غسل کے احکام
غسل کے اسباب:
چند چیزوں کی وجہ سے غسل واجب ہوتا ہے:
۱ ۔ جنابت،
۲ ۔ حیض،
۳ ۔ نفاس،
۴ ۔ استحاضہ،
۵ ۔ موت،
۶ ۔ مس میت۔ ( میت کو چھونا)
غسل جنابت اور اس کے اسباب:
جنابت کے دو اسباب ہیں:
۱ ۔ منی کا خارج ہونا،
۲ ۔ عورت کے ساتھ جماع کرنا، خواہ قبل میں کیا جائے یا دبر میں۔
اول الذکر کے حکم میں وہ مشتبہ رطوبت بھی شامل ہے جو پیشاب کے ذریعے استبراء کرنے سے پہلے اور غسل کر لینے کےبعد خارج ہوجائے۔
جب مکلف پر طہارت سے مشروط کوئی عمل واجب ہو جائے تو اس پر غسل جنابت واجب ہوجاتا ہے۔
دلائل:
۱ ۔ منی کے نکلنے سے غسل جنابت کے واجب ہونے پربعض روایات دلالت کرتی ہیں جن میں سے ایک حلبی کی روایت صحیحہ ہے :
“سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام: عَنِ الْمُفَخِّذِ، عَلَيْهِ غُسْلٌ؟ قَالَ: نَعَمْ إِذَا أَنْزَل
.”“میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا جو عورت کے ساتھ کھیلتا ہے ،کیا اس پر غسل واجب ہے ؟ امام ؑ نے فرمایا: ہاں ! جب منی نکلے۔”
عورت کے قبل یا دبر میں جماع کرنے سے غسل کے واجب ہونے پر آیت مجیدہ کا اطلاق دلالت کررہا ہے:(
أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تجَِدُواْ مَاءً.
..)
،“ یا تم نے عورتوں کو ہاتھ لگایا ہو پھر تمہیں پانی میسر نہ آئے۔”
اس کے علاوہ بہت ساری روایات بھی اسی حکم کو بیان کرتی ہیں۔
۲ ۔کیا مرد کے دبر میں وطی کرنا بھی (جو گناہان کبیرہ میں سے ہے)جنابت کا سبب بنتا ہے؟ مشہور قول یہ ہے کہ : جی ہاں! مرد کے دبر میں وطی کرنا بھی جنابت کا سبب بنتا ہے۔اس حکم کو ثابت کرنے کے لئے مندرجہ ذیل دلیلوں کا سہارا لیا جاتا ہے:
الف: اجماع۔ جس کا سید مرتضیٰ ؒ نے دعویٰ کیا ہے۔
ب:بعض روایات۔مثلا:
۱ ۔ دو اماموں (حضرت امام جعفر صادق اور حضرت امام محمد باقر علیہما السلام) میں سے کسی ایک سے مروی محمد ابن مسلم کی صحیح روایت ہے:
“سَأَلْتُهُ مَتَى يَجِبُ الْغُسْلُ عَلَى الرَّجُلِ وَ الْمَرْأَةِ؟ فَقَالَ: إِذَاأَدْخَلَهُ فَقَدْ وَجَبَ الْغُسْلُ وَ الْمَهْرُ وَ الرَّجْمُ
.”“میں نے امام ؑ سے سوال کیا: مرد اور عورت پر کب غسل واجب ہوجاتا ہے؟ آپ ؑ نے فرمایا: جب دخول کیا جائے تو غسل، مہر اور رجم(سنگسار کرنا) واجب ہوجاتا ہے۔”
۲ ۔ابو بکر حضرمی کی روایت جو انہوں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کی ہے :
“قَالَ رَسُولُ اللَّهِ (ص): مَنْ جَامَعَ غُلَاماً جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ جُنُباً لَا يُنَقِّيهِ مَاءُ الدُّنْيَا وَ غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَ لَعَنَهُ وَ أَعَدَّ لَهُ جَهَنَّمَ وَ سَاءَتْ مَصِيراً. ثُمَّ قَالَ: إِنَّ الذَّكَرَ يَرْكَبُ الذَّكَرَ فَيَهْتَزُّ الْعَرْشُ لِذَلِك
.” “رسول خدا ﷺ نے فرمایا: جو شخص کسی لڑکے کے ساتھ لواط کرے گا تو دنیا کا پانی اسے پاک نہیں کرے گا اور وہ قیامت کے دن جنابت کی حالت میں آئے گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب اور اس کی لعنت ہوگی اور اس کے لئے جہنم کو آمادہ کیا جائے گا۔ پھر آپ ؐ نے فرمایا: جب کوئی مرد کسی مرد کے اوپر چڑھتا ہے تو عرش الٰہی لرز اٹھتا ہے۔”
یہ تمام دلائل یا ان میں بعض دلیلیں کامل ہوں تو ہم یہ حکم لگاسکیں گے کہ مرد کے دبر میں وطی کرنے والے پر جنابت کا حکم جاری ہوتا ہے ؛ لیکن اگر دلیلیں کامل نہ ہوں تو احتیاط کرنا بہتر ہے۔لہذا جن مواقع میں مکلف نے غسل سے پہلے وضو نہ کیا ہو وہاں غسل کے ساتھ ساتھ وضو کرنے سے احتیاط پر عمل ہوسکتا ہے ؛ لیکن اگر غسل سے پہلے اس نے وضو کیا ہو تو اس غسل کا کافی ہونا واضح ہے۔
۳ ۔ مشتبہ رطوبت کے منی کےحکم میں شامل ہونے پر محمد ابن مسلم کی صحیح روایت دلالت کررہی ہے :
“سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام عَنِ الرَّجُلِ يَخْرُجُ مِنْ إِحْلِيلِهِ بَعْدَ مَا اغْتَسَلَ شَيْءٌ. قَالَ: يَغْتَسِلُ وَ يُعِيدُ الصَّلَاةَ إِلَّا أَنْ يَكُونَ بَالَ قَبْلَ أَنْ يَغْتَسِلَ فَإِنَّهُ لَا يُعِيدُ غُسْلَه.
”“میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایسے شخص کے بارے میں سوال کیاجس کے آلۂ تناسل سے غسل کے بعد کوئی رطوبت نکلتی ہے۔ آپ ؑ نے فرمایا: وہ دوبارہ غسل کرے گا اور نماز کو دہرائے گا؛ لیکن اگر اس نے غسل سے پہلے پیشاب کیا ہو تو غسل کا اعادہ نہیں کرے گا۔”
۴ ۔ غسل جنابت کےبذات خود واجب ہونے کی ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے؛ لہذا ہم اصالہ برائت جاری کریں گے۔( اور کہیں گے کہ یہ غسل بذات خود واجب نہیں ہے۔)
طہارت سے مشروط کسی عمل کے واجب ہونے کے ساتھ غسل جنابت کے واجب ہونے کی دلیل: اس حکم کا ماخذ قاعدہ “وجوب مقدمہ واجب ” ہے کہ ہر واجب کا مقدمہ ، خواہ عقلا ہی کیوں نہ ہو، واجب ہو جاتا ہے۔
غسل جنابت اور اس کے بعض احکام:
غسل کے دو طریقے ہیں:
الف)ارتماسی :
مکلف اپنے پورے جسم کو پانی میں اس طرح ڈبو دے جسے عرفاً یکدم ڈبونا کہا جائے۔
ب) ترتیبی:
مکلف پہلے اپنے سر اور گردن کو دھوئے پھر جسم کے دائیں حصے کو پھر بائیں حصے کو دھوئے۔
غسل جنابت سمیت تمام غسلوں میں موالات اور برعکس نہ دھونے کی شرط نہیں ہے۔
غسل جنابت ، وضو سے مجزی ہے؛ یعنی اس کے بعد وضو کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔
اگر مکلف کو شک گزرے کہ غسل جنابت انجام پایا ہے یا نہیں تواسے دوبارہ غسل کرنا چاہئے۔
اگر غسل کرنے کے بعد شک کرے کہ یہ غسل صحیح انجام پایا ہے یا نہیں؟ تو اس کے صحیح ہونے پر بنا رکھے۔
اگر نماز پڑھنے کے بعد شک کرے کہ غسل انجام پایا تھا یا نہیں تو اسی نماز کو صحیح سمجھے گا اور بعد میں پڑھی جانے والی نمازوں کے لئے غسل بجا لائے گا۔
دلائل:
۱ ۔ غسل ارتماسی کے جائز ہونے پر بعض روایات دلالت کرتی ہیں جن میں سے ایک حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی محمد بن مسلم کی روایت صحیحہ ہے :
“لَوْ أَنَّ رَجُلًا جُنُباً ارْتَمَسَ فِي الْمَاءِ ارْتِمَاسَةً وَاحِدَةً أَجْزَأَهُ ذَلِكَ وَ إِنْ لَمْ يَدْلُكْ جَسَدَهُ
.” “اگر مجنب اپنے جسم کو ملے بغیربھی اپنے آپ کو ایک مرتبہ پانی میں مکمل ڈبودے تو یہی کافی ہے۔”
اس روایت میں امام ؑ کے فرمان “ارتماسة واحدة” سے معلوم ہوتا ہے کہ جسم کو پانی میں ڈبونے پر عرفاً یکبارگی ڈبوناصادق آنا چاہئے۔
۲ ۔ غسل ترتیبی کا جائز ہونا زرارہ کی ایک اور صحیح روایت کی وجہ سے ہے :
“قُلْتُ: كَيْفَ يَغْتَسِلُ الْجُنُبُ؟ فَقَالَ: إِنْ لَمْ يَكُنْ أَصَابَ كَفَّهُ شَيْءٌ غَمَسَهَا فِي الْمَاءِ ثُمَّ بَدَأَ بِفَرْجِهِ فَأَنْقَاهُ بِثَلَاثِ غُرَفٍ ثُمَّ صَبَّ عَلَى رَأْسِهِ ثَلَاثَ أَكُفٍّ ثُمَّ صَبَّ عَلَى مَنْكِبِهِ الْأَيْمَنِ مَرَّتَيْنِ وَ عَلَى مَنْكِبِهِ الْأَيْسَرِ مَرَّتَيْنِ فَمَا جَرَى عَلَيْهِ الْمَاءُ فَقَدْ أَجْزَأَهُ
.”“میں نے عرض کیا:مجنب کیسے غسل کرے گا؟ فرمایا: اگر اس کی ہتھیلی پر کوئی نجاست نہ لگی ہو تو اسے پانی ڈبو کر تین چلو پانی سے اپنی شرمگاہ کو دھوئے گا پھر سر پر تین چلو پانی ڈالے گا ، پھر دو چلو دائیں کندھے پر اور دو چلو بائیں کندھے پر ڈالے گا اس طرح پورے جسم تک پانی پہنچ جائے تو یہی کافی ہے۔”
اس روایت کا مُضمَر
ہونا اس کے دلیل بننے میں رکاوٹ نہیں بنے گا؛ کیونکہ مُضمِر(راوی) ان بزرگ اصحاب میں سے ہیں جن کے لئے امام ؑ کے علاوہ کسی اور سے روایت کرنا مناسب نہیں ہے۔
مشہور کے مطابق جسم کے دائیں حصے کو بائیں حصے سے پہلے دھونا ضروری ہے ؛لیکن اس کے ضروری نہ ہونے پر بھی ایک قول موجود ہے۔
۳ ۔ غسل میں موالات کی شرط کا نہ ہونا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سےمروی ابراہیم بن عمر الیمانی کی روایت کی وجہ سے ہے کہ آپؑ نے فرمایا:
“إِنَّ عَلِيّاً علیه السلام لَمْ يَرَ بَأْساً أَنْ يَغْسِلَ الْجُنُبُ رَأْسَهُ غُدْوَةً وَ يَغْسِلَ سَائِرَ جَسَدِهِ عِنْدَ الصَّلَاة.
” “حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے کہ مجنب اپنےسر کو صبح کے وقت اور جسم کے باقی حصوں کو نماز کے وقت دھوئے ۔”
۴ ۔ دھوتے وقت اوپر کی طرف سے شروع کرنا واجب نہ ہونے کی دلیل: حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سماعۃ کی موثق روایت ہے جس میں آپ ؑ نے فرمایا:
“...ثُمَّ لْيَصُبَّ عَلَى رَأْسِهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ مِلْءَ كَفَّيْهِ، ثُمَّ يَضْرِبُ بِكَفٍّ مِنْ مَاءٍ عَلَى صَدْرِهِ وَ كَفٍّ بَيْنَ كَتِفَيْه
...”“پھر دونوں چلوؤں کو بھر کر تین مرتبہ اپنے سر پر پانی ڈالے پھر ایک چلو اپنے سینے پر اور ایک چلو اپنے کندھے پر ڈالے۔”
اس حدیث میں سینے پر پانی کا ڈالنا یعنی:“صبّ” مطلق ذکر ہوا ہے جو کسی بھی طرح سے پانی ڈالنے پر صادق آتا ہے اگرچہ اوپر کے حصے سے ڈالنا شروع نہ بھی کرے۔
۵ ۔تمام غسلوں میں ان شرائط کے ضروری نہ ہونے کی دلیل، یہ ہے کہ غسل جنابت کے مذکور طریقے کے علاوہ دوسرے غسلوں کا کوئی خاص طریقہ ذکر نہیں ہوا ہے۔
علاوہ از ایں اگر مذکورہ شرائط ضروری ہوتیں تو لوگوں کے درمیان معروف اور مشہور ہوتیں کیونکہ غسل جنابت کے علاوہ دوسرے اغسال بھی لوگوں کو بہت زیادہ پیش آتے رہتے ہیں۔
۶ ۔ غسل جنابت کا وضو سے مجزی ہونے کی دلیل ،اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے :
(
يَأَيهَُّا الَّذِينَ ءَامَنُواْ إِذَا قُمْتُمْ... وَ إِن كُنتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُواْ
)
،“ اے ایمان والو! جب تم نماز کے لیے اٹھو تو۔۔۔۔ اگر تم حالت جنابت میں ہو تو پاک ہوجاؤ۔”
آیت مجیدہ اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ مجنب کا فریضہ غسل ہے اور غیر مجنب کا فریضہ وضو۔ فرائض کا الگ الگ بیان کرنا اشتراک فریضہ کے تصور کو ختم کرتا ہے۔
۷ ۔غسل کے انجام پانے کے بارے میں شک کی صورت میں دوبارہ غسل کے واجب ہونے کے حکم کا ماخذ استصحاب عدم تحقق غسل ہے ۔(یعنی مکلف کو غسل نہ کرنے کا یقین تھا پھر اس کے انجام پانے میں شک ہواتو وہ پہلی والی یقینی حالت پر عمل کرے گا۔)
۸ ۔ غسل سے فارغ ہونے کے بعد اس کے صحیح ہونے میں شک کی صورت میں صحیح ہونے پر بنا رکھناقاعدۂ فراغ کی وجہ سے ہے جو حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سےمروی محمد بن مسلم کی موثق روایت سے معلوم ہوتا ہے :
“كُلُّ مَا شَكَكْتَ فِيهِ مِمَّا قَدْ مَضَى فَامْضِهِ كَمَا هُوَ.
”“جب بھی کسی بجا لائی گئی چیز میں شک کرو تو اس کے صحیح ہونے پر بنا رکھو۔”
۹ ۔ نماز کے بعد غسل کے انجام پانے میں شک کی صورت میں نماز کا صحیح ہونابھی قاعدۂ فراغ کی وجہ سے ہے؛ لیکن اس نماز کے بعد پڑھی جانے والی نمازوں کے لئے ،استصحاب عدم تحقق غسل کی وجہ سے ، غسل کرنا ضروری ہے۔
اگر یہ اشکال کیا جائے کہ : جو نماز پڑھی گئی ہے اس کے حوالے سے بھی استصحاب جاری ہو سکتا ہے۔ پس بعد والی نمازوں کو چھوڑ کر صرف اسی نماز کے حوالے سے استصحاب جاری کرنے کی وجہ کیا ہے؟
تواس کا جواب یہ ہے کہ: پڑھی گئی نماز کے حوالے سے قاعدۂ فراغ جاری ہوسکتا ہے جو استصحاب پر حاکم ہے؛ درحالیکہ بعد والی نمازوں کے حوالے سے یہ قاعدہ جاری نہیں ہو سکتا۔
مجنب پر حرام ہونے والی چیزیں:
چند چیزیں مجنب پر حرام ہیں:
الف) قرآن مجید کی تحریر کو چھونا۔ مشہور فقہاء نے لفظ جلالہ (اللہ) اور اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفات کوبھی قرآن مجید کے حکم میں شامل کیا ہے ۔
ب)فقہاء کے درمیان اختلاف نظر کے ساتھ قرآن مجید کے ان سوروں کا پڑھنا جن میں واجب سجدے ہیں یا صرف سجدے والی آیت کا پڑھنا ۔
ج) مسجد میں داخل ہونا؛ سوائے گزرنے کی حالت کے کہ ایک دروازے سے داخل ہو اور دوسرے دروازے سے نکل جائے۔ البتہ یہ حکم مسجد الحرام اور مسجد نبوی کے علاوہ دوسری مساجد کے لئے ہے جبکہ ان دونوں مسجدوں سے گزرنا بھی حرام ہے۔
(معصومین ؑ کے حرم جیسے)مقدس مقامات کومسجد کے حکم میں شامل کیا جانا مناسب ہے۔
د) مسجد کے اندر کسی چیز کا رکھنا۔
دلائل:
۱ ۔ قرآن مجید کی کتابت کو چھوناحرام ہونے کی دلیل، ابو بصیر کی موثق روایت ہے :
“سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام عَمَّنْ قَرَأَ فِي الْمُصْحَفِ وَ هُوَ عَلَى غَيْرِ وُضُوءٍ. قَالَ: لَا بَأْسَ وَ لَا يَمَسَّ الْكِتَابَ
.” “میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سےاس شخص کے بارے میں سوال کیا جو وضو کئے بغیر قرآن پڑھتا ہے۔ فرمایا: کوئی حرج نہیں ؛ لیکن کتابت کو مس نہ کرے۔”
اس روایت کے ساتھ مندرجہ ذیل باتوں میں سے کسی ایک کے پیش نظر کہ :
۱ ۔ جب ہم وضو کے بغیر نہیں چھو سکتے تو جنب کی حالت میں بطریق اولیٰ نہیں چھو سکتے؛
۲ ۔یا یہ کہ وضو نہ کرنے والے کا ایک مصداق مجنب بھی ہے۔
۲ ۔ لفظ جلالہ کو چھونے کا حکم: مشہورقول کے مطابق ، لفظ جلالہ کو چھونا مجنب پر حرام ہے جس پر حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی عمار بن موسیٰ کی موثق روایت دلالت کررہی ہے:
“لَا يَمَسُّ الْجُنُبُ دِرْهَماً وَ لَا دِينَاراً عَلَيْهِ اسْمُ اللَّهِ تَعَالَى
.”“مجنب ایسے درہم اور دینار کو نہیں چھو سکتا جن پر اللہ تعالیٰ کا اسم لکھا ہوا ہو۔”
البتہ اس حکم کے مقابلے میں حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے مروی اسحاق بن عمار کی موثق روایت ہے :
“سَأَلْتُهُ عَنِ الْجُنُبِ وَ الطَّامِثِ يَمَسَّانِ بِأَيْدِيهِمَا الدَّرَاهِمَ الْبِيضَ. قَالَ: لَا بَأْسَ
.”“میں نے امام ؑ سے سوال کیا: کیا مجنب اور حائض چاندی کے درہموں کو چھو سکتے ہیں ؟ امام ؑ نے فرمایا: کوئی حرج نہیں۔”
ان دونوں روایونں کو یوں جمع کیا گیا ہے کہ پہلی روایت،“اسم جلالہ” کو چھونے کے معنی میں لی گئی ہے اور دوسری سے “اسم جلالہ” کو مس کئے بغیر ،“اسم” لکھے ہو ئے درہم ہی کو چھونا مراد لیا گیا ہے ۔ اس طرح سے جمع کرنا اگر صحیح ہو تو بات بھی پوری ہو جائے گی اور دونوں روایتوں پر بھی کوئی اشکال نہیں ہوگا؛ لیکن اگر اس طرح جمع کرنے کو قبول نہ کیا جائے تو مناسب یہ ہے کہ ایک اور طریقے جمع کر لیا جائے کہ پہلی روایت کومکروہ ہونے کے معنی میں سمجھیں ؛ کیونکہ دوسری روایت صراحت کے ساتھ جائز ہونے پر دلالت کر رہی ہے۔ اس صورت میں دوسری روایت کو کراہت پر حمل کرتے ہوئے اس کے ظاہر یعنی؛ حرام کے حکم سے دستبردار ہونا پڑے گا ۔
۳ ۔اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفات پر دلالت کرنے والے الفاظ کا حکم: اگر ان الفاظ کے بارے میں قطعی طور پر معلوم ہوجائے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے شمار ہو تے ہیں تو عمار کی موثق روایت کے تحت “اسم جلالہ” کا حکم (چھونا حرام ہونا)ان کے لئے بھی ثابت ہوجائے گا ؛ بصورت دیگر (یعنی:اگر قطعی طور پر علم نہ ہو تو )اصالۂ برائت جاری کرتے ہوئے ان کو چھونا جائز قرار دیا جائے گا۔
۴ ۔ سجدے والی آیت کا پڑھنا حرام ہونے میں کسی کو اختلا ف نہیں ہے ؛ لیکن اختلا ف اس بات پر ہے کہ :صرف سجدے والی آیتوں کا پڑھنا حرام ہے ؛ یا سجدے والی سورتوں کی کسی بھی آیت کو پڑھنا حرام ہے؟
پہلے قول پر بعض روایات دلالت کررہی ہیں جن میں سے ایک حضر ت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی زرارہ کی روایت صحیحہ ہے:
“...الْحَائِضُ وَ الْجُنُبُ هَلْ يَقْرَءَانِ مِنَ الْقُرْآنِ شَيْئاً؟ قَالَ: نَعَمْ مَا شَاءَا إِلَّا السَّجْدَة
.”“۔۔۔ کیا حائض اور مجنب قرآن پڑھ سکتے ہیں؟ امام ؑ نے فرمایا: ہاں! جتنا چاہیں پڑھ سکتے ہیں سوائے سجدہ کے ۔”
اس روایت کےلفظ “سجدہ” سے ظاہراً، آیت سجدہ ہی کے مراد ہونے کا علم نہیں ہوتا ؛ کیونکہ اس احتمال کی وجہ سے کہ سجدہ سے مراد آیت سجدہ ہے یا سورہ سجدہ، یہ لفظ مجمل ہے؛ لہذا “قدر متیقن”
پر اکتفا کرنا ضروری ہوجائے گا اور وہ قدر متیقن آیت سجدہ ہے۔آیت سجدہ کا حکم ثابت کرنے کے بعد سجدہ والی سورتوں کی باقیماندہ مقدار کے حوالے سے ہم ان روایات کے اطلاق کی طرف رجوع کریں گے جو مجنب کے لئے قرآن پڑھنا جائز ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ مثلا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی زید شحام کی روایت صحیحہ ہےکہ امام ؑ نے فرمایا:
“تَقْرَأُ الْحَائِضُ الْقُرْآنَ وَ النُّفَسَاءُ وَ الْجُنُبُ أَيْضاً.
”“حائض قرآن پڑھ سکتی ہے ، اسی طرح نفساء اور مجنب بھی۔”
۵ ۔مسجد الحرام اور مسجد نبوی کے علاوہ دوسری مساجد میں ،گزرنے کی حالت کے علاوہ ، داخل ہونا حرام ہونے پر بعض روایات دلالت کرتی ہیں جن میں سے ایک محمد بن مسلم کی روایت صحیحہ ہے :
“قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ علیه السلام فِي حَدِيثِ الْجُنُبِ وَ الْحَائِضِ: وَ يَدْخُلَانِ الْمَسْجِدَ مُجْتَازَيْنِ وَ لَا يَقْعُدَانِ فِيهِ وَ لَا يَقْرَبَانِ الْمَسْجِدَيْنِ الْحَرَمَيْن
.”“حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے حائض اور مجنب کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے فرمایا: یہ دونوں (حائض اور مجنب) مسجد میں ، وہاں سے گزرتے ہوئے ،داخل ہو سکتے ہیں؛ لیکن وہاں بیٹھ نہیں سکتے اورحرمین (مسجد الحرام اور مسجد نبوی)کے قریب نہیں ہوسکتے۔”
اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہ صرف دو مسجدوں سے بلکہ تمام مسجدوں سے گزرنے کے حرام ہونے پر دلالت کرتا ہے :
(
يَأَيهَُّا الَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَقْرَبُواْ الصَّلَوةَ وَ أَنتُمْ سُكَارَى حَتىَ تَعْلَمُواْ مَا تَقُولُونَ وَ لَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِى سَبِيلٍ
)
، “اے ایمان والو! نشے کی حالت میں نماز کے قریب نہ جایا کرو یہاں تک کہ تم جان لو کہ تم کیا کہہ رہے ہو اور جنابت کی حالت میں بھی، یہاں تک کہ غسل کر لو مگریہ کہ کسی راستے سے گزر رہے ہو”
۶ ۔مقدس مقامات کا حکم: بعض فقہاء نے مقدس مقامات کو مسجد کے حکم میں شامل کیا ہے اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں:
یہ کہ: جگہے کی شرافت و پاکیزگی اور اس کے جائے عبادت ہونے کے اعتبار سے ان مقامات میں بھی کاملا مسجد کا تقدس پایا جاتا ہے؛
یا یہ کہ:مجنب اور حائض کا ان مقامات میں داخل ہونے اوروہاں بیٹھنے سے پرہیز کرنا ایک طرح سے شعائر الٰہی کی تعظیم ہے جو دلوں کی پرہیز گاری ہے؛
یا یہ کہ بکر بن محمد کی روایت صحیحہ اس حکم پر دلالت کررہی ہے :
“خَرَجْنَا مِنَ الْمَدِينَةِ نُرِيدُ مَنْزِلَ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام، فَلَحِقَنَا أَبُو بَصِيرٍ خَارِجاً مِنْ زُقَاقٍ وَ هُوَ جُنُبٌ وَ نَحْنُ لَا نَعْلَمُ حَتَّى دَخَلْنَا عَلَى أَبِي عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام، قَالَ: فَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَى أَبِي بَصِيرٍ فَقَالَ: يَا أَبَا مُحَمَّدٍ أَ مَا تَعْلَمُ أَنَّهُ لَا يَنْبَغِي لِجُنُبٍ أَنْ يَدْخُلَ بُيُوتَ الْأَنْبِيَاءِ؟! قَالَ: فَرَجَعَ أَبُو بَصِيرٍ وَ دَخَلْنَا.
”“ہم مدینے سے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کےگھر جانے کے ارادے سے نکلے تو ابو بصیر بھی ،گلی سے نکل کر ،ہمارے ساتھ ہو لئے؛ درحالیکہ وہ مجنب تھے اور ہمیں اس کا علم نہیں تھا یہاں تک کہ ہم امام ؑ کے گھر تک پہنچ گئے۔امام ؑ نے اپنا سر مبارک اٹھا کر ابو بصیر کی طرف دیکھتے ہوئے فرمایا: اے ابو محمد! کیا تمہیں نہیں معلوم کہ مجنب کو انبیاء کے گھروں میں داخل نہیں ہونا چاہئے؟ پھرابو بصیر پلٹ گئے اور ہم گھر میں داخل ہو گئے۔”
۷ ۔مجنب پر مسجد کے اندر کوئی چیز رکھنا حرام ہونے میں کسی کو اختلاف نہیں ہے ؛کیونکہ اس پر بعض روایات دلالت کر رہی ہیں جن میں سے ایک عبد اللہ بن سنان کی روایت صحیحہ ہے:
“سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام عَنِ الْجُنُبِ وَالْحَائِضِ يَتَنَاوَلَانِ مِنَ الْمَسْجِدِ الْمَتَاعَ يَكُونُ فِيهِ؟ قَالَ: نَعَمِْ، وَ لَكِنْ لَا يَضَعَانِ فِي الْمَسْجِدِ شَيْئاً
.”، “میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سےسوال کیا : کیا حائض اور مجنب مسجد میں پڑی ہوئی چیزوں کو اٹھا سکتے ہیں؟فرمایا: ہاں! لیکن یہ دونوں مسجد میں کوئی چیز نہ رکھیں۔”