دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی ( الصلاة والامر بالمعروف والنہي عن المنكر)

دروس تمھیدیہ فی  الفقہ الاستدلالی ( الصلاة والامر بالمعروف والنہي عن المنكر)0%

دروس تمھیدیہ فی  الفقہ الاستدلالی ( الصلاة والامر بالمعروف والنہي عن المنكر) مؤلف:
: محمد الیاس بلتستانی
زمرہ جات: فقہ استدلالی

دروس تمھیدیہ فی  الفقہ الاستدلالی ( الصلاة والامر بالمعروف والنہي عن المنكر)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ شیخ باقر الایروانی
: محمد الیاس بلتستانی
زمرہ جات: مشاہدے: 8672
ڈاؤنلوڈ: 4859

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 11 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 8672 / ڈاؤنلوڈ: 4859
سائز سائز سائز
دروس تمھیدیہ فی  الفقہ الاستدلالی ( الصلاة والامر بالمعروف والنہي عن المنكر)

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی ( الصلاة والامر بالمعروف والنہي عن المنكر)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

کتاب امر بالمعروف و نہی از منکر

امربالمعروف اور نہی از منکر کے احکام:

امر بالمعروف اور نہی از منکر دو ایسے واجب کفائی ہیں، جن کی بڑی تاکید ہوئی ہے، بشرطیکہ معروف ، واجب کی حد کو پہنچ جائے۔ یہ دونوں کسی خاص صنف سے مختص نہیں ہیں۔

امر بالمعروف اور نہی از منکر کے وجوب کی شرائط:

امر بالمعروف اور نہی از منکرواجب ہونے کے لئے مندرجہ ذیل شرائط کا ہونا ضروری ہے:

۱ ۔ امر بالمعروف اور نہی از منکرکا علم رکھتا ہو،

۲ ۔ مؤثر ہونے کا احتمال ہو،

۳ ۔ مخالفت کرنے والا معصیت کا تکرار کرے،

۴ ۔ مخالفت کرنے والے کے حق میں امر و نہی منجز (معلوم)ہو،

۵ ۔ امر بالمعروف کرنے والے یا کسی اور کے لئے ضرر اور نقصان کا سبب نہ ہو۔

امر بالمعروف اور نہی از منکرکے مراتب:

امر بالمعروف اور نہی از منکرکے تین مرتبے ہیں:

۱ ۔ دل سے نفرت کرنا،

۲ ۔ زبان سے ،

۳ ۔ ہاتھ سے ۔

سابقہ مراتب کے ہوتے ہوئے، یہ فریضہ بعد والے مراتب کی طرف منتقل نہیں ہوگا۔

امر بالمعروف اور نہی از منکرکرتے ہوئے زخم لگا سکنے اور قتل کر سکنے میں اختلاف ہے۔

اپنے اہل و عیال کو امر بالمعروف اور نہی از منکرکرنامکلف پر واجب مؤکد ہے۔

دلائل:

۱ ۔ امر بالمعروف اور نہی از منکرکی اصل وجوب متفق علیہ احکام میں سے ہے؛ بلکہ یہ ضروریات دین کی حد تک پہنچا ہوا حکم ہے۔ اس حکم کو مندرجہ ذیل دلیلوں سے اخذ کیا جا سکتا ہے:

قرآن مجید کی آیات:

( وَ لْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلىَ الخَْيرِْ وَ يَأْمُرُونَ بِالمَْعْرُوفِ وَ يَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَ أُوْلَئكَ هُمُ الْمُفْلِحُون ) “اور تم میں ایک جماعت ایسی ضرور ہونی چاہے جو نیکی کی دعوت اور بھلائی کا حکم دے اور برائوفں سے روکے اور یی لوگ نجات پانے والے ہںی۔”(۱۴۲)

( يَابُنىَ‏َّ أَقِمِ الصَّلَوةَ وَ أْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَ انْهَ عَنِ الْمُنكَر ) “اے بٹاے! نماز قائم کرو اور نیکی کا حکم دو اور بدی سے منع کرو”(۱۴۳)

( خُذِ الْعَفْوَ وَ أْمُرْ بِالْعُرْفِ ) “در گزر سے کام لو اور نیک کاموں کا حکم دیں”(۱۴۴)

اس آیت کے ساتھ قاعدہ اسوہ کو پیش نظر رکھنے سے حکم ثابت ہوسکتا ہے۔ قاعدہ اسوہ درج ذیل آیت سے اخذ کیا جاتاہے:

( لَّقَدْ كاَنَ لَكُمْ فىِ رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَة ) “بتحقیق تمہارے لےا اللہ کے رسول مں بہترین نمونہ ہے۔”(۱۴۵)

محمد بن عرفہ کی روایت میں آیا ہے:

سَمِعْتُ أَبَا الْحَسَنِ الرِّضَا علیه السلام يَقُولُ:‏ لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَ لَتَنْهُنَّ عَنِ الْمُنْكَرِ أَوْ لَيُسْتَعْمَلَنَّ عَلَيْكُمْ شِرَارُكُمْ فَيَدْعُو خِيَارُكُمْ فَلَا يُسْتَجَابُ لَهُمْ .” “میں نے حضرت امام رضا علیہ السلام کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ تم لوگ ضرور امر بالمعروف اور نہی از منکر کیا کرو ! ورنہ تمہارے شریروں کو تم پر مسلط کیا جائے گا پھر تمہارے نیک لوگ دعا مانگیں گے تو ان کی دعائیں مستجاب نہیں ہوں گی۔”(۱۴۶)

انہی کی ایک دوسری روایت کہتی ہے :

“إِذَا أُمَّتِي تَوَاكَلَتِ‏ الْأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ فَلْيَأْذَنُوا بِوِقَاعٍ مِنَ اللَّهِ.” “جب میری امت امر بالمعروف اور نہی از منکر میں ٹال مٹول سے کام لے گی تو اس عذاب الٰہی کو نازل ہونے کی اجازت دی ہے۔”(۱۴۷)

بلکہ کہا گیا ہے کہ شریعت سے قطع نظر، عقل کے ذریعے ، امر بالمعروف و نہی از منکر کا وجوب ثابت ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ اشکال کیا جا سکتا ہے کہ حکم عقل کے ذریعے امر بالمعروف و نہی از منکرکا لازمی ہونا ثابت نہیں ہوتا؛ بلکہ ان کا راجح ہونا ثابت ہوتا ہے۔

۲ ۔ امر بالمعروف و نہی از منکرکے واجب کفائی ہونے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔

بعض نے اصل اور تمام مکلفین سے مخاطب ہونے کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا ہے کہ امر بالمعروف و نہی از منکر ،واجب عینی ہے۔لیکن کچھ لوگوں کے بجالانے سے غرض اور مقصد کے پورا ہونے سے معلوم ہوتا ہے کہ واجب عینی نہیں ہے ؛ لہذا اصل سے بھی تمسک کرنے کی گنجائش نہیں رہتی۔

اسی طرح تمام مکلفین سے مخاطب ہونے سے بھی یہ نتیجہ نہیں لیا جا سکتا ؛ کیونکہ واجب کفائی میں بھی خطاب عمومی ہوتا ہے۔ اس معنی میں کہ ابتداء میں حکم ، سب کے لئے ہوتا ہے؛ لیکن بعض لوگوں کے انجام دینے سے دوسروں سے ساقط ہوتا ہے۔

پہلی آیت میں“من”کا تبعیضی ہونا واجب کفائی ہونے کی تاکید ہے۔

ان دو احتمالوں میں سے کسی ایک کا یقین ہو جائے تو اسی کا انتخاب کیا جائے گا ورنہ اصل عملی کی نوبت آئے گی جس کا تقاضا کفائی ہونا ہے؛ کیونکہ بعض کے بجالانے کے بعد حکم کے متوجہ ہونے میں شک ہے۔

اس مقام پر یہ نہیں کہا جاتا کہ ابتداء میں خطاب تمام مکلفین سے تھا ۔ پس بعض کے انجام دینے کے بعد شک کا مطلب یہ ہے کہ حکم ساقط ہوا ہے یا نہیں ؛ لہذا یہاں قاعدہ اشتغال یا استصحاب جاری ہوگا۔

بلکہ یہ کہا جاتا ہے کہ واجب کفائی میں خطاب ہر فرد سے ہوتا ہے بشرطیکہ دوسرے اسے انجام نہ دیں۔

ان دونوں احتمالوں کا فائدہ اس وقت ظاہر ہوگا جب کوئی اس کو واجب کفائی کے طور پر انجام دے پھر مقصد پورا نہ ہو تو واجب کفائی ماننے کی صورت میں دوسروں سے وجوب ساقط ہوجائے گا؛ لیکن واجب عینی ماننے کی صورت میں دوسروں پر وجوب باقی رہے گا۔

فائدے کے بارے میں یہ بات مکمل ہو تو ٹھیک ورنہ ان احتمالوں کا اس کے علاوہ کوئی فائدہ تصور کرنا مشکل ہے۔

۳ ۔ معروف کو حد وجوب تک پہنچنے سے مقید کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اگر واجب نہ ہو تو یہ ایک مستحب عمل بن جائے گا اور مستحب کا امر بھی مستحب ہی ہوتا ہے۔ منکر میں اس قید کے نہ ہونے کی دلیل یہ ہے منکر میں یہ قید متصور ہی نہیں ہے۔

۴ ۔امر بالمعروف اور نہی از منکر کے کسی صنف مثلا سیاسی لوگ یا دینی علماء وغیرہ سے مختص نہ ہونا دلیلوں کے اطلاق اور عدم مقید سے ثابت ہوتا ہے۔

ابتداء میں ذکر کی گئی آیت کے مقید ہونے پر استدلال کرتے ہوئے مندرجہ ذیل آیت پیش کی جاتی ہے:

( الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فىِ الْأَرْضِ أَقَامُواْ الصَّلَوةَ وَ ءَاتَوُاْ الزَّكَوةَ وَ أَمَرُواْ بِالْمَعْرُوفِ وَ نَهَوْاْ عَنِ الْمُنكَر ) “یہ وہ لوگ ہںو، اگر ہم انہںة زمنَ مں اقتدار دیں تو وہ نماز قائم کریں گے اور زکوۃ ادا کریں گے اور نی ا کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے۔”(۱۴۸)

اس استدلال کی ایک ردّ یہ ہے کہ گزشتہ آیت میں تمام لوگوں کو ایک امت بننے کا حکم دیا گیا ہے ؛ لہذا وہ آیت اس استدلال کے برعکس دلالت کرتی ہے۔

دوسری ردّ یہ ہے کہ زمین کے اقتدار ملنے والوں کی اس طرح توصیف کرنا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ یہ فریضہ ان ہی کےساتھ مختص ہو۔

۵ ۔ امر و نہی کے وجوب کے لئے علم ضروری ہونے کی دلیل یہ ہے کہ امر بالمعروف اور نہی از منکر کا فریضہ اس وقت انجام دے پائے گا جب اسے معروف اور منکر کا علم ہو۔

اب یہ علم کی شرط ، وجوب کے لئے شرط ہے یا واجب کے لئے؟ خطابات کے اطلاق کا تقاضا ، واجب کے لئے ہونا ہے۔

بنا بر ایں جس شخص کو یہ معلوم ہو کہ اس کے معاشرے میں کچھ لوگ اطاعت اور معصیت میں فرق نہیں کرپاتے اور معصیت کا ارتکاب کرتے ہیں جبکہ اطاعت کو ترک کرتے ہیں تو اس شخص پر معروف اور منکر کا علم حاصل کرنا واجب ہو جاتا ہے ۔ البتہ اگر لوگوں کے ارتکاب معصیت اور ترک اطاعت کا علم نہ ہو ؛بلکہ شک ہو تو تعلیم حاصل کرنا واجب نہیں؛ کیونکہ خطاب کا موضوع واضح نہیں ہوا ہے اور اصل برائت کا تقاضا بھی یہی ہے ۔ نتیجتاً امر و نہی واجب نہیں ہوں گے۔

ہاں اگر دین کی سمجھ بوجھ واجب ہونے کی وجہ سے معروف اور منکر کی معرفت حاصل کرنا واجب ہوجاتا ہے تو یہ الگ بات ہے۔

ادھر بعض بزرگ علماء کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ انہوں نے مندرجہ ذیل روایت سے تمسک کرتے ہوئے اس شرط کو وجوب کی شرط مانی ہے۔ یہ روایت حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مسعدہ بن صدقہ نے نقل کی ہے:

سَمِعْتُهُ يَقُولُ‏ وَ سُئِلَ عَنِ الْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّهْيِ عَنِ الْمُنْكَرِ أَ وَاجِبٌ هُوَ عَلَى الْأُمَّةِ جَمِيعاً؟ فَقَالَ: لَا. فَقِيلَ لَهُ:وَ لِمَ؟ قَالَ إِنَّمَا هُوَ عَلَى الْقَوِيِّ الْمُطَاعِ الْعَالِمِ بِالْمَعْرُوفِ مِنَ الْمُنْكَرِ لَا عَلَى الضَّعِيفِ الَّذِي لَا يَهْتَدِي سَبِيلًا إِلَى أَيٍّ مِنْ أَيٍّ يَقُولُ مِنَ الْحَقِّ إِلَى الْبَاطِلِ (۱۴۹) وَ الدَّلِيلُ عَلَى ذَلِكَ كِتَابُ اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ قَوْلُهُ ( وَ لْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَ يَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ ) (۱۵۰) فَهَذَا خَاصٌّ غَيْرُ عَام ” “میں نے ان کو یہ کہتے ہوئے سنا ، جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ امر بالمعروف اور نہی از منکر پوری امت کا فریضہ ہے؟ تو فرمایا: نہیں ! سوال کیا گیا : کیوں؟ فرمایا: یہ صرف قدرتمند، مطاع( جسکی اطاعت کی جائے)اور معروف و منکر کے علم رکھنے والے پر واجب ہے ۔ اس بیچارے پر واجب نہیں جسے خود راستے کا علم نہیں کہ کہاں سے کہاں جانا ہے ، حق سے باطل کی طرف کہتا ہے۔اس کی دلیل ، اللہ تعالیٰ کی کتاب میں موجود یہ فرمان ہے:“اور تم مںح ایک جماعت اییی ضرور ہونی چاہے جو نی کی دعوت اور بھلائی کا حکم دے اور برائواں سے روکے اور ییی لوگ نجات پانے والے ہں ۔” تو یہ خاص ہے عام نہیں۔۔۔ ”(۱۵۱)

مسعدہ کی وثاقت ثابت نہیں ہے ؛لہذا اس روایت کی سند ضعیف ہے۔

بسا اوقات اصل تکلیف کے لئے علم ، شرط ہونے پر اس طرح استدلال کیا جاتا ہے کہ منکر سے نہی کرنا واجب ہے اور منکر ، حکم کے لئے موضوع کی حیثیت رکھتا ہے ۔ نتیجتاً جہاں کہیں خارج میں منکر وجود میں آئے تو اس سے منع کرنا واجب ہے۔ جب مکلف کو منکر کا علم نہ ہو تو حکم کا موضوع وجود میں نہیں آتا ؛ لہذا تکلیف کی فعلیت کشف نہیں ہوگی تاکہ اس پر تعلیم حاصل کرنا واجب ہوجائے۔

یہ استدلال اچھا ہے بشرطیکہ مکلف کو اپنے معاشرے میں فی الحال یا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بعض منکرات کے وجود میں آنے کا اجمالاً علم نہ ہو ؛ لیکن اگرایسا علم ہو ، جیسا کہ ہر زمانے کی واقعیت کا تقاضا ہے، تو یہ استدلال مکمل نہیں ہوگا۔

۶ ۔ مؤثر ہونے کا احتمال ہونا ضروری ہے کیونکہ اگر مؤثر ہونے کا احتمال نہ ہو اس کے امر ونہی ، فضول شمار ہوتے ہیں۔

کیا مؤثر نہ ہونے کا گمان نہ ہونا شرط ہے ؟ ہر گز نہیں! کیونکہ خطابات مطلق ہیں اور فضول ہونا بھی لازم نہیں آتا۔

نہی کے تمام مراتب میں مؤثر ہونے کا احتمال ہونا شرط نہیں؛ بلکہ صرف آخری دو مراتب میں شرط ہے۔ کیونکہ پہلا مرتبہ دل سے نفرت کرنا ہے جو ایمان کا لازمہ ہے اور اس میں یہ شرط بے معنی ہوتی ہے؛ بلکہ یہ مرتبہ امر و نہی کے مصادیق میں سے ہی نہیں ہے۔

۷ ۔ تکرار شرط ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اگر تکرار نہ ہو تو وہ مقام ، امر ونہی کا موضوع نہیں بنتا؛ بلکہ بسا اوقات تکرار نہ ہونے کی صورت میں امر ونہی ، عنوان ثانوی کے تحت ، حرام ہوجاتے ہیں۔

کیا تکرار نہ کرنے کے بارے میں گمان ہو تو فریضہ ساقط ہوگا؟ کہا جاتا ہے: نہیں! کیونکہ خطابات مطلق ہیں اور ان کی تقیید کے سلسلے میں صرف متیقن پر اکتفا کیا جاتا ہے۔

لیکن مناسب یہ ہے کہ جب تکرار نہ کرنے کا احتمال ہو تو فریضہ ساقط ہوجاتا ہے؛ کیونکہ تکرار کرنا، موضوع کی قید ہے ۔ جب تکرار منکشف نہ ہوجائے تو موضوع منکشف نہیں ہوگا ۔نتیجتاً یہاں اطلاق سے تمسک کرنا ، شبہہ مصداقیہ میں اطلاق سے تمسک کرنا ہے جو جائز نہیں ہے۔ پس یہاں پر اصالہ برائت کی طرف رجوع کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔

۸ ۔ منجز ہونا اس لئے شرط ہے کہ منجز نہ ہونے کی صورت میں ( مثلا مکلف ، موضوع یا حکم میں اجتہاد کرنے یا تقلید کرنے کی وجہ سے اشتباہ اور غلطی کا شکار ہو جائے تو) وہ معذور ہے اس کے فعل پر منکر صادق نہیں آتا تاکہ اسے منع کرنا ضروری ہو جائے۔ البتہ اگر وہ اپنی غلطی کی تکرار کرے اور یہ مورد بھی شارع کے نزدیک انتہائی اہم موارد میں سے ہو تو ضرور اسے متنبہ کرنا چاہئے۔ اسی طرح فرض کیجئے اس طرح کی غلطیاں ،دوسروں کے غلطی کرنے اور معصیت کرنے میں دوسروں کی حوصلہ افزائی کا سبب بن جائیں تو امر و نہی کے عنوان سے نہیں؛ بلکہ دوسروں سے گناہ سرزد ہونے سے بچانے کے لئے تنبیہ کرنا واجب ہے۔

۹ ۔ ضرر نہ ہونے کی شرط قاعدہ نفی ضرر کی وجہ سے لگائی جاتی ہے جو زراہ کی روایت صحیحہ(۱۵۲) اور دوسری بعض روایات میں صراحتاً موجود ہے ۔ ان روایتوں کی مشہور تفسیر یہ ہے کہ ہر وہ حکم منتفی ہے جس سے ضرر لازم آئے ۔

اس قاعدے سے ایک مورد مستثنی ہے اور وہ یہ کہ جب موضوع اتنا اہم اور نازک ہو اور وہاں پر ضرر لازم آنے کے باوجود بھی امر و نہی کرنا ضروری ہو۔ اس صورت میں جب مکلف کو یہ علم ہوجائے کہ ضرر کے باوجود بھی امر ونہی کے ملاک باقی رہتے ہیں تو امر و نہی کرنا لازم ہے۔

ضرر منکشف ہونے کے لئے علم ہونا ضروری نہیں؛ بلکہ خوف کاہونا کافی ہے؛ کیونکہ اس طرح کے امور میں عقلائی روش یہی ہے اور جب اس روش سے شارع نے منع نہیں کیا ہے تو اسی سے شارع کی رضامندی بھی منکشف ہوجاتی ہے۔

۱۰ ۔ امر ونہی کے تین مراتب ہونے پر سنت شریفہ سے دلالت کرنے والی دلیلیں ضعیف ہیں اور اسی طرح قرآن مجید میں بھی اس کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے؛ لیکن ہم اس لحاظ سے مستغنی ہیں کیونکہ امر و نہی کا پہلا مرتبہ ایمان کا لازمہ ہے جو اس سے جد ا نہیں ہوتا بشرطیکہ اس مرتبے کی تفسیر نفرت قلبی ہو نہ کہ نفرت کا اظہار اور اعتراض۔ ورنہ دوسرے مراتب کی طرح یہ مرتبہ بھی امر ونہی کے مصادیق میں شمار ہوگا۔نیز اگر ہم ان کا ایک چوتھا مرتبہ بھی تصور کریں تو امر و نہی کی دلیلوں کے اطلاق سے تمسک کرتے ہوئے اس کے وجوب کا حکم لگائیں گے۔ اس کے لئے کسی خاص دلیل کی ضرورت نہیں۔

۱۱ ۔ پہلا مرتبہ ممکن نہ ہو تو دوسرے مرتبے کی طرف فریضے کے منتقل ہونے پر روایات میں سے کوئی معتبر دلیل تو نہیں ہے ؛ لیکن مندرجہ ذیل دو استدلالوں سے اسے ثابت کیا جا سکتا ہے:

پہلا استدلال: باب امر ونہی کی نصوص کا مطالعہ کرنے والا سمجھ لیتا ہے کہ اصل مقصد معروف کا قیام اور منکر کا قلع قمع کرنا ہے ۔ پس اگر یہ مقصد ، آسان مرحلے میں پورا ہو جائے تو سخت مرحلے کی طرف منتقل ہونا منطقی نہیں ہے اور عقل اس کی اجازت بھی نہیں دیتی۔

دوسرا استدلال: فرمان الٰہی کے اس قانون سے تمسک کرناکہ:( ادْعُ إِلىَ‏ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالحِْكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الحَْسَنَةِ وَ جَادِلْهُم بِالَّتىِ هِىَ أَحْسَن ) “حکمت اور اچیم نصیحت کے ساتھ اپنے پروردگار کی راہ کی طرف دعوت دیں اور ان سے بہتر انداز میں بحث کریں”(۱۵۳) کیونکہ حکمت کے ساتھ کی جانے والی دعوت ، تدریجاً اور آہستہ آہستہ ہی انجام پاتی ہے۔

یہاں سے واضح ہوتا ہے کہ امر بالمعروف اور نہی از منکر کے خطابات کے اطلاق سے تمسک کرنا ممکن نہیں ہے۔ اسی طرح جب وہ مراتب متفاوت ہوں تو ہر مرتبے میں تدریج لازم ہے۔

۱۲ ۔ زخم لگا سکنے اور قتل کر سکنے کے بارے میں نزاع ہے اور یہی صورت ، مارنے کے بارے میں بھی ہونی چاہئے۔ اس مقام پر دو استدلال ہیں:

پہلا استدلال: قول اور زبان سے انجام پانے والے امر و نہی پر ہی امر اور نہی صادق آتی ہے اور امر و نہی کے دائرے میں مارنا، زخم لگانا اور قتل کرنا شامل نہیں ہے؛ لہذا یہ امور دلیل حرمت کے ماتحت رہیں گے۔

اس بات پر اشکال ہے کیونکہ نصوص سے ، معروف کا قیام اور منکر کا قلع قمع ، مطلوب و مقصود ہونا سمجھ میں آتا ہےخواہ کسی بھی ذریعے سے ممکن ہو ، صرف الفاظ ہوں یہ ضروری نہیں۔

دوسرا استدلال: امر و نہی کے دائرے میں مذکورہ امور کے داخل ہونے کو مان لینے کی صورت میں یہ عمل ان دلیلوں سے معارض ہوگا جو مؤمن کو اذیت دینا، اسے مارنا، زخم لگانا اور قتل کرنا حرام ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ جب یہ آپس میں معارض ہوں تو حرام ہونے کے حکم کا استصحاب کیا جائے گا؛ کیونکہ استصحاب ، اصالہ برائت پر حاکم ہے۔

اس استدلال پر بھی اشکال ہے کہ امر بالمعروف اور نہی از منکر کی دلیل میں عنوان ثانوی پیش نظر ہے؛ جبکہ مؤمن کو اذیت دینا حرام ہونے کی دلیل میں عنوان اولی کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ جب اس قسم کی دلیلیں آپس میں متعارض ہوں تو اول الذکر کو مقدم کرنے میں کسی کو اختلاف نہیں ہے۔

اس مقام پر یہ کہنا مناسب ہے کہ قتل جائز نہیں؛ کیونکہ نہی کی دلیلوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آدمی کو منکر سے منع کرنا ہے؛ لہذا ضروری ہے کہ آدمی باقی رہے تاکہ اسے منع کیا جا سکے؛لیکن مارنے اور زخم لگانے کا وجوب ثابت کرنے کے لئے خطابات کے اطلاق سے تمسک کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔

البتہ احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ زخم لگانے کے لحاظ سے حاکم شرع سے اجازت لینا چاہئے ؛ کیونکہ اگر ہرایک کو اس کا اختیار دیا جائے تو نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔

۱۳ ۔ اپنے اہل و عیال کو امر ونہی کرنا واجب مؤکدہونا،مندرجہ ذیل آیت مجیدہ کی وجہ سے ہے جس کے مطابق خاندان کے سربراہ پر اپنے اہل و عیال کی نسبت ایک خاص ذمہ داری عائد ہوتی ہے:

( يَأَيهَُّا الَّذِينَ ءَامَنُواْ قُواْ أَنفُسَكمُ‏ْ وَ أَهْلِيكمُ‏ْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَ الحِْجَارَة ) “اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے”(۱۵۴)

یہ ذمہ داری معروف کو انجام دینے اور منکر کو ترک کرنے کے لحاظ سے بڑھ جاتی ہے اور اس کی مسئولیت میں اضافہ کرتی ہے مثلا شاگردوں کے لحاظ سے استاد کی مسئولیت بڑھ جاتی ہے ، رعایا کی نسبت سےبادشاہ کی مسئولیت زیادہ ہوتی ہے اور مؤمن معاشرے کی نسبت سے علماء کی ذمہ داری میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ درحقیقت ان کا ،لباس معروف پہننا اور منکر کی پوشاک کو اتار پھینکنا ہی امر بالمعروف اور نہی از منکر کا ایک اسلوب وضع کرتا ہے۔

صاحب جواہر ؒ فرماتے ہیں: “امر بالمعروف اور نہی از منکر کرنے والے بڑے بڑے افراد خصوصا علمائے دین کے لئے ضروری ہے کہ وہ واجبات اور مستحبات جیسے معروف کی عبائیں زیب تن کریں اورحرام اور مکروہ جیسے منکرات کا لباس اتار پھینکیں، اپنے نفس کو اخلاق حسنہ سے آراستہ کریں اور اخلاق سیئہ سے پیراستہ کریں کہ ان کا ایسا کرنا اس بات کا مکمل سبب بنے گا کہ لوگ معروف کو بجا لائیں اور منکرات سے اجتناب کریں۔”(۱۵۵)

بلکہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ مقام و منزلت کی بلندی ہی ، دگنی عقوبت اور سزاؤں کی بڑھوتری کا باعث بنتی ہے ۔ جیسا کہ آیت مجیدہ سے واضح ہوتا ہے:

( يَانِسَاءَ النَّبىِ‏ِّ مَن يَأْتِ مِنكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ يُضَاعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَينْ‏ِ وَ كاَنَ ذَالِكَ عَلىَ اللَّهِ يَسِيرًا وَ مَن يَقْنُتْ مِنكُنَّ لِلَّهِ وَ رَسُولِهِ وَ تَعْمَلْ صَلِحًا نُّؤْتِهَا أَجْرَهَا مَرَّتَينْ‏ِ وَ أَعْتَدْنَا لهََا رِزْقًا كَرِيمًا ) “اے نبی کی بیویو! تم میں سے جو کوئی صریح بے حیائی کی مرتکب ہو جائے اسے دگنا عذاب دیا جائے گا اور یہ بات اللہ کے لیے آسان ہے۔اور تم میں سے جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گی اورنیک عمل انجام دے گی اسے ہم اس کا دگنا ثواب دیں گے اور ہم نے اس کے لیے عزت کا رزق مہیا کر رکھا ہے”(۱۵۶)

___________________

۱ ۔ملاحظہ ہوں: وسائل الشیعہ: ابواب اعداد فرائض ، باب ۱۳ ، وغیرہ

۲ ۔ملاحظہ ہوں:وسائل الشیعہ: نماز جمعہ، نماز عیداور نماز آیات وغیرہ کے ابواب

۳ ۔وسائل الشیعہ: ابواب اعداد فرائض، باب ۱۳

۴ ۔وسائل الشیعہ: ابواب صلاۃ مسافر، باب ۲۲، وغیرہ

۵ ۔الحدائق الناضرۃ: ۱۱/ ۲۶۵

۶ ۔نساء: ۱۰۱، ترجمہ : محسن علی نجفی

۷ ۔وسائل الشیعہ: ابواب صلاۃ الخوف و المطاردۃ، باب ۱، حدیث ۱

۸ ۔جواہر الکلام: ۷/ ۷۵

۹ ۔اسراء: ۷۸

۱۰ ۔وسائل الشیعہ: ابواب المواقیت، باب ۴، حدیث ۱

۱۱ ۔وسائل الشیعہ: ابواب المواقیت، باب ۸، حدیث ۳

۱۲ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب المواقیت، باب ۸، حدیث ۱۷

۱۳ ۔وسائل الشیعہ: ابواب المواقیت، باب ۹، حدیث ۱۳

۱۴ ۔الحدائق الناضرۃ: ۶/ ۸۹

۱۵ ۔وسائل الشیعہ: ابواب المواقیت، باب ۳، حدیث ۱۳

۱۶ ۔وسائل الشیعہ: ابواب المواقیت، باب ۴، حدیث ۷

۱۷ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب المواقیت، باب ۴، حدیث ۸

۱۸ ۔وسائل الشیعہ: ابواب المواقیت، باب۱۶، حدیث۱۶

۱۹ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب المواقیت، باب۱۶، حدیث۱

۲۰ ۔کتاب الصلاۃ ، تقریر بحث الشیخ النائینی للشیخ الآملی: ۱/ ۲۸

۲۱ ۔الفقہ علی المذاہب الاربعہ: ۱/ ۱۵۷؛ المغنی لابن قدامہ: ۱/ ۳۸۹؛ جو لوگ اسی مرجح کے قائل ہیں ان میں سے ایک شیخ بحرانی ہیں۔ ملاحظہ ہو: الحدائق الناضرۃ:۶/۱۶۹

۲۲ ۔اسراء: ۷۸

۲۳ ۔وسائل الشیعہ: ابواب اعداد الفرائض، باب ۲، حدیث ۱

۲۴ ۔وسائل الشیعہ: ابواب المواقیت، باب ۱۸، حدیث ۱۴

۲۵ ۔التنقیح: ۶/ ۱۶۴

۲۶ ۔وسائل الشیعہ: ابواب المواقیت، باب ۲۲، حدیث ۲

۲۷ ۔مدارک الاحکام: ۳/ ۵۹

۲۸ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب المواقیت، باب۱۷، حدیث ۷

۲۹ ۔وسائل الشیعہ: ابواب المواقیت، باب ۶۲، حدیث ۳

۳۰ ۔اسراء: ۷۸

۳۱ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب المواقیت، باب۲۶، حدیث ۶

۳۲ ۔وسائل الشیعہ: ابواب المواقیت، باب ۲۷، حدیث ۱

۳۳ وسائل الشیعہ: ابواب المواقیت، باب ۲۷، حدیث ۲

۳۴ ۔بقرہ : ۱۸۷

۳۵ ۔مصباح الفقیہ، کتاب الصلاۃ: ۲۵

۳۶ ۔وسائل الشیعہ: ابواب المواقیت، باب ۴۵، حدیث ۶

۳۷ ۔وسائل الشیعہ: ابواب کیفیۃ الحکم و الدعویٰ، باب ۲، حدیث ۱

۳۸ ۔وسائل الشیعہ: ابواب ما یکتسب بہ، باب ۴، حدیث ۴

۳۹ ۔وسائل الشیعہ: ابواب الاذان و الاقامہ، باب ۳، حدیث۱

۴۰ ۔وسائل الشیعہ: ابواب القبلہ، باب ۹، حدیث ۲

۴۱ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب القبلہ، باب ۹، حدیث۱

۴۲ ۔وسائل الشیعہ: ابواب القبلہ، باب ۱۶، حدیث ۴

۴۳ ۔مائدہ: ۶

۴۴ ۔وسائل الشیعہ: ابواب وضوء، باب ۱، حدیث ۱

۴۵ ۔وسائل الشیعہ: ابواب نجاسات، باب ۴۲، حدیث ۲

۴۶ ۔مضمر: وہ روایت جس میں معصوم کے نام کے بجائے ضمیر کا استعمال کیا گیا ہو۔

۴۷ ۔وسائل الشیعہ: ابواب نجاسات، باب ۴۱، حدیث ۱

۴۸ ۔مستمسک العروۃ الوثقیٰ: ۵/ ۲۵۱

۴۹ ۔وسائل الشیعہ: ابواب نجاسات، باب ۶۴، حدیث ۱

۵۰ ۔عجان: مخرج پاخانہ اور بیضتین کی درمیانی جگہ۔

۵۱ ۔وسائل الشیعہ: ابواب لباس مصلی، باب ۵۰، حدیث ۶

۵۲ ۔وسائل الشیعہ: ابواب لباس مصلی، باب ۲۸، حدیث ۲

۵۳ ۔وسائل الشیعہ: ابواب لباس مصلی، باب ۲۸، حدیث ۸

۵۴ ۔وسائل الشیعہ: ابواب لباس مصلی، باب۲، حدیث ۱

۵۵ ۔وسائل الشیعہ: ابواب لباس مصلی، باب ۳۰، حدیث۴

۵۶ ۔وسائل الشیعہ: ابواب لباس مصلی، باب ۱۱، حدیث۲

۵۷ ۔وسائل الشیعہ: ابواب لااس مصلی، باب ۱۱، حدیث ۲

۵۸ ۔وسائل الشیعہ: ابواب قراءۃ فی الصلاۃ، باب ۳۴، حدیث ۱

۵۹ ۔وسائل الشیعہ: ابواب مقدمہ عبادات، باب ۱۱، حدیث ۱۱

۶۰ ۔وسائل الشیعہ: ابواب مقدمہ عبادات، باب ۱۲، حدیث ۱

۶۱ ۔وسائل الشیعہ: ابواب مقدمہ عبادات، باب ۱۱، حدیث ۱۱

۶۲ ۔وسائل الشیعہ: ابواب تکبیرۃ الاحرام، باب ۲، حدیث ۱

۶۳ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب الخلل الواقع فی الصلاۃ، باب ۱۹، حدیث۲

۶۴ ۔وسائل الشیعہ: ابواب قیام ، باب ۱۳، حدیث ۱

۶۵ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب قیام ، باب۶ ، حدیث ۳

۶۶ ۔وسائل الشیعہ: ابواب القراء ۃ فی الصلاۃ، باب ۱، حدیث ۱

۶۷ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب القراء ۃ فی الصلاۃ، باب۴، حدیث ۲

۶۸ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب القراء ۃ فی الصلاۃ، باب۲، حدیث۱

۶۹ ۔وسائل الشیعہ: ابواب القراء ۃ فی الصلاۃ، باب۱۱، حدیث ۲

۷۰ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب القراء ۃ فی الصلاۃ، باب۱۱، حدیث ۵

۷۱ ۔وسائل الشیعہ: ابواب رکوع، باب ۹، حدیث ۱

۷۲ ۔وسائل الشیعہ:ابواب افعال الصلاۃ، باب ۱، حدیث ۱۔۱۰

۷۳ ۔وسائل الشیعہ:ابواب صلاۃ الکسوف و الآیات، باب ۷

۷۴ ۔وسائل الشیعہ:ابواب القراءۃ فی الصلاۃ، باب ۲۹، حدیث۵

۷۵ ۔وسائل الشیعہ: ابواب الصلاۃ الجماعۃ، باب ۴۸، حدیث۳

۷۶ ۔وسائل الشیعہ: ابواب افعال الصلاۃ، باب ۱، حدیث ۳

۷۷ ۔وسائل الشیعہ: ابواب سجود، باب ۱۴، حدیث۱

۷۸ ۔وسائل الشیعہ: ابواب الخلل، باب ۱۹، حدیث۲

۷۹ ۔وسائل الشیعہ: ابواب رکوع، باب ۱۴، حدیث ۲

۸۰ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب مایسجد علیہ، باب ۱، حدیث۱

۸۱ ۔مسلم: کتاب الحیض، باب الاضطجاع مع الحائض فی لحاف واحد، حدیث ۱۱؛ بخاری: کتاب الصلاۃ، باب الصلاۃ علی الخمرۃ، حدیث ۳۸۱

۸۲ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب السجود، باب ۴، حدیث ۲

۸۳ ۔وسائل الشیعہ: ابواب ما یسجد علیہ، باب ۱۶، حدیث ۳

۸۴ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب ما یسجد علیہ، باب۱، حدیث ۵

۸۵ ۔وسائل الشیعہ: ابواب تشہد ، باب ۹، حدیث ۳

۸۶ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب تشہد، باب ۱۳، حدیث ۲

۸۷ ۔مدارک الاحکام: ۳/ ۴۲۶

۸۸ ۔وسائل الشیعہ: ابواب تشہد، باب ۴، حدیث ۴

۸۹ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب تشہد، باب ۱۰، حدیث ۱

۹۰ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب تسلیم، باب۱، حدیث۴

۹۱ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب تسلیم، باب۴، حدیث۱

۹۲ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب تسلیم، باب۴، حدیث۳

۹۳ ۔وسائل الشیعہ: ابواب المواقیت، باب ۶۰، حدیث ۱

۹۴ ۔وسائل الشیعہ: ابواب خلل در نماز، باب ۲۳، حدیث ۳

۹۵ ۔وسائل الشیعہ: ابواب خلل در نماز، باب ۲۳، حدیث ۱

۹۶ ۔وسائل الشیعہ: ابواب خلل در نماز، باب۸، حدیث۱

۹۷ ۔جواہر الکلام: ۱۲/ ۳۲۹

۹۸ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب خلل در نماز، باب۱، حدیث ۱

۹۹ ۔وسائل الشیعہ: ابواب الخلل، باب ۲، حدیث ۱

۱۰۰ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب الخلل، باب۱۰، حدیث ۵

۱۰۱ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب الخلل، باب۱۰، حدیث ۳

۱۰۲ ۔وسائل الشیعہ: ابواب الخلل، باب ۱۱، حدیث ۴

۱۰۳ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب الخلل، باب۱۳، حدیث ۱

۱۰۴ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب الخلل، باب۱۴، حدیث ۳

۱۰۵ ۔وسائل الشیعہ: ابواب الخلل فی الصلاۃ، باب ۱۵، حدیث ۱

۱۰۶ ۔الفقہ علی المذاہب الاربعہ: ۱/ ۴۲۷

۱۰۷ ۔وسائل الشیعہ: ابواب صلاۃ المسافر، باب ۲۲، حدیث ۷

۱۰۸ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب صلاۃ المسافر، باب ۲۲، حدیث۵

۱۰۹ ۔وسائل الشیعہ: ابواب صلاۃ المسافر ، باب ۱۶

۱۱۰ ۔الحدائق الناضرہ: ۱۱/ ۳۰۰

۱۱۱ ۔ان روایات کو وسائل الشیعہ کے ابواب صلاۃ المسافر کے ابتدائی ابواب میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔

۱۱۲ ۔وسائل الشیعہ: ابواب صلاۃ المسافر، باب ۱، حدیث ۱۳

۱۱۳ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب صلاۃ المسافر، باب۲، حدیث ۱۰

۱۱۴ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب صلاۃ المسافر، باب۲، حدیث ۲

۱۱۵ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب صلاۃ المسافر، باب۲، حدیث۹

۱۱۶ ۔وسائل الشیعہ: ابواب صلاۃ المسافر، باب ۴ ، حدیث۳

۱۱۷ ۔وسائل الشیعہ: ابواب صلاۃ المسافر، باب ۹ ، حدیث۴

۱۱۸ ۔وسائل الشیعہ: ابواب صلاۃ المسافر، باب ۱۱، حدیث۲

۱۱۹ ۔وسائل الشیعہ: ابواب صلاۃ المسافر، باب ۱۱، حدیث ۵

۱۲۰ ۔وسائل الشیعہ: ابواب صلاۃ المسافر، باب ۶، حدیث ۱

۱۲۱ ۔وسائل الشیعہ: ابواب صلاۃ المسافر، باب ۶، حدیث ۳

۱۲۲ ۔وسائل الشیعہ: ابواب صلاۃ المسافر، باب ۱۵، حدیث۹

۱۲۳ ۔وسائل الشیعہ: ابواب صلاۃ الجماعۃ، باب ۱، حدیث ۲

۱۲۴ ۔کتاب الصلاۃ، تقریر بحث الشیخ النائینی للشیخ الکاظمی: ۲/ ۳۶۰

۱۲۵ ۔وسائل الشیعہ:ابواب نافلۃ شہر رمضان، باب ۱۰، حدیث۱

۱۲۶ ۔وسائل الشیعہ:ابواب نافلۃ شہر رمضان، باب ۱۰، حدیث۲

۱۲۷ وسائل الشیعہ:ابواب نافلۃ شہر رمضان، باب ۱۰، حدیث۴

۱۲۸ ۔وسائل الشیعہ: ابواب صلاۃ الجماعۃ، باب۴، حدیث۱

۱۲۹ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب صلاۃ الجماعۃ، باب۴۶

۱۳۰ ۔وسائل الشیعہ: ابواب صلاۃ الجماعۃ، باب ۵۰

۱۳۱ ۔وسائل الشیعہ: ابواب صلاۃ الجماعۃ، باب۴۵، حدیث۱

۱۳۲ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب صلاۃ الجماعۃ، باب۲۰، حدیث۱۱

۱۳۳ ۔جواہر الکلام: ۱۳/ ۲۷۵

۱۳۴ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب صلاۃ الجماعۃ، باب۵۶، حدیث۲

۱۳۵ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب صلاۃ الجماعۃ، باب۳۱، حدیث۸

۱۳۶ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب صلاۃ الجماعۃ، باب۳۰، حدیث۳

۱۳۷ ۔ جمعہ: ۹

۱۳۸ ۔وسائل الشیعہ: ابواب صلاۃ الجمعہ، باب۱، حدیث۱

۱۳۹ ۔صحیفہ سجادیہ:نمبر ۴۸

۱۴۰ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب صلاۃ الجمعہ، باب۶، حدیث۲

۱۴۱ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب صلاۃ الجمعہ، باب۲۵، حدیث۲

۱۴۲ ۔آل عمران: ۱۰۴

۱۴۳ ۔ لقمان: ۱۷

۱۴۴ ۔اعراف:۱۹۹

۱۴۵ ۔احزاب:۲۱

۱۴۶ ۔وسائل الشیعہ: ابواب الامر و النہی، باب ۱، حدیث ۴

۱۴۷ ۔ وسائل الشیعہ: ابواب الامر و النہی، باب ۱، حدیث ۵

۱۴۸ ۔حج: ۴۱

۱۴۹ ۔ “يَقُولُ مِنَ الْحَقِّ إِلَى الْبَاطِلِ ”شاید یہ راوی کا کلام ہے جس کے معنی ہیں:یہ افراد امر و نہی سے نابلد ہونے کی وجہ سے لوگوں کو حق سے باطل کی طرف بلاتے ہیں۔

۱۵۰ ۔ آل عمران ۔۱۰۴

۱۵۱ ۔وسائل الشیعہ: ابواب الامر و النہی، باب ۲، حدیث ۱

۱۵۲ ۔وسائل الشیعہ: ابواب احیاء الموات، باب ۱۲، حدیث ۳

۱۵۳ ۔نحل: ۱۲۵

۱۵۴۔تحریم:۶

۱۵۵ جواہر الکلام:۲۱/ ۳۸۲

۱۵۶۔احزاب:۳۰۔۳۱