟ قال لا،و أنت مِن أزواج النّبی

(سنن ترمذی:۵/۳۱)

اے اللہ کےرسول (ص) کیا میں بھی اہل بیت میں شامل ہوں ؟ تو آپ(ص) نے فرمایا نہیں تم بہت نیک ہو زوجات ِ پیغمبراکرم ﷺ میں سے ہو ۔ حتیٰ ایک روایت میں امّ سلمہ کہتی ہیں

فرفعت الکسا٫ لأدکل معهم ،وقال : إنك علی خير

(مسند احمد:۶/۳۰۴؛معجم کبیر:۹/۲۶)

"میں عبا کو پکڑ کرحضرت زہرا، حضرت علی، امام حسن، امام حسین علیھم السلام، کیساتھ چادر میں جانا چاہتی تھی مگررسول اکرم ﷺنےفرمایا"تم اچھی ہولیکن اہل بیت کاحصہ نہیں ہو اورچادرمیں آنے کا حق نہیں رکھتی ،اسکےعلاوہ حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ میں نے پیغمبراکرم ﷺسے پوچھا کیا میں اہل بیت میں شامل ہوں؟ تو حضرت نے فرمایا "نہیں" یہ روایت اکثر زوجات پیغمبراکرم ﷺسے نقل ہوئی ہے

(نظم درر السمطین:۱۳۳)

اگر تاریخ اسلام، تفاسیرکتُب روائی کیطرف مراجعہ کریں تو ہمیں پتہ چل جائے گا کہ زوجات پیغمبراکرم ﷺ میں سے کسی نے بھی اہل بیت میں شامل ہونے کا دعوٰی نہیں کیا اگر ہم انکو اہل بیت میں شامل کرنے کے درپے ہیں۔

اسکے علاوہ آیت تطہیر میں فرمایا گیا ہے کہ " خداوند نے ارادہ کیا ہے کہ رجس و پلیدی کو آپ سے دور رکھے۔

اس لیےیہ آیت عصمت اہل بیت پردلالت کرتی ہے اورپنجتن علیھم السلام کے علاوہ کسی نے بھی عصمت کا دعوٰی نہیں کیا یہاں تک کہ اہل سنت میں سے کسی نے بھی پیغمبراکرم ﷺ کی بیویاں یا دیگر بنی ہاشم کے بارے میں عصمت کا دعوٰی نہیں کیا۔

کتاب تفسیر طبری میں اس آیت کے ذیل میں تقریبأ اکیس ( ۲۱) روایات لائی گئی ہیں جن میں سے انیس روایات میں اہل بیت کو پانچ نور پاک میں منحصر کیا گیا ہے البتہ اس کتاب میں دو روایتیں ضعیف ہیں جن کے راوی مشہور کذّاب ،وضّاع اور زندیق تھے ، ان سے نقل کیا گیا ہے کہ زوجات پیغمبراکرم ﷺ بھی اہل بیت میں شامل ہیں ۔

(جامع البیان:۲۲/۹-۱۳)

تفسیر الدرالمنثور میں چوبیس روایات لائی گئی ہیں جن میں بائیس روایات میں اہل بیت پنج تن کو کہا گیا ہے اور دو روایتوں میں زوجات پیغمبراکرم ﷺ کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

(الدرالمنثور:۵/۱۹۸-۱۹۹)

اسی طرح تفسیرابن کثیر میں دس( ۱۰) میں سے نو( ۹) روایات میں اہل بیت فقط ،امیرالمومنین ، صدّیقہ طاہرہ ، امام حسن ، اور اما م حسین علیھم السلام کو کہا گیا ہے ۔

(تفسیر ابن کثیر:۳/۴۹۱-۴۹۴)

سوال{ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ لوگوں نے پیغمبراکرم ﷺ کے آخری سفر میں کیوں مخالفت کی اور اس سے پہلے کسی نے بھی مخالفت کیوں نہیں کی ؟

جواب { اسکے جواب میں یہ کہنا ضروری ہے کہ قرآن کریم نے پیغمبر ﷺ کے اردگرد کے لوگوں کو چار دستوں میں تقسیم کیا ہے ۔

(مدثر:۳۱ )

۱ ۔ کفار:یہ افراد مشخص تھے اور سب ان کے بارے میں جانتے تھے۔

۲ ۔ اہل کتاب:یہودی اور مسیحی: یہ بھی مشخص تھے جن کے بارے میں سب جانتے تھے۔

۳ ۔ مومنین: یہ گروہ بھی مشخص تھا۔

۴ ۔ والذین فی قلوبھم مرض: اب سوال یہ ہوتا ہے کہ یہ یہ لوگ کون تھے؟

بعض فی قلوبھم مرض سے مراد منافقین ثابت کرنے کی کوشش کرتےہیں

فخررازی نے اس نظریہ کے بارے میں کہا کہ یہ آیت مکہ میں نازل ہوئی اس وقت کوئی بھی منافق نہیں تھا کیونکہ منافق وہ ہیں جو ڈر کی وجہ سے اپنے اندرونی حقائق کا اظہار نہیں کرتے ۔

اور اسوقت مکہ میں مسلمانوں کے لیے اقتدار اور حکومت نہیں تھی اس لیے خوف کی کوئی دلیل نہیں ۔پس فی قلوبھم مرض ،،سے مراد وہ لوگ ہیں جو ظاہرا پیغمبراکرم ﷺ پر ایمان لائے مگر باطنا شکاکین میں سے تھے۔لیکن منافق کون تھے؟

(تفسیر کبیر:۲/۱۳۲)

بطور مثال جنگ احد میں پیغمبرﷺ کچھ لوگوں کو پہاڑ پر معین کیا اور ان کو فرمایا: جنگ کے اختتام تک ادھر ہی رہنا۔لیکن جب انہوں نے لوگوں کو مال غنیمت جمع کرتے ہوئے دیکھا تو پیغمبراکرم ﷺ کی نافرمانی کرتے ہوئے پہاڑ سے نیچے اتر آئے،

خالد بن ولید کی کمانڈ میں دشمن نے وہاں حملہ کیا اور مسلانوں کو محاصرہ میں لے لیا اسی لیے مسلمانوں کو شکست ہوئی اور بہترین وفادار اسلام مثل حضرت حمزہ سید الشہدا شہید ہوئے۔

یہ صحابہ کی پیغمبراکرم ﷺ کے فرمان کی واضح مخالفتوں میں سے ایک ہے۔

صلح حدیبیہ میں بھی یہی مخالفت تھی بعض مسلمانوں نے پیغمبراکرم ﷺ کی مخالفت کی اور پیغمبر ﷺ کا دل دکھانے کا سبب بنے۔ اسی طرح جنگ خیبر، جنگ خندق، جنگ احزاب میں بھی بعض اصحاب نے آپ کی مخالفت کی ۔ پیغمبر ﷺ نے ابوبکر کو حملہ کا حکم دیا تو اس نے کہا میں ڈرتا ہوں عمر کو کہا تو اس نے بھی یہی کہا دوسروں کوحکم دیا تو انہوں نے بھی یہی جواب دیا۔

امیر المومنین علیہ السلام کے علاوہ کسی نے بھی پیغمبراکرم ﷺ کی اطاعت نہیں کی تاکہ دشمن کے سامنے ثابت قدم راہ سکیں۔ جنگ حنین میں مسلمان دس ہزار( ۱۰۰۰۰ ) سے بھی زیادہ تھے پیغمبراکرم کو کفار میں چھوڑ کر فرار ہو گئے ،صرف بارہ لوگ باقی راہ گئے جو حضرت علی علیہ السلام کی سر براہی میں تھے۔

حدیث قرطاس میں پیغمبر ﷺ نے فرمایا:

ائتوني بقلم و كتف حتی أكتب لكم كتابا، لن تضلوا بعدی،فقال عمر بن الخطاب : إن الرجل قد غلبه الوجع

(صحیح بخاری: ۱/۳۷و۴/۳۱؛صحیح مسلم:۵/۷۵و۷۶)

قلم اور دوات لے آؤ تا کہ تمہارے لیے پروانہ نجات لکھ دوں تاکہ میرے بعد گمراہ نہ ہوں۔عمرا بن خطاب نے کہا پیغمبراکرم ﷺ پر بیماری کا غلبہ ہے اس لیے ہزیان کہ رہے ہیں۔ جبکہ قرآن میں ہے:

(وَ مَا ءَاتَئكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ )

(حشر:۷ )

مسلمانوں نےکس طرح پیغمبر ﷺ کے حکم کا جواب دیا۔آنحضرت کے گھر میں اس طرح شور شرابہ شروع کیا کہ رحمۃ اللعالمین نے ان کواپنے گھرسے نکال دیا اور فرمایا:

قوموا عنّی،،

(مسند احمد:۱/۳۲۴)

میرےگھر سے نکل جاؤ۔ یہ اصحاب کی پیغمبر اکرم ﷺ سے مخالفت کے وہ نمونے ہیں جو حجۃ الوداع سے پہلے رونما ہوئے۔