کتاب امر بالمعروف و نہی از منکر
امربالمعروف اور نہی از منکر کے احکام:
امر بالمعروف اور نہی از منکر دو ایسے واجب کفائی ہیں، جن کی بڑی تاکید ہوئی ہے، بشرطیکہ معروف ، واجب کی حد کو پہنچ جائے۔ یہ دونوں کسی خاص صنف سے مختص نہیں ہیں۔
امر بالمعروف اور نہی از منکر کے وجوب کی شرائط:
امر بالمعروف اور نہی از منکرواجب ہونے کے لئے مندرجہ ذیل شرائط کا ہونا ضروری ہے:
۱ ۔ امر بالمعروف اور نہی از منکرکا علم رکھتا ہو،
۲ ۔ مؤثر ہونے کا احتمال ہو،
۳ ۔ مخالفت کرنے والا معصیت کا تکرار کرے،
۴ ۔ مخالفت کرنے والے کے حق میں امر و نہی منجز (معلوم)ہو،
۵ ۔ امر بالمعروف کرنے والے یا کسی اور کے لئے ضرر اور نقصان کا سبب نہ ہو۔
امر بالمعروف اور نہی از منکرکے مراتب:
امر بالمعروف اور نہی از منکرکے تین مرتبے ہیں:
۱ ۔ دل سے نفرت کرنا،
۲ ۔ زبان سے ،
۳ ۔ ہاتھ سے ۔
سابقہ مراتب کے ہوتے ہوئے، یہ فریضہ بعد والے مراتب کی طرف منتقل نہیں ہوگا۔
امر بالمعروف اور نہی از منکرکرتے ہوئے زخم لگا سکنے اور قتل کر سکنے میں اختلاف ہے۔
اپنے اہل و عیال کو امر بالمعروف اور نہی از منکرکرنامکلف پر واجب مؤکد ہے۔
دلائل:
۱ ۔ امر بالمعروف اور نہی از منکرکی اصل وجوب متفق علیہ احکام میں سے ہے؛ بلکہ یہ ضروریات دین کی حد تک پہنچا ہوا حکم ہے۔ اس حکم کو مندرجہ ذیل دلیلوں سے اخذ کیا جا سکتا ہے:
قرآن مجید کی آیات:
(
وَ لْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلىَ الخَْيرِْ وَ يَأْمُرُونَ بِالمَْعْرُوفِ وَ يَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَ أُوْلَئكَ هُمُ الْمُفْلِحُون
)
“اور تم میں ایک جماعت ایسی ضرور ہونی چاہے جو نیکی کی دعوت اور بھلائی کا حکم دے اور برائوفں سے روکے اور یی لوگ نجات پانے والے ہںی۔”
(
يَابُنىََّ أَقِمِ الصَّلَوةَ وَ أْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَ انْهَ عَنِ الْمُنكَر
)
“اے بٹاے! نماز قائم کرو اور نیکی کا حکم دو اور بدی سے منع کرو”
(
خُذِ الْعَفْوَ وَ أْمُرْ بِالْعُرْفِ
)
“در گزر سے کام لو اور نیک کاموں کا حکم دیں”
اس آیت کے ساتھ قاعدہ اسوہ کو پیش نظر رکھنے سے حکم ثابت ہوسکتا ہے۔ قاعدہ اسوہ درج ذیل آیت سے اخذ کیا جاتاہے:
(
لَّقَدْ كاَنَ لَكُمْ فىِ رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَة
)
“بتحقیق تمہارے لےا اللہ کے رسول مں بہترین نمونہ ہے۔”
محمد بن عرفہ کی روایت میں آیا ہے:
“سَمِعْتُ أَبَا الْحَسَنِ الرِّضَا علیه السلام يَقُولُ: لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَ لَتَنْهُنَّ عَنِ الْمُنْكَرِ أَوْ لَيُسْتَعْمَلَنَّ عَلَيْكُمْ شِرَارُكُمْ فَيَدْعُو خِيَارُكُمْ فَلَا يُسْتَجَابُ لَهُمْ
.” “میں نے حضرت امام رضا علیہ السلام کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ تم لوگ ضرور امر بالمعروف اور نہی از منکر کیا کرو ! ورنہ تمہارے شریروں کو تم پر مسلط کیا جائے گا پھر تمہارے نیک لوگ دعا مانگیں گے تو ان کی دعائیں مستجاب نہیں ہوں گی۔”
انہی کی ایک دوسری روایت کہتی ہے :
“إِذَا أُمَّتِي تَوَاكَلَتِ الْأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ فَلْيَأْذَنُوا بِوِقَاعٍ مِنَ اللَّهِ.”
“جب میری امت امر بالمعروف اور نہی از منکر میں ٹال مٹول سے کام لے گی تو اس عذاب الٰہی کو نازل ہونے کی اجازت دی ہے۔”
بلکہ کہا گیا ہے کہ شریعت سے قطع نظر، عقل کے ذریعے ، امر بالمعروف و نہی از منکر کا وجوب ثابت ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ اشکال کیا جا سکتا ہے کہ حکم عقل کے ذریعے امر بالمعروف و نہی از منکرکا لازمی ہونا ثابت نہیں ہوتا؛ بلکہ ان کا راجح ہونا ثابت ہوتا ہے۔
۲ ۔ امر بالمعروف و نہی از منکرکے واجب کفائی ہونے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
بعض نے اصل اور تمام مکلفین سے مخاطب ہونے کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا ہے کہ امر بالمعروف و نہی از منکر ،واجب عینی ہے۔لیکن کچھ لوگوں کے بجالانے سے غرض اور مقصد کے پورا ہونے سے معلوم ہوتا ہے کہ واجب عینی نہیں ہے ؛ لہذا اصل سے بھی تمسک کرنے کی گنجائش نہیں رہتی۔
اسی طرح تمام مکلفین سے مخاطب ہونے سے بھی یہ نتیجہ نہیں لیا جا سکتا ؛ کیونکہ واجب کفائی میں بھی خطاب عمومی ہوتا ہے۔ اس معنی میں کہ ابتداء میں حکم ، سب کے لئے ہوتا ہے؛ لیکن بعض لوگوں کے انجام دینے سے دوسروں سے ساقط ہوتا ہے۔
پہلی آیت میں“من”کا تبعیضی ہونا واجب کفائی ہونے کی تاکید ہے۔
ان دو احتمالوں میں سے کسی ایک کا یقین ہو جائے تو اسی کا انتخاب کیا جائے گا ورنہ اصل عملی کی نوبت آئے گی جس کا تقاضا کفائی ہونا ہے؛ کیونکہ بعض کے بجالانے کے بعد حکم کے متوجہ ہونے میں شک ہے۔
اس مقام پر یہ نہیں کہا جاتا کہ ابتداء میں خطاب تمام مکلفین سے تھا ۔ پس بعض کے انجام دینے کے بعد شک کا مطلب یہ ہے کہ حکم ساقط ہوا ہے یا نہیں ؛ لہذا یہاں قاعدہ اشتغال یا استصحاب جاری ہوگا۔
بلکہ یہ کہا جاتا ہے کہ واجب کفائی میں خطاب ہر فرد سے ہوتا ہے بشرطیکہ دوسرے اسے انجام نہ دیں۔
ان دونوں احتمالوں کا فائدہ اس وقت ظاہر ہوگا جب کوئی اس کو واجب کفائی کے طور پر انجام دے پھر مقصد پورا نہ ہو تو واجب کفائی ماننے کی صورت میں دوسروں سے وجوب ساقط ہوجائے گا؛ لیکن واجب عینی ماننے کی صورت میں دوسروں پر وجوب باقی رہے گا۔
فائدے کے بارے میں یہ بات مکمل ہو تو ٹھیک ورنہ ان احتمالوں کا اس کے علاوہ کوئی فائدہ تصور کرنا مشکل ہے۔
۳ ۔ معروف کو حد وجوب تک پہنچنے سے مقید کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اگر واجب نہ ہو تو یہ ایک مستحب عمل بن جائے گا اور مستحب کا امر بھی مستحب ہی ہوتا ہے۔ منکر میں اس قید کے نہ ہونے کی دلیل یہ ہے منکر میں یہ قید متصور ہی نہیں ہے۔
۴ ۔امر بالمعروف اور نہی از منکر کے کسی صنف مثلا سیاسی لوگ یا دینی علماء وغیرہ سے مختص نہ ہونا دلیلوں کے اطلاق اور عدم مقید سے ثابت ہوتا ہے۔
ابتداء میں ذکر کی گئی آیت کے مقید ہونے پر استدلال کرتے ہوئے مندرجہ ذیل آیت پیش کی جاتی ہے:
(
الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فىِ الْأَرْضِ أَقَامُواْ الصَّلَوةَ وَ ءَاتَوُاْ الزَّكَوةَ وَ أَمَرُواْ بِالْمَعْرُوفِ وَ نَهَوْاْ عَنِ الْمُنكَر
)
“یہ وہ لوگ ہںو، اگر ہم انہںة زمنَ مں اقتدار دیں تو وہ نماز قائم کریں گے اور زکوۃ ادا کریں گے اور نی ا کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے۔”
اس استدلال کی ایک ردّ یہ ہے کہ گزشتہ آیت میں تمام لوگوں کو ایک امت بننے کا حکم دیا گیا ہے ؛ لہذا وہ آیت اس استدلال کے برعکس دلالت کرتی ہے۔
دوسری ردّ یہ ہے کہ زمین کے اقتدار ملنے والوں کی اس طرح توصیف کرنا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ یہ فریضہ ان ہی کےساتھ مختص ہو۔
۵ ۔ امر و نہی کے وجوب کے لئے علم ضروری ہونے کی دلیل یہ ہے کہ امر بالمعروف اور نہی از منکر کا فریضہ اس وقت انجام دے پائے گا جب اسے معروف اور منکر کا علم ہو۔
اب یہ علم کی شرط ، وجوب کے لئے شرط ہے یا واجب کے لئے؟ خطابات کے اطلاق کا تقاضا ، واجب کے لئے ہونا ہے۔
بنا بر ایں جس شخص کو یہ معلوم ہو کہ اس کے معاشرے میں کچھ لوگ اطاعت اور معصیت میں فرق نہیں کرپاتے اور معصیت کا ارتکاب کرتے ہیں جبکہ اطاعت کو ترک کرتے ہیں تو اس شخص پر معروف اور منکر کا علم حاصل کرنا واجب ہو جاتا ہے ۔ البتہ اگر لوگوں کے ارتکاب معصیت اور ترک اطاعت کا علم نہ ہو ؛بلکہ شک ہو تو تعلیم حاصل کرنا واجب نہیں؛ کیونکہ خطاب کا موضوع واضح نہیں ہوا ہے اور اصل برائت کا تقاضا بھی یہی ہے ۔ نتیجتاً امر و نہی واجب نہیں ہوں گے۔
ہاں اگر دین کی سمجھ بوجھ واجب ہونے کی وجہ سے معروف اور منکر کی معرفت حاصل کرنا واجب ہوجاتا ہے تو یہ الگ بات ہے۔
ادھر بعض بزرگ علماء کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ انہوں نے مندرجہ ذیل روایت سے تمسک کرتے ہوئے اس شرط کو وجوب کی شرط مانی ہے۔ یہ روایت حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مسعدہ بن صدقہ نے نقل کی ہے:
“سَمِعْتُهُ يَقُولُ وَ سُئِلَ عَنِ الْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّهْيِ عَنِ الْمُنْكَرِ أَ وَاجِبٌ هُوَ عَلَى الْأُمَّةِ جَمِيعاً؟ فَقَالَ: لَا. فَقِيلَ لَهُ:وَ لِمَ؟ قَالَ إِنَّمَا هُوَ عَلَى الْقَوِيِّ الْمُطَاعِ الْعَالِمِ بِالْمَعْرُوفِ مِنَ الْمُنْكَرِ لَا عَلَى الضَّعِيفِ الَّذِي لَا يَهْتَدِي سَبِيلًا إِلَى أَيٍّ مِنْ أَيٍّ يَقُولُ مِنَ الْحَقِّ إِلَى الْبَاطِلِ
وَ الدَّلِيلُ عَلَى ذَلِكَ كِتَابُ اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ قَوْلُهُ
(
وَ لْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَ يَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ
)
فَهَذَا خَاصٌّ غَيْرُ عَام
” “میں نے ان کو یہ کہتے ہوئے سنا ، جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ امر بالمعروف اور نہی از منکر پوری امت کا فریضہ ہے؟ تو فرمایا: نہیں ! سوال کیا گیا : کیوں؟ فرمایا: یہ صرف قدرتمند، مطاع( جسکی اطاعت کی جائے)اور معروف و منکر کے علم رکھنے والے پر واجب ہے ۔ اس بیچارے پر واجب نہیں جسے خود راستے کا علم نہیں کہ کہاں سے کہاں جانا ہے ، حق سے باطل کی طرف کہتا ہے۔اس کی دلیل ، اللہ تعالیٰ کی کتاب میں موجود یہ فرمان ہے:“اور تم مںح ایک جماعت اییی ضرور ہونی چاہے جو نی کی دعوت اور بھلائی کا حکم دے اور برائواں سے روکے اور ییی لوگ نجات پانے والے ہں ۔” تو یہ خاص ہے عام نہیں۔۔۔ ”
مسعدہ کی وثاقت ثابت نہیں ہے ؛لہذا اس روایت کی سند ضعیف ہے۔
بسا اوقات اصل تکلیف کے لئے علم ، شرط ہونے پر اس طرح استدلال کیا جاتا ہے کہ منکر سے نہی کرنا واجب ہے اور منکر ، حکم کے لئے موضوع کی حیثیت رکھتا ہے ۔ نتیجتاً جہاں کہیں خارج میں منکر وجود میں آئے تو اس سے منع کرنا واجب ہے۔ جب مکلف کو منکر کا علم نہ ہو تو حکم کا موضوع وجود میں نہیں آتا ؛ لہذا تکلیف کی فعلیت کشف نہیں ہوگی تاکہ اس پر تعلیم حاصل کرنا واجب ہوجائے۔
یہ استدلال اچھا ہے بشرطیکہ مکلف کو اپنے معاشرے میں فی الحال یا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بعض منکرات کے وجود میں آنے کا اجمالاً علم نہ ہو ؛ لیکن اگرایسا علم ہو ، جیسا کہ ہر زمانے کی واقعیت کا تقاضا ہے، تو یہ استدلال مکمل نہیں ہوگا۔
۶ ۔ مؤثر ہونے کا احتمال ہونا ضروری ہے کیونکہ اگر مؤثر ہونے کا احتمال نہ ہو اس کے امر ونہی ، فضول شمار ہوتے ہیں۔
کیا مؤثر نہ ہونے کا گمان نہ ہونا شرط ہے ؟ ہر گز نہیں! کیونکہ خطابات مطلق ہیں اور فضول ہونا بھی لازم نہیں آتا۔
نہی کے تمام مراتب میں مؤثر ہونے کا احتمال ہونا شرط نہیں؛ بلکہ صرف آخری دو مراتب میں شرط ہے۔ کیونکہ پہلا مرتبہ دل سے نفرت کرنا ہے جو ایمان کا لازمہ ہے اور اس میں یہ شرط بے معنی ہوتی ہے؛ بلکہ یہ مرتبہ امر و نہی کے مصادیق میں سے ہی نہیں ہے۔
۷ ۔ تکرار شرط ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اگر تکرار نہ ہو تو وہ مقام ، امر ونہی کا موضوع نہیں بنتا؛ بلکہ بسا اوقات تکرار نہ ہونے کی صورت میں امر ونہی ، عنوان ثانوی کے تحت ، حرام ہوجاتے ہیں۔
کیا تکرار نہ کرنے کے بارے میں گمان ہو تو فریضہ ساقط ہوگا؟ کہا جاتا ہے: نہیں! کیونکہ خطابات مطلق ہیں اور ان کی تقیید کے سلسلے میں صرف متیقن پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
لیکن مناسب یہ ہے کہ جب تکرار نہ کرنے کا احتمال ہو تو فریضہ ساقط ہوجاتا ہے؛ کیونکہ تکرار کرنا، موضوع کی قید ہے ۔ جب تکرار منکشف نہ ہوجائے تو موضوع منکشف نہیں ہوگا ۔نتیجتاً یہاں اطلاق سے تمسک کرنا ، شبہہ مصداقیہ میں اطلاق سے تمسک کرنا ہے جو جائز نہیں ہے۔ پس یہاں پر اصالہ برائت کی طرف رجوع کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔
۸ ۔ منجز ہونا اس لئے شرط ہے کہ منجز نہ ہونے کی صورت میں ( مثلا مکلف ، موضوع یا حکم میں اجتہاد کرنے یا تقلید کرنے کی وجہ سے اشتباہ اور غلطی کا شکار ہو جائے تو) وہ معذور ہے اس کے فعل پر منکر صادق نہیں آتا تاکہ اسے منع کرنا ضروری ہو جائے۔ البتہ اگر وہ اپنی غلطی کی تکرار کرے اور یہ مورد بھی شارع کے نزدیک انتہائی اہم موارد میں سے ہو تو ضرور اسے متنبہ کرنا چاہئے۔ اسی طرح فرض کیجئے اس طرح کی غلطیاں ،دوسروں کے غلطی کرنے اور معصیت کرنے میں دوسروں کی حوصلہ افزائی کا سبب بن جائیں تو امر و نہی کے عنوان سے نہیں؛ بلکہ دوسروں سے گناہ سرزد ہونے سے بچانے کے لئے تنبیہ کرنا واجب ہے۔
۹ ۔ ضرر نہ ہونے کی شرط قاعدہ نفی ضرر کی وجہ سے لگائی جاتی ہے جو زراہ کی روایت صحیحہ
اور دوسری بعض روایات میں صراحتاً موجود ہے ۔ ان روایتوں کی مشہور تفسیر یہ ہے کہ ہر وہ حکم منتفی ہے جس سے ضرر لازم آئے ۔
اس قاعدے سے ایک مورد مستثنی ہے اور وہ یہ کہ جب موضوع اتنا اہم اور نازک ہو اور وہاں پر ضرر لازم آنے کے باوجود بھی امر و نہی کرنا ضروری ہو۔ اس صورت میں جب مکلف کو یہ علم ہوجائے کہ ضرر کے باوجود بھی امر ونہی کے ملاک باقی رہتے ہیں تو امر و نہی کرنا لازم ہے۔
ضرر منکشف ہونے کے لئے علم ہونا ضروری نہیں؛ بلکہ خوف کاہونا کافی ہے؛ کیونکہ اس طرح کے امور میں عقلائی روش یہی ہے اور جب اس روش سے شارع نے منع نہیں کیا ہے تو اسی سے شارع کی رضامندی بھی منکشف ہوجاتی ہے۔
۱۰ ۔ امر ونہی کے تین مراتب ہونے پر سنت شریفہ سے دلالت کرنے والی دلیلیں ضعیف ہیں اور اسی طرح قرآن مجید میں بھی اس کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے؛ لیکن ہم اس لحاظ سے مستغنی ہیں کیونکہ امر و نہی کا پہلا مرتبہ ایمان کا لازمہ ہے جو اس سے جد ا نہیں ہوتا بشرطیکہ اس مرتبے کی تفسیر نفرت قلبی ہو نہ کہ نفرت کا اظہار اور اعتراض۔ ورنہ دوسرے مراتب کی طرح یہ مرتبہ بھی امر ونہی کے مصادیق میں شمار ہوگا۔نیز اگر ہم ان کا ایک چوتھا مرتبہ بھی تصور کریں تو امر و نہی کی دلیلوں کے اطلاق سے تمسک کرتے ہوئے اس کے وجوب کا حکم لگائیں گے۔ اس کے لئے کسی خاص دلیل کی ضرورت نہیں۔
۱۱ ۔ پہلا مرتبہ ممکن نہ ہو تو دوسرے مرتبے کی طرف فریضے کے منتقل ہونے پر روایات میں سے کوئی معتبر دلیل تو نہیں ہے ؛ لیکن مندرجہ ذیل دو استدلالوں سے اسے ثابت کیا جا سکتا ہے:
پہلا استدلال: باب امر ونہی کی نصوص کا مطالعہ کرنے والا سمجھ لیتا ہے کہ اصل مقصد معروف کا قیام اور منکر کا قلع قمع کرنا ہے ۔ پس اگر یہ مقصد ، آسان مرحلے میں پورا ہو جائے تو سخت مرحلے کی طرف منتقل ہونا منطقی نہیں ہے اور عقل اس کی اجازت بھی نہیں دیتی۔
دوسرا استدلال: فرمان الٰہی کے اس قانون سے تمسک کرناکہ:(
ادْعُ إِلىَ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالحِْكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الحَْسَنَةِ وَ جَادِلْهُم بِالَّتىِ هِىَ أَحْسَن
)
“حکمت اور اچیم نصیحت کے ساتھ اپنے پروردگار کی راہ کی طرف دعوت دیں اور ان سے بہتر انداز میں بحث کریں”
کیونکہ حکمت کے ساتھ کی جانے والی دعوت ، تدریجاً اور آہستہ آہستہ ہی انجام پاتی ہے۔
یہاں سے واضح ہوتا ہے کہ امر بالمعروف اور نہی از منکر کے خطابات کے اطلاق سے تمسک کرنا ممکن نہیں ہے۔ اسی طرح جب وہ مراتب متفاوت ہوں تو ہر مرتبے میں تدریج لازم ہے۔
۱۲ ۔ زخم لگا سکنے اور قتل کر سکنے کے بارے میں نزاع ہے اور یہی صورت ، مارنے کے بارے میں بھی ہونی چاہئے۔ اس مقام پر دو استدلال ہیں:
پہلا استدلال: قول اور زبان سے انجام پانے والے امر و نہی پر ہی امر اور نہی صادق آتی ہے اور امر و نہی کے دائرے میں مارنا، زخم لگانا اور قتل کرنا شامل نہیں ہے؛ لہذا یہ امور دلیل حرمت کے ماتحت رہیں گے۔
اس بات پر اشکال ہے کیونکہ نصوص سے ، معروف کا قیام اور منکر کا قلع قمع ، مطلوب و مقصود ہونا سمجھ میں آتا ہےخواہ کسی بھی ذریعے سے ممکن ہو ، صرف الفاظ ہوں یہ ضروری نہیں۔
دوسرا استدلال: امر و نہی کے دائرے میں مذکورہ امور کے داخل ہونے کو مان لینے کی صورت میں یہ عمل ان دلیلوں سے معارض ہوگا جو مؤمن کو اذیت دینا، اسے مارنا، زخم لگانا اور قتل کرنا حرام ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ جب یہ آپس میں معارض ہوں تو حرام ہونے کے حکم کا استصحاب کیا جائے گا؛ کیونکہ استصحاب ، اصالہ برائت پر حاکم ہے۔
اس استدلال پر بھی اشکال ہے کہ امر بالمعروف اور نہی از منکر کی دلیل میں عنوان ثانوی پیش نظر ہے؛ جبکہ مؤمن کو اذیت دینا حرام ہونے کی دلیل میں عنوان اولی کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ جب اس قسم کی دلیلیں آپس میں متعارض ہوں تو اول الذکر کو مقدم کرنے میں کسی کو اختلاف نہیں ہے۔
اس مقام پر یہ کہنا مناسب ہے کہ قتل جائز نہیں؛ کیونکہ نہی کی دلیلوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آدمی کو منکر سے منع کرنا ہے؛ لہذا ضروری ہے کہ آدمی باقی رہے تاکہ اسے منع کیا جا سکے؛لیکن مارنے اور زخم لگانے کا وجوب ثابت کرنے کے لئے خطابات کے اطلاق سے تمسک کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔
البتہ احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ زخم لگانے کے لحاظ سے حاکم شرع سے اجازت لینا چاہئے ؛ کیونکہ اگر ہرایک کو اس کا اختیار دیا جائے تو نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔
۱۳ ۔ اپنے اہل و عیال کو امر ونہی کرنا واجب مؤکدہونا،مندرجہ ذیل آیت مجیدہ کی وجہ سے ہے جس کے مطابق خاندان کے سربراہ پر اپنے اہل و عیال کی نسبت ایک خاص ذمہ داری عائد ہوتی ہے:
(
يَأَيهَُّا الَّذِينَ ءَامَنُواْ قُواْ أَنفُسَكمُْ وَ أَهْلِيكمُْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَ الحِْجَارَة
)
“اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے”
یہ ذمہ داری معروف کو انجام دینے اور منکر کو ترک کرنے کے لحاظ سے بڑھ جاتی ہے اور اس کی مسئولیت میں اضافہ کرتی ہے مثلا شاگردوں کے لحاظ سے استاد کی مسئولیت بڑھ جاتی ہے ، رعایا کی نسبت سےبادشاہ کی مسئولیت زیادہ ہوتی ہے اور مؤمن معاشرے کی نسبت سے علماء کی ذمہ داری میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ درحقیقت ان کا ،لباس معروف پہننا اور منکر کی پوشاک کو اتار پھینکنا ہی امر بالمعروف اور نہی از منکر کا ایک اسلوب وضع کرتا ہے۔
صاحب جواہر ؒ فرماتے ہیں: “امر بالمعروف اور نہی از منکر کرنے والے بڑے بڑے افراد خصوصا علمائے دین کے لئے ضروری ہے کہ وہ واجبات اور مستحبات جیسے معروف کی عبائیں زیب تن کریں اورحرام اور مکروہ جیسے منکرات کا لباس اتار پھینکیں، اپنے نفس کو اخلاق حسنہ سے آراستہ کریں اور اخلاق سیئہ سے پیراستہ کریں کہ ان کا ایسا کرنا اس بات کا مکمل سبب بنے گا کہ لوگ معروف کو بجا لائیں اور منکرات سے اجتناب کریں۔”
بلکہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ مقام و منزلت کی بلندی ہی ، دگنی عقوبت اور سزاؤں کی بڑھوتری کا باعث بنتی ہے ۔ جیسا کہ آیت مجیدہ سے واضح ہوتا ہے:
(
يَانِسَاءَ النَّبىِِّ مَن يَأْتِ مِنكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ يُضَاعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَينِْ وَ كاَنَ ذَالِكَ عَلىَ اللَّهِ يَسِيرًا وَ مَن يَقْنُتْ مِنكُنَّ لِلَّهِ وَ رَسُولِهِ وَ تَعْمَلْ صَلِحًا نُّؤْتِهَا أَجْرَهَا مَرَّتَينِْ وَ أَعْتَدْنَا لهََا رِزْقًا كَرِيمًا
)
“اے نبی کی بیویو! تم میں سے جو کوئی صریح بے حیائی کی مرتکب ہو جائے اسے دگنا عذاب دیا جائے گا اور یہ بات اللہ کے لیے آسان ہے۔اور تم میں سے جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گی اورنیک عمل انجام دے گی اسے ہم اس کا دگنا ثواب دیں گے اور ہم نے اس کے لیے عزت کا رزق مہیا کر رکھا ہے”
___________________