غدیر اہل سنت کی نگاہ میں

غدیر اہل سنت کی نگاہ میں0%

غدیر اہل سنت کی نگاہ میں مؤلف:
زمرہ جات: امامت

غدیر اہل سنت کی نگاہ میں

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: ڈاکٹرمحمدحسینی قزوینی
زمرہ جات: مشاہدے: 13812
ڈاؤنلوڈ: 3120

تبصرے:

غدیر اہل سنت کی نگاہ میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 11 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 13812 / ڈاؤنلوڈ: 3120
سائز سائز سائز
غدیر اہل سنت کی نگاہ میں

غدیر اہل سنت کی نگاہ میں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

دوسری فصل

خطبہ غدیر پر ایک نظر

حجۃ الوداع کے موقع پر غدیر خم میں حضرت کا خطبہ اہم ترین خطبوں میں سے ہے ۔اس خطبہ کے متعلق بحث کرنے سے پہلے چند نکات کا ذکر کرنا ضروری ہے ۔

اہلسنت کے تمام مصادر میں پیغمبراکرم ﷺ کے غدیر کے دن کے خطاب کو خطبہ غدیر سے یاد کیا گیا ہے۔خطبہ اور حدیث میں فرق یہ ہے کہ ایک چھوٹا جملہ جو چند کلمات پر مشتمل ہےاس کو حدیث کہتے ہیں جبکہ ایک طولانی گفتگوجو منبر یا بلند مقام پر جاکر کی جائےاور جس کا آغاز حمدو ثنا الہی سے ہو اس کوخطبہ کہتے ہیں۔

لیکن افسوس یہ ہے کہ اس کے باوجود اہل سنت کی کتابوں میں خطبہ غدیر مکمل نقل نہیں ہوا ۔ اس میں سے فقط ایک یا دو سطر کو لکھا ہے اور اس سے بھی زیادہ افسوس یہ ہے کہ صحیح بخاری جو کہ اہلسنت کی بنیادی ترین کتاب ہے جسے وہ قرآن کے بعد صحیح ترین جانتے ہیں ، با وجود اس کے کہ اس واقعہ کا پیغمبراکرم ﷺ کا شاندار اہتمام ، ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کو جمع کرنا اور ایک لاکھ بیس ہزار اصحاب کی روایت کے باوجود، صحیح بخاری میں واقعہ غدیر کا ذکر نہی ہے

جبکہ اسی شخص نے تاریخ صغیر میں اس واقعہ کو ذکر کیا ہے۔صحیح مسلم میں بھی اس کو کاٹ کاٹ کر دو سطر سے بھی کم ذ کر کیا ہے۔

حدیث غدیر کے محجور ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بنی امیہ حکومت سنبھالتے ہی نورولایت خصوصا واقعہ غدیر کو خاموش کرنے کے درپے تھے جیسا کہ اہلسنت کی بعض روایات کے مطابق اموی حکومت کے دوران حدیث غدیر نقل کرنا۔ نا قابل بخشش گناہ اور بہت بڑا جرم تھا ۔یہاں تک کہ واقعہ غدیر میں جو پیغمبراکرم ﷺ کے اصحاب موجود تھے وہ بھی اس واقعہ کو بیان کرنے کی جرأت نہیں کرتے تھے ۔یہان پر ا س تلخ حقیقت کے دو نمونوں کی طرف اشارہ کریں گے۔

عطیہ اقفی کہتا ہے: کہ میں نے زید بن ارقم کو کہا کہ ہمارے داماد کا کہنا ہے کہ آپ واقعہ غدیر میں موجود تھے ،ہمیں بھی بتائیں کہ پیغمبراکرم ﷺ نے غدیر خم میں کیا فرمایا؟ زید نے کہا:

أنّکم مَعشَرَ أهل العراق فیکم ما فیکم، فَقُلتُ له لَیسَ علَیکَ منّی بأس

(مسند احمد:۴/۳۶۸)

تم عراقی عجیب انسان ہو!

تمہارے سامنے ہر بات نہیں کی جاسکتی

تو میں نے کہا: میری طرف سےآپ مطمٔن رہیں میں حکومتی کارندہ نہیں ہوں۔

دوسرا نمونہ یہ ہےکہ راوی کہتاہے اہلسنت کےمشہورفقیہ شھاب الدین زھری کوحدیث غدیرنقل کرتے ہوئے دیکھا بہت ڈرتے ہوئے ان کے پاس پہنچا اور کہا :

لاتحدّث بهذا بالشام و أنتَ تَسمَعُ مَل٫ أذنَیکَ سبُّ علِی،

(اسد الغابة :۱/۳۰۸)

شام میں یہ حدیث لوگوں کےسامنے بیان نہ کروحالانکہ آپ نے خود لوگوں کو علی علیہ السلام پر سب وشتم کرتے سنا ہے۔

بہت سے ایسےنمونے ہیں جن میں سے دو کا ذکرہواہے جن سےمعلوم ہوتاہےکہ صحابہ اور تابعین،حدیث غدیرکو بیان کرنےسے کس طرح ڈرتےتھے۔یہ وحشت فقط خاندان امیہ ،بالخصوص معاویہ کی طرف سے تھی جنہوں نے نور ولایت کو خاموش کرنے اور لوگوں کو امیر المومنین علیہ السلام کی ولایت سے منحرف کرنے کی پوری کوشش کی۔

صرف کتاب معجم طبرانی ایسی ہے کہ جس میں واقعہ غدیر کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، سیرہ حلبی نے بھی اس خطبہ کو اس سے نقل کیا ہے جو کہ ایک صفحہ سے بھی کم ہے،جبکہ مرحوم طبرسی نے احتجاج میں اسی خطبہ کو چالیس صفحہ سے بھی زیادہ نقل کیا ہے

اس خطبہ کے مختلف پہلوؤںسے معلوم ہوتا ہے کہ کہ پیغمبرﷺ کو کس حد تک امر ولایت اور اپنے بعد جانشینی کے مسألہ پر تشویش تھی۔ پیامبراکرمﷺ جانتےتھے کہ ان کی شریعت خاتم شریعت ہے اور ان کے بعد کوئی نبی نہیں۔دوسرا دین اسلام ، دین جاودانی ہے جو قیا مت تک زمین پر پائدار ہے، اس شریعت کے استحکام اور عدم تغییر و انحراف کے لیے کسی ایسے شخص کا تعارف ضروری ہے جو اس شریعت کی حفاظت کرے اس لیے غدیر خم کے دن آپ ﷺ نے واضح اور شفاف خطبہ غرا ارشاد فرمایا ۔

اہلسنت کی معتبر کتابوں میں حدیث غدیر

صحیح مسلم میں نقل ہے کہ زید بن ارقم سےحدیث غدیر کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بڑھاپے کا عذر پیش کیا اور کہا کہ بہت عرصہ پہلے سنا تھا جو کہ ابھی ذہن میں نہی ہے۔ راوی کہتا ہے جب میں نے بہت زیادہ اصرار کیا تو کہا: پیغمبراکرم ﷺ نے مکہ اور مدینہ کی راہ میں غدیر خم کے مقام پر ہمارے درمیان کھڑے ہو کر خطبہ پڑھنا شروع کیا۔پیغمبراکرمﷺنےحمدوثناالھی کی اور مسلمانوں کو وعظ و نصیحت فرمائی۔

قَال أما بَعد ایهاالنَاس فَاِنَّما أنا بَشَر یُوشَکَ أن یأتِی رسُولُ رَبّی و أنا تارِک فیکُم الثَقَلَین اوّلهما کِتابَ الله، فیه الهدی و النّور، فَخُذُوا بِکِتابِ الله وَاستَمسَکُوا به فَحَثَّ علی کِتاب الله و رَغِبَ فیه ثُمَّ قال وَ أهلِ بیتی أذکِرُکُم الله فی أهلِ بَیتی ، أذکِرُکُم الله فی أهلِ بَیتی ، أذکِرُکُم الله فی أهلِ بَیتی

(صحیح مسلم:۷/۱۲۳)

اے لوگو؛بیشک میں ایک بشر ہوں اور قریب ہے کہ میرے پروردگار کا بھیجا ہوا نمائندہ آئے اور میں اسکی دعوت قبول کروں میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ،ایک کتاب اللہ ہے جس میں ہدایت اور نور ہے کتاب خدا کو لے لو اور اسے تھامے رکھو اور پھر پیغمبر ﷺ اسلام نے کتاب خدا پر عمل کرنے کی تاکید فرمائی اور اسکی جانب رغبت دلائی، اس کے بعد یوں فرمایا :

اور دوسرے میرے اہلبیت ہیں اپنے اہلبیت کے سلسلے میں ،تمہیں خدا کی یاد دلاتا ہوں ،

اپنے اہلبیت کے سلسلے میں ،تمہیں خدا کی یاد دلاتا ہوں ،

اپنے اہلبیت کے سلسلے میں ،تمہیں خدا کی یاد دلاتا ہوں ۔

البتہ بعض جگہوں پر یہ عبارت آئی ہے:

أنی تارِک فیکُم الثَقَلَین کِتابَ الله و عِترَتِی، أهلِ بیتی ،أن تمسکتم بهِما لَن تَضِلُّوا بَعدی و أنَّهما لَن یَفتَرِقا حتی یَرِدا علیَّ الحوض فانظُرُوا کَیفَ تُخَلِّفُونِی فیهما

(سنن ترمذی:۵/۳۲۹؛المعجم الکبیر:۳/۱۸۰)

میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں جب تک تم ان سے متمسک رہو گے ہرگز گمرااہ نہ ہونگے،یہ ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہونگے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے آ ملیں۔لہذا یہ دیکھنا کہ تم میرے بعد انکے ساتھ کس طرح کا برتاؤ کرتے ہو۔

یہاں پر یہ سوال ہوتا ہے کہ حدیث ثقلین جو اتنی وسیع حدیث ،جو کہ اہلسنت کی روایات کی مختلف کتابوں میں اور متعددطریقوں اور اسناد کے ساتھ بیان ہوئی ہے مسلم نے اسے اپنی صحیحین میں دو لائنوں میں کیوں بیان کیا؟

البتہ کتاب معجم کبیر میں اسی خطبہ سے تقریبا ایک صفحہ ہے وہ کہتے ہیں جب پیغمبر ﷺ خم غدیر میں وارد ہوئے تو جھاڑیوں کوصاف کرنے کا حکم دیا پھر نماز قائم کی نماز کے بعد ایک خطبہ دیا جس کا لب لباب یہ ہے سب سے پہلے فرمایا: کہ انکی زندگی کے آخری ایام ہیں اور یہ آخری خطبہ پیغمبراکرم ﷺ تھا جس طرح ہر کوئی زندگی کےآخری ایام میں وصیت کرتا ہے اور اساسی مسائل کو بیان کرتا ہے پھر فرمایا: یہ کوئی عام پیغام نہی بلکہ میں خدا کی طرف سے اس پیغام کو پہونچانے پر مأمور ہوا ہوں اور اس کو پہنچانے سے درگذر نہیں کر سکتا ،میرے اس پیغام کو آگے پہنچانے میں آپ بھی ذمہ دارہیں۔

پھر فرمایا : میرے بارےمیں آپ کی کیا رائے ہے؟ سب نے شہادت دی کہ آ پ پیغمبراکرم ﷺ ہیں اور رسالت کو بطور احسن انجام دیا۔پھراس واقعہ کی اہمیت بیان کرنے سے پہلے بعض اصول دین کو بیان کیا تاکہ ولایت کو ان مسائل کا ہم رتبہ قرار دیں۔اس کے بعد فرمایا:

ألیسَ تشهدُون أن لا اِله اِللّه؟ وأنّ مُحمدا عَبدُهُ و رَسُولُه وَنَّ جَنّتَهُ حَق و نارَه حق و انّ الموت حق و أنّ البعثَ بَعدَ الموتِ حق؟ قالُوا بَلی، نَشهَدُ بِذلک

کیا خدا کی وحدانیت کی گواہی دیتے ہو؟ کیا میری رسالت کی گواہی دیتے ہو؟ کیا معاد، موت اور بعث بعداز مرگ کی حقانیت کی گواہی دیتے ہو؟ تو لوگوں نے کہا :ہاں ہم سب گواہی دیتے ہیں ۔

پھر اپنے ہاتھوں کو اٹھایا اور فرمایا خدایا گواہ رہنا پھر فورا فرمایا: ۔

ایها الناس ان الله مولای و انا مولی المؤمنین و انا أولی بهم من انفسهم، فمن کنت مولاه فهذا مولاه یعنی علیا

(المعجم الکبیر:۳/۱۸۰)

اے لوگو خدا میرا اور سب مومنین کا مولی ہے اور میں تم پر تم سے زیادہ ولایت رکھتا ہوں جس جس کا میں مولا ہوں علی علیہ السلام اس کے مولا ہیں ۔

اس خطبہ میں سب سے پہلے پیغمبراکرم ﷺ نے لوگوں پر اپنی ولایت کو واضح کیا پھر لوگوں سے اصول دین کی شہادت لی۔

پھر فرمایا :

من کنت مولاه فعلی مولاه

اس لیے ولایت علی علیہ السلام نماز، روزہ،حج ،زکوۃ،خمس کےہم پلہ نہیں بلکہ ولایت علی علیہ السلام اصول دین کے ہم پلہ ہے۔پیغمبراکرمﷺ اس کے بعد فرماتے ہیں:

اللّهمّ وال مَن والاه و عاد من عاداه؛

یہ بھی بہت ظریف جملہ ہے جس میں بیان فرماتے ہیں کہ ولایت اور عداوت علی، ولایت اور عداوت خدا ہے۔یہ واضح ہے کہ اگر ایک حاکم حکومتی مسائل میں جتنا بھی توانا ہو ،اگر لوگ اس کو نہ چاہتے ہوں تو وہ ہرگز کامیاب نہیں ہو سکتا۔

پیغمبراکرمﷺ اس عبارت سے لوگوں کے دلوں میں علی علیہ السلام کی محبت کا بیج بو رہے ہیں اور ان لوگوں کے لیے اعلان کر رہے ہیں کہ مبادا کوئی ایک دن علی علیہ السلام کی مخالفت کا پرچم بلند کرے اور انکی عداوت میں اٹھ کھڑا ہو، اس لئے کہ علی علیہ السلام کی عداوت ،عداوت خدا اور انکی مخالفت،مخالفت خدا ہے۔

اس لیے یہ کہنا مناسب ہو گا کہ پیغمبر اکرم ﷺ نے غدیر کے دن ایک حد مقرر کی جس کو عبور کرنا ،حق کے ساتھ دشمنی کے برابر ہے۔جو علی علیہ السلام کی اطاعت کرتے ہیں وہ پیغمبر کی دعا اور خدا کی محبت کے حق دار ہیں۔

لیکن رحلت پیغمبراکرم ﷺ کے بعد علی پر کیا بیتی؟بہت سی روایات میں پیغمبراکرم ﷺ نے فرمایا:

ضغائنُ فِی صُدُورِ قَوم لا یَبدُونَ لَک ألّا مِن بَعدی

(شرح نهج البلاغه؛ابن ابی حدید:۴/۱۰۸؛میزان الاعتدال:۴/۴۸۰)

میں لوگوں کے دلوں میں وہ کینہ دیکھ رہا ہوں جو میرے بعد ظاہر ہونے والا ہے

امیر المؤمنین علیہ السلام خودفرماتے ہیں:

انّ من عهد النبّی الامامی الیّ بِأنّ الامة ستعذر بِک بعدی،

(شرح نهج البلاغه؛ابن ابی حدید:۴/۱۰۷ )

پیغمبراکرمﷺ نے مجھے فرمایا:یا علی میرے بعد امت آپ سے خیانت کرے گی۔

ان بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبرﷺ کےلیے یہ سب واضح تھا لیکن اتمام حجت اور یہ کہ گمراہان اپنے انحرافی اعمال کے لیے توجیہ نہ رکہیں فرمایا:

یا ایها الناس انی فرطکم و انکم واردون الی الحوض و انی سائلکم حین تردون علی عن الثقلین، فانظروا کیف تخلفونی فيهما، فانه قد نبانی اللطیف الخبیر انهما لن ینقضیا حتی یردا علی الحوض

( المعجم الکبیر:۳/۱۸۰؛ سیره الحلبیه: ۳/۳۳۶)

اے لوگو؛ میں تمہارے درمیان سے چلا جاؤں گا اور جب قیامت کے دن حوض کوثر پر تم سے ملوں گاتو قرآن و عترت کے بارے میں پوچھوں گا کہ کس طرح ان دونوں سے پیش آئے۔خدا وند عالم نے مجھ سے فرمایا:یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملیں گے۔

خطبہ غدیر اس طرح بے نقص اور اسکے مطالب اس طرح واضح ہیں کہ حضرت زہرا سقیفہ بنی ساعدہ کے بعد مسجد تشریف لائیں اور انصار و مہاجرین سے فرمایا:

أنسیتم قول رسول اللّه صلی الله علیه و آله وسلم یوم غدیرخم: من کنت مولاه فعلیّ مولاه هل ترک أبی یوم غدیرخم لأحد عذرا؟

(النزاع و التخاصم:۹۸)

کیا پیغمبراکرمﷺکےغدیرخم کےفرمان کوبھول گئےہوجوآپ نےفرمایا:

جسکامیں مولا ہوں اسکےعلی علیہ السلام مولا ہیں۔کیا میرےوالدنےکسی کےلیےکوئی عذرباقی چھوڑا ہے۔

پیغمبراکرمﷺنےجو فرمایا کیا اس سے بہتر اتمام حجت ہوسکتی تھی؟

لیکن افسوس کیساتھ ہم طول تاریخ میں دیکھتے ہیں کہ غدیرکےمخالفوں نےاپنی تمام تر،کوششوں سے خطبہ غدیرکی توجیہ یا اس کو منحرف کرنےکےلیےبےبنیاد شبہات کےدامن کاسہارا لیا۔

مثال کےطورپرفخررازی جو اہلسنت کےمشہوراوراہلسنت میں جنکا کوئی ہم پلہ نہیں،جب حدیث غدیرپرپہنچے تو کہا:

ولم یکن علی مع النّبی فی ذلک الوقت فأنّه کان بالیمن

( نهایة العقول)

حجۃ الوداع میں پیغمبراکرمﷺکےساتھ علی علیہ السلام نہیں تھےبلکہ آپ یمن میں تھے۔

حالانکہ حضرت علی کا حجۃ الوداع میں ہوناصحیح بخاری۔مسلم، سنن ابن ماجہ، سنن ابن داؤد،اورصحیح ترمذی میں صراحت کےساتھ بیان ہوا ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے جو میدانِ منی میں قربانیاں کیں ان میں سے کچھ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام یمن سے لائے تھے۔

(صحیح بخاری:۲/۱۴۹؛صحیح مسلم:۴/۴۰؛سنن ابن ماجه:۲/۱۰۲۴؛سنن ابنی داوود:۲/۱۵۸؛سنن ترمذی:۲/۲۱۶)

بہت سے اہلسنت کےعلمانےبھی فخررازی کےاس قول پر اعتراض کیا ،جیسا کہ ابن حجرمکی نے اپنی کتاب صواعق المحرقہ جو شیعہ عقائد کےردّ میں لکھی ہے اس میں کہا:

ولا التفات لمن قدح في صحته ولالمن رده بأن عليأ كان باليمن لثبوت رجوعه منها وإدراكه الحج مع النبي

(الصواعق المحرقة:۲۵)

وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ حدیث غدیر صحیح نہیں،اور جو کہتے ہیں کہ علی علیہ السلام یمن میں تھے،بے بنیاد ہے کیونکہ علی علیہ السلام کا یمن سے واپس آنا ثابت ہے۔

اسی طرح حنفی مذہب کے ایک بڑےعالم ملا علی قاری نے بھی اسی طرح کہا ہے :

وأبعدَ من ردّه بِأنّ علیا کَان با لیَمَن

(المرقاة فی کشف المشکاة:۵/۵۶۸؛شرح مواهب:۷/۱۳؛شرح مواقف:۸/۳۶۱)

بے بنیاد ترین بات یہ کہنا ہے کہ علی علیہ السلام حجۃ الوداع میں نہ تھے بلکہ یمن میں تھے۔

بعض نے کہا ہے اگرچہ حضرت علی علیہ السلام مکہ میں تھےلیکن حدیث غدیرصحیح نہیں اور یہ ضعیف ہے۔ اس شبہ کے جواب میں اہلسنت کے ایک بہت بڑے فقیہ کے اس قول پر اکتفا کریں گے۔

اِن لَم یَکُن معلوما، فَما فی الدّین مَعلوم

(هدایة العقول:۲/۳۰؛الغدیر:۱/۳۱۴)

اگر حدیث غدیرصحیح نہیں تو اسلام میں کوئی حدیث بھی صحیح نہیں۔

جنہوں نے بھی حدیث متواتر کے بارے میں لکھا ،اگر وہ اسکی مثال میں دو روایت لکھنا چاہیں تو یقینا ایک حدیث غدیر ہو گی۔اہلسنت کے بہت سےعلماء،حدیث غدیر کو متواترمانتے ہیں۔علم رجال میں اہلسنت مضمون حدیث غدیر،بمنزلہ نصّ قرآن ہونے کا اعتقاد رکھتے ہیں۔یعنی اگر کسی نے حدیث متواتر میں شک کیا تو گویا اس نے قرآن کی آیات میں شک کیا۔

بعض لوگوں نے خطبہ غدیر کے بارے میں ایک شبہ یہ بھی کیا ہے کہ امام علیہ السلام کے سفریمن میں ان کےساتھ آنے والوں نے حضرت کی شکایت کی ۔تو پیغمبراکرم ﷺ کا خطبہ غدیر حضرت علی علیہ السلام کی دلجوئی کےلئے تھا۔

ماجرا کچھ اس طرح ہے کہ امیر المؤمنین علیہ السلام حجۃ الوداع سے پہلے زکواۃ کی جمع آوری کے لیے یمن تشریف لے گئے تو یمن سے واپسی پر بعض اصحاب نے بیت المال میں سے اپنے شخصی استفادہ کے لیئے زکواۃ لی، جب امام کو معلوم ہوا تو آپ ناراض ہوئے اور ان پرسختی کی ،ان سے لباس اتروا لیے اور اونٹوں سے اتروا دیا اور فرمایا:تم لوگ بیت المال سےاستفادہ کا حق نہیں رکھتے۔ یہ سختی صحابہ پر گراں گذری اس لیے پیغمبراکرم ﷺ کے پاس آکرآپ علیہ السلام کی شکایت کی ۔

بعض اہلسنت کہتے ہیں کہ جب پیغمبر ﷺ نے دیکھا کہ لوگ علی علیہ السلام سے رنجیدہ ہیں اور اپنے سینوں میں کینہ اوربغض رکھتے ہیں تومسلمانوں کو غدیرمیں جمع کیا اور

فرمایا:اےلوگو!

علی علیہ السلام سے ناراض نہ ہوں وہ بہت نیک ہیں اگر سختی کرتے ہیں تودینی مسائل کی خاطر۔اس شبہ کی اصل،ابن کثیر کی یہ عبارت ہے جس میں کہتا ہے:

والمقصود أن عليا لما كثر فيه القيل والقال من ذلك الجيش بسبب منعه إياهم استعمال إبل الصدقه واسترجاعه منهم الحلل لما رجع رسول الله صلي الله عليه و سلم من حجته وتفرغ من مناسكه ورجع إلي المدينه فمر بغديرخم قام في الناس خطيبا فبرأ ساحه علي ورفع من قدره ونبه علي فضله ليزيل ما وقر في نفوس كثير من الناس

حدیث غدیر سے پیغمبر ﷺ کا مقصد یہ تھا کہ جب آپ ﷺ نے دیکھا کہ حضرت علی علیہ السلام کی سختی اور لوگوں کے تن سے لباس اتارنے اور ان سے اونٹ واپس لینے کے بارے میں بہت سی باتیں ہو رہی ہیں تو لوگوں کو غدیر خم میں جمع کیا اور حضرت کی فضیلت بیان کی ،تا کہ لوگوں کے دلوں سے بغض علی علیہ السلام نکل جائے۔

امیرالمؤمنین علیہ السلام کےسفرِیمن کی حقیقت

امیر المؤمنین علیہ السلام کے سفر یمن کے بارے میں بہت سے مطالب ذکر ہوئے ہیں ۔آپ حیات پیغمبراکرم ﷺ میں تین بار یمن تشریف لے گئے ایک بار پیغمبر ﷺ کے حکم سے سرزمین قبیلہ ہمدان کو فتح کرنے کے لیے گئے ۔ آپ سے پہلے خالد بن ولید لشکر اسلام لے کر گیا اور چھے مہینہ لوگوں کو اسلام کی دعوت دی لیکن کسی نے اسلام قبول نہ کیا ۔مگر جب حضرت علی وہاں تشریف لے گئے ،تو ابتدائی دنوں میں ہی لوگوں نے اسلام قبول کر لیا اور جوق در جوق دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے۔

جب امیر المؤمنین علیہ السلام نے قبیلہ ہمدان کے مسلمان ہونے کی خبر لکھ کر بھیجی تو پیغمبراکرم ﷺ نے تین بار قبیلہ ہمدان کے لیے دعا کی ۔اس وقت سے لے کر اب تک قبیلہ ہمدان (یمن) کے لوگ حضرت علی علیہ السلام کے شیعہ اور آپ کے چاہنے والے ہیں۔

اس سفر میں چار اصحاب نے ایک بریدہ نامی شخص کو آمادہ کیا کہ وہ پیغمبراکرم ﷺ کا پاس حضرت علی علیہ السلام کی بدگوئی کرے تا کہ حضرت علی علیہ السلام ،پیغمبراکرمﷺ کی نظر میں گر جائیں۔

بریدہ کہتا ہے کہ جب میں پیغمبراکرم ﷺ ک خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی بات کی تو پیغمبراکرم ﷺ ناراض ہوئے اور فرمایا:

ماذا تريدون من علي؟ إنّ عليّأ منّي وأنا منه وهو ولي كلّ مؤمن بعدي.

علی علیہ السلام سےکیاچاہتےہو؟علی مجھ سےہے اور میں علی سےہوں وہ میرےبعدتمام مؤمنین کا ولی ہے۔

حاکم نیشاپوری کہتاہے کہ یہ حدیث صحیح ہےلیکن مسلم اوربخاری اس حدیث کو نہیں لائے؛ملاحظہ ہوں)

(مسند احمد:۴/۴۳۸؛/ المستدرک علی الصحیحین:۳/۱۱۰)

حضرت علی علیہ السلام کا یمن کی طرف دوسرا سفر قبیلہ مدہج میں جنگ شروع ہو نے کی وجہ سے تھا جس میں بہت سارے لوگ مارے گئے تھے۔حضرت علی علیہ السلام کے اس علاقے میں جانے سے بہت سارے لوگ مسلمان ہو گئے اور سارا مال غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آیا ۔امیر المومنین علیہ السلام کے اس سفر میں کسی قسم کی کوئی شکایت تاریخ میں نہیں۔

امیر المومنین علیہ السلام کا تیسرا سفر یمن جو کہ ہمارا مورد بحث ہے حضرت علی علیہ السلام زکوۃ کی جمع آوری اور قضاوت کے لیے یمن ،اور نجران تشریف لے گئے۔حضرت ابھی نجران میں ہی تھے کہ رسول اکرم نے نامہ تحریر فرمایا کہ وہ عازم حج ہیں اور آپ کو بھی حج کے لیے آنے کا فرمایا ۔امیر المومنین علیہ السلام بہت سارے اصحاب کے ساتھ مکہ کی طرف چل پڑے اور مکہ پہنچنے سے پہلے سنا کہ پیغمبراکرم ﷺمدینہ سے مکہ آ رہے ہیں ۔یہ سنتے ہی امیر المومنین علیہ السلام نے ایک شخص کو بیت المال کی حفاظت کے لیے مقرر کیا اور خود پیغمبراکرم ﷺ کی طرف گئے تاکہ مکہ سے پہلے آپ سے ملاقات کریں ۔پیغمبراکرمﷺ سے ملاقات کے بعد آنحضرت نے آپ سے فرمایا :آپ اپنے اصحاب کے پاس تشریف لے جائیں۔جب امیر المومنین علیہ السلام واپس تشریف لے گئے اور دیکھا کہ بیت المال کو غلط استعمال کیا جا رہا ہے تو آپ ان سے سختی سے پیش آئےاور ان کو ملامت کیا ۔

حضرت علی علیہ السلام کے مکہ پہنچنے کے بعد آپ کے ساتھ آنے والوں نے پیغمبراکرم ﷺ کی خدمت میں جا کر آپ کی سختی شکایت کی۔اس شکایت کے بعد پیغمبراکرم ﷺ نے خطبہ دیا جس کو اہلسنت کے تقریبا بیس معتبر مصادر نے ذکر کیا ،مؤرخین نے اس خطبہ کی نسبت بے اعتنائی کی ۔

(مسند احمد :۳/۸۶؛سیره النبویه؛ابن هشام:۴/۱۰۲۲؛البدایه والنهایه:۵/۲۲۸)

ابن اثیر جزری کہتا ہے:

فشکاه الجیش الی رسول الله(صلی الله علیه و آله) فقام النبی(صلی الله علیه و اله) خطیبا فقال: ایها الناس!لا تشکو علیّا...

(الکامل فی التاریخ:۲/۳۰۱)

لشکروالوں نےپیغمبرﷺسےعلی علیہ السلام کی شکایت کی۔پیغمبرﷺ کھڑےہوئےاورخطبہ دیا اورفرمایا:علی علیہ السلام کی شکایت نہ کریں کیونکہ وہ دینی مسائل میں سخت ہیں۔

خطبہ غدیر کے بعد کے واقعات

جب پیغمبراکرم ﷺ نے حضرت علیہ السلام کی خلافت کا اعلان کیا ،اس کے بعد تین دن سرزمین غدیر خم میں رہے ۔اس دوران سب لوگوں نے علی علیہ السلام کی بیعت کی ۔پیغمبر ﷺ نے اپنے عمامہ

(جسکا نام سحاب تھا)

علی علیہ السلام کےسرپررکھا،یہاں تک کہ ایک طشت کو پانی سےبھرکراپنی بیویوں کو حکم دیا کہ اس کے ذریعے علی علیہ السلام کی بیعت کریں۔

مراسم کے اختتام پر حارث بن نعمان نامی شخص پیغمبراکرم ﷺ کے پاس آیا اور کہا:یا رسول اللہ ؛آپ نے کہا نماز پڑہو ہم نے پڑھی، آپ نے فرمایا زکوۃ ادا کرو ہم نے ادا کی،آپ نے کہا رمضان کے روزے رکھو ہم نے رکھے،آپ نے کہا حج پہ جاؤ ہم گئے۔

ثم لم ترض بذلک حتی رفعت بضبع ابن عمّک ففضلته علینا، وقلت: من کنت مولاه فعلی مولاه، فهذا شی‌ء منک أم من الله فقال رسول الله: والذی لا إله إلّا هو أنّ هذا من الله. فولی جابر یرید راحلته وهو یقول: ( اللهم إن کان ما یقول محمد حقأ فأمطر علینا حجارة من السماء أو ائتنا بعذاب ألیم ). فما وصل إلیها حتی رماه الله بحجر فسقط علی هامته وخرج من دبره وقتله، وأنزل الله تعالی: (سَأَلَ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَاقِعٍ لِّلْکَافِرینَ لَیْسَ لَهُ دَافِعٌ )

(سیره الحلبیه:۳/۳۳۷؛تفسیر الثعلبی:۱۰/۳۵؛تفسیر القرطبی:۱۸/۲۷۹)

اس پر بھی راضی نہیں ہوئے یہاں تک کہ اپنے بھتیجے کا بازو بلند کر کے ہم پر برتری دی اور کہا : جس کا مولا ہوں اس کا علی علیہ السلام مولا ہے،،اے پیغمبر ﷺ اپنی طرف سے علی علیہ السلام کو برتری دی ہے یا یہ خدا کی جانب سے تھی؟پیامبر ﷺ نے فرمایا : مجھے اس خدا کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں یہ خدا کی جانب سے حکم تھا۔یہ سننے کے بعد حارث اپنی سواری کی طرف بڑھا اور کہا : خدایا اگر پیغمبر ٹھیک کہہ رہے ہیں تو مجھ پر آسمان سے پتھر برسا کے مجھے ہلاک کردے ۔حارث ابھی سواری تک نہیں پہنچا تھا کہ آسمان سے اس کے سر پر پتھر گرا اور اس کے مقعد سے باہر آ گیا اور وہ ہلاک ہو گیا ۔

قرآن کریم کی نظرمیں غدیر

غدیر کے بارے میں بہت سی آیات ہیں ان آیات میں سے آیہ غدیر کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے

(يَأَيهُّا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّک )

(مائده:۶۷)

اے پیغمبر ﷺ آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے۔

اگر اہلسنت کی تاریخی،روایی اور تفسیری کتابوں کی طرف مراجعہ کیا جائے تو دیکہیں گے کہ بہت سارے بزرگان اہلسنت نے صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ یہ آیت غدیر کے دن امیرالمومنین علیہ السلام کی امامت کے انتخاب کے لیے نازل ہوئی۔جیسا کہ جلال الدین سیوطی (جس کے بارے میں کہا گیا سیوطی کی موت سے علوم پیغمبر ﷺ بھی زمین میں دفن ہو گئے) نے کہا: یہ آیت غدیر خم کے دن امام علی علیہ السلام کو خلیفہ منتخب کرنے کے لیے نازل ہوئی۔

(الدر المنثور:۳/۶۳۶)

بزرگان اہلسنت میں سےفخررازی نے اپنی تفسیر میں جو روایات خلافت امیرالمومنین علیہ السلام سے مربوط ہیں ان کو مفہوم میں تبدیل کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔مگرجب اس آیت پر پہنچا تو کہا: یہ آیت ۱۸ ذی الحجہ کو امام علی علیہ السلام کے انتخاب خلافت کے لیے نازل ہوئی۔

(تفسیر کبیر:۱۲/۵۰)

واحدی نیشاپوری،

(اسباب النزول:۱۱۵)

شوکانی،

(فتح الغدیر:۲/۶۰)

ابی الفتح شھرستانی،

(ملل انحل:۲/۱۶۳ )

اور بہت سارے اہلسنت مفسرین نے واضح کہا ہے کہ یہ آیت شریفہ غدیرخم کےدن امیرالمومنین علیہ السلام کے انتخاب خلافت کےلیے نازل ہوئی۔

اسی طرح اس آیت کے بارے میں نقل ہوا ہے:

نزلت علی رسول الله صلی الله علیه و آله و سلم یوم الثامن عشر من شهر ذی الحجة عقیب حجة الوداع فی غدیر خم قبل تنصیب الإمام علی علما للناس لیکون خلیفته من بعده و ذلک یوم الخمیس ، و قد نزل بها جبرائیل(علیه السلام)بعد مضی خمس ساعات من النهار فقال : یا محمد إن الله یقرئک السلام و یقول لک: (یا أیها الرسول‌یا أیها الرسول بلغ ما أنزل إلیک من ربک ، و إن لم تفعل فما بلغت رسالته و الله یعصمک من الناس )

(الدر المنثور:۲/۲۹۸؛شواهد التنزیل:۱/۲۴۶؛الملل و النحل:۱/۱۶۳؛تفسیر الکبیر:۱۲/۵۰)

پیامبر ﷺ نےجب حضرت علی علیہ السلام کو اپنے بعد امام اور خلیفہ مقرر کیا تو اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔وہ جمعرات کا دن تھا اور دن کے پانچ گھنٹے گزرے تھے کہ جبرئیل پیغمبر ﷺ پر نازل ہوا اور کہا: خدا وند سلام کے بعد فرما رہا ہے کہ جو اپنے رب کی طرف سے آپ پر نازل ہوا اس کو پہنچا دو۔

اس آیت شریفہ کے بارے میں سوال ہے کہ خدا نے اپنے پیغمبراکرم ﷺ کو فرمایا:

(يَأَيهُّا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَ إِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَ اللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاس )

اس آیت کی بنا پر یہ کہنا درست ہے کہ پیغمبر ﷺ کسی سے ڈرتے تھے؟

کیا معصوم کے کسی چیز سے ڈرنے کو قبول کیا جا سکتا ہے؟

اس کے جواب میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ جب پیغمبراکرم ﷺ نے اپنے مکی دور میں ۱۳سال قریش کے ظلم و ستم کے مقابلے میں کوئی ردّ عمل نہیں دکھایا تو کیا اس وقت معصوم نہیں تھے؟

جب پیغمبراکرم ﷺ نےقتل کے ڈر سے غار میں پناہ لی اور وہاں سے اپنی ہجرت کا آغاز کیا ،کیا معصوم نہ تھے؟

کیا جب حضرت موسی نےقوم بنی اسرائیل کے ڈر سے فرار کیا تو معصوم نہ تھے؟

ان سوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ خوف اور عصمت کا ایک دوسرے سے کوئی ربط نہیں۔ائمہ اور انبیا معصوم ہیں یعنی خطا اور غلطی نہیں کرتے اور نہ ہی اپنے سب کام معجزہ سے کرتے ہیں۔قرآن زبان پیغمبر ﷺ میں فرما رہا ہے:

(قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكمُ‏ يُوحَى إِلى )

(کغف:۱۱۰ )

آپ کہ دیجیے کہ میں تمہارے ہی جیساایک بشر ہوں مگر میری طرف وحی آتی ہے۔

خدا نے کیوں فرمایا

(وَ اللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاس

پیغمبر ﷺ امرخلافت علی علیہ السلام میں کس چیز سے ڈرتے تھے؟ابن عباس نقل کرتے ہیں:

لمّا أمر رسول الله بِابلاغِ أمرالامامة ،قال انّ قومی قریبوا عهد بالجهالة،و فیهم تنافس و فخر وما منهم رجل الّا وقد وتره ولیهم و انّی أخاف فأنزل الله: (يَأَيهُّا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَ إِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَ اللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاس )

(شواهد التنزیل:۱/۲۵۵)

(جب پیغمبر ﷺ کو امر ولایت کے ابلاغ کا حکم ہوا ،آنحضرت ﷺ نے فرمایا :

میرے قبیلہ میں ابھی تک جا ھلیت کے آثار ختم نہیں ہوئے اور یہ شہرت اور مقام کے طلبگار ہیں ۔اسی طرح ان سب قبیلوں کے لوگ مختلف جنگوں میں حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں قتل ہوئے ،اور یہ حضرت علی علیہ السلام سے بغض و کینہ رکھتے ہیں ،اس لیے ڈر رہا ہوں۔تو اس وقت یہ آیت نازل ہوئی)

اسی طرح سیوطی نے لکھا:

ان رسول الله قال: ان الله بعثنى برسالة فضقت بها ذرعا وعرفت ان الناس مکذبى فَوَعدنِی لأبلّغنّ أو لَیُعذّبنی

(الدر المنثور:۲/۲۹۸)

پیامبر ﷺ نے فرمایا: جب مجھے ولایت کے ابلاغ کا حکم ہوا ،جانتا تھا کہ لوگ مجھے جھٹلائیں گے ۔خدا نے بھی حکم دیا، یا خدا کے حکم کو انجام دو نہیں تو تمہیں عذاب ہو گا۔

وہ لوگ جو ایک عام سے عبادی اور فقہ ی حکم میں پیغمبر کے مقابلے میں کھڑے ہو گئے کہ عائشہ نے پیغمبر ﷺ سے کہا:

فقلت من آغضبک یا رسول الله،آدخله الله النار،

توکیا توقع نہیں کی جا سکتی کہ اس قدر اہم حکم میں پیغمبرﷺ کے مقابل کھڑے ہوں؟

صحیفہ ملعونہ کا واقعہ

شیعہ کتابوں میں صحیفہ ملعونہ کے بارے میں ایک بحث پائی جاتی ہے یہ صحیفہ ، بارہ یا اٹھارہ اصحاب کا عہد نامہ ہے جو واقعہ غدیر کے بعد لکھا گیا ہے ۔ان لوگوں نے آپس میں عہد کیا کہ علی کو خلیفہ پیغمبر ﷺ نہ بننے دیا جائے۔ انہوں نے ایک عہد نامہ لکھ کر عثمان کو دیا تا کہ وہ اسے مکہ میں مخفی کر دے۔عمر کی خلافت کے آخر میں یہ عہدنامہ فاش ہوا اور یہ اہلسنت کی کتابوں میں بھی درج ہے۔

(سنن نسائی: ۲/۸۸؛مستدرک:۲/۲۲۶؛معجم الاوسط:۷/۲۱۷؛بحار الانوار:۱۰/۲۹۷)

البتہ ممکن ہے کہ بعض لوگوں کے ذہن میں یہ سوال ہو کہ پیغمبراکرم ﷺ نے علم غیب سے استفادہ کیوں نہیں کیا اور اپنے ان اصحاب کے باطن کے بارے میں دوسروں کو بتاتے تاکہ بعد میں انحراف کا باعث نہ ہو؟

اس سوال کا جواب قرآن کی آیات میں ہے۔خدا وند منافقین کے بارے میں فرماتا ہے:اے پیغمبر ﷺ؛ اطراف مدینہ کچھ منافقین ہیں کہ

(لاتَعلَمهم نَحنُ نَعلَمهم )

(توبه:۱۰۱)

تم ان کو نہیں جانتےمگر ہم جانتے ہیں۔

خدا نے مصلحت کی بنا پر پیغمبراکرم ﷺ کو ان کے بارے میں نہیں بتایا۔

اسی طرح جنگ تبوک سے واپسی پر بارہ صحابیوں نے پیغمبراکرم ﷺ کو پہاڑ سےنیچے گرانے اور آپ کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔حذیفہ کہتا ہے:میں نے ان کو دیکھا اور پہچانتا ہوں۔عمار بن یاسر نے بھی کہا میں نے انکو دیکھا اور پہچانتا ہوں۔حذیفہ نے پیغمبراکرم ﷺ سے اجازت طلب کی تاکہ ان کو رسوا کرے۔مگر پیغمبراکرم ﷺ نے اجازت نہیں دی اور فرمایا:میں نہیں چاہتا کہ یہ شایع ہو کہ محمدﷺ تلوار سے اپنے اصحاب کو قتل کر رہے ہیں۔

(رک المحلی:۱۱/۲۲۴)

واقعہ غدیر کے متعلق آیات میں سے ایک اور آیت

(الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَ أَتمْمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتىِ وَ رَضِيتُ لَكُمُ الْاسْلَامَ دِينٔا )

(مائده۳ )

ہے اس آیت کے بارے میں کہا گیا ہے کہ جب پیغمبر ﷺعلی علیہ السلام کی خلافت کا اعلان کیا تو یہ آیت نازل ہوئی۔

(الاتقان:۱/۳۱؛تاریخ یعقوبی:۲/۳۵؛تاریخ بغداد:۸/۲۹۰؛الدر المنثور:۲/۲۵۹؛تاریخ ابن عساکر:۲/۷۵؛تذکره الخواص:۲۳۰؛تفسیر ابن کثیر: ۲/۱۴؛شواهد التنزیل: ۱/۱۵۷؛)

البتہ اس آیت کے نزول کے دن کے بارے میں اور بھی اقوال ہیں جن میں سے بعض کی طرف اختصار سے اشارہ کریں گے۔بعض اہلسنت کہتے ہیں کہ الیوم سے مراد روز بعثت یا روز فتح مکہ ہے ۔بعض کہتے ہیں اس سے مراد قرأت سورہ برأت ہے مگر اہلسنت کی اس کے بارے میں اہم ترین مستند صحیح بخاری کی عبارت ہےجو خلیفہ دوّم کا قول ہے:

عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه أن رجلا من اليهود قال له: يا أمير المؤمنين آية في كتابكم تقرؤونها، لو علينا معشر اليهود نزلت لاتخذنا ذلك اليوم عيد ا قال أي آية؟ قال : (اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم الإسلام دينا ). قال عمر: قد عرفنا ذلك اليوم والمكان الذي نزلت فيه على النبي صلى الله عليه وسلم، وهو قائم بعرفة، يوم جمعة

(صحیح بخاری: ۱/۱۶)

ایک یہودی خلیفہ دوم کےپاس آیا اور کہا:یا امیرالمومنین تمہاری کتاب میں ایک آیت ہےجسکوآپ پڑھتے ہیں اگر وہ ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید کا دن قرار دیتے۔خلیفہ نے کہا : کونسی آیت؟یہودی نے آیت اکمال کو پڑھا وخلیفہ نے کہا: مجھے پتہ ہے کہ یہ کس جگہ نبی ﷺ پر نازل ہوئی۔یہ آیت جمعہ کے دن عرفات میں نازل ہوئی ہے۔

لیکن یہ حدیث صحیح نہیں ہو سکتی کیونکہ عرفہ کے دن اگر جمعہ ہوتا تو پیغمبر ﷺ حتما نماز جمعہ پڑھاتے مگر کسی بھی روایت میں نہیں کہ پیغمبر ﷺ نے عرفہ کے دن نماز جمعہ پڑھائی۔اس سے واضح ہو گیا کہ یہ ضعیف اور مرسل روایت ہے۔

اس کے علاوہ اہلسنت کی بہت سی کتابوں میں ہے کہ عرفہ پیر کو تھا ۔

(تفسیر ابن کثیر:۲/۱۴؛الدر المنثور:۲/۲۵۸؛المعجم الکبیر:۱۲/۱۸۳)

اور یہ خلیفہ دوم کے قول کے برعکس ہے جو آیہ الیوم کے روز جمعہ کے نزول کے معتقد ہیں۔صحیح مسلم نے بھی اہلسنت کے مشہور فقیہ سفیان ثوری کے قول کو نقل کیا ہے جو کہتے ہیں:

و أشُکَ کانَ یَوم الجمعة أم لا

(صحیح مسلم:۸/۲۳۸)

مجھے شک ہے کہ یہ آیت جمعہ کے دن نازل ہوئی ہو۔

اسی طرح عمر ابن لخطاب نے کہا: یہ آیت عرفہ کے دن نازل ہوئی اور دین کامل ہوا۔اس آیت کے بعد احکام الھی سے کوئی بھی حکم نہیں آیا۔حالانکہ خود اس سے نقل ہوا ہے کہ آیت ربا ،عرفہ کے بعد نازل ہوئی اور آیت کلالہ بھی آیت شریفہ

(الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ )

کے بعد نازل ہوئی۔

(مسند احمد:۱/۳۶)

البتہ آیہ اکمال کے بارے میں ایک سوال مطرح ہوتا ہے کہ

(يَأَيهُّا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ )

سورہ مائدہ کی ۶۷ نمبر آ یت ہے اور

(الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ )

اس سورہ کی تیسری آیت ہے ۔

کیسے پہلے دین مکمل ہوا اور بعد میں ابلاغ ہوا؟

اس سوال کا جواب واضح ہے کیونکہ آیات کی ترتیب نزول کے مطابق نہیں ہے بہت سی آیات مکہ میں نازل ہوئیں لیکن ان کو مدنی سوروں میں لکھا گیا ہے اور اس کے برعکس ۔

قرآن کےعلاوہ دوسرے ادیان کی آسمانی کتابوں میں بھی واقعہ غدیر کی بشارت دی گئی ۔جیسے روایت میں ہے کہ پیغمبراکرم ﷺ کی رحلت کے بعد کچھ یہودی حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں آئے اور کہا ہم نےسابقہ کتابوں میں پڑھا ہے کہ پیغمبرآخرالزمان کے وصی کا نام علی ہے ۔اہلسنت کی کتابوں میں جیسے ینابیع المودۃ اور فرائدالسمطین میں پانچ اور رایات بھی اس موضوع پر ہیں ۔

علما اہلسنت اور حدیث ، غدیر

حدیث غدیر کی دلیل کے بارے میں شبہات میں سے بنیادی شبہ یہ ہے کہ مولا بروزن مفعل اور اولی اور افعل کے معنی کے لیے نہیں ہے۔ اگر پیغمبراکرم ﷺ فرماتے

'' مَن کُنتُ أولی به، فَعَلیّ أولی به ، یا '' مَن کُنتُ وَلِیّه، فَعَلیّ وَ لِیّه ،،

تو قبول کر لیتے کیونکہ '' اولی بہ" ولایت امر اور امامت کے معنی میں ہے۔ لیکن پیغمبراکرم ﷺ نے فرمایا:

مَن کنتُ مولاه فعلی مولاه

مولا کے بہت سارے معنی ہیں اور ان میں سے ایک محبت اور نصرت ہے ۔

اس لیے پیغمبراکرم ﷺ کا مقصد ہے کہ جو بھی مجھ سے محبت کرتا ہے وہ علی علیہ السلام سے بھی محبت کرے۔، جو بھی میرا مددگار ہے وہ علی علیہ السلام کی بھی مدد کرے۔

شیعہ اس کے جواب میں کہتے ہیں :

۱ ۔ ہم وہ روایات جن میں

'' مَن کنتُ مولاه فعلی مولاه،،

آیا ہے ان سے صرف نظر کرتے ہوئے اہلسنت کی کتابوں سے ایک اور عبارت نقل کرتے ہیں۔اہلسنت کی کتابوں میں ہے کہ پیغمبراکرم ﷺ نے فرمایا:

أَلَسْتُ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ من أَنْفُسِهِمْ قالوا بَلَى قال فَهَذَا وَلِيُّ من أنا مَوْلَاهُ

(سنن ابن ماجه:۱/۴۳؛سیرهالنبویه؛ابن کظیر:۴/۴۱۷؛البدایه والنهایه:۵/۲۲۹؛تاریخ بغداد:۴/۲۳۶؛تفسیر طبری:۳/۴۲۸)

کیا میں تم سے زیادہ تم پر ولایت نہیں رکھتا ؟ کہا : ہاں تو فرمایا: یہ (علی علیہ السلام ) ہر اس کا ولی ہے جس کا میں مولا ہوں ۔

اسی طرح فرمایا:

مَن کنتُ مولاه فهذاعلی ولیه

(اسد الغابه:۱/۳۰۸)

جس جس کا میں مولا ہوں،علی اس کا ولی ہے ۔

زید بن ارقم نے پیا مبر اکرم سے روایت کی ہے:

مَن کنتُ ولیه فهذاعلی ولیه

( خصائص:۹۳؛فضائل الصحابه:۱۴)

جس جس کا میں ولی ہوں،علی اس کا ولی ہے ۔

اسی طرح روایت میں ہے:

مَن کُنتُ أولی به من نفسه،فَعلیّ ولیّه

(مجمع الزوائد:۹/۱۶۴)

جو بھی مجھے جان سے زیادہ اولی رکھتا ہے علی اس کا ولی ہے۔

۲- ایک بزرگ اہلسنت نے کہا: کسی بھی لغت کی کتاب میں یہ دعوی نہیں کیا گیا کہ کلمہ مولا کا معنی اولی ہے

حالانکہ عربی ادب کے بنیادگذار ،جیسے کعبی، زجّاج، ابو عبیدہ، اخفش،اور مبرقع کہتے ہیں کہ مولی کے معانی میں سے ایک اولی ہے۔

(ر ک تفسیر اکبیر:۲۹/۲۲۷)

اسطرح ایک اور قرینہ سے بھی مشخص ہو جاتا ہے کہ مولا ،اولی بنفس کے معنی میں ہے پیغمبراکرم ﷺ کا وہ جملہ جس کے ذریعے لوگوں سے اعتراف لیا

الَستُ أولی بکم من أنفُسکم؟

کیا میں تم سے زیادہ تم پر ولایت نہیں رکھتا؟

اس سےمعلوم ہو جاتا ہے کہ کلمہ مولا کا مورد نظر معنی بھی اولی ہے۔

ایک اور دلیل وہ اشعار ہیں جو غدیر خم کے بعد کہے گئے۔حسان بن ثابت ایک مشہور شاعر ہیں جنہوں نے یہ اشعار پڑھے

ینادیهم یوم الغدیر نبیهم بخم و اکرم بالنبی منادیا

تا

فقال له: قم یا علی فاننی رضیتک من بعدی اماما و هادیا

(نظم در السمطین:۱۱۳)

پیغمبر نے فرمایا:یا علی اٹھو میرے بعد لوگوں کے امام اور ہادی آپ ہیں۔

اگر مولا بمعنی امام نہ ہوتا توحسان بن ثابت کو کیسےمعلوم ہوا کہ پیغمبراکرم ﷺ نےحضرت علی علیہ السلام کو امت کے لیے ھادی اور امام قرار دیا؟

ایک اور دلیل کہ پیغمبر ﷺ اسلام نے خطبہ غدیر میں لوگوں سے وحدانیت خداوند، اپنی رسالت اور معاد کی شہادت لی۔اگر مولی بمعنی امام اور رہبر نہ ہوتا ،جو کہ دین اسلام کے ارکان میں سے ہے تو آنحضرت کا توحید،نبوت، اور معاد کا ذکر کرنا مناسب نہ تھا۔

اس کے علاوہ جب نبی مکرم اسلام نے حضرت علی کو خلافت کے لیے منصوب کیا تو فرمایا:

اللّه اکبر علی اکمال الدّین و اتمام النّعمة و رضی الرّبّ برسالتی و بالولایة لعلیّ (ع)من بعدی

(شواهد التنزیل:۱/۲۰۲؛مسند احمد:۶/۴۸۹؛صحیح ترمذی:۵/۵۹۰؛سنن کبری:۵/۴۵ )

اللہ بہت بڑا ہے کہ جس نے دین کو کامل کیا اور نعمات کو تمام کیا اور میری رسالت اور میرے بعد علی کی ولایت پر راضی ہوا۔

اہل سنت کے ساٹھ مصادر میں نقل ہوا ہے کہ خلیفہ اول اور دوم غدیر کے دن،سب سے پہلے حضرت علی علیہ السلام کو مبارک باد دی:

هنياء يا بن أبي طَالِبٍ أَصْبَحْتَ وَأَمْسَيْتَ مولى كل مُؤْمِنٍ وَمُؤْمِنَةٍ.

(مسند احمد:۴/۲۸۱؛شواهد التنزیل:۱/۲۰۱و۲۰۲؛تفسیر کبیر:۱۲/۴۹؛الغدیر:۱/۲۷۲)

اے ابو طالب علیہ السلام کے بیٹے مبارک ہو کہ آپ میرے اور ہر مؤمن مرد و عورت کے مولا بنے ہو۔

ذہبی نے ابو حامد کے شرح حال میں کہا ہے:

ذكر أبو حامد الغزالي في كتاب سر العالمين وكشف ما في الدارين ألفاظا تشبه هذا. فقال قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم لعلي يوم غدير خم: من كنت مولاه فعلي مولاه. فقال عمر بن الخطاب: بخ بخ يا أبا الحسن أصبحت مولاي ومولى كل مؤمن ومؤمنة. قال: وهذا تسليم ورضى وتحكيم، ثم بعد هذا غلب الهوى حبا للرياسة وعقد البنود وخفقان الرايات وازدحام الخيول في فتح الأمصار وأمر الخلافة ونهيها، فحملهم على الخلاف (فنبذوه وراء ظهورهم واشتروا به ثمنا قليلا فبئس ما يشترون )

(سیره اعلام النبلا ً ۱۹/۳۲۸؛تذکرة الخواص:۶۲ )

ابو حامد غزالی نے کتاب سرّ العالمین میں حدیث ''جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے،،کے بارے میں کہا: عمر نے حضرت علی علیہ السلام سے کہا: بخ بخ آپ آج سے میرے اور ہر مومن اور مومنہ کے مولا ہیں ،عمر نے در حقیقت اس عبارت سے ولایت علی علیہ السلام کو تسلیم کیا اور اس کی رضایت دی۔مگر اس واقعہ کے بعد اس پر خواہشات نفسانی کا غلبہ ہو گیا،اور ریاست طلبی، اور مقام خلافت کے حصول ،اور حکومت کے لیے امر خلافت میں حضرت علی علیہ السلام کی مخالفت کی اور فرمان پیغمبر کی اعتنا نہیں کی ،پیامبر کے فرمان کے مقابلے میں ایک معمولی سی حکومت کو ترجیح دی۔کتنا برا معاملہ کیا،،