تیمم کے احکام:
تیمم کا طریقہ:
تیمم کا طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنی دونوں ہتھیلیوں کو زمین پر مارے پھر انہیں سر کے بال اگنے کی جگہ سے ناک اور ابرو کے بالائی حصے تک اپنی پیشانی اور پیشانی کے دونوں اطراف پر پھیرے۔ اس کے بعد بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو دائیں ہاتھ کی پشت پر کلائیوں سے انگلیوں کے سروں تک ، پھر اسی کیفیت اور مقدار میں دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کی پشت پر پھیرے ۔
تیمم ،پورے سطح زمین پر صحیح ہے ۔
دلائل:
۱ ۔ تیمم میں ہاتھوں کو زمین پر رکھنا کافی نہ ہونا بلکہ مارنا ضروری ہونا ایک معروف حکم ہے۔ نیز زرارہ کی روایت صحیحہ سے بھی اس پر استدلال کیا جا سکتا ہے:
“سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍعلیه السلام عَنِ التَّيَمُّمِ فَضَرَبَ بِيَدِهِ إِلَى الْأَرْضِ... وفی صحیحته الاخری:...فَوَضَعَ أَبُو جَعْفَرٍعلیه السلام كَفَّيْهِ عَلَى الْأَرْض
...”“میں نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے تیمم کے بارے سوال کیا تو آپ ؑ نے اپنے ہاتھوں کو زمین پر مارا۔۔۔”
دوسری روایت میں کہا گیا ہے کہ :حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے اپنی ہتھیلیوں کو زمین پر رکھا۔۔۔ ”
اس وضاحت کے ساتھ کہ یہ مقام، “ مطلق اور مقید”کا مقام ہے ؛ لہذا دوسری روایت کے لفظ “وضع” (رکھنا) کو پہلی روایت کے لفظ “ضرب” (مارنا)کے ذریعے مقید کرنا ضروری ہے۔
۲ ۔ ہاتھ کی پشت کومارنا مراد نہیں بلکہ ہتھیلیوں کو مارنا مراد ہونا ( کیونکہ ہاتھ کی پشت کو مارے تب بھی مارنا صادق آتا ہے)، مارنے کے رائج مصداق کی وجہ سے ہے؛ کیونکہ عام طور پر مارتے وقت ہتھیلیوں کو مارا جاتا ہے ۔ پس اگر کیفیت عمل کو بیان کرنے والی روایات دونوں صورتوں (رائج اور غیر رائج)کو بیان کرنے کے درپے ہوتیں تو حتما اس طرف توجہ دلاتیں۔
اس مقام پر ہم اطلاق سے بھی تمسک نہیں کر سکتے ؛ کیونکہ جب روایات“خارجی موضوعات” کی حکایت کر رہی ہوں تو کلا م میں اطلاق کا وجود ہی نہیں ہوتا۔
۳ ۔ ہتھیلیوں کو مذکورہ کیفیت میں پیشانی وغیرہ پر پھیرنے کی کیفیت میں،فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ مشہور فتویٰ یہ ہے کہ سر کے بال اگنے کی جگہ سے ناک کے بالائی حصے تک کا مسح کیا جائےجبکہ بعض فقہاء کے مطابق چہرے کا مسح کرنا واجب ہے اور ظاہرا ان کی مراد پورا چہرہ ہے۔
یہ اختلاف ، مختلف روایتوں کی وجہ سے وجود میں آیا ہے؛ کیونکہ کچھ روایات میں “مسح وجہ”(چہرے کا مسح )کہا گیا ہے اور بعض میں “مسح جبین” (پیشانی کی اطراف کا مسح) ؛ جبکہ “ مسح جبہہ” ( پیشانی کا مسح) کسی روایت میں نہیں کہا گیا ہے ۔
چہرے کے مسح پر دلالت کرنے والی روایتوں میں سے ایک، کاہلی کی روایت صحیحہ ہے:
“سَأَلْتُهُ عَنِ التَّيَمُّمِ، فَضَرَبَ بِيَدَيْهِ عَلَى الْبِسَاطِ فَمَسَحَ بِهِمَا وَجْهَهُ، ثُمَّ مَسَحَ كَفَّيْهِ إِحْدَاهُمَا عَلَى ظَهْرِ الْأُخْرَى
.”“میں نے امام ؑ سے تیمم کے بارے میں سوال کیا تو آپ ؑ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو زمین پر مارا اور ان کے ذریعے چہرے کا مسح کیا، پھر دونوں ہاتھوں میں سے ہر ایک کی پشت کا دوسرے کی ہتھیلی سے مسح کیا۔ ”
پیشانی کی دونوں اطراف کے مسح پر دلالت کرنے والی روایتوں میں سے ایک، زرارہ کی روایت صحیحہ ہے:
“...ثُمَّ مَسَحَ جَبِينَیهِ بِأَصَابِعِهِ وَ كَفَّيْهِ إِحْدَاهُمَا بِالْأُخْرَى
...”“پھر ( امام ؑ نے ) اپنی انگلیوں کے ذریعے پیشانی کی دونوں اطراف کا مسح کیا اور دونوں ہاتھوں میں سے ہر ایک کا دوسرے کی ہتھیلی سے مسح کیا ۔”
ان دونوں روایتوں کو ٹکراؤ سے بچانے کی خاطر پہلی روایت کو اس بات پر محمول کریں گے کہ یہاں پر “مسح وجہ” سے مراد “مسح جبینین” ہے؛ کیونکہ جو شخص پیشانی کی دونوں طرف کا مسح کرے اس کی نسبت کہا جاسکتا ہےکہ اس نے چہرے کا مسح کیا ہے۔
رہی بات پیشانی کے مسح کی، تو فقہ کے مسلمات میں سے ہونے کے سوا اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
۴ ۔ سر کے بال اگنے کی جگہ سے ناک اور ابرو کے بالائی حصے تک کے احاطے کا مسح کرنا ضروری ہونے کی وجہ ہے کہ جب تک اس احاطے کا مسح نہ کیا جائے اس وقت تک چہرے اور پیشانی کی دونوں اطراف کا مسح کرنا صادق نہیں آتا۔
دونوں ابرو کا مسح واجب نہیں مگر یہ کہ “مقدمہ علمیہ” کے عنوان سے واجب ہو جائے کہ مکلف پورے عضو کے مسح کرنے کا یقین حاصل کرنے کی خاطر ان کا بھی مسح کرے۔
۵ ۔ ہاتھوں کے مسح میں مذکورہ طریقے کے ضروری ہونے پر زرارہ اور کاہلی کی گزشتہ روایات دلالت کر رہی ہیں۔
۶ ۔ ہاتھوں کو ایک بار زمین پر مارنا کافی ہونے میں فقہاء کے درمیان اختلا ف ہے۔ایک قول کے مطابق تیمم میں ایک بار ہاتھوں کو زمین پر مارنا کافی ہے ۔ دوسرے قول کے مطابق دو بار مارنا ضروری ہے جبکہ تیسرا قول یہ ہے کہ اگر وضو کے بدلے میں تیمم کیا جا رہا ہوتو ایک بار مارنا چاہئے اور اگر غسل کے بدلے میں ہو تو دو بار مارنا چاہئے۔
مصنف کے نظرئیے کے مطابق،تیمم میں خواہ وضو کے بدلے ہو یا غسل کےبدلے،ہاتھوں کو ایک بار زمین پر مارنا کافی ہے؛ کیونکہ گزشتہ دونوں صحیح روایتوں کے مطابق امام ؑنے تیمم کی کیفیت کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے صرف ایک بار ہاتھوں کو زمین پر مارا اور کوئی تفصیل بھی بیان نہیں فرمائی۔
اگر یہ اشکال کیا جائے کہ دوبار مارنے کی دلیل حضرت امام رضا علیہ السلام سے مروی اسماعیل بن ہمام کی روایت ہے کہ آپ ؑ نے فرمایا:
“التَّيَمُّمُ ضَرْبَةٌ لِلْوَجْهِ وَ ضَرْبَةٌ لِلْكَفَّيْن
.”“تیمم (میں) چہرے کے مسح کے لئے ایک بار مارنا ہے اور کلائیوں تک کے مسح کے لئے ایک بار۔”
توہم یوں جواب دیں گے کہ :گزشتہ روایتوں کے قرینے کی وجہ سے اس روایت کو مستحب پر محمول کرنا ضروری ہے۔
۷ ۔سید مرتضیٰ ؒ کے نظرئیے کے خلاف ، کہ مٹی کے علاوہ کسی چیز پر تیمم صحیح نہیں ہے،
ہر اس چیز پر، جس پر زمین کا اطلاق ہو، تیمم صحیح ہونے کی دلیل،یہ آیت مجیدہ ہے:(
فَتَيَمَّمُواْ صَعِيدًا طَيِّبًا
)
“تو پاک مٹی سے تیمم کرو”
کی تفسیر اگرچہ بعض اہل لغت کے کہنے کے مطابق صرف مٹی ہے ؛ لیکن اکثر اہل لغت کی رائے کے مطابق “صَعِيدًا
”سے مراد مطلق زمین ہے۔لہذا ہر وہ چیز ، جس پر زمین کا اطلاق ہو ، اس پر تیمم صحیح ہے۔
مندرجہ ذیل آیت مجیدہ اور پیغمبر اکرم ﷺ کی ایک حدیث شریف سے بھی دوسری تفسیر کی تائید ہوتی ہے:
آیت مجیدہ:
(
فَتُصْبِحَ صَعِيدًا زَلَقًا
)
“اور وہ (باغ) صاف میدان بن جائے۔”
حدیث شریف:
“یحشر الناس یوم القیامة حفاة عراة علی صعید واحد
.”“قیامت کے دن تمام لوگوں کو برہنہ اور ننگے پیر ایک زمین پر محشور کیا جائے گا۔”
تیمم کے اسباب:
مندرجہ ذیل مواقع میں مکلف پر تیمم کرنا واجب ہوجاتا ہے:
۱ ۔تلاش کے بعد پانی نہ ملے۔اگر وہ کسی ناہموار زمین پر ہو توچاروں طرف ایک تیر کی پرواز کے فاصلےتک پانی کی تلاش میں جائے اور اگر ہموار زمین پر ہو تو دو تیروں کی پرواز کے فاصلے تک جائے۔
۲ ۔پانی تک پہنچنے میں خطرہ ہو ،
۳ ۔ پانی کے استعمال سے اپنے آپ کے یا کسی دوسرے کےبارے میں خوف ہو،
۴ ۔ پانی کے حصول میں مشقت اور سختی پیش آئے ،
۵ ۔نماز کا وقت تنگ ہو،
۶ ۔ پانی کا استعمال کرنا کسی ایسے واجب کے ساتھ ٹکراتا ہو جس کے لئے صرف پانی ضروری ہے۔
دلائل:
۱ ۔ پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کے واجب ہونے پر مندرجہ ذیل آیت اور بعض روایات
دلالت کر رہی ہیں:
(
...فَلَمْ تجَِدُواْ مَاءً فَتَيَمَّمُواْ صَعِيدًا طَيِّبًا
)
“پھر تمہیں پانی میسر نہ آئے تو پاک مٹی سے تیمم کرو”
۲ ۔ پانی کا تلاش کرنا واجب ہونے پر بعض روایات دلالت کر رہی ہیں جن میں سے ایک روایت کو دو اماموں (حضرت امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہما السلام )میں سے کسی ایک سے زرارہ نے نقل کیا ہے:
“إِذَا لَمْ يَجِدِ الْمُسَافِرُ الْمَاءَ فَلْيَطْلُب
....” “اگر کسی مسافر کو پانی نہ ملے تو اسے تلاش کرنا چاہئے۔۔۔”
نیز قاعدہ اشتغال کے مطابق مکلف پر پانی کا تلاش کرنا ضروری ہے؛ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس پر طہارت کے ساتھ نماز پڑھنا واجب ہے خواہ پانی کے ذریعے طہارت کرے یا مٹی کے ذریعے۔ چونکہ مٹی سے طہارت کرنے کا مرحلہ پانی کی طہارت کے بعد آتا ہے ؛لہذا حکم عقل کے مطابق مکلف پر پہلے پانی کی جستجو میں نکل جانا ضروری ہے۔ (پھر پانی نہ ملنے کی صورت میں اسے تیمم کرنا چاہئے۔) اگر وہ پانی کی تلاش میں گئے بغیر تیمم کرکے نماز پڑھے توفریضہ انجام پانے کا احتمال پایا جاتا ہے۔ ( جبکہ یقین حاصل ہونا ضروری ہے۔ )
۳ ۔ مذکورہ فاصلے تک پانی کی تلاش میں جانا ضروری ہونے کی دلیل: اس حکم کا ماخذ سکونی کی موثق روایت ہے جو اس نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ،انہوں نے اپنے والد گرامی حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے اور انہوں نے حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے نقل کی ہے:
“يُطْلَبُ الْمَاءُ فِي السَّفَرِ إِنْ كَانَتِ الْحزُونَة فَغَلْوَةً وَ إِنْ كَانَتْ سُهُولَة فَغَلْوَتَيْن
.”“سفر کی حالت میں پانی تلاش کیا جائے گا۔ اگر ناہموار زمین ہو تو ایک تیر کی پرواز کے فاصلے تک اور اگر ہموار زمین ہو تو دو تیر کی پرواز کے فاصلے تک (تلاش کیا جائے گا)۔”
اگرچہ سکونی کی وثاقت کے بارے میں صراحتاًکچھ ذکر نہیں کیا گیا ہے ؛لیکن کتاب “عدّہ” میں شیخ طوسی ؒ کا یہ دعویٰ کرنا کافی ہے کہ : “علماء نے سکونی کی روایتوں پر عمل کیا ہے۔”
پانی تلاش کرنے کی مقدار کو ایک تیر یا دو تیر کے فاصلے تک میں محدود کرنے سے فقیہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ مقدار،عرف کے نزدیک پانی ملنے یا نہ ملنے کو سمجھنے کا ایک ذریعہ ہے۔گزشتہ زمانے میں اسی مقدار میں تلاش کرنے کے بعد نہ ملتا تو اس پر پانی کا نہ ملنا صادق آتا تھا۔ اس لحاظ سے موجودہ زمانے میں تلاش اور جستجو کے ترقی یافتہ وسائل کی موجودگی کے باعث مذکورہ مقدار سے اتنی زیادہ مقدار میں تلاش کرنا ضروری ہوجاتا ہے کہ عرفاً کہا جا سکے کہ مکلف نے ممکنہ کوشش کی اور پانی نہ مل سکا ۔
۴ ۔ خوف کی حالتوں میں تیمم کے واجب ہونے کا حکم آیت مجیدہ(
...فَلَمْ تجَِدُواْ مَاءً فَتَيَمَّمُواْ صَعِيدًا طَيِّبًا
)
سے اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ آیت مجیدہ میں بیماری کے ذکر سے معلوم ہوتا ہے کہ پانی نہ ملنے سے مراد، پانی کے استعمال پر قادر نہ ہونا ہے؛ لہذا جب نفس اور عزت کی حفاظت واجب ہے تو ان دونوں کے بارے میں خوف ہونے کی صورت میں بھی قادر نہ ہونا صادق آتا ہے۔
۵ ۔ پانی کے حصول میں سختی پیش آنے کی صورت میں تیمم کا واجب ہونا “قاعدةٔ نفی حرج
” کا نتیجہ ہے جو قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے:“مَا جَعَلَ عَلَيْكمُْ فىِ الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ
”،“ اور دین کے معاملے میں تمہیں کسی مشکل سے دوچار نہیں کیا”
۶ ۔وقت کی تنگی کے باعث تیمم کا واجب ہونا،مشہور فتویٰ ہے جس پر آیت تیمم سے اس طرح استدلال کیا جا سکتا ہے کہ پانی کے نہ ملنے سے وضو کرنے کاحکم عام ہے جو وقت کی تنگی کی وجہ سے وضو کرنا ممکن نہ ہونے کی صورت کو بھی شامل ہے۔
نیز زرارہ کی روایت صحیحہ بھی اس حکم پر دلالت کرتی ہے:“...فَإِذَا خَافَ أَنْ يَفُوتَهُ الْوَقْتُ فَلْيَتَيَمَّمْ وَ لْيُصَلِّ
”“جب وقت کے ختم ہونے کا خوف ہو تو تیمم کرے اور نماز بجا لائے۔”
۷ ۔ کسی دوسرے واجب کے ساتھ ٹکراؤ کی صورت میں تیمم کا واجب ہونا اس لئے ہے کہ جب مکلف کے ذمے ایک دوسرا واجب ہوجو زیادہ اہم ہو تو ضروری ہے کہ پانی کو اس واجب کے لئے رکھ دیا جائے ۔ اس صورت میں مکلف پر پانی کا نہ ملنا صادق آتا ہے۔