پانی کے احکام
پانی کی اقسام:
پانی کی دو قسمیں ہیں:
۱ ۔ مطلق پانی،
۲ ۔ مضاف پانی۔
مضاف پانی اور اس کے احکام:
مضاف پانی بذاتِ خود پاک ہے ؛ لیکن کسی اور چیز کو حدث اور خبث سےپاک نہیں کرتا۔
جب اسے کوئی نجاست لگ جائے تو یہ پورے کا پورا نجس ہو جاتا ہے خواہ اس کی مقدار زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔ البتہ تدافع
کی صورت میں پورے کا پورا نجس نہیں ہوتا۔
دلائل:
۱ ۔ پانی کے مطلق اور مضاف میں تقسیم ہونے کی دلیل: یہ دلیل وجدانی ہے جس کے لئے کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں ۔
البتہ مضاف کو پانی کہنا مجاز ہے؛ لہٰذا یہ تقسیم کسی چیز کو خود اسی چیز اور کسی دوسری چیز میں تقسیم کرنے کی طرح ہے۔
۲ ۔ مضاف پانی کے بذات خود پاک ہونے کی دلیل:اس کی پہلی دلیل قاعدہ طہارت ہے جو ہمیں امام جعفر صادق علیہ السلام سے عمار ساباطی کی روایت کردہ موثق حدیث سے معلوم ہوتا ہے:
“كُلُّ شَيْءٍ نَظِيفٌ حَتَّى تَعْلَمَ أَنَّهُ قَذِرٌ، فَإِذَا عَلِمْتَ فَقَدْ قَذِرَ وَ مَا لَمْ تَعْلَمْ فَلَيْسَ عَلَيْكَ
.” “ہر چیز پاک ہے جب تک تجھے معلوم نہ ہو کہ وہ نجس ہے۔پس جب تجھے (اس کی نجاست کا) علم ہو جائے تووہ نجس ہوگی اور جس کا تجھے علم نہ ہو اس کی ذمہ داری تم پر نہیں۔”
دوسری دلیل استصحابِ طہارت ہے بشرطیکہ اصل قاعدہ ہر چیز کا پاک ہونا ہو۔
۳ ۔ مضاف پانی کے کسی چیز کو حدث سے پاک نہ کر سکنے کی دلیل: یہ حکم علماء کے درمیان مشہور ہونا ہے۔ اس حکم کو ثابت کرنے کے لئے یہی شک کافی ہے کہ مضاف پانی حدث کو رفع کر سکتا ہے یا نہیں؟ ؛ کیونکہ مضاف سے دھونے کے بعد بھی حدث کی بقاء کا استصحاب کیا جا سکتا ہے لہٰذا مضاف کے ذریعے حدث کا رفع ہونا دلیل کا محتا ج ہے ؛ جبکہ ہمارے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں ہے؛ بلکہ حدث کے رفع نہ ہونے کی دلیل موجود ہے اور وہ دلیل یہ آیت ہے :
(
...فَلَمْ تجَِدُواْ مَاءً فَتَيَمَّمُواْ صَعِيدًا طَيِّبًا
)
،“۔۔۔اور تمہیں پانی میسرنہ آئے تو پاک مٹی پر تیمم کرو۔”
۴ ۔ مضاف کے کسی چیز کو خبث سے پاک نہ کر سکنے کی دلیل: یہ حکم بھی علماء کے درمیان مشہور ہے۔اس کو ثابت کرنے کے لئے بھی اس کے رافع ِ خبث ہونے کی دلیل کی عدم موجودگی ہی کافی ہے؛ جبکہ ہمارے پاس خبث کے رفع نہ ہونے کی دلیل موجود ہے۔ مثلاحضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی برید ابن معاویہ کی یہ روایت :
“يُجْزِي مِنَ الْغَائِطِ الْمَسْحُ بِالْأَحْجَارِ،وَ لَا يُجْزِي مِنَ الْبَوْلِ إِلَّا الْمَاءُ
.”“ پاخانہ(کی نجاست کو دور کرنے) کے لئے پتھروں کا رگڑنا کافی ہے جبکہ پیشاب( کی نجاست کو پاک کرنے ) کے لئے پانی کے علاوہ کوئی چیز کافی نہیں۔”
اس حکم کو ثابت کرنے کے لئے ہم اس حدیث پر ایک بات کا اضافہ کریں گے اور وہ یہ کہ پیشاب اور دوسری نجاستوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔(پس مضاف پانی کسی چیز کو پاک نہیں کر سکتا۔)
ادھر فیض کاشانی ؒ سے منسوب نظریہ یہ ہے کہ ہر اس جسم کے ذریعے جو نجاست کو زائل کردے خبث کو پاک کیا جا سکتا ہے اگر چہ وہ جسم مضاف ہی کیوں نہ ہو۔
سید مرتضیٰ ؒ اور ان کے استاد شیخ مفید ؒ سے منسوب ہے کہ : ہر جسم سے نجاست کو زائل کرنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ یہ ضروری ہے کہ (اس پر) دھونے کا عنوان صادق آئے۔ البتہ پانی سے دھونا ضروری نہیں؛ بلکہ ہر سیال اور مائع چیز سے دھونا کافی ہے خواہ وہ مضاف ہی کیوں نہ ہو۔
۵ ۔ نجاست کےساتھ اتصال سے ہی مضا ف پانی کے نجس ہونے کی دلیل: یہ ایک متفق علیہ حکم ہے۔ سکونی کی موثق روایت سے بھی اس پراستدلال کیا جا سکتا ہے۔ اس روایت کو سکونی نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے اور آپ نے اپنے پدر بزرگوار ؑسے نقل فرمایا ہے کہ :
“أَنَّ عَلِيّاً علیه السلام سُئِلَ عَنْ قِدْرٍ طُبِخَتْ وَ إِذَا فِي الْقِدْرِ فَأْرَةٌ.قَالَ: يُهَرَقُ مَرَقُهَا وَ يُغْسَلُ اللَّحْمُ وَ يُؤْكَلُ
.” “امیر المؤ منین علیہ السلام سے ایک ایسی دیگ کے بارے میں سوال کیا گیا جس میں سالن بناتے ہوئے ایک چوہا گر گیا تھا۔ آپ ؑ نے فرمایا: دیگ کا شوربہ (سالن ) گرایا جائے گا اور گوشت کو دھو کر کھایا جائے گا۔”
اگر ہم اس حدیث کے ساتھ اس بات کو بھی مدنظر رکھیں کہ چوہا اور دوسرے مرداروں کے درمیان کوئی فرق نہیں نیز سالن اور دوسری مضاف اشیاء کے درمیان بھی کوئی فرق نہیں تو اس کے نتیجے میں ایک حکم عام ثابت ہو تا ہے اور وہ یہ کہ ہر مضاف چیز، نجاست کے ساتھ صرف ملنے سے نجس ہو جاتی ہے۔)
۶ ۔ مضاف پانی کے تدافع کی صورت میں پورے پانی کے نجس نہ ہونے کی دلیل:مثلا اگر مضاف پانی اوپر سے گرے اور نجاست اس کے نچلے حصے سےمتصل ہو تو اوپر والا حصہ نہیں بلکہ صرف نچلا حصہ نجس ہو جائے گا؛ کیونکہ پہلی بات تو یہ ہے کہ تدافع کی صورت میں یہ دونوں عرفاً دو الگ الگ پانی شمار ہوتے ہیں؛ لہذا ایک کے نجس ہونے سے دوسرے کے بھی نجس ہونے کا کوئی سبب نہیں ہے۔ دوسری بات یہ کہ عرف کی نگاہ میں نچلے پانی کی نجاست اوپر کی طرف سرایت نہیں کرے گی ۔ پس جب نجاست کے سرایت کرنے کی کیفیت کے بارے میں کوئی خاص نص نہ ہو تو (اس کیفیت کو سمجھنے کے لئے)عرف کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔
مطلق پانی اور اس کے احکام:
مطلق پانی کبھی کثیر ہوتا ہے اور کبھی قلیل۔
کثیر پانی ،نجاست سے صرف متصل ہونے کے باعث نجس نہیں ہوتا جب تک اس کے تین اوصاف (رنگ ، بو، ذائقہ)میں سے کوئی ایک وصف بدل نہ جائے۔
کثیر پانی سے مراد کر پانی ہے۔ وہ قلیل پانی بھی ،جس کا کوئی منبع اور سرچشمہ ہو ،کثیر کے حکم میں شامل ہے۔
قلیل پانی ، نجاست کے ساتھ ملنے سے ہی نجس ہو جاتا ہے، سوائے تدافع کی صورت کے۔
یاد رہے کہ کر پانی کی مقدار کے بارے میں چند اقوال ہیں۔
دلائل:
۱ ۔ “کر” پانی کے نجس نہ ہونے کی دلیل:بعض روایات اس حکم پر دلالت کرتی ہیں جن میں سے ایک معاویہ بن عمار کی روایت صحیحہ ہے جو انہوں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سےنقل کی ہےاور وہ روایت یہ ہے:
“إِذَا كَانَ الْمَاءُ قَدْرَ كُرٍّ لَمْ يُنَجِّسْهُ شَيْءٌ
.”“جب پانی کی مقدار“کر” کے برابر ہو تو کوئی چیز اسے نجس نہیں کر سکتی۔”
۲ ۔ تینوں اوصاف میں سے ایک کی تبدیلی سےکثیر پانی کے نجس ہونے کی دلیل: حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے حریز نے روایت کی ہے:
“كُلَّمَا غَلَبَ الْمَاءُ عَلَى رِيحِ الْجِيفَةِ فَتَوَضَّأْ مِنَ الْمَاءِ وَ اشْرَبْ فَإِذَا تَغَيَّرَ الْمَاءُ وَ تَغَيَّرَ الطَّعْمُ فَلَا تَوَضَّأْ مِنْهُ وَ لَا تَشْرَبْ
.” “جب مردار کی بدبو پر پانی ( کی بو) غالب رہے تو اس پانی سے وضو کرو اور پیو؛ لیکن جب پانی (کا رنگ) بدل جائے اور اس کا ذائقہ تبدیل ہو جائے تو اس سے نہ وضو کرو اور نہ پیو۔ ”
یہ حدیث پانی کی قدرتی حالت و فطرت کے بارے میں ہے۔ لہذا اس اطلاق میں “کر” بھی شامل ہے۔
۳ ۔ منبع والے پانی اور آب “ کر”کے حکم کی یکسانیت کی دلیل:محمد بن اسماعیل بن بزیع کی صحیح روایت ہے:
“ کتبت الی رجل اسأله ان یسأل ابا الحسن الرضا علیه السلام، فقال: مَاءُ الْبِئْرِ وَاسِعٌ لَا يُفْسِدُهُ شَيْءٌ إِلَّا أَنْ يَتَغَيَّرَ رِيحُهُ أَوْ طَعْمُهُ فَيُنْزَحُ حَتَّى يَذْهَبَ الرِّيحُ وَ يَطِيبَ طَعْمُهُ لِأَنَّ لَهُ مَادَّةً.
”“ میں نے کسی کو خط لکھا کہ وہ حضرت امام رضا علیہ السلام سے سوال کرے ۔ پھر امام ؑ نے (جواب میں )فرمایا: کنویں کا پانی وسیع ہے۔ جب تک اس کی بو یا ذائقہ تبدیل نہ ہو جائے کوئی چیز اسے نجس نہیں کر سکتی ( جب اس کی بو یا ذائقہ بدل جائے تو) اس سے اتنا پانی نکالا جائے کہ اس کی بدبو ختم ہو جائے اور اس کا ذائقہ بہتر ہو جائے؛ کیونکہ کنویں کا پانی منبع (سے متصل)ہوتا ہے۔”
یہ حدیث مذکورہ دو باتوں پر دلالت کرتی ہے:
۱ ۔کنویں کا پانی نجاست کے ساتھ صرف اتصال کے باعث نجس نہیں ہوتا،
۲ ۔جب پانی، اوصاف ثلاثہ میں سے کسی ایک کے باعث ، متغیر ہوتا ہے تو نجس ہوتا ہے۔
حدیث میں مذکور علت (لان له مادة
)کے باعث ، ہر منبع والے پانی پر اس حکم کا اطلاق ہوتا ہے۔
۴ ۔ نجاست کے ساتھ خالی اتصال سے قلیل پانی کےنجس ہونے کی دلیل: یہ معاویہ بن عمار کی گزشتہ صحیح روایت کا مفہوم
ہے اور یہی حکم فقہاء کے درمیان معروف ہے؛ لیکن ابن ابی عقیل اور فیض کاشانی سے منسوب حکم یہ ہے کہ نجاست کے ساتھ صرف متصل ہونے سے قلیل پانی نجس نہیں ہوتا۔
۵ ۔ تدافع کی صورت میں سارےقلیل پانی کے نجس نہ ہونے کی دلیل:یہ وہی دلائل ہیں جو مضاف پانی کے احکام میں گزر چکی ہیں۔
۶ ۔ پیمائش کے لحاظ سے “کر” کی مقدارمیں مختلف اقوال:اس بارے میں کئی اقوال ہیں جن میں سے دو اقوال مشہور ہیں:
پہلاقول: “کر” وہ پانی ہے جس کی تین جہات (لمبائی، چوڑائی، گہرائی) تین تین بالشت ہوں۔ نتیجتاً ایک کر ۲۷ بالشت کے برابر ہوگا۔
دوسرا قول:“کر” وہ پانی ہے جس کی تین جہات میں سے ہر ایک ساڑھے تین بالشت پر مشتمل ہو۔ نتیجتاً ایک کر ۷۸ ۴۲ بالشت کے برابر ہوگا۔
پہلے قول کی دلیل: اسماعیل بن جابر کی صحیح روایت ہے:
“سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام عَنِالْمَاءِ الَّذِي لَا يُنَجِّسُهُ شَيْءٌ، فَقَالَ: كُرٌّ. قُلْتُ:وَ مَا الْكُرُّ؟ قَالَ: ثَلَاثَةُ أَشْبَارٍ فِي ثَلَاثَةِ أَشْبَارٍ
.”“ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس پانی کے بارے میں سوال کیا جسے کوئی نجاست نجس نہیں کر سکتی۔ آپ ؑ نے فرمایا: وہ “کر” پانی ہے۔ میں نے عرض کیا: “کر” کیا ہے؟ فرمایا: تین بالشت ضرب تین بالشت۔”
اس وضاحت کے ساتھ کہ صرف دو جہات کے ذکر کرنے پر اکتفا کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ تیسری جہت بھی مذکورہ جہات کے برابر ہے؛ لہذا اسے بیان نہیں کیا گیا۔
البتہ اس روایت کی سند پر اعتراض کیا جاسکتا ہےکہ اس روایت کو اسماعیل بن جابر سے ابن سنان نے نقل کیا ہے جبکہ ابن سنان کے بارے میں یہ شک ہے کہ وہ محمد بن سنان ہیں یا عبد اللہ بن سنان ؟ چونکہ محمد بن سنان کا موثق ہونا ثابت نہیں ہے لہذا یہ روایت حت اور دلیل نہیں بن سکتی۔
لیکن ہاں! جب اس روایت کی بجائے ایک دوسری روایت
سے استدلا ل کیا جائے تو مذکورہ اشکال کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔
دوسرے قول کی دلیل: اس حکم پر حسن بن صالح ثوری کی روایت سے استدلال کیا جا سکتا ہے۔ اس روایت کو ابن صالح نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے یوں نقل کیا ہے:
“إِذَا كَانَ الْمَاءُ فِي الرَّكِيِّ كُرّاً لَمْ يُنَجِّسْهُ شَيْءٌ. قُلْتُ:وَ كَمِ الْكُرُّ؟ قَالَ: ثَلَاثَةُ أَشْبَارٍ وَ نِصْفٌ عُمْقُهَا فِي ثَلَاثَةِ أَشْبَارٍ وَ نِصْفٍ عَرْضِهَا
.”“ جب حوض میں پانی کی مقدار“ کر” کے برابر ہو تو اسے کوئی چیز نجس نہیں کر سکتی۔ میں نے عرض کیا:“کر” کی مقدار کیا ہے؟ فرمایا: گہرائی کے لحاظ سے ساڑھے تین بالشت اور چوڑائی کے لحاظ سے ساڑھے تین بالشت۔”
اسی وضاحت کی روشنی میں جو اسماعیل بن جابر کی روایت میں گزر چکی ہے۔
یہ روایت سند کے لحاظ سے ضعیف ہے (کیونکہ حسن بن صالح ثوری کا موثق ہونا ثابت نہیں ہے)۔ لہذا پہلی روایت کی حجیت کسی معارض کے بغیر اپنی جگہ ثابت رہے گی۔
بارش کا پانی:
بارش کے دوران ، اس کا پانی “کر” کی طرح ہے جو نجاست کے لگے سے ہی نجس نہیں ہوتا۔
جب یہ پانی کسی جگہ جمع ہوجائے ؛لیکن قلیل ہو تواس صورت میں بھی اگر بارش ہو رہی تو وہ “کر” ہی کی طرح ہے۔
جب یہ پانی کسی ایسی چیز کو جو نجس ہو گئی ہو ، لگ کر اس کے اندر تک سرایت کر جائے تو وہ چیز پاک ہو جائے گی۔ اسے نچوڑنے یا ایک سے زائد بار اس پر بارش برسنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ ہاں ! اگر اس چیز کے صرف ظاہری حصے کو لگ جائے اور اس کے اندرونی حصے تک نہ پہنچے تو اس صورت میں اس کا ظاہری حصہ ہی پاک ہوگا۔
دلائل:
۱ ۔ نجاست سے ساتھ صرف اتصال سے بارش کے پانی کے نجس نہ ہونے کی دلیل: حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہشام بن سالم کی روایت کہتی ہے:
“أَنَّهُ سَأَلَ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ عهیی السلام عَنِ السَّطْحِ يُبَالُ عَلَيْهِ فَتُصِيبُهُ السَّمَاءُ فَيَكِفُ فَيُصِيبُ الثَّوْبَِ، فَقَالَ: لَا بَأْسَ بِهِ، مَا أَصَابَهُ مِنَ الْمَاءِ أَكْثَرُ مِنْهُ
.”“ اس نے امام سے پوچھا:جس چھت پر پیشاب کیا جاتاہے اس پر بارش برسے اورچھت ٹپکنے کی وجہ سے (اس کے چھینٹے )کسی کے کپڑوں کو لگ جائیں تو کیا (حکم) ہے؟ امام ؑ نے فرمایا: اگر بارش کا پانی پیشاب کی مقدار سے زیادہ ہو تو کوئی اشکال نہیں۔”
اس کے علاوہ بھی روایات ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ بارش کا پانی پیشاب کے لگنے سے نجس نہیں ہوتا۔
اوصاف کی تبدیلی کے باعث اس کے نجس ہونے کی دلیل: حریز کی صحیح حدیث، جو کثیر پانی کے احکام میں گزر چکی ہے، کا اطلاق اس حکم پر دلالت کرتا ہے۔
۲ ۔ نجس نہ ہونے کابارش کے نزول کے وقت سے مشروط ہونے کی دلیل:جب بارش تھم جائے تو اس پانی پر بارش کا پانی صادق نہیں آتا ؛ بلکہ یہ قلیل پانی کہلاتا ہے۔ پس اس پر قلیل پانی کا حکم جاری ہوگا۔
۳ ۔ بارش کےدوران اس کے قلیل پانی کا “کر” کی طرح ہونے کی دلیل: بارش کے دوران یہ پانی منبع والا پانی بن جاتا ہے اور ابن بزیع کی گزشتہ روایت میں مذکورعلت (لان له مادة
) کا عموم اس پر بھی صادق آتا ہے۔
۴ ۔ بارش کا پانی لگنے سے ، نچوڑے اور ایک سے زائد بار برسے بغیر نجس شدہ چیز کے پاک ہونے کی دلیل: یہ حکم فقہاء میں مشہور ہے جس پر کاہلی کی وہ روایت دلالت کرتی ہے جو اس نے کسی شخص کی وساطت سے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سےنقل کی ہے:
“...كُلُّ شَيْءٍ يَرَاهُ مَاءُ الْمَطَرِ فَقَدْ طَهُرَ
.” ،“ ۔۔۔ ہروہ چیز جس تک بارش کا پانی پہنچے ، پاک ہو جائے گی۔”
یہ روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نجس شدہ چیز کے پاک ہونے کے لئے بارش کے پانی کا اس تک پہنچنا ہی کافی ہے۔فقہاء کے مشہور فتویٰ سے اس کی سند کا ضعف بھی دور ہوتا ہے بشرطیکہ اس قاعدے کو مان لیا جائے کہ شہرت فتوائی ضعف سند کو دور کرتی ہے۔
۵ ۔ اس بات کی دلیل کہ بارش کے پانی کا نجس چیز میں پوری طرح سرایت کرجانا شرط ہے:وہ یوں کہ مکمل سرایت کئے بغیر پوری چیز کی نسبت سے رؤیت (پانی لگنے ) کا عنوان صادق نہیں آتا۔
۶ ۔ ظاہری حصے کو بارش لگنے کی صورت میں صرف ظاہر کے پاک ہونے کی دلیل:اس صورت میں صرف ظاہری سطح پر پانی لگنے (رؤیت) کا عنوان صادق آتا ہے۔