کتاب صلاۃ
واجب نمازیں:
۱ ۔ روزمرہ کی نمازیں؛ جن میں نماز جمعہ بھی شامل ہے؛
۲ ۔ واجب طواف کی نماز؛
۳ ۔ نماز میت؛
۴ ۔ نماز آیات؛
۵ ۔ نذر اور اس جیسی چیزوں ( عہد ، قسم وغیرہ ) کی وجہ سے واجب ہونے والی نمازیں؛
۶ ۔باپ کی قضا نمازیں جو بڑے بیٹے پر واجب ہیں۔
دلائل:
مذکورہ نمازوں کا واجب ہونا یاان کے ضروریات دین میں سے ہونے کی وجہ سے ہے اور بہت سی روایات بھی ان کے واجب ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ جیسےروز مرہ کی نمازیں
۔ یا ان کا واجب ہونا قاعدے کا تقاضا ہے جیسے نذر وغیرہ کی وجہ سے واجب ہونے والی نمازیں، یا ان امور کو بیان کرنے والی خصوصی روایتوں
کی وجہ سے ہے جیسے ان کے علاوہ دوسری نمازیں۔
روز مرہ کی نماز یں:
روزمرہ کی نمازیں، پانچ ہیں: صبح کی دو رکعتیں، مغرب کی تین اور باقی نمازوں کی چار چار رکعتیں ہیں۔
سفر اور خوف کی حالت میں چار رکعتی نمازیں دو رکعتوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔
دلائل:
۱ ۔ روزمرہ کی نمازوں کا ،مذکورہ رکعتوں کی تعداد کے ساتھ پانچ ہونا، مسلمات دین میں سے ہے اور خصوصی روایات
بھی اس پر دلالت کرتی ہیں۔
۲ ۔سفر کی حالت میں چار رکعتی نمازوں کا قصر ہونا، مسلمات مذہب میں سے ہےاور اس پرخصوصی روایات
دلالت کرتی ہیں۔
۳ ۔ خوف کی حالت میں مذکورہ نمازوں کا قصر ہونا، فقہاء کے درمیان اختلافی مسئلہ ہے۔ کتاب حدائق
میں اس بارے میں تین اقوا ل نقل کئے گئے ہیں کہ مذکورہ نمازیں:
الف) سفر میں قصر ہوجاتی ہیں؛
ب) مطلَقاً (سفر میں ہو یا نہ ہو) قصر ہوجاتی ہیں؛
ج) وطن میں اگر جماعت کے ساتھ پڑھی جائے تو قصر ہوجاتی ہیں۔
مندرجہ ذیل آیت کے پیش نظر خوف کی صورت میں مطلَقا ً قصر کا واجب ہونا مناسب ہے:
(
وَ إِذَا ضرََبْتُمْ فىِ الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكمُْ جُنَاحٌ أَن تَقْصرُُواْ مِنَ الصَّلَوةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا...
)
، “اور جب تم زمین میں سفر کے لیے نکلو تو اگر تمہیں کافروں کے حملے کا خوف ہو تو تمہارے لیے نماز قصر پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں”
اس آیۂ کریمہ میں لفظ “ضرب”کو معین مسافت تک سفر کرنے پر محمول کرنے کی کوئی خاص وجہ نہیں۔ “ضرب”کو خوف کی قید بنانے کی وجہ یہ ہے کہ سفر میں غالبا خوف ہوتا ہے، دشمن سے روبرو ہوتا ہے اس وقت انسان پر خوف طاری ہوتاہے۔
اسی بات پر شیخ صدوق ؒ کی ذکر کردہ روایت بھی دلالت کررہی ہے جو زرارہ نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل کی ہے:
“قُلْتُ لَهُ: صَلَاةُ الْخَوْفِ وَ صَلَاةُ السَّفَرِ تُقْصَرَانِ جَمِيعاً؟ قَالَ: نَعَمْ، وَ صَلَاةُ الْخَوْفِ أَحَقُّ أَنْ تُقْصَرَ مِنْ صَلَاةِ السَّفَرِ، لِأَنَّ فِيهَا خَوْفاً
.” “میں نے امام ؑ سے عرض کیا: کیا نماز خوف اور نماز سفر دونوں قصر ہوتی ہیں؟ فرمایا: ہاں ! نماز خوف کا قصر پڑھنا سفر کی نسبت زیادہ حقدار ہے کیونکہ اس میں خوف ہوتا ہے۔”
نماز کی شرائط:
نماز کی بعض شرائط ہیں۔ مثلا: وقت ، قبلہ اور طہارت وغیرہ۔ جنہیں ہم ذیل میں ذکر کریں گے :
یومیہ نمازوں کے اوقات:
نماز ظہرین کا وقت ، زوال آفتاب سے غروب آفتاب تک ہے۔ مشہور فتویٰ کے مطابق اس وقت کا ابتدائی حصہ نماز ظہر سے اور آخری حصہ نماز عصر سے مختص ہے۔
نماز مغربین کا وقت، مغرب سےآدھی رات تک ہے۔ یہاں پر بھی مشہور کے مطابق ابتدائی حصہ نماز مغرب سے اور آخری حصہ نماز عشا سے مختص ہے۔مجبور شخص کے لئے ان دونوں نمازوں کے وقت میں صبح صادق تک وسعت پائی جاتی ہے۔
نماز صبح کا وقت ، طلوع فجر سے طلوع آفتاب تک ہے۔
دلائل:
۱ ۔زوال آفتاب سے نماز ظہرین کا وقت شروع ہونے پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔ ابن عباس ، حسن اور شعبی کے علاوہ کسی کو اس حکم سے اختلاف نہیں ہے اور انہوں نے مسافر کے لئے زوال آفتاب سے پہلے نماز پڑھنے کو جائز قرار دیا ہے ۔
زوال آفتاب سے نماز ظہرین کا وقت شروع ہونے پر اللہ تعالیٰ کا مندرجہ ذیل فرمان دلالت کر رہا ہے:
(
أَقِمِ الصَّلَوةَ لِدُلُوكِ الشَّمْس
...)
“زوال آفتاب سے نماز قائم کرو۔”
اس کے علاوہ تیس ۳۰ سے زائد روایات اس حکم پر دلالت کررہی ہیں۔ مثلا حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے زرارہ نے روایت کی ہے:“إِذَازَالَتِ الشَّمْسُ دَخَلَ الْوَقْتَانِ:الظُّهْرُوَالْعَصْرُ،فَإِذَا غَابَتِ الشَّمْسُ دَخَلَ الْوَقْتَانِ:الْمَغْرِبُ وَالْعِشَاءُ الْآخِرَةُ
.” “جب زوال آفتاب ہوجائے تو دو نمازوں یعنی ظہر و عصر کا وقت شروع ہو جاتا ہے اور جب سورج غروب ہوجائے تو دوسری دو نمازوں یعنی مغرب اور عشاء کا وقت شروع ہوجاتا ہے۔”
“مشیخہ” کے مطابق شیخ صدوق ؒ سے زرارہ تک کی سند، صحیح ہے۔
ان کے مقابلے میں بہت ساری روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ظہرین کا وقت ، زوال آفتاب سے تھوڑی مدت گزرنے کے بعد شروع ہوجاتا ہے۔ سایہ ایک ہاتھ کے برابر ہو جانے کے بعد یا سایہ ایک قدم کے برابر ہونے پر وقت شروع ہوجاتا ہے یا اس کے علاوہ دوسری صورتیں۔
پہلی صورت (سایہ ایک ہاتھ کے برابر ہوجائے) پر دس سے زیادہ روایات دلالت کر رہی ہیں۔ جن میں سے ایک ، شیخ صدوق ؒ کی ذکر کردہ روایت ہے جو زرارہ نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل کی ہے:
“سَأَلْتُهُ عَنْ وَقْتِ الظُّهْرِ،فَقَالَ: ذِرَاعٌ مِنْ زَوَالِ الشَّمْسِ.وَ وَقْتُ الْعَصْرِ ذِرَاعاً مِنْ وَقْتِ الظُّهْرِ فَذَاكَ أَرْبَعَةُ أَقْدَامٍ مِنْ زَوَالِ الشَّمْسِ. ثُمَّ قَالَ:إِنَّ حَائِطَ مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ(ص)كَانَ قَامَةً وَ كَانَ إِذَا مَضَى مِنْهُ ذِرَاعٌ صَلَّى الظُّهْرَ وَ إِذَا مَضَى مِنْهُ ذِرَاعَانِ صَلَّى الْعَصْرَ، ثُمَّ قَالَ:أَتَدْرِي لِمَ جُعِلَ الذِّرَاعُ وَ الذِّرَاعَانِ؟ قُلْتُ: لِمَ جُعِلَ ذَلِكَ؟ قَالَ: لِمَكَانِ النَّافِلَةِ. لَكَ أَنْ تَتَنَفَّلَ مِنْ زَوَالِ الشَّمْسِ إِلَى أَنْ يَمْضِيَ ذِرَاعٌ، فَإِذَا بَلَغَ فَيْؤُكَ ذِرَاعاً بَدَأْتَ بِالْفَرِيضَةِ وَ تَرَكْتَ النَّافِلَةَ...
” “میں نے امام ؑ سے ظہر کے وقت کے بارے میں سوال کیا۔ فرمایا: زوال آفتاب سے (سایہ ) ایک ہاتھ (بڑھ جائے) ۔ اور عصر کی نماز کا وقت ظہر کے وقت سے ایک ہاتھ کے برابر ( سایہ بڑھ جانے کے بعد) ہے پس یہ (عصرکا وقت) زوال سے چار قدم کے برابر سایہ بڑھ جانے کے بعد ہے۔ پھر امام ؑ نے فرمایا: مسجد نبوی ؐ کی دیوار انسان کے قد کے برابر تھی ۔ جب اس کا سایہ ایک ہاتھ کے برابر ہو جاتا تو آپ ؐ ظہر کی نماز پڑھتے تھے اور جب دو ہاتھ کے برابر سایہ بڑھ جاتا تو عصر کی نماز پڑھتے تھے۔پھر فرمایا: جانتے ہو کیوں ایک ہاتھ اور دو ہاتھ قرار دیا گیا؟ عرض کیا: کیوں قرار دیا گیا؟ نافلے کی گنجائش کے لئے۔ زوال آفتاب سے سایہ ایک ہاتھ بڑھنے تک تمہارے لئے نافلے کا وقت ہے ۔ جب تمہارا سایہ ایک ہاتھ کے برابر ہو جائے تو تم فریضہ شروع کروگے اور نافلے کو چھوڑ دوگے۔”
دوسری صورت ( سایہ ایک قدم کے برابر ہوجائے ) پر دو یا اس سے زیادہ روایات دلالت کر رہی ہیں۔ جن میں سے ایک سعید الاعرج کی روایت صحیحہ ہے:
“سَأَلْتُهُ عَنْ وَقْتِ الظُّهْرِ أَ هُوَ إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ؟ فَقَالَ: بَعْدَ الزَّوَالِ بِقَدَمٍ أَوْ نَحْوِ ذَلِكَ إِلَّا فِي السَّفَرِ أَوْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ، فَإِنَّ وَقْتَهَا إِذَا زَالَتْ
.” “میں نے ان سے پوچھا : کیا زوال آفتاب کے ساتھ نماز ظہر کا وقت ہو جاتا ہے؟ فرمایا: زوال کے بعد سایہ ایک قدم یا اس سے کچھ بڑھ جانے کے بعد شروع ہوتا ہے، سوائے سفر اور روز جمعہ کے، کہ سفر اور جمعہ کے دن زوال آفتاب کے ساتھ ہی نماز ظہر کا وقت ہوجاتا ہے۔”
اس روایت کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ زوال کے بعد نماز ظہر کو تاخیر کرنے کا مقصد نافلہ کی ادائیگی ہے۔ پس جس شخص کے لئے نافلہ ہی ثابت نہ ہو جیسے مسافر یا جو شخص نافلہ پڑھنا نہیں چاہتا تو وہ زوال آفتاب کے ساتھ ہی ظہر کا فریضہ پڑھ سکتا ہے۔
اس وضاحت کو قبول نہ کرنے کی صورت میں، سرے سے ہی روایت کو ترک کرنا پڑے گا کیونکہ یہ روایت ،صریح قرآن اور فقہاء کے نزدیک بدیہی طور پر ثابت حکم کے خلاف ہے۔
۲ ۔ غروب آفتاب تک ظہرین کا وقت باقی رہنے کا حکم ہمارے ( امامیہ) فقہاء کے نزدیک مشہور ہے اور اس پر بعض روایات دلالت کررہی ہیں جن میں سے ایک معمر بن یحیی کی روایت صحیحہ ہے:
“سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ علیه السلام يَقُولُ: وَقْتُ الْعَصْرِ إِلَى غُرُوبِ الشَّمْسِ
.” “میں نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کو یہ کہتے سنا کہ نماز عصر کا وقت غروب آفتاب تک ہے۔”
صاحب حدائق جناب یوسف بحرانی ؒ
سمیت فقہاء کی ایک جماعت کے نظرئیے کے مطابق صرف مجبور شخص کے لئے ظہرین کا وقت غروب آفتاب تک باقی رہے گا جبکہ عام حالات میں ایسا نہیں ہے۔ انہوں نے اپنے نظرئیے کے اثبات کے لئے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی عبد اللہ بن سنان کی مندرجہ ذیل سے استناد کیا ہے:
“لِكُلِّ صَلَاةٍ وَقْتَانِ،وَأَوَّلُ الْوَقْتِ أَفْضَلُهُ، وَ لَيْسَ لِأَحَدٍ أَنْ يَجْعَلَ آخِرَ الْوَقْتَيْنِ وَقْتاً إِلَّا فِي عُذْرٍ مِنْ غَيْرِ عِلَّةٍ.
” “ہر نماز کے دو اوقات ہیں ان میں سے ابتدائی وقت بہتر ہے۔ کوئی بھی شخص کسی وجہ کے بغیر آخری وقت کو نماز کا وقت قرار نہیں دے سکتا مگر یہ کہ کوئی عذر ہو۔”
اس نظرئیے پر یہ اشکال ہے کہ روایت کا جملہ “وَأَوَّلُ الْوَقْتِ أَفْضَلُهُ
” تاخیر کے جائز ہونے پر دلالت کررہا ہے ورنہ “أَفْضَلُهُ
” کہنا بے معنی ہوجاتا ہے۔
۳ ۔ وقت کا ابتدائی حصہ نماز ظہر کے ساتھ اور آخری حصہ نماز عصر کے ساتھ مختص ہونے کا حکم مشہور فتویٰ کے مطابق ہے۔ شیخ صدوق ؒ وغیرہ سے منسوب قول یہ ہے کہ ابتدائی حصہ نماز ظہر کے ساتھ اور آخری وقت نماز عصر کے ساتھ مختص نہیں ہے ؛ لیکن نمازوں کے درمیان ترتیب شرط ہونے کی وجہ سے ظہر کو مقدم کرنا واجب ہو گا۔
پہلے قول پر ایک روایت کے ذریعے استدلال کیا گیا ہے جو داؤد بن فرقد نے ہمارے بعض اصحاب سے اور انہوں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کی ہے:
“إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ فَقَدْ دَخَلَ وَقْتُ الظُّهْرِ حَتَّى يَمْضِيَ مِقْدَارُ مَا يُصَلِّي الْمُصَلِّي أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، فَإِذَا مَضَى ذَلِكَ فَقَدْ دَخَلَ وَقْتُ الظُّهْرِ وَ الْعَصْرِ حَتَّى يَبْقَى مِنَ الشَّمْسِ مِقْدَارُ مَا يُصَلِّي أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، فَإِذَا بَقِيَ مِقْدَارُ ذَلِكَ فَقَدْ خَرَجَ وَقْتُ الظُّهْرِ وَ بَقِيَ وَقْتُ الْعَصْرِ حَتَّى تَغِيبَ الشَّمْسُ.
” “جب زوال آفتاب ہو جائے تو ظہر کا وقت شروع ہوجائے گا یہاں تک کہ نمازی چار رکعت پڑھ سکے۔ پھر جب اتنی مقدار میں وقت گزر جائے تو ظہر و عصر کا( مشترکہ) وقت ہوجائے گا یہاں تک کہ چار رکعت پڑھنے کا وقت باقی رہ جائے۔ جب اتنی مقدار میں وقت بچ جائے تو ظہر کا وقت ختم ہوجائے گا اور سورج غروب ہونے تک عصر کا وقت رہ جائے گا۔ ”
یہ روایت پہلے قول پر واضح دلالت کر رہی ہے ؛ لیکن یہ مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔
دوسرے قول پر بہت ساری روایات سے استدلال کیا جا سکتا ہےجو مندرجہ ذیل مضمون کی حامل ہیں:
“إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ فَقَدْ دَخَلَ وَقْتُ الصَّلَاتَيْنِ
.” “زوال آفتاب کے ساتھ دونوں نمازوں کا وقت داخل ہو جاتا ہے۔”
پہلی روایت کی سند ضعیف ہونے کی وجہ سے دوسری روایت کو ہی اخذ کرنا پڑے گا۔
۴ ۔غروب آفتاب کے ساتھ مغرب کا وقت ہونا متفق علیہ حکم ہے ؛لیکن غروب کس طرح ثابت ہوتا ہے اس بارے میں اختلاف ہے۔ مشہور کے مطابق مشرق کی سرخی کا ختم ہوجانا شرط ہے؛ لیکن دوسرے قول کے تحت سورج کا غروب کر جانا کافی ہے۔
دونوں اقوال پر بہت ساری روایات دلالت کررہی ہیں ۔ البتہ پہلے قول کی نسبت دوسرے قول پر دلالت کرنے والی روایات کی تعداد زیادہ ہے جو بیس ۲۰ یا اس سے زیادہ روایات ہیں۔مثلا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے عبد اللہ بن سنان نے روایت صحیحہ نقل کی ہے:
“سَمِعْتُهُ يَقُولُ: وَقْتُ الْمَغْرِبِ إِذَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ فَغَابَ قُرْصُهَا
.” “میں نے ان کو یہ کہتے ہوئے سناکہ اگر سورج غروب ہوجائے اور اس کا ٹکیہ چھپ جائے تو مغرب کا وقت ہوگا۔”
پہلے قول پر دلالت کرسکنے والی روایات کی تعداد دس سے زیادہ ہے۔مثلا حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے برید بن معاویہ نے روایت کی ہے:
“إِذَا غَابَتِ الْحُمْرَةُ مِنْ هَذَا الْجَانِبِ، يَعْنِي مِنَ الْمَشْرِقِ فَقَدْ غَابَتِ الشَّمْسُ مِنْ شَرْقِ الْأَرْضِ وَ غَرْبِهَا
.” “اگر اس جانب سے یعنی مشرق کی سمت سے سرخی غائب ہو جائے تو سورج زمین کے مشرق و مغرب سے غائب ہوا ہے۔”
شیخ نائینی ؒ کہتے ہیں کہ یہ مورد “مطلق و مقید” کے موارد میں سے ہے۔ سورج کے چھپ جانے پر دلالت کرنے والی روایات ٹکیے کے مطلق چھپ جانے سے مغرب ہونے پر دلالت کرتی ہیں خواہ سرخی ختم ہوجائے یا نہ؛ جبکہ سرخی والی روایات سورج کے چھپ جانے اور اس پر ایک اضافی چیز یعنی مشرق کی سرخی ختم ہونے کے ساتھ مغرب ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔لہذا یہ اس مثال کی طرح ہے کہ : “سردارمیرے پاس آیا۔”اس جملے کے ساتھ ایسی قید لانے میں کوئی رکاوٹ نہیں جو سردار کے اپنے پیروکاروں سمیت آنے پر دلالت کرے۔
یعنی اس طرح کہنے میں کوئی رکاوٹ نہیں کہ “سردار اپنے پیروکاروں سمیت میرے پاس آیا۔”
اس بیان کے مطابق قول مشہور پر دلالت کرنے والی روایات کو ترجیح ملے گی۔( کیونکہ یہ روایات مقید بن رہی ہیں۔)
کہا گیا ہے کہ قول مشہور پر دلالت کرنے والی روایات کو ترجیح دینے کی ایک وجہ یہ ہے کہ دوسرے قول پر دلالت کرنے والی روایات عامہ(غیر امامیہ) کی موافق ہیں۔
۵ ۔ نماز مغرب کے آخری وقت میں اختلاف ہے۔ مشہور کے مطابق مغرب کا آخری وقت آدھی رات تک ہے؛ جبکہ ایک قول کے مطابق شفق کے غائب ہونے تک ہے۔
اللہ تعالیٰ کے اس فرمان(
أَقِمِ الصَّلَوةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلىَ غَسَقِ الَّيْل
...)
“زوال آفتاب سے رات کے اندھیرے تک نماز قائم کرو۔۔۔”
کی وجہ سے پہلا قول مناسب ہےجو “غَسَقِ الَّيْل
” تک نماز مغرب بجالاسکنے پر دلالت کرتا ہے۔ زرارہ کی روایت صحیحہ کے مطابق “غَسَقِ الَّيْل
” سے مراد آدھی رات ہے۔
ایک قول کے مطابق بعض روایتیں مذکورہ حکم کے ساتھ معارض ہیں ۔ مثلا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے اسماعیل بن جابر نے روایت صحیحہ نقل کی ہے:
“سَأَلْتُهُ عَنْ وَقْتِ الْمَغْرِبِ، قَالَ: مَا بَيْنَ غُرُوبِ الشَّمْسِ إِلَى سُقُوطِ الشَّفَقِ
.” “میں نے امام ؑ سے مغرب کے وقت کے بارے میں سوال کیا تو آپ ؑ نے فرمایا: سورج کے غروب ہونے اور شفق کے ختم ہونے کا درمیانی وقت ، مغرب کا وقت ہے۔”
اطلاقِ قرآن
کے مخالف ہونے کی وجہ سے اس روایت کو ردّ کرنا ضروری ہے۔
۶ ۔ مشہور کے مطابق ،مغرب کے بعد نمازعشاء کے وقت کی ابتداء ہوتی ہے۔ایک قول کے مطابق شفق کے ختم ہونے سے اس کی ابتداء ہوتی ہے۔
آیہ “غسق” کے اطلاق کی وجہ سے پہلا قول مناسب ہے۔ اس کے علاوہ بعض روایات بھی اس قول پر دلالت کر رہی ہیں جن میں سے ایک حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی زرارہ کی روایت صحیحہ ہے:
“صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ(ص)بِالنَّاسِ الْمَغْرِبَ وَ الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ قَبْلَ الشَّفَقِ مِنْ غَيْرِ عِلَّةٍ فِي جَمَاعَةٍ. وَ إِنَّمَا فَعَلَ ذَلِكَ لِيَتَّسِعَ الْوَقْتُ عَلَى أُمَّتِهِ.
” “رسول اللہ ؐ نے کسی وجہ کے بغیرمغرب کی نماز باجماعت ادا کی اور آخر میں شفق سے پہلے عشاء کی نماز پڑھی۔ یہ صرف اس لئے انجام دیا تاکہ اپنی امت کے لئے وقت میں کشادگی ہو۔”
۷ ۔ مشہور کے مطابق، نماز عشاء کا وقت آدھی رات تک باقی رہتا ہے۔ اس کے خلاف شیخ مفید ؒ اور طوسی ؒ سے منسوب قول یہ ہے کہ نماز عشاء کا وقت رات کا ایک تہائی حصہ گزرنے تک باقی رہتا ہے۔
آیہ “غسق” کے اطلاق کی وجہ سے پہلا قول مناسب ہے۔اس کے علاوہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ابو بصیر کی روایت صحیحہ بھی اس قول پر دلالت کر رہی ہے:
“قَالَ رَسُولُ اللَّهِ(ص) لَوْ لَا أَنِّي أَخَافُ أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي لَأَخَّرْتُ الْعَتَمَةَ إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ وَ أَنْتَ فِي رُخْصَةٍ إِلَى نِصْفِ اللَّيْلِ، وَ هُوَ غَسَقُ اللَّيْل
...” “اگر مجھے اپنی امت کی مشقت کا خوف نہ ہوتا تو میں عشاء کو رات کی ایک تہائی تک تاخیر میں ڈالتا۔ آدھی رات تک تم آسانی میں ہو وہی غسق اللیل ہے۔”
اس روایت سے ٹکرانے والی روایات کو بھی مذکورہ وجہ ( اطلاق قرآن کی مخالفت) کے باعث ردّ کرنا ضروری ہے۔
۸ ۔ وقت کا ابتدائی حصہ مغرب کے ساتھ اور انتہائی حصہ عشاء کے ساتھ مختص ہونے کے حکم پر داؤد بن فرقد کی مرسلہ روایت دلالت کر رہی ہے جو ظہرین کی بحث میں گزر چکی ہے۔ شہرت فتوائی کی وجہ سے اس روایت کی سند کا ضعف دور ہوجاتا ہے بشرطیکہ اس قاعدے کو مان لیا جائے کہ شہرت فتوائی ضعف سند کو دور کرتی ہے۔
۹ ۔ مجبور شخص کے لئے مغربین کا وقت طلوع فجر تک باقی رہنے کے حکم کا ماخذ بعض روایت ہیں جن میں سے ایک ابوبصیر کی روایت صحیحہ ہے جو حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے:
“إِنْ نَامَ رَجُلٌ وَ لَمْ يُصَلِّ صَلَاةَ الْمَغْرِبِ وَ الْعِشَاءِ أَوْ نَسِيَ فَإِنِ اسْتَيْقَظَ قَبْلَ الْفَجْرِ قَدْرَ مَا يُصَلِّيهِمَا كِلْتَيْهِمَا فَلْيُصَلِّهِمَا.وَإِنْ خَشِيَ أَنْ تَفُوتَهُ إِحْدَاهُمَا فَلْيَبْدَأْ بِالْعِشَاءِ الْآخِرَةِ
...” “اگر کوئی شخص مغرب اور عشاء کی نماز پڑھے بغیر سو جائے یا بھول جائے ۔اگربیدار ہونے کے بعد دونوں نمازوں کو بجالانے کا وقت باقی ہو تو دونوں نمازوں کو بجالائے؛ لیکن اگر ایک نماز کے قضا ہونے کا خوف ہو تو عشاء کی نماز پڑھے۔”
۱۰ ۔ طلوع فجر کےساتھ نماز صبح کے وقت کی ابتدا ہونے کے حکم سے کسی کو اختلاف نہیں ہےاور مندرجہ ذیل آیت اسی حکم پر دلالت کر رہی ہے:
(
أَقِمِ الصَّلَوةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلىَ غَسَقِ الَّيْلِ وَ قُرْءَانَ الْفَجْرِ
)
“زوال آفتاب سے آدھی رات تک نماز قائم کرو اور صبح کی نماز بھی”
قرآن فجر سے مراد صبح کی نماز ہے۔ اس کو فجر سے نسبت دینے کی کوئی وجہ نہیں سوائے اس کے کہ اس کی ابتداء فجر سے ہوتی ہے۔
۱۱ ۔ نماز صبح کے وقت کی انتہاء طلوع آفتاب تک ہونا مشہور حکم ہے۔ ایک قول کے مطابق اختیاری حالت میں مشرق کی سرخی نمودار ہونے تک اور اضطراری حالت میں طلوع آفتاب تک ہے۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی زرارہ کی مندرجہ ذیل روایت صحیحہ کے مطابق پہلا قول مناسب ہے :
“وَقْتُ صَلَاةِ الْغَدَاةِ مَا بَيْنَ طُلُوعِ الْفَجْرِ إِلَى طُلُوعِ الشَّمْسِ
.” “نماز صبح کا وقت طلوع فجر سے طلوع آفتاب تک کا درمیانی وقت ہے۔”
اوقات کی نشانیاں اور ان کے کچھ احکام:
فجر یعنی فجر صادق کی نشانی یہ ہے کہ حقیقی طور پر روشنی ظاہر ہوجائے۔( اگرچہ ہمیں ابھی نظر نہ آئے۔)
زوال کی نشانی یہ ہے کہ سایہ بڑھ جائے یا سایہ لگنا شروع ہوجائے۔
آدھی رات سے مراد غروب آفتاب سے طلوع فجر تک کے درمیانی وقت کا نصف ہے۔ ایک قول کے مطابق غروب آفتاب سے طلوع آفتاب کے درمیانی وقت کا نصف ہے۔
جب تک وقت ہونے کے بارے میں انسان کو علم یا اطمینان نہ ہوجائے یا دو عادل گواہوں کے ذریعے یا ایک موثق آدمی کے ذریعے یا کسی وقت شناس معتبر آدمی کی اذان کے ذریعے معلوم نہ ہوجائے اس وقت تک پڑھی گئی نماز کافی نہیں ہے۔
دلائل:
۱ ۔ فجر سے مراد صبح کاذب نہ ہونا؛ بلکہ صبح صادق ہونا تمام مسلمانوں کے درمیان متفق علیہ مسئلہ ہے۔ اس حکم پر متعدد روایات دلالت کر رہی ہیں جن میں صبح صادق کی تشبیہ ہلکے سفید کاٹن اور نہر سوراء سے دی گئی ہے۔ اس کے برعکس صبح کاذب کی تشبیہ بھیڑیے کی دم سے دی گئی ہے۔ مثلا ابو بصیر کی روایت صحیحہ کہتی ہے:
“سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام: مَتَى يَحْرُمُ الطَّعَامُ عَلَى الصَّائِمِ وَ تَحِلُّ الصَّلَاةُ صَلَاةُ الْفَجْرِ؟ فَقَالَ: إِذَا اعْتَرَضَ الْفَجْرُ فَكَانَ كَالْقُبْطِيَّةِ الْبَيْضَاءِ
.” “میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا: کب روزہ دار پر کھانا پیناحرام اور نماز صبح پڑھنا اس کے لئے جائز ہوجاتا ہے؟ فرمایا: جب صبح کی سفیدی ،کاٹن کے ہلکا سفید کپڑے کی مانند پھیل جائے۔”
اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی علی ابن عطیہ کی روایت صحیحہ کہتی ہے:
“الفجر هُوَ الَّذِي إِذَا رَأَيْتَهُ كَانَ مُعْتَرِضاً كَأَنَّهُ بَيَاضُ نَهَرِ سُورَاءَ
” “فجر وہ ہے جسے تو نہر سوراء کی سفیدی کی طرح پھیلتے ہوئے دیکھے۔”
۲ ۔روشنی کا ظاہر ہونا فجر کی نشانی ہونے پر اللہ تعالیٰ کا مندرجہ ذیل فرمان دلالت کر رہا ہے:
(
وَ كلُُواْ وَ اشْرَبُواْ حَتىَ يَتَبَينََ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الخَْيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ
)
“اور خوردو نوش کرو، یہاں تک کہ تم پرفجر کی سفدا دھاری (رات کی) سا ہ دھاری سے نمایاں ہو جائے۔”
۳ ۔ روشنی ظاہر ہونے سے مراد در حقیقت روشن ہونا ہے نہ ہمیں نظر آنا؛ کیونکہ روشنی کا ظاہر ہونا عرف میں حقیقی وقت کے پہچاننے کا ایک ذریعہ ہے نہ کہ وہ خود دخیل ہے۔ اگر روشنی ظاہر ہونا ہی وقت کے ثابت ہونے میں دخیل ہوتا تو بادل کی موجودگی یا اس جیسی دوسری رکاوٹوں کے وقت واقعی طور پر فجر ثابت نہیں ہوتی مگر یہ کہ ایک طویل مدت گزر جائے۔ اسی طرح چاند گرہن کی صورت میں ایک ہی رات کے وقت فجر میں اختلاف پیش آتا ہے ، کہ اگر چاند گرہن ہو تو فجر پہلے ہوگی اور اگر چاند گرہن نہ ہو تو فجر دیر سے ہوگی۔ ایسا ہونا بعید ہے۔
اس بیان سے شیخ ہمدانی
اور دوسرے بعض علمائے متاخرین کے نظرئیے پر اشکال واضح ہوجاتا ہے کہ ان کے نظریئے کے مطابق چاندنظر آنے اور نظر نہ آنے والی راتوں کی صبحیں مختلف ہوتی ہیں۔
۴ ۔ زوال ہونے کی کئی نشانیاں ہیں۔ جن میں سے ایک کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے کہ جب کسی ڈنڈے کو زمین میں گاڑ دیا جائے تو سورج طلوع ہوتے وقت مغرب کی سمت طویل سایہ بن جاتا ہے جو دھیرے دھیرے گھٹنے لگتا ہے یہاں تک کہ سورج کے نصف نہار پر پہنچنے سے اس کا گھٹنا رک جاتا ہے پھر دوبارہ دوسری سمت بڑھنے لگتا ہے۔ یہی بڑھنا اس بات کی دلیل ہےکہ سورج نصف نہار کی لکیر سے گزر چکا ہے جس کا مطلب ہے کہ زوال ہوگیا ہے۔
یہ صورتحال اس وقت پیش آتی ہے جب سورج ڈنڈے کے بالکل اوپر سے نہ گزرے ورنہ نصف نہار پر پہنچنے سے سایہ بالکل ختم ہوجاتا ہے جیسا کہ سال کے کچھ دنوں میں مکہ مکرمہ میں ایسا ہوتا ہے۔ اس کے بعد دوبارہ سایہ لگنا شروع ہوجائے تو یہ زوال کی نشانی ہے۔
۵ ۔ آدھی رات کے لئے طلوع آفتاب کے بجائے طلوع فجر معیار ہونے کی وجہ ہے کہ عرف کہتا ہے کہ طلوع فجر اور طلوع آفتاب کا درمیانی وقت رات میں شامل نہیں ہے۔ اگر کسی سے کہا جائے کہ تم رات کو میرے ہاں آجاؤ! اور وہ سورج نکلنے سے ۱۵ منٹ پہلے آجائے تو اسے فرمان بردار نہیں کہا جاتا۔
اس کے علاوہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مرازم نے روایت صحیحہ نقل کی ہے:
“مَتَى أُصَلِّي صَلَاةَ اللَّيْلِ؟ فَقَالَ: صَلِّهَا آخِرَ اللَّيْل
” “میں کب نماز شب پڑھوں ؟ امام ؑ نے فرمایا: رات کے آخری حصے میں پڑھو۔”
۶ ۔وقت کے داخل ہونے کا علم نہ ہونے کی صورت میں نماز کے کافی نہ ہونے کا حکم قاعدہ اشتغال کی وجہ سے لگایا جاتا ہے کہ جب مکلف کے ذمے یقینی طور پر کوئی ذمہ داری ہو تو اس سے برئ الذمہ ہونے کے لئے بھی یقین ہونا ضروری ہے اور وقت کے داخل نہ ہونے کا استصحاب بھی کیا جاتا ہے۔
البتہ اگر بعد میں پتہ چلے کہ وقت داخل ہوچکا تھا تو وہ نماز کافی ہے بشرطیکہ قصد قربت کیا ہو۔
۷ ۔ علم کے ذریعے وقت ثابت ہونے کی وجہ یہ ہے کہ علم کی حجیت عقلی طور پر ثابت ہے ؛ بلکہ ہر حجت کی حجیت ، علم پر موقوف ہے۔ اگر علم حجت نہ ہوتا تو کسی بھی حقیقت کا ثابت کرنا محال ہوتا۔
۸ ۔ اطمینان کے ذریعے وقت کے ثابت ہونے پر عقلاء کی سیرت قائم ہے۔ عقلاء اپنے امور میں اطمینان پر عمل کرتے ہیں ۔ جب شارع نے اطمینا ن پر عمل کرنے سے نہیں روکا تو اسی سے شارع کی رضامندی بھی ثابت ہوجاتی ہے۔
۹ ۔ وقت کے ثابت ہونے کے لئے دو عادل گواہوں کی گواہی حجت ہونے کی کوئی خاص دلیل نہیں ہے ؛ لیکن مندرجہ ذیل طریقوں میں سے کسی ایک کے ذریعے اس کی حجیت پر استدلال کیا جا سکتا ہے:
الف) قضاوت کے باب میں اس کی حجیت پر دلالت کرنے والی دلیلوں سے تمسک کرنا۔ مثلا ہشام بن حکم کی روایت صحیحہ کے مطابق رسول اللہ ؐ نے فرمایا:
“إِنَّمَا أَقْضِي بَيْنَكُمْ بِالْبَيِّنَاتِ وَ الْأَيْمَان
” “میں تمہارے درمیان صرف گواہ اور قسم کے ذریعے قضاوت کرتا ہوں۔”
یہ روایت اگرچہ قضاوت کے باب سے مختص ہے؛ لیکن زیر نظر موضوع کو بھی بطریق اولیٰ ثابت کرسکتی ہے۔
ب) حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مسعدہ بن صدقہ نے روایت کی ہے:
“كُلُّ شَيْءٍ هُوَ لَكَ حَلَالٌ حَتَّى تَعْلَمَ أَنَّهُ حَرَامٌ بِعَيْنِهِ فَتَدَعَهُ...وَ الْأَشْيَاءُ كُلُّهَا عَلَى هَذَا حَتَّى يَسْتَبِينَ لَكَ غَيْرُ ذَلِكَ أَوْ تَقُومَ بِهِ الْبَيِّنَةُ
.” “ہر چیز تمہارے لئے حلال ہے مگر یہ کہ تم جان لو کہ یہ بعینہ حرام ہے تو اسے چھوڑ دو۔۔۔ ساری چیزیں اسی طرح ہیں یہاں تک کہ تمہارے لئے واضح ہوجائے کہ وہ کوئی اور چیز ہے یا اس پر گواہ قائم ہو۔”
اس روایت سے تمام موضوعات اور موارد میں گواہی کی حجیت کو اخذ کیا جا سکتا ہے۔
علاوہ بر ایں گواہی کے حجت ہونے یا نہ ہونے کی بحث اس وقت ہوگی جب“ خبر ثقہ” کو حجت نہ مانا جائے ورنہ واضح ہے کہ اس بحث کو چھیڑنا بے معنی ہوگا۔
۱۰ ۔ ایک موثق آدمی ،خواہ وہ عادل بھی نہ ہو، کی خبر کے ذریعے وقت ثابت ہونے پر عقلاء کی سیرت قائم ہے جس سے شارع نے منع نہیں کیا ہے لہذا شارع اس پر رضامند ہے۔
۱۱ ۔کسی وقت شناس معتبر آدمی کی اذان کے ذریعےوقت ثابت ہونے کا حکم مشہور ہے ؛ کیونکہ یہ بھی خبر ثقہ کے مصادیق میں سے ایک ہے۔ اس کے علاوہ اسی موضوع کو بیان کرنے والی بعض روایتوں سے بھی یہی حکم ثابت ہوتا ہے۔ مثلا ذریح محاربی کی روایت صحیحہ ہے:
“صَلِّ الْجُمُعَةَ بِأَذَانِ هَؤُلَاءِ، فَإِنَّهُمْ أَشَدُّ شَيْءٍ مُوَاظَبَةً عَلَى الْوَقْتِ
.” “ان لوگوں کی اذان کے ساتھ جمعے کی نماز پڑھو؛ کیونکہ یہ لوگ سختی کے ساتھ وقت کے پابند ہیں۔”
قبلہ :
تمام واجب نمازوں میں قبلے کی طرف رخ کرنا واجب ہے۔ قبلے سے مراد وہ جگہ ہے جہاں پر کعبہ شریف موجود ہے۔
دلائل:
۱ ۔ تمام واجب نمازوں میں قبلے کی طرف رخ کرنے کا وجوب ضروریات دین کا تقاضا ہے۔ اس کے علاوہ بعض روایات بھی اسی حکم پر دلالت کر رہی ہیں ۔ مثلا حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے زرارہ نے ایک روایت صحیحہ نقل کی ہے:
“لَا صَلَاةَ إِلَّا إِلَى الْقِبْلَة
” “قبلے کی طرف رخ کئے بغیر کوئی نماز نہیں ہوتی ۔”
ایک دوسری حدیث بھی بتا رہی ہے:
“لَا تُعَادُ الصَّلَاةُ إِلَّا مِنْ خَمْسَةٍ الطَّهُورِ وَ الْوَقْتِ وَ الْقِبْلَةِ وَ الرُّكُوعِ وَ السُّجُودِ
.” “پانچ چیزوں کے خلل کے علاوہ نماز دوبارہ نہیں پڑھی جائے گی: ۱ ۔ طہارت، ۲ ۔ وقت، ۳ ۔ قبلہ، ۴ ۔رکوع اور ۵ ۔ سجود۔”
۲ ۔ مستحب نمازوں میں قبلے کی طرف رخ کرنے کا حکم: گزشتہ روایات کے اطلاق کے مطابق مستحب نمازوں میں بھی قبلہ رخ ہونا ضروری ہے ؛ لیکن بعض روایات ، نافلہ نماز کی حالت میں چلنا جائز ہونے پر دلالت کرتی ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب چلنا جائز ہے تو اس کا لازمہ قبلے کی شرط کا ساقط ہونا ہے۔ مثلا یعقوب بن شعیب کی روایت صحیحہ ہے:
“سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام ...قُلْتُ:يُصَلِّي وَهُوَ يَمْشِي؟قَالَ: نَعَمْ، يُومِئُ إِيمَاءً وَ لْيَجْعَلِ السُّجُودَ أَخْفَضَ مِنَ الرُّكُوعِ
.” “میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا:۔۔۔ میں نے عرض کیا: کوئی شخص چلتے ہوئے نماز پڑھ سکتا ہے؟ فرمایا: ہاں! وہ اشارہ کرے گا اور سجدے کا اشارے کرتے ہوئے رکوع کے اشارے سے زیادہ جھکے گا۔”
اس روایت کو مستحب نمازوں پر محمول کرنا ضروری ہے ؛ کیونکہ اس سے فریضہ نمازیں مراد نہیں ہو سکتیں۔
۳ ۔ قبلے سے مراد کعبے کی عمارت نہیں ؛ بلکہ وہ سمت ہے جہاں کعبہ واقع ہے؛ کیونکہ:
الف)اگر عمارت کو ڈھا دیا جائے تو قبلہ ختم ہونا لازم آتا ہے اور اس کو دوبارہ تعمیر کرنے کی صورت میں وہ عمارت قبلہ نہیں بن سکتی۔
ب) جن مقامات کی زمینی سطح ، مکہ مکرمہ کی نسبت بلندیا پست ہیں وہاں کے مکینوں کی نماز کا باطل ہونا لازم آتا ہے۔
اگر کوئی یہ اشکال کرے کہ قبلے سے مراد کعبے کی عمارت ہو یا سمت ، دونوں صورتوں میں بعض طویل صفوں کی نماز باطل ہوگی ۔ نماز صرف انہی کی صحیح ہوگی جو کعبے کی بالکل سیدھ میں کھڑا ہو۔
تو اس بات کا جواب یہ ہے کہ اصلی معیار دقیق طور پر نہیں ؛ بلکہ عرفا کعبے کے سامنے کھڑا ہونا ہے ۔لہذا جتنا دور چلاجائے اتنا ہی اس جہت میں وسعت آئے گی۔ مثلا حضرت امام حسین علیہ السلام کی قبر کے نزدیک سے پانچ افراد ہی قبر کے سامنے کھڑے ہو سکتے ہیں جبکہ دور سے ایک ملک کے سارے لوگ اس کے سامنے کھڑے ہو سکتے ہیں۔
طہارت :
جب تک نمازی حدث سے پاک نہ ہو اور اس کے لباس و بدن، استثنائی موارد کے علاوہ، خبث سے پاک نہ ہو اس کی نماز صحیح نہیں ہے ۔
حدث کے ساتھ پڑھی گئی نماز کا اعادہ کرنا ہوگا خواہ نمازی حدث کو بھول جائے یا اسے حدث کا علم نہ ہو ۔ اس کے برعکس خبث کے ساتھ پڑھی گئی نماز کااعادہ صرف اس وقت ضروری ہے جب وہ خبث کو بھول جائے؛ لیکن اگر اسے خبث کے بارے میں علم نہ ہو تو اس نماز کا اعادہ ضروری نہیں۔
دلائل:
۱ ۔ حدث سے پاک ہونا ضروری ہونا مسلّمات ؛ بلکہ ضروریات دین میں سے ہے۔ اور مندرجہ ذیل آیت مجیدہ اس پر دلالت کر رہی ہے:
(
يَأَيهَُّا الَّذِينَ ءَامَنُواْ إِذَا قُمْتُمْ إِلىَ الصَّلَوةِ فَاغْسِلُواْ وُجُوهَكُمْ وَ أَيْدِيَكُمْ إِلىَ الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُواْ بِرُءُوسِكُمْ وَ أَرْجُلَكُمْ إِلىَ الْكَعْبَينِْ وَ إِن كُنتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوا...
)
“اے ایمان والو! جب تم نماز کے لےَ اٹھو تواپنے چہروں اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمتا دھو لاا کرو نز اپنے سروں کا اور ٹخنوں تک پاؤں کا مسح کرو، اگر تم حالت جنابت مں ہو تو پاک ہوجاؤ۔۔۔”
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی زرارہ کی روایت صحیحہ بتا رہی ہے:
“لَا صَلَاةَ إِلَّا بِطَهُورٍ
.” “طہارت کے بغیر کوئی نماز نہیں۔”
اس کے علاوہ بھی روایات ہیں جو اس حکم پر دلالت کرتی ہیں۔
۲ ۔ لباس کا خبث سے پاک ہونا ضروری ہونا ان مسائل میں سے ہے جن میں کوئی اشکال نہیں اور بہت ساری روایتیں اس پر دلالت کر تی ہیں ۔ مثلا زرارہ کی روایت صحیحہ ہے:
“قُلْتُ: أَصَابَ ثَوْبِي دَمُ رُعَافٍ أَوْ غَيْرِهِ أَوْ شَيْءٌ مِنْ مَنِيٍّ فَعَلَّمْتُ أَثَرَهُ إِلَى أَنْ أُصِيبَ لَهُ الْمَاءَ فَأَصَبْتُ وَ حَضَرَتِ الصَّلَاةُ وَ نَسِيتُ أَنَّ بِثَوْبِي شَيْئاً وَ صَلَّيْتُ ثُمَّ إِنِّي ذَكَرْتُ بَعْدَ ذَلِكَ. قَالَ: تُعِيدُ الصَّلَاةَ وَ تَغْسِلُه
.” “میں نے ان سے عرض کیا: میرے کپڑے پر ناک کا خون یا کوئی اورنجس یا منی کےکچھ مواد لگے تو میں نے اس جگہ پر کوئی نشان لگایا تاکہ پانی ملنے پر اسے دھو لوں۔ ایسے میں نماز کا وقت ہوگیا تو میں اپنے کپڑے کی نجاست کو بھول گیا ۔ اسی کے ساتھ نماز پڑھنے کے بعد میں اس بات کی جانب متوجہ ہوا ۔ فرمایا: کپڑے کو دھولو اور نماز کا اعادہ کرو۔”
اس روایت کا مُضمَر
ہونا اس کے دلیل بننے میں رکاوٹ نہیں بنے گا؛ کیونکہ مُضمِر(راوی) ان بزرگ اصحاب میں سے ہیں جو امام ؑ کے علاوہ کسی اور سے روایت اخذ نہیں کرتے۔
۳ ۔ بدن کا خبث سے پاک ہونا ضروری ہونے کا حکم اولویت کی وجہ سے ثابت ہے۔(کہ جب لباس کا پاک ہونا ضروری ہے تو بدن کا پاک ہونا بطریق اولیٰ ضروری ہے۔)
۴ ۔ حدث کے ساتھ نماز پڑھنے کی صورت میں مطلَقاً نماز کا اعادہ کرنا ضروری ہونے کی دلیل یہ ہے کہ گزشتہ آیت مجیدہ اور صحیحہ زرارہ سے طہارت کے شرط ہونے کا پتہ چلتا ہے اور اس شرط کے اطلاق سے اس حکم کو لیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ حدیث “لاتعاد”بھی اسی حکم پر دلالت کرتی ہے کہ جس میں حدث سے پاک ہونا پانچ استثناءات میں سے ایک ہے۔
۵ ۔ خبث کے ساتھ نماز پڑھنے کی صورت میں جاہل اور بھولنے والے کا حکم حدیث “لاتعاد”میں مستثنیٰ منہ کے مطلق ہونے کا تقاضا، جاہل اور ناسی (بھولنے والا) دونوں پر نماز کا اعادہ کرنا ضروری نہ ہونا ہے ؛ لیکن زرارہ کی صحیحہ کے مطابق بھولنے والے پر اعادہ واجب ہے ؛ جبکہ جاہل پر واجب نہیں۔
روایت کا وہ جملہ جو بھولنے والے پر اعادہ واجب قرار دیتا ہے ، بیان ہو چکا ہے اور جو جملہ جاہل پر اعادہ واجب نہ ہونے پر دلالت کرتا ہے وہ یہ ہے:
“قُلْتُ: فَإِنْ ظَنَنْتُ أَنَّهُ قَدْ أَصَابَهُ وَ لَمْ أَتَيَقَّنْ ذَلِكَ فَنَظَرْتُ فَلَمْ أَرَ فِيهِ شَيْئاً ثُمَّ صَلَّيْتُ فَرَأَيْتُ فِيهِ، قَالَ: تَغْسِلُهُ وَ لَا تُعِيد
” “میں نے عرض کیا: اگر مجھے نجاست کے لگنے کا یقین نہ ہو؛ بلکہ گماں ہو اور دیکھنے کے بعد بھی کچھ نظر نہ آئے پھر نماز پڑھنے کے بعد مجھے نجاست دکھائی دے ۔ فرمایا: کپڑے کو دھو لو اور نماز کا اعادہ نہ کرو۔”
اسی وجہ سے زرارہ کی صحیحہ ،بھولنے والے کی نسبت سے،قاعدۂ “لاتعاد”کے لئے مخصص بنے گی۔
شرمگاہوں کا ڈھانپنا:
شرمگاہوں کو چھپائے بغیر ، نماز صحیح نہیں ہوتی۔ مرد پر آلۂ تناسل، بیضتین اور مقعد کا چھپانا ضروری ہے ۔عورت پر چہرے کی وہ مقدار جو سر ڈھانپتے وقت ظاہر رکھی جاتی ہے نیز کلائیوں تک دونوں ہاتھوں اور پنڈلیوں تک دونوں پاؤں کےعلاوہ پورے جسم کا چھپانا ضروری ہے۔
مشہور کے مطابق شرمگاہوں کو چھپانے والی چیزوں کا پاک ہونے کے ساتھ مباح ہونا بھی ضروری ہے ۔نیز حرام گوشت حیوان کے اجزاء سے بنا ہوا نہ ہو اور نہ ایسے حیوان کے اجزا ء سے بنا ہوا ہو جسے شرعی طریقے سے ذبح نہ کیا گیا ہو۔
مردوں کی شرمگاہوں کو چھپانے والی چیزوں میں ضروری ہے کہ وہ خالص ریشم اور سونے سے بنی ہوئی نہ ہوں۔
دلائل:
۱ ۔نماز میں شرمگاہوں کا چھپانا : مستمسک
میں کہا گیا ہے کہ نماز میں شرمگاہوں کو چھپانا واجب ہونے کے حکم کو ،اس وقت کے لئے بھی جہاں کوئی دیکھنے والا نہ ہو ،نصوص سے ثابت کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس حکم کی بہترین دلیل اجماع ہے۔
لیکن خلوت کی حالت کے لئے بھی اس حکم کو روایات سے ثابت کرنا ظاہراً ممکن ہے۔ مثلا صفوان کی روایت صحیحہ ہے کہ اس نےحضرت امام رضا علیہ السلام کے نام ، سوال کرتے ہوئے، خط لکھا کہ:
“الرَّجُلِ مَعَهُ ثَوْبَانِ فَأَصَابَ أَحَدَهُمَا بَوْلٌ وَ لَمْ يَدْرِ أَيُّهُمَا هُوَ وَ حَضَرَتِ الصَّلَاةُ وَ خَافَ فَوْتَهَا وَ لَيْسَ عِنْدَهُ مَاءٌ كَيْفَ يَصْنَعُ؟ قَالَ: يُصَلِّي فِيهِمَا جَمِيعاً
.”، “ایک آدمی کے پاس دو کپڑے ہیں جن میں سے ایک پر پیشاب لگا ہے جبکہ وہ نہیں جانتا کہ دونوں میں سے کس پر پیشاب لگا ہے، جب نماز کا وقت ہوجائے اور وقت بھی تنگ ہو نیز اس کے پاس پانی بھی نہ ہو ، اس صورت میں وہ کیا کرے گا؟ فرمایا: دونوں کپڑوں کے ساتھ نماز پڑھے گا۔”
اس روایت میں (کسی دیکھنے والے کی موجودگی یا عدم موجودگی کے بارے میں )تفصیل بیان نہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ (ہر حال میں) شرمگاہوں کو چھپانا واجب ہے؛ ورنہ کسی دیکھنے والے کی عدم موجودگی کی صورت میں ننگے ہوکر نماز پڑھنے کا ہی حکم دینا مناسب تھا۔
۲ ۔ مرد کی شرمگاہ کے حکم میں مذکورہ چیزوں کے علاوہ عجان
وغیرہ کے شامل نہ ہونے کو ثابت کرنے کے لئے ان کی شمولیت کی دلیل کا نہ ہونا ہی کافی ہے جبکہ مذکورہ چیزیں زرارہ کی روایت صحیحہ کے ذریعے ثابت ہوتی ہیں۔ یہ روایت اس شخص کے بارے میں ہے جس کے کپڑے چھن گئے ہوں کہ:
“...وَ إِنْ كَانَ رَجُلًا وَضَعَ يَدَهُ عَلَى سَوْأَتِهِ ثُمَّ يَجْلِسَانِ فَيُومِئَانِ إِيمَاءً وَ لَا يَسْجُدَانِ وَ لَا يَرْكَعَانِ فَيَبْدُوَ مَا خَلْفَهُمَا
...”“۔۔۔اوراگر مرد ہو تو اپنی شرمگاہ پر ہاتھ رکھے گا۔ پھر دونوں بیٹھ کر اشارے سے نماز پڑھیں گے، یہ دونوں نہ سجدہ کریں گے اور نہ رکوع ورنہ ان کا پچھلا حصہ ظاہر ہو جائے گا۔ ”
۳ ۔ عورت کی شرمگاہ کی مذکورہ حدبندی کا حکم مشہور ہے۔ اس حکم کو حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سے مروی علی بن جعفر کی روایت صحیحہ سے ثابت کیا جا سکتا ہے :
“الْمَرْأَة لَيْسَ لَهَا إِلَّا مِلْحَفَةٌ وَاحِدَةٌ كَيْفَ تُصَلِّي؟ قَالَ: تَلْتَفُّ فِيهَا وَ تُغَطِّي رَأْسَهَا وَ تُصَلِّي فَإِنْ خَرَجَتْ رِجْلُهَا وَ لَيْسَ تَقْدِرُ عَلَى غَيْرِ ذَلِكَ فَلَا بَأْسَ
.” “جس کے عورت کے پاس ایک اوڑھنی کے علاوہ کچھ نہیں ہے وہ کس طرح نماز پڑھے گی؟ فرمایا: وہ اپنے آپ کو اسی میں لپیٹ لے گی اور سر کو ڈھانپ کر نماز پڑھے گی، اگر مجبوری کی وجہ سے وہ اپنا پاؤں نہ ڈھانپ سکے تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔”
مذکورہ مقدار میں چہرے کا ظاہر کرنا جائز ہونے پر دوپٹے کے بارے میں بتانے والی روایات دلالت کرتی ہیں۔ مثلا ابن ابی یعفور کی موثق روایت کہہ رہی ہے کہ :
“قال ابو عبد الهّو علیه السلام: تُصَلِّي الْمَرْأَةُ فِي ثَلَاثَةِ أَثْوَابٍ إِزَارٍ وَ دِرْعٍ وَ خِمَار
...” “حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: عورت تین کپڑوں میں نماز پڑھے گی: شلوار، قمیض اور دوپٹہ۔”
بلکہ بعض اوقات گزشتہ صحیحہ کے جملہ “تغطّی رأسها
”سے اس حکم کو اخذ کیا جاتا ہے۔
دونوں ہاتھوں( کو کلائیوں تک) اور پاؤں کو( پنڈلیوں تک) چھپانا واجب نہ ہونے کے حکم کو ثابت کرنے کے لئے دلیل کا قاصر ہونا ہی کافی ہے۔
علی ابن جعفر کی گزشتہ روایت کا آخری حصہ ، قادر ہونے کی صورت میں پورے پاؤں کو چھپانا واجب ہونے پر دلالت نہیں کرتا؛ بلکہ فی الجملہ اس کا چھپانا واجب ہونے پر دلالت کرتا ہے۔
۴ ۔ لباس کے مباح ہونے کی شرط پر دلالت کرنے والی کوئی روایت نہیں ہے پھر بھی معروف حکم یہ ہے کہ نمازی کے لباس اور نماز پڑھنے کی جگہ کا مباح ہونا ضروری ہے۔
لیکن لباس میں مباح ہونے کی لازمی مقدار کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض فقہاء کا کہنا ہے کہ پورے لباس کا مباح ہونا ضروری ہے جبکہ بعض کے مطابق اسی مقدار ہی کا پاک ہونا ضروری ہے جس سے نمازی اپنی شرمگاہوں کو ڈھانپ سکے۔
اس شرط پر بعض اوقات اس طرح استدلال کیا جاتا ہے کہ نماز میں شرمگاہوں کا ڈھانپنا واجب ہے پس ڈھانپنے والی چیز کا غصبی ہونا جائز نہیں ہے ؛ کیونکہ حرام عمل کا واجب کے مصادیق میں سے شمار ہونا محال ہے۔ نتیجتاً مباح کی شرط صرف شرمگاہ کو چھپانے والی چیزوں سے متعلق ہوگی۔
۵ ۔ نمازی کے لباس کا حرام گوشت حیوان کے اجزاء سے تیار شدہ نہ ہونا ضروری ہونے پر ابن بکیر کی موثق روایت دلالت کر رہی ہے:
“سَأَلَ زُرَارَةُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام عَنِ الصَّلَاةِ فِي الثَّعَالِبِ وَ الْفَنَكِ وَ السِّنْجَابِ وَ غَيْرِهِ مِنَ الْوَبَرِ فَأَخْرَجَ كِتَاباً زَعَمَ أَنَّهُ إِمْلَاءُ رَسُولِ اللَّهِ(ص): أَنَّ الصَّلَاةَ فِي وَبَرِ كُلِّ شَيْءٍ حَرَامٍ أَكْلُهُ فَالصَّلَاةُ فِي وَبَرِهِ وَ شَعْرِهِ وَ جِلْدِهِ وَ بَوْلِهِ وَ رَوْثِهِ وَ كُلِّ شَيْءٍ مِنْهُ فَاسِد
...” “زرارہ نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے لومڑی،صحرائی بلی اور گلہری کے اون سے بنے ہوئے لباس میں پڑھی جانے والی نماز کے بارے میں پوچھا تو امام ؑ نے ایک کتاب نکالی ، جس پر رسول اللہ ﷺ کی املاء کا گماں ہوتا تھا: ہر وہ حیوان جس کا کھانا حرام ہے اس کے اون کے ساتھ نماز کا حکم ، اس کے اون اور بال ، اس کی کھال اور اس کے پیشاب اور گوبر اور اس کی ہر چیز کے ساتھ نماز باطل ہے۔”
۶ ۔ مصلی کے لباس کا مردار کے اجزاء سے تیار شدہ نہ ہونا ضروری ہونے پر بھی ابن بکیر کی گزشتہ روایت دلالت کر رہی ہےجس کے آخرمیں بیان کیا گیا ہے کہ:
“فان کان مما یؤکل لحمه فالصلاة فی وبره وکل شیء منه جائز اذا علمت انه ذکی
”، “اگر وہ حیوان حلال گوشت ہو تو اس کے اون کے ساتھ نماز پڑھنا ۔۔۔اور اس کی ہر چیز کے ساتھ نماز جائز ہے بشرطیکہ تجھے اس کے ذبح کئے جانے کا علم ہو۔ ”
۷ ۔مردوں کے لئے سونے کا پہننا جائز نہ ہونے پر حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی عمار کی موثق روایت دلالت کررہی ہے :
“لَا يَلْبَسُ الرَّجُلُ الذَّهَبَ وَ لَا يُصَلِّي فِيهِ لِأَنَّهُ مِنْ لِبَاسِ أَهْلِ الْجَنَّةِ
.” “مرد سونا نہ پہنے اور نہ اس کے ساتھ نماز پڑھے؛ کیونکہ یہ بہشتیوں کا لباس ہے۔”
اس روایت پر ایک قاعدے کا اضافہ کرنے سے نماز کا باطل ہونا ثابت ہوتاہےاور وہ قاعدہ یہ ہے کہ “ عبادت میں کسی چیز سے نہی کرنے سے وہ اس عبادت کو باطل کردیتی ہے۔”
اس حکم کا مردوں کے ساتھ مختص ہونا ، روایت کے مردوں سے مختص ہونے کی وجہ سے ہے ؛ لہذا حکم بھی انہی پر جاری ہوگا۔
۸ ۔ لباس کا خالص ریشم سے تیار شدہ نہ ہونا ضروری ہونے پر محمد بن عبد الجبار کی مکاتبہ روایت دلالت کر رہی ہے کہ:
“كَتَبْتُ إِلَى أَبِي مُحَمَّدٍ علیه السلام أَسْأَلُهُ هَلْ يُصَلَّى فِي قَلَنْسُوَةِ حَرِيرٍ مَحْضٍ أَوْ قَلَنْسُوَةِ دِيبَاجٍ فَكَتَبَ ع لَا تَحِلُّ الصَّلَاةُ فِي حَرِيرٍ مَحْضٍ
.” “میں نے حضرت ابو محمد علیہ السلام سے بذریعہ خط سوال کیا: کیا خالص ریشم یا دیباج سے بنی ہوئی ٹوپی کے ساتھ نماز پڑھی جا سکتی ہے؟ امام ؑ نے جواب میں لکھا: خالص ریشم کے ساتھ نماز جائز نہیں ہے۔”
اس حکم کے مردوں کے ساتھ مختص ہونے کی دلیل: یہ کہ سماعہ کی موثق روایت کہہ رہی ہے کہ:
“لَا يَنْبَغِي لِلْمَرْأَةِ أَنْ تَلْبَسَ الْحَرِيرَ الْمَحْضَ وَ هِيَ مُحْرِمَة
”، “عورت کو حالت احرام میں خالص ریشم نہیں پہننا چاہئے۔”
اس روایت میں حکم کو حالت احرام کے ساتھ مختص کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ احرام کے علاوہ دوسری حالتوں میں خالص ریشم کا پہننا عورت کے لئے جائز ہے۔
نمازی کی جگہ:
غصبی جگہے میں نماز صحیح نہیں ہے مگر یہ کہ مالک اجازت دے۔مشترک جگہے میں بھی باقی شرکاء کی اجازت کے بغیر کسی ایک شریک کی نماز صحیح نہیں ہے۔ جس متحرک جگہے پر سکون اور ٹھہراؤ صادق نہ آتا ہو ، وہاں بھی نماز صحیح نہیں ہے۔
دلائل:
۱ ۔ غصبی جگہے میں نماز کا صحیح نہ ہونا اس لئے ہے کہ کوئی حرام ، کسی واجب کا مصداق نہیں بن سکتا۔
دوسرے الفاظ میں یہ کہ : حرام چیز خدا سے نزدیک کرنے کا سبب نہیں بن سکتی۔
کہا گیا ہے کہ سجدہ کرنے کی جگہ کے علاوہ دوسری جگہوں کا مباح ہونا ضروری نہیں۔
۲ ۔ اجازت دینے سے نماز کے صحیح ہونے کی دلیل: یہ کہ جس جگہے کی اجازت دی جائے وہ مباح کے حکم میں شامل ہوجاتی ہے۔
۳ ۔ مشترک جگہے میں تمام شرکاء کی اجازت اس لئے شرط ہے کہ اشتراک کی وجہ سے تمام شرکاء مجموعی طور پر مالک ہیں ؛ لہذا اجازت بھی سب کی ہونی چاہئے۔
۴ ۔ نماز کی جگہ کااس حد تک متحرک نہ ہوناضروی ہے کہ سکون کی حالت صادق نہ آئے۔یہ ایک مسلمہ حکم ہےاور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی سکونی کی روایت سے بھی اس پر استدلال کیا جاتا ہےجویہ ہے :
“الرَّجُلِ يُصَلِّي فِي مَوْضِعٍ ثُمَّ يُرِيدُ أَنْ يَتَقَدَّمَ قَالَ يَكُفُّ عَنِ الْقِرَاءَةِ فِي مَشْيِهِ حَتَّى يَتَقَدَّمَ إِلَى الْمَوْضِعِ الَّذِي يُرِيدُ ثُمَّ يَقْرَأُ
.” ، “ایک شخص کہیں نماز پڑھ رہا ہے پھر وہ (نماز کی حالت میں)ذرا آگے بڑھنا چاہتا ہے، فرمایا: جہاں تک جانا چاہتا ہے وہاں پہنچنے تک کچھ نہ پڑھے پھر (جب وہاں پہنچ جائے تو) پڑھ لے۔ ”
یہ روایت بتا رہی ہے کہ قرائت کے دوران نمازی کا ساکن ہونا ضروری ہے جبکہ جگہے کے متحرک ہونے کی صورت میں سکون یا ٹھہراؤ صادق نہیں آتا۔
نوفلی (جس نے سکونی سے روایت کی ہے) موثق نہیں ہے اس کی وجہ سے اس روایت کی سند کا ضعیف ہونا ، روایت کے دلیل بننے میں رکاوٹ نہیں بنتا بشرطیکہ ہم مشہور کے فتویٰ کے ذریعے ضعف سند کی تلافی ہونے کے قائل ہوں۔
نماز کے اجزاء:
نماز کے کئی ایک اجزاء ہیں جنہیں ہم ذیل میں ذکر کریں گے:
نیت:
نیت سے مراد یہ ہے کہ اس معین کام کا سبب ، امر خدا وندی ہے۔
اگر نماز میں دو عناوین اس پر صادق آنے کی صلاحیت ہو تو نماز کو معین کرنا ضروری ہے۔
جب مکلف کے ذمے کوئی قضانماز نہ ہو یا نماز پڑھتے ہوئے اسےشک ہو کہ یہ قضا ہے یا ادا؟ تو قضاء کی نیت کرنا ضروری نہیں ہے۔
اگر مکلف کو نماز کی نیت میں شک ہو کہ میں ظہر کی نیت سے پڑھ رہا ہوں یا عصر کی ؟ تو وہ ظہر کی نیت کرے بشرطیکہ اس سے پہلے کوئی نماز نہ پڑھی ہو ۔ اگر پہلے کوئی نماز پڑھی تھی تو یہ نماز(جس میں شک ہوئی ہے) باطل ہوگی۔
دلائل:
۱ ۔ امر خدا وندی کے سبب سے انجام پاناضروری ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس طرح کی نیت ہر عبادت کا لازمہ ہے۔
یہاں سے ریا اور دکھاوے کے لئے انجام پانے والی عبادتوں کا باطل ہونا واضح ہوجاتاہے کہ ان میں مذکورہ سبب نہیں پایا جاتا۔ بلکہ واجب تعبدی سے قطع نظر ، ریا ایک حرام کام ہے اور عبادت کو باطل بھی کرتا ہے۔حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی زرارہ اور حمران کی ایک روایت صحیحہ میں امام ؑ فرماتے ہیں کہ :
“لَوْ أَنَّ عَبْداً عَمِلَ عَمَلًا يَطْلُبُ بِهِ وَجْهَ اللَّهِ وَ الدَّارَ الْآخِرَةَ وَ أَدْخَلَ فِيهِ رِضَى أَحَدٍ مِنَ النَّاسِ كَانَ مُشْرِكا
.”“اگر کوئی بندہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی چاہتے ہوئے اور جنت میں داخل ہونے کے لئے کوئی عمل انجام دے اور لوگوں میں سے کسی کی خوشنودی بھی اس میں شامل کرلے تو وہ بندہ مشرک ہوگا۔”
شرک کی تعبیر اس فعل کے حرام ہونے پر دلالت کرتی ہے جس کا لازمہ اس فعل کا باطل ہونا ہے۔
پیغمبر اکرم ﷺ سے مروی ایک حدیث میں ارشاد ہوتا ہے:
“يُؤْمَرُ بِرِجَالٍ إِلَى النَّارِ... فَيَقُولُ لَهُمْ خَازِنُ النَّارِ يَا أَشْقِيَاءُ مَاكَانَ حَالُكُمْ قَالُوا كُنَّا نَعْمَلُ لِغَيْرِ اللَّهِ فَقِيلَ لَنَا خُذُوا ثَوَابَكُمْ مِمَّنْ عَمِلْتُمْ لَهُ
.” ،“کچھ لوگوں کو آگ کی طرف دھکیلا جائے گا۔۔۔ داروغہ جہنم ان سے کہے گا: اے شقی لوگو! تم کیسے لوگ تھے ؟ وہ جواب دیں گے کہ ہم غیر اللہ کے لئے عمل کرتے تھے۔ لہذا ہم سے کہا گیا کہ: جس کے لئے تم عمل کرتے تھے اسی سے ثواب حاصل کرو۔”
۲ ۔نماز میں دو عنوان اس پر صادق آنے کی صلاحیت ہونے کی صورت میں اس کو معین کرنا ضروری ہے ۔مثلا نماز صبح اور اس کی نفل؛ کیونکہ جب تک ارادہ نہ کیا جائے اس وقت تک عنوان وجود میں نہیں آتا۔(یعنی؛ مکلف نے کونسی نماز کا ارادہ کیا ہے یہ معلوم نہیں ہوتا۔)
دو عنوان اس پر صادق نہ آنے کی صورت میں اس کو معین کرنا ضروری نہیں۔ مثلا دو نفل نمازوں کی نذر ماننا۔ چونکہ در حقیقت (دو نفل نمازوں میں کچھ فرق نہ ہونے کی وجہ سے ) مکلف کسی ایک کو معین نہیں کرسکتا؛ بلکہ اس صورت میں معین کا ارادہ کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔
۳ ۔ جب مکلف کے ذمے کوئی قضاء ہو تو قضا ءیا ادا میں سے کسی ایک کا ارادہ کرنا ضروری ہے؛ کیونکہ جب تک ارادہ نہ کیا جائے اس وقت تک دونوں نمازوں میں کوئی ایک بھی معین نہیں ہو سکتی۔
جب اس کے ذمے قضاء نہ ہواور دوران نماز قضاء یا ادا میں شک ہونے کی صورت میں معین کرنا ضروری نہیں ہے ؛ کیونکہ درحقیقت مکلف کے ذمے جو واجب ہے اسی کی اطاعت کا ارادہ کرنے سے ہی اس کی ذمہ داری ادا ہو جاتی ہے ۔
۴ ۔ جب نیت میں ظہر یا عصر کے حوالے سے شک ہو جبکہ پہلے کوئی نماز نہ پڑھی ہو تو ظہر کی نیت کرنا ضروری ہے ؛ کیونکہ یہ فرض درحقیقت دو احتمال سے خالی نہیں ہے: پہلا احتمال یہ ہے کہ اس نے عصر ہی کی نیت کی ہے تو اس صورت میں ضروری ہے کہ وہ ظہر کی نیت کی طرف پلٹ جائے اور اس طرح پلٹنا ہراس شخص کے لئے ضروری ہے جس نے پہلے کوئی نماز نہ پڑھی ہو۔ دوسرا احتمال یہ کہ اس نے درحقیقت ظہر کی نیت کی ہے تو اس صورت میں حکم واضح ہے۔(یعنی اس نے پہلے سے بھی ظہر کی نیت کی تھی اورشک کے بعد بھی وہ اسی نیت کو جاری رکھے گا۔)
۵ ۔ اگر اس نماز سے پہلے کوئی نماز پڑھی تھی تو حالیہ نماز باطل ہوتی ہے ؛ کیونکہ اس فرض میں یہ احتمال ہوتا ہے کہ اس نے درحقیقت ظہر کی نیت کی ہے لہذا سابق (ظہر ) سے لاحق (عصر) کی طرف نیت کو پلٹانا اس کے لئے جائز نہیں اور جہاں پلٹنا جائز ہے وہ اس کے برعکس ( یعنی : لاحق سے سابق کی طرف )ہی ہے۔ اگر چہ قاعدے کے مطابق، نہ سابق سے لاحق کی طرف پلٹنا جائز ہے اور نہ لاحق سے سابق کی طرف۔لیکن ہمارے پاس موخر الذکر کے جائز ہونے ؛بلکہ اس کے واجب ہونے کی خاص دلیل ہے۔ مثلا حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے زرارہ نے روایت صحیحہ نقل کی ہے کہ:
“...إِذَا نَسِيتَ الظُّهْرَ حَتَّى صَلَّيْتَ الْعَصْرَ فَذَكَرْتَهَا وَ أَنْتَ فِي الصَّلَاةِ أَوْ بَعْدَ فَرَاغِكَ فَانْوِهَا الْأُولَى ثُمَّ صَلِّ الْعَصْرَ فَإِنَّمَا هِيَ أَرْبَعٌ مَكَانَ أَرْبَعٍ...وَ إِنْ كُنْتَ قَدْ صَلَّيْتَ مِنَ الْمَغْرِبِ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ ذَكَرْتَ الْعَصْرَ فَانْوِهَا الْعَصْرَ
...” “اگر تو نے بھولے سے ظہر کے بجائے عصرکی نماز پڑھ لی پھر دوران نماز یا بعد از نماز تجھے یاد آئے کہ ظہر کی نماز نہیں پڑھی ہے تو نیت کو ظہر کی طرف پلٹا دو پھر عصر پڑھو یہ چار رکعت (ظہر کی ) چار رکعت کی جگہ (کافی) ہوگی۔۔۔ اور اگر تجھے مغرب کی دو رکعتیں پڑھنے کے بعد یاد آئے کہ عصر کی نماز نہیں پڑھی تھی تو نیت کو عصر کی طرف پلٹا دو۔ ”
تکبیرۃ الاحرام:
تکبیر ( اللہ اکبر کہنا) نماز کا رکن ہے جس کے ،جان بوجھ کر یا بھول کر ،چھوڑدینے سے نماز باطل ہوتی ہے اسی طرح اس کے ،جان بوجھ کر نہ کہ بھول کر، اضافہ کرنے سے بھی نماز باطل ہوتی ہے۔
دلائل:
۱ ۔ نماز میں تکبیر کا واجب ہونا ضروریات دین میں سے ہے اور بہت سی روایات بھی اس حکم پر دلالت کرتی ہیں جن میں سے کچھ روایتیں تکبیر کو بھول جانے والے کے بارے میں ہیں ۔ مثلا زرارہ کی روایت صحیحہ ہے کہ:
“سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ علیه السلام عَنِ الرَّجُلِ يَنْسَى تَكْبِيرَةَ الِافْتِتَاحِ، قَالَ: يُعِيدُ
.”“میں نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے اس شخص کے بارے میں سوال کیا جو نماز کی پہلی تکبیر بھول جاتا ہے، فرمایا: وہ نماز کا اعادہ کرے گا۔”
۲ ۔اس بات کی دلیل کہ تکبیر میں “اللہ اکبر” ہی کہنا ضروری ہے۔ اس کا ترجمہ پڑھنا یا اس کے مترادف الفاظ کا ادا کرنا یا اس کی شکل کو بدل دینا کافی نہیں۔ اگرچہ روایات تکبیر کے کسی خاص ہیئت پر دلالت نہیں کرتی ہیں۔
تکبیر ۃ الاحرام میں “ اللہ اکبر ” ہی کہنا ضروری ہونا صرف اس لئے ہے کہ تمام اہل شریعت کا ذہنی ارتکاز اسی صیغے پر ہے ۔ اس ارتکاز ذہنی کا سرچشمہ فقط یہی ہے کہ یہ حکم شارع سے صادر ہوا ہے اور دست بدست اہل شریعت تک پہنچا ہے۔
۳ ۔ تکبیرۃ الاحرام کو عمدا ً ترک کرنے سے نماز کا باطل ہونا، تکبیر کے جزء ہونے کا تقاضا ہے۔
۴ ۔ تکبیرۃ الاحرام کو سہوا ً ترک کرنے سےنماز کا باطل ہونا ، اس قاعدے کا تقاضا ہے کہ جب کسی مرکب کا ایک جزء ختم ہوجائے ، خواہ سہوا ً ہی کیوں نہ ہو، وہ مرکب ختم ہوجاتا ہے ۔ اس کے علاوہ گزشتہ صحیحہ اور دوسری بعض روایات بھی اس حکم پر دلالت کررہی ہیں۔
اس مقام پر نما ز کو صحیح قرار دینے کے لئے حدیث “لا تعاد” کے مستثنی منہ کے اطلاق سے تمسک نہیں کیا جا سکتا؛ کیونکہ حدیث “ لا تعاد” میں وہ شخص پیش نظر ہے جو نماز میں مشغول ہو اور تکبیر کو فراموش کرنے والا ، خواہ سہوا ً ہی فراموش کرے، نماز میں مشغول نہیں کہلاتا۔
۵ ۔عمداً تکبیرۃ الاحرام کااضافہ کرنے سے نماز کا باطل ہونا ابو بصیر کی مندرجہ ذیل روایت کے عموم سے ثابت ہوتا ہے:
“قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام: مَنْ زَادَ فِي صَلَاتِهِ فَعَلَيْهِ الْإِعَادَةُ
.” “حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: جو شخص نماز میں کسی چیز کو بڑھائے گا اس پر نماز کا اعادہ واجب ہے۔”
۶ ۔سہوا ً تکبیرۃ الاحرام کا اضافہ ہونے سے نماز کا باطل نہ ہونا، حدیث “لا تعاد” کے مستثنی منہ کے اطلاق کی وجہ سے ثابت ہے بشرطیکہ اضافہ ہونے کی صورت بھی اس میں شامل ہو۔یہ دلیل ، ابوبصیر کی گزشتہ روایت صحیحہ پر حاکم ہے۔
یہ دعویٰ کہ: طہارت ، قبلہ اور وقت میں زیادہ اور اضافہ کا تصور نہیں کیا جا سکتا ؛ لہذا حدیث “ لا تعاد” فقط کم ہونے والی صورتوں سے مختص ہے۔
مردود ہے ؛ کیونکہ: مذکورہ تین چیزوں کے علاوہ حدیث میں ذکر شدہ باقی چیزوں میں یہ تصور کیا جا سکتا ہے ؛ لہذا حدیث کے عموم میں کوئی رکاوٹ نہیں آئے گی۔
قیام:
بعض متاخرین کے نزدیک مشہور یہ ہے کہ رکوع سے پہلے اور تکبیرۃ الاحرام کی حالت میں قیام رکن ہے۔ ان دونوں مقامت کے علاوہ قیام رکن نہیں البتہ واجب ہے۔
جو شخص قیام سے عاجز ہو وہ بیٹھ کر نماز پڑھے گا۔
جو شخص نماز کے بعض حصوں کو قیام کے ساتھ بجا لاسکتا ہو انہی حصوں میں قیام کرے گا باقی حصوں کو قیام کے بغیر بجا لائے گا۔
دلائل:
اس بارے میں کہ قیام کی کونسی مقدار رکن ہے ، اختلاف ہے۔ بعض متاخرین نے مذکورہ دونوں صورتوں میں قیام کے رکن ہونے کا فتویٰ دیا ہے؛ کیونکہ حدیث “لا تعاد” میں استثناء کی گئی پانچ چیزوں میں قیام کا ذکر نہ ہونے کی وجہ سے مناسب یہ ہے کہ قیام مطلَقاً رکن نہ ہو؛ مگر یہ کہ تکبیرۃ الاحرام کی حالت میں اس کے رکن ہونے پر عمار کی موثق روایت دلالت کر رہی ہے:
“إِنْ وَجَبَتْ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ مِنْ قِيَامٍ فَنَسِيَ حَتَّى افْتَتَحَ الصَّلَاةَ وَ هُوَ قَاعِدٌ فَعَلَيْهِ أَنْ يَقْطَعَ صَلَاتَه”
“اگر اس (شخص ) پر قیام کے ساتھ نماز پڑھنا واجب ہواور وہ بھولے سے بیٹھ کر نماز شروع کرے تو اس کو اپنی نماز توڑنی ہوگی۔”
اور رکوع سے پہلے قیام کا رکن ہونا اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ رکوع کے مفہوم کا وجود میں آنا اس سے پہلے قیام کے ہونے پر موقوف ہے؛ کیونکہ رکوع ، قیام کے بعد خاص طریقے سے خم ہونے کا نام ہے اور جب قیام ہی نہ ہو تو رکوع بھی بے معنی ہوگا۔
۲ ۔ قیام سے عاجز ہونے کی صورت میں بیٹھ کر نماز پڑھنا فرض ہے چونکہ جب یہ طے ہے کہ نماز کسی بھی حالت میں ساقط نہیں ہوسکتی تو اس حکم کو بھی واضح ہونا چاہئے۔ البتہ اس پر جمیل کی روایت صحیحہ دلالت کر رہی ہے:
“سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام: مَا حَدُّ الْمَرِيضِ الَّذِي يُصَلِّي قَاعِداً؟ فَقَالَ: إِنَّ الرَّجُلَ لَيُوعَكُ وَ يَحْرَجُ وَ لَكِنَّهُ أَعْلَمُ بِنَفْسِهِ، إِذَا قَوِيَ فَلْيَقُمْ
.” “میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا: کس حد تک بیمار ہونے کی صورت میں مریض بیٹھ کر نماز پڑھے گا؟ فرمایا: بیماری کی وجہ سے وہ حرج میں پڑے؛ لیکن وہ اپنے نفس کے بارے میں زیادہ جاننے والا ہے ۔ جب قادر ہو تو کھڑے ہوکر نماز پڑھے۔”
۳ ۔نماز کے بعض حصوں میں قیام کرسکنے کی صورت میں انہی بعض کو قیام کے ساتھ اور دوسرے بعض کو بغیر قیام کے انجام دینے کے حکم کو گزشتہ روایت صحیحہ کے آخری جملے سے اخذ کیا جا سکتا ہے۔
قرائت:
نماز کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ حمد اور ایک پورا سورہ پڑھنا واجب ہے ۔ البتہ مشہور کے مطابق سورہ حمد کے بعد ایک سورہ پڑھنا ، صرف فرض نمازوں میں ضروری ہے۔
مشہور فتویٰ یہ ہے کہ “بسم اللہ” سورے کا جزو ہے ؛ لہذا سورہ توبہ کے علاوہ باقی سورتوں کے ساتھ اس کا پڑھنا واجب ہے۔
دلائل:
۱ ۔ نماز کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ حمد کا پڑھنا واجب ہونے پر کسی قسم کا اختلاف نہیں ہے۔ اس حکم پر بعض روایات دلالت کر رہی ہیں جن میں سے ایک حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی محمد بن مسلم کی روایت صحیحہ ہے:
“سَأَلْتُهُ عَنِ الَّذِي لَا يَقْرَأُ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فِي صَلَاتِهِ، قَالَ: لَا صَلَاةَ لَهُ إِلَّا أَنْ يَقْرَأَ بِهَا فِي جَهْرٍ أَوْ إِخْفَاتٍ
” “میں نے ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا جو نماز میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھتا: فرمایا: جب تک آہستہ یا بلند (پڑھی جانے والی نمازوں میں) سورہ فاتحہ نہ پڑھے اس کی کوئی نماز نہیں۔”
۲ ۔ نفل نمازوں میں بھی سورہ حمد کا پڑھنا واجب ہونے کے حکم کا ماخذ گزشتہ روایت صحیحہ کا اطلاق ہے۔
۳ ۔ سورہ حمد کے بعد ایک مکمل سورہ پڑھنا واجب ہونے اور نہ ہونے کے بارے میں روایات مختلف ہونے کی وجہ سے اختلاف واقع ہوا ہے۔
منصور بن حازم کی روایت میں اس طرح آیا ہے:
“قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام: لَا تَقْرَأْ فِي الْمَكْتُوبَةِ بِأَقَلَّ مِنْ سُورَةٍ وَ لَا بِأَكْثَرَ
.” “حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: واجب نمازوں میں(حمد کے علاوہ) ایک سورہ سے نہ کم پڑھو اور نہ زیادہ۔”
اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کردہ علی بن رئاب کی روایت صحیحہ کچھ اس طرح ہے:
“إِنَّ فَاتِحَةَ الْكِتَابِ تَجُوزُ وَحْدَهَا فِي الْفَرِيضَةِ
.” “فرض نمازوں میں صرف سورہ فاتحہ کافی ہے۔”
پہلی روایت کو استحباب پر محمول کرتے ہوئے ان دونوں روایات کو باہم جمع کر سکتے ہیں۔ جب پہلی روایت کو استحباب پر محمول کرکے جمع کرنا ممکن ہو تو دوسری روایت کو تقیہ پر محمول کرنا بے معنی ہے؛ کیونکہ مرجحات ( کسی روایت کو دوسری پر ترجیح دینے کے اسباب) کو اس وقت بروئے کار لایا جاتا ہے جب روایتیں باہم متعارض ہوں جبکہ جمع کرسکنے کی صورت میں ان کے درمیان کوئی تعارض نہیں ہے ۔
البتہ مشہور کی مخالفت سے بچتے ہوئے احتیاطا ً سورہ کو ترک نہیں کرنا چاہئے۔
۴ ۔ “بسم اللہ ”کا جزو سورہ ہونا:محمد بن مسلم کی صحیحہ روایت کے مطابق سورہ فاتحہ کی نسبت سے “بسم اللہ ” کا جزو ہونا مسلّمات میں سے ہونا چاہئے:
“سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام عَنِ السَّبْعِ الْمَثَانِي وَ الْقُرْآنِ الْعَظِيمِ أَ هِيَ الْفَاتِحَةُ؟ قَالَ: نَعَمْ. قُلْتُ: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ مِنَ السَّبْعِ؟ قَالَ: نَعَمْ، هِيَ أَفْضَلُهُنَّ
.” “میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے قرآن مجید اور سبع مثانی کے بارے میں سوال کیا: کیا یہی فاتحہ ہے؟ فرمایا: ہاں! میں نے عرض کیا: کیا “بسم اللہ الرحمن الرحیم” بھی سبع مثانی میں سے ہے؟ فرمایا: ہاں ! یہ ان سب میں سے افضل ہے۔”
سورہ توبہ کے علاوہ باقی سورتوں میں “بسم اللہ ” کے جزو سورہ ہونے پر اجماع کا دعویٰ کیا گیا ہے ؛ بلکہ کبھی اسے مسلّمات میں سے شمار کیا گیا ہے اور معاویہ بن عمار کی روایت صحیحہ سے اس پر استدلال کیا جاتا ہے:
“قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام: إِذَا قُمْتُ لِلصَّلَاةِ أَقْرَأُ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ فِي فَاتِحَةِ الْکتاب؟ قَالَ: نَعَمْ، قُلْتُ: فَإِذَا قَرَأْتُ فَاتِحَةَ الْکتاب أَقْرَأُ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ مَعَ السُّورَةِ؟ قَالَ: نَعَمْ
.” “میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا: جب میں نماز کے لئے کھڑا ہوجاؤں تو سورہ فاتحہ (کے آغاز) میں “بسم اللہ الرحمن الرحیم” پڑھوں؟ فرمایا: ہاں!عرض کیا: فاتحہ پڑھنے کے بعد سورہ ( کے آغاز ) میں “بسم اللہ الرحمن الرحیم” پڑھوں؟ فرمایا: ہاں! ”
اس وضاحت کے ساتھ کہ“بسم اللہ ” کا مستحب ہونا واضح ہے ؛ لہذا اس کے مستحب ہونے کے بارے میں پوچھنا بے معنی ہے۔ پس لازمی طور پر یہ سوال اس کے واجب ہونے کے بارے میں ہے۔ چونکہ “بسم اللہ ” کے واجب نفسی ہونے کا احتمال نہیں ہے ؛ لہذا واجب ہونا اور جزو سورہ ہونا آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔
جب یہ بات طے ہوگئی کہ خواہ جزو سورہ ہو یا نہ ہو سورہ حمد کے بعد “بسم اللہ ”کا پڑھنا ضروری ہے تو اس کے جزو سورہ ہونے پر حکم لگانے کافائدہ بعض مواقع میں ظاہر ہوگا ۔ مثلا نماز آیات میں اس کو آیت شمار کرنے یا نہ کرنے میں نیز “بسم اللہ ”پڑھتے وقت سورے کو معین کرنا لازمی ہونے یا نہ ہونے۔ (اس کو جزو سورہ مان لیا جائے تو نماز آیات میں ایک آیت مان سکیں گے اسی طرح سورے کو معین کرنا ضروری ہوگا تاکہ اسی سورے کی نیت سے بسم اللہ پڑھے۔)
رکوع:
نماز آیات کے علاوہ نمازوں کی ہر رکعت میں ایک بار رکوع واجب ہے نیز یہ رکن بھی ہے ۔ اگر جان بوجھ کر یا بھول کر رکوع کا اضافہ کیا جائے یا اسے بجا نہ لایا جائے تو نماز باطل ہوجاتی ہے؛ مگر یہ کہ نماز جماعت میں بھول کر رکوع سے سر اٹھا لیا جائے اور پیش نماز کی متابعت کرتے ہوئے دوبارہ رکوع میں جائے تو اس صورت میں رکوع کا اضافہ ہونا معاف شدہ ہے۔
رکوع میں انگلیوں کے کنارے دونوں گٹھنوں تک پہنچنے کی حد تک اللہ کے حضورخضوع کے ارادے سے(خواہ ارتکازی ہی کیوں نہ ہو) جھکنا ضروری ہے۔
دلائل:
۱ ۔ نماز میں رکوع کے واجب ہونے کا حکم ضروریات دین میں سے ہے اوراس پر بعض روایات دلالت کرتی ہیں جن میں سے ایک حلبی کی روایت صحیحہ ہے جو حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے:
“الصَّلَاةُ ثَلَاثَةُ أَثْلَاثٍ: ثُلُثٌ طَهُورٌ، وَ ثُلُثٌ رُكُوعٌ، وَ ثُلُثٌ سُجُودٌ
.” “نماز کے تین حصے ہیں: ایک تہائی طہارت، ایک تہائی رکوع اور ایک تہائی سجود ہے۔”
۲ ۔ ہر رکعت میں ایک رکوع ہونا بھی ضروریات دین میں سے ہے۔ اس حکم کو نماز کی کیفیت بیان کرنے والی روایات
کے ساتھ دیگر روایات سے بھی اخذ کیا جا سکتا ہے۔
۳ ۔ مذکورہ حکم سے نماز آیات کو استثناء قرار دینا ان کثیر روایات کی وجہ سے ہے جو نماز آیات کی کیفیت کو بیان کرتی ہیں۔
۴ ۔ نماز میں رکوع کےرکن ہونے اورعمدا ً یا سہوا ً اس کے زیادہ ہونے سے نماز کے باطل ہونے کا حکم قاعدہ “لا تعاد” کی وجہ سے لگایا جاتا ہے جو حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی زرارہ کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے:
“لَا تُعَادُ الصَّلَاةُ إِلَّا مِنْ خَمْسَةٍ: الطَّهُورِ،وَ الْوَقْت، وَالْقِبْلَةِ، وَالرُّكُوعِ، وَ السُّجُود. ثُمَّ قَالَ: الْقِرَاءَةُ سُنَّةٌ، وَ التَّشَهُّدُ سُنَّةٌ، وَ لَا تَنْقُضُ السُّنَّةُ الْفَرِيضَةَ
.” “نماز کا اعادہ نہیں کیا جائے گا سوائے پانچ چیزوں کی وجہ سے: ۱ ۔طہارت، ۲ ۔ وقت، ۳ ۔ قبلہ، ۴ ۔ رکوع، ۵ ۔ سجود۔ پھر فرمایا: قرائت اور تشہد سنت ہیں اور سنت ، فریضے کو باطل نہیں کرتی۔”
اس روایت کے اطلاق میں رکوع کے زیادہ ہونے کی صورت بھی شامل ہے۔مستثنیٰ کے بعض افراد ( جیسے طہارت، وقت اور قبلہ) میں (کمی یا زیادتی کا ) یہ تصور ممکن ہونا دوسرے افراد میں اطلاق منعقد ہونے سے مانع نہیں بنتا جن میں یہ تصور ممکن ہو۔
۵ ۔ مذکورہ حکم سے نماز جماعت کو استثناء کرنے پر بعض روایات دلالت کر رہی ہیں جن میں سے ایک علی ابن یقطین کی روایت صحیحہ ہے:
“سَأَلْتُ أَبَا الْحَسَنِ علیه السلام عَنِ الرَّجُلِ يَرْكَعُ مَعَ الْإِمَامِ يَقْتَدِي بِهِ ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ قَبْلَ الْإِمَامِ، قَالَ: يُعِيدُ رُكُوعَهُ مَعَهُ
.” “میں نے حضرت ابو الحسن علیہ السلام سے اس شخص کے بارے میں سوال کیا جو امام کی اقتداء کرتے ہوئے رکوع کرتا ہے پھر امام سے پہلے اپنے سر کو اٹھاتا ہے۔ فرمایا: وہ امام کے ساتھ دوبارہ رکوع میں پلٹ جائے گا۔”
۶ ۔ رکوع میں مذکورہ حد تک خضوع کے ارادے سے (خواہ ارتکازی ہی کیوں نہ ہو) جھکنا اس لئے ضروری ہے کہ مذکورہ حد تک جھکے بغیر لغت کے لحاظ سے رکوع کا مفہوم وجود میں نہیں آتا۔
۷ ۔ مذکورہ حد بندی پر حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی زرارہ کی روایت صحیحہ دلالت کر رہی ہے:
“فَإِنْ وَصَلَتْ أَطْرَافُ أَصَابِعِكَ فِي رُكُوعِكَ إِلَى رُكْبَتَيْكَ أَجْزَأَكَ ذَلِك
...” “اگر تیری انگلیوں کے کنارے تیرے گٹھنوں تک پہنچ جائے تو (رکوع کے لئے) یہی کافی ہے۔”
سجود:
نماز کی ہر رکعت میں دو سجدے واجب ہیں۔ دونوں سجدے رکن ہیں۔ ان دونوں میں عمداً یا سہوا ً کمی بیشی ہونے سے نماز باطل ہوجاتی ہے۔ سہوا ً ان دونوں میں سے ایک کی کمی یا بیشی سے نماز باطل نہیں ہوتی۔
سجدہ کے لئے ضروری ہے کہ زمین یا زمین سے اگنے والی غیر ماکول اور غیر ملبوس چیزوں پر ہو ؛ جبکہ تربت حسینی پر سجدہ کرنا سب سے زیادہ بہتر ہے۔
سجدے میں جس طرح پیشانی کو زمین یا زمین کا حکم رکھنے والی چیزوں پر رکھنا ضروری ہے اس کے علاوہ باقی چھ اعضاء کا سجدہ بھی ضروری ہے: ۱ ، ۲ ۔دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں، ۳ ، ۴ ۔ دونوں گٹھنے، ۵ ، ۶ ۔ دونوں پاؤں کے انگوٹھے۔
پیشانی کے علاوہ دوسرے اعضاء کو سجدہ صحیح ہونے والی چیزوں پر رکھنا ضروری نہیں۔
دلائل:
۱ ۔ ہر رکعت میں دوسجدوں کے وجوب کا حکم ضروریات دین اور روایات کے بعض مجموعوں کا نتیجہ ہے۔جیسے وہ روایتیں جو دوسرے سجدے کو بھول جانے اور رکوع سے پہلے یا بعد میں یاد آنے کی صورت کا حکم بیان کرتی ہیں۔ مثلا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی اسماعیل بن جابر کی روایت صحیحہ ہے:
“فِي رَجُلٍ نَسِيَ أَنْ يَسْجُدَ السَّجْدَةَ الثَّانِيَةَ حَتَّى قَامَ فَذَكَرَ وَ هُوَ قَائِمٌ أَنَّهُ لَمْ يَسْجُدْ، قَالَ: فَلْيَسْجُدْ مَا لَمْ يَرْكَعْ، فَإِذَا رَكَعَ فَذَكَرَ بَعْدَ رُكُوعِهِ أَنَّهُ لَمْ يَسْجُدْ فَلْيَمْضِ عَلَى صَلَاتِهِ حَتَّى يُسَلِّمَ ثُمَّ يَسْجُدُهَا فَإِنَّهَا قَضَاء
” “ایک ایسے شخص کے بارے میں جو دوسرے سجدے کو بھول گیا یہاں تک کہ قیام کی حالت میں اسے یاد آیا کہ اس نے سجدہ بجا نہیں لایاہے، امام ؑ نے فرمایا: اگر رکوع نہیں کیا ہو تو سجدہ کرے گا۔ لیکن اگر رکوع کے بعد یاد آئے کہ اس نے سجدہ نہیں کیاہے تو وہ اپنی نماز کو جاری رکھے گا یہاں تک سلام کہے گا پھر سجدہ کرے گا جو اس کی قضا ہے۔ ”
۲ ۔ عمدا ً دونوں سجدوں کو ترک کرنے سے نماز کا باطل ہونا سجدوں کی جزئیت کا لازمہ ہے؛ لیکن ایک سجدہ یا دوسرے اجزائے نماز ، جو رکن نہیں ہیں، کے بجا نہ لانے سے نماز کا باطل نہ ہونا خاص دلیلوں کی وجہ سے نسیان (بھولنے کی صورت ) سے مختص ہے۔ مثلا گزشتہ روایت صحیحہ اور دوسری بعض روایات جو اس حکم پر دلالت کرتی ہیں۔
۳ ۔ سہوا ً دونوں سجدوں کے بجا نہ لانے سے نماز کے باطل ہونے کی وجہ رکوع کی بحث میں بیان کی گئی حدیث “لا تعاد” ہے کہ جس میں مذکورہ پانچ چیزوں میں سے ایک سجدہ ہے۔
اس حدیث میں ذکرشدہ سجدے کے اطلاق میں اگرچہ ایک سجدہ بھی شامل ہے ؛ لیکن اسماعیل کی گزشتہ صحیحہ کے مقید بننے کی وجہ سے ایک سجدہ اس حکم سے خارج ہوجاتا ہے۔
۴ ۔ عمدا ً یا سہوا ً دو سجدوں کا اضافہ ہونے سے نماز کا باطل ہونا ابوبصیر کی روایت صحیحہ کے اطلاق کے ذریعے ثابت ہوتا ہے:
“مَنْ زَادَ فِي صَلَاتِهِ فَعَلَيْهِ الْإِعَادَةُ
.” “جو اپنی نماز میں کسی چیز کا اضافہ کرے اس پر نماز کا اعادہ واجب ہے۔”
اس کے علاوہ قاعدہ “لا تعاد” سے بھی یہ حکم ثابت ہوتا ہے بشرطیکہ اطلاق کے تقاضا کے مطابق سجدے کا زیادہ ہونا بھی قاعدے میں مذکور لفظٖ سجود میں شامل ہو ۔
۵ ۔ سہوا ً ایک سجدے کے زیادہ ہونے سے نماز کے باطل نہ ہونے پر حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی منصور بن حازم کی روایت صحیحہ دلالت کر رہی ہے:
“سَأَلْتُهُ عَنْ رَجُلٍ صَلَّى فَذَكَرَ أَنَّهُ زَادَ سَجْدَةً، قَالَ: لَا يُعِيدُ صَلَاةً مِنْ سَجْدَةٍ وَ يُعِيدُهَا مِنْ رَكْعَةٍ
.” “میں نے امام ؑ سے ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا جسے بعد از نماز یاد آیا تھا کہ اس نے ایک سجدہ زیادہ بجا لایا ہے۔ فرمایا:وہ ایک سجدے کی وجہ سے نماز کا اعادہ نہیں کرے گا اور ایک رکعت کی وجہ سے نماز کا اعادہ کرے گا۔”
یہ روایت ، ابوبصیر کی روایت کے اطلاق کے لئے مقید بنے گی۔
۶ ۔سہوا ً ایک سجدے کے بجا نہ لانے سے نماز کے باطل نہ ہونے پر اسماعیل بن جابر کی گزشتہ صحیحہ روایت اور بعض دوسری روایتیں دلالت کر رہی ہیں۔
۷ ۔ مذکورہ چیزوں پر سجدہ کرنا ضروری ہونا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ہشام بن حکم کی نقل کردہ روایت صحیحہ کی وجہ سے ہے:
“أَخْبِرْنِي عَمَّا يَجُوزُ السُّجُودُ عَلَيْهِ وَ عَمَّا لَا يَجُوزُ، قَالَ: السُّجُودُ لَا يَجُوزُ إِلَّا عَلَى الْأَرْضِ أَوْ عَلَى مَا أَنْبَتَتِ الْأَرْضُ إِلَّا مَا أُكِلَ أَوْ لُبِس
.” “(میں نے امام ؑ سے عرض کیا) جن چیزوں پر سجدہ کرنا جائز ہے اور جن چیزوں پر سجدہ کرنا جائز نہیں ہے ان کے بارے میں میری رہنمائی فرمائیں! امام ؑ نے فرمایا: زمین اور زمین سے اگنے والی چیزوں، بشرطیکہ وہ کھائی یا پہنی نہ جاتی ہو، کے علاوہ کسی چیز پر سجدہ کرنا جائز نہیں ہے۔”
اس بارے میں عائشہ اور میمونہ سے منقول مشہور حدیث ہے کہ پیغمبر اکرم ؐ کھجور کے پتوں سے بنی چٹائی پر سجدہ کرتے تھے۔
۸ ۔ پیشانی کے علاوہ چھ اعضاء کے ساتھ سجدہ کے واجب ہونے پر زراہ کی صحیح روایت دلالت کر رہی ہے:
“قَالَ أَبُوجَعْفَرٍعلیه السلام:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ(ص):السُّجُودُعَلَى سَبْعَةِأَعْظُمٍ:الْجَبْهَةِ وَ الْيَدَيْنِ وَ الرُّكْبَتَيْنِ وَالْإِبْهَامَيْنِ مِنَ الرِّجْلَيْن
.”“حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: سجدہ سات اعضاء کے ساتھ ہوتا ہے: ۱ ۔ پیشانی، ۲ ، ۳ ۔ دونوں ہاتھ، ۴ ، ۵ ۔ دونوں گٹھنے ، ۶ ، ۷ ۔ دونوں پاؤں کے انگوٹھے۔”
۹ ۔ تربت حسینی پر سجدہ کرنا بہتر ہونے کی دلیل معاویہ بن عمار کی روایت ہے:
“كَانَ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام خَرِيطَةُ دِيبَاجٍ صَفْرَاءُ فِيهَا تُرْبَةُ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام فَكَانَ إِذَا حَضَرَتْهُ الصَّلَاةُ صَبَّهُ عَلَى سَجَّادَتِهِ وَ سَجَدَ عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ علیه السلام: إِنَّ السُّجُودَ عَلَى تُرْبَةِ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام يَخْرِقُ الْحُجُبَ السَّبْعَ
.” “حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے پاس زردریشم کی ایک تھیلی تھی جس میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی تربت رکھی ہوئی تھی۔ جب نماز کا وقت ہوتا تو آپ ؑ اسے جائے نماز پر ڈال دیتے اور اسی پر سجدہ کرتے تھے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: امام حسین علیہ السلام کی تربت پر کیا ہوا سجدہ سات( آسمانی) پردوں کو چاک کرتا ہے۔”
کلمہ اسلام کی سربلندی کے لئے روئے زمین پر بہا ئے گئے سب سے بہتر خون کے اس خاک کو معطر کرنے کے بعد مذکورہ افضلیت پر کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔
۱۰ ۔ پیشانی کے علاوہ دوسرے اعضاء کا سجدہ صحیح ہونے والی چیزوں پر رکھنا ضروری نہ ہونا اس لئے ہے کہ جو ادلہ پیشانی کا سجدہ صحیح ہونے والی چیزوں پر رکھنا ضروری ہونے پر دلالت کرتی ہیں وہ دوسرے اعضاء کے لئے بھی اس شرط کوثابت کرنے سے قاصر ہیں؛ کیونکہ زمین اور اس سے اگنے والی چیزوں پر سجدہ کرنے کا حکم صرف پیشانی سے مربوط ہوتا ہے ؛ لہذا“اصالہ برائت” کے ذریعے یہ حکم ثابت ہوگا۔
البتہ فضیل اور برید کی روایت صحیحہ کے ہوتے ہوئے اصل کی طرف رجوع کرنے کی نوبت ہی نہیں آتی۔ یہ روایت حضرت امام محمد باقر علیہ السلام یا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے:
“لَا بَأْسَ بِالْقِيَامِ عَلَى الْمُصَلَّى مِنَ الشَّعْرِ وَ الصُّوفِ إِذَا كَانَ يَسْجُدُ عَلَى الْأَرْضِ. وَ إِنْ كَانَ مِنْ نَبَاتِ الْأَرْضِ فَلَا بَأْسَ بِالْقِيَامِ عَلَيْهِ وَ السُّجُودِ عَلَيْهِ
.” “اگر سجدہ زمین پر کیا جائے تو اون اور بال کی جائے نماز پر کھڑے ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے اوراگر جائے نماز ، زمین سے اگنے والی چیز سے بنی ہوئی ہو تو اس پر قیام کے ساتھ سجدہ کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔”
تشہد:
دو رکعتی نمازوں کی دوسری رکعت کےدوسرے سجدے سے سر اٹھانے کے بعد ایک مرتبہ تشہد پڑھنا واجب ہے جبکہ تین رکعتی اور چار رکعتی نمازوں میں دو مرتبہ تشہد پڑھنا واجب ہے۔ پہلا تشہد دوسری رکعت کے دوسرے سجدے کے بعد اور دوسرا تشہد آخری رکعت کے دوسرے سجدے سے سر اٹھانے کے بعد پڑھا جائے گا۔
تشہد کی کیفیت :“اشهد ان لا اله الا اللّه وحده لا شریک له، و اشهد ان محمدا عبده ورسوله، اللهم صل علی محمد وآل محمد
.”“میں گواہی دیتا ہوں بتحقیق اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ وہ یکتا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں۔ اور میں گواہی دیتا ہوں محمد ؐ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اے اللہ! محمد و آل محمد پر درود بھیج۔”
دلائل :
۱ ۔ ذکر شدہ مقامات پر تشہد پڑھنا ضروری ہونا تمام فقہاء کا متفق علیہ حکم ہے۔ لیکن ظہر کی دوسری رکعت اور بقیہ نمازوں کی دوسری رکعت کے علاوہ ، تشہد واجب ہونے والے مقامات کا ، نصوص و روایات سے سمجھنا شاید مشکل ہو۔ مثلا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی حلبی کی روایت صحیحہ ہے:
“إِذَا قُمْتَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ مِنَ الظُّهْرِ أَوْ غَيْرِهَا فَلَمْ تَتَشَهَّدْ فِيهِمَا فَذَكَرْتَ ذَلِكَ فِي الرَّكْعَةِ الثَّالِثَةِ قَبْلَ أَنْ تَرْكَعَ فَاجْلِسْ فَتَشَهَّدْ وَ قُمْ فَأَتِمَّ صَلَاتَكَ
...” “اگر تم ظہر یا کسی دوسری نماز کی دوسری رکعت میں تشہد پڑھے بغیر کھڑے ہو جاؤ اور تیسری رکعت کے رکوع میں جانے سے پہلے یاد آجائے تو بیٹھ کر تشہد پڑھو پھر کھڑے ہو کر اپنی نماز کو ختم کرو۔ ”
اور عبید بن زراہ کی روایت صحیحہ کی وجہ سے کبھی تشہد کے مستحب ہونے کا گماں ہوتا ہے:
“قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام: الرَّجُلُ يُحْدِثُ بَعْدَ مَا يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ الْأَخِيرِ؟ فَقَالَ: تَمَّتْ صَلَاتُهُ، وَ إِنَّمَا التَّشَهُّدُ سُنَّةٌ فِي الصَّلَاةِ فَيَتَوَضَّأُ وَ يَجْلِسُ مَكَانَهُ أَوْ مَكَاناً نَظِيفاً فَيَتَشَهَّدُ
.” “میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے عرض کیا : اگر آخری سجدے سے سر اٹھانے کے بعد کسی سے حدث سرزد ہو جائے (تو کیا حکم ہے؟) فرمایا: اس کی نماز پوری ہو گئی ہے ۔ نماز میں تشہد سنت ہے۔ پس وہ وضو کرے گاہ اور اسی جگہ پر یا کسی دوسری صاف جگہ پر بیٹھ کر تشہد پڑھے گا۔ ”
اس گماں کا جواب یہ ہے کہ نصوص کی اصطلاح میں سنت سے مراد ، پیغمبر اکرم ؐ کے جاری کردہ امور ہیں جو فرض یعنی اللہ تعالیٰ کے واجب کردہ امور کے مقابلے میں ہے۔
پس آخری رکعت میں تشہد کا واجب ہونے کی دلیل صرف وہی سیرت قطعیہ ہے جس پر اہل شریعت ،معصوم ؑ کے زمانے سے مسلسل عمل پیرا ہیں۔
۲ ۔ تشہد کی مذکورہ کیفیت فقہاء کے ہاں مشہور ہے۔ البتہ بعض فقہاء کی نسبت سے کہاگیاہے کہ پہلے تشہد میں پہلی شہادت کافی ہے جبکہ شیخ صدوق ؒ کی طرف اس حکم کی نسبت دی گئی ہے کہ وہ دونوں شہادتوں کے بدلے میں صرف “بسم اللّه و باللّه
” پڑھنے کو کافی سمجھتے ہیں۔
مذکورہ تشہد کو کاملاً ثابت کرنے والی کوئی روایت موجود نہیں ہے؛ لیکن بعض روایات کو باہم ملانے سے مذکورہ تشہد ثابت ہوجاتا ہے۔مثلا محمد بن مسلم کی روایت صحیحہ ہے:
“قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام: التَّشَهُّدُ فِي الصَّلَاةِ؟ قَالَ: مَرَّتَيْنِ.قُلْتُ: وَ كَيْفَ مَرَّتَيْنِ؟ قَالَ إِذَا اسْتَوَيْتَ جَالِساً فَقُلْ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ ثُمَّ تَنْصَرِف
...” “میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے عرض کیا: نماز میں تشہد (کتنی بار پڑھاجائے)؟ فرمایا: دو بار۔ عرض کیا: دو بار کیسے؟ فرمایا: جب تو ٹھیک سے بیٹھ جائے تو کہو: میں گواہی دیتا ہوں بتحقیق اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ یکتا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ۔ اور محمد ؐ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔”
اس کے ساتھ ابوبصیر اور زرارہ کی روایت صحیحہ ہے:
“إِنَّ الصَّلَاةَ عَلَى النَّبِيِّ (ص) مِنْ تَمَامِ الصَّلَاةِ إِذَا تَرَكَهَا مُتَعَمِّداً فَلَا صَلَاةَ لَه
.” “بتحقیق پیغمبر ؐ پر درود بھیجنا نماز کی تمامیت کا سبب ہے اگر کوئی عمدا ً اسے ترک کرے تو اس کی کوئی نماز نہیں۔”
اگرچہ یہ روایت صلوات کی جگہ معین نہیں کرتی ؛ لیکن اس جگہے کو معین کرنے کے لئے سیرت قطعیہ کافی ہے۔
سلام:
نماز کا آخری جزو، سلام ہے۔ اس کے ذریعے نماز سے خارج ہونا صادق آتا ہے اور نماز کے منافی چیزوں کا بجالانا جائز ہوتا ہے۔
سلام کے دو جملے ہیں : “السلام علینا وعلی عباد الله الصالحین
”“ہم پر اور اللہ کے صالح بندوں پر سلام ہو۔”“السلام علیکم ورحمة
اللّه وبرکاته
”“تم پر سلام ہو اور خدا کی رحمت و برکت ہو۔”ان دونوں میں سے جس سے بھی ابتداء کیا جائے اسی کے ذریعے نماز سے منصرف ہونا صادق آتا ہے۔
دلائل:
۱ ۔سلام کا واجب ہونا مشہور فتویٰ ہے۔ کہا گیا ہے کہ یہ مستحب ہے ۔ اس کے واجب ہونے پر ابو بصیر کی موثق روایت دلالت کر رہی ہے:
“سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام يَقُولُ فِي رَجُلٍ صَلَّى الصُّبْحَ فَلَمَّا جَلَسَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يَتَشَهَّدَ رَعَفَ، قَالَ: فَلْيَخْرُجْ فَلْيَغْسِلْ أَنْفَهُ ثُمَّ لْيَرْجِعْ، فَلْيُتِمَّ صَلَاتَهُ فَإِنَّ آخِرَ الصَّلَاةِ التَّسْلِيمُ
.” “میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ایک آدمی نے صبح کی نماز پڑھی، جب وہ دو رکعتوں کے آخر میں بیٹھ گیا تو تشہد پڑھنے سے پہلے اس کی ناک سے خون نکلا۔ فرمایا: وہ نکل جائے اور اپنی ناک کو دھو کر واپس آئے پھر نماز کو پورا کرے ۔ بتحقیق نماز کا آخر ، سلام ہے۔”
سلام کے جملوں میں اختیار حاصل ہونا اور جس سے بھی ابتداء کرے اسی کے ساتھ نماز سے منصرف ہونا صادق آنا ، متاخرین میں مشہور ہے اور یہ مندرجہ ذیل دو روایتوں کو باہم جمع کرنے کا نتیجہ ہے:
۱ ۔ حلبی کی روایت صحیحہ:
“قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام كُلُّ مَا ذَكَرْتَ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ بِهِ وَ النَّبِيَّ (ص) فَهُوَ مِنَ الصَّلَاةِ. وَ إِنْ قُلْتَ: السَّلَامُ عَلَيْنَا وَ عَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ فَقَدِ انْصَرَفْتَ
.” “حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: ہر وہ چیز جس کے ذریعے اللہ عزوجل اور نبی ؐ کی یاد آئے وہ نماز میں سے ہے اور اگر تم “السَّلَامُ عَلَيْنَا وَ عَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ
”کہو تو تم نماز سے منصرف ہو گئے ہو۔ ”
۲ ۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی حضرمی کی موثق روایت:
“قُلْتُ لَهُ: إِنِّي أُصَلِّي بِقَوْمٍ. فَقَالَ: تُسَلِّمُ وَاحِدَةً وَ لَا تَلْتَفِتُ. قُلِ:السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَ رَحْمَةُ اللَّهِ وَ بَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْكُم
...” “میں نے ان سے عرض کیا: میں ایک قوم میں نماز پڑھتا ہوں۔ فرمایا: تم ایک سلام کہو اور ادھر ادھر متوجہ نہ ہونا۔ کہو !السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَ رَحْمَةُ اللَّهِ وَ بَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْكُم
... ”
شکیات نماز
اگر کوئی نماز کے بجالانے میں شک کرے جبکہ ابھی نماز کا وقت باقی ہو تو ضروری ہے وہ نماز کو بجا لائے؛ لیکن اگر نماز کا وقت گزر چکا ہو تو نماز کو بجا لانا ضروری نہیں۔
نماز سے فارغ ہونے کے بعد اس کے کسی جزء یا شرط میں شک ہو تو اس شک کی پرواہ نہیں کی جائے گی۔
اگر نماز کےاجزاء میں سے کسی ایک جزء کی انجام دہی کے بارے میں شک ہو اور نمازی دوسرے جزء میں داخل ہوچکا ہو تو اس کے انجام پانے پر بنا رکھے گا اور اگر دوسرے جزء کو شروع نہیں کیا ہو تو مشکوک کو بجا لانا ہوگا۔
بجا آوردہ جزء کے صحیح ہونے میں شک کی صورت میں صحیح ہونے پر بنا رکھی جائے گی خواہ بعد والے جزء کو شروع نہ بھی کیا ہو۔
دو اور تین رکعتی نمازوں کی رکعتوں کی تعداد میں شک اور چار رکعتی نمازوں کی پہلی دو رکعتوں کی تعداد میں شک ہونے کی صورت میں نماز باطل ہوگی۔
چار رکعتی نمازوں کے دوسرے سجدے کا واجب ذکر پڑھنے کے بعد دوسری یاتیسری رکعت ہونے میں شک کرنے والا تیسری رکعت ہونے پر بنا رکھے گا اورکھڑے ہوکر ایک رکعت یا بیٹھ کر دو رکعت نماز احتیاط پڑھے گا۔
تیسری یا چوتھی رکعت ہونے میں شک کرنے والا چوتھی رکعت ہونے پر بنا رکھے گااور کھڑے ہوکر ایک رکعت یا بیٹھ کر دو رکعت نماز احتیاط پڑھے گا۔
دوسرے سجدے کا واجب ذکر پڑھنے کے بعد دوسری یا چوتھی رکعت ہونے میں شک کرنے والا چوتھی رکعت ہونے پر بنا رکھے گا اور کھڑے ہو کر دو رکعت نماز احتیاط پڑھے گا۔
دوسرے سجدے کا واجب ذکر پڑھنے کے بعد تیسری یا چوتھی رکعت ہونے میں شک کرنے والا چوتھی رکعت ہونے پر بنا رکھے گا اور دو رکعت کھڑ ے ہوکر اور دو رکعت بیٹھ کر نماز احتیاط پڑھے گا۔
آخری سجدے کا ذکر پڑھنے کے بعد چار یا پانچ رکعت پڑھنے میں شک کرنے والا چار رکعت پڑھنے پر بنا رکھے گا اور دو سجدہ ٔ سہو بجا لائے گا۔ اگر یہی شک قیام کی حالت میں ہو تو بیٹھ جائے گا اور تین یا چار میں شک کی صورت والے حکم پر عمل کرے گا۔
رکعتوں کی تعداد کے بارے میں ہونےوالا گمان ، یقین کے حکم میں ہے ؛ جبکہ افعال کے بارے میں ہونے والا گمان ، شک کا حکم رکھتا ہے۔
دلائل:
۱ ۔ وقت کے ہوتے ہوئے نماز کے انجام پانے میں شک کرنے والے پر نماز پڑھنا ضروری ہونے کی دلیل، استصحاب عدم ادائے نماز ہے۔ استصحاب سے قطع نظر قاعدہ ٔ اشتغال ہی کافی ہے۔ کہ جب مکلف کے ذمے یقینی طور پر کوئی ذمہ داری ہو تو اس سے برئ الذمہ ہونے کے لئے بھی یقین ہونا ضروری ہے۔
البتہ ہمیں قواعد کو جاری کرنے کی ضرورت ہی نہیں ؛ کیونکہ زرارہ اور فضیل کی روایت صحیحہ اس حکم پر دلالت کر رہی ہے جو حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے:
“مَتَى اسْتَيْقَنْتَ أَوْ شَكَكْتَ فِي وَقْتِ فَرِيضَةٍ أَنَّكَ لَمْ تُصَلِّهَا أَوْ فِي وَقْتِ فَوْتِهَا أَنَّكَ لَمْ تُصَلِّهَا صَلَّيْتَهَا.وَإِنْ شَكَكْتَ بَعْدَ مَا خَرَجَ وَقْتُ الْفَوْتِ وَ قَدْ دَخَلَ حَائِلٌ فَلَا إِعَادَةَ عَلَيْكَ مِنْ شَكٍّ حَتَّى تَسْتَيْقِنَ، فَإِنِ اسْتَيْقَنْتَ فَعَلَيْكَ أَنْ تُصَلِّيَهَا فِي أَيِّ حَالَةٍ كُنْتَ.
” “اگر نماز کا وقت ہوتے ہوئے تجھے نماز کے انجام نہ دینے کے بارے میں یا وقت کے گزر جانے کے بارے میں یقین یا شک ہوتو اس نماز کو بجا لانا پڑے گا۔ اگر وقت گزر جانے کے بعد تجھے شک ہو اور کوئی رکاوٹ پیش آئے تو جب تک یقین نہ ہو جائے ،تجھ پر اس نماز کا اعادہ کرنا واجب نہیں۔ ہاں اگر تجھے یقین ہو تو کسی صورت میں بھی اس نماز کو بجالانا ہوگا۔”
۲ ۔ وقت گزرنے کے بعد شک کرنے والے پر قضا واجب نہ ہونے کا حکم گزشتہ صحیحہ کے ذریعے ثابت ہوتا ہے۔
البتہ ہمیں روایت سے ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ؛ کیونکہ نماز کی ادا کے بارے میں جو حکم تھا اس کی اطاعت کرے یا نہ کرے ، وقت گزرنے سے وہ حکم ، اٹھ جاتا ہے۔ اور قضا ء کا حکم موجود ہونے میں شک ہے ؛ لہذا“اصالہ برائت” جاری کیا جائے گا۔
۳ ۔نماز پڑھنے کے بعد کسی جزء یا شرط میں ہونے والے شک کی پرواہ نہ کرنے کا حکم “قاعدۂ فراغ” کے ذریعے ثابت ہوتا ہے جو حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی محمد بن مسلم کی موثق روایت سے معلوم ہوتا ہے:
“كُلُّ مَا شَكَكْتَ فِيهِ مِمَّا قَدْ مَضَى فَامْضِهِ كَمَا هُوَ
.”“جب بھی کسی بجا لائی گئی چیز میں تجھے شک ہو تو اس کے صحیح ہونے پر بنا رکھ!۔”
۴ ۔ بعد والے جزء میں داخل ہونے کے بعد مشکوک کے انجام پانے پر بنا رکھنا زرارہ کی مندرجہ ذیل روایت صحیحہ سے اخذ کردہ “قاعدۂ تجاوز” کے ذریعے ثابت ہوتا ہے:
“قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام: رَجُلٌ شَكَّ فِي الْأَذَانِ وَ قَدْ دَخَلَ فِي الْإِقَامَةِ، قَالَ: يَمْضِي. قُلْتُ: رَجُلٌ شَكَّ فِي الْأَذَانِ وَ الْإِقَامَةِ وَ قَدْ كَبَّرَ،قَالَ: يَمْضِي. قُلْتُ: رَجُلٌ شَكَّ فِي التَّكْبِيرِ وَ قَدْ قَرَأَ، قَالَ: يَمْضِي. قُلْتُ: شَكَّ فِي الْقِرَاءَةِ وَ قَدْ رَكَعَ،قَالَ:يَمْضِي.قُلْتُ: شَكَّ فِي الرُّكُوعِ وَ قَدْ سَجَدَ،قَالَ:يَمْضِي عَلَى صَلَاتِهِ، ثُمَّ قَالَ: يَا زُرَارَةُ إِذَا خَرَجْتَ مِنْ شَيْءٍ ثُمَّ دَخَلْتَ فِي غَيْرِهِ فَشَكُّكَ لَيْسَ بِشَيْءٍ
.” “میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے عرض کیا: کسی کو اقامت شروع کرنے کے بعد اذان میں شک ہوتو؟۔ فرمایا: پرواہ نہ کرے۔ عرض کیا:تکبیر کہنے کے بعد اذان و اقامت میں شک ہو تو؟ فرمایا: پرواہ نہ کرے۔ عرض کیا رکوع میں جانے کے بعد قرائت میں شک ہو تو؟ فرمایا: پرواہ نہ کرے۔ عرض کیا سجدہ کرنے کے بعد رکوع میں شک ہو تو؟ فرمایا: اپنی نماز کو جاری رکھے۔ پھر فرمایا: اے زرارہ ! اگر تونے کسی فعل سے فارغ ہونے کے بعد دوسرا فعل شروع کیا ہے تو تیرے شک کی کوئی اہمیت نہیں۔”
اس روایت کے علاوہ بھی بعض روایات سے یہی حکم ثابت ہوتا ہے۔
۵ ۔بعد والے جزء کو شروع کرنے سے پہلے شک ہونے کی صورت میں مشکوک کو بجالانا ضروری ہونا، مشکوک جزء کو بجا نہ لانے کا استصحاب کرنے سے ثابت ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ گزشتہ صحیحہ کے آخری جملے کا “مفہوم شرط ” بھی یہی ہے۔
۶ ۔ بجا آوردہ جزء کے صحیح ہونے میں شک ہو تو، خواہ بعد والے جزء کو شروع نہ بھی کیا ہو،صحیح ہونے پر بنا رکھنے کا حکم محمد بن مسلم کی گزشتہ موثق روایت کے ذریعے ثابت ہوتا ہے۔
یہاں سے “قاعدۂ تجاوز” اور “اصالۂ صحت” میں فرق واضح ہوجاتا ہے۔ قاعدہ تجاوز ، جاری ہونے کے لئے بعد والے جزء میں مشغول ہونا شرط ہے ؛ جبکہ اصالہ صحت کی یہ شرط نہیں ہے۔
اس اختلاف کا سرچشمہ یہ ہے کہ قاعدۂ تجاوز کی دلیل زرارہ کی روایت صحیحہ ہے جس میں جزء لاحق میں داخل ہونا شرط قرار دیا گیا ہے اور اصالۂ صحت کی دلیل محمد بن مسلم کی موثقہ ہے جس میں ایسی کوئی شرط نہیں ہے۔
۷ ۔ رکعتوں کی تعداد میں ہونے والے شک میں دلیل استصحاب کے اطلاق کی وجہ سے اس مقام پر“ اصل اولی” اگرچہ “اقل” پر بنا رکھنے کا تقاضا کرتی ہے؛ لیکن رکعتوں کی تعداد کے معاملے میں اس اطلاق کی تقییدآئی ہے جو “اکثر” پر بنا رکھنےاور جس چیز کی کمی کا احتمال ہے، اس کو سلام کے بعد بجا لانے پر دلالت کرتی ہے۔جیسا کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی عمار کی موثق روایت میں ذکر ہوا ہے:
“يَا عَمَّارُ أَجْمَعُ لَكَ السَّهْوَ كُلَّهُ فِي كَلِمَتَيْنِ، مَتَى مَا شَكَكْتَ فَخُذْ بِالْأَكْثَرِ،فَإِذَا سَلَّمْتَ فَأَتِمَّ مَا ظَنَنْتَ أَنَّكَ نَقَصْتَ
.” “اے عمار! تمہارے لئے پورے سہوکو دو لفظوں میں جمع کرتاہوں : جب تمہیں شک ہو تو اکثر کو اخذ کرو اورجس چیز کی کمی کا گمان ہواس کو سلام کہنے کے بعد پورا کرو۔”
اسی وجہ سے مذکورہ موثقہ کے مطابق “اصل ثانوی” کا تقاضا یہ ہے کہ ہر نماز کی تعداد رکعت میں شک کی صورت میں نماز صحیح ہوگی اور اکثر پر بنا رکھنا ضروری ہوا؛ سوائے اس صورت کے کہ کوئی دلیلِ خاص اس کے خلاف موجود ہو تو اس کی تخصیص ہو گی۔ جیسا کہ آپ عنقریب دو رکعتی اور بعض دوسری نمازوں کے بارے میں ملاحظہ کریں گے۔
۸ ۔ پہلی دو رکعتوں میں شک کی صورت میں نماز کے باطل ہونے کی دلیل: یہ حکم شیخ صدوق ؒ کے نظرئیے کے خلاف ہے ۔ شیخ صدوق ؒ سے منسوب نظرئیے کے مطابق نمازی کو اختیار حاصل ہے کہ وہ نماز کو دوبارہ پڑھے یا اقل پر بنا رکھے۔
اس صورت میں نماز کے باطل ہونے پر زرارہ کی روایت صحیحہ دلالت کر رہی ہے:
“قَالَأَبُو جَعْفَرٍ علیه السلام: كَانَ الَّذِي فَرَضَ اللَّهُ تَعَالَى عَلَى الْعِبَادِ عَشْرَ رَكَعَاتٍ وَ فِيهِنَّ الْقِرَاءَةُ وَ لَيْسَ فِيهِنَّ وَهْمٌ- يَعْنِي سَهْواً- فَزَادَ رَسُولُ اللَّهِ(ص)سَبْعاً وَ فِيهِنَّ الْوَهْمُ وَ لَيْسَ فِيهِنَّ قِرَاءَةٌ. فَمَنْ شَكَّ فِي الْأُولَيَيْنِ أَعَادَ حَتَّى يَحْفَظَ وَ يَكُونَ عَلَى يَقِينٍ،وَ مَنْ شَكَّ فِي الْأَخِيرَتَيْنِ عَمِلَ بِالْوَهْمِ
.” “حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر دس رکعتیں فرض کی ہیں ان میں قرائت ہے اور وہم یعنی سہو نہیں ہے۔ اور رسول اللہ ؐ نے سات کا اضافہ کیا ہے ان میں وہم ہے اور قرائت نہیں ہے۔ پس جو شخص پہلی دو رکعتوں میں شک کرے وہ نماز کا اعادہ کرے گا تاکہ اس کی حفاظت اور اس کا یقین ہو جائے اور جو آخری دو رکعتوں میں شک کرے تو وہ وہم پر عمل کرے گا۔”
۹ ۔ شک کی وجہ سے دو رکعتی نمازوں کا باطل ہونا، بعض نصوص کی وجہ سے ثابت ہےجن میں سے زرارہ کی گزشتہ روایت صحیحہ ہی کافی ہے۔
۱۰ ۔ شک کی وجہ سے نماز مغرب کا باطل ہونا، حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی حفص وغیرہ کی مندرجہ ذیل روایت صحیحہ سے ثابت ہوتا ہے:
“إِذَا شَكَكْتَ فِي الْمَغْرِبِ فَأَعِدْ
” “اگر تمہیں مغرب کی نماز میں شک ہو تو نماز دوبارہ پڑھو۔”
۱۱ ۔ دو اور تین رکعتی نمازوں میں شک کے مذکورہ حکم کی دلیل: یہ حکم مشہور کے مطابق ہے اور عمار کی گزشتہ روایت صحیحہ کا عموم اسی پر دلالت کرتا ہے۔
البتہ یہ روایت ،کھڑے ہو کر نماز احتیاط پڑھنے کو معین کرتی ہے نہ کہ کھڑے ہونے یا بیٹھنے میں اختیار حاصل ہونے کو۔
لیکن اس کا جواب یوں دیا جا سکتا ہے کہ بعد میں بیان کی جانے والی صورت میں اختیار حاصل ہونا ثابت ہے جبکہ ان دونوں صورتوں میں کوئی فرق نہیں ہے ؛ لہذا اس صورت میں بھی اختیار حاصل ہونا ثابت ہوجائے گا۔
۱۲ ۔ تین یا چار رکعت ہونے میں شک کے مذکورہ حکم کی دلیل: یہ حکم عمار کی گزشتہ موثقہ اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی حلبی کی مندرجہ ذیل صحیح روایت کا تقاضا ہے:
“...إِذَا كُنْتَ لَا تَدْرِي ثَلَاثاً صَلَّيْتَ أَمْ أَرْبَعاً وَ لَمْ يَذْهَبْ وَهْمُكَ إِلَى شَيْءٍ فَسَلِّمْ ثُمَّ صَلِّ رَكْعَتَيْنِ وَ أَنْتَ جَالِسٌ تَقْرَأُ فِيهِمَا بِأُمِّ الْكِتَاب
”“۔۔۔اگر تمہیں معلوم نہ ہو کہ تین پڑھی ہے یا چار رکعت اور ان میں سے کسی ایک کی طرف تمہارا وہم مائل نہ ہو جائے تو سلام کہو ۔ پھر بیٹھ کر دو رکعت نماز سورہ حمد کے ساتھ پڑھو۔ ”
۱۴ ۔ نماز احتیاط کو کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر پڑھنے میں اختیار حاصل ہونا، گزشتہ صحیح روایت اور زرارہ کی روایت صحیحہ کو جمع کرنے سے ثابت ہوتا ہے ۔ زرارہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام یا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں:
“...إِذَا لَمْ يَدْرِ فِي ثَلَاثٍ هُوَ أَوْ فِي أَرْبَعٍ قَامَ فَأَضَافَ إِلَيْهَا أُخْرَى وَ لَا شَيْءَ عَلَيْهِ وَ لَا يَنْقُضِ الْيَقِينَ بِالشَّكِّ وَ لَا يُدْخِلِ الشَّكَّ فِي الْيَقِين
” “اگر نمازی کو معلوم نہ ہو کہ تیسری رکعت ہے یا چوتھی تو وہ کھڑا ہو جائے اور اس پر ایک رکعت کا اضافہ کرے اور اس پر کچھ نہیں ہے۔ وہ شک کے ذریعے یقین کو باطل نہیں کرے گا اور یقین میں شک کو جگہ نہیں دے گا۔”
مذہب کے تقاضا کے مطابق اس روایت میں امام ؑ کے فرمان“قَامَ...” سے مراد یہ ہے کہ وہ ایک الگ رکعت کے لئے کھڑا ہوجائے نہ کہ اسی سے متصل ایک رکعت کے لئے۔
۱۵ ۔ دو اور چار رکعت میں شک کا مذکورہ حکم عمار کی گزشتہ موثق روایت کے عموم اور زرارہ کی صحیحہ روایت سے ثابت ہوتا ہے جو زراہ نے دونوں اماموں میں سے ایک سے نقل کی ہے:
“مَنْ لَمْ يَدْرِ فِي اثْنَتَيْنِ هُوَ أَمْ فِي أَرْبَعٍ، قَالَ: يُسَلِّمُ وَ يَقُومُ، فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ يُسَلِّمُ وَ لَا شَيْءَ عَلَيْه
” “جسے یہ معلوم نہ ہو کہ دوسری رکعت ہے یا چوتھی؟ فرمایا: وہ سلام کہے گا اور کھڑے ہو کر دو رکعتیں بجا لائے گا۔ پھر سلام کہے گا اور اس پر کچھ نہیں۔”
اس حکم پر دلالت کرنے والی مزید روایتیں بھی موجود ہیں۔
۱۶ ۔ دوسری رکعت کے آخری سجدے کے واجب ذکر کا تمام ہونااس لئے شرط ہے کہ اس کے علاوہ پہلی دو رکعتوں کا ختم ہونا واضح نہیں ہوتا۔
۱۷ ۔ دو، تین اور چار رکعت میں شک کے مذکورہ احکام پر ابو ابراہیم سے نقل کردہ عبد الرحمن بن حجاج کی صحیح روایت دلالت کررہی ہے:
“قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام:رَجُلٌ لَا يَدْرِي اثْنَتَيْنِ صَلَّى أَمْ ثَلَاثاً أَمْ أَرْبَعاً، فَقَالَ: يُصَلِّي رَكْعَةً مِنْ قِيَامٍ،ثُمَّ يُسَلِّمُ، ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَ هُوَ جَالِسٌ
.” “میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے عرض کیا: ایک شخص کو معلوم نہ ہو کہ اس نے تین رکعتیں پڑھی ہیں یا چار۔ فرمایا: وہ کھڑے ہو کر ایک رکعت پڑھے گا پھر سلام کہے گا اس کے بعد دو رکعتیں بیٹھ کر بجا لائے گا۔”
۱۸ ۔ آخری سجدے کا ذکر پڑھنے کے بعد چار اور پانچ میں شک کے مذکورہ حکم کو عمار کی گزشتہ موثقہ کے عموم سے اخذ نہیں کیا جا سکتا ؛ لیکن ابوبصیر کی صحیح روایت اس پر دلالت کر رہی ہے جو حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے:
“إِذَا لَمْ تَدْرِ خَمْساً صَلَّيْتَ أَمْ أَرْبَعاً فَاسْجُدْ سَجْدَتَيِ السَّهْوِ بَعْدَ تَسْلِيمِكَ وَ أَنْتَ جَالِسٌ ثُمَّ سَلِّمْ بَعْدَهُمَا
.” “اگر تمہیں معلوم نہ ہو کہ پانچ رکعت پڑھی ہے یا چار تو سلام کے بعد دو سجدہ ٔ سہو بجا لاؤ پھر ان دونوں کے بعد دوبارہ سلام کہو۔”
۱۹ ۔ قیام کی حالت میں چار اور پانچ میں شک کے مذکورہ حکم کی وجہ یہ ہے کہ اس طرح کے شک پرہرگز “پانچ پڑھی ہے یا چار ” کا عنوان صادق نہیں آتا؛ بلکہ اس پر “ تین پڑھی ہے یا چار” کا عنوان صادق آتا ہے جو حلبی کی صحیح روایت میں ذکر ہوا ہے۔ حلبی کی روایت ،نمبر ۱۳ میں گزر چکی ہے۔ پس اس کا لازمہ یہ ہے کہ نمازی ،قیام کو ختم کرکے سلام کہے گا اور تین اور چار میں شک کے احکام پر عمل کرے گا۔
۲۰ ۔ تعداد رکعت میں ہونے والے گمان پر یقین کا حکم لگنے کی دلیل: حضرت امام رضا علیہ السلام سے مروی صفوان کی صحیح روایت اس حکم پر دلالت کر رہی ہے:
“إِنْ كُنْتَ لَا تَدْرِي كَمْ صَلَّيْتَ وَ لَمْ يَقَعْ وَهْمُكَ عَلَى شَيْءٍ فَأَعِدِ الصَّلَاةَ
.” “اگر تمہیں معلوم نہ ہو کہ کتنی رکعتیں پڑھی ہیں اور تمہارا وہم کسی جانب نہ ٹھہرے تو نماز کا اعادہ کرو۔”
یہ روایت دو حکموں پر دلالت کر رہی ہے:
الف) وہم یعنی شک کے مطابق عمل کرنا واجب ہے؛
ب)“شک متساوی ”کی صورت میں نماز کا دوبارہ پڑھنا واجب ہے۔
نتیجتاً دوسری صورت (ب) کو گزشتہ شکوک کے علاوہ سے مقید کرنا ضروری ہوجائے گا تاکہ یہ مقید کے ذریعے خارج ہوجائے۔
افعال میں ہونے والے گمان پر شک کا حکم لگانے کی وجہ یہ ہے کہ لغت کے لحاظ سے شک کے معنی ، خلاف علم ہے اور اس کو “متساوی” کے ساتھ تخصیص دینا ایک خاص اصطلاح ہے ؛ لہذا اس کو نصوص شرعی پر تھوپنا بے معنی ہے۔ رکعتوں کے معاملے میں شک کو “شک متساوی”کے ساتھ مختص کرنا خاص دلیل کی وجہ سے ہے۔
نماز مسافر:
مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ سفر میں چار رکعتی نمازیں ، دو رکعت میں قصر ہوجاتی ہیں:
۱ ۔آٹھ ۸ فرسخ طے کرنے کا ارادہ رکھتا ہو۔ خواہ جانے کے لٖحاظ سے آٹھ فرسخ طے کرے یا آنے جانے کو ملا کرنیز آنے جانے کو ملا کر آٹھ فرسخ بننے کی صورت میں اسی دن واپس آنے کا ارادہ رکھنا بھی ضروری نہیں۔
۲ ۔ دوران سفر اپنے وطن سے گزرنے یا مسافت کو طے کرنے سے پہلے کہیں دس ۱۰ دن قیام کرنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو۔
۳ ۔ سفر مباح ہو۔
۴ ۔ سفر اس کا پیشہ نہ ہو۔
۵ ۔ خانہ بدوش نہ ہو۔
۶ ۔ حد ترخص تک پہنچ جائے۔ یہ وہ جگہ یہ جہاں سے شہر والے دکھائی نہ دیں اور ان کی اذان سنائی نہ دے۔
دلائل:
۱ ۔ اس بات کی دلیل کہ سفر میں قصر ضروری ہے اورقصر و اتمام میں اختیا ر حاص نہیں ہے جس طرح ہمارے غیروں کے ہاں ہے۔
یہ ان احکام میں سے ہے جو ہمارے (امامیہ) ہاں متفق علیہ ہیں ؛ بلکہ یہ مسلمات میں سے ہے۔
پیغمبر اکرم ؐ ارشاد فرماتے ہیں:
“إِنَّ اللَّهَ عَزَّوَجَلَّ تَصَدَّقَ عَلَى مَرْضَى أُمَّتِي وَ مُسَافِرِيهَا بِالتَّقْصِيرِوَالْإِفْطَارِأَيَسُرُّ أَحَدَكُمْ إِذَا تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ أَنْ تُرَدَّ عَلَيْهِ
.” “اللہ تعالیٰ نے میری امت کے مریضوں اور مسافروں پر قصر اور افطار کے ذریعے احسان کیا ہے ۔ کیا تم میں سے کسی کو اس بات پر خوشی ہوگی کہ وہ کوئی احسان کرے تو اسے ردّ کر دیا جائے۔”
نیز زرارہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں:
“سَمَّى رَسُولُ اللَّهِ(ص)قَوْماً صَامُوا حِينَ أَفْطَرَ وَ قَصَّرَ عُصَاةً وَ قَالَ: هُمُ الْعُصَاةُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَ إِنَّا لَنَعْرِفُ أَبْنَاءَهُمْ وَ أَبْنَاءَ أَبْنَائِهِمْ إِلَى يَوْمِنَا هَذَا
.” “رسول اللہ ؐ نے ایک گروہ کو گنہگار نام دیا جس نے رسول اللہ ؐ کے افطار کرنے اور قصر کرنے کے باوجود روزہ رکھا۔ پھر فرمایا: یہ لوگ روز قیامت تک گنہگار ہیں۔ ہم ان کی اولادکو اور اولاد کی اولاد کو آج تک پہنچانتے ہیں۔”
۲ ۔ قصر کا چار رکعتی نمازوں سے مختص ہونا اور دو رکعتوں کا حذف ہونا بھی مسلمات میں سے ہے اور بعض نصوص اس پر دلالت کرتی ہیں۔
۳ ۔ قصر کے لئے معین مسافت کو طے کرنا اس لئے شرط ہے کہ یہ ان احکام میں سے ہے جو ہمارے ( امامیہ کے) نزدیک متفق علیہ ہیں۔ البتہ داؤد بن علی ظاہری اور محمد بن حسن سے منسوب نظرئیے کے مطابق قصر واجب ہونے کے لئے مسافر کا عنوان صادق آنا کافی ہے۔
۴ ۔مسافت کی مقدار آٹھ فرسخ ہونے کے حکم پر ۲۰ سے ۳۰ تک روایتیں دلالت کررہی ہیں۔ بعض روایتوں میں آٹھ فرسخ، طول روز ، دو ڈاک ، چوبیس ۲۴ میل، ایک دن کا راستہ اور ایک ڈاک جمع ایک ڈاک جیسی تعبیریں آئی ہیں اور ان سب کی مراد ایک ہے۔
بعض روایتوں میں جاتے ہوئے ایک ڈاک اور آتے ہوئے ایک ڈاک
، ایک ڈاک، ۱۲ میل کا راستہ اور چار فرسخ جیسی تعبیریں آئی ہیں۔یہ تعبیریں واپس آنے کا ارادہ رکھنے والے مسافر پر محمول کی گئی ہیں۔
۵ ۔ قصد کی شرط کو اس طرح ثابت کیا جاسکتا ہے کہ جب مسافر حد ترخص سے گزر جائے تو اگرچہ اس نے مطلوبہ مسافت طے نہیں کیا ہے اس کے باوجود وہ قصر کر سکتا ہے اس کا لازمہ یہ ہے اصلی معیار مسافت کو طے کرنے کا ارادہ رکھنا ہے۔
البتہ یہ دلیل عمار کی موثق روایت کے علاوہ ہے جو نمبر ۸ میں ذکر کی جائے گی۔
۶ ۔صرف جانے کے لحاظ سے پوری مسافت کا ہونا ضروری نہیں ؛بلکہ جانے اور واپس آنے کو ملا کر مسافت پوری ہوجائے تو کافی ہے۔ اس بارے میں روایات کی تین قسمیں ہیں:
الف) بعض روایات میں آٹھ فرسخ کو معیار قرار دیا گیا ہے ۔ مثلا سماعہ کی موثق روایت:
“سَأَلْتُهُ عَنِ الْمُسَافِرِ فِي كَمْ يُقَصِّرُ الصَّلَاةَ؟ فَقَالَ: فِي مَسِيرَةِ يَوْمٍ، وَ هِيَ ثَمَانِيَةُ فَرَاسِخَ
” “میں نے ان سے سوال کیا: مسافر کتنی مسافت میں نماز کو قصر پڑھے گا؟ فرمایا: ایک دن کے راستے میں جو آٹھ فرسخ ہوتا ہے۔”
ب) بعض روایات میں چار فرسخ کو معیار قرار دیا گیاہے ۔ جیسے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے زرارہ کی نقل کردہ روایت صحیحہ:
“التَّقْصِيرُ فِي بَرِيدٍ، وَ الْبَرِيدُ أَرْبَعَةُ فَرَاسِخَ
.” “قصر کی مسافت ایک ڈاک ہے اور ایک ڈاک کا فاصلہ چار فرسخ پر مشتمل ہوتا ہے۔”
ج) بعض روایات میں جانے کے لحاظ سے ایک ڈاک کو معیار قرار دیا گیا ہے بشرطیکہ آتے ہوئے بھی ایک ڈاک ہو۔ مثلا معاویہ بن وہب کی صحیح روایت ہے:
“قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام أَدْنَى مَا يُقَصِّرُ فِيهِ الْمُسَافِرُ الصَّلَاةَ؟ قَالَ: بَرِيدٌ ذَاهِباً وَ بَرِيدٌ جَائِياً.
” “میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے عرض کیا: کم از کم مسافت (کیا ہے؟) جس میں مسافر اپنی نماز کو قصر پڑھتا ہے۔ فرمایا: جاتے ہوئے ایک ڈاک اور آتے ہوئے ایک ڈاک۔”
تیسری روایت میں پہلی دو روایتوں کو جمع کیا گیا ہے؛ بلکہ محمد ابن مسلم کی صحیح روایت میں اس کی صراحت موجود ہے جو حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے:
“سَأَلْتُهُ عَنِ التَّقْصِيرِ، قَالَ: فِي بَرِيدٍ.قُلْتُ: بَرِيدٌ؟ قَالَ:إِنَّهُ إِذَا ذَهَبَ بَرِيداً وَ رَجَعَ بَرِيداً فَقَدْ شَغَلَ يَوْمَهُ
.” “میں نے ان سے قصر کے بارے میں سوال کیا۔ فرمایا: ایک ڈاک میں ۔ عرض کیا: ایک ڈاک؟ فرمایا: جب مسافر ایک ڈاک تک چلا جائے اور ایک ڈاک واپس آئے تو اس کا پورا دن اسی میں گزر جاتا ہے۔”
۷ ۔ بعض فقہاء کے خلاف، جانے اور آنے کی مسافت میں اسی دن واپس آنا شرط نہ ہونے کا حکم معاویہ بن وہب کی گزشتہ روایت کے اطلاق سے ثابت ہوتا ہے۔ “قَالَ: بَرِيدٌ ذَاهِباً وَ بَرِيدٌ جَائِياً
.” “فرمایا: جاتے ہوئے ایک ڈاک اور آتے ہوئے ایک ڈاک۔”
اس روایت کے بارے میں یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ دلیل “انصراف” کی وجہ سے یہ روایت اسی دن یا رات تک واپس آنے سے مختص ہے؛ کیونکہ اس دعویٰ کی کوئی دلیل نہیں ہے۔نیز قدیم زمانے کے لحاظ سے بھی اس طرح تصور نہیں کیا جا سکتا۔
۸ ۔ قصد میں استمرار شرط ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اگر قصد مستمر نہ ہو تو دومفروضے ہوسکتے ہیں : ایک یہ کہ مسافت کو مسلسل طے کئے بغیر وہ واپس پلٹ رہا ہے۔تو اس صورت میں واضح ہے کہ پوری نماز پڑھنا ضروری ہے؛ کیونکہ قصر کے لئے جو قطع مسافت شرط ہے وہ صادق نہیں آتا۔ دوسرا یہ کہ مسافت کو مسلسل طے کر رہا ہے اس جیسی صورتوں میں بھی اتمام واجب ہے کیونکہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی عمار کی موثق روایت ظاہرا ً قصد اور قصد کا استمرار شرط ہونے پر دلالت کر رہی ہے ۔ روایت یوں ہے:
“سَأَلْتُهُ عَنِ الرَّجُلِ يَخْرُجُ فِي حَاجَةٍ فَيَسِيرُ خَمْسَةَ فَرَاسِخَ أَوْ سِتَّةَ فَرَاسِخَ فَيَأْتِي قَرْيَةً فَيَنْزِلُ فِيهَا ثُمَّ يَخْرُجُ مِنْهَا فَيَسِيرُ خَمْسَةَ فَرَاسِخَ أُخْرَى أَوْ سِتَّةَ فَرَاسِخَ لَا يَجُوزُ ذَلِكَ ثُمَّ يَنْزِلُ فِي ذَلِكَ الْمَوْضِعِ، قَالَ: لَا يَكُونُ مُسَافِراً حَتَّى يَسِيرَ مِنْ مَنْزِلِهِ أَوْ قَرْيَتِهِ ثَمَانِيَةَ فَرَاسِخَ فَلْيُتِمَّ الصَّلَاةَ
.” “میں نے ایک ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا جو کسی غرض کے لئے گھر سے نکلتا ہے اور پانچ ، چھ فرسخ چلنے کے بعد کسی گاؤں میں ٹھہرجاتا ہے پھر وہاں سے مزید پانچ، چھ فرسخ ہی چلتا ہے ان سے تجاوز نہیں کرتا پھر اسی مقام پر ٹھہر جاتا ہے۔ فرمایا: جب تک اپنے گھر یا گاؤں سے آٹھ فرسخ نہ چلے، وہ مسافر شمار نہیں ہوگا ؛ لہذا وہ نماز کو پورا پڑھے گا۔”
۹ ۔ اپنے وطن سے گزرنے کا ارادہ نہ ہونا شرط ہونا شرط ہے ۔ اس کی وضاحت کے لئے دو امور کا بیان کرنا ضروری ہے:
پہلا امر: اگرچہ ابتداء میں وطن سے گزرنے کا ارادہ نہ ہو تب بھی وطن سے گزرنے کی صورت میں سفر کا حکم ختم ہوجاتا ہے اور سرے سے ہی جدید مسافت کے قصد کی ضرورت ہوتی ہے اور طے کردہ مسافت کو آنے والی مسافت کے ساتھ جمع نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قصر کی دلیل اس وقت قصر کو واجب قرار دیتی ہے جب مسافر اپنے وطن سے آٹھ فرسخ طے کرنے کے ارادے سے نکلے۔ اب اس کا پہلا وطن ہو یا دوسرا ، اس سے فرق نہیں پڑتا۔
دوسرا امر: ابھی وہ وطن سے نہیں گزرا ہے ۔ توپھر گزرنے کا ارادہ کرنا ہی قصر سے کیوں مانع بنے گا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ، قصد کو شرط کرنے والی دلیل ، عمارکی گزشتہ روایت ہے جو یہ کہتی ہے کہ پوری مسافت میں اس شخص پر مسافر کا عنوان صادق آئے اور قصد بھی ابتداء سے ہی پوری مسافت کے طے کرنے کا ہو۔
۱۰ ۔ مسافت پوری ہونے سے پہلے دس دن قیام کا ارادہ نہ کرنا ضروری ہونابھی ان احکام میں سے ہے جن سے کسی کو اختلاف نہیں ہے ۔ اس کی وضاحت کے لئے دو امور کا بیان کرنا ضروری ہے:
پہلا امر: اگرچہ ابتداء میں کہیں ٹھہرنے کا ارادہ نہ کیا ہو تب بھی مسافت پوری ہونے سے پہلے کسی جگہ قیام کرنے سے سفر کا حکم ختم ہوجاتا ہے اور طے کردہ مسافت کو آنے والی مسافت سے ملائے بغیر ،اسی مقام سے جدید مسافت کا ارادہ کرنا ضروری ہوجاتا ہے ۔ یہ کیوں؟
اگر اس بات کو مان لیا جائے کہ دس دن کا قیام ، سفر کےموضوع اور حکم دونوں کو ختم کر دیتا ہے نہ کہ صرف حکم کو ۔ نیز قصر واجب ہونے کی شرط ، جس طرح عمار کی روایت سے معلوم ہوتا ہے ، یہ ہے کہ پوری مسافت میں اس پر مسافر کا عنوان صادق آنا چاہئے ، تو اوپر والے سوالوں کا جواب واضح ہے۔
لیکن اگر یہ بات مان لی جائے کہ دس دن کا قیام ، صرف سفر کے حکم کو ختم کرتا ہے تو استصحاب کے ذریعے پوری نماز پڑھنا واجب ہونے پر استدلال کیا جائے گا۔
دوسرا امر: ابھی اس نے قیام نہیں کیا ہے صرف قیام کا ارادہ کیا ہے اس سے کیوں سفر کا حکم ختم ہوجاتا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ قصر کی دلیل سے استفادہ کرتے ہوئے قصر اس شخص پر واجب ہوتا ہے جو آٹھ فرسخ طے کرنے کا ارادہ رکھتا ہو اور اس مسافت میں اس پر مسافر کا عنوان صادق آئے۔ جب اثنائے سفر دس دن کے قیام کا ارادہ کیا جائے تو اس پر مسافر کا عنوان صادق نہیں آتا بشرطیکہ قیام ، سفر کے موضوع اور حکم دونوں کو ختم کرے نہ کہ صرف حکم کو۔
لیکن اگر موضوع اور حکم دونوں کے ختم ہونے کو نہ مانا جائے تو اس شرط کی توجیہ نہیں کی جا سکے گی ؛ مگر یہ کہ اجماع تعبدی سے تمسک کیا جائے۔
۱۱ ۔ سفر کے مباح ہونے کی شرط بعض روایات کی وجہ سے لگائی جاتی ہے جن میں سے ایک عبید بن زرارہ کی روایت صحیحہ ہے:
“سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام عَنِ الرَّجُلِ يَخْرُجُ إِلَى الصَّيْدِ أَ يَقْصُرُ أَوْ يُتِمُّ قَالَ يُتِمُّ لِأَنَّهُ لَيْسَ بِمَسِيرِ حَقٍّ
.” “میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا جو شکار کے لئے نکلتا ہے ، کیا وہ قصر پڑھے گا یا تمام؟ فرمایا: وہ پوری نماز پڑھے گا؛ کیونکہ وہ حق کے راستے پر نہیں ہے۔”
۱۲ ۔ سفر کو پیشہ نہ بنانا شرط ہونے کی دلیل: مجموعی طور پر یہ حکم مورد اتفاق ہے اور بعض روایات اس پر دلالت کر رہی ہیں جن میں سے ایک ، زراہ کی روایت صحیحہ ہے:
“قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ علیه السلام: أَرْبَعَةٌ قَدْ يَجِبُ عَلَيْهِمُ التَّمَامُ فِي سَفَرٍ كَانُوا أَوْ حَضَرٍ:الْمُكَارِي وَ الْكَرِيُّ وَ الرَّاعِي وَ الْأَشْتَقَانُ لِأَنَّهُ عَمَلُهُمْ
.” “حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: چار قسم کے لوگوں پر خواہ وہ سفر میں ہوں یا حضر میں ، نما ز کو پورا پڑھنا واجب ہے: ۱ ۔ حیوان کو کرائے پر رکھنے والا ، ۲ ۔ خود کو کرائے پر رکھنے والا، ۳ ۔ چرواہا، ۴ ۔ ڈاکیا۔ کیونکہ سفر ان کا پیشہ ہے۔”
جن کا پیشہ ہی سفر ہو ان پر نماز پوری پڑھنا واجب ہونے میں کوئی اشکال نہیں ہے؛ لیکن جن لوگوں کے کام کے لئے سفر، مقدمہ بنتا ہے ، متقدمین ؛ بلکہ متاخرین نے بھی اپنے کلام میں اس معاملے کو نہیں چھیڑا ہے۔
علت کے عموم سے تمسک کرتے ہوئے ان لوگوں پر بھی پوری نماز پڑھنا واجب ہونے کا حکم صادر کرنا مناسب ہے؛ کیونکہ چرواہا جیسے بعض مثالوں کے قرینے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس علت میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کے کام کے لئے سفر ، مقدمہ بنتا ہے۔
۱۳ ۔ خانہ بدوش نہ ہونا شرط ہونے پر اسحاق بن عمار کی روایت دلالت کر رہی ہے:
“سَأَلْتُهُ عَنِ الْمَلَّاحِينَ وَ الْأَعْرَابِ هَلْ عَلَيْهِمْ تَقْصِيرٌ؟ قَالَ: لَا، بُيُوتُهُمْ مَعَهُمْ
.” “میں نے ان سے ملاحوں اور صحرا نشینوں کے بارے میں سوال کیا : کیا ان پر قصر واجب ہے؟ فرمایا: نہیں!ان کے گھر انہی کے ساتھ ہیں۔ ”
اس کے علاوہ قاعدے کا تقاضا بھی یہی ہے کہ وہ ایک معین جگہے پر مستقر نہ ہونے کی وجہ سے مسافر کا عنوان ان پر صادق نہیں آتا ، بشرطیکہ وجوب قصر کا موضوع مسافر کا عنوان صادق آنا ہو۔ پس عام مکلفین پر پوری نماز واجب کرنے والی روایات کے اطلاق سے تمسک کیا جائے گا۔
۱۴ ۔ حد ترخص تک پہنچنا شرط ہونے پر نصوص ، دلالت کرتی ہیں۔ البتہ حد ترخص کی حدبندی کے بارے میں ان نصوص میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ محمد بن مسلم کی صحیح روایت یوں کہتی ہے:
“قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام: الرَّجُلُ يُرِيدُ السَّفَرَ مَتَى يُقَصِّرُ؟ قَالَ إِذَا تَوَارَى مِنَ الْبُيُوت
” “میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے عرض کیا: ایک آدمی سفر کے ارادے سے نکلتا ہے وہ کب قصر کرے گا؟ فرمایا: جب گھر وں سے اوجھل ہوجائے۔”
اس روایت میں گھروں کا پنہاں ہونا شرط قرار دیا گیا ہے ۔عام طور پر شہر والوں کو نظر نہ آنا اس کی علامت ہے۔ جبکہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ، عبد اللہ بن سنان کی روایت کہتی ہے:
“سَأَلْتُهُ عَنِ التَّقْصِير،ِ قَالَ:إِذَا كُنْتَ فِي الْمَوْضِعِ الَّذِي تَسْمَعُ فِيهِ الْأَذَانَ فَأَتِمَّ،وَ إِذَا كُنْتَ فِي الْمَوْضِعِ الَّذِي لَا تَسْمَعُ فِيهِ الْأَذَانَ فَقَصِّرْ.وَ إِذَا قَدِمْتَ مِنْ سَفَرِكَ فَمِثْلُ ذَلِكَ.
” “میں نے ان سے قصر کے بارے میں پوچھا ۔ فرمایا: اگر تم ایسی جگہ ہو جہاں اذان سنائی دیتی ہو تو نماز کو پورا پڑھو۔ اگر ایسی جگہ ہو جہاں اذان سنائی نہیں دیتی تو قصر پڑھو۔ اور جب تم سفر سے واپس آؤ تو بھی یہی صورت ہے۔”
اس روایت میں اذان کا سنائی نہ دینا شرط قرار دیا گیا ہے۔ لہذا دونوں روایتوں میں سے ہر ایک کے مفہوم کا اطلاق دوسرے کے منطوق کے ساتھ منافات رکھتا ہے۔
اس منافات کو دور کرنے کے لئے پہلی روایت کے مفہوم کے اطلاق کو دوسری روایت کے منطوق کے ذریعے مقید کریں گے۔ اس طرح یہ نتیجہ سامنے آئے گا کہ جب گھر پنہاں ہو جائیں یا اذان سنائی نہ دے تو قصر پڑھنا واجب ہے۔
عنوان سفر کو ختم کرنے والے امور:
مندرجہ ذیل امور ، سفر کے عنوان کو ختم کردیتے ہیں:
ا۔ اپنے وطن سے گزرنا،
۲ ۔ ایک جگہ دس دن قیام کرنے کا ارادہ کرنا،
۳ ۔ تذبذب کی حالت میں ایک جگہ تیس ۳۰ دن ٹھہرنا۔
دلائل:
۱ ۔ وطن سے گزرنا ، عنوان سفر کو ختم کرنے کا سبب بننے کی دلیل: اس معنی میں کہ سفر میں نماز پوری پڑھنا ہوگی یہ تو واضح ہے؛ لیکن اس معنی میں کہ آنے والی مسافت کو طے کردہ مسافت کے ساتھ نہیں ملایا جا سکے گا اس بارے میں پہلے ہم بتا چکے ہیں۔
مزید وضاحت کے لئے ہم کہیں گے کہ : قصر کی دلیلیں ظاہرا اس شخص پر قصر واجب ہونے کا حکم لگاتی ہیں جس نے آٹھ فرسخ طے کئے ہوں اور اس مجموعی مسافت کے مطابق اس پر مسافر کا عنوان صادق آتا ہو؛ لیکن جو شخص سفر کے دوران اپنے وطن سے گزر جائے اس پر یہ عنوان صادق نہیں آتا۔
البتہ جو شخص آٹھ فرسخ طے کرنے کے بعد اپنے وطن سے گزرے اس کے لئے یہ وضاحت فائدہ نہیں دے گی ۔ اسے چاہئے کہ وہ قصر پڑھے جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے۔
۲ ۔ دس دن قیام کرنے سے عنوان سفر کا ختم ہونا،مسلمات میں سے ہے۔جس پر بعض روایات دلالت کر رہی ہیں جن میں سے ایک، زرارہ کی روایت صحیحہ ہے:
“قُلْتُ لَهُ:أَ رَأَيْتَ مَنْ قَدِمَ بَلْدَةً إِلَى مَتَى يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَكُونَ مُقَصِّراً وَ مَتَى يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يُتِمَّ؟ فَقَالَ: إِذَا دَخَلْتَ أَرْضاً فَأَيْقَنْتَ أَنَّ لَكَ بِهَا مُقَامَ عَشَرَةِ أَيَّامٍ فَأَتِمَّ الصَّلَاةَ. وَ إِنْ لَمْ تَدْرِ مَا مُقَامُكَ بِهَا تَقُولُ غَداً أَخْرُجُ أَوْ بَعْدَ غَدٍ، فَقَصِّرْ مَا بَيْنَكَ وَ بَيْنَ أَنْ يَمْضِيَ شَهْرٌ، فَإِذَا تَمَّ لَكَ شَهْرٌ فَأَتِمَّ الصَّلَاةَ وَ إِنْ أَرَدْتَ أَنْ تَخْرُجَ مِنْ سَاعَتِكَ
.” “میں نے ان سے عرض کیا:جو شخص کسی شہر میں پہنچ جائے تو اسے کب تک قصر پڑھتے رہنا ہے اور کب اتمام کرنا ہے اس بارے میں آپ ؑ کیا فرماتے ہیں؟ فرمایا: اگر تم کسی جگہ پہنچ جاؤ اور وہاں دس دن قیام کرنے کا تمہیں یقین ہو تو نماز پوری پڑھو۔ لیکن اگر تمہیں معلوم نہ ہو کہ وہاں کتنا عرصہ ٹھہرنا ہے یا تم کہو کہ میں کل پرسوں نکلوں گا تو ( اسی حالت کے ساتھ ) ایک مہینے تک قصر پڑھو۔ جب ایک مہینہ پورا ہوجائے تو نماز پوری پڑھو اگرچہ تم نے ایک گھنٹے کے بعد نکلنے کا ارادہ کر لیا ہو۔”
۳ ۔ صرف ٹھہرنا کافی نہ ہونے ؛ بلکہ ارادہ کرنا شرط ہونے کا حکم گزشتہ روایت صحیحہ میں لگائی گئی یقین کی قید سے ثابت ہوتا ہے۔
۴ ۔ دس دن مسلسل رہنا شرط ہونا،کلمہ “عشر” کے ظاہر سے ثابت ہوتا ہے۔
۵ ۔ ایک ہی جگہ رہنا ضروری ہونے کی وجہ یہ ہے کہ روایات میں استعمال ہونے والے “المکان”، “الارض”، “البلد” اور “الضیعة” جیسے کلمات میں سے ہر ایک کا ظاہر “وحدت ” اور ایک ہونا ہے۔
۶ ۔ متذبذب شخص پر تیس ۳۰ دن گزرنے کے بعد اتمام واجب ہونا، زرارہ کی گزشتہ روایت صحیحہ سے ثابت ہوتا ہے۔
نماز جماعت:
طواف کی نماز کے علاوہ باقی تمام واجب نمازوں کو باجماعت ادا کرنا مستحب ہے۔
نماز استسقاء کے علاوہ نوافل اصلیہ میں سے کسی بھی نماز میں جماعت مشروع اور جائز نہیں ہے۔(اگرچہ وہ نذر وغیرہ کی وجہ سے واجب ہی کیوں نہ ہوجائے۔)
کم از کم دو نفر کے ذریعے جماعت قائم ہوسکتی ہے جن میں سے ایک امام ہوگا۔
نماز عیدین، جب واجب ہوں، اور نماز جمعہ کے علاوہ کسی بھی جماعت میں ضروری نہیں ہے کہ پیش نماز، امامت کی نیت کرے۔
جب تک امام جماعت ، رکوع سے اپنا سر نہ اٹھائے اس وقت تک تکبیرۃ الاحرام کے ذریعے نماز جماعت میں شرکت کی جا سکتی ہے۔
اگر مقتدی تکبیر کہے اور امام کے رکوع میں باقی ہونے میں شک کرے تو جماعت درک کرنے کا حکم نہیں لگایا جائے گا۔
اگر مقتدی مرد ہو تو ضروری ہے کہ پیش نماز بھی مرد ہو ۔ نیز عادل ہو اور اس کی قرائت بھی صحیح ہو۔
دلائل:
۱ ۔ کلی طور پر جماعت کا مستحب ہونا ان احکام میں سے ہے جن سے کسی کو اختلاف نہیں ہے؛ لیکن صرف ایک ایسی دلیل عام کے موجود ہونے میں اشکال ہے جس کے ذریعے تمام واجب نمازوں میں جماعت کی مشروعیت ثابت کیا جا سکے اور اس عموم سے خارج ہونے کے لئے مخصص کی ضرورت پڑے۔
جن دلیلوں سے تمسک کیا جا سکتا ہے ان میں سے بہترین دلیل ، زرارہ اور فضیل کی یہ روایت صحیحہ ہے:
“قُلْنَا لَهُ:الصَّلَاةُ فِي جَمَاعَةٍ فَرِيضَةٌ هِيَ؟ فَقَالَ:الصَّلَوَاتُ فَرِيضَةٌ وَ لَيْسَ الِاجْتِمَاعُ بِمَفْرُوضٍ فِي الصَّلَوَاتِ كُلِّهَا وَ لَكِنَّه سُنَّةٌ. مَنْ تَرَكَهَا رَغْبَةً عَنْهَا وَ عَنْ جَمَاعَةِ الْمُؤْمِنِينَ مِنْ غَيْرِ عِلَّةٍ فَلَا صَلَاةَ لَهُ
.” “ہم نے ان سے عرض کیا: کیا جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا واجب ہے؟ فرمایا: نماز واجب ہے اور تمام نمازوں میں جماعت پڑھنا واجب نہیں؛ لیکن سنت ہے۔ جو شخص کسی عذر کے بغیر نماز جماعت اور مؤمنین کے اجتماع سے بے رغبتی کرتے ہوئے جماعت کو ترک کرے اس کی کوئی نماز نہیں ہے۔”
اس وضاحت کے ساتھ کہ “وَ لَكِنَّه سُنَّةٌ” کا عطف “بِمَفْرُوضٍ
” پر ہے ۔ دراصل یہ جملہ اس طرح ہے کہ : “وَ لَيْسَ الِاجْتِمَاعُ بِمَفْرُوضٍ وَ لَكِنَّه سُنَّةٌ فِي الصَّلَوَاتِ كُلِّهَا
” یعنی اجتماع واجب نہیں ہے ؛ لیکن تمام نمازوں میں سنت ہے۔ یہ اس کے عموم افرادی ہونے کی دلیل ہے۔
اور یہ دعویٰ کرنا کہ استحباب کا حکم صرف نماز پنجگانہ کی طرف انصراف رکھتا ہے، اس جملے“فِي الصَّلَوَاتِ كُلِّهَا
” کے ساتھ نا مناسب ہے۔
۲ ۔ واجب نمازوں سے طواف کی نماز کو استثناء کرنے کی وجہ ، شیخ نائینی ؒ اور دوسرے فقہاء نے ذکر کی ہے کہ نماز طواف کو جماعت کے ساتھ بجا لانا رائج اور متداول نہیں ہے؛ بلکہ پیغمبر اکرم ؐ نے حجۃ الوداع کے موقع پر اس حج کی بہت ساری خصوصیات کو ذکر فرمایا اس کے باوجود نماز طواف کو باجماعت ادا کرنے کے بارے میں کچھ بیان نہیں فرمایا۔ آپ ؐ کا کچھ بیان نہ کرنا اس کے مشروع نہ ہونے کی دلیل ہے اور مخصص متصل کی حیثیت رکھتا ہے۔
۳ ۔ مستحب نمازوں میں جماعت کا مشروع نہ ہونا ، مقتضی قاصر ہونے کی وجہ سے ہے یعنی جماعت کی دلیلوں میں موجود“الصَّلاة الفریضة
” کی تعبیر کی وجہ سے یہ دلیلیں، مستحب نمازوں میں بھی جماعت کو ثابت کرنے سے قاصر ہیں۔
اس کے علاوہ پیغمبر اکرم ؐ کے زمانے میں نوافل کو جماعت کے ساتھ بجا لانا رائج نہ تھا جبکہ آپ ؐ ، جماعت کو بہت اہمیت دیتے تھے۔
البتہ صرف ماہ رمضان کے نوافل کو جماعت کے ساتھ ادا کرنا خلیفہ دوم نے جائز قرار دیا ہے جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔اسی بات کے پیش نظر، حضرت امام محمد باقر اور جعفر صادق علیہما السلام سے فضلاء نےیہ روایت صحیحہ نقل کی ہے:
“إِنَّ الصَّلَاةَ بِاللَّيْلِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ مِنَ النَّافِلَةِ فِي جَمَاعَةٍ بِدْعَة
” “ماہ رمضان کی راتوں میں نافلہ نماز کوباجماعت پڑھنا بدعت ہے۔”
عمار ساباطی کی روایت کے مطابق حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام نے اپنے دور حکومت میں اس کو بدلنے کی کوشش کی تو لوگوں نے “واعمراه واعمراه
”کی فریادیں بلند کیں تو آپ ؑ نے فرمایا : پڑھو!
یا جس طرح سلیم بن قیس ہلالی کی روایت میں ہے کہ آپ ؑ کی فوج میں سے بعض افراد چیخنے لگے: “يَا أَهْلَ الْإِسْلَامِ غُيِّرَتْ سُنَّةُ عُمَر
”۔ “اے اہل اسلام! عمر کی سنت کو بدل دیا گیا ہے۔”
۴ ۔ نوافل کو اصلیہ کے ساتھ اس لئے مقید کیا گیا ہے کہ “الصلاة الفریضة
”میں وہ نمازیں شامل ہوتی ہیں جو اصالتا ً واجب ہوں ؛ کیونکہ اس جملے کا انصراف انہی نمازوں کی طرف ہے جو اصالتا ً فرض ہوں۔ ( لہذا جو نمازیں اصالتا ً نوافل میں سے ہوں اگر وہ نذر و قسم وغیرہ کی وجہ سے واجب بھی ہوجائیں ،ان کو جماعت کے ساتھ بجانہیں لایا جا سکتا۔)
۵ ۔ دو بندوں کے ذریعے جماعت قائم ہونے کی دلیل زرارہ کی روایت صحیحہ ہے:
“قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام:الرَّجُلَانِ يَكُونَانِ جَمَاعَةً؟ فَقَالَ: نَعَمْ، وَ يَقُومُ الرَّجُلُ عَنْ يَمِينِ الْإِمَامِ.
” “میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے عرض کیا: کیا دو آدمی سے جماعت قائم ہوتی ہے؟ فرمایا: ہاں! اور وہ ایک آدمی امام کی دائیں جانب کھڑا ہوگا۔”
۶ ۔پیش نماز پر امامت کی نیت کرنا ضروری نہیں ہے۔اس حکم کو ثابت کرنے کے لئے فضیل اور زرارہ کی گزشتہ روایت کے اطلاق سے تمسک نہیں کیا جا سکتا؛ کیونکہ اس روایت میں “عموم افرادی” پیش نظر ہے نہ کہ “ عموم احوالی”۔ بلکہ اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ مسئلہ اکثر پیش آنے والے مسائل میں سے ہے ؛لہذا اگر امامت کی نیت کرنا ضروری ہوتا تو معصوم ؑ اس کی طرف توجہ دلاتے۔ بسا اوقات کہا جاتا ہے کہ امامت کی نیت کرنا شرط نہ ہونے کے لحاظ سے برائت بھی جاری ہو سکتی ہے۔
۷ ۔ عیدین کی واجب نمازوں اور جمعہ کو استثناء کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ان نمازوں میں پیش نماز پر امامت کی نیت کرنا ضروری ہونے کی علت یہ بیان کی گئی ہے کہ ان کے صحیح ہونے کے لئےجماعت ضروری ہے ۔ اس معنی میں کہ جماعت ، واجب کا جزو مقارن ہے ؛ لہذا امام پر اس جزو کا ارادہ کرنا ضروری ہے۔
۸ ۔ رکوع میں امام کے ساتھ پہنچنے سے رکعت کے پانے پر وہ روایات دلالت کرتی ہیں جن کے مطابق مسجد میں داخل ہونے والے کو اگر خوف ہو کہ امام رکوع سے سر اٹھائے گا تو وہ تکبیر کہے اور چل پڑے ۔
نیز وہ روایات بھی جن کے مطابق امام کے لئے مستحب ہے کہ اپنے رکوع کو طول دے تاکہ ماموم اس کے ساتھ ملحق ہو سکے۔
اس کے علاوہ بعض دوسری روایتیں بھی اس حکم پر دلالت کرتی ہیں جیسے :حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی سلیمان بن خالد کی روایت صحیحہ :
“الرَّجُلِ إِذَا أَدْرَكَ الْإِمَامَ وَ هُوَ رَاكِعٌ... ثُمَّ رَكَعَ قَبْلَ أَنْ يَرْفَعَ الْإِمَامُ رَأْسَهُ فَقَدْ أَدْرَكَ الرَّكْعَةَ
.” “کوئی شخص اگر امام کو حالت رکوع میں پائے۔۔۔ پھر وہ رکوع کرے قبل اس کے کہ امام رکوع سے اپنا سر اٹھائے تو اس نے اس رکعت کو پالیا۔”
۹ ۔ تکبیر کہنے کے بعد ماموم کو امام کے رکوع میں باقی ہونے میں شک کی صورت میں رکعت کو نہ پانے کا حکم اس لئے لگایا جاتا ہے چونکہ ماموم کے نزدیک ،امام کے سر اٹھانے سے پہلے ،اپنے رکوع کا واقع ہوناثابت نہیں ہوتا۔
۱۰ ۔ مردوں کے لئے عورت کی امامت جائز نہ ہونے کا حکم مسلمات میں سے ہے۔ اس حکم کو ان روایات سے اخذ کیا جا سکتا ہے جن میں عورتوں کے لئے عورت کی امامت جائز ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں سوال کیا گیا ہے۔ جیسے سماعہ کی موثق روایت ہے:
“سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام عَنِ الْمَرْأَةِ تَؤُمُّ النِّسَاءَ؟ فَقَالَ: لَا بَأْسَ بِهِ
.” “میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا : کیا عورت، عورتوں کو نماز پڑھا سکتی ہے؟ فرمایا: کوئی حرج نہیں۔”
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر عورت کے لئے نماز پڑھانا جائز نہ ہونا واضح اور طے شدہ بات ہے۔
۱۱ ۔ پیش نماز کے لئے عدالت ، شرط ہونے کے سلسلے میں کہا گیا ہے کہ یہ ان احکام میں سے ہے جن پر علمائے امامیہ کا اجماع ہے ۔
اس پر سماعہ کی مندرجہ ذیل موثق روایت کے ذریعے استدلال کیا جاتاہے:
“سَأَلْتُهُ عَنْ رَجُلٍ كَانَ يُصَلِّي فَخَرَجَ الْإِمَامُ وَ قَدْ صَلَّى الرَّجُلُ رَكْعَةً مِنْ صَلَاةٍ فَرِيضَةٍ. قَالَ: إِنْ كَانَ إِمَاماً عَدْلًا فَلْيُصَلِّ أُخْرَى وَ يَنْصَرِفُ وَ يَجْعَلُهُمَا تَطَوُّعاً وَ لْيَدْخُلْ مَعَ الْإِمَامِ فِي صَلَاتِهِ كَمَا هُوَ. وَ إِنْ لَمْ يَكُنْ إِمَامَ عَدْلٍ، فَلْيَبْنِ عَلَى صَلَاتِهِ كَمَا هُوَ وَ يُصَلِّي رَكْعَةً أُخْرَى وَ يَجْلِسُ قَدْرَ مَا يَقُولُ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ (ص)، ثُمَّ لْيُتِمَّ صَلَاتَهُ مَعَهُ عَلَى مَا اسْتَطَاعَ فَإِنَّ التَّقِيَّةَ وَاسِعَة..
.”“میں نے ان سے ایک ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا جو نماز پڑھ رہا تھا ایسے میں پیش نماز آگے بڑھا حالانکہ وہ شخص اپنی فریضہ نماز کی ایک رکعت پڑھ چکا تھا۔ فرمایا: اگر پیش نماز عادل ہو تو وہ مزید ایک رکعت پڑھ کر منصرف ہوجائے اور ان دونوں رکعتوں کو مستحب قرار دے پھر امام جس حالت میں ہو اس کے ساتھ نماز شروع کرے۔ لیکن اگر امام ، عادل نہ ہو تو اپنی نماز پر جس طرح تھا اسی طرح باقی رہ کر مزید ایک رکعت پڑھے اورأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ
پڑھنے کی مقدار میں بیٹھ جائے پھر جہاں تک ہو سکے امام کے ہمراہ اپنی نماز کو پورا کرے ۔ بتحقیق تقیہ کا دائرہ وسیع ہے۔۔۔”
اس کے علاوہ زرارہ اور فضیل کی گزشتہ روایت صحیحہ میں اطلاق احوالی نہ ہونے کی وجہ سے یہاں پر اصالہ عدم مشروعیت جاری ہوگا۔
۱۲ ۔ قرائت کے صحیح ہونے کی شرط متفق علیہ احکام میں سے ہے۔ اس پر اس طرح استدلال کیا جا سکتا ہے کہ جماعت میں ماموم سے قرائت مکمل طور پر ساقط نہیں ہوتی ؛ بلکہ اس کی طرف سے پیش نماز وکیل اور ضامن ہوتا ہے۔ مثلا سلیمان ابن خالد کی روایت صحیحہ کہتی ہے:
“قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام أَ يَقْرَأُ الرَّجُلُ فِي الْأُولَى وَ الْعَصْرِ خَلْفَ الْإِمَامِ وَ هُوَ لَا يَعْلَمُ أَنَّهُ يَقْرَأُ؟ فَقَالَ: لَا يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَقْرَأَ، يَكِلُهُ إِلَى الْإِمَامِ
.” “میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے عرض کیا:ظہر و عصر کی نماز کو امام کی اقتداء میں پڑھتے ہوئے ، ماموم قرائت کرے گا یا نہیں ؟ جبکہ وہ نہیں جانتا کہ امام قرائت کر رہا ہے۔ فرمایا: اسے نہیں پڑھنا چاہئے ؛امام پر چھوڑنا چاہئے۔”
اسی طرح حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی سماعہ کی موثق روایت بتاتی ہے :
“سَأَلَهُ رَجُلٌ عَنِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ. فَقَالَ: لَا، إِنَّ الْإِمَامَ ضَامِنٌ لِلْقِرَاءَة
...” “کسی نے ان سے ، امام جماعت کے پیچھے قرائت کرنے کے بارے میں سوال کیا ۔ فرمایا: نہیں! بتحقیق امام ، قرائت کا ضامن ہے۔۔۔”
اگر امام ، قرائت کو صحیح نہ پڑھے تو اس کا وکیل اور ضامن ہونا بے معنی ہے۔
ان روایات سے قطع نظر، اطلاق احوالی نہ ہونے کی وجہ سے اصالہ عدم مشروعیت جاری ہوناہی اس حکم کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔
نماز جمعہ:
معصوم ؑ کے زمانہ غیبت میں نماز جمعہ واجب ہونے میں کافی اختلاف ہے۔
نماز جمعہ ، صبح کی نماز کی طرح دو رکعتوں پر مشتمل ہے ؛ مگر یہ کہ اس سے پہلے دو خطبے بھی ہیں ۔ پہلے خطبے میں امام کھڑے ہوکر اللہ تعالی کی حمد وثنا کرتا ہے اور تقوائے الٰہی کی سفارش کرنے کے بعد ایک سورہ پڑھتا ہے۔ پھر تھوڑی دیر کے لئے بیٹھ جاتا ہے اور دوسرے خطبے کے لئے کھڑا ہوجاتا ہے۔ اس میں خدا کی حمد و ثنا کے بعد حضرت محمد مصطفےٰ ؐ اور ائمہ مسلمین ؑ پر درود بھیجتا ہے اور مؤمنین و مؤمنات کے لئے مغفرت طلب کرتا ہے۔
دلائل:
۱ ۔ جمعہ کے وجوب کا حکم: نماز جمعہ کا واجب ہونا محل اختلاف ہے۔ اس میں تین اقوال مشہور ہیں:
۱ ۔ نماز جمعہ واجب تعیینی ہے۔
۲ ۔ نماز جمعہ واجب تخییری ہے۔
۳ ۔ نماز جمعہ جائز نہیں ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
(
يَأَيهَُّا الَّذِينَ ءَامَنُواْ إِذَا نُودِىَ لِلصَّلَوةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْاْ إِلىَ ذِكْرِ اللَّهِ وَ ذَرُواْ الْبَيْعَ ذَالِكُمْ خَيرٌْ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُون
)
“اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کے لئے پکارا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو اور خرید و فروخت ترک کر دو، یی تمہارے حق مںل بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔”
اس آیت مجیدہ کو ملاحظہ کرتے ہوئے یہ کہنا مناسب ہے کہ آیت ،نماز جمعہ کے ابتدائی وجوب پرنہیں ؛ بلکہ جب بھی جمعہ قائم ہو اور اس کے لئے پکارا جائے تو شرکت کرنا ضروری ہونے پر دلالت کر رہی ہے۔اس کے اطلاق کا تقاضا یہ ہے کہ معصوم امام ؑ کا حاضر ہونا شرط نہیں۔ نیز جو دلیلیں اس کی شرائط بیان کرتی ہیں ان میں بھی حضور معصوم ؑ کے علاوہ دوسری شرائط پر اکتفا کیا جاتا ہے ۔
زرارہ نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت صحیحہ نقل کی ہے:
“إِنَّمَا فَرَضَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ عَلَى النَّاسِ مِنَ الْجُمُعَةِ إِلَى الْجُمُعَةِ خَمْساً وَ ثَلَاثِينَ صَلَاةً، مِنْهَا صَلَاةٌ وَاحِدَةٌ فَرَضَهَا اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ فِي جَمَاعَةٍ،وَ هِيَ الْجُمُعَةُ،وَوَضَعَهَا عَنْ تِسْعَةٍ: عَنِ الصَّغِيرِ،وَالْكَبِير،ِوَ الْمَجْنُونِ،وَالْمُسَافِر،ِوَالْعَبْدِ،وَالْمَرْأَةِ،وَالْمَرِيضِ،وَ الْأَعْمَى،وَ مَنْ كَانَ عَلَى رَأْسِ فَرْسَخَيْنِ
.” “اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر، جمعہ سے جمعہ تک ،پینتیس ۳۵ نمازیں فرض کی ہیں جن میں سے صرف ایک نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھنا واجب قرار دیا ہے اور وہ جمعہ کی نماز ہے۔ نو ۹ قسم کے لوگوں سے اس فریضے کو اٹھایا ہے: ۱ ۔ بچہ، ۲ ۔بوڑھا، ۳ ۔پاگل، ۴ ۔مسافر، ۵ ۔غلام، ۶ ۔ عورت، ۷ ۔ مریض، ۸ ۔ نابینا، ۹ ۔ وہ شخص جو دو فرسخوں کی ابتداء میں ہو۔”
جب ہم اس روایت کو سامنے رکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ “الناس” کے اطلاق میں روز قیامت تک کاہر انسان شامل ہے خواہ وہ زمانہ غیبت معصوم ؑ میں ہی کیوں نہ ہو۔چونکہ فریضہ نمازوں کی تعداد اور ان کے مکلفین کے بیان کی جہت کے علاوہ دوسری جہتوں سے معصوم ؑ کا مقام بیان میں ہونا یہاں سے واضح نہیں ہوتا اس لئے یہ روایت نماز جمعہ کے ابتدائی وجوب پر دلالت نہیں کر رہی ؛ بلکہ یہ اس سے عام مفہوم پر دلالت کر رہی ہے کہ جب بھی نماز جمعہ کے لئے پکارا جائے تو یہ واجب ہوجائے گی۔
بنابرایں مرحلہ بقاء میں نماز جمعہ کے واجب تعیینی ہونے کا حکم صادر کرنا مناسب ہے نہ کہ مرحلہ حدوث میں؛ کیونکہ مرحلہ حدوث میں اس کے وجوب کی کوئی دلیل نہیں ہے ؛ لہذا برائت کے ذریعے وجوب کی نفی ہوجائے گی؛ جبکہ مرحلہ بقاء اس کے برعکس ہے کیونکہ اس مرحلے میں نماز کے وجوب کی دلیل موجود ہے۔
اور یہ دعویٰ کہ معصوم ؑ کی غیبت کے زمانے میں نماز جمعہ کے مشروع ہونے کا حکم صادر نہیں کیا جا سکتا ؛ کیونکہ جمعہ قائم کرنے کے لئے معصوم ؑ کا حاضر ہونا یا معصوم ؑ کا منصوب نمائندہ ہونا شرط ہے جو زمانہ غیبت میں موجود نہیں ہے۔ یا اس لئے کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں:
“اللهمّ ان هذا المقام لخلفائک و اصفیاءک... قد ابتزّوها وانت المقدر لذلک...حتی عاد صفوتک و خلفاؤک مغلوبین مقهورین..
.”“پروردگارا! یہ تیرے خلفاء اور منتخب بندوں کا مقام ہے۔۔۔ یقینا تیرے خلفاء پر غالب آئے اور اس کی تقدیر تیرے ہاتھ میں ہے۔۔۔ یہاں تک کہ تیرے خلفاء اور برگزیدہ بندے مغلوب اور مقہور ہوجائیں۔”
یہ دعویٰ اس طرح ردّ ہو جائے گا کہ پہلی دو شرطیں ، کسی روایت میں ذکر نہیں ہوئی ہیں ؛ لہذا ان کی نفی ہوجائے گی۔ اسی طرح امام ؑ کی دعا زیادہ سے زیادہ اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ اگر امام حاضر ہوں تو نماز کے لئے وہی زیادہ سزاوار ہے اور یہ قضاوت اور ولایت کی طرح آپ ؑ کا خصوصی منصب ہے ۔ یہ باتیں ہماری بحث سے الگ ہیں کیونکہ ہماری بحث ، زمانہ غیبت کے پیش نظر ہے۔
۲ ۔ نماز جمعہ ، نماز صبح کی طرح دو رکعتوں پر مشتمل ہونے کا حکم ،مسلمات میں سے ہے ۔ اس کے علاوہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی سماعہ کی موثق روایت وغیرہ سے بھی اخذ کیا جا سکتا ہے:
“صَلَاةُ الْجُمُعَةِ مَعَ الْإِمَامِ رَكْعَتَانِ فَمَنْ صَلَّى وَحْدَهُ فَهِيَ أَرْبَعُ رَكَعَاتٍ
.” “نماز جمعہ کی ، جماعت کے ساتھ، دو رکعتیں ہیں اور کوئی فرادیٰ پڑھے تو چار رکعتیں ہیں۔”
نماز سے پہلے دو خطبے پڑھنا اور ان خطبوں میں مذکورہ چیزیں پڑھنا ، سماعہ کی ایک دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے جو حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے:
“يَخْطُبُ يَعْنِي إِمَامَ الْجُمُعَةِ، وَ هُوَ قَائِمٌ يَحْمَدُ اللَّهَ، وَ يُثْنِي عَلَيْهِ، ثُمَّ يُوصِي بِتَقْوَى اللَّهِ، ثُمَّ يَقْرَأُ سُورَةً مِنَ الْقُرْآنِ صَغِيرَةً، ثُمَّ يَجْلِسُ، ثُمَّ يَقُومُ فَيَحْمَدُ اللَّهَ، وَ يُثْنِي عَلَيْهِ، وَ يُصَلِّي عَلَى مُحَمَّدٍ (ص) وَ عَلَى أَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ، وَ يَسْتَغْفِرُ لِلْمُؤْمِنِينَ وَ الْمُؤْمِنَاتِ، فَإِذَا فَرَغَ مِنْ هَذَا أَقَامَ الْمُؤَذِّنُ فَصَلَّى بِالنَّاسِ رَكْعَتَيْن
” “پیش نماز کھڑے ہوکر خطبہ دے گا ، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرے گا۔ پھر لوگوں کو پرہیزگاری اور تقوائے الٰہی کی نصیحت کرے گا۔ پھر قرآن کا یک چھوٹا سورہ پڑھے گا۔ پھر بیٹھ جائے گا۔ پھر دوبارہ کھڑے ہوکر اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کرے گا اور حضرت محمد ؐ اور ائمہ مسلمین ؑ پر درود بھیجے گا اور مؤمنین و مؤمنات کے لئے مغفرت طلب کرے گا۔ جب ان سے فارغ ہوجائے تو مؤذن اقامت کہے گا اور وہ لوگوں کے ساتھ دو رکعتیں بجالائے گا۔ ”