حیض کے احکام
حیض کی تعریف اور اس کے کچھ مختص احکام:
حیض وہ خون ہے جو غالبا ً ہر مہینے،عورت (کی خاص جگہ سے) خارج ہوتا ہے۔ یہ خون سیاہ یا سرخ ، گرم اور گاڑھاہوتاہے اورغالباً جلن کے ساتھ اچھلتے ہوئے نکلتا ہے۔
اس کی کم سے کم مدت تین دن اور زیادہ سے زیادہ مدت دس دن ہوتی ہے۔اس خون کی شرط یہ ہے کہ ابتدائی تین دنوں میں عرف کے مطابق متواتر آئے نیز عورت کے بالغ ہونے کے بعد اور یائسہ ہونے سے پہلے آئے۔
جب تک حیض منقطع نہ ہو اور غسل نہ کر لے ، اس عورت کی نماز ، روزہ، طواف اور اعتکاف صحیح نہیں ہے۔
حائض روزے کی قضا کرے گی جبکہ نماز کی قضا اس پر نہیں ہے۔ جوچیزیں مجنب پر حرام تھیں وہ حائض پر بھی حرا م ہوتی ہیں۔ خون کے منقطع ہونے سے پہلے اس کے ساتھ ہمبستری کرنا حرام ہے۔
طلاق کے باب میں مذکور تفصیلات کے تحت حائض کو طلاق دینا بھی صحیح نہیں ہے۔
غسل حیض کا طریقہ غسل جنابت کی مانند ہے۔
دلائل :
۱ ۔ حیض کی بیان کردہ تشریح،حیض کے بارے میں زمینی حقائق کی وجہ سے ہے ۔ ( یعنی تمام عورتیں ہر مہینے میں ایک بار اسی طرح حیض دیکھتی ہیں۔)
اور “غالبا ”کی شرط ،مضطربہ کے جیسے بعض حالات کو بیان کرنے سے بچنے کی خاطر ، لگائی گئی ہے۔
۲ ۔ حیض کی مذکورہ صفات کی دلیل: بعض روایات ہیں جن میں سے ایک حفص بن بختری کی مندرجہ ذیل صحیح روایت ہے:
“دَخَلَتْ عَلَى أَبِي عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام امْرَأَةٌ، فَسَأَلَتْهُ عَنِ الْمَرْأَةِ يَسْتَمِرُّ بِهَا الدَّمُ فَلَا تَدْرِي حَيْضٌ هُوَ أَوْ غَيْرُهُ، قَالَ: فَقَالَ لَهَا: إِنَّ دَمَ الْحَيْضِ حَارٌّ عَبِيطٌ أَسْوَدُ لَهُ دَفْعٌ وَ حَرَارَةٌ، وَ دَمُ الِاسْتِحَاضَةِ أَصْفَرُ بَارِدٌ، فَإِذَا كَانَ لِلدَّمِ حَرَارَةٌ وَ دَفْعٌ وَ سَوَادٌ فَلْتَدَعِ الصَّلَاةَ. قَالَ: فَخَرَجَتْ وَ هِيَ تَقُولُ: وَ اللَّهِ أَنْ لَوْ كَانَ امْرَأَةً مَا زَادَ عَلَى هَذَا
.”“ ایک عورت نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں پہنچ کر آپ ؑسے سوال کیا کہ ایک عورت کو پے در پے خون آتا رہتا ہے اور وہ نہیں جانتی کہ یہ حیض کا خون ہے یا کوئی اور خون؟ روای کہتا ہے کہ امام ؑ نے اس عورت سے فرمایا: خون حیض گرم، تازہ اور سیاہ ہوتا ہے جو جلن کے ساتھ اچھلتے ہوئے نکلتا ہے اور خون استحاضہ زرد اور سرد ہوتا ہے۔پس جب خون سیاہ ہو اور جلن کے ساتھ اچھلتے ہوئے نکلے تو وہ نمازپڑھنا چھوڑ دے ۔ راوی کہتا ہے کہ وہ عورت یہ کہتی ہوئی نکل گئی کہ : خدا کی قسم ! اگر کوئی عورت ہوتی تب بھی اس سے بہتر بیان نہ کرتی۔”
خون کے سیاہ ہونے سے مراد وہ سرخ خون ہے جو زیادہ سرخی کی وجہ سے سیاہ مائل ہو چکا ہو ورنہ کوئی ایسا خون نہیں ہے جو کوئلے کی طرح کالا ہو۔
۳ ۔ “غالبا ” کی قید،اس خون کو بیان کرنے سے بچنے کے لئے لائی گئی ہے جوحیض کے حکم میں تو ہے ؛ لیکن اس میں مذکورہ علامتیں نہیں پائی جاتیں ۔ مثلا وہ زرد خون جسے عورت ، اپنی عادت کے ایام میں یا عادت سے ایک دو دن پہلے دیکھتی ہے۔
۴ ۔ کثرت و قلت کے لحاظ سے حیض کی حدبندی کی دلیل: بعض روایات ہیں جن میں سے ایک ،حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سےمروی معاویہ بن عمار کی روایت ہے کہ:
“أَقَلُّ مَا يَكُونُ الْحَيْضُ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ وَ أَكْثَرُهُ مَا يَكُونُ عَشَرَةُ أَيَّامٍ
.”“حیض کی کم سے کم مدت تین دن اور زیادہ سے زیادہ مدت دس دن ہے۔”
۵ ۔ابتدائی تین دنوں میں متواترخون دیکھنا شرط ہونا، حیض کی کم از کم مدت تین دن ہونے کا تقاضا ہے؛ کیونکہ بظاہر “ایک خون” اس مدت سے کم نہیں ہوتا ہےاور جب یہ منقطع ہوجائے گاتو “ایک خون ” شمار نہیں ہوگا؛ کیونکہ عرف میں بھی “ایک ” اس وقت کہا جاتا ہے جب متصل ہو۔
۶ ۔ تین دن متواتر ہونے میں دقیق طور پرمتواتر ہونے کو معیار بنائے بغیر عرف (جس کے تحت کچھ دیر منقطع ہوجائے تب بھی متواتر ہونا صادق آتا ہے)کو معیار بنانا ، ان الفاظ سے ان کے عرف عام میں رائج اور متداول معانی مراد لینے کا نتیجہ ہے۔
۷ ۔ خون حیض کابعد از بلوغ سے مشروط ہونے کی دلیل: عبد الرحمن بن حجاج کی صحیح روایت ہے :
“سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام يَقُولُ: ثَلَاثٌ يَتَزَوَّجْنَ عَلَى كُلِّ حَالٍ...الی ان قال:وَ الَّتِي لَمْ تَحِضْ وَ مِثْلُهَا لَا تَحِيضُ. قُلْتُ: وَ مَتَى يَكُونُ كَذَلِكَ؟ قَالَ: مَا لَمْ تَبْلُغْ تِسْعَ سِنِين...”“
میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تین قسم کی عورتیں (طلاق لینے کے بعد عدہ گزارے بغیر) نکاح کر سکتی ہیں۔۔۔ یہاں تک فرمایا کہ: وہ عورت جس نے ابھی تک حیض نہ دیکھا ہو اسی طرح وہ عورت جو یائسہ ہو چکی ہو۔ میں نے عرض کیا:وہ کب تک حیض نہ دیکھنے والی ہوگی؟ فرمایا: جب تک نو سال کی عمر کو نہ پہنچے۔۔۔”
خون حیض کا یائسگی سے پہلے آنا شرط ہونے پر بعض روایات دلالت کرتی ہیں جن کا مضمون کچھ یوں ہے:
“حَدُّ الَّتِي قَدْ يَئِسَتْ مِنَ الْمَحِيضِ خَمْسُونَ سَنَةً
.”“یعنی: عورت کے خون حیض سے یائسہ ہونے کی حدپچاس سال ہے۔”
۸ ۔ حائض کے چار اعمال (نماز ، روزہ، طواف، اعتکاف)کاصحیح نہ ہونا ،فقہاء کے موردِاتفاق ہونے کی وجہ سے واضح احکام میں سے ایک ہے اور اس پر بعض روایات دلالت کر رہی ہیں:
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی زرارہ کی صحیح روایت:
“إِذَا كَانَتِ الْمَرْأَةُ طَامِثاً فَلَا تَحِلُّ لَهَا الصَّلَاة...”
“جب عورت حیض کی حالت میں ہو تو اس کے لئے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔۔۔”
عمار کی موثق روایت:
“سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام عَنِ الْمُسْتَحَاضَةِ، قَالَ: فَقَالَ تَصُومُ شَهْرَ رَمَضَانَ- إِلَّا الْأَيَّامَ الَّتِي كَانَتْ تَحِيضُ فِيهَا ثُمَّ تَقْضِيهَا بَعْدُ
.”“میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مستحاضہ کے بارے میں سوال کیا تو آپ ؑ نے فرمایا: وہ ماہ رمضان کے روزے رکھے گی سوائے ان ایام کے کہ جن میں حیض دیکھتی ہے ، پھر بعد میں ان کی قضا کرے گی۔”
عبد الرحمن بن ابی عبد اللہ کی موثق روایت:
“سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام عَنِ الْمُسْتَحَاضَةِ أَ يَطَؤُهَا زَوْجُهَا، وَ هَلْ تَطُوفُ بِالْبَيْتِ؟ قَالَ: تَقْعُدُ قُرْأَهَا الَّذِي كَانَتْ تَحِيضُ فِيهِ... الی أن قال:وَ كُلُّ شَيْءٍ اسْتَحَلَّتْ بِهِ الصَّلَاةَ فَلْيَأْتِهَا زَوْجُهَا وَ لْتَطُفْ بِالْبَيْتِ
.”“میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مستحاضہ کے بارے میں سوال کیا کہ کیا اس کا شوہر اس کے ساتھ جماع کرسکتا ہے اور کیا وہ بیت اللہ کا طواف کرسکتی ہے؟ تو امام ؑنے فرمایا: جن ایام میں وہ حیض دیکھتی ہے ان میں بیٹھ جائے گی (کچھ نہیں کرسکے گی) ۔۔۔یہاں تک کہ فرمایا: اور جب نماز پڑھنا اس کے لئے حلال ہوجائے تو اس کا شوہر بھی ہمبستری کرسکتا ہے اور وہ خود طواف بھی کر سکتی ہے۔”
یہ روایت اس بات کو آشکار کر رہی ہے کہ جب اس کے لئے نماز پڑھنا جائز ہو جائے تو اس کے شوہر کے لئے نزدیکی جائز ہو جائے گی اور خود اس کے لئے بیت اللہ کا طواف کرنا جائز ہو جائے گا۔
اعتکاف کے صحیح نہ ہونے کو ثابت کرنے کے لئے اس کا روزے سے مشروط ہونا ہی کافی ہے۔
۹ ۔مذکورہ اعمال کا صحیح ہونا، خون کے منقطع ہونے اور غسل کرنے سے مر وط ہونا اس وجہ سے ہے کہ خون کے منقطع ہونے سے پہلے عورت، حائض شمار ہوتی ہے اور غسل کرنے سے پہلے محدث ؛ لہذا طہارت کے ساتھ مشروط ہونے کی وجہ سے اس کے یہ اعمال صحیح نہیں ہو سکتے ۔
۱۰ ۔ نماز کی قضاءواجب نہ ہونے اورروزے کی قضاء کے واجب ہونے کی دلیل: یہ مسلم اور یقینی امور میں سے ہےاور بعض روایات بھی اس حکم پر دلالت کرتی ہیں جن میں سے ایک زرارہ کی صحیح روایت ہے:
“سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ علیه السلام عَنْ قَضَاءِ الْحَائِضِ الصَّلَاةَ ثُمَّ تَقْضِي الصِّيَامَ،قَالَ: لَيْسَ عَلَيْهَا أَنْ تَقْضِيَ الصَّلَاةَ وَ عَلَيْهَا أَنْ تَقْضِيَ صَوْمَ شَهْرِ رَمَضَان.”“
میں نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے حائض کی قضا نماز پھر اس کے روزے کی قضا کے بارے میں سوال کیا تو فرمایا: اس پر نماز کی قضا واجب نہیں ؛ لیکن ماہ رمضان کے روزوں کی قضا واجب ہے۔”
۱۱ ۔ مجنب پر حرام ہونے والی چیزیں حائض پر بھی حرام ہونے کی وجہ یہ ہے کہ مجنب پر حرام ہونے والی چیزوں کو بیان کرنے والی اکثر و بیشتر روایات میں حائض کا عنوان بھی ذکر کیا گیا ہے یا یہ کہ مطلَقاً محدث کے احکام کو بیان کرتے وقت حائض کا بھی ذکر کیا گیا ہے جیسے قرآن مجید کو چھونا۔
۱۲ ۔ حائض کے ساتھ جماع کرنا حرام ہونے کی دلیل،اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
(
وَ يَسَْلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُواْ النِّسَاءَ فىِ الْمَحِيضِ وَ لَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتىَ يَطْهُرْن
)
“اور وہ آپ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ کہدیجیے: یہ ایک گندگی ہے، پس حیض کے دنوںمیں عورتوں سے کنارہ کش رہو اور جب تک وہ پاک نہ ہوجائیں ان کے قریب نہ جاؤ،”
اگر چہ قاعدۂ استصحاب کا تقاضا، خون منقطع ہونے کے بعد اور غسل کرنے سے پہلے ہمبستری کی حرمت کا حکم باقی رہنا ہے؛ لیکن محمد بن مسلم کی روایت صحیحہ اس کے جائز ہونے پر دلالت کر رہی ہے :
“فِي الْمَرْأَةِ يَنْقَطِعُ عَنْهَا الدَّمُ دَمُ الْحَيْضِ فِي آخِرِ أَيَّامِهَا. قَالَ: إِذَا أَصَابَ زَوْجَهَا شَبَقٌ فَلْيَأْمُرْهَا فَلْتَغْسِلْ فَرْجَهَا ثُمَّ يَمَسُّهَا إِنْ شَاءَ قَبْلَ أَنْ تَغْتَسِلَ
.”“(سوال کیا گیا )ایسی عورت کے بارے میں جس کا خون حیض ، (عادت کے) آخری ایام میں منقطع ہوجاتا ہے۔ امام ؑ نے فرمایا: جب یہ معلوم ہو جائے کہ اس کا شوہر اس کی طرف راغب ہوگیا ہے ،اگر وہ غسل سے پہلے نزدیکی کرنا چاہے تو عورت اپنی شرمگاہ کو دھولے پھر نزدیکی کرے۔”
لیکن جو روایات ، غسل سے پہلے نزدیکی کرنے سے منع کرتی ہیں جیسے “لا، حتی تغتسل
”، “(نزدیکی )نہیں (کر سکتا) جب تک غسل نہ کرے”
انہیں قاعدۂ “لزوم التصرف فی الظاهر بقرینة الصریح
” کے مطابق کراہت پر محمول کریں گے ۔ یعنی ایک روایت کی صراحت کے قرینے کی وجہ سے دوسری روایت کے ظاہر کو کسی اور معنی میں پھیردیں گے ۔کیونکہ روایات کے ایک گروہ کو عرف دوسرے گروہ کی تاویل میں لے جاتا ہے اور دوسرے گروہ کو پہلےگروہ میں تصرف کرنے پر قرینہ سمجھتا ہے۔
۱۳ ۔ غسل حیض کا طریقہ غسل جنابت کی مانند ہونے کی وجہ،غسل جنابت کے مذکورہ طریقے کے علاوہ غسل حیض کا کوئی خاص طریقہ بیان نہ کیا جانا ہے جو ان دونوں کاطریقہ ایک ہونے کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے؛ کیونکہ اگر کوئی دوسرا طریقہ ہوتا تو ، کثرت سے درپیش مسئلہ ہونے کی وجہ سے اس کو بیان کرنا چاہئےتھا۔
اس کے علاوہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی حلبی کی موثق روایت میں بھی کہا گیا ہے کہ :
“غُسْلُ الْجَنَابَةِ وَ الْحَيْضِ وَاحِدٌ
.” “غسل جنابت اور غسل حیض (کا طریقہ) ایک ( جیسا) ہے۔”
استحاضہ کے احکام
استحاضہ کی تعریف اور اس کے کچھ احکام:
استحاضہ وہ خون ہے جوزچگی اور ماہانہ عادت کے اوقات کے علاوہ دوسرے دنوں میں عورت سے خارج ہوتا ہےاور یہ کسی زخم یا بکارت (کنوارپن) کا خون بھی نہیں ہے۔
یہ خون غالبا ً زرد، سرد اور پتلا ہوتا ہے جس میں حیض کے برعکس جلن نہیں ہوتی۔
اس کی کثرت و قلت کی کوئی حدنہیں ہے اور دو استحاضہ کے درمیان، طہارت کی حد اقل مدت( ۱۰ دن) کا فاصلہ بھی ضروری نہیں ہے۔
استحاضہ کی اقسام:
خون استحاضہ کی تین قسمیں ہیں:
۱ ۔ قلیلہ : جو روئی کے اندر سرایت نہ کرے؛
۲ ۔ متوسطہ: جو روئی کے اندر سرایت کر جائے ؛ لیکن نہ بہے؛
۳ ۔ کثیرہ: جو روئی کو تر کر کے بہہ جائے۔
مشہور کے مطابق قلیلہ کا حکم یہ ہے کہ اس پر ہر نماز کے لئے روئی کو بدلتے ہوئے یا اسے دھوتے ہوئے وضو کرنا واجب ہے۔
متوسطہ پر قلیلہ میں مذکور حکم کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ روزانہ ایک مرتبہ غسل بھی کرے۔ معروف یہ ہے کہ یہ غسل نماز صبح سے پہلے ہو۔
کثیرہ پر گزشتہ حکم کے ساتھ ساتھ تین مرتبہ غسل کرنا ضروری ہے: ایک غسل نماز صبح کے لئے ، ایک ظہرین کے لئے اور ایک مغربین کے لئے۔ استحاضہ کثیرہ میں بعض فقہاء اس بات کے قائل ہیں کہ ( غسل کے بعد ) وضو کرنا ضروری نہیں۔
دلائل:
۱ ۔ استحاضہ کو مذکورہ چیزوں میں محدود کرنا،واضح اور وجدانی امور میں سے ہے۔
۲ ۔ استحاضہ کے مذکورہ صفات کے حامل ہونے پر حفص ابن بختری کی صحیح روایت (جس کی طرف احکام حیض میں اشارہ ہو چکاہے) اور بعض دوسری روایات دلالت کرتی ہیں۔
۳ ۔ قلت و کثرت کے لحاظ سے استحاضہ کی کوئی حد نہ ہونے کا حکم روایات کے اطلاق کی وجہ سے لگایا جاتاہے۔
۴ ۔ دو استحاضہ کے درمیان طہارت کی حد اقل مدت کا فاصلہ ضروری نہ ہونےکاحکم بھی روایات کے اطلاق کی وجہ سے لگایا جاتا ہے۔(مثلا کسی روایت میں نہیں کہا گیا ہے کہ دو استحاضہ کے درمیان عورت دس دن پاک رہے۔)
۵ ۔ استحاضہ کے مذکورہ تین قسموں میں تقسیم ہونے کاحکم مندرجہ ذیل دو روایتوں کو باہم ملاتے ہوئے ثابت کیا جاتا ہے۔
۱ ۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی معاویہ بن عمار کی روایت صحیحہ:
“الْمُسْتَحَاضَةُ تَنْظُرُ أَيَّامَهَا...وَ إِنْ كَانَ الدَّمُ لَا يَثْقُبُ الْكُرْسُفَ تَوَضَّأَتْ وَ دَخَلَتِ الْمَسْجِدَ وَ صَلَّتْ كُلَّ صَلَاةٍ بِوُضُوء.”
“مستحاضہ اپنے ایام عادت کی طرف توجہ دے گی۔۔۔ اگر اس کا خون روئی کے اندر سرایت نہ کرے تو وضو کرے گی اور مسجد میں داخل ہوگی اور ہر نماز کے لئے وضو کر کے نماز پڑھے گی۔”
۲ ۔زرارہ کی روایت صحیحہ:
“...فَإِنْ جَازَ الدَّمُ الْكُرْسُفَ تَعَصَّبَتْ وَ اغْتَسَلَتْ ثُمَّ صَلَّتِ الْغَدَاةَ بِغُسْلٍ، وَالظُّهْرَ وَالْعَصْرَ بِغُسْلٍ وَ الْمَغْرِبَ وَ الْعِشَاءَ بِغُسْلٍ. وَإِنْ لَمْ يَجُزِ الدَّمُ الْكُرْسُفَ صَلَّتْ بِغُسْلٍ وَاحِد
.”“۔۔۔اگر خون روئی کو تر کرکے باہر نکلے تو وہ نماز صبح کو ایک غسل کے ساتھ ، ظہرین کو ایک غسل کے ساتھ اور مغربین کو ایک غسل کے ساتھ پڑھے گی اور اگر خون روئی سے باہر نہ نکلے تو پورے دن کی نمازوں کے لئے ایک غسل کرے گی۔”
۶ ۔ قلیلہ والی عورت پر ہر نماز کے لئے وضو کے واجب ہونے کاحکم ،معاویہ بن عمار کی گزشتہ صحیح روایت کی وجہ سے لگایا جاتاہے۔
۷ ۔ اس پر روئی کا بدلنا یا دھونا ضروری ہونے کا حکم عبد الرحمن بن ابی عبد اللہ کی موثق روایت سے لیاجا سکتا ہے جو متوسطہ کے بارے میں ہے:
“سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام عَنِ الْمُسْتَحَاضَةِ...فَإِنْ ظَهَرَ عَنِ الْكُرْسُفِ فَلْتَغْتَسِلْ ثُمَّ تَضَعُ كُرْسُفاً آخَر
.”“میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مستحاضہ کے بارے میں سوال کیا۔۔۔۔ اگر خون روئی پر نمایاں ہو جائے تو غسل کرے اور کوئی دوسری روئی استعمال کرے۔”
اس روایت کے ساتھ یہ بات بھی پیش نظر رکھتے ہوئے کہ ( روئی کو تبدیل کرنے یا دھونے کے لحاظ سے) قلیلہ اور متوسطہ کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے یا ان روایات سے استفادہ کرتے ہوئے جو نجاست کے ساتھ خصوصا دمائے ثلاثہ (حیض ، نفاس اور استحاضہ کا خون)کے ساتھ نماز پڑھنے سے منع کرتی ہیں۔
پھر یہ کہ روئی کو تبدیل کرنا حصول طہارت کی خاطر ضروری ہے تو تبدیل کرنے کے بجائے روئی کو دھولینا بھی کافی ہے۔
۸ ۔ متوسطہ پر صبح کی نماز سے پہلے غسل اور ہر نماز کے لئے وضو ضروری ہونے کی دلیل سماعہ کی موثق روایت ہے :
“الْمُسْتَحَاضَةُ إِذَا ثَقَبَ الدَّمُ الْكُرْسُفَ اغْتَسَلَتْ لِكُلِّ صَلَاتَيْنِ وَ لِلْفَجْرِ غُسْلًا، وَ إِنْ لَمْ يَجُزِ الدَّمُ الْكُرْسُفَ فَعَلَيْهَا الْغُسْلُ لِكُلِّ يَوْمٍ مَرَّةً وَ الْوُضُوءُ لِكُلِّ صَلَاةٍ...”“
مستحاضہ کا خون اگر روئی سے تجاوز کرجائے تووہ ہر دو نمازوں کے لئے ایک غسل اور صبح کی نماز کے لئے ایک غسل کرے گی اور اگر روئی سے تجاوز نہ کرے تو اس پر ہر روز کے لئے ایک غسل اور ہر نماز کے لئے وضو کرنا ضروری ہے۔”
چونکہ غسل ،واجب نفسی نہیں ہے؛ بلکہ نماز کی وجہ سے واجب ہوجاتا ہے ؛ لہذا مناسب یہ ہے کہ صبح کی نماز سے پہلے انجام پائے جو ہر دن کی پہلی نماز ہے۔
۹ ۔ کثیرہ پر تین غسلوں کے واجب ہونے کی دلیل ،سماعہ کی گزشتہ موثق روایت اور بعض دوسری روایات ہیں۔
یہ روایت واضح طور پر دلالت کر رہی ہے کہ کثیرہ پر ہر نماز کے لئے وضو کرنا واجب نہیں ہے۔ اگر دلالت نہیں کر رہی تو کم از کم وضو کا حکم بیان کرنے کے لحاظ سے اجمال پایا جاتا ہے جو اصالۂ برائت جاری ہونے کے لئے کافی ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ متوسطہ پر ہر نماز کے لئے وضو کا واجب ہونا ،کثیرہ پربطریق اولیٰ واجب ہونے پر دلالت کرتا ہے۔
تو اس کا جواب یہ ہے کہ غسل کی تکرار، وضو کے قائم مقام ہونے کا احتمال ہے؛ لہذا کوئی اولویت نہیں پائی جاتی اور بطریق اولیٰ کہنا صحیح نہیں ہے۔
۱۰ ۔ روئی کا بدلنا یا دھوناضروری ہونا، اسی دلیل کی وجہ سے ہے جو متوسطہ میں بیان ہوئی ہے ۔ اسی طرح جب متوسطہ میں روئی کا دھونا یا اسے تبدیل کرنا ضروری ہے تو کثیرہ میں بطریق اولیٰ ضروری ہے۔