تیسری فصل
مسئلہ ولایت کے متعلق آیات اور روایات
اس باب میں کلی طور پر دو مطلب کی طرف اشارہ کیا ہے پہلے حصے میں مسئلہ ولایت کے متعلق بعض آیات اور روایات کی طرف اشارہ کریں گے اور دوسرے حصے میں ولایت علی علیہ السلام پر عقلی دلائل پیش کریں گے۔
پہلے حصے میں یہ آیات اور روایات شامل ہیں
۱۔ آیت مباہلہ
۲۔آیت تطہیر
۳۔۷۳ فرقہ والی حدیث
۴۔حدیث ثقلین
۵۔حدیث سفینہ نوح
۶۔حدیث خلفائے اثنی عشرہ
۷۔حدیث منزلت
۸۔حدیث یوم الدار
۹۔حدیث مدینہ العلم
آیت مباہلہ
ہم قرآن میں پڑھتے ہیں کہ جب پیغمبرﷺ نجران کےنصرانیوں کےپاس گئے جومباہلہ کےلئےآئےتھے تو آپ نے فرمایا:
(فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَ أَبْنَاءَكمُ وَ نِسَاءَنَا وَ نِسَاءَكُمْ وَ أَنفُسَنَا وَ أَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتهل
)
اہل سنت کے سب بزرگان نے اعتراف کیاہے کہ انفسنا اور انفسکم سے مراد علی ابن ابی طالب ؑ ہیں ۔
اس دن سب یہ دیکھنے کےلیے آئے کہ پیغمبراکرم ﷺ مباہلہ کے لیے کن کو ساتھ لے جاتے ہیں ۔
وہابیت کا بنیادگزار کہتا ہے کہ پیغمبراکرم ﷺ کی بیویوں میں سے عائشہ ،حفصہ اور ام سلمہ کے ہونے کے باوجودپیغمبراکرمﷺ فقط حضرت زھرا علیہا السلام کو اپنے ساتھ لے گئے اور اصحاب میں سے ابوبکر ، عمر،عثمان کے ہونے کے باوجود حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ تھاما اورمباہلہ کےلیے لے گئے اور فرزندان میں سے حسن اور حسین علیہمالسلام کے علاوہ کسی کو نہیں لے گئے ۔
یہاں پیغمبراکرم ﷺ نے اپنی نبوت اور رسالت کےلیے حضرت علی علیہ السلام کے وجود مقدس سے استفادہ کیا
وہ محبوب ہستی جو پیغمبر کی نبوت کے اثبات کے لیے شائستہ ہے وہی آنحضرت ﷺ کی رسالت و خلافت کے استمرار کے لیے شائستہ تر ہے۔
آیت تطہیر
عصمت امیر المومنین علیہ السلام پر بہترین دلیل آیت شریفہ تطہیر ہے:
(إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكمُ تَطْهِيرٔا
)
صحیح مسلم اور بخاری میں ہے کہ جب آیت تطہیر نازل ہوئی تو پیغمبراکرم ﷺ نےحضرت علی ، زھرا ، حسن اور حسین علیہم السلام پر چادر اوڑھ کر آیت تطہیر کی تلاوت فرمائی اور فرمایا یہ میرے اہل بیت ہیں ۔
خدا کا اہلبیت کو گناہ سے دور رکھنے کا ارادہ قطعا تشریعی نہیں ہو سکتا کیونکہ خدا کا ارادہ تشریعی سب مسلمانوں کی طہارت اور ہدایت ہے اس لیے یہ ارادہ تکوینی ہے اور ارادہ تکوینی خداوند ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اسی طرح پیغمبراکرم ﷺ کی ایک اور حدیث جو عصمت علی علیہ السلام پر دلالت کرتی ہے آپ نے فرمایا:
عَلِيٌّ مَعَ الْحَقِّ وَ ا لْحَقُّ مَعَ عَلِيٍّ "
علی حق کے ساتھ ہے اور حق علی کے ساتھ ہے
یا
عَلِیٌّ مَعَ القُرآنِ وَ القُرآنُ مَعَ عَلِیٍّ،
علی قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی کے ساتھ ہے
من اقتدى في دينه بعلي بن أبي طالب(عليه السلام)فقد اهتدى، لقول النبی: اللهم أدر الحق مع علي حيث دار
جس نے بھی علی علیہ السلام کے دین کی اقتدا (پیروی) کی اس نے ہدایت پا لی۔کیونکہ پیغمبراکرم ﷺ نے فرمایا:خدایا ہمیشہ حق کو علی علیہ السلام کے گرد قرار دے
ام سلمہ سے روایت ہے کہ پیغمبراکرم ﷺ نے فرمایا :
عَلِیٌّ مَعَ القُرآنِ وَ القُرآنُ مَعَ عَلِیٍّ، لَن یَفتَرِقا حَتّى یَرِدا عَلَیَّ الحَوضَ
اہلسنت کے نزدیک یہ قائدہ ہے کہ اگر حاکم نیشاپوری یا ذہبی کوئی روایت نقل کرتاہے تو وہ صحیح ہے ایسے ہے جیسےصحیح بخاری اورمسلم میں وارد ہوئی ہے)۔
علی قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی ساتھ ہے قرآن علی سے جدا نہ ہوگا یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملیں گے
البتہ یہ سوال ہو سکتا ہے کہ یہ روایت
" عَلِيٌّ مَعَ الْحَقِّ وَ ا لْحَقُّ مَعَ عَلِيٍّ "
عمار کے بارے میں بھی وارد ہوئی ہے
اس سوال کے جواب میں یہ واقعہ نقل کرنا مناسب ہو گا
علامہ امینی کے زندگی نامہ میں ہے کہ آپ نے بغداد میں ڈاکٹر اعظمی بغداد یونیورسٹی کے نائب پرنسپل سے ملاقات کی۔علامہ امینی نے حضرت علی علیہ السلام کے متعلق تمام اشعار کو جمع کیا اور ڈاکٹر اعظمی نے بھی اس بارے شعر لکھے تھے اس لیے علامہ امینی ان کے پاس گئے۔
اس ملاقات میں علامہ امینی نے ڈاکٹراعظمی سےحضرت علی علیہ السلام کےبارےمیں تالیفات کےبارے پوچھا تو ڈاکٹراعظمی نے کہا میں نے تین روایات پرتحقیق کی اور یہ تحقیق میری عمر بھر کا سرمایا ہے ان میں سے ایک روایت ہے۔
اس نےاس بارےبہت ساری توضیح دی، اس کے متن، سند اور دلالت کے بارے میں بتایا
علامہ امینی نے ان سے پوچھا ؛ کیا یہ تصور کرتے ہو کے یہ روایت فقط حضرت علی علیہ السلام کے بارے وارد ہوئی ہے ۔ ڈاکٹر اعظمی نے کہا ،ہاں ۔ علامہ امینی نے فرمایا ؛یہی حدیث عمار کے بارے بھی ہے
" عَمار مَعَ الْحَقِّ وَ الْحَقُّ مَعَ عَمار
اور اس کی سند اہل سنت کی کتابوں میں بھی ہے؛ اعظمی صاحب نے تعجب سے کہا ، آقای امینی آپ نے میری زندگی کا تیسرا حصہ تباہ کر دیا ،مجھے یقین تھا کہ یہ روایت فقط حضرت علی علیہ السلام کی شان میں ہے ۔
علامہ امینی نے فرمایا؛ ٹھیک ہے یہ روایت عمار کے بارے میں بھی ہے مگر ان دونوں میں بہت زیادہ فرق ہے ،عمار کے بارے میں ہے"
عَمار مَعَ الْحَقِّ وَ الْحَقُّ مَعَ عَمار تدور عمار مع الحق
عمار حق کے ساتھ ہے اور حق عمار کے ساتھ ہے عمار ہمیشہ حق کے گرد گھومتا ہے
لیکن حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں ہے
عَلِيٌّ مَعَ الْحَقِّ وَ الْحَقُّ مَعَ عَلِيٍّ، یدور الحق مع علی
علی حق کے ساتھ ہے اور حق علی کے ساتھ ہے اور حق ہمیشہ علی کے گرد گھومتا ہے ڈاکٹر اعظمی نے یہ سنتے ہی کہا کہ اس کلام کے احترام میں کھڑا ہونا اور بیٹھنا چاہیے ،اور وہ اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ اٹھے اور پھر بیٹھے۔
حدیث ۷۳ فرقے
ولایت امام علی علیہ السلام کے بارے میں احادیث میں سے ایک ؛ امت کا ۷۳ فرقوں میں تقسیم ہونے والی حدیث ہے ۔ شیعہ اور اہلسنت کی معتبر کتابوں میں پیغمبراکرم ﷺ سے نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا
تفترقت اليهود على إحدى وسبعين فرقة،و النصارى على اثنتين وسبعين فرقة، وتفترق امتی على ثلاث وسبعين فرقة كلها في النار إلا واحدة، قيل: من هي يا رسول الله؟ قال ما أنا عليه وأصحابي
امت یہود اکہتر ( ۷۱) فرقے ،نصاریٰ بہتر ( ۷۲) فرقے اورمیری امت تہتر( ۷۳) فرقوں میں تقسیم ہوگی۔ ان میں سے ایک کے علاوہ سب اہل آتش جہنم ہوں گے جب پوچھا گیا کہ نجات پانے والا فرقہ کون سا ہوگا تو آپ نے فرمایا : وہ گروہ جس میں، میں اور میرے اصحاب ہیں ۔
یہ روایت شیعہ
کے علاوہ اہلسنت
کی معتبر کتابوں میں بھی ذکر ہوئی ہے البتہ اس حدیث کے بارے میں اہم سوال یہ ہے کہ فرقہ ناجیہ کون سا ہے ؟ مسلمانون میں جو فرقے ہیں مثلا حنبلی ، شافعی ،مالکی ،اسماعیلی اور شیعہ ، ان میں کون سا فرقہ ناجیہ ہے ؟
تمام فرقے ناجیہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں
اور وہ اسی روایت سے استدلال کرتے ہیں جب حضرت سے پوچھا گیا کہ ناجیہ کون سا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا ؛
جس میں، میں اور میرے اصحاب ہیں
اور شیعہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ علی اور ان کے اصحاب جس فرقے میں نہ ہوں گے وہ قطعا نجات یافتہ نہیں ہے
ابن حزم اندلسی کہتا ہے کہ "
ولعنة الله علی کل اجماع خرج عنه علی ابن ابی طالب علیهما السلام و من حضره مِن الصحابة
ایسے اجماع پہ لعنت ہے جس میں علی اور اس کے دوست نہ ہوں
وہ خصوصیات جو مکتب اہل بیت کے علاوہ کسی مذہب میں نہیں شیعہ ان خصوصیات کی بنا پر اعتقاد رکھتے ہیں کہ فقط اس مذہب کے پیروکار ہی اہل نجات ہیں ۔
اس کی پہلی دلیل،حدیث ثقلین
پیغمبراکرمﷺ ؐ نے فرمایا
: إِنِّی تَارِکٌ فِیکُمُ الثَّقَلَیْنِ کِتَابَ اللَّهِ وَ عِتْرَتِی؛ أَهْلَ بَیْتِی ، نْ تَمَسَّکْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلوا بعدی
''میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں کتاب خدا اور میرے اہلبیت،اگر کسی نے ان دونوں سے تمسک رکھا تو گمراہ نہیں ہوگا،،
اہلسنت کی روایی ، فقہی ، کلامی اور تفسیری کتابوں کی طرف مراجعہ کرنے سے آرام سے پتہ چل سکتا ہے کہ وہ اصلا اہلبیت کے سراغ میں نہیں گئے۔صحیح بخاری جو کہ اہلسنت کی صحاح ستہ میں سے ہے اس میں حضرت علی علیہ السلام سے انتیس ۲۹ جبکہ ابوھریرہ جوکہ فقط ڈیڑھ سال پیغمبراکرم ﷺکے ساتھ رہا ، ایک سو اسی ۱۸۰ روایات ذکر کی گئی ہیں ۔
ابو ھریرہ کہتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام بچپن سے لے کر تمام سفر اورجنگوں میں پیغمبراکرم ﷺ کے ساتھ تھےاور آنحضرت کی رحلت تک آپ کے ساتھ تھے اگر علی علیہ السلام پیغمبراکرم ﷺ سے ہرروز ایک روایت بھی لیتے تو حضرت علی علیہ السلام کے پاس بارہ ہزار حدیث ہونی چاہیے ۔
لیکن اگر اہلسنت کی روایی کتابوں میں دیکہیں تو حضرت علی علیہ السلام سے پانچ سو سے زیادہ روایات نہیں ہے
اس کے علاوہ امام حسن و امام حسین علیہما السلام سے ایک حدیث بھی صحیح بخاری میں نہیں
شاید بعض لوگ کہیں کہ امام حسن اور امام حسین علیہما السلام چھوٹے تھے اس حد تک نہیں تھے کہ ان سے حدیث نقل کی جاتی ، لیکن عبداللہ بن زبیر جس کا امام حسن علیہ السلام کی عمر میں صرف چھ ماہ کا فرق ہے اس سے بہت ساری روایات نقل ہیں ۔
حضرت صدیقہ طاھرہ علیہا السلام سے پوری صحیح بخاری میں صرف ایک روایت ہے لیکن عایشہ سے دو سو اسی ۲۸۰ روایات ذکر ہیں۔
اگرچہ بخاری امام ھادی اور امام حسن عسکری علیہ السلام کے ہم عصر ہونے کےباوجود ایک روایت بھی ان دو بزرگوار سے نقل نہیں کی۔یہاں تک کہ ابوحنیفہ اور مالک ، امام صادق علیہ السلام کے شاگرد ہونے کے باوجود امام باقر اور امام صادق علیہما السلام سے ایک رویت بھی نقل نہیں ہوئی ۔ اس بنا پر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ حدیث ثقلین اور کتاب اور اہلبیت سے تمسک فقط شیعوں پر منطبق ہوتا ہے
اسی طرح اہل سنت کی کتابوں میں معتبر اسناد کے ساتھ بہت سی روایات ہیں کہ پیغمبراکرم ﷺ نے فرمایا:
يا علي أنت و شيعتک هم الفائزون،،
یا علی آپ اور آپ کے شیعہ ہی اہل نجات ہیں ۔
ایک اور روایت میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا :
" والذي نفسي بيده إن هذا وشيعته هم الفائزون
اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے یہ علی اور ان کے شیعہ اہل نجات ہیں
اس حدیث سے پتہ یہ چلتا ہے کہ فرقہ ناجیہ کا نمونہ شیعہ میں ہے کیونکہ پیغمبراکرم ﷺ نے بشارت (خوشخبری) دی ہے کہ علی علیہ السلام اور اس کے شیعہ اہل نجات ہیں ۔
حدیث سفینہ نوح
پیغمبراکرمﷺ نے فرمایا : "
مَثَلُ أهلِ بَيتي فيكُم كمَثَلِ سَفينَةِ نُوحٍ ، من رکبها نجي وَمَن تَخَلّفَ عَنها هَلَكَ
میرے اہلبیت کی مثال کشتی نوح جیسی ہے جو بھی اس پر سوار ہوا اس نے نجات پائی اور جس نے منہ موڑا (اس سے روگردانی کی ) وہ غرق ہوا ۔
حاکم نیشاپوری نے ایک بہت ہی خوبصورت روایت نقل کی ہے کہتا ہے کہ حدیث صحیح ہے اور اس صحیح ہونے میں کوئی شبہ نہیں کہ پیغمبراکرمﷺ نے فرمایا :
النجوم امان لأهل الارض من الغرق، و اهل بيتى امان لامتى من الاختلاف، فاذا خالفتها قبيلة من العرب اختلفوا فصاروا حزب ابليس.
آسمان کے ستارے لوگوں کو غرق ہونے سے نجات کا باعث بنتے ہیں اسی طرح میرے اہل بیت بھی امت کی ہدایت اورنجات کا باعث بنتے ہیں وہ قبیلہ یا گروہ جو میرے اہلبیت سے مخالفت کرے گا وہ شیطانی گروہ ہے
ان سب دلائل سے اہم دلیل صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کی ذات ہے جوشیعیت کی حقانیت کےلیے بہترین سندہے ۔اہل سنت کی کتابوں میں روایت ہے
من مات ولم يعرف إمام زمانه مات ميتة جاهلية
یہ روایت اہلسنت اور شیعہ کی کتابوں میں مختلف طریقوں سے وارد ہوئی ہےمثلا شیعہ کتب میں
من مات ولم یعرف امام زمانه مات میتة الجاهلیة)
جوبھی امام کے بغیر مرجائے وہ جاہلیت کی موت مرا ۔ اسی طرح کہا گیا ہے کہ حضرت صدیقہ طاھرہ نے اپنی رحلت تک ابوبکر کی بیعت نہیں کی ۔صحیح مسلم اور بخاری میں ہے
توفی فاطمه و هی عن ابی بکر غضبان و لم تکلمه حتی ماتت ،،
اسی طرح یہ بھی نقل ہےکہ ابوبکر اورعمرحضرت فاطمہ علیہا السلام سے ان کی رضایت لینے کے لیے ان کےگھرآئےتو آپ نےان دونوں سے پوچھا ،خدا کی قسم کیا تم نے میرے باپ سے نہیں سنا کہ فرمایا:فاطمہ علیہا السلام میرا حصہ ہے جس نے اسے اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی ؟
انہوں نے کہا، ہاں ۔
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے فرمایا : خدا اور ملائکہ کو گواہ بنا کے کہتی ہوں کہ تم نے مجھے اذیت دی اور میں تم پر راضی نہیں ہوں ۔
صحیح مسلم اور بخاری میں وارد ہوا کہ حضرت زھرا نے وصیت کی کہ ان کو رات کے وقت دفن کیا جائے اور ابوبکر اور دوسروں کو میرے جنازے میں شریک نہ ہونے دیا جائے۔
اس حدیث پر غور کریں تو کیا قبول کیا جا سکتا ہے کہ حضرت فاطمہ زھرا علیہا السلام امام کے بغیر اس دنیا سے رحلت کی؟ یا کہا جا سکتا ہے کہ حضرت فاطمہ زھرا علیہا السلام، ،ابوبکرکو اپنا امام نہیں مانتی تہیں اس لیے اس کی بیعت نہیں کی؟
اس حدیث
من مات ولم يعرف إمام زمانه مات ميتة جاهلية
کی طرف توجہ کریں توسوال یہ ہوتا ہے کہ اہلسنت کا اس زمانے کا امام کون ہے؟اگر یہ کہیں کہ ہر ملک کا لیڈر امام زمان ہے اور اس کی بیعت کرنی ضروری ہے ،تو کہا جائے گا کہ صحیح مسلم میں ہے کہ ہر زمانے میں ایک سے زیادہ امام کا وجود نہیں۔
اذا بویعَ خلیفتین، الخلیفة الاولی،فاقتلو ا الأخر منهما
اگر ایک ہی زمانے میں دو امام کی بیعت کی جائے توواقعی پہلا امام واقعی ہے اور دوسرے امام مار دیا جائے۔
حدیث
(من مات بلا امام مات میتة جاهلیة)
کے بارے میں نقل ہے کہ عبد اللہ بن عمر جس نے امیر الموًمنین کی بیعت نہیں کی تھی فقط وہاں جس نے مدینہ پر حملہ کرنےکےلیے یزید کی حمایت کی؛ ایک رات اسے یاد آیا کہ پیامبر اکرم نے فرمایا:
من مات بلا امام مات میتة جاهلیة
تو فورا تاریخ کے ظالم ترین شخص حجاج بن یوسف کے پاس گیا اور کہا:مجھے یہ حدیث یاد آئی ہے اس لیے آپ کے ہاتھوں بہ عنوان تام الاختیار نمایندہ عبد الملک کی بیعت کروں تاکہ اگر رات کو مر جاوًں تو اس حدیث کا مصداق نہ بنوں ،حجاج جو کہ بستر پر لیتا ہوا تہا اپنے پاوًں کو اٹہایا اور کہا:میرے ہاتھ مصروف ہیں میرے پاوًں سے بیعت کر لو۔
حدیث خلفائے اثنی عشر
ولایت امام علی علیہ السلام کے اثبات کےلیے ایک روایت حدیث خلفائے اثنی عشر ہے صحیح مسلم ،صحیح بخاری،سنن ابن ماجہ ،صحیح ترمذی و نسائی میں ہے کہ پیغمبراکرم ﷺ ص نے فرمایا :
لَا يَزَالُ الْإِسْلَامُ عَزِيزٔا إِلَى اثْنَيْ عَشَرَ خَلِيفَةٔ
میرے بارہ خلیفہ ہیں اور دین کی سرفرازی ان سے ہے
اب سوال یہ ہے کہ پیغمبراکرم ﷺ کے بارہ خلیفہ سے کون مراد ہیں بعض اہل سنت اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ خلفائے راشدین چار ہیں پانچویں امام حسن چھٹا معاویہ اور ساتواں یزید ہے یہاں پر یہ سوال ہوتا ہے کہ یزید جیسا شخص جس نے امام حسین علیہ السلام اور سات سو افراد کو واقعہ حرہ میں قتل کیا شراب پیتا ہے دوسرے ہزاروں گناہ کرتا ہے کیسے خلیفہ پیغمبراکرم ﷺ ہو سکتا ہے ؟
اہل سنت اگر خلفائے بنی امیہ کو شمار کریں تو چوبیس ۲۴ ہیں بنی عباس کو شامل کریں تو ان کی تعداد پنتالیس ۴۵ ہے
خلاصہ یہ ہے کہ جتنی بھی کوشش کریں بارہ لوگ نہیں ڈھونڈ سکتے ۔بالآخر کہتے ہیں ہم حدیث کے معنی کو نہیں سمجھ
مگرفقط شیعہ ہی بارہ امام کے قائل ہیں جن میں پہلےامیرالمومنین علیہ السلام اورآخری بقیہ اللہ الاعظم حضرت مہدی عج ہیں
حدیث منزلت
صحیح مسلم اورصحیح بخاری میں ہے کہ پیغمبراکرم ﷺ نے امام علی علیہ السلام کو فرمایا :
أمَا تَرضَي أن تَكُونَ مِنِّي بِمَنزِلَةِ هَارُونَ مِن مُوسَي إلا أنَّهُ لانَبيَّ بَعْدِي
کیاتم نہیں چاہتے کہ میرے لیے ایک وصی ہو جیسے موسیٰ کے لیے ہارون ،مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں
حدیث منزلت کے صحیح ہونے میں کوئی شک نہیں لیکن اس حدیث کے معنی کو سمجھنے کے لیے تحقیق کی ضرورت ہے
قرآن میں خلافت اور جانشینی کا واقعہ جو تفصیل سے بیان ہوا ہے وہ حضرت ہارون کی خلافت ہے ۔ پیغمبراکرم ﷺنے اس حدیث میں جو نسبت ہارون کو موسیٰ کے ساتھ تھی اس کو امیر المومنین علیہ السلام کے لیے اپنی نسبت کو ثابت کیا ہے ۔
حضرت ہارون کی پہلی منزلت نبوت ہے لیکن پیغمبراکرم ﷺ نے اس کو علی علیہ السلام سے استثنیٰ کیا ہے اور فرمایا ہے میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔دوسری منزلت وزارت ہے کیونکہ حضرت موسیٰ نے خدا سے تقاضا کیا کہ:
(و اجْعَل لىّ وَزِيرٔا مِّنْ أَهْلی هَارُونَ أَخِی
)
میرے اہل میں سے میرا وزیر قرار دےدے،ہارون کو جو میرا بھائی ہے۔
(وَ لَقَدْ ءَاتَيْنَا مُوسىَ الْكِتَابَ وَ جَعَلْنَا مَعَهُ أَخَاهُ هَرُونَ وَزِيرٔا
)
اور ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی اور ان کے ساتھ ان کے بھائی کو ان کا وزیر بنا دیا ۔
تیسری منزلت خلافت ہے خدا نے فرمایا :
(وَ قَالَ مُوسىَ لِأَخِيهِ هَرُونَ اخْلُفْنىِ فىِ قَوْمِی
)
حضرت موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا کہ تم قوم میں میری نیابت کرو
چوتھی منزلت رسول اکرم کے ساتھ ہے۔حضرت موسی علیہ السلام نے فرمایا:
(وَ اجْعَل لىّ وَزِيرٔا مِّنْ أَهْلی هَارُونَ أَخِى اشْدُدْ بِهِ أَزْرِی
)
اور میرے اہل میں سے میرا وزیرقراردےدےہارون کو جو میرابھائی بھی ہے اس سےمیری پشت کو مضبوط کر دے۔اسی لیے حدیث منزلت کے ذریعے وزارت، خلافت اور جانشینی ثابت ہوجاتی ہے۔
حدیث یوم الدار
آیت شریفہ:
وَ أَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِين،
اور پیغمبر ﷺ آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرایئے،، کے نزول کے بعد نبی اکرم ص نے قریش میں سے چالیس لوگوں کو جمع کیا اور ان کے لیے تین بنیادی بیان کیے ۔آنحضرت نے قریش کے سرداروں کو فرمایا : بت پرستی چھوڑ دو ،میں خدا کی طرف سے پیغمبراکرم ﷺ مبعوث ہوا ہوں اور اسی طرح فرمایا : "
اول من یوازرنی على هذا الامر، على ان یکون اخی ووصیی وخلیفتی "
جو بھی اس راہ میں میری نصرت کرے گا وہ میرا بھائی ،وصی اور جانشین ہو گا
تین بار جمع کیا گیا اور تین بارحضرت علی کے علاوہ کسی نے بھی پیغمبراکرم ﷺ کو مثبت جواب نہ دیا ، اس لیے پیغمبراکرم ﷺ نے اپنا دست مبارک امام علی علیہ السلام کے کندھے پر رکھ کر فرمایا : "
هذااخی ووصیی وخلیفتی من بعدی
علی میرا بھائی ،میرے بعد میرا وصی اور جانشین ہے
اس بنیاد پر یہ کہنا درست ہو گا کہ پیغمبراکرم ﷺ نے سال سوم ہجرت میں ہی امام علی علیہ السلام کو اپنا خلیفہ اور جانشین کے طور پر تعارف کرایا ۔
حدیث مدینہ العلم
ابن عباس سے نقل ہے کہ پیغمبراکرم ﷺ نے فرمایا :
أنَا مَدِينَةُ الْعِلْمِ وَ عَلِيٌّ بَابُهَا فَمَنْ أرَادَ الْعِلْمَ فَلْيَأْتِه من بَابه
میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے جو بھی علم کا ارادہ رکھتا ہے وہ دروازہ سے وارد ہو
یہ روایت حضرت امیر المومنین کے علاوہ کسی صحابی کے بارے میں نہیں ہے ،اسی طرح یہ روایت مختلف طریقوں اور بہت سی اسناد کے ساتھ اہلسنت کی کتابوں میں ذکر ہوئی ہے
اور بھی بہت سی روایات ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ علی علیہ السلام سب اصحاب سے افضل اور اعلی ہیں
ابن عباس کہتا ہے :
لقد أعطی علی تسعة أعشار العلم وأیم اللّه لقد شارکهم فی العشر العاشر
" نوے ۹۰ فیصد علوم علی علیہ السلام کے پاس ہیں اور دس ۱۰ فیصد باقی لوگوں کے پاس ،خدا کی قسم اس دس ۱۰ فیصد میں بھی علی علیہ السلام شریک ہیں ۔ اسی طرح ابن عباس کہتا ہے :
ما عِلمی و علم أصحاب مُحمد ﷺ فِی علم علیاِلّا کقطرة فی سبعة أبحر
میرا اور تمام صحابہ پیغمبراکرم ﷺ کا علم، علی علیہ السلام کے علم کے مقابلے میں ایسے ہے جیسے سات سمندر کے مقابلے میں ایک قطرہ ۔ عایشہ کہتی ہے :
" علي أعلم الناس بالسنة
"اسی طرح علی ابن ابی طالب ؑکے علاوہ کسی نے بھی
" سلونی قبل ان تفقدونی "
( مجھ سے پوچھو قبل اس کے کہ میں آپ لوگوں سے چلا جاوں ) کا دعویٰ نہیں کیا ۔
عمر نے کئی بار کہا :
لولاعلي لهلك عمر، وكان عمر يتعوذ بالله من معضلة ليس فیها ابوالحسن، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ معضلة لم یکن فیها علی ابن ابی طالب
" اگر علی نہ ہوتے تو میں ہلاک ہوجاتا ۔ اور وہ ہر مشکل سے اللہ کی پناہ طلب کرتا کہ جد وقت علی نہ ہوں۔ خدایا میں تجھ سے ہر اس مصیبت سے پناہ مانگتا ہوں جس میں میرے ساتھ علی ابن ابی طالب نہ ہوں۔
اہل سنت کے بہت بڑے عالم نووی کہتا ہے : ہمارے لیے یہ ثابت ہے کہ تمام صحابہ اپنی علمی مشکل میں علی سے رجوع کرتے تھے لیکن ایک بھی ایسا مقام نہیں کہ جس میں علی نے دوسرے صحابہ کی طرف رجوع کیا ہو ۔
البتہ کبھی یہ سوال پیش آتا ہے کہ حدیث
أنا مدنية العلم و علي بابها.
دوسرے لوگوں کے بارے میں بھی وارد ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ
أنا مدنية العلم و علي بابها و أبو بكر جدرانها و عمر سقفها و معاویة حلقتها
میں علم کا شہر ہوں علی اس کا دروازہ ہے اور ابوبکر اس کی دیوار اور عمر چھت اور معاویہ حلقہ ہے۔
مگر اہل سنت کے ایک عالم ابن جوزی کہتا ہے کہ یہ روایت جعلی ہے
وضاحت ۔وفات پیغمبراکرم ﷺ کے بعد بڑے پیمانے پر جعلی احادیث بنا کر آنحضرت کی طرف نسبت دی گئی۔
بعض نے ہر روایت جو امیر المومنین علیہ السلام یا اہلبیت کی شان میں تھی اسی طرح کی خلفائ کی نسبت سے روایات بنائیں ۔مثلا روایت
" :سَدِّ الأَبوابِ إلّا بابَ عَلِی
پیغمبراکرم ﷺ نے علی علیہ السلام کے دروازے کے علاوہ جتنے بھی گھروں کے دروازے مسجد کھلتے تھے ان کو بند کردیا ،اس کے مقابلے میں حدیث بنائی
" :سَدِّ الأَبوابِ إلّا خوخة أبی بکر
حالانکہ شیعہ اور سنی سب جانتے ہیں کہ ابوبکر کا مدینہ میں گھر ہی نہیں تھا اور اس کا گھر مدینہ سے باہر تھا ،یہاں تک کہ جب پیغمبراکرم ﷺ کی رحلت ہوئی ابوبکر مدینہ میں نہیں تھا ،عمر نے لوگوں کو روکے رکھا تاکہ ابوبکر مدینہ پہنچ جائے ۔
ایک اور روایت میں پیغمبراکرم ﷺ نے فرمایا :
انّ الحسن والحسین سیدی شباب اهل الجنة
حسن اور حسین جوانان جنت کے سردار ہیں ۔
اس کے مقابلے میں جعلی حدیث بنائی گئی کہ پیغمبراکرم ﷺ نے فرمایا :
" ابوبكر و عمر، سيدا شيوخ اهل الجنة
ابوبکر اور عمر جنت کے بوڑھوں کے سردار ہیں۔حالانکہ شیعہ اور سنی روایات میں ہے کہ جو بھی دنیا سے جائےگا جوان ہو کربہشت میں وارد ہوگا ۔
اثبات عقلی، ولایت امام علی علیہ السلام
قرآن کریم فرما رہا ہے:
(أَ فَمَن يهَدِى إِلىَ الْحَقّ أَحَقُّ أَن يُتَّبَعَ أَمَّن لَّا يهَدِّى إِلَّا أَن يهُدَی
)
جو حق کی ہدایت کرتا ہے وہ قابل اتباع ہے یا جو حق کی ہدایت کرنے کے قابل نہیں ہے مگر یہ کہ خود اس کی ہدایت کی جائے۔
(قُلْ هَلْ يَسْتَوِى الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُون
)
کیا وہ لوگ جو جانتے ہیں ان کے برابر ہو جائیں گے جو نہیں جانتے۔
(هَلْ تَسْتَوِى الظُّلُمَاتُ وَ النُّور
)
کیا نور اور ظلمت برابر ہو سکتے ہیں۔
اس بنا پر قرآن میں افضل کو فاضل پر،اعلم کو عالم اور اھدی کو ھادی پر برتری اور مقدم کرنا واضح ہے۔
اہلسنت کی کتابوں میں بھی اس کے بارے میں بہت سی روایات موجودہیں۔ابن عباس پیغمبراکرم ﷺ سے نقل کرتے ہیں:
مَن ولیّ مِنالمسلمین شیٔ مِن امورِ المسلمین وهو یَعلم أنّ فی المسلمین مَن هُو خَیر لِلمسلمینَ مِنه، فَقَد خان الله ورسوله وخان جماعة المسلمین
(اگر کوئی شخص خلیفہ مسلمین ہو اور کوئی دوسرا اس سے زیادہ کتاب وسنت کے بارے میں آگاہی رکھتا ہو تو اس نے خدا اور رسول اور سب مسلمانوں سے خیانت کی)
اسی لیے افضل کے باوجود فاضل کی طرف جانا اور اعلم کی موجودگی میں عالم کی طرف جانا خدا اور سب مسلمانوں سے خیانت کے مترادف ہے۔
اسی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ فرض کریں اگر کوئی بھی آیت یا روایت امیر المؤمنین علیہ السلام کی خلافت پر نہ ہو؛لیکن اسی حدیث کی بنیاد پر جوبیان ہو چکی ،اگر امام علی علیہ السلام کا دوسرے اصحاب سے مقایسہ کریں تو امام علی علیہ السلام کی سب پر برتری معلوم ہو جاتی ہے۔اور ضروری ہے کہ برتر شخص کو ہی خلیفہ تسلیم کیا جائے۔
اسی طرح اگر خلیفہ انتخاب کرنا چاہیں اور اس میں امتیاز ،افضلیت اور صلاحیت ہو تو پہلا امتیاز اعلمیت ہےکیونکہ دین کی حفاظت حاکم اسلامی کے وظایف میں سے ہے ۔
اہلسنت کتابوں میں ہے:
الشرط الاول هو کونه عالما مجتهدا فی الاصول والفروع لیقوم بامور الدین
امام کی ایک اور شرط شجاعت ہے،اسلام کے دفاع کے لیے۔خلیفہ دوم نے کہا:
وَ اللهِ لَوْ لا سَيْفُ عَلِيٍّ لَما قامَ عَمُودُ الدّین
خدا کی قسم اگر علی کی تلوار نہ ہوتی تو اسلام سر بلند نہ ہوتا۔
اسی طرح جنگ خندق میں علی کے علاوہ کوئی بھی عمر ابن عبدود سے مقابلے کے لیے تیار نہیں ہوا اور جب حضرت علی نے اس کو شکست دی تو پیغمبر ﷺ نے فرمایا:
ضَرْبَةُ عَليٍّ في يَوْمِ الخَنْدَقِ اَفْضَلُ مِنْ عِبادَةِ الثَّقَلَيْنِ;
حضرت علی کی جنگ خندق کی ایک ضرب جنّ و انس کی عبادت سے افضل ہے۔
جنگ خیبر میں پیغمبراکرم ﷺ نے فرمایا:میں کل پرچم اس کے ہاتھ میں دوں گا جو خدا اور اس کے پیغمبراکرم ﷺ کا چاہنے والا ہے اور خدا اور رسول بھی اسے چاہتے ہیں۔خلیفہ دوم کے بقول:تمام اصحاب یہ دیکھنے کےمنتظر تھے کہ یہ سعادت کسے نصیب ہوتی ہے۔
دوسرے دن نبی مکرم اسلام نے وہ پرچم علی علیہ السلام کے ہاتھ میں دیا۔
اسی طرح جنگ احد میں اکثر اصحا ب فرارکر گئے لیکن امیر المومنین علیہ السلام پیغمبراکرم ﷺ کے پاس رہے اور آنحضرت کا دفاع کیا ۔اسی لیے ستر( ۷۰) سے بھی زیادہ زخم آپ کے بدن مبارک پر آئے۔
جنگ حنین میں بھی حضرت علی علیہ السلام اورگیارہ افرادکےعلاوہ باقی سب لوگ چھوڑ کربھاگ گئے۔
حضرت علی علیہ السلام کی زہد اورسادگی بے مثال ہے حضرت اپنی خلافت کے زمانے میں بھی سادہ لباس زیب تن کرتے تھے اور ایک خط میں عثمان بن حنیف کو لکھا:
أَلاَ وَإِنَّ لِکُلِّ مَأمُومٍ إِمَامأ، يَقْتَدِي بِهِ، وَيَسْتَضِيءُ بِنُورِ عِلْمِهِ. أَلاَ وَإِنَّ إِمَامَکُمْ قَدِ اکْتَفَي مِنْ دُنْيَاهُ بِطِمْرَيْهِ، وَمِنْ طُعْمِهِ بِقُرْصَيْن
"یاد رکھو! کہ ہر مأموم کا ایک امام ہوتا ہے جسکی وہ اقتدا کرتا ہے اور اسی کے نور علم سے کسب ضیا کرتا ہے اور تمہارے امام نے تو اس دنیا میں صرف دوبوسیدہ کپڑوں اور دو روٹیوں پر گزارہ کیا۔،،
اس مسألہ میں امیر المومنین علیہ السلام نے اپنے آپ کو دنیا سے آلودہ نہیں کیا جس پر اتفاق نظر ہے،وہ ہی تھے جنہوں نے فرمایا:
یا دنیا الیك عنی غری غیری انی قد طلقتك ثلاثأ لا رجعة فیک أبدا
اے دنیا میرے غیر کو دھوکہ دے بیشک میں نے تجھے تین طلاقیں دی ہیں جن کے بعد رجوع نہیں۔
آخر میں یہ کہنا ضروری ہے: کہ ہر وہ امتیاز جوعلما اہلسنت نے خلیفہ کے انتخاب کے لیے معین کیا ،وہ معیار فقط امیر المومنین علیہ السلام میں پایا جاتا ہے۔اگر کوئی آیت یا روایت اس بارے میں نہ ہو ،اور فقط عقل و وجدان پر اکتفا کریں تو امیر المومنین علیہ السلام کے علاوہ کسی کو بھی لائق خلافت نہیں پائیں گے۔
اوپر ذکر کیے گئے مطالب کی طرف توجہ کی جائے تو ہر پڑھنے والے کے ذہن میں ایک اساسی سوال آئے گا کہ علمائے اہلسنت ان حقایق کا اعتراف کیوں نہیں کرتے جو ان کی کتابوں میں ہیں؟
اس کے جواب میں کہا جا سکتا ہے کہ سب علما اہلسنت نے حقانیت تشیع کا انکار نہیں کیا بلکہ جیسا کے تاریخ سے معلوم ہوتا ہے بعض کو جیسے ہی حق کی شناخت ہوئی فورا قبول کیا یہان تک کہ سب امکانات اور سہولیات سے صرف نظر کیا۔
آقا شیخ محمد انطاکی ،الأزہر یونیورسٹی مصر کے فارغ التحصیل اور دمشق کے قاضی القضاۃ( چیف جسٹس) جب سے روشناس ہوئےتو گزشتہ تمام عقائد کو چھوڑ کر شیعہ ہو گئے اور
(لماذا اخترتُ الشیعه؟
میں نے شیعیت کیوں اختیار کی؟ کے نام سے ایک کتاب لکھی۔شیعہ ہونے کے بعد ان کو قاضی القضاۃ کے منصب سے ہٹا دیا گیا،انکی تنخواہ بند کر دی گئی اور ان سے سرکاری رہایش واپس لے لی گئی۔ یہاں تک کہ وہ روٹی تک کے محتاج ہو گئے لیکن پھر بھی استقامت کی ،اور شیعہ ہی رہے۔جب حضرت آیت اللہ العظمی بروجردی کو پتہ چلا تو وہ آقا شیخ محمد انطاکی کے لیے ہر مہینہ وظیفہ بھیجتے۔
اسی طرح ڈاکٹر عصام العماد ،شاگرد بن باز اور امام محمد بن سعود ریاض یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں اس نے اثبات کفر شیعہ کتاب لکھی۔اور جب مذہب شیعہ سے آشنا ہوئے تو وہابیت سے کنارہ کشی کی اور شیعہ ہو گیا۔انہوں نے ایک کتاب
(المنهج الجدید والصحیح فی الحوار مع الوهابیین،)
کے نام سے لکھی ۔
مراکش کے مشہور رائٹر ادریس الحسینی نے کہا: میں مراکش میں ایک شیعہ عالم کی محفل میں بیٹھا ہواتھا تو انہوں نے معاویہ اور یزید کے بارے میں برا بھلا کہا تو میں نے اپنے آپ سے کہا کہ ایک مدلل اور دندان شکن مقالہ(مضمون) لکھ کر مراکش کے اخبارات میں چھپوا کر اس خطیب کو چپ کراو؎ٔں گا۔اسکے بعد تاریخ طبری،تاریخ ابن اثیر، تاریخ ابن خلدون و۔۔۔۔۔میں تحقیق کی جتنی زیادہ تحقیق کرتا گیا اتنا شیعہ کی حقانیت کے قریب اور اپنے عقائد سے دور ہوتا گیا۔یہی شخص جو معاویہ اور یزید کے دفاع میں کتاب لکھنا چاہتا تھا۔ایک کتاب لکھی جس کا نام
( لَقَد شَیَّعَنی الحسین)
ہے۔
"موسوعة الحیاة المستبصرین،،
نامی ایک کتاب جو چودہ جلدوں پرمشتمل ہےاس میں اس طرح کے سینکڑوں نمونہ موجود ہیں۔
اسی طرح تاریخ میں بہت سے ایسے بھی ہیں جنکو مذہب شیعہ پر اعتقاد کیوجہ سے بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔جیسے صحاح ستہ میں سے ایک کے مصنف نسائی فضیلت علی علیہ السلام پر ایک کتاب لکھ کر منطقہ شامات میں شایع کرنا چاہتا تھا ۔اس نے منبر پر علی علیہ السلام کی فضیلت پر ایک روایت پڑھی تو اسے کہا گیا کہ فضیلت معاویہ پر کیوں نہیں پڑہتے ہو؟تو اس نے کہا کیا معاویہ کی بھی فضیلت ہے ؟ معاویہ کی فضیلت یہ ہے کہ پیغمبر ﷺ نے فرمایا :
'' لا أ شبعَ الله بَطَنه ،،''
خدا معاویہ کے شکم کو سیر نہ کرے۔،، اس پر اس مشہور شخصیت کو منبر سے اتار کر اتنا مارا کہ کہ وہ زخموں کی تاب نہ لا تے ہوئے مر گیا۔
جب اہلسنت کے بزرگ عالم ابن سقاف ،منبر پر نقل کیا کہ پیغمبر ﷺ نے فرمایا:خدایا اپنی محبوب ترین اور بہترین خلقت کو بھیج تاکہ وہ میرے ساتھ اس غذا میں شریک ہو۔اسی وقت حضرت علی علیہ السلام تشریف لائے۔ تو اس کو منبر سے اتارا اور کہا جو حدیث علی علیہ السلام کے بارے میں کہی ہےاس کی وجہ سے منبر نجس ہو گیا ہے۔
طبری کے شرح حال، میں ہے کہ اس کو اپنے ہی گھر میں زندانی کیا گیا اور مارا پیٹا تا کہ معاویہ کے بارے میں کوئی روایت پڑھے۔مگر اس نے کہا :میرا وجدان اجازت نہیں دیتا کہ میں معاویہ کے بارے میں جعلی روایت بناؤں۔میں ایسی زندگی کو تحمل کرنے پر راضی ہوں لیکن ایسا نہیں کروں گا ۔
کینیڈا یونیورسٹی کے ایک اعلی عیسائی پروفیسر تھے وہ یونیورسٹی میں اسلام شناسی پر لیکچر دیتے ، اپنے موضوع پر مسلط ہونے کی وجہ سے ان کے لیکچرز کو بہت پسند کیا گیا۔ پھر وہ وہابی ہو گیا ۔اس کو امام محمد بن سعود یونیورسٹی کی تدریس کی دعوت کی گئی تو اس نے قبول کر لیا ۔
اس کو کہا : کہ شیعہ مشرک اور بدعتی ہیں ۔اور اس سے شیعہ عقائد کے ردّ پر کتاب لکھنے کی درخواست کی گئی جو اس نے قبول کر لی اور ان ے کہا کہ ان کی کچھ کتابیں دیں۔ یونیورسٹی نے شیعہ کتابوں کیساتھ کچھ اہلسنت کی بھی کتابیں دیں ۔مگر تحقیق کے بعد اس کو معلوم ہوا کہ مذہب شیعہ ہی حق پر ہے ۔ اسی لیا اس نے سٹوڈنٹس کو خطاب میں کہا :
مجھ سے مذہب شیعہ کے عقائد کے رد پر کتاب لکھنے کو کہا گیا۔ لیکن مطالعہ کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ اسلامی مذاہب میں سے شیعہ ہی حق پر ہیں۔آخر کار سعودی حکومت نے اس کو زندان میں ڈال دیا ۔پھر کینیڈین ایمبیسی نے اسے آزاد کرواکرکینیڈا بھیج دیا۔ وہ شام میں تھے اور بہت سے بزرگان اور علمی شخصیات سے ملاقات کی اور اب لندن میں رہتے ہیں اور مذہب شیعہ کی حقانیت پر کتاب لکھ رہے ہیں۔