دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی (كتاب الطهارة)

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی (كتاب الطهارة)0%

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی (كتاب الطهارة) مؤلف:
: آیت اللہ شیخ باقر الایروانی
: شیرعلی نادم
زمرہ جات: فقہ استدلالی

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی (كتاب الطهارة)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ شیخ باقر الایروانی
: آیت اللہ شیخ باقر الایروانی
: شیرعلی نادم
زمرہ جات: مشاہدے: 16180
ڈاؤنلوڈ: 4383

تبصرے:

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی (كتاب الطهارة)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 23 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 16180 / ڈاؤنلوڈ: 4383
سائز سائز سائز
دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی (كتاب الطهارة)

دروس تمھیدیہ فی الفقہ الاستدلالی (كتاب الطهارة)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

وضوکے احکام

وضو کا طریقہ:

وضو کرتے وقت چہرے کولمبائی میں سر کے بال اگنے کی جگہ سے ٹھوڑی تک اورچوڑائی میں درمیانی انگلی اور انگوٹھے کی درمیانی مقدار کے برابر دھونا واجب ہے اور مشہور یہ ہے کہ نیچے سے اوپر کی طرف دھونا جائز نہیں ہے۔

پھر دائیں ہاتھ سے شروع کرتے ہوئے دونوں ہاتھوں کو کہنیوں سے انگلیوں کے سروں تک ، اوپر سے نیچے کی طرف دھونا واجب ہے۔

پھر سر کے اگلے حصے کااس مقدار میں مسح کرنا ضروری ہے جسے مسح کہا جائے۔

پھر ، پہلے دایاں پاؤں کا دائیں ہاتھ سے اور بایاں پاؤں کا بائیں ہاتھ سے ،ٹخنوں تک مسح کرنا واجب ہے ۔ البتہ مسح کے عمل میں اوپر سے نیچے کی طرف مسح کرنا جائز ہےاور ضروری ہے کہ مسح اسی وضو کی تری سے کیا جائے۔

دلائل:

۱ ۔ وضو کے، دوعضو کے دھونے اور دو عضو کے مسح کرنے پر مشتمل ہونے کی دلیل:اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

( يَأَيهَُّا الَّذِينَ ءَامَنُواْ إِذَا قُمْتُمْ إِلىَ الصَّلَوةِ فَاغْسِلُواْ وُجُوهَكُمْ وَ أَيْدِيَكُمْ إِلىَ الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُواْ بِرُءُوسِكُمْ وَ أَرْجُلَكُمْ إِلىَ الْكَعْبَينْ‏ِ ) ، “ اے ایمان والو! جب تم نماز کے لیے اٹھو تواپنے چہروں اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لیا کرو نیز اپنے سروں کا اور ٹخنوں تک پاؤں کا مسح کرو۔”(۳۱)

آیہ مجیدہ میں لفظ “ارجل” کا عطف ، ظاہرا ًمجرور “برءُوسکم” کے محل پر ہے۔

وضو کے دو چیزوں سے مرکب ہونے کی دوسری دلیل زرارہ کی صحیح حدیث ہے جو دلیل نمبر ۳ میں بیان ہوگی۔

۲ ۔چہرے کی مذکورہ حد بندی کی دلیل: حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی زرارہ کی صحیح روایت ہے :

أَخْبِرْنِي عَنْ حَدِّ الْوَجْهِ الَّذِي يَنْبَغِي أَنْ يُوَضَّأَ الَّذِي قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ، فَقَالَ: الْوَجْهُ الَّذِي قَالَ اللَّهُ وَ أَمَرَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ بِغَسْلِهِ الَّذِي لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يَزِيدَ عَلَيْهِ وَ لَا يَنْقُصَ مِنْهُ، إِنْ زَادَ عَلَيْهِ لَمْ يُؤْجَرْ وَ إِنْ نَقَصَ مِنْهُ أَثِمَ مَا دَارَتْ عَلَيْهِ الْوُسْطَى وَ الْإِبْهَامُ مِنْ قُصَاصِ شَعْرِ الرَّأْسِ إِلَى الذَّقَنِ، وَ مَا جَرَتْ‏ عَلَيْهِ الْإِصْبَعَانِ مُسْتَدِيراً فَهُوَ مِنَ الْوَجْهِ.وَ مَا سِوَى ذَلِكَ فَلَيْسَ مِنَ الْوَجْهِ. فَقَالَ: لَهُ الصُّدْغُ مِنَ الْوَجْهِ؟ فَقَالَ: لَا .” “مجھے چہرے کی اس حد سے آگاہ فرمائیے ، اللہ تعالی ٰ نے وضو میں جس کے دھونے کا حکم دیا ہے، امام ؑ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے چہرے کی جو مقداربیان کر کے اس کے دھونے کا حکم دیا ہے اوراس مقدار سے زیادہ یا کم نہیں دھونا چاہئے اور اگر اس سے زیادہ دھویا تو کوئی ثواب نہیں دیا جائے گا اور اگر کم دھویا تو گناہ گار ہوگا۔ وہ مقدارسر کے بال اگنے کی جگہ سے ٹھوڑی تک ،درمیانی انگلی اور انگوٹھے کے احاطے میں آنے والا حصہ ہے۔ جو حصہ ان دو انگلیوں کے دائرے میں آئے وہی چہرہ ہے اورجو اس حد سے باہر ہے وہ چہرے کا حصہ نہیں ہے۔ میں نے عرض کیا:کیا کنپٹی بھی چہرے کا حصہ ہے؟ فرمایا: نہیں۔”(۳۲)

مشیخہ(۳۳) کے مطابق شیخ صدوق ؒسے زرارہ تک کا پورا سلسلہ سند صحیح ہے۔(۳۴)

۳ ۔ چہرے کا برعکس دھونا جائز نہ ہونے کی دلیل: اس حکم پر مندرجہ ذیل طریقوں سے استدلال کیا جاسکتا ہے:

۱ ۔ اعمال کی کیفیت کو بیان کرنے والی روایات کے ذریعے:مثلا زراہ کی یہ صحیح روایت :

حَكَى لَنَا أَبُو جَعْفَرٍ عهی السلام وُضُوءَ رَسُولِ اللَّهِ (ص) فَدَعَا بِقَدَحٍ مِنْ مَاءٍ- فَأَدْخَلَ يَدَهُ الْيُمْنَى فَأَخَذَ كَفّاً مِنْ مَاءٍ- فَأَسْدَلَهَا عَلَى وَجْهِهِ مِنْ أَعْلَى الْوَجْهِ- ثُمَّ مَسَحَ بِيَدِهِ الْجَانِبَيْنِ جَمِيعاً- ثُمَّ أَعَادَ الْيُسْرَى فِي الْإِنَاءِ- فَأَسْدَلَهَا عَلَى الْيُمْنَى ثُمَّ مَسَحَ جَوَانِبَهَا- ثُمَّ أَعَادَ الْيُمْنَى فِي الْإِنَاءِ- ثُمَّ صَبَّهَا عَلَى الْيُسْرَى فَصَنَعَ بِهَا كَمَا صَنَعَ بِالْيُمْنَى- ثُمَّ مَسَحَ بِبِلَّةِ مَا بَقِيَ فِي يَدَيْهِ رَأْسَهُ وَ رِجْلَيْهِ- وَ لَمْ يُعِدْهُمَا فِي الْإِنَاءِ .”“حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نےہمیں رسول خداﷺ کے وضو کا طریقہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ ؐ نے پانی کا ایک برتن منگوایا اس میں اپنا داہنا ہاتھ ڈال کر چلو بھر پانی اٹھایا پھر اسے اپنے چہرہ مبارک پر اوپر کی جانب سے ڈالا پھر چہرے کی دونوں طرف ہاتھ پھیر ا، اس کے بعد باہنے داتھ کو برتن میں ڈالا اور پانی نکال کر دائیں ہاتھ پر ڈالا پھر ہاتھ کے اطراف پر پھیرا، اس کے بعد دائیں ہاتھ کو برتن میں ڈالا اور پانی نکال کر بائیں ہاتھ پر ڈالا اور وہی عمل دہرایا جو دائیں ہاتھ پر انجام دیا تھا، اس کے بعد ہاتھوں کو دوبارہ برتن میں ڈالے بغیر اسی باقیماندہ تری کے ساتھ اپنے سر اور پاؤں کا مسح کیا۔”(۳۵)

یہ روایت کہہ رہی ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے چہرے پر اوپر کی جانب سے پانی ڈالا۔

٭ ۲ ۔ اصالہ اشتغال(۳۶) کے ذریعےکہ : اگر نیچے سے اوپر کی طرف دھویا جائے تو عمل سے بریٔ الذمہ ہونے کا یقین حاصل نہیں ہوتا۔

۴ ۔ دونوں ہاتھوں کا مذکورہ مقدار میں دھوناضروری ہونے کی دلیل: آیت وضو اس حکم کا تقاضا کرتی ہے۔

۵ ۔ ہاتھوں کابرعکس دھونا جائز نہ ہوناتقریباً شیعوں کی خاص علامتوں میں سے ہے ۔سید مرتضی ؒاور ابن ادریس ؒ(۳۷) کے علاوہ کسی شیعہ فقیہ کی طرف اس حکم کی مخالفت کی نسبت نہیں دی گئی ہے ۔

اس حکم کو وضو کا طریقہ بیان کرنے والی بعض روایات سے سمجھا جاسکتا ہے۔ مثلا:

“...ثُمَّ غَمَسَ كَفَّهُ الْيُسْرَى فَغَرَفَ بِهَا غُرْفَةً فَأَفْرَغَ عَلَى ذِرَاعِهِ الْيُمْنَى- فَغَسَلَ بِهَا ذِرَاعَهُ مِنَ الْمِرْفَقِ إِلَى الْكَفِّ- لَا يَرُدُّهَا إِلَى الْمِرْفَق‏...”، “۔۔۔پھربائیں ہاتھ کو کلائیوں تک پانی میں ڈبو کر چلو بھر پانی اٹھایا اور اسے دائیں ہاتھ پر ڈالا، پھر ہاتھ کو کہنیوں سے کلائیوں تک دھویا اور دھوتے وقت ہاتھ کودوبارہ کہنیوں کی طرف لے کر نہیں گیا۔”(۳۸)

اس روایت میں ہاتھ کو دوبارہ کہنیوں کی طرف نہ لے جانے پر ہونے والی تاکیدسے سمجھا جا سکتا ہے کہ ہاتھوں کا برعکس دھونا جائز نہیں ہے۔

اگر یہ کہا جائے کہ : آیت مجیدہ میں “الی” کی تعبیر اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ برعکس دھونا ہی شرعی طریقہ ہے ؛لہذا جو بات آیت کے خلاف ہوگی وہ قابل قبول نہیں ہوگی۔

تو اس کا جواب یہ ہے کہ: مندرجہ بالا بات اس وقت صحیح ہوگی جب جار و مجرور“الی ...” کا متعلق “فاغسلوا ” ہو، تاکہ دھونے کی انتہائی مقدار بیان ہو جائے؛ لیکن اگر “الی” لفظ “ایدیکم ” کے لئے قید ہو ؛ کیونکہ مطلَقاً ہاتھ کہنے سے ہاتھ کے کئی مصادیق ہو سکتے ہیں، تو اس صورت میں “الی ” کے ذریعے ہاتھ کی وہ مقداربیان کرنا مراد ہوگا جس کا دھونا واجب ہے۔ مثلا یہ کہا جائے کہ “دیوار کو چھت تک رنگین کرو۔”

جو بات ہماری دلیل کی تائید کرتی ہے وہ یہ کہ اگر “الی ” کا متعلق “فاغسلوا ” ہوتا تو آیت مجیدہ کی دلالت ، برعکس دھونا واجب ہونے پر ہوتی؛ جبکہ واجب ہونے کا کوئی قائل نہیں ہے۔

۶ ۔دائیں ہاتھ کا پہلے دھوناضروری ہونے کی دلیل: فقہاء کے درمیان یہ متفق علیہ حکم ہے۔ اس پرحضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی منصور بن حازم کی صحیح روایت اور دوسری روایات دلالت کرتی ہیں:

الرَّجُلِ يَتَوَضَّأُ فَيَبْدَأُ بِالشِّمَالِ قَبْلَ الْيَمِينِِ،ِ قَالَ: يَغْسِلُ الْيَمِينَ وَ يُعِيدُ الْيَسَارَ .”“ایک آدمی، وضو کرتے وقت، پہلے بائیں ہاتھ کو دھوتا ہے پھر دائیں ہاتھ کو ۔ امام ؑ نے فرمایا:وہ دائیں ہاتھ کو دھوئے گا پھر بائیں ہاتھ کو دوبارہ دھوئے گا۔”(۳۹)

جیسا کہ واضح ہے کہ اگر دونوں ہاتھوں کو ایک ساتھ دھونا جائز ہوتا تو مندرجہ بالا روایت سمیت دوسری روایات ،اس سے منع نہیں کرتیں۔

۷ ۔ سر کے اگلے حصے پر مسح کرنا ضروری ہونا بھی متفق علیہ حکم ہے۔ اگرچہ آیت مجیدہ کا اطلاق ، سر کے کسی بھی حصے پر مسح کرنا صحیح ہونے پر دلالت کرتاہے ؛ لیکن اس اطلاق کے لئے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی محمد بن مسلم کی صحیح روایت تقیید بن رہی ہے:“امْسَحِ الرَّأْسَ عَلَى مُقَدَّمِهِ .”“سر کا مسح اس کے اگلے حصے پرکرو ۔”(۴۰)

اورجو روایات سر کے پچھلے حصے پر مسح کے جائز ہونے پر دلالت کرتی ہیں(۴۱) جب فقہاء نے ان کے مشتملات سے دوری اختیار کرتے ہوئے کسی ایک نے بھی ان کے مطابق فتویٰ نہیں دیا تو ان روایات کو تقیہ یا کسی اور وجہ پر حمل کرنا چاہئے۔

۸ ۔ مسمائے مسح کے کافی ہونے کو ثابت کرنے کے لئے آیت مجیدہ کا اطلاق ہی کافی ہے؛ کیونکہ “برءوسکم” کی “ب” سر کے بعض حصے کا مسح کرنا واجب ہونے پر دلالت کرتی ہے۔اس دلالت کے لئے کوئی اورشرط و قید موجودنہیں ہے؛ لہذا اطلاق کی وجہ سے مسمائے مسح کا کافی ہونا ثابت ہوتا ہے۔

علاوہ از ایں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی زراہ اور بکیر کی صحیح روایت کہہ رہی ہے کہ:

“...وَ إِذَا مَسَحْتَ بِشَيْ‏ءٍ مِنْ رَأْسِكَ أَوْ بِشَيْ‏ءٍ مِنْ قَدَمَيْكَ مَا بَيْنَ كَعْبَيْكَ إِلَى أَطْرَافِ الْأَصَابِعِ فَقَدْ أَجْزَأَكَ .”“جب تو نے اپنے سر کے ایک حصے کا یا پاؤں کی انگلیوں اور ٹخنوں تک کے درمیانی حصے کا مسح کر لیا تو یہی کافی ہے۔”(۴۲)

اس روایت کے ساتھ دوسری بعض روایات بھی اسی حکم پر واضح دلالت کر رہی ہیں۔( کہ مسمائے مسح یعنی اتنی مقدار جسے مسح کہا جائے ، کافی ہے۔)

یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ جس بات کے بعض اہل سنت قائل ہیں کہ پورے سر کا یہاں تک کہ کانوں کا بھی مسح کرلینا چاہئے ، اس کے صحیح ہونے پر کوئی دلیل نہیں ہے۔(۴۳)

۹ ۔ دونوں پاؤں کا دھونا ضروری نہیں بلکہ اہل سنت کی روش کے خلاف(۴۴) مسح کرنا واجب ہونے پر قرآن مجید کی واضح دلالت ہے؛ کیونکہ قرائتوں کے اختلاف کے ساتھ “ارجل”(۴۵) ،کا عطف “رءوسکم” کے لفظ پر ہے یا اس کے محل پر؛ دونوں صورتوں میں صرف مسح کا واجب ہونا ثابت ہوتا ہے۔

اگر یہ دعویٰ کیا جائے کہ : کلمہ “ارجل” ،کا عطف “وجوهکم ” پر کیا گیا ہے ؛ لہذا پاؤں کا دھونا واجب ہے ۔ نیز “ارجلکم” کو “جحر ضبٍ خربٍ” کی طرح پہلے والے مکسور کلمےکی مجاورت اور مصاحبت کی وجہ سے مکسور پڑھا گیا ہے۔

تو اس کا جواب یہ ہے کہ : چونکہ معطوف “ارجلکم” اور معطوف علیہ “وجوهکم ” کے درمیان اجنبی الفاظ کا طویل فاصلہ آیا ہے؛ لہذا ادب کے ذوق سلیم پر اس طرح کا عطف ناگوار گزرتا ہےاوروہ اس عطف کو نہیں مانتا۔

۱۰ ۔ پاؤں کے مسح میں ٹخنوں کو داخل کئے بغیر ابھار تک ہی مسح کا واجب ہونا،یا تو اس لئے ہے کہ غایت ( مسح)مغییٰ (ابھار) میں داخل نہیں ہوتی ،یا زرارہ اور بکیر کی صحیح روایت کی وہ سے ہے جو مسمائے مسح میں گزر چکی ہے۔

۱۱ ۔ پاؤں کے مسح میں چوڑائی کے اعتبار سے مسمائے مسح کے کافی ہونے پر آیہ وضو دلالت کرتی ہے۔بشرطیکہ “ارجلکم” کو “مجرور” پڑھا جائے؛ کیونکہ اس صورت میں“ب” کو پوشیدہ مانا جاتا ہے ۔(جوبعض پر دلالت کرتی ہے) بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ محل پر عطف کرتے ہوئے“نصب” دینے کی صورت میں بھی آیت ، اسی حکم پر دلالت کرتی ہے۔

۱۲ ۔ دایاں پاؤں کا دائیں ہاتھ سے اور بایاں پاؤں کا بائیں ہاتھ سے مسح کرنا ضروری ہونا، زرارہ کی صحیح روایت کی وجہ سے ہےجو ذیل میں بیان ہوگی۔

۱۳ ۔ پہلے دائیں پاؤں کا مسح کرنا ضروری ہونے پر حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی محمد بن مسلم کی یہ صحیح روایت دلالت کرتی ہے:

امْسَحْ عَلَى الْقَدَمَيْنِ وَ ابْدَأْ بِالشِّقِّ الْأَيْمَنِ .” “دونوں پاؤں کا مسح کروجبکہ ابتداء دایاں پاؤں سے کرو۔”(۴۶)

۱۴ ۔ سر اور پاؤں کے مسح میں برعکس مسح کرنا جائز ہونے کی دلیل، آیت مجیدہ کا اطلاق ہے۔

جبکہ پاؤں کے مسح میں اس اطلاق کی تائید کے لئے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی حماد بن عثمان کی صحیح روایت بھی ہےکہ آپ نے فرمایا:

لَا بَأْسَ بِمَسْحِ الْقَدَمَيْنِ مُقْبِلًا وَ مُدْبِراً .”“پاؤں کا مسح اوپر سے نیچے کی طرف کیا جائے یا نیچے سے اوپر کی طرف، کوئی اشکال نہیں ہے ۔”(۴۷)

۱۵ ۔ وضو کی تری سے سر اور پاؤں کا مسح کرنا ضروری ہونے پربعض روایات دلالت کرتی ہیں جن میں سے ایک حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی زرارہ کی صحیح روایت ہے، جس میں آپ فرماتے ہیں:

“...وَ تَمْسَحُ بِبِلَّةِ يُمْنَاكَ نَاصِيَتَكَ، وَ مَا بَقِيَ مِنْ بِلَّةِ يُمْنَاكَ ظَهْرَ قَدَمِكَ الْيُمْنَى وَ تَمْسَحُ بِبِلَّةِ يُسْرَاكَ ظَهْرَ قَدَمِكَ الْيُسْرَى .”“۔۔۔ اور تمہارے دائیں ہاتھ کی تری سے سر کے اگلے حصے کا اور اسی کی باقیماندہ تری سے دایاں پاؤں کی پشت کا مسح کروگے اور بائیں ہاتھ کی تری سے بایاں پاؤں کی پشت کا مسح کروگے۔”(۴۸)

وضو کی شرائط:

وضو میں چند چیزیں ضروری ہیں:

۱ ۔ نیت: اس معنی میں کہ فعل کی انجام دہی، اللہ تعالیٰ کے امر کو بجالانے کے ارادے سے ہو؛

۲ ۔ پانی کا پاک ہونا،

۳ ۔ پانی کا مباح ہونا،

۴ ۔ پانی کا مطلق ہونا،

۵ ۔ ترتیب،

۶ ۔ موالات،(۴۹)

۷ ۔ مکلف خود وضو کرے۔

مشہورقول کے مطابق ضروری ہے کہ اعضائے وضو پاک ہوں اور مکلف کے لئے،پانی کے استعمال میں، شرعاًکوئی رکاوٹ نہ ہو۔

دلائل:

۱ ۔ فعل کی انجام دہی، اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کے ارادے سے ہونااس لئے ضروری ہے کہ یہ ہر عبادت کا لازمہ ہے۔ یہاں سے واضح ہوتا ہے کہ ریا یعنی دکھاوا، وضو سمیت ہر عبادی عمل کو کیوں باطل کرتا ہے ؛ بلکہ ریا، گناہان کبیرہ میں سے ہے ؛کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو شریک جاننا ہے۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے :

لَوْ أَنَّ عَبْداً عَمِلَ عَمَلًا يَطْلُبُ بِهِ وَجْهَ اللَّهِ وَ الدَّارَ الْآخِرَةَ وَ أَدْخَلَ فِيهِ رِضَى أَحَدٍ مِنَ النَّاسِ كَانَ مُشْرِكا .”“اگر کوئی بندہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی چاہتے ہوئے اور جنت میں داخل ہونے کے لئے کوئی عمل انجام دے اور لوگوں میں سے کسی کی خوشنودی بھی اس میں شامل کرلے تو وہ بندہ مشرک ہے۔”(۵۰)

شرک حرام ہے اور حرام کا لازمہ اس عمل کا باطل ہونا ہے۔

رسول خدا ﷺ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ:

سُئِلَ فِيمَا النَّجَاةُ غَداً، فَقَالَ: إِنَّمَا النَّجَاةُ فِي أَنْ لَا تُخَادِعُوا اللَّهَ فَيَخْدَعَكُمْ فَإِنَّهُ مَنْ يُخَادِعِ اللَّهَ يَخْدَعْهُ وَ يَخْلَعْ مِنْهُ الْإِيمَانَ، وَ نَفْسَهُ يَخْدَعُ لَوْ يَشْعُرُ. قِيلَ لَهُ: فَكَيْفَ يُخَادِعُ اللَّهَ؟ قَالَ يَعْمَلُ بِمَا أَمَرَهُ اللَّهُ ثُمَّ يُرِيدُ بِهِ غَيْرَهُ، فَاتَّقُوا اللَّهَ فِي الرِّيَاءِ فَإِنَّهُ الشِّرْكُ بِاللَّهِ. إِنَّ الْمُرَائِيَ يُدْعَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِأَرْبَعَةِ أَسْمَاءٍ: يَا كَافِرُ يَا فَاجِرُ يَا غَادِرُ يَا خَاسِرُ، حَبِطَ عَمَلُكَ وَ بَطَلَ أَجْرُكَ، فَلَا خَلَاصَ لَكَ الْيَوْمَ فَالْتَمِسْ أَجْرَكَ مِمَّنْ كُنْتَ تَعْمَلُ لَهُ .”“پیغمبر اکرم ﷺ سے سوال کیا گیا کہ قیامت کے دن کی نجات کس چیز میں ہے ؟ آپ ؐ نے فرمایا: تمہاری نجات اللہ تعالیٰ کو دھوکہ نہ دینے میں ہے؛ ورنہ اللہ تمہیں دھوکہ دے گا۔ جو شخص اللہ کو دھوکہ دیتا ہے، اللہ بھی اسے دھوکہ دیتا اور اس کا ایمان چھین لیتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو دھوکہ دیتا ہے حالانکہ اسے اس کا شعور نہیں ہے۔ پوچھا گیا کہ اللہ کو کس طرح دھوکہ دیا جاتا ہے؟ فرمایا: اللہ کے فرمان کے مطابق عمل کیا جاتا ہے پھر اس عمل کے ذریعے لوگوں کی خوشنودی کا بھی ارادہ کیا جاتا ہے۔ پس تم لوگ دکھاوے کے سلسلے میں اللہ کا تقویٰ اختیار کرو!؛ کیونکہ یہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک جاننا ہے۔ ریاکار کو قیامت کے دن چار ناموں کے ساتھ پکارا جائے گا: اے کافر!، اے فاجر! اے غادر! (دھوکہ باز) اور اے خاسر! (نقصان اٹھانے والا)تیرا عمل حبط (ختم) ہو گیا اور تیرا اجر ضائع ہو گیا! آج کوئی چارہ نہیں ہے ۔جا! اور جس کے لئے عمل انجام دیتا رہا ہے اسی سے اس کی جزا مانگ۔ ”(۵۱)

رہا یہ سوال کہ وضو کس طرح واجب تعبدی میں سے شمار ہوتا ہے؟

اس کی وجہ یہ ہے کہ وضو کے بارے میں شریعت کے تمام پیروکاروں کا،خواہ چھوٹے ہوں یا بڑے، مرد ہوں یا عورت، ارتکاز ذہنی یہی ہے کہ وضو ایک عبادت ہے۔ اس ذہنی ارتکاز کے بارے میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ خود بخود وجود میں آیا ہے؛ کیونکہ کسی بھی معلول کا،علت کے بغیر،وجود میں آنا محال ہے۔پس اس ارتکاز کی علت اس کے سواکچھ نہیں ہو سکتا کہ یہ بات معصوم ؑ سے دست بدست ان تک پہنچی ہے۔

۲ ۔ پانی کاپاک ہونا ضروری ہونے پر بہت ساری متواتر روایات دلالت کرتی ہیں۔ انہی میں سے ایک حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سےمروی سماعۃ کی موثق روایت ہے :

سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ عهیو السلام عَنْ رَجُلٍ مَعَهُ إِنَاءَانِ فِيهِمَا مَاءٌ وَقَعَ فِي أَحَدِهِمَا قَذَرٌ، لَا يَدْرِي أَيُّهُمَا هُوَ، وَ لَيْسَ يَقْدِرُ عَلَى مَاءٍ غَيْرِهِ، قَالَ: يُهَرِيقُهُمَا جَمِيعاً وَ يَتَيَمَّمُ .”“میں نے حضرت امام جعفر صادق عرض کیا :ایک شخص کے پاس موجود پانی کے دو برتنوں میں سے ایک برتن میں کوئی نجاست گری ہے اور اسے نہیں معلوم کہ کس برتن میں گری ہے۔ انہی برتنوں کے پانی کے علاوہ اس کی دسترس میں پانی نہیں ہے۔ امام ؑ نے فرمایا: دونوں برتنوں کا پانی گرایا جائے گا اور تیمم کرے گا۔”(۵۲)

۳ ۔پانی کامباح ہونا اس لئے ضروری ہے کہ اگر پانی مباح نہ ہو تواس کا وضو کرنا ایک غصبی اورحرام فعل ہو تا ہے۔ نتیجتاً اسے عبادت نہیں کہا جا سکتا۔

۴ ۔ پانی کامطلق ہونا ضروری ہونے پر مندرجہ ذیل آیت مجیدہ کے اطلاق سے استدلال کیا جا سکتا ہے :

( ...فَلَمْ تجَِدُواْ مَاءً فَتَيَمَّمُواْ صَعِيدًا طَيِّبًا ) ، “۔۔۔اور تمہیں پانی میسرنہ آئے تو پاک مٹی پر تیمم کرو۔”(۵۳)

۵ ۔وضو میں ترتیب شرط ہونے پر بعض روایات دلالت کرتی ہیں ۔ منجملہ: زرارہ کی یہ صحیح روایت :

سُئِلَ أَحَدُهُمَا علیهما السلام عَنْ رَجُلٍ بَدَأَ بِيَدِهِ قَبْلَ وَجْهِهِ، وَ بِرِجْلَيْهِ قَبْلَ يَدَيْهِ. قَالَ: يَبْدَأُ بِمَا بَدَأَ اللَّهُ بِهِ وَ لْيُعِدْ مَا كَانَ .” “دو اماموں (حضرت امام محمد باقر یا حضرت امام جعفر صادق علیہما السلام) میں سے ایک سے کسی ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا گیا جس نے چہرے کو دھونے سے پہلے ہاتھوں کو دھویا اور ہاتھوں کو دھونے سے پہلے پاؤں کا مسح کر لیا تھا۔ امام ؑ نے فرمایا:جس طرح خدا نے فرمایا ہے اسی ترتیب سے شروع کرنا چاہئے اور جو پہلے بجا لایا ہے اس کا اعادہ کرنا چاہئے۔”(۵۴)

جیسا کہ واضح ہے: یہ روایت دائیں ہاتھ کو پہلے دھونا ضروری ہونے پر دلالت نہیں کررہی ہے ؛ لیکن منصور بن حازم کی گزشتہ روایت(۵۵) سے اس شرط پر استدلال کیا جا سکتا ہے۔

۶ ۔موالات شرط ہونے کی دلیل: اگرچہ آیت مجیدہ کے اطلاق کا تقاضا ، موالات کا شرط نہ ہونا ہے ؛ لیکن معاویہ کی صحیح روایت اس کے شرط ہونےپر دلالت کر رہی ہے:

قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام:رُبَّمَا تَوَضَّأْتُ فَنَفِدَ الْمَاءُ فَدَعَوْتُ الْجَارِيَةَ فَأَبْطَأَتْ عَلَيَّ بِالْمَاءِ فَيَجِفُّ وَضُوئِي، فَقَالَ: أَعِدْ .”“میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے عرض کیا کہ: وضو کرتے ہوئے جب میرے پاس پانی ختم ہوجائے تو میں کنیز کو پانی لانے کے لئے بلاتا ہوں؛تووہ پانی لانے میں دیر کرے اور میرے وہ اعضاء، جنہیں دھو چکا ہوں، خشک ہو جائیں (تو) امام ؑ نے فرمایا: اعادہ کرو۔”(۵۶)

یہ روایت کہہ رہی ہے کہ موالات شرط ہے ؛ اس معنی میں کہ اعضائے وضو ( وضو کے دوران ) خشک نہ ہو جائیں۔

۷ ۔براہ راست وضو کرنا ضروری ہونے کو آیت وضو سے ہی سمجھا جا سکتا ہے ؛ کیونکہ ظاہرِ آیت ،جس فاعل کےوجود پر دلالت کررہا ہے اس کی طرف وضو کے فعل کی نسبت دینا، تب صحیح ہے جب وہ براہ راست اس فعل کو انجام دے۔

۸ ۔ اعضائے وضو کے پاک ہونے کی شرط مشہور فقہاء نے لگائی ہے جبکہ اس پرکوئی دلیل نہیں ہے سوائے اس کے کہ :

ا۔وضو کا قیاس غسل جنابت پر کیا جائے کیونکہ غسل جنابت میں زرارہ کی صحیح روایت(۵۷) دلالت کر رہی ہے کہ جو اعضاء نجس ہو گئے ہیں انہیں غسل سے پہلے دھونا ضروری ہے ۔

۲ ۔یا یہ کہا جائے کہ اعضائے وضو کا نجس ہونا ، وضو کے پانی کے نجس ہونے کا سبب بنتا ہے ؛ لہذا وضو سے پہلے دھونا ضروری ہے۔

جبکہ دونوں دلیلیں قابل تامل ہیں:

پہلی دلیل کے قیاس مع الفارق ہونے کا احتمال ہے ۔( کہ ممکن ہے وضو اور غسل کے احکام میں فرق ہوں۔)

دوسری دلیل پر اشکال یہ ہے کہ بعض حالات میں اعضائے وضو کے نجس ہوتے ہوئے بھی وضو کے پانی کا نجس نہ ہونا ممکن ہے ۔ مثلا :کثیر پانی سے ارتماسی وضو کرلیا جائے ۔ یا اس فرضیہ کی بنا پر کہ نجس چیز کے پاک ہونے سے اس کا دھووَن بھی پاک ہوجاتا ہے۔

بنابرایں جب اعضائے وضو کا نجس ہونا ، وضو کے پانی کے نجس ہونے کا باعث نہ بنے تو وضو سے پہلے اعضاء کے پاک ہونے کی شرط لگانابلا دلیل ہے۔

۹ ۔پانی کے استعمال میں کوئی رکاوٹ نہ ہونے کی شرط پیاس کی حالت میں پوری ہو سکتی ہے۔ جس پر حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی حلبی کی صحیح روایت دلالت کر تی ہے :

الْجُنُبُ يَكُونُ مَعَهُ الْمَاءُ الْقَلِيلُ فَإِنْ هُوَ اغْتَسَلَ بِهِ خَافَ الْعَطَشَ. أَ يَغْتَسِلُ بِهِ أَوْ يَتَيَمَّمُ؟ فَقَالَ: بَلْ يَتَيَمَّمُ، وَ كَذَلِكَ إِذَا أَرَادَ الْوُضُوءَ .” “کسی مجنب شخص کے پاس تھوڑا پانی موجود ہے اگر اس سے وہ غسل کرلے تو اسے پیاس کا خوف ہے۔ وہ غسل کرے گا یا تیمم؟ امام ؑ نے فرمایا:وہ تیمم کرے گا، اسی طرح وہ اگر وضو کرنا چاہے (تو وضو نہیں کرے گا بلکہ اس کے بدلے تیمم کرے گا)”(۵۸)

یہ روایت اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ وضو کاحکم یہاں سے اٹھالیا گیا ہے ۔ ایسی صورت میں وضو کیا جائے تو اس وضو کو صحیح نہیں سمجھا جائے گا ؛ نہ ہی:امر( حکم) کے ذریعے ؛ کیونکہ روایت کے مطابق یہاں پر امر موجود نہیں ہے؛اور نہ ملاک(وضو میں موجود مصلحت) کے ذریعے؛ کیونکہ ہمارے پاس ، اس وضو میں مصلحت ہونے کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔

مبطلات وضو:

کچھ چیزیں وضو کو باطل کردیتی ہیں:

۱ ۔ پیشاب،

۲ ۔ پاخانہ،

۳ ۔ معدے کی ہوا،

۴ ۔ نیند،

۵ ۔ ہر وہ چیز جو عقل کو زائل کر دے،

۶ ۔ استحاضۂ قلیلہ، متوسطہ اور کثیرہ،

۷ ۔ جنابت۔

استبراء کرنے سے پہلے خارج ہو نے والی رطوبت اور تری بھی پیشاب کے حکم میں ہے۔

دلائل:

۱ ۔ پہلی چار چیزوں کے ذریعے وضوکاباطل ہونا،فقہاء کے درمیان متفق علیہ حکم ہے اور زرارہ کی صحیح روایت سے بھی یہی حکم ثابت ہوتا ہے :

قُلْتُ لِأَبِي جَعْفَرٍ وَ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ علیهما السلام: مَا يُنْقِضُ الْوُضُوءَ؟ فَقَالا: مَا يَخْرُجُ مِنْ طَرَفَيْكَ الْأَسْفَلَيْنِ مِنَ الذَّكَرِ وَ الدُّبُرِ مِنَ الْغَائِطِ وَ الْبَوْلِ أَوْ مَنِيٍّ أَوْ رِيحٍ وَ النَّوْمُ حَتَّى يُذْهِبَ الْعَقْل ...”“میں نے حضرت امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہما السلام سے عرض کیا کہ کونسی چیز وضو کو باطل کر دیتی ہے؟ انہوں نے فرمایا: جو چیزیں آلۂ تناسل اور مقعد سے خارج ہوتی ہیں۔جیسے: پاخانہ، پیشاب، منی یا ہوا۔ نیز ایسی نیند جو عقل کو زائل کر ے۔”(۵۹)

اس کے علاوہ بھی بہت ساری روایات اسی بات پر دلالت کرتی ہیں۔

۲ ۔ عقل کو زائل کرنے والی چیزوں کے ذریعے وضو کے باطل ہونابھی فقہاء کےدرمیان متفق علیہ مسئلہ ہے اور مندرجہ بالا صحیح روایت کے آخری جملے سے یہی حکم سمجھا جا سکتا ہے ۔

۳ ۔ استحاضہ قلیلہ کے ذریعے وضو کا باطل ہونا اس روایت کی وجہ سے ہے جو معاویہ بن عمار نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کی ہے:

“...وَ إِنْ كَانَ الدَّمُ لَا يَثْقُبُ الْكُرْسُفَ تَوَضَّأَتْ وَ دَخَلَتِ الْمَسْجِدَ وَ صَلَّتْ كُلَّ صَلَاةٍ بِوُضُوء” “اگر خون روئی کے( ظاہری حصے کو لگے اور) اندر سرایت نہ کرے تو یہ عورت وضو کرے گی اور مسجد میں داخل ہو سکے گی اور ہر نماز کے لئے وضو کرے گی۔”(۶۰)

استحاضہ متوسطہ کے ذریعے وضو کے باطل ہونے پر حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی سماعہ کی موثق روایت دلالت کرتی ہے :

الْمُسْتَحَاضَةُ إِذَا ثَقَبَ الدَّمُ الْكُرْسُفَ اغْتَسَلَتْ لِكُلِّ صَلَاتَيْنِ وَ لِلْفَجْرِ غُسْلًا، وَ إِنْ لَمْ يَجُزِ الدَّمُ الْكُرْسُفَ فَعَلَيْهَا الْغُسْلُ لِكُلِّ يَوْمٍ مَرَّةً وَ الْوُضُوءُ لِكُلِّ صَلَاةٍ ...”“مستحاضہ کا خون اگر روئی کے اندر سرایت کرجائے تو وہ ہر دو نمازوں کے لئے ایک غسل اور صبح کی نماز کے لئے ایک غسل کرے گی ، اگر روئی کے اندر سرایت نہ کرے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ پورے ایک دن کے لئے ایک غسل اور ہر نماز کے لئے وضو کرے۔”(۶۱)

جبکہ استحاضہ کثیرہ میں کہا جا سکتا ہے کہ اس عورت پر وضو کرنا ضروری نہیں؛ بلکہ اس پر تین بار غسل کرنا ضروری ہے جیسا کہ اس حکم پر مذکورہ موثقہ روایت واضح طور پر دلالت کر رہی ہے۔

رہا یہ سوال کہ کیا مستحاضہ کثیرہ کا وضو بھی باطل ہوتا ہے ؟ تو اس حکم کا بطریق اولیٰ ثابت ہونا بعید نہیں ہے؛ کیونکہ جب استحاضہ قلیلہ اور متوسطہ کی وجہ سے وضو باطل ہوتا ہے تو کثیرہ کی وجہ سے بطریق اولیٰ باطل ہوگا۔البتہ کثیرہ پر دوبارہ وضو کرنا ضروری نہیں ہے ؛ کیونکہ اس کا غسل ہی اسے دوبارہ وضو کرنے سے بے نیاز کرتا ہے۔ اگر چہ احتیاط کرنا بہتر ہے ؛ بلکہ مشہور حکم کی مخالفت سے بچتے ہوئے احتیاط کرناضروری ہے۔

۴ ۔ منی خارج ہونے سے وضو کا باطل ہونازرارہ کی گزشتہ روایت صحیحہ کی وجہ سے ہے۔

جماع کی وجہ سے وضو کے باطل ہونے پر ابو مریم کی روایت صحیحہ دلالت کررہی ہے کہ:

قُلْتُ لِأَبِي جَعْفَرٍ علیه السلام: مَا تَقُولُ فِي الرَّجُلِ يَتَوَضَّأُ ثُمَّ يَدْعُو جَارِيَتَهُ فَتَأْخُذُ بِيَدِهِ حَتَّى يَنْتَهِيَ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَإِنَّ مَنْ عِنْدَنَا يَزْعُمُونَ أَنَّهَا الْمُلَامَسَةُ، فَقَالَ: لَا وَ اللَّهِ، مَا بِذَلِكَ بَأْسٌ، وَ رُبَّمَا فَعَلْتُهُ، وَ مَا يُعْنَى بِهَذَا”أَوْ لامَسْتُمُ النِّساءَ(۶۲) إِلَّا الْمُوَاقَعَةُ فِي الْفَرْج .”“میں نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے عرض کیا: اس شخص کے بارے میں آپ ؑ کیا فرماتے ہیں جو وضو کرنے کے بعد اپنی کنیز کو بلاتا ہے اور کنیز اس کا ہاتھ پکڑتی ہے یہاں تک کہ دونوںمسجد پہنچ جاتے ہیں، ہمارے ہاں بعض لوگ اس کو ملامسہ(جماع) سمجھتے ہیں؟ فرمایا: بخدا ایسا نہیں ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ ممکن ہے کبھی میں نے بھی ایسا کیا ہو، “أَوْ لامَسْتُمُ النِّساءَ ” کا مطلب یہ نہیں ہے ؛ بلکہ عورت کی شرمگاہ میں دخول کرنا ہے۔”(۶۳)

۵ ۔ استبراء سے پہلے خارج ہونے والی مشتبہ رطوبت ،پیشاب کا حکم رکھتی ہے اس کی دلیل وہ روایات ہیں جو مشتبہ رطوبت کی وجہ سے طہارت کے ٹوٹنے یااس رطوبت کے پیشاب ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ جیسےمحمد بن مسلم کی صحیح روایت کا مفہوم ( لازمہ):

قُلْتُ لِأَبِي جَعْفَرٍ علیه السلام: رَجُلٌ بَالَ وَ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ مَاءٌ. قَالَ: يَعْصِرُ أَصْلَ ذَكَرِهِ إِلَى طَرَفِهِ‏ ثَلَاثَ عَصَرَاتٍ، وَ يَنْتُرُ طَرَفَهُ، فَإِنْ خَرَجَ بَعْدَ ذَلِكَ شَيْ‏ءٌ فَلَيْسَ مِنَ الْبَوْلِ وَ لَكِنَّهُ مِنَ الْحَبَائِلِ .” “میں نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے عرض کیا: ایک شخص پیشاب کرتا ہے ؛ جبکہ اس کے پاس پانی نہیں ہے۔ امام ؑ نے فرمایا: وہ اپنے آلہ تناسل کو جڑ سے سرے تک تین مرتبہ سونتے گا اور اسے جھٹکے گا پھر اس کے بعد بھی کوئی چیز نکلے تو وہ پیشاب نہیں بلکہ حبائل(۶۴) میں سے ہے ۔”(۶۵)

اسباب وضو:

مندرجہ ذیل اعمال کے لئے وضو کرنا واجب ہے:

۱ ۔ نماز میت کے علاوہ تمام واجب نمازیں ،

۲ ۔ نماز کے بھولے ہوئے اجزاء ،

۳ ۔ نماز احتیاط،

۴ ۔ واجب طواف کی نماز،

۵ ۔ نذر اور اس کے دوساتھی: عہد اور قسم۔

دلائل:

۱ ۔واجب نمازوں کے لئے وضو کے واجب ہونے کی دلیل: اس حکم پر آیت وضو(۶۶) دلالت کرتی ہے نیز وہ احادیث اور روایات جن کا ماحصل یہ ہے کہ: “لَا صَلَاةَ إِلَّا بِطَهُورٍ .”“طہارت کے بغیر نماز نہیں ہو سکتی۔”(۶۷)

۲ ۔ نماز میت کے لئے وضو کے واجب نہ ہونے کی دلیل،نماز میت کی بحث میں بیان ہوگی۔

۳ ۔ نماز کے بھولے ہوئے اجزاء اور نماز احتیاط کے لئے وضو کے واجب ہونے پر علی ابن جعفر کی صحیح روایت دلالت کرتی ہے ۔ اس روایت کو انہوں نے اپنے برادر گرامی حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سے نقل کیا ہے:

“...وَ سَأَلْتُهُ عَنْ رَجُلٍ طَافَ ثُمَّ ذَكَرَ أَنَّهُ عَلَى غَيْرِ وُضُوءٍ. قَالَ: يَقْطَعُ طَوَافَهُ وَ لَا يَعْتَدُّ بِهِ. ”“میں نے امام ؑ سے ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا جس نےطواف (کرنا شروع) کیا پھر یاد آیا کہ وہ وضو سے نہیں تھا۔ امام ؑ نے فرمایا: وہ اپنے طواف کو توڑ دے گا اور جو کچھ بجا لایا ہے اس کوشمارنہیں کرے گا۔”(۶۸)

۵ ۔ نذر وغیرہ کی وجہ سے وضو کے واجب ہونے کی وجہ یہ ہے کہ نذر و عہد وغیرہ کو پورا کرنا واجب ہے؛ لہذا اگر وضو کرنے کی نذر مانی ہو تو اس نذر کو بھی پورا کرنا واجب ہوجاتا ہے۔

وضو کے خصوصی احکام:

جس شخص کو حدث کا یقین ہو اور طہارت میں شک ہو یا اس کے برعکس ( کہ طہارت کا یقین ہو اور حدث میں شک ہو ) تو وہ پہلے والی حالت پر بنا رکھے گا۔

جوشخص نماز پڑھنے کے بعد طہارت میں شک کرے تو وہ اسی نماز کو صحیح سمجھے گا جبکہ بعد والی نمازوں کے لئے وضو کرے گا۔

جو شخص نماز کے دوران طہارت میں شک کرے اوروہ بظاہر محکوم بطہارت بھی نہ ہو تو وہ نماز کو توڑ دے گا اور وضو کرنے کے بعد اسے دوبارہ بجالائے گا۔

جس شخص کو وضو کرنے سے پہلے یا وضو کے دوران موجودہ شیء کے رکاوٹ بننے یا کسی رکاوٹ کی موجودگی کے بارے میں شک ہو تو ضروری ہے کہ رکاوٹ کے برطرف ہونے یا وضو سے پہلے کسی رکاوٹ کے نہ ہونے کا یقین یا اطمینان حاصل کرے ؛ لیکن اگر وضو کے بعد شک ہو تو وضو صحیح سمجھا جائے۔

جو شخص وضو کرے جبکہ اس کے بعض اعضائے وضو نجس تھے، پھر وہ شک کرے کہ یہ اعضاء پاک ہو گئے ہیں یا نہیں تو اسے چاہئے کہ وضو کے صحیح ہونے اور اعضاء کے نجس حالت میں باقی رہنے پر بنا رکھے؛ لہذا بعد میں بجا لانے والے اعمال کے لئے اعضاء کا پاک کرنا واجب ہوجائے گا۔

دلائل:

۱ ۔ یقین والی سابقہ حالت پر بنا رکھنا ،استصحاب(۶۹) کی وجہ سے ہے۔

۲ ۔ نماز کے بعد طہارت میں شک کی صورت میں نماز کا صحیح ہونا قاعدۂ فراغ(۷۰) کی وجہ سے ہے جو بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے۔ انہی روایات میں سے ایک حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام سے مروی محمد بن مسلم کی موثق روایت ہے کہ آپ ؑ نے فرمایا:

كُلُّ مَا شَكَكْتَ فِيهِ مِمَّا قَدْ مَضَى فَامْضِهِ كَمَا هُوَ .”“جب بھی کسی بجا لائی گئی چیز میں تجھے شک ہو تو اس کے صحیح ہونے پر بنا رکھ!۔”(۷۱)

۳ ۔ بعد والے اعمال کے لئے وضو کے واجب ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ان اعمال میں قاعدۂ فراغ جاری نہیں ہوسکتا ؛ لہذا اعمال سے پہلے شرط عمل کا حصول ضروری ہوجاتا ہے۔ (یعنی اعمال کے لئے طہارت شرط ہے اس لئے پہلے شرط کو پورا کرناپڑے گا۔)

۴ ۔ جو شخص دوران نماز، طہارت میں شک کرے اور وہ محکوم بطہارت بھی نہ ہو تواس پر وضو کرنا واجب ہوجاتا ہے کیونکہ اسی نماز کے بعد والے اجزا کو بجالانے کے لئے شرط طہارت کا حصول ضروری ہے۔

۵ ۔ کسی چیز کے رکاوٹ بننے میں شک یا کسی رکاوٹ کی موجودگی کے بارے میں شک کی صورت میں یقین یا اطمینان کاحوال لازمی ہے چونکہ چہرہ اور ہاتھوں کو دھونے کے لحاظ سے مکلف کی گردن پر ایک ذمہ داری ہے اور اس پر اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کا یقین حاصل کرنا ضروری ہے ؛ لہذا جب تک کسی رکاوٹ کی عدم موجودگی کا یقین نہ ہوجائے اس وقت تک مکلف کو اس ذمہ داری سے سبکدوش ہونے کا یقین حاصل نہیں ہو سکتا۔

۶ ۔ عمل سے فارغ ہونے کے بعد شک کی صورت میں اس عمل کے صحیح ہونے پر بنا رکھنا،قاعدہ فراغ کی وجہ سے ہے۔

لیکن اس مورد سمیت دوسرے موارد میں قاعدۂ فراغ کے جاری ہونے میں ، دوران عمل ، خود عمل کے تمام شرائط کی طرف مکلف کا متوجہ ہونا ،شرط ہے یا نہیں؟ اس بات پر فقہائے عظام کے درمیان اختلاف ہے۔

۷ ۔ اعضاء کے نجس ہوتے ہوئے وضو کرنے کی صورت میں وضو کے صحیح ہونے کی دلیل بھی قاعدہ فراغ ہے۔

جبکہ اعضاء کا نجاست کی حالت پر باقی رہنے کا حکم استصحاب ِنجاست کی وجہ سے ہے بشرطیکہ اعضاء کو وضو کے ارادے سے دھونا، ان کے پاک ہونے کے لئے کافی نہ ہو۔نیز قاعدۂ فراغ بھی اپنے لوازمات کو ثابت نہیں کر سکتا ۔