غدیر اہل سنت کی نگاہ میں

غدیر اہل سنت کی نگاہ میں0%

غدیر اہل سنت کی نگاہ میں مؤلف:
زمرہ جات: امامت

غدیر اہل سنت کی نگاہ میں

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: ڈاکٹرمحمدحسینی قزوینی
زمرہ جات: مشاہدے: 13815
ڈاؤنلوڈ: 3120

تبصرے:

غدیر اہل سنت کی نگاہ میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 11 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 13815 / ڈاؤنلوڈ: 3120
سائز سائز سائز
غدیر اہل سنت کی نگاہ میں

غدیر اہل سنت کی نگاہ میں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

چوتھی فصل

سوالات اور ان کے جوابات

سوال:

پیغمبر کا چار ذی الحجہ کو خطبہ دینے کا کیا مقصد تھا؟

(چار ذی الحجة کےخطبہ سےمراد وہ خطبہ ہے جس میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اصحاب کو حج بیت اللہ کو عمرہ میں تبدیل کرنے کا حکم دیا۔)

جوابات

(ان سوالات میں جو جوابات دیے ہیں وہ جامعة المصطفی العالمیہ کے طلاب کی فکری تراوشات کا نتیجہ ہیںجس میں تکراری موارد کو حزف کر کے پیش کیا گیا ہے)

احکام حج نازل ہونے سے پہلے ،اعراب دو صورتوں میں حج بجا لاتے تھےپہلی صورت کا نام حج قران ہے یہ ان کے لیے جو اپنی سرزمین (وطن) سے قربانی اپنے ساتھ لاتے تھے۔اور دوسری صورت کانام حج افراد ہے یہ ان کے لیے مخصوص تھی جو اپنے ہمراہ قربانی نہیں لاتے تھے۔حج افراد میں حاجی میقات سے احرام پہنتے اور آخر حج تک لباس احرام نہیں اتارتے ۔

سورہ بقرہ

(وَ أَتِمُّواْ الحْجَّ وَ الْعُمْرَةَ لِلَّهِ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْىِ وَ لَا تحَلِقُواْ رُءُوسَكُمْ حَتىَ‏ يَبْلُغَ الْهَدْىُ محَلَّهُ فَمَن كاَنَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِّن رَّأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِّن صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ فَإِذَا أَمِنتُمْ فَمَن تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلىَ الحْجّ‏ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْىِ فَمَن لَّمْ يجَدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فىِ الحْجّ‏ وَ سَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ تِلْكَ عَشَرَةٌ كاَمِلَةٌ ذَالِكَ لِمَن لَّمْ يَكُنْ أَهْلُهُ حَاضِرِى الْمَسْجِدِ الحْرَامِ وَ اتَّقُواْ اللَّهَ وَ اعْلَمُواْ أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَاب )

کی ۱۹۶ نمبر آیت کے نزول کے بعد پیغمبراکرم ﷺ نے حج افراد ان لوگوں کے لیے مخصوص کر دی جو مکہ سے ۹۶ کیلو میٹر سے کم فاصلہ سے مناسک حج کے انجام کے لیے اس شہر میں آتے تھے۔باقی مسلمان من جملہ وہ جو دور سے آتے ہیں اور اپنے ساتھ قربانی نہیں لاتے ان کا وظیفہ عمرہ تمتع کو حج تمتع سے جدا انجام دینا ہے ۔ اس صورت میں مسلمان میقات میں محرم ہوتے اور عمرہ کے انجام دینے کے بعد احرام سے خارج ہوتے ۔اس کے بعد حج تمتع کے لیے دوبارہ مکہ میں محرم ہوتے۔

پیغمبراکرمﷺ کا چار ذی الحجہ کے خطبہ اور حج تمتع کو حج افراد سے جدا کرنے کے اہم مقاصد اور اہداف یہ تھے

۱ ۔ زمانہ جاہلیت میں اعراب احرام سے خارج ہونے کو گناہ کبیرہ سمجھتے تھے

(صحیح بخاری:۲/۱۵۲؛صحیح مسلم:۴/۵۶)

پیغمبراکرمﷺ ان خرافات کا مقابلہ اوران اعتقادات کو جو اسلامی دستورات کے مخالف تھے ختم کرنے کے لیے حج تمتع کو عمرہ سے جدا کیا۔

۲ ۔ بعض موارد میں اسلامی احکام بتدریج نازل ہوئے ۔ مثلا شراب کے بارے میں پہلے سورہ بقرہ کی آیہ ۲۱۹ میں بیان ہوا شراب کے نقصانات فوائد سے زیادہ ہیں ۔(اس کا گناہ اس کے فائدہ سے زیادہ ہے) پھر دوسرے مرحلے میں سورہ نسا آیہ ۴۳ میں فرمایا:انسان نشہ اور مستی کی حالت میں نماز نہ پڑھے۔ آخر کار تیسرے مرحلے میں سورہ مائدہ آیہ ۹۰ میں کلی طور پر شراب حرام قرار دی۔

حج کے احکام بھی اسی طرح نازل ہوئے ۔سب سے پہلے حج کا کلی حکم بیان ہوا ،پھر کچھ عرصہ بعد حجۃ الوداع میں حج افراد کو حج تمتع سے جدا ہونے کے ساتھ حج کے احکام مکمل ہوئے۔

۳ ۔ پیغمبراکرم ﷺ اس طرح اپنے اصحاب کی پہچان کر رہے تھے کہ کون پیغمبراکرم ﷺ کے حکم کے مطیع نہیں ہیں اورکون احکام پیغمبراکرم ﷺ کی جو کہ احکام الھی ہیں ان کی مخالفت کرتے ہیں۔

۴ ۔ پیغمبراکرم ﷺ اسکے ذریعے امام علی علیہ السلام کی جانشینی کے لیے راہ ہموار کرنا چاہتے تھے۔ کیونکہ جب پیغمبراکرم ﷺ نے دیکھا کہ ایک سادہ فقہی مسألہ کی تبدیلی پراصحاب اسطرح مخالفت کر رہے ہیں ۔تو امام علی علیہ السلام کی جانشینی کے وقت بھی مخالفت کریں گے۔ اس لیے پیغمبراکرم ﷺ ساتویں ذی الحجہ کو بعض ا صحاب کے بےجا اعتراض پرناراض ہوئے۔

اسی وجہ سے غدیر کے دن ولایت علی علیہ السلام کے مسألہ میں کوئی بھی اعتراض کی جرأت نہ کر سکا۔سوائے حارث بن نعمان کے جو عذاب الہی میں گرفتار ہو گیا۔

اسکے علاوہ خدا نے بھی سورہ بقرہ کی ۱۹۶ نمبر آیت کے آخر میں اعلان فرمایا کہ جو بھی احکام الہی کی مخالفت کرے گا وہ سخت سزا کا مستحق ہو گا۔

(حج تمتع ان لوگوں کے لیے ہے جن کے اہل مسجد الحرام کے حاضرشمارنہیں ہوتے اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ اللہ کا عذاب بہت سخت ہے) ۔

۵ ۔ کتاب سیرہ حلبیہ میں ہے: رسول اکرم نے حجۃ الوداع کےسفرمیں مکہ مکرمہ میں وارد ہونے کے بعد اور کوہ مروہ کےساتھ مراسم سعی کے انجام کے بعد فرمایا: جو اپنے ساتھ قربانی نہیں لائے وہ احرام چھوڑ دیں اور ترویہ کےدن،حج تمتع کےلیے محرم ہوں۔لیکن صحابہ نے قبول نہ کیا یہان تک کہ بعض نے نا مناسب الفاظ میں اعتراض کی۔جب پیغمبرﷺ نے یہ سنا تو کوہ صفا کے پاس خطبہ دیا اور فرمایا:'' اے لوگو؛میں تم سب میں سے زیادہ خداسے آگاہ اور با تقوا ہوں اگر میں یہ جانتا ہوتا کہ کیا پیش آئے گا تو میں بھی اپنے ساتھ قربانی نہ لاتا اور احرام چھوڑ دیتا،،

(سیره الحلبیه: ۳/۳۱۸)

۶ ۔ لوگوں کے لیے احکام دین آسان کرنا پیغمبراکرم ﷺ کے اہداف میں سے ہے اور ان میں سے ایک اعمال حج ہیں

۷ ۔ احکام الہی کا اجرا کرنا سب پر واجب ہےرسول اکرم نے فرمایا :

لو لا انّی سِقتُ الهُدیٰ لَفعَلتُ مثلَ امر تُکُم به ففعلوا ا اَهلّوا ففسخ الحج الی العمرة

(سیره الحلبیه: ۳/۳۱۸)

اگر میں بھی اپنے ساتھ قربانی کا جانور نہ لاتا تو جس طرح تمہیں حج کو عمرہ میں تبدیل کرنے کا حکم دیا ہے خود بھی اسی طرح کرتا ۔

۸ ۔ احکام اسلام من جملہ حج تمتع،کے احکام تا ابد تبدیل نہیں ہوں گے۔اور پہلے کی طرح رہیں گے۔کیوں کہ روایات میں ہے کہ خطبہ کے دوران کسی نے پیغمبراکرم ﷺسےسوال کیا ۔کیا یہ حکم اس سال کے لیے ہے یا تا ابد باقی ہے؟

تو پیغمبراکرم ﷺنے تین مرتبہ فرمایا: یہ تا ابد ہے۔ اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ جنہوں نے رحلت پیغمبرﷺکے بعداس حکم کو تبدیل کیا انہوں نے آنحضرت کے دستور کی واضح مخالفت کی ہے۔

سوال:

بعض اصحاب کی پیغمبر ﷺ سے مخالفت کی کیا وجہ تھی؟

جوابات:

۱ ۔ جیسا کہ ذکر ہوا اعراب حج کو دو صورتوں میں انجام دیتے تھے اور احرام حج چھوڑنے کو گناہ کبیرہ سمجھتے تھے ۔نو مسلمان جاہلیت کے عقاید سے انس کی وجہ سے آسانی سے ان کو نہیں چھوڑتے تھے اسی لیے جب پیغمبراکرم ﷺ نے ان غلط رسوم سے منع کیا تو پیغمبراکرم ﷺ کی مخالفت کی۔ قرآن نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔

(حجرات:۱۴۱۵)

۲ ۔ بعض اصحاب کی مخالفت کی وجہ وہ کینہ تھا جو گذشتہ زمانے سے پیغمبرﷺکےساتھ رکھتے تھے کیونکہ صدر اسلام کی جنگوں میں ان کےبہت سے رشتہ دار خود پیغمبرﷺکےہاتھوں یا ان کے حکم سے قتل ہوئے اس لیے ہر موقع پر پیغمبر ﷺ کی مخالفت کرتے اور ان کو اذیت دیتے تھے ۔

۳ ۔ بعض اصحاب کا احتمال تھا کہ پیغمبر ﷺ بہت جلد اپنا جانشین مقرر کرنے والے ہیں اس لیے انہوں نے پیغمبر ﷺ کی مخالفت کا ارادہ کر لیا تاکہ لوگوں کے دلوں سے پیغمبر ﷺ کا احترام ختم ہو جائے ۔وہ اپنے اس عمل سے لوگوں کو یہ بتانا چاہتے تھے کہ بے چوں چراں پیغمبر ﷺ کی اطاعت نہ کی جائے۔

۴ ۔ وہ لوگ جوپہلے پیغمبر ﷺ کا اس قدر احترام کرتے تھے کہ ان کے وضو کا پانی اور ان کے بال مبارک کو بطور تبرّک لے جاتے۔لیکن جب ایک اہم مسالہ پیش آیا تو پیغمبر ﷺ کی اطاعت سے منہ موڑ لیا۔ اس کی بنیادی وجہ ، ان کی اخلاقی اور ایمانی کمزوری تھی ۔با الفاظ دیگر کہا جا سکتا ہے کہ:

(الف) انہوں نے ابھی تک حق کو دل و جان سے قبول نہیں کیا تھا۔

(ب) پیغمبر خدا کو رہبر آسمانی اور انسان کامل نہیں مانتے تھے

(ج) یہ نہیں جانتے تھے کہ پیغمبر کی مخالفت ہی خدا کی مخالفت ہے۔

۵ ۔ اس لیے جہاں پر پیغمبرﷺ کی اطاعت ضروری تھی تو اپنی عقل کے مطابق چلتے اوراجتہاد کرتے۔حجۃ الوداع کےعلاوہ پیغمبرﷺ کی مخالفت کا واضح نمونہ سقیفہ میں دیکھا جاسکتاہے۔کیونکہ جو لوگ سقیفہ میں تھےکہتےتھےکہ ابوبکربزرگ ہےاورعلی جوان ہے بزرگ بہترہےکہ لوگوں پرحکومت کرے۔جب کہ جانشینی علی علیہ السلام کےلیے پیغمبر ﷺ کا صریح حکم تھا۔

(تاریخ طبری: ۳/۲۱۸؛الکامل فی التاریخ:۲/۱۳؛الامامه والسیاسه:۱/۲۱)

۶ ۔ مکہ کےلوگوں کی درآمد حجاج کےساتھ تجارت پرموقوف تھی ۔وہ ڈرتےتھےکہ یہ نیا حکم حج و عمرہ ایک وقت میں انجام ہو گا۔ اس صورت میں وہ حج و عمرہ کے زمانے میں تجارت سے محروم ہو جاتے ،اور یہ ان کے لیےبہت بڑا اقتصادی نقصان تھا۔

سوال:

کیا قرآن و سنت کی رو سے سب اصحاب کی عدالت ثابت کی جا سکتی ہے؟

جوابات:( الف)۔

قرآن کی رو سے: قرآن کریم میں بہت ساری آیات عدالت صحابہ کو رد کرتی ہیں ۔

1(وَمَا محُمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَ فَإِيْن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلىَ أَعْقَابِكُمْ )

(العمران:۱۴۴ )

اور محمد تو صرف اللہ کے رسول ہیں جن سے پہلے بہت سارے رسول گذر چکے ہیں اگر وہ مر جائیں یا قتل ہو جائیں تو آپ الٹے پاؤں پلٹ جاؤ گے

2۔ (أَ لَمْ تَرَ إِلىَ الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ ءَامَنُواْ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَ مَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُواْ إِلىَ الطَّغُوتِ وَ قَدْ أُمِرُواْ أَن يَكْفُرُواْ بِهِ وَ يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُضِلَّهُمْ ضَلَالَا بَعِيدٔ )

(نساء:۶۰)

کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کا خیال یہ ہے کہ آپ پر اور آپ سے پہلےنازل ہونے والی چیزوں پر ایمان لے آئے ہیں اور پھر یہ چاہتے ہیں کہ سرکش لوگوں کے پاس فیصلہ کرائیں جبکہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ طاغوت کا انکار کریں اور شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ انہیں گمراہی میں دور تک لے جائے

3 (فَلَا وَ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتىَ‏ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُ )

(نساء:۶۵)

پس آپ کے پروردگار کی قسم کہ یہ ہرگز صاحب ایمان نہ بن سکیں گے جب تک آپکو اپنے اختلافات میں حکَم نہ بنائیں

4 ۔ (إِنَّ الَّذِينَ اشْترَوُاْ الْكُفْرَ بِالْايمَانِ لَن يَضُرُّواْ اللَّهَ شَيْا وَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِي )

(ال عمران:۱۷۷)

جن لوگوں نے ایمان کے بدلے کفر خرید لیا ہے وہ خدا کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے اور انکے لیا درد ناک عذاب ہے

5 ۔ (مَن كَفَرَ بِاللَّهِ مِن بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَ قَلْبُهُ مُطْمَئنِ‏ بِالْايمَانِ وَ لَاكِن مَّن شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرٔا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللَّهِ وَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيم )

(نحل:۱۰۶)

جو شخص بھی ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کرے۔۔۔۔۔۔علاوہ اس کے کہ جو کفر پر مجبور کر دیا جائے اور اس کا دل ایمان کی طرف سے مطمٔن ہو۔۔۔۔اور کفر کے لیے سینہ کشادہ رکھتا ہو اس کے اوپر خدا کا غضب ہے اور اس کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔

6۔ (وَ مِمَّنْ حَوْلَكمُ مِّنَ الْأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ وَ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُواْ عَلىَ النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُهُمْ نحَنُ نَعْلَمُهُمْ سَنُعَذِّبهُم مَّرَّتَينْ‏ ثمُ‏ يُرَدُّونَ إِلىَ‏ عَذَابٍ عَظِيم )

(توبه:۱۰۱)

اور تمہارے گرد دیہاتیوں میں بھی منافقین ہیں اور اہل مدینہ میں تو وہ بھی ہیں جو نفاق میں ماہر اور سرکش ہیں تم انکو نہیں جانتےہو لیکن ہم خوب جانتے ہیں عنقریب ہم ان پر دوہرا عذاب کریں گے اس کے بعد یہ عذاب عظیم کی طرف پلٹا دیے جائیں گے

۷ ۔سورہ بقرہ کی آیات ۸،۹،۱۰،۱۳،۱۴،۱۵ ،

۸ ۔سورہ منافقون کی آیات ۱،۲،۶،۹

۹ ۔ مسجدضرارکےمتعلق آیت کہ جو بعض صحابہ کے توسط سے بنائی گئی اور پیغمبرﷺ نے اسے صفہ ہستی سے مٹا دیا۔

(توبه:۱۰۷)

(ب) سنت کی نظر میں:

تاریخی کتابوں میں بہت سی روایات ہیں جو بعض صحابہ کے عادل نہ ہونے پر دلالت کرتی ہیں ان میں سے

( ۱) صلح حدابیہ میں قریش کے ساتھ صلح میں بعض اصحاب نے پیغمبراکرم ﷺ کی مخالفت کی۔

(صحیح بخاری:۳/۱۸۲؛ صحیح مسلم:۵/۱۷۵)

( ۲) جب رسول خدا سے سوال ہوا کہ منافقین کو قتل کیوں نہیں کرتے؟ آنحضرت نے جواب دیا: تا کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ محمد ﷺ اپنے اصحاب کو قتل کرتے ہیں ۔

(صحیح بخاری :۴/۱۶۰؛ صحیح مسلم:۸/۱۹)

( ۳) بعض صحابہ کی مخالفت قلم کاغذ نہ لانے میں پیغمبراکرم ﷺ کی وصیت لکھنے کے لیے ۔

(صحیح بخاری :۵/۱۳۸؛ صحیح مسلم:۱/۳۲۵)

( ۴) خود صحابہ کی ایک دوسرے سے مخالفت جیسے خلیفہ سوم کا اصحاب کے ذریعے قتل کا واقعہ یا معاویہ اور حضرت علی علیہ السلام کے درمیان جنگ۔

( ۵) بہت سے اصحاب کو خلیفہ دوم یا امام علی علیہ السلام کے توسط سے حد کا جاری ہونا۔

(سیوطی نے اصحاب میں سے ۱۱۶ کے نام لکھیں ہے جن پر حد جاری ہوئی۔)

( ۶) تاریخی کتابوں میں ہے پیغمبراکرم ﷺ کے ایک معروف صحابی ثعلبہ انصاری، پیغمبراکرم ﷺ کی دعا سے بہت ساری بھیڑوں کا مالک بنا مگر کچھ عرصے بعد منکر زکواۃ ہو گیا اور قران نے اسے واضح کافر قرار دیا۔

(ر ک تفسیر ثعالبی:۳/۱۹۸)

( ۷) صحابہ پیغمبراکرم ﷺ کا ایک نمونہ معاویہ بن سفیان ہے جس کا بہت سارے لوگوں حتیٰ صحابہ پیغمبر ﷺ کے قتل میں ہاتھ ہے ۔

( ۸) صحابی رسول مالک بن نویرہ کا ایک اور صحابی خالد بن ولید کے توسط سے قتل ہوا اور خالد کا مالک کی ہمسر پر تجاوز۔

(شرح نهج البلاغه؛ ابن ابی الحدید:۱/۱۷۹)

مجموعی طور پر قرآنی آیات اور روایات سے نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ سارے اصحاب عادل نہیں تھے بلکہ بعض عادل اور بعض غیرعادل تھے۔

سوال:

کیا امام علی علیہ السلام نے خلفا کی بیعت کی؟

جواب:

بیعت امیر المؤمنین علیہ السلام کے حوالے سے اہلسنت کے نزدیک چھے مہینے تک ابوبکر کی بیعت نہیں کی۔وہ کہتے ہیں کہ جب تک حضرت صدیقہ طاہرہ قید حیات تہیں امیر المومنین علیہ السلام نے ابوبکر کی بیعت نہیں کی ۔ لیکن رحلت صدیقہ طاہرہ کے بعد بھی حضرت علی علیہ السلام نے بیعت نہیں کی۔

صحیح مسلم میں ہے جب امیر المومنین علیہ السلام چھ مہینے کے بعد بیعت نہیں کی تھی ۔ ایک دن ابوبکرسے کہا کہ میرے گھر آؤ البتہ اس شرط کیساتھ کہ عمر کو ساتھ نہ لانا۔حضرت نے فرمایا:

کراهیة مَحضَرِ عُمر

(صحیح مسلم:۵/۱۵۴؛ صحیح بخاری :۵/۸۳)

"عمر کو دیکھنا پسند نہیں کرتا،،

اسی طرح علی علیہ السلام نے ابوبکر سے فرمایا:

ولكنّك استبددت علينا بالأمر حتّى فاضت عينا أبى بكر

(صحیح مسلم ۵ /:۱۵۴)

تو نے خلافت میں ہمارے حق میں ظلم کیا ۔ ۔ ۔یہاں تک کہ ابوبکر کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔

بیعت کا معنی بیعت کرنے والے اور جس کی بیعت کی جائے ،ان کے درمیان اطاعت اور پیروی کا عہدکرنا ہے۔مگر تینوں خلفا کی طول خلافت میں علی ابن طالب علیہ السلام ان تینوں خلیفوں میں سے کسی کی اطاعت نہیں کی اور انکے مقام اور خلافت کو قبول نہیں کیا ۔ البتہ بہت سارے موقعوں پر خلفا نے حضرت سے مشورت کی۔لیکن یہ کام بیعت میں شمار نہیں ہوتا کیونکہ یہودیوں کو بھی مشورہ دیتے تھے ۔اس لیے خلفا کے ساتھ حضرت کا انکی حکومت اور جنگوں میں شرکت نہ کرنے سےمشخص ہو جاتا ہے کہ حضرت کی بیعت اجباری اور ظاہری تھی۔

شیعہ کے بزرگ عالم شیخ مفید فرماتے ہیں:

والذی علیه محققوا لشیعة أنه لم یبایع علی ساعة قط

(فصول المختاره :۵۶)

"شیعہ محققین کے مطابق ،علی ابن ابی طالب ؑ نے لحظہ بھر بھی خلفا کی بیعت نہیں کی،،

اہلسنت کی بعض کتابوں میں ہے : پیغمبر ﷺ کی رحلت کے تیسرے دن امام علی علیہ السلام کو کھینچ کر مسجد لایا گیا۔بہت سے لوگ حضرت کے گرد جمع تھےاور علی کے ہاتھ کھول کر ابوبکرکے ہاتھ پر رکھنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔

فمسح أبو بکر يده علي يد علي و علي مضمومة. –

(اثبات اوصیه:۱۴۶)

"ابوبکر نے اپنا ہاتھ ،علی کے ہاتھ پر رکھا جبکہ حضرت کے ہاتھ بند تھے،،۔

واضح ہے کہ اس بیعت کی کوئی اہمیت نہیں اور قابل قبول نہیں کیونکہ دنیا میں کوئی بھی کسی کے بند ہاتھوں پر بیعت نہیں کر سکتا۔

سوال:

کن قرائن اورشواہدسےامامت امیرالمومنین علیہ السلام کلمہ مولٰی اورواقعی غدیرسے ثابت کی جاسکتی ہے؟

جواب:

حدیث غدیر میں کلمہ (مولیٰ) سے مراد ،اولی بالتصرف ہونا بہت سے دلائل اور شواہد سے ثابت کیا جا سکتا ہے۔ان دلایل کو چند اقسام میں تقسیم کر سکتے ہیں۔

۱- دلائل اور شواہد قرآنی اور تفاسیر مفسرین

۲- دلائل اور شواہد،مکانی،زمانی،حالی

۳- خود خطبہ غدیر کے متعلق دلائل اور شواہد

۴- روایات سے قرائن اور شواہد

۵- عرب شاعروں کے اشعار سے قرائن اور شواہد

دلائل قرآنی اور تفاسیر مفسرین

واضح طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اس حدیث میں کلمہ مولا بلکہ بہت سے موارد میں اس کا ایک ہی معنی ہے اور وہ اولویت و شائستگی اور بالفاظ دیگر سرپرستی ہے قرآن نے بھی بہت سی آیات میں لفظ مولا کو سرپرست اور "اولیٰ،، استعمال کیا ہے۔قرآن میں کلمہ مولا ،اٹھارہ آیات میں آیا ہے۔جن میں سے دس موردخدا کے بارے میں ہیں ۔یہ واضح ہے کہ مولویّت خداوند بمعنی اولویت اور سرپرستی خدا ہے۔

بعض آیات کی جانچ سے پتہ چل سکتا ہے کہ کلمہ مولیٰ حدیث غدیر میں اولویت کے معنی میں ہے۔ ان آیات کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔

۱ ۔ (يَأَيهُّا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّک )

(مائده:۶۷)

اہلسنت کے بہت سارے علما یقین رکھتے ہیں کہ آیت تبلیغ غدیر کے دن نازل ہوئی۔اس آیت میں جس مسئلہ کے ابلاغ پر پیغمبراکرم ﷺ مأمور ہوئے نماز،روزہ جیسے احکام نہیں کیونکہ یہ احکام اس آیت سے پہلے نازل ہو چکے تھے اور پیغمبر ﷺ بھی انکے بیان سے خوفزدہ نہیں تھے اس لیے یہ اہم پیغام احادیث اہلسنت کے مطابق یہ مسئلہ خلافت اور جانشینی پیغمبراکرم ﷺ تھاجس کے ابلاغ پر آنحضرت مأمور ہوئے تھے۔

۲- اسی طرح اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبراکرم ﷺ جس کے بیان پر مأمور ہوئے تھےابھی تک عمومی طور پر بیان نہیں ہوا تھا۔دوسری طرف جانشینی اور امت اسلام کی سرپرستی کا مسئلہ باقی تھا کیونکہ دین کے سارے احکام پہلے بتائے جا چکے تھے۔

۳ ۔ آیت اکمال دین

(الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَ أَتمْمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتىِ وَ رَضِيتُ لَكُمُ الْاسْلَامَ دِينٔا )

(مائده: ۳)

اہلسنت کی کتابوں کی بہت سی احادیث کے مطابق یہ آیت واقعہ غدیر کے بعد نازل ہوئی۔یعنی جب حضرت علی علیہ السلام خلافت کے لیے منسوب ہوئے تھے۔

(الاتقان:۱/۳۱؛تاریخ یعقوبی:۲/۳۵؛تاریخ بغداد:۸/۲۹۰؛الدرالمنثور:۲/۲۵۹؛تاریخ ابن عساکر:۲/۷۵؛تذکرة الخواس:۲۳۰؛تفسیر ابن کثیر:۲/۱۴؛شواهد التنزیل:۱/۱۵۷؛الاتقان:۱/۳۱)

۴ ۔ (أَطِيعُواْ اللَّهَ وَ أَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَ أُوْلىِ الْأَمْرِ مِنكم ‏)

(نساء:۵۹)

اس آیت میں خدااور پیغمبراکرم ﷺ کی اطاعت کے مساوی اولی الامر کی اطاعت قرار پائی ہے۔ اس آیت کے ذریعے پیغمبراکرم ﷺ اور اولی الامر کی اطاعت اور عصمت کو بغیر کسی شرط وقید کے ثابت کیا جا سکتا ہے۔

۵ ۔ (سَأَلَ سَائلُ بِعَذَابٍ وَاقِع )

(معارج:۱)

اہلسنت کی بہت سی بہت سی تفسیر کے مطابق ،یہ آیت واقعہ غدیر خم میں حارث بن نعمان نامی صحابی کی مخالفت کے بعد نازل ہوئی۔

(ر ک سیره الحلبیه:۳/۳۳۷؛تفسیر الثعلبی:۱۰/۳۵؛تفسیر القرطبی:۱۸/۲۷۹)

۶ ۔ آیت

(الْيَوْمَ يَئسَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِن دِينِكُمْ )

(مائده:۳)

غدیر کے دن نازل ہوئی۔

اس آیت سے معلوم ہوتا ہےکہ علی کا پیغمبراکرم ﷺ کا خلیفہ او جانشین مقرر ہونے سے دشمن اسلام کو نقصان پہنچانے سے نا امید ہو گیا ۔

۷ ۔ سب شیعہ اور سنی مفسرین نے اعترف کیا ہے کہ آیت مباہلہ میں خدا نے علی علیہ السلام کو نفس پیغمبر ﷺ کہا ہے اور کسی نے بھی اس پر اعتراض نہیں کیا ۔ یقینا ہونا دوستی سے بالا تر ہے۔ اگر مولا کا معنی اس عبارت

من کنت مولاه فهذا علی مولاه

میں دوستی ہو تو اتنا اہم نہیں تھا کہ حارث بن نعمان اعتراض کرتا حالانکہ واقعہ مباہلہ میں بھی کسی نے اعتراض نہیں کیا۔

دلیل از صدر و ذیل حدیث

۱ ۔پیغمبراکرمﷺ نے اس جملہ

'' من کنت مولاه فهذا علی مولاه،،

سے پہلےیہ سوال کیا ،

ألستُ أولی بِکم مِن أنفسکم؟،

(سنن ابن ماجه:۱/۴۳؛سیره النبویه؛ ابن کثیر:۴/۴۱۷؛البدایه والنهایه:۵/۲۲۹؛تاریخ بغداد:۴/۲۳۶؛تفسیر طبری:۳/۴۲۸)

،اس جملے کے لانے کا مقصد یہ تھا کہ جو حق پیغمبراکرم ﷺ کا ہے علی علیہ السلام کے لیے بھی وہی ثابت ہے۔

۲ ۔ عموما اگر ایک کلمہ کے بہت سارے معنی ہوں تو بولنے والا اپنے مورد نظر معنی کے لیے قرینہ لاتا ہے۔ پیغمبراکرم ﷺ نے بھی کلمہ مولی کا صحیح معنی سمجھانے کے لیے جو قرینہ استعمال کیا ہے وہ یہ ہے کہ فرمایا

'' الست اولی بکم،،

اس کے فورا بعد فرمایا :

من کنت مولاه فهذا علی مولاه

پہلے جملہ سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبراکرم ﷺ کا مورد نظر معنی یہی سرپرست ہے۔

۳ ۔ پیغمبراکرم ﷺ نے خطبہ غدیر میں فرمایا:میں بہت جلد آپکے درمیان سے چلا جاؤں گا۔ اس کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبراکرم ﷺ اپنے بعد کے لیے وصیت کر رہے ہیں اور پیغمبراکرم ﷺ کے بعد اہم مسئلہ ولایت اور جانشینی آنحضرت تھی دوستی کے مسائل نہیں۔

۴ ۔ پیغمبراکرم ﷺ نے اس جملہ

" من کنت مولاه،،

کے فورا بعد فرمایا:

"الله اکبر علی اکمال الدین و اتمام النعمة،،

(شواهد التنزیل:۱/۲۰۲؛مسند احمد:۶/۴۸۹؛صحیح ترمذی:۵/۵۹۰؛سنن کبری:۵/۴۵)

جبکہ جانتے ہیں کہ علی کی دوستی سے دین مکمل نہیں ہوتا بلکہ ولایت علی علیہ السلام سے دین مکمل ہوتا ہے ۔

۵ ۔ پیغمبر ﷺ نے اپنی گفتگو کے آغاز میں لوگوں سے تین اہم اسلامی اصولوں کا اقرارلیا اور فرمایا: کیا آپ گواہی نہیں دیتے کہ خدا کے علاوہ کوئی خدا نہیں ، محمّد اللہ کے بندہ اور رسول ہیں اور بہشت اور دوزخ کا وجود ہے؟پیغمبراکرمﷺ کا اقرار لینے کا مقصد لوگوں کو تیار کرنا تھاتاکہ جو مقام علی علیہ السلام کے لیے ثابت کریں گے اس کو پہلے والے اصولوں کی طرح قبول کریں۔اسی طرح اس سے پتہ چلتا ہے کہ پیغمبراکرم ﷺ کی کلام علی علیہ السلام کی دوستی کو بیان کرنے کے لیے نہیں تھی ۔کیونکہ اس مطلب کا اصول دین کے ساتھ کوئی ربط نہیں۔

۶ ۔پیامبر ﷺ حدیث ثقلین میں اہلبیت کو قرآن کے مساوی قراردیا ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت کا مقصد حضرت علی علیہ السلام کے بلند مرتبہ اور آپ کے بعد دین اسلام کی پاسداری کو بیان کرنا تھا۔

۷ ۔ پیغمبراکرم ﷺ نے غدیر میں حاضرین کو حکم دیا کہ ان کا یہ حکم غائبین تک پہنچائیں۔ اس سے اس واقعہ کی اہمیت اور آیندہ مسلمانوں میں اس کا نمایاں کردار ظاہر اور واضح ہے۔

قرائن اور شواہد مکانی،زمانی اور حالی

۱ ۔ خطبہ غدیر میں اگر پیغمبراکرم ﷺ کا مقصد علی علیہ السلام کی دوستی ہوتا اس گرم اور سوزان بیابان غدیر میں اس مسئلہ کو بیان کرنا ضروری نہیں تھا کیونکہ قرآن کریم نے واضح طور پر اس آیت

(إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَة )

(حجرات:۱۰)

میں اس موضوع کی طرف اشارہ کیا ہےاس مسئلہ سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبراکرم ﷺ کا کوئی اہم مقصد تھا۔

۲ ۔ تاریخ میں ہے ہجرت کےپہلےسال پیغمبراکرم ﷺ نےمسلمانوں کےدرمیان عقداخوت پڑھا اور انکو ایک دوسرےکابھائی بنایا۔اسکےبعد اپنا علی علیہ السلام کےساتھ عقد اخوت پڑھا۔اس سے پیغمبراکرم ﷺنے کافی حد تک حضرت علی علیہ السلام کی اہمیت اور مقام سب کو بتایا۔ اس لیے ضروری نہ تھا کہ عربستان کےصحرا میں مسلمانوں کو جمع کر کے علی علیہ السلام کیساتھ اپنی دوستی یاد دلائیں ۔اس سے واضح ہے کہ پیغمبراکرم ﷺ کوئی اور مطلب بتانا چاہتے تھے۔

۳ ۔ امیر المومنین علیہ السلام کے منصوب ہونے کے بعد بیعت کے مراسم انجام پائے۔اور حضرت کو دی جانے والی مبارکبادی سے معلوم ہوتا ہے حضرت علی علیہ السلام رہبر اور جانشین پیغمبراکرم ﷺ کے طور پر منصوب ہوئے۔

۴- اسی طرح خلیفہ دوم کا امام علی علیہ السلام کی بیعت کے وقت کلمہ (اصبحت) استعمال کرنا۔

۵ ۔ واقعہ غدیر کے بعد لوگ حضرت علی علیہ السلام کو سلام کرتے ہوئے لفظ مولا استعمال کرتے تھے اور اس کی علت غدیر خم میں ابلاغ ولایت امیر المومنین علیہ السلام گردانتے۔اس سے اچھی طرح غدیر آشکار ہوتی ہے

(الغدیر:۱۵۶ مقدمه)

۶ ۔ مقام غدیر کی طرف توجہ کریں تو یہ مسلمانوں کی ایک دوسر سے جدا ہونے کی جگہ تھی ۔اور ولایت امام علی علیہ السلام کے ابلاغ کے لیے مناسب جگہ تھی۔ کیونکہ یہ جگہ غدیرکے پروگرام کو مسلمانوں کے لیے یاد دہانی کا باعث بنتی۔اس کے علاوہ جب حجاج تین دن دیر سے اپنے گھروں کو پہنچتے ، تو لوگ ان سے تاخیر کی وجہ پوچھتے ۔یہ سب چیزیں اخبار غدیر کے منتشر اور لوگوں کے ذہنوں میں باقی رہنے کا سبب بنے۔

دلائل روائی:

۱- پیغمبر ﷺ جب بھی کسی ایسےشخص سے ملتے جس کا رویہ حضرت علی علیہ السلام کےساتھ صحیح نہیں یا پیغمبرﷺسےآپ کی جاہلانہ شکایت کرتےتو انکو فرماتے:

ماذا تريدون من علي؟ إنّ عليّأ منّي وأنا منه وهو ولي كلّ مؤمن بعدي.

(سنن ترمذی:۵/۲۹۷؛سنن الکبری:۵/۴۵)

(علی سے کیا چاہتے ہو، وہ مجھ سےہےاورمیں اس سے ہوں،اورمیرےبعد علی سب مومنین کا ولی و سرپرست ہیں)۔

اگرچہ لغت میں ولی کے بہت سارے معنی ہیں لیکن اس حدیث میں رہبر اور سرپرست کے علاوہ کوئی معنی نہیں۔

۲ ۔ ایک اور روایت میں ہے:

إن تولوا عليا تجدوه هاديا مهديا يسلك بكم الطريق المستقيم

(شواهد التنزیل:۱/۸۴)

(اگر علی کی پیروی کریں،اگرچہ تم ایسا نہیں کرو گے، تو دیکھو گے وہ ہدایت شدہ ہادی ہے اورتمہیں صراط مستقیم کی طرف لے جائے گا)

اس روایت میں واضح طور پر امام علی کے وظیفہ ہدایتگری اور پیشوائی کی طرف اشارہ ہوا ہے۔

۴ ۔ جب پیغمبر ﷺ نے امام علی کو فرمایا:اے علی آپ کل ایمان، کل کفر کے مقابلے میں ہیں،

(شرح نهج البلاغه؛ابن ابی الحدید: ۱۳/۲۶۱؛شواهد التنزیل:۲/۱۴؛ینابیع لمودة:۲۸۱ و ۲۸۴)

کسی نے بھی امام علی علیہ السلام کو مبارک نہیں دی،جبکہ ایمان دوستی سے بالا تر ہے ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خطبہ غدیر میں ولی سے مرادسرپرست اور اولی بالتصرف ہے۔

صحابہ اور پیروان کا استدلال

۱ ۔ حضرت زہرا علیہالسلام نے فرمایا:پیغمبراکرمﷺ نے غدیر کے دن فرمایا: جس کا میں مولا ہوں علی اس کے مولا ہیں۔

(اسد الغابه:۴/۹۷)

۲ ۔ جناب عمار یاسر کہتے ہیں : پیغمبراکرم ﷺ نے فرمایا:

مَنْ كُنْتُ مَوْلاهُ، فَهذا عَلِىٌّ مَوْلاهُ. أَللّهُمَّ والِ مَنْ والاهُ، وَ عادِ مَنْ عاداهُ..

(مسند احمد:۴/۲۸۱)

۲ ۔ اصبغ بن نباتہ نے ابو ہریرہ سے کہا : کیا حدیث غدیر کو بھول گئے ہو؟ابو ہریرہ نے جواب دیا: نہیں میں خود پیغمبراکرم ﷺ سے سنا کہ پیغمبراکرم ﷺ نے فرمایا: جس کا میں مولا ہوں علی علیہ السلام اس کے مولا ہیں۔

(تزکرة الخواص:۴۸؛الغدیر:۱/۲۰۳)

۴ ۔ عمر بن عبد العزیز-خلفای بنی امیہ سے-نے کہا: پیغمبراکرم ﷺ نے فرمایا: جس کا میں مولا ہوں علی علیہ السلام اس کے مولا ہیں۔

(تاریخ مدینه دمشق:۴۵/۳۴۴؛الغدیر:۱/۲۱۰)

۵ ۔ عمرو بن عاص نے کہا: پیغمبراکرم ﷺ نے فرمایا: جس کا میں مولا ہوں علی علیہ السلام اس کے مولا ہیں۔

(تذکرة الخواص:۸۴؛کشف الغمة:۱/۲۵۸)

اسی طرح

۶ ۔حدیث غدیر سے امام حسن علیہ السلام کا استدلال۔

(الغدیر: ۱/۱۹۷)

۷ ۔ حدیث غدیر سے زن دارمی کا استدلال۔

( الغدیر: ۱/۲۰۸)

۸ ۔ حدیث غدیر سےخلیفہ عباسی مأمون کا استدلال۔

(الغدیر: ۱/۲۱۱)

عرب شعرا کے اشعار سے قرائن و شواہد

عمرو بن عاص نے پڑھا ہے:

وقال فمن كنت مولى له فهذا له اليوم نعم الوليا

لسید الحمیری نے کہا:

من کنت مولاه فهذا له

مولی فلم یرضوا و لم یقنعوا

امام علی علیہ السلام نے غدیر خم کے بارے میں معاویہ کو لکھا؟

و أوجَبَ لِی ولایَتَهُ عَلَیکُم رَسُولُ اللهِ یَومَ غَدیرِ خُمٍّ

(مناقب اًل ابی طالب:۲/۱۹؛ الغدیر: ۱/۳۴۰)

سوال:

حدیث (لا تفترق امّتی) (من مات بلا امام) (حدیث بارہ امام)کی رو سے- امامت امام علی علیہ السلام عقلی اور نقلی دلایل کیساتھ بیان کریں؟

جوابات:

(الف) دلایل نقلی:

۱ ۔ پیغمبراکرم ﷺ نے فرمایا: میرے بعد مسلمان تہتر ( ۷۳) فرقوں میں تقسیم ہونگے۔ ان میں سے ایکہی فرقہ نجات پائے گا اور باقی بہتر( ۷۲) فرقے جہنم می جائیں گے۔

(صحیح ترمذی:۴/۱۳۴/۲۷۷۸؛سنن ابن ماجه:۲/۱۳۲۱/۳۹۹۱)

اس حدیث کے بارے میں اہم ترین بحث نجات پانے والے فرقے کی شناخت ہے۔ اگر دوسری احادیث پیغمبر ﷺ کی طرف مراجعہ کریں تو دیکہیں گے کہ حضرت نے حدیث ثقلین میں ، اہل بیت اور ان کےپیروکاروں کو اہل نجات کہا ہے۔ جیسے کہ فرمایا: اگر اہل بیت اور قرآن سے تمسک کریں گے تو گمراہ نہیں ہو گے۔اسی طرح فرمایا:

(یا علی أنت و شيعتك في الجنة)

(مناقب؛خوارزمی:۱۱۱/۱۲۰)

یا علی؛ آپ اور آپ کے شیعہ بہشتی ہیں

ایک اور روایت میں:

مَثَلُ اهل بیتی مَثَل سفینة نوح، من رکبها نجی و من تخلّف عنها غَرِق،

(فضائل الصحابه:۲/۲۵۸؛معجم الکبیر:۳/۴۴)

میرے اہل بیت کی مثال کشتی نوح جیسی ہےجو بھی اس پر سوار ہوا نجات پائے گا اور جس نے روگردانی کی غرق ہو گا)

اہلبیت اور انکے پیروان اہل نجات ہیں۔پیغمبراکرمﷺ نے اس حدیث میں اہل بیت کو کشتی نوح کیساتھ تشبیہ دی اور فرمایا:جو بھی اہلبیت سے تمسک نہ کرے وہ جہنم میں جاے گا ۔

پیغمبراکرمﷺ نے فرمایا:

مثل أهل بیتی کمثل النجوم فی السماء یهدون الناس ،

(المستدرک:۳/۱۴۹؛ فضائل الصحابه :۳/۶۷۱)

میرےاہلبیت کی مثال آسمان کے ستاروں جیسی ہے کہ لوگوں کی ہداہت کرتے ہیں۔

۲ ۔ پیغمبراکرم ﷺ نے فرمایا:

لاتزال هذه الائمة مستقيمأ امرها... حتى يمضى منهم اثنا عشر خليفه كلهم من قريش..

(منتخب کنز الاعمال:۵/۳۲۱؛الکامل فی التاریخ:۶/۲۴۹؛صواعق المحرقه:۲۸)

احمد بن حنبل اور حاکم نیشاپوری نے روایت کی ہے: مسروق نامی شخص نے کہا: ایک رات عبد اللہ بن مسعود کے پاس بیٹھا ہوا تھااور ان سے قرآن پڑھ رھا تھا۔ایک شخص نے سوال کیا: اے عبد اللہ، کیا رسول خدا سے پوچھا تھا کہ اس امت کے کتنے خلیفہ ہونگے؟

عبداللہ نےکہا: جب سے عراق آیا ہوں آپ سے پہلے اس طرح کا سوال کسی نے نہیں کیا۔پھر کہا: ہم نے یہ سوال کیا تھا اور آنحضرت نے فرمایا: وہ ( ۱۲) بارہ لوگ ہیں نقبای بنی اسرائیل کی طرح۔

(مسند احمد:۱/۳۹۸)

حضرت علی علیہ السلام نے ایک دفعہ، اس روایت میں قریش کے مقصود کو بیان کیا :

سب امام قریش میں سے ہیں اور ان میں سے بنی ہاشم سےاہل بیت پیغمبر ﷺ کو قرار دیا۔ ان کے علاوہ کسی کے لیے ولایت روا نہیں اور نہ ہی ان کے علاوہ کوئی شائستہ ولایت ہے۔

اور یہ بھی فرمایا:

اللهم بلى ولا تخلو الارض من حجة قائم لله بحجته إما ظاهر معلوم، وإما خائف مغمور، لئلا تبطل حجج الله وبیناته

(کنز العمال:۱۰/۲۶۳؛ینابیع المودة:۱/۸۹)

اگر ہم اس جہا ن کے مذاہب کی تحقیق کریں ،تو کوئی بھی ایسا مذہب نہیں کہ جس پر فرمان پیغمبر ﷺ منطبق ہو سوائے مذہب شیعہ اثنا عشریہ کےجن کے بارہ رہبر و امام ہیں ان میں سے پہلے حضرت علی علیہ السلام اور آخری حضرت مہدی عج ہیں۔

۳ ۔ پیغمبراکرم ﷺ اسلامﷺ نے فرمایا :یا علی آپ بمزلہ کعبہ ہیں لوگ آپ کی طرف آئیں گے نہ آپ لوگوں کی طرف۔

(اسد الغابة:۴/۳۱)

۴ ۔ پیغمبراکرم ﷺ اسلامﷺ نے فرمایا :

لَا يَزَالُ الْإِسْلَامُ عَزِيزٔا إِلَى اثْنَيْ عَشَرَ خَلِيفَةٔ

(صحیح مسلم:۶/۳؛سنن ابی داود:۲/۳۰۹/۴۲۸۰)

یہ حدیث فقط شیعہ اثنا عشریہ کے عقائد کےمطابق ہے کہ جن کے پیغمبراکرم ﷺ کے بعد بارہ( ۱۲) امام ہیں۔

۵ ۔ پیغمبراکرم ﷺ اسلامﷺ نے فرمایا :

عَلِيٌّ مَعَ الْحَقِّ وَ الْحَقُّ مَعَ عَلِيٍّ ویدور حیث دار

(مجمع الزوائد:۷/۲۳۵؛مسند یعلی:۲/۳۱۸؛تاریخ بغداد:۴/۳۲۲)

۶ ۔ کتب اہلسنت کے مطابق،پیغمبراکرمﷺ نے فرمایا :میرے بعد سب سے پہلے فاطمہ بہشت میں جائے گی۔

(صحیح مسلم:۷/۱۴۲؛طبقات الکبری:۲/۲۴۷)

حالانکہ حضرت زہرا علیہا السلام فرقہ امامیہ میں سے ہیں۔

دوسری طرف رحلت پیغمبراکرم ﷺ کے بعد حضرت زہرا نے خلیفہ اول کی بیعت نہیں کی ۔اگر خلیفہ اول با حق اور شائستہ جانشینی پیغمبراکرم ﷺ ہیں تو حضرت زہرا علیہا السلام مرگ جاہلیت سے اس دنیا سے گئیں- اور جو بھی جاہلیت کی موت مرے یا تو وہ مشرک ہے یا کافر اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے جبکہ حضرت زہرا علیہا السلام (سیدہ نسا العالمین ہیں) ۔

(صحیح بخاری:۴/۱۴۳؛سنن ترمذی:۵/۳۶۸؛۳۹۸۵)

اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ خلیفہ اول ،خلیفہ حق نہیں تھے اور جانشینی پیغمبر ﷺ کے لائق نہیں تھے۔

۷ ۔ اہلسنت کی کتابوں میں ہے:

الحسن والحسين سيدا شباب أهل الجنة

(سنن ترمذی:۵/۳۲۱/۳۸۵۶؛سنن ابن ماجه:۱/۴۴/۱۱۸؛فضائل الصحابه:۲۰)

بیشک حسن وحسین جوانان جنت کے سردار ہیں

امام حسن اور امام حسین علیہما السلام ا مامیہ فرقہ میں سے تھے اس لیے امامیہ حق پر ہیں اور بہشت میں داخل ہو ں گے۔

۸ ۔ پیغمبراکرم ﷺ اسلامﷺ نے فرمایا :

فاطمة بضعة منی من اذاها فقد اذانی و من اذانی فقد اذی الله

(صحیح بخاری:۴/۲۱۰؛صحیح مسلم:۷/۱۴۱؛سنن ترمذی:۵/۳۶۰)

فاطمہ میرا ٹکڑاہےجس نےاسے تکلیف پہنچائی گویا اس نےمجھے تکلیف پہنچائی اورجس نےمجھے تکلیف پہنچائی اس نے گویا خدا کو تکلیف پہنچائی ۔

دوسری طرف فقط شیعہ کا شمار ان کے پیروکاروں میں آتا ہے۔

۹ ۔ پیغمبراکرم ﷺ نے فرمایا :

یا علی لا يحبك إلا مؤمن ، ولا يبغضك إلا منافق

(شرح الاخبار:۱/۱۵۲سنن ترمذی:۵/۳۰۶؛سنن نسائی:۸/۱۱۶)

یا علی آپ کو دوست نہیں رکہیں گے مگر مومن اور کوئی آپ سے بغض نہیں رکھے گا مگرمنافق،

پس جوبھی حضرت علی علیہ السلام کادشمن ہوگابہشت میں داخل نہیں ہوگا اور اہل نجات نہیں ہوگا

۱۰ ۔ پیغمبراکرم ﷺ نے حضرت علی ،زہرا،حسن وحسین علیہم السلام کو فرمایا:

أنا حرب لمن حاربكم ، وسلم لمن سالمكم.

(ذخائرالعقبی:۲۵؛مسند احمد:۲/۴۴۲؛مجمع الزوائد:۹/۱۶۹)

جو بھی آپ سے جنگ کرےگا میں اس سے جنگ کروں گا ،اور جو آ پ سےصلح کرےگا میں اس سے صلح کروں گا۔

۱۱ ۔ امام جوینی عبد اللہ بن عباس سے روایت کرتے ہیں پیغمبراکرم ﷺ نے اپنے بعد اوصیاکا نام لیا جن میں پہلے حضرت علی علیہ السلام اور آخری حضرت مہدی علیہ السلام ہیں۔

(ینابیع المودة:۳/۲۸۱)

اسی طرح ایک اور روایت میں جوینی نے کہا: میں نے پیغمبر ﷺ سے سنا انہوں نے فرمایا: میں اور علی اور حسن و حسین علیہم السلام اور نولوگ حسین علیہ السلام کی نسل سےپاکیزہ اور معصوم ہیں

۱۲ ۔ خدا نے قرآن کریم میں فرمایا:

(وَ إِن مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِير )

(فاطر:۲۴)

اور کوئی قوم ایسی نہیں جس میں ڈرانے والا نہ ہو۔

ہم برادران اہلسنت سے پوچھتے ہیں کہ اس زمانے میں رسول خدا کا خلیفہ اور امام کون ہے؟

(ب) عقلی دلایل

۱ ۔

اگر ایک شخص علم و تقوا اور دوسری صفات سے دوسروں پر برتری رکھتا ہو تو عقل و نقل کا تقاضا ہے کہ وہی لوگوں کا سرپرست ہو اہلسنت کے اقوال کے مطابق حضرت علی علیہ السلام امت کے ہر فرد سے افضل ہیں ان میں سے

(الف) اعلمیت

پیغمبراکرمﷺ نے فرمایا:

أعلم أمتي من بعدي علي بن أبي طالب ، أنَا مَدِينَةُ الْعِلْمِ وَ عَلِيٌّ بَابُهَا

(مناقب خوارزمی:۸۲)

میرے بعد علی ابن ابی طالب ؑامت کے عالم ترین فرد ہیں میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ۔

آنحضرت نے حضرت فاطمہ سے فرمایا:

ألا ترضين أن زوجتك أقدم أمتي سلمأ وأكثرهم علمأ وأعظمهم حلمأ.

(معجم الکبیر:۲۰/۲۳۰؛مجمع الزوائد:۹/۱۱۴)

کیا تم چاہتی ہو کہ آپکی شادی ایسےشخص سے کراؤں جو میری امت کا پہلا مسلمان، سب سے زیادہ عالم اور سب سے زیادہ صابر ہے۔

عایشہ کہتی ہے کہ حضرت علی علیہ السلام سب سے زیادہ سےآگاہ تھے۔

(المناقب:۹۱/۸۴؛نظم الدرالسمطین:۱۳۳)

(ب) حضرت علی علیہ السلام سب سے زیادہ زاہد

پیغمبراکرمﷺ نے فرمایا:

یا علی انّ اللّٰه قَد زَیّنَکَ بِزینَة لَم یُزَین العِبادَ، بِزینة أحَب الیه منها، هی الزهد فی الدنیا

(شرح الاخبار:۱/۴۳۵؛شرح نهج البلاغه؛ابن ابی الحدید:۹/۱۶۶)

یا علی خدا نے محبوب ترین زینت جو کہ زھد ہے تجھے عطا کی۔

(ج) اسلام میں سبقت

حضرت علی علیہ السلام پہلےمسلمان ہیں جبکہ دوسرے بت پرست تھے۔

(د) فداکاری اور شجاعت

سب جنگوں میں اسلام کا پرچم علی کے ذریعے سے بلند ہوا اور امام علی علیہ السلام وہ ہیں جن کے بارے میں سب مفسرین عامہ اور خاصہ کا اتفاق ہے کہ یہ آیت ان کی شأن میں نازل ہوئی

(إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَ رَسُولُهُ وَ الَّذِينَ ءَامَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَوةَ وَ يُؤْتُونَ الزَّكَوةَ وَ هُمْ رَاكِعُون )

(مائده:۵۵)

ایمان والو پس تمہارا ولی اللہ ہے اور اسکا رسول اور وہ صاحبان ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکور میں زکواۃ دیتے ہیں۔

(ز) امام علی علیہ السلام اور تربیت الہی

حاکم نیشاپوری نےلکھاہے:نعمات خداوندمیں سےکچھ فقط حضرت علی علیہ السلام کےمقدر میں تہیں یہ کہ پیغمبرﷺنےحضرت علی علیہ السلام کو تربیت اور سرپرستی کےلیے چنا۔پیامبراکرمﷺمسجد الحرام میں نمازکےلیےجاتےتوحضرت خدیجہ اورحضرت علی علیہ السلام انکےپیچھےجاتے اور سب کے سامنے آپ ﷺ کے پیچھے نماز ادا کرتے۔جبکہ ان کے علاوہ کوئی بھی نماز گذار نہیں تھا۔

(المستدرک:۳/۱۸۳)

(ح) امام علی علیہ السلام سب سے پہلے مومن

پیغمبراکرمﷺ نے حضرت زھراعلیہا السلام کو حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: بیشک وہ پہلا شخص ہے جو مجھ پر ایمان لایا۔

(معجم الکبیر:۲۰/۲۳۰؛مجمع الزوائد:۹/۱۱۴)

ابن ابی الحدید نے بھی لکھا ہے: اس کے حق کےبارے میں کیا کہیں جس نے سب سے پہلے ہدایت کی طرف سبقت کی۔

(شرح نهج البلاغه؛ابن ابی الحدید:۳/۲۶۰)

ان دلیلوں کی طرف متوجہ ہوتےہوئےعقل تقاضاکرتاہےکہ امام علی علیہ السلام امام اورجانشین پیغمبرﷺہے

۲ ۔

حدیث منزلت سے اخذ کرتے ہیں کہ خلیفہ کیلئے (مستخلف عنہ) کے اوصاف اور شرائط ہونا ضروری ہے تھوڑی سی توجہ کرنے سے پتہ چل جاتا ہے کہ علی علیہ السلام پیغمبراکرم ﷺ کے ساتھ بہت زیادہ شباہت رکھتے تھے۔ کہ بعض کی طرف پہلے اشارہ ہو چکا ہے

لیکن اہلسنت عقلی او ر شرعی قانون کی طرف توجہ کیے بغیر قبح تقدیم مفضول بر فاضل،علی علیہ السلام کو خلیفہ پیغمبراکرم ﷺ نہیں جانتے ۔

۳ ۔

کتب اہلسنت میں نقل ہوا ہے کہ پیغمبراکرم ﷺ نے فرمایا: میرے بعد بارہ خلیفہ ہیں اور دین اسلام ان کے توسط سے ہمیشہ عزیز اور تا قیا مت برپا ہے۔

اہلسنت کے بزرگ دانشمند نے اس حدیث کے بارے میں کہا: حدیث خلفائے اثنا عشر فقط آئمہ اثنی عشر اہلبیت علیہم السلام پر منطبق ہے۔کیونک وہ اعلم ،با تقوا اور اپنے زمانے کے لوگوں سے برتر تھے۔اور اہل علم و تحقیق اس کو اچھی طرح جانتے ہیں حدیث ثقلین اور بہت سی احادیث اس معنی کی تأیید کرتی ہیں

لیکن ابن حجر عسقلانی نے کہا: خلفائے اثنا عشر سے مراد وہ ہیں جو رسول خدا کے بعد خلیفہ ہوئے ہیں اور اجماع اور لوگوں کی حمایت رکھتے ہیں اس نے کہا: پیغمبراکرم ﷺ کے بعد چودہ( ۱۴) لوگ ہیں مگر ان میں سے دو معاویہ بن یزید اور مروان بن حکم صلاحیت نہ رکھنے کی وجہ سے حذف ہو جائیں گے ۔اس بنا پر بارہ لوگ باقی بچیں گے جو حدیث پیغمبراکرم ﷺ کے مطابق ہے۔

ابن حجر نے کہا: اجماع اور لوگوں کی حمایت کی شرط اکثر خلفا میں ہو اگر ایک دو لوگ جیسے امام حسن علیہ السلام اور عبد اللہ ابن زبیر میں یہ شرط نہ ہو تو بھی مشکل نہیں۔

(فتح الباری:۱۳/۱۸۲-۱۸۳)

ابن حجر کی گفتگو پر اشکالات:

(الف) خلیفہ کی خلافت پر اجماع کی شرط ،عبد اللہ بن زبیر میں نہ ہونے کے علاوہ بعض دوسرے خلیفوں میں بھی نہیں تھی جیسے عثمان میں بھی نہیں تھی ۔ لیکن امام حسن علیہ السلام کے بارے میں ابن حجر کی بات اشتباہ ہے ۔کیوں کہ سب تاریخی کتابوں کے مطابق سب مسلمان آپ کی خلافت پر متفق تھے۔

(ب) ابن حجر عبد الملک کی خلافت کو صحیح مانتا ہے حالانکہ عبد الملک نے عبد اللہ ابن زبیر کو قتل کیا جو کہ ابن حجر کی نظر میں خلیفہ حق ہے ۔

(ج)ابن حجر یزید بن معاویہ کو خلیفہ مانتا ہے حالانکہ کسی بھی منصف انسان کو یزید کی نا اہلی میں شک نہیں ۔

(د)ابن حجر خلافت مروان کو کم مدت ہونے کی وجہ سے صحیح نہیں مانتا حالانکہ خلافت امام حسن علیہ السلام کو جنکی خلافت مروان کی طرح چھ مہینہ تھی صحیح جانتا ہے۔

(و)حدیث میں ہے خلفائے اثنا عشر تا روز قیامت دین کو چلائیں گے حالانکہ جن کو ابن حجر خلیفہ مانتا ہے وہ سب دنیا سے چلے گئے۔

(ز)اگر یزید کی خلافت کو صحیح مانیں تو پھر اس کے بیٹے معاویہ بن یزید کی خلافت کو بھی صحیح ماننا پڑے گا کیونکہ وہ اپنے باپ کی طرف سے خلافت پر پہنچا تھا لیکن ابن حجر معاویہ بن یزید کی خلافت کو صحیح نہیں مانتا ۔

۴-

علمائے اہلسنت امام کے لیے تین شرطوں کو ضروری سمجھتے ہیں علم ، عدالت، شجاعت ۔ دوسری طرف شیعہ اور اہلسنت روایات کی بنا پر کوئی بھی انسان علم ،عدالت، اور شجاعت میں امام علی علیہ السلام تک نہیں پہنچتا۔

۵-

عقل کی بنا پر وہ امام بن سکتا ہے جو معصوم ہو، تاکہ لوگ اس کی اطاعت کریں اور گناہ گار کی اطاعت پر یقین رکھنا اشتباہ ہے آئمہ کسی بھی گناہ کے مرتکب نہیں ہوئے۔اسکی طرف توجہ دیں تو واضح اور بدیہی ہے کہ عقل ایسے لوگوں کے ہوتے ہوئے دوسروں کے اتباع نہیں کرتی۔

۶-

لیلۃ المبیت کے واقعہ کیطرف توجہ کرتے ہوئے کہ حضرت علی علیہ السلام نے جانی خطرہ کے باوجود پیغمبراکرم ﷺ کی جگہ پر سونا قبو ل کیا ،اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت علی علیہ السلام نے پیغمبراکرم ﷺ کی کامل طاعت کی ہے۔عقل کی رو سے رہبری اور جانشینی کے لائق وہ ہے جو اپنے تمام وجود کے ساتھ رسول گرامی اسلام کا مطیع ہو۔

۷-

پیغمبراکرم ﷺ اپنی رسالت کے لیے بہت سی زحمات کےمتحمل ہوئےاور ۲۳ سال کے عرصہ میں اسلام کی واقعی تبلیغ کی ۔محال ہے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو فقط وحی کے مطابق گفتگو کرتے اور عمل کرتے تھے۔

(نجم:۳،۴ )

اس نئے دین کو راہنما اور سرپرست کے بغیر چھوڑ دیتے ۔یہ کام ایک عام انسان کے لیے بعید ہے چہ جائیکہ پیغمبراکرم ﷺ جو کہ اشرف المخلوقات ہیں۔

آخر دعوینا أن الحمد لله رب العالمین