مطہرات
نجس ہونے والی چیزیں مندرجہ ذیل میں سے کسی ایک سبب کے ذریعے پاک ہو جاتی ہیں:
۱ ۔ پانی:
پانی ہر نجس ہونے والی چیز کو ،یہاں تک کہ نجس ہونے والے پانی کو بھی پاک کرتا ہے ؛ لیکن مضاف پانی جب تک مضاف کی حالت میں ہو ، پانی کے ذریعے پاک نہیں ہو سکتا۔
اگر کوئی برتن، کتےکے چاٹنے کی وجہ سے، نجس ہو جائے تو اس کو پاک کرنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے مٹی مانجے پھر تین مرتبہ قلیل پانی سے دھوئے یا مٹی مانجنے کے بعد ایک مرتبہ کثیر پانی سے دھوئے۔
اگر ،سور کے پانی پینے یا چوہے کے مرنے کی وجہ سے، کوئی برتن نجس ہوجائے تو سات مرتبہ دھونے سے پاک ہوجاتا ہے خواہ قلیل پانی سے دھولے یا کثیر پانی سے۔
مندرجہ بالا موارد کے علاوہ ، تین مرتبہ قلیل پانی سے یا ایک مرتبہ کثیر پانی سے دھولیا جائے تو نجس برتن پاک ہوجاتا ہے مگر یہ کہ شراب کا برتن ہو۔ شراب کے برتن کو تین مرتبہ دھونے کی ضرورت ہوتی ہے خواہ کثیر پانی سے ہی کیوں نہ ہو۔
اگر بدن ، پیشاب کی وجہ سے، نجس ہو جائے تو قلیل پانی سے دو مرتبہ یا کثیر پانی سے ایک مرتبہ دھو لیا جائے تو پاک ہوگا۔
کپڑوں پر پیشاب لگنے کی صورت میں جاری پانی سے ایک مرتبہ یا غیر جاری پانی سے دو مرتبہ دھو لیا جائے تو کپڑے پاک ہوں گے۔
ان کے علاوہ باقی چیزیں اگر پیشاب کی وجہ سے نجس ہوجائیں تو مشہور فتویٰ کے مطابق قلیل پانی میں دو مرتبہ دھونے سے وہ پاک ہو جائیں گی۔
پیشاب کے علاوہ کسی اور نجاست کی وجہ سے نجس ہونے کی صورت میں ایک مرتبہ دھونا کافی ہے خواہ قلیل پانی سے ہو یا کثیر پانی سے۔
مشہور فتویٰ کے مطابق کسی نجس چیز پر بارش کا پانی لگ جائے تو وہ پاک ہوجائے گی ۔ اس پر بار بار بارش برسنا یا اسے نچوڑنا ضروری نہیں۔
دلائل:
۱ ۔ کلی طور پر پانی کاپاک کنندہ ہونا ان بدیہی امور میں سے ہے جن پر اہل شریعت کا ارتکاز ذہنی دلالت کرتا ہے اور یہ ارتکاز ذہنی،اہل شریعت کو معصوم ؑ سے دست بدست ورثے میں ملا ہے۔
اس کےساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے فرمان:(
وَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً طَهُورًا
)
“اور ہم نے آسمان سے پاکیزہ پانی برسایا ہے۔”
سے بھی تمسک کیا جا سکتا ہے؛ بشرطیکہ “طَهُورًا
”سے مراد پاک کنندہ ہو۔
علاوہ بر ایں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی داؤد بن فرقد کی صحیح روایت سے بھی استدلال کیا جا سکتا ہے:
“كَانَ بَنُو إِسْرَائِيلَ إِذَا أَصَابَ أَحَدَهُمْ قَطْرَةُ بَوْلٍِ، قَرَضُوا لُحُومَهُمْ بِالْمَقَارِيضِ، وَ قَدْ وَسَّعَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ بِأَوْسَعِ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَ الْأَرْضِ،وَجَعَلَ لَكُمُ الْمَاءَ طَهُوراً فَانْظُرُوا كَيْفَ تَكُونُونَ
.”“بنی اسرائیل میں سے کسی پر پیشاب لگتا تو وہ اپنے گوشت کو قینچی سے کاٹ لیتا تھا؛ جبکہ خدا نے تم لوگوں پر زمین و آسمان کی درمیانی وسعت جتنی آسانی کردی ہے اور تمہارے لئے پانی کو پاک کنندہ قرار دیا ہے ۔ پس دیکھو تم لوگ کس طرح عمل کرتے ہو۔”
نیز کپڑے اور بدن کو دھونے کا حکم دینے والی روایتوں سے بھی تمسک کیا جا سکتا ہے۔
۲ ۔ پانی کے، ہر چیز کا،پاک کنندہ ہونے کا حکم فقہاء کے درمیان متفق علیہ مسئلہ ہے مگر یہ کہ وہ نجس مضاف پانی ہو( تو اس صورت میں اختلاف ہے کہ مضاف پانی ، پاک ہوتا ہے یا نہیں)۔
اس حکم کو ثابت کرنے کے لئے ان روایات سے تمسک کیا جاسکتا ہے جو کپڑا اور بدن وغیرہ کے لئے پانی کو پاک کنندہ قرار دیتی ہیں ۔ البتہ اس وضاحت کے ساتھ کہ کپڑا اور بدن مذکورہ حکم کے ثبوت میں دخیل نہیں ؛ بلکہ ان کا ذکر بطور مثال کیا گیا ہے۔
یا عمار کی موثق روایت سے تمسک کیا جاسکتا ہے جو اس شخص کے بارے میں ہے جس نے ایک ایسے برتن سے وضو کیا تھا یا اس میں کپڑے دھوئے تھے کہ جس میں ایک چوہا گل چکا تھا۔(امام ؑ نے فرمایا:)“يَغْسِلَ كُلَّ مَا أَصَابَهُ ذَلِكَ الْمَاء
”“ان تمام چیزوں کو دھو لے جنہیں یہ پانی لگا ہے۔”
اس روایت کے عموم کا تقاضا یہ ہے کہ پانی ہر نجس ہونے والی چیز کو پاک کرتا ہے۔
۳ ۔ نجس ہونے والے پانی کو بھی پانی ہی پاک کر سکتا ہے اس کی دلیل وہ عام علت ہے جوحضرت امام رضا علیہ السلام سے مروی ابن بزیع کی روایت صحیحہ میں بیان ہوئی ہے:
“مَاءُ الْبِئْرِ وَاسِعٌ لَا يُفْسِدُهُ شَيْءٌ إِلَّا أَنْ يَتَغَيَّرَ رِيحُهُ أَوْ طَعْمُهُ فَيُنْزَحُ حَتَّى يَذْهَبَ الرِّيحُ وَ يَطِيبَ طَعْمُهُ لِأَنَّ لَهُ مَادَّةً
.”“ کنویں کا پانی وسیع ہے۔ جب تک اس کی بو یا ذائقہ تبدیل نہ ہو جائے کوئی چیز اسے نجس نہیں کر سکتی ( جب اس کی بو یا ذائقہ بدل جائے تو) اس سے اتنا پانی نکالا جائے کہ اس کی بدبو ختم ہو جائے اور اس کا ذائقہ بہتر ہو جائے؛ کیونکہ کنویں کا پانی منبع (سے متصل)ہوتا ہے۔”
پس جب نجس شدہ قلیل پانی، آب کر سے متصل ہوجائے تو اس کے پاک ہونے کے لئے یہی کافی ہے۔
۴ ۔ مضاف پانی کو پاک نہ کرسکنے کی دلیل: علامہ ؒ
کے سوا کسی فقیہ کو اس حکم سے اختلاف نہیں ہے۔ پانی کے ہر چیز کا پاک کنندہ ہونے کی دلیلیں اس بات کو بیان کرنے سے قاصر ہیں کہ پانی ، مضاف کو بھی پاک کر سکتا ہے ؛ کیونکہ روایات میں ذکر شدہ چیزوں کے بارے میں یہ احتمال ہے کہ حکم کے ثبوت میں یہی چیزیں دخیل ہیں ؛ لہذا مذکور چیزوں کے علاوہ کسی دوسری چیز کی طرف حکم کا دائرہ پھیلانے کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔ادھر ، عمار کی موثق روایت سے بھی تمسک نہیں کیا جا سکتا ؛ کیونکہ مضاف پانی پر دھونا صادق نہیں آتا؛( جبکہ روایت میں دھونے کا حکم ہوا ہے)۔
البتہ مضاف پانی پر اس قدر پانی کا اضافہ کیا جائے کہ وہ مضاف نہ کہلائے اور اس کا موضوع ہی ختم ہو جائے تو اس طرح سے پاک ہونا “قاعدۂ طہارت” کا تقاضا ہے۔
۵ ۔ کتے کے چاٹے ہوئے برتن کا مذکورہ حکم ، حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی بقباق کی روایت صحیحہ کی وجہ سے لگایا جاتا ہے کہ جب کتے کے بارے میں سوال کیا گیا تو امام ؑ نے فرمایا:
“رِجْسٌ نِجْسٌ لَا يُتَوَضَّأْ بِفَضْلِهِ،وَاصْبُبْ ذَلِكَ الْمَاءَ وَ اغْسِلْهُ بِالتُّرَابِ أَوَّلَ مَرَّةٍ ثُمَّ بِالْمَاءِ مَرَّتین
.” “نجس اور ناپاک ہے اس جھوٹے پانی سے وضو نہیں کیا جائے گا۔ اس پانی کو گرا کر پہلے برتن کو مٹی مانجے پھر دو مرتبہ پانی سے دھولے۔”
بشرطیکہ روایت میں، محقق ؒ کی نقل
کے مطابق لفظ “مَرَّتین”موجود ہو۔
لیکن اگر یہ لفظ موجود نہ ہو تو روایت کے اطلاق کا تقاضا ، ایک مرتبہ دھونا کافی ہونا، ہے۔البتہ عمار کی موثق روایت، جو بعد میں ذکر ہوگی، بتا رہی ہے کہ نجس ہونے والے برتن کو ، خواہ کسی قسم کی نجاست کی وجہ سے نجس ہوا ہو، تین مرتبہ دھونا ضروری ہے اورہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ شاید کتے کے چاٹے ہوئے برتن کی نجاست دوسری نجاستوں سے کم تر ہو۔
اس بیان کے مطابق موثقہ روایت ، صحیحہ کے لئے مقید بنے گی اور درعین حال مٹی مانجنا ضروری ہونے کی جہت سے صحیحہ ، موثقہ کے لئے مقید بنے گی؛ یعنی دونوں روایتیں ،دو مختلف جہتوں سے ایک دوسرےکے لئے مقید بنتی ہے۔( صحیحہ میں جب “مَرَّتین” کا لفظ نہ ہو تو پانی سے دھونے کا حکم مطلق ہے لہذا موثقہ ،اس کو تین مرتبہ دھونے کے ساتھ مقید کرتی ہے اور موثقہ میں صرف دھونے کا ذکر ہے لہذا صحیحہ ، مٹی مانجنے کی قیدکا ذکر کر کے اس کو مقید کرتی ہے۔)
۶ ۔ مذکورہ برتن کو تین مرتبہ دھونے کا حکم قلیل پانی کے ساتھ مختص ہونے کی وجہ معمولی سی توجہ سے معلوم ہوجاتی ہے کہ موثقہ ، جو صحیحہ کے لئے مقید بن رہی ہے، میں متعدد بار دھونے کا حکم قلیل پانی کے ساتھ مختص ہے؛ لہذاقلیل کے علاوہ پانی کے لحاظ سے صحیحہ اپنے اطلاق پر باقی رہے گی بشرطیکہ لفظ “مَرَّتین”موجود نہ ہو۔
۷ ۔ سور کے پانی پینے والے برتن کو سات مرتبہ دھونا ضروری ہونے کی دلیل، علی ابن جعفر کی روایت ہے جو انہوں نے اپنے برادر بزرگوار حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے نقل کی ہے:
“سَأَلْتُهُ عَنْ خِنْزِيرٍ شَرِبَ مِنْ إِنَاءٍ كَيْفَ يُصْنَعُ بِهِ؟ قَالَ: يُغْسَلُ سَبْعَ مَرَّاتٍ.
”“میں نے امام ؑ سے سوال کیا: ایک برتن سے سور نے پانی پیا ہے اسے کیسے پاک کیا جائے؟ فرمایا: اس برتن کو سات مرتبہ دھویا جائے گا۔”
اس روایت کے اطلاق میں کثیر پانی سے دھونے کی صورت بھی شامل ہے۔
۸ ۔ مذکورہ موارد کے علاوہ میں، برتنوں کو قلیل پانی سے تین مرتبہ دھونا ضروری ہونے پر عمار ساباطی کی موثق روایت ، جس کے بارے میں ہم نے اوپر گفتگو کی ، دلالت کررہی ہے ۔ روایت اس طرح ہے:
“سُئِلَ عَنِ الْكُوزِ وَ الْإِنَاءِ يَكُونُ قَذِراً كَيْفَ يُغْسَلُ؟وَكَمْ مَرَّةً يُغْسَلُ؟ قَالَ: يُغْسَلُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، يُصَبُّ فِيهِ الْمَاءُ فَيُحَرَّكُ فِيهِِ، ثُمَّ يُفْرَغُ مِنْهُ،ثُمَّ يُصَبُّ فِيهِ مَاءٌ آخَرُ فَيُحَرَّكُ فِيهِ،ثُمَّ يُفْرَغُ ذَلِكَ الْمَاءُ، ثُمَّ يُصَبُّ فِيهِ مَاءٌ آخَرُ فَيُحَرَّكُ فِيهِ، ثُمَّ يُفْرَغُ مِنْهُ وَ قَدْ طَهُر
...”“امام ؑ سے سوال کیا گیا کہ کوزہ اور ظروف نجس ہو جائیں تو ان کو کیسے اور کتنی بار دھویا جاتا ہے؟ فرمایا: ان کو تین بار دھویا جاتا ہے۔ برتن میں پانی ڈال کر ہلایا جاتا ہے پھر اس پانی کو گرایا جاتا ہے۔ دوسری بار اس میں پانی ڈال کر ہلایا جاتا ہے پھر اس پانی کو بھی گرایا جاتا ہے۔ اس کے بعد تیسری بار اس میں پانی ڈال کر ہلایا جاتا ہے پھر اس پانی کو بھی گرایا جاتا ہے۔ (اس کے بعد ) وہ برتن پاک ہوگا۔ ”
۹ ۔ کثیر پانی سے ایک مرتبہ دھونا کافی ہونے کی وجہ یہ ہے کہ موثقہ روایت میں تین بار دھونے کے حکم کو آب قلیل سے دھونے کے ساتھ مقید کیا گیا ہے۔ چنانچہ جب یہ قید (آب قلیل سے دھونا)نہ ہو تودلیل کے اطلاق کے پیش نظر ایک بار دھو ناکافی ہوگا۔
۱۰ ۔ شراب کے برتنوں کو اس حکم سے مستثنیٰ قرار دینے کی وجہ عمار کی گزشتہ موثقہ روایت کا اطلاق ہے:
“...وَ قَالَ: فِي قَدَحٍ أَوْ إِنَاءٍ يُشْرَبُ فِيهِ الْخَمْرُ، قَالَ: تَغْسِلُهُ ثَلَاثَ مَرَّات
.”“جن برتنوں اور گلاسوں سے شراب پی جاتی ہے، ان کے بارے میں امام ؑ نے فرمایا: ان کو تین مرتبہ دھو لے۔”
۱۱ ۔ پیشاب لگنے کی صورت میں بدن کو آب قلیل سے دومرتبہ یا آب کثیر سے ایک مرتبہ دھونا ضروری ہونے پر بعض روایات دلالت کرتی ہیں جن میں سے ایک حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ابو اسحاق نحوی کی روایت صحیحہ ہے:
“سَأَلْتُهُ عَنِ الْبَوْلِ يُصِيبُ الْجَسَدَِ، قَالَ: صُبَّ عَلَيْهِ الْمَاءَ مَرَّتَيْنِ
.”“میں نے بدن کو لگنے والے پیشاب کے بارے میں امام ؑ سے سوال کیا تو آپ ؑ نےفرمایا: بدن پر دو مرتبہ پانی ڈالا جائے گا۔”
اس وضاحت کے ساتھ کہ “پانی ڈالنے” کی تعبیر آب قلیل سے مختص ہے( لہذا آب قلیل سے دھونے کی صورت میں دو مرتبہ پانی ڈالا جائے گا)۔ باقی رہیں دو صورتیں ( ۱ ۔ آب کثیر سے دھونے کی صورت اور ۲ ۔پیشاب کے علاوہ کسی دوسری نجاست کی وجہ سے نجس ہونے والی صورت)؛ تو یہ دونوں صورتیں ، دلیل کے اطلاق میں شامل ہوں گی؛ لہذا ایک مرتبہ دھونا کافی شمار ہوگا۔
۱۲ ۔ پیشاب لگنے والے کپڑوں کو آب جاری میں ایک مرتبہ یا غیر جاری میں دومرتبہ دھونا ضروری ہونے پر محمد بن مسلم کی صحیح روایت دلالت کر رہی ہے:
“سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام عَنِ الثَّوْبِ يُصِيبُهُ الْبَوْلُ، قَالَ: اغْسِلْهُ فِي الْمَرْكَنِ مَرَّتَيْنِ، فَإِنْ غَسَلْتَهُ فِي مَاءٍ جَارٍ فَمَرَّةً وَاحِدَةً
.”“میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے پیشاب لگنے والے کپڑے کے بارے میں سوال کیاتو آپ ؑ نے فرمایا: طشت میں اس کو دو مرتبہ دھولے۔ اگر تو نے آب جاری میں اسے دھویا تو صرف ایک مرتبہ (دھونا کافی ہے)۔”
یہ روایت نجس کپڑے کو آب جاری سے ایک مرتبہ دھونا کافی ہونے اور غیر جاری سے دو بار دھونا ضروری ہونے پر دلالت کر رہی ہے۔ نیز یہ حکم پیشاب کی وجہ سے نجس ہونے کی صورت کے ساتھ مختص ہے ۔ باقی رہی پیشاب کے علاوہ کسی اور نجاست کی وجہ سے نجس ہونے والی صورت ، تو یہ صورت دلیل کے اطلاق میں شامل ہوگی ؛ لہذا ایک مرتبہ دھونا کافی شمار ہوگا۔
۱۳ ۔ مشہور کے مطابق کپڑا اور بدن کے علاوہ باقی چیزوں کو ، پیشاب سے نجس ہونے کی صورت میں،آب قلیل سے دو مرتبہ دھونا ضروری ہونے کی دلیل، نجاست کے حکم کو ثابت کرنے کے لئے کپڑا اور بدن کو دخیل نہ سمجھنا اورحکم کے دائرے میں ان دونوں کے علاوہ باقی چیزوں کو بھی شامل سمجھنا ہے۔
مگر اس دعویٰ کی ذمہ داری اس کے مدعی پر ہے۔(یعنی اس کی دلیل لانا ہمارے ذمے نہیں)۔
۱۴ ۔ پیشاب کے علاوہ کسی دوسری نجاست کی وجہ سے نجس ہونے کی صورت میں ایک مرتبہ دھونا کافی ہونے کی دلیل: چونکہ دلیل کے اطلاق کو مقید کرنے والی کوئی چیز نہیں ہے ؛ لہذا اطلاق کے تحت یہی حکم ثابت ہوتا ہے۔
۱۵ ۔ بارش کا پانی لگنے سے ، نچوڑے اور ایک سے زائد بار برسے بغیر نجس شدہ چیز کا پاک ہونا، فقہاء کے درمیان مشہور ہے اور اس بارے میں متقدمین میں سے کسی فقیہ کا اختلاف سامنے نہیں آیا ہے۔
اسی حکم پر کاہلی کی مرسلہ روایت دلالت کرتی ہے جو اس نے کسی شخص کی وساطت سے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سےنقل کی ہے:“...كُلُّ شَيْءٍ يَرَاهُ مَاءُ الْمَطَرِ فَقَدْ طَهُرَ
.” ،“ ۔۔۔ ہروہ چیز جس تک بارش کا پانی پہنچے ، پاک ہو جائے گی۔”
بشرطیکہ اس قاعدے کو مان لیا جائے کہ شہرت فتوائی ضعف سند کو دور کرتی ہے۔
۲ ۔ زمین:
زمین ، پاؤں اور جوتوں کے تلوؤں سمیت متداول مقدار میں ان کی اطراف کو پاک کرتی ہے ۔ اس طرح پاک ہونے کے دو طریقے ہیں : ۱ ۔ زمین پر چلنا، یا ۲ ۔ پاؤں یا جوتوں کو زمین سے رگڑنا بشرطیکہ عین نجاست زائل ہو جائے۔
جب “چلنا ”صادق آئے اور جس چیز پر چلا ہے اس کے “زمین ” ہونے میں شک ہو تو پاک ہونے کا حکم نہیں لگایا جائے گا۔
دلائل:
۱ ۔ پاؤں اور جوتوں کے تلوؤں کو زمین ، پاک کر سکتی ہے ۔اس حکم میں شیخ طوسی ؒ کے علاوہ کسی اور کا اختلاف سامنے نہیں آیا ہےاور اسی حکم پر بعض روایات دلالت کر رہی ہیں جن میں سے ایک حلبی کی صحیح روایت ہے:
“نَزَلْنَا فِي مَكَانٍ بَيْنَنَا وَ بَيْنَ الْمَسْجِدِ زُقَاقٌ قَذِرٌ، فَدَخَلْتُ عَلَى أَبِي عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام فَقَالَ: أَيْنَ نَزَلْتُمْ؟ فَقُلْتُ: نَزَلْنَا فِي دَارِ فُلَانٍ، فَقَالَ: إِنَّ بَيْنَكُمْ وَ بَيْنَ الْمَسْجِدِ زُقَاقاً قَذِراً أَوْ قُلْنَا لَهُ: إِنَّ بَيْنَنَا وَ بَيْنَ الْمَسْجِدِ زُقَاقاً قَذِراً، فَقَالَ: لَا بَأْسَ انّ الْأَرْضَ تُطَهِّرُ بَعْضُهَا بَعْضاً.
..”“ہم ایسی جگہ پہنچے کہ ہمارے اور مسجد کے درمیان ایک نجس گلی تھی، پھر میں حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا تو آپ ؑ نے فرمایا:تم لوگ کہاں اترے؟ عرض کیا : فلاں کے گھر۔ فرمایا: تمہارے اور مسجد کے درمیان ایک نجس گلی ہے یا ہم نے امام ؑ سے عرض کیا: ہمارے اور مسجد کے درمیان ایک نجس گلی ہے۔ فرمایا: کوئی حرج نہیں ؛ کیونکہ زمین کا بعض حصہ ، دوسرے بعض حصے کو پاک کرتا ہے۔”
روایت میں مذکور علت “تُطَهِّرُ بَعْضُهَا بَعْضاً
”کے عموم کی وجہ سے حکم میں جوتا وغیرہ کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے؛ بلکہ روایت کے اطلاق سے ہی اس حکم کو اخذ کیا جا سکتا ہے ، علت کے عموم سے تمسک کرنے کی ضرورت نہیں ۔
البتہ اس علت کو “لَا بَأْسَ
” کے ساتھ ملایا جانا ضروری ہے تاکہ اس بات کی گنجائش نہ رہے کہ “لَا بَأْسَ
” مسجد کو نجس کرنے کی جہت سے کہا گیا ہے۔
۲ ۔ متداول مقدار میں پاؤں اور جوتوں کی اطراف کے بھی پاک ہونے کی دلیل: عموما راستہ چلتے ہوئے بہت کم مواقع کے علاوہ صرف تلوے ہی زمین پر نہیں لگتے ؛ بلکہ اطراف بھی لگتی ہیں ؛ لہذا روایت کے اطلاق کی وجہ سے یہ حکم لگایا جاتا ہے۔
۳ ۔ زمین سے مس ہونا کافی ہونے کی دلیل، گزشتہ روایت میں مذکور علت کا عموم ہے۔
۴ ۔ عین نجاست کا زائل ہونا ضروری ہونے کی دلیل: یہ ایک واضح بات ہے ؛ کیونکہ جب تک عین نجاست زائل نہ ہوجائے کوئی چیز پاک نہیں ہو سکتی۔ البتہ چلنے یا زمین کے ساتھ مس کرنے کے ذریعے عین نجاست کا زائل ہونا ضروری نہیں؛ بلکہ اگر کسی دوسری چیز مثلا کپڑے کے ذریعے نجاست کو برطرف کیا جائے پھر زمین پر چلے یا زمین کے ساتھ مس کرے تو کافی ہے۔کیونکہ اصل مقصد نجاست کو زائل کرنا ہے اس کے لئے جو بھی طریقہ اپنائے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اورروایت کے مطابق ، علت میں بھی عمومیت پائی جاتی ہے۔
۵ ۔ جس چیز پر چلا ہے اس کے “زمین ” ہونے میں شک ہو تو پاک نہ ہونے کا حکم اس لئے لگایا جاتا ہے کہ پاک ہونے کی شرط، زمین پر چلنا یا زمین سے مس کرنا ہے اور شک کی صورت میں یہ شرط پوری نہیں ہوتی۔ نیزیہاں پر نجاست کے استصحاب کے باعث قاعدہ طہارت بھی جاری نہیں ہوگا۔
۳ ۔سورج:
سورج کے ذریعے زمین نیز درخت اور دروازے کی مانند تمام غیر منقول چیزیں پاک ہو جاتی ہیں بشرطیکہ یہ چیزیں دھوپ پڑنے کی وجہ سے سوکھ جائیں اگرچہ کچھ حد تک ہوا کی بھی مشارکت ہو۔
دلائل:
۱ ۔ سورج ، زمین کو پاک کر تا ہے یہ حکم فقہاء میں مشہور ہے۔ کہا گیا ہے کہ سورج ، زمین کو پاک نہیں کرتا؛ بلکہ صرف اس زمین پر سجدہ اور تیمم جائز ہونے کا موجب بنتا ہے۔مشہور حکم پر بعض روایت دلالت کرتی ہیں جن میں سے ایک زرارہ کی صحیح روایت ہے:
“سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍعلیه السلام عَنِ الْبَوْلِ يَكُونُ عَلَى السَّطْحِ أَوْ فِي الْمَكَانِ الَّذِي يُصَلَّى فِيهِ، فَقَالَ:إِذَا جَفَّفَتْهُ الشَّمْسُ، فَصَلِّ عَلَيْهِ فَهُوَ طَاهِرٌ
.”“میں نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے نماز کی جگہ یا کسی چھت پر پائے جانے والے پیشاب کے بارے میں سوال کیا تو آپ ؑ نے فرمایا: اگر سورج اسے سکھا دے تو اس پر نماز پڑھ لے وہ پاک ہے۔”
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے زمانے میں لفظ “طہارت ” سے ، اصطلاحی معنی کے بجائے “صاف ہونا ” جیسے معانی ،مراد لینے کا احتمال دینا بعید ہے۔
۲ ۔ سورج ، غیر منقول چیزوں کو پاک کرتا ہے ۔ یہ حکم بھی فقہاء میں مشہور ہے اور اس پر گزشتہ صحیح روایت کا اطلاق دلالت کر رہا ہے ۔ روایت کے اطلاق میں زمین کے علاوہ اس پر بچھی ہوئی لکڑیاں اور تختے بھی شامل ہیں ۔ یہیں سے اس حکم کے دائرے میں وہ لکڑیاں بھی آجائیں گی جو زمین پر بچھی ہوئی نہ ہوں ؛ بلکہ دروازہ وغیرہ کی طرح دیوار میں گاڑ دی گئی ہوں بشرطیکہ ہم ان موارد کے درمیان کوئی فرق ہونے کے قائل نہ ہوں۔
۳ ۔پاک ہونے کے لئے دھوپ کے ذریعے ان چیزوں کے سوکھ جانے کی شرط روایت کے ظاہر سے معلوم ہوجاتی ہے۔
۴ ۔ دھوپ کے ساتھ ہوا کی بھی مشارکت ہو تو اس میں اشکال نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ سورج کو پاک کنندہ قرار دینے والی روایات مطلق ہیں؛ لہذا اس کا فیصلہ عرف کرے گا اور جب کسی چیز کو سکھانے میں دھوپ کے ساتھ ہوا کی بھی مشارکت ہو تو عرفاً اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
۴ ۔ استحالہ:
جب کوئی عین نجاست یا نجس شدہ چیز کسی دوسری چیز میں تبدیل ہو جائے مثلا نجس لکڑی جل کر راکھ بن جائے تو وہ پاک ہوجائے گی؛ لیکن اگر نجس مٹی کو پکا کر کوزہ بنایا جائے تو وہ مٹی پاک نہیں ہوگی۔
دلائل:
۱ ۔ لکڑی کے راکھ بننے سے پاک ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جس موضوع پر نجاست کاحکم لگایا گیا تھا وہ ختم ہوگیا ہے اور ایک نیا موضوع وجود میں آیا ہے جس کا پاک ہونا قاعدہ ٔ طہارت کے ذریعے ثابت کیا جا سکتا ہے۔
یہاں پر نجاست کا استصحاب نہیں کیا جا سکتا؛ کیونکہ عرفاً سابقہ موضوع ختم ہوچکا ہے۔(جبکہ استصحاب کر سکنے کے لئے موضوع کا نہ بدلنا شرط ہے)۔
۲ ۔ کوزہ بنائی جانے والی نجس مٹی کے پاک نہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ کوزہ بنانے کی صورت میں صفت کے بدلنے کے علاوہ مٹی میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آئی ہے اور کوزہ ہو یا مٹی، عرف میں دونوں کو ایک ہی موضوع شمار کیا جاتا ہے۔
۵ ۔ انقلاب:
اگر شراب منقلب ہو کر سرکہ بن جائے تو وہ پاک ہوگی۔ نیز شراب کی متابعت کرتے ہوئے اس کا برتن بھی پاک ہوگا۔
دلائل:
۱ ۔ منقلب ہوکر سرکہ بننے سے شراب کے پاک ہونے پر بعض روایات دلالت کرتی ہیں جن میں سے ایک حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی عبید بن زرارہ کی موثق روایت ہے:
“الرَّجُلِ إِذَا بَاعَ عَصِيراً فَحَبَسَهُ السُّلْطَانُ حَتَّى صَارَ خَمْراًِ، فَجَعَلَهُ صَاحِبُهُ خَلًّا، فَقَالَ: إِذَا تَحَوَّلَ عَنِ اسْمِ الْخَمْرِ فَلَا بَأْسَِ
.”“ایک شخص نے انگور کے رس کا سودا کیااور اس رس کے شراب بننے تک بادشاہ نے اسے محبوس رکھا۔ پھر صاحب مال نے اس کو سرکہ بنایا، امام ؑ نے فرمایا: جب وہ شراب سے (سرکے میں) بدل جائے تو کوئی اشکال نہیں ہے۔”
۲ ۔ شراب کی متابعت میں برتن کا پاک ہونا بھی گزشتہ موثق روایت کی وجہ سے ہے۔ البتہ روایت کے ساتھ اس کی دلالت التزامیہ کو بھی ملاتے ہوئے(یعنی مظروف کے پاک ہونے کا لازمہ ظرف کا پاک ہونا ہے)؛ کیونکہ ظرف ( برتن) کے اپنی نجاست پر باقی رہتے ہوئے مظروف (برتن میں موجود چیز) کے پاک اور حلال ہونے کا حکم نہیں لگایا جا سکتا۔
۶ ۔انتقال:
اگر کوئی نجس چیز کسی پاک حیوان کا جزو بدن بن جائے تو وہ پاک ہو جائے گی۔ مثلا انسان کا خون ، مچھر کا جزو بدن بن جائے تو وہ پاک ہوگا۔
دلائل:
اس حکم کی پہلی دلیل ان روایات کا اطلاق ہے جو منتقل ہونے والے اجزاء کے پاک ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ مثلا غیاث نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے اورانہوں نے اپنے پدر بزرگوار حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے ایک موثق روایت نقل کی ہے:
“لَا بَأْسَ بِدَمِ الْبَرَاغِيثِ، وَ الْبَقِّ، وَ بَوْلِ الْخَشَاشِيفِ
.”“جوں اور مچھر کے خون ،نیز چمگاڈر کے پیشاب میں کوئی اشکال نہیں۔”
دوسری دلیل اہل شریعت کی سیرت ہے۔
۷ ۔ اسلام:
اسلام ، کافر کے تمام اجزائے بدن کو یہاں تک کہ اس کے لباس کو بھی پاک کرتا ہے۔
دلائل:
۱ ۔ اسلام ، کافر کو پاک کرتا ہے ؛ کیونکہ اسلام لانے کے باعث نجاست کا موضوع ختم ہوجاتا ہے اور یہ شخص ان دلیلوں کے دائرے میں شامل ہوجاتا ہے جو مسلمان کے پاک ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔
۲ ۔ کافر کے تمام اجزائے بدن مثلا اس کا پسینہ اور لعاب دہن وغیرہ کے پاک ہونے کی پہلی دلیل یہ ہے کہ یہ اجزاء اس کے نجس بدن کی متابعت میں نجس تھے اور بدن کی نجاست اب ختم ہوگئی ہے۔
دوسری دلیل سیرت مسلمین اور تیسری دلیل یہ ہے کہ پیغمبر اکرم ﷺ نےاسلام لانے والے کسی کافر کو بدن کے دھونے کا حکم نہیں دیا؛ حالانکہ انسان کا بدن غالبا پسینہ اور لعاب دہن سے خالی نہیں ہوتا۔
۳ ۔ کافر کے لباس کے پاک ہونے کی پہلی دلیل سیرت مسلمین ہے اور دوسری دلیل پیغمبر اکرم ﷺ کا اس کے کپڑوں کے دھونے سے متعلق حکم نہ دینا ہے۔
لیکن قدر متیقن یہ ہے کہ کافر کا لباس اس وقت پاک شمار ہوگا جب اس پر کوئی نجاست مثلا خون وغیرہ نہ ہو۔
۸ ۔ تبعیت:
جب کوئی کافر مسلمان ہوجائے تو اس کی متابعت کرتے ہوئے اس کے کپڑے اور اولاد پاک ہوں گی۔
جب کوئی مسلمان کسی بچے کو اسیر کر لے تو اس کی متابعت کرتے ہوئے وہ بچہ پاک ہوگا؛ بشرطیکہ اس کے والدین میں سے کوئی ایک اس کے ہمراہ نہ ہو۔
شراب کے سرکہ بننے سے اس کا برتن بھی پاک ہوگا۔
انگور کے رس کے دوتہائی حصے ختم ہوجائیں تو اس کا برتن بھی پاک ہوگا ؛ بشرطیکہ ہم اس کے نجس ہونے کو مان لیں۔
جب میت کو مکمل غسل دیا جائے تو اس کی متابعت کرتے ہوئے غسال کے ہاتھوں سمیت وہ کپڑے بھی پاک ہوں گے جن میں اسے غسل دیا گیا ہے۔ نیز وہ جگہ بھی پاک ہوجائے گی جہاں میت کو غسل دیا گیا ہے۔
دلائل:
۱ ۔ کافر کے کپڑوں کے پاک ہونے کی دلیلیں(“اسلام” کے ذیل میں) گزر چکی ہیں۔
۲ ۔ ماں باپ میں سے کسی ایک کے مسلمان ہونے سے بچے کا پاک ہونا اس بات کے پیش نظر ہے کہ بچے کو نجس قرار دینے والی دلیل، اجماع ہے ۔ اجماع “دلیل لُبّی” (لفظی کے مقابلے میں)ہے جس میں قدر متیقن کو اخذ کرنا ضروری ہوتا ہے اورہماری بحث میں قدر متیقن یہ ہے کہ یہ بچہ اس وقت نجس ہے جب اس کے والدین میں سے کوئی ایک بھی مسلمان نہ ہو۔ پس جب ان میں سے کوئی ایک مسلمان ہوجائے تو دلیل (اجماع) اس بچے کو نجس قرار دینے سے قاصر ہے؛ لہذا قاعدہ طہارت جاری ہوگا۔
۳ ۔ مسلمان کی متابعت کرتے ہوئے اسیر بچے کے پاک ہونے کی دلیل وہی ہے جونمبر ۲ میں گزر چکی ہے۔
۴ ۔ تبعیت کے حکم کا غیر بالغ کے ساتھ مختص ہونے کی وجہ یہ ہے کہ بالغ ہو نے کی صورت میں وہ ( کسی کا تابع نہیں رہتا بلکہ)یہودی وغیرہ کا عنوان صادق آنے کی وجہ سے نجاست کے لئے ایک جداگانہ موضوع بن جاتا ہے ۔
۵ ۔ اس حکم کے ثابت ہونے کے لئے بچے کے ہمراہ اس کے والدین میں سے کسی ایک کا بھی نہ ہونا اس لئے شرط ہے کہ اگر والدین میں سے کوئی ایک اس کے ساتھ ہو تو اجماع کے باعث وہ بچہ نجاست میں اسی ایک کا تابع بن جائے گا۔
۶ ۔ شراب کے سرکہ بننے سے برتن کے پاک ہونے کی دلیل،“انقلاب” کے ذیل میں بیان کی گئی ہے۔
۷ ۔ انگور کے رس کے دوتہائی حصے ختم ہونے کی صورت میں اس کے برتن کے پاک ہونے کی وہی دلیلیں ہیں جو دو تہائی حصے ختم ہونے کی صورت میں انگور کے رس کو حلال قرار دیتی ہیں کہ جس کا لازمہ انگور کے رس کے ساتھ ساتھ اس کے برتن کا بھی پاک ہونا ہے؛ کیونکہ برتن کے نجس رہتے ہوئے صرف رس کے پاک ہونے کا حکم لگانا سراسر فضول ہے۔
۸ ۔ میت کے ساتھ غسال کے ہاتھ وغیرہ کے پاک ہونے کی دلیل، یا تو مسلمانوں کی یقینی سیرت ہے کہ یہ لوگ مردے کو غسل دینے کے بعد ہاتھ وغیرہ کو نہیں دھوتے۔ یا “اطلاق مقامی” ہے کہ ہاتھ وغیرہ کو دھونا واجب ہونے کے بارے میں نصوص کی خاموشی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مذکورہ چیزیں ، میت کی متابعت کرتے ہوئے پاک ہوجاتی ہیں۔
۹ ۔ عین نجاست کا زائل ہونا:
اعضائے انسانی کے اندرونی حصے اور حیوانات کےبدن، عین نجاست کے زائل ہونے سے پاک ہوجاتے ہیں۔
دلائل:
۱ ۔ عین نجاست کے زائل ہونے سے اعضائے انسانی کے اندرونی حصوں کے پاک ہونے پر اہل شریعت کی یقینی سیرت قائم ہے۔ مثلا کسی کے کان کا اندرونی حصہ خون نکلنے سے نجس ہوجائے یا کسی کی ناک کا اندرونی حصہ یا دانتوں کا درمیانی حصہ نجس ہوجائے تو وہ ان اعضاء کے اندر پانی ڈال کر نہیں دھوتا۔
عمار کی موثق روایت کچھ یوں ہے :
“سُئِلَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام عَنْ رَجُلٍ يَسِيلُ مِنْ أَنْفِهِ الدَّمُ هَلْ عَلَيْهِ أَنْ يَغْسِلَ بَاطِنَهُ يَعْنِي جَوْفَ الْأَنْفِ؟ فَقَالَ: إِنَّمَا عَلَيْهِ أَنْ يَغْسِلَ مَا ظَهَرَ مِنْهُ
.”“حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ ایک آدمی کی ناک سے خون بہتا ہے ۔ کیا اس پر ناک کے اندرونی حصے کو دھونا ضروری ہے ؟ فرمایا: اس پر صرف ناک کے ظاہری حصے کو دھونا ضروری ہے۔”
بلکہ اندرونی اور باطنی حصوں کے نجس ہونے میں اشکال ہے۔
۲ ۔ عین نجاست کے زائل ہونے سے حیوانات کے بدن کا پاک ہونا بھی سیرت مسلمین سے ثابت ہوتاہے۔ مثلا عام طور پر مسلمان ، بلی اور مرغی وغیرہ سے اجتناب نہیں کرتے حالانکہ اس بات کا علم ہوتا ہے کہ بچہ دیتے وقت یا نر و مادہ کی نزدیکی کے دوران یا دوسرے حالات میں ان جانوروں کے منہ یا چونچ یا دوسرے اعضاء پر خون یا دوسری نجاستیں لگتی ہیں اورساتھ ساتھ کسی پاک کنندہ کے عارض ہونے کے بارے میں شک ہوتا ہے یا اس کے عارض نہ ہونے کا علم ہوتا ہے۔ ( اس کے باوجود اجتناب نہیں کرتے۔)
علاوہ بر ایں نجاست کے ساتھ متصل ہونے سے حیوانات کے بدن کے نجس ہونے میں اشکال ہے۔
نجاست سے اتصال کا علم ہونے کے باوجود، عین نجاست کے زائل ہونے سے، حیوانات کے بدن کے پاک ہونے پر بعض اوقات روایات کے ذریعے استدلال کیا جاتا ہے ۔ مثلا حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سے مروی علی ابن جعفر کی روایت صحیحہ ہے:
“عَنْ فَأْرَةٍ وَقَعَتْ فِي حُبِّ دُهْنٍ،وَأُخْرِجَتْ قَبْلَ أَنْ تَمُوتَ،أَ يَبِيعُهُ مِنْ مُسْلِمٍ؟ قَالَ: نَعَمْ،وَ يَدَّهِنُ مِنْهُ
.”“امام ؑ سے سوال کیا گیا کہ تیل کے برتن میں چوہا گر جاتا ہے اور مرنے سے پہلے باہر نکل آتا ہے ۔ کیا وہ تیل کسی مسلمان کو بیچا جا سکتا ہے؟ فرمایا: ہاں ! اس سے مالش کی جا سکتی ہے۔”
اس وضاحت کے ساتھ کہ تیل کے پاک ہونے کا حکم لگانے سے معلوم ہوتا ہے کہ چوہے کا مخرج پیشاب پاک ہے۔
۱۰ ۔ مسلمان کا غائب ہونا:
جب کسی کا لباس یا اس کی متابعت کرنے والی دوسری چیزیں نجس ہو جائیں اور وہ ہماری نظروں سے غائب ہوجائے نیز ان کے پاک کرنے کا احتمال ہوتو ان چیزوں کو پاک سمجھا جائے گا؛ بشرطیکہ وہ نجاست کے معاملے میں لاپروائی نہ کرتا ہو اور اسی لباس کو ان افعال کے لئے استعمال بھی کرے جن میں طہارت شرط ہے۔
دلائل:
۱ ۔غائب ہونا پاک کنندہ ہونے پر اہل شریعت کی سیرت دلالت کرتی ہے اور یہ سیرت استصحاب کے عموم کے لئے مخصص بنتی ہے۔
۲ ۔ پاک کرنے کا احتمال ضروری ہونا ایک واضح حکم ہے ؛ کیونکہ جب پاک کرنے کا احتمال ہی نہ ہو تو نجاست کے باقی ہونے کا یقین یا اطمینان ہوگا۔
۳ ۔ آخری دو شرطوں کی دلیل: چونکہ سیرت دلیل لُبّی ( مقابل لفظی) ہے اور دلیل لُبّی میں قدر متیقن کو اخذ کرنا پڑتا ہے ۔ اور ہمارے مورد نظر مسئلے میں مذکورہ دو شرطیں قدر متیقن ہیں۔
اسی دلیل پر بنا رکھتے ہوئے بعض اوقات مزید دو شرطوں کا اضافہ کیا جاتا ہے :
الف) انسان کو مذکورہ شخص کے لباس کے نجس ہونے کا علم ہو اور
ب) یہ بھی معلوم ہو کہ ( اس لباس کے ساتھ انجام دیا جانے والا ) عمل ، طہارت کے ساتھ مشروط ہے۔
۱۱ ۔ نجاست خور حیوان کا استبراء:
نجاست خور حیوان کا پسینہ، دودھ،پیشاب اور گوبر اس کے استبراء کے ذریعے پاک ہوتا ہے۔
دلائل:
۱ ۔استبراء کے ذریعے پسینے کے پاک ہونے پر حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہشام بن سالم کی صحیح روایت دلالت کرتی ہے:
“لَا تَأْكُلِ اللُّحُومَ الْجَلَّالَةَ، وَ إِنْ أَصَابَكَ مِنْ عَرَقِهَا فَاغْسِلْهُ
.”“نجاست خور حیوان کا گوشت نہ کھا اور اگر تجھے اس کا پسینہ لگ جائے تو دھو لے۔”
دھونے کا وجوب، نجاست خور کے عنوان سے جڑا ہوا ہے ۔ جب استبراء کے ذریعے نجاست خور کا عنوان برطرف ہو جائے تو دھونے کا وجوب بھی ختم ہوجاتا ہے۔
۲ ۔استبراء کے ذریعے دودھ کے پاک ہونے کی دلیل: حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے حفص بن بختری نے صحیح روایت نقل کی ہے:
“لَا تَشْرَبْ مِنْ أَلْبَانِ الْإِبِلِ الْجَلَّالَة
.”“نجاست خور اونٹنی کا دودھ نہ پیو۔”
اس روایت میں بھی دودھ نہ پینے کا حکم نجاست خور کے عنوان سے جڑا ہوا ہے۔ جب نجاست خور کا عنوان ختم ہو جائے تو نہ پینے کا حکم بھی ختم ہو جاتا ہے۔
۳ ۔ استبراء کے ذریعے پیشاب اور گوبر کے پاک ہونے کی دلیل: حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے عبد اللہ بن سنان نے صحیح روایت نقل کی ہے:
“اغْسِلْ ثَوْبَكَ مِنْ أَبْوَالِ مَا لَا يُؤْكَلُ لَحْمُهُ
.”“حرام گوشت حیوان کا پیشاب لگنے کی صورت میں تمہارے لباس کو دھو لو۔”
دھونے کا وجوب حرام گوشت کے عنوان سے مربوط ہے( اور نجاست خور حیوان کا گوشت کھانا حرام ہے)۔ جب استبراء کے ذریعے یہ عنوان ختم ہوجائے تودھونے کا حکم بھی ختم ہو جائے گا۔
مذکورہ روایت پر اس بات کا اضافہ کرنے سے کہ پیشاب اور گوبر میں کوئی فرق نہیں، گوبر کے بھی پاک ہونے کا حکم ثابت ہوجاتا ہے۔
۱۲ ۔ ذبیحہ کے بدن سے خون کا نکل جانا:
جب ذبح کئے گئے حیوان کے بدن سے معمول کے مطابق خون نکل جائے تو جسم میں باقی رہ جانے والا خون پاک ہوگا۔
دلیل:
اس حکم کی دلیل اہل شریعت کی سیرت ہے ۔ ذبح کئے گئے حیوان کے بدن میں باقی رہ جانے والے خون سے اجتناب نہ کرنے پر مسلمانوں کی سیرت قائم ہوئی ہے ؛ جبکہ ذبح کا مسئلہ انہیں عموما اور خاص طور پرپانی نہ ملنے والے صحراؤں میں پیش آتا رہتا ہے۔ یہ لوگ گوشت کو نہیں دھوتے اور نہ اس گوشت کے ساتھ مس ہونے والے کپڑوں اور بدن کو دھوتے ہیں۔
چنانچہ اگر اس خون کو نجس شمار کیا جائے تو گوشت کا کھانا حرام ہونا لازم آتا ہے ؛ کیونکہ عموما گوشت کے ساتھ اس طرح سے خون چپکا ہوتا ہے کہ آدمی بڑی کوشش کے باوجود بھی اسے الگ نہیں کر سکتا۔
____________________