کتاب نکاح
نکاح اور اس کے بعض احکام:
عورت سے جنسی لذت لینا دو طریقوں سے جائز ہے:
الف) نکاح یا ازدواج،
ب) کنیزی ۔
نکاح کی تعریف:
نکاح ایسا عقد ہے جس کے ذریعے زوجیت کا بندھن وجود میں آتی ہے۔
نکاح کی اقسام:
نکاح کی دو قسمیں ہیں:
الف) نکاح دائمی،
ب) نکاح متعہ۔
نکاح دائمی:
نکاح دائمی میں عورت ایجاب کرے گی، یعنی:یہ صیغہ پڑھے گی: “زوجتک نفسی علی کذا.”“ میں نے فلاں(پہلے سے طے شدہ) مہر پر خود کو تیری زوجیت میں قرار دیا۔”اس کے بعد مرد قبول کرے گا ،یعنی:یہ صیغہ پڑھے گا: “قبلت الزواج علی کذا.” “میں نے فلاں مہر پرتمھارے ساتھ ازدواج کو قبول کیا۔”
نکاح متعہ:
نکاح متعہ میں عورت ، مرد سے کہے گی: “متّعتک نفسی علی کذا، لمدّة کذا.”“
میں نے فلاں مہر پر خود کو فلاں مدت تک تیری زوجیت میں قرار دیا۔” اس کے بعد مرد کہے گا: “قبلت التّمتع علی کذا، لمدّة کذا
.” “میں نے فلاں مہر پر اتنی مدت تک ازدواج کو قبول کیا۔”
ایجاب و قبول کو زبان سے بولنا ضروری ہے۔
اسی طرح ایجاب میں لفظ “ زواج” یا “نکاح” کا ہونا بھی ضروری ہے۔
لفظ “ تمتع ” کے ساتھ اگر نکاح دائمی پڑھا جائے تو اس نکاح کے واقع ہونے یا نہ ہونے میں اختلاف ہے۔
مشہور فتویٰ یہ ہے کہ عقد کا عربی زبان میں صیغہ ماضی کے ساتھ جاری کرنا شرط ہے۔
ایجاب کا قبول سے پہلے ہونا ضروری نہیں؛ بلکہ اگر مرد ،ایجاب کرے اور عورت ، قبول کرلے ،تب بھی جائز ہے۔ اگرچہ احتیاط ایک ایسا حکم ہے جس کے بارے میں لاپروائی اور بے توجہی کرنا مناسب نہیں۔
مرد اور عورت کے لئے ضروری نہیں کہ وہ خود عقد کا صیغہ پڑھیں؛ بلکہ اس کام کے لئے وہ دونوں ،کسی کو وکیل بنا سکتے ہیں۔
ایک ہی شخص کے، مرد اور عورت دونوں کی طرف سے وکیل بننے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ بلکہ مرد ،عورت کی طرف سے وکیل بن سکتا ہے اس صورت میں وہ ایجاب کو وکالتاً اور قبول کو اصالتاً جاری کرے گا۔ اسی طرح عورت بھی مرد کی جانب سے وکیل بن سکتی ہے اس صورت میں وہ ایجاب کو اصالتا ً اور قبول کو وکالتاً جاری کرے گی۔
اگرمرد اور عورت ، خود عقد جاری نہ کریں ؛ بلکہ کسی اور کو وکیل بنائیں تو جب تک وکیل کی جانب سے عقد کے پڑھے جانے کا اطمینان نہ ہوجائیں ، ان کے لئے ایک دوسرے سے جنسی لذت اٹھانا، خواہ دیکھنے کی لذت ہی کیوں نہ ہو، جائز نہیں ہے۔
ہمارے (علمائے امامیہ) کے نزدیک نکاح صحیح ہونے کے لئے ، گواہ کا رکھنا شرط نہیں ہے۔
کنواری لڑکی کے ساتھ نکاح صحیح ہونے کے لئے اس کی اپنی رضایت کے ساتھ ساتھ اس کے ولی (باپ یا دادا) کی رضایت بھی ضروری ہے؛ لیکن اگر کنواری نہ ہو تو اس کی اپنی رضایت کافی ہے۔
دلائل:
۱ ۔جنسی لذت کے ، نکاح اور کنیزی کے باعث ، جائز ہونے کی دلیل: یہ فقہ کے واضح مسائل میں سے ہے اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان اس حکم پر دلالت کرتی ہے:
(
وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ إِلَّا عَلىَ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانهُُمْ فَإِنهَُّمْ غَيرُْ مَلُومِين
)
“اور جو لوگ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، مگر اپنی بیوییوں اور لونڈیوں سے پس ان پر کوئی ملامت نہیں ہے۔”
اس بات کی دلیل کہ نکاح سے مراد جماع نہیں ؛بلکہ مذکورہ عقد ہے: یہ فقہاء کا مشہور فتویٰ ہے
۔قرآن مجید بھی اسی بات کی گواہی دیتا ہے کہ قرآن مجید میں لفظ “نکاح” وطی کے لئے استعمال نہیں ہوا ہے۔
نکاح کے دائم اور منقطع میں تقسیم ہونے کی دلیل: یہ بات مذہب (امامیہ)؛ بلکہ دین کے مسلمہ احکام میں سے ہے۔ نکاح منقطع کے مشروع ہونے کی دلیل بعد میں بیان کی جائے گی۔
۲ ۔ مذکورہ صیغوں کے ذریعے نکاح (دائمی و منقطع)کے واقع ہونے کی دلیل: اس بات پر فقہاء متفق ہیں ؛ بلکہ جس صحیح صیغے سے عقد واقع ہوتا ہے اس کا قدر متیقن یہی صیغہ ہے۔
۳ ۔ صرف زوجین کی باہمی رضایت کافی نہ ہونے ؛بلکہ ایجاب اور قبول کو الفاظ کے ساتھ بیان کرنا شرط ہونے کی دلیل: کتاب “حدائق” میں اس بات پر علمائے اہل سنت اور علمائے امامیہ کے متفق ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
اس حکم پر مندرجہ ذیل طریقوں سے استدلال کیا جاتا ہے:
الف) اگر لفظا ً ایجاب و قبول شرط نہ ہو ؛بلکہ فقط باہمی رضایت پر اکتفا کیا جائے تو نکاح اور زنا کے درمیان کوئی فرق نہیں رہے گا۔
جبکہ اس دلیل پر واضح اشکال ہے کہ لفظا ً ایجاب و قبول سے قطع نظربھی ان دونوں کے درمیان فرق ثابت ہے ۔ وہ یہ کہ نکاح میں زوجیت کی شرط موجود ہے ؛ جبکہ زنا میں ایسا نہیں ہے۔
ب) بعض روایات کے ذریعے بھی اس حکم پر استدلال کیا جاتا ہے جو نکاح منقطع کا طریقہ سکھانے کے لئے بیان ہوئی ہیں۔ انہی میں سے ایک روایت ابان بن تغلب نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کی ہے۔ ابان نے امام ؑ سے پوچھا: جب میں عورت سے ساتھ خلوت کروں تو کیا کہوں ؟ امامؑ نے فرمایا: تم اس طرح کہوکہ:
“أَتَزَوَّجُكِ مُتْعَةً عَلَى كِتَابِ اللَّهِ وَ سُنَّةِ نَبِيِّهِ لَا وَارِثَةً وَ لَا مَوْرُوثَةً كَذَا وَ كَذَا يَوْماً، وَ إِنْ شِئْتَ كَذَا وَ كَذَا سَنَةً بِكَذَا وَ كَذَا دِرْهَماً، وَ تُسَمِّي مِنَ الْأَجْرِ مَا تَرَاضَيْتُمَا عَلَيْهِ قَلِيلًا كَانَ أَوْ كَثِيراً؛ فَإِذَا قَالَتْ: نَعَمْ، فَقَدْ رَضِيَتْ وَ هِيَ امْرَأَتُكَ وَ أَنْتَ أَوْلَى النَّاسِ بِهَا
.”“م یں خدا کی کتاب اور اس کے رسول ؐ کی سنت کے مطابق تیرے ساتھ اتنے دنوں کے لئے متعہ کرتاہوں نہ تو میرا وارث ہوگی اور نہ میں تیرا وارث ہوں گا۔ اگر تو چاہے تو (کہے) اتنے سالوں کے لئے اور اتنے درہم میں، اور جس (مال) پر تم دونوں راضی ہوں ، خواہ کم ہو یا زیادہ، وہی اجرت (مہر) ہے۔پس جب عورت راضی ہو کر “ہاں” کردے تووہ تیری بیوی ہے اور تو اس پر سب سے زیادہ حقدار ہے۔”
اگرچہ یہ روایت نکاح متعہ کا طریقہ سکھانے کے لئے بیان ہوئی ہے؛ لیکن اس بات کا احتمال نہیں ہے کہ حکم کے ثبوت میں متعہ دخیل ہو( یعنی یہ حکم صرف متعہ کے لئے نہیں ہے؛ بلکہ عام ہے)۔
اس کی دلالت واضح ہے ؛ کیونکہ اس سے یہ ظاہرہوتا ہے کہ “ابان” کے ذہن میں یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ نکاح میں صیغہ پڑھنا شرط ہے اور صیغے کی بعض خصوصیات کو جاننے کے لئے اس نے سوال کیا ہے۔
علاوہ از ایں فرمان ِامام ؑ کے آخری جملے“پس جب عورت راضی ہو کر “ہاں” کردے تووہ تیری بیوی ہے”کا مفہوم اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مرد کے “أَتَزَوَّجُكِ مُتْعَةً
...”کہنے کے بعد جب تک عورت “نَعَمْ
”نہ کہے اس وق ت تک زوجیت واقع نہیں ہوتی۔
نکاح میں صیغہ کا پڑھنا شرط ہونے کی یہ دونوں دلیلیں تھیں۔
ہماری نظر میں شاید اس طرح استدلال کرنا زیادہ مناسب ہے کہ تمام اہل شریعت خواہ بچہ ہو یا بوڑھا، مرد ہو یا عورت، عالم ہو یا جاہل، کے ارتکاز ذہنی کے مطابق ،نکاح واقع ہونے کے لئے صیغہ پڑھنا ضروری ہے اور اس ارتکاز ذہنی کا سرچشمہ سوائے اس کے نہیں کہ یہ حکم معصوم ؑ سے صادر ہوا ہے اور دست بدست ان تک پہنچا ہے۔
۴ ۔ لفظ “زواج” اور “نکاح” کے ذریعے نکاح واقع ہونے کی دلیل: اس حکم پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔
لفظ “زواج” کے ذریعے نکاح واقع ہونے پر ابان بن تغلب کی گزشتہ روایت سمیت بعض روایا ت نیز قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیت بھی دلالت کر تی ہے:
(
...فَلَمَّا قَضىَ زَيْدٌ مِّنهَْا وَطَرًا زَوَّجْنَكَهَا
...)
“...جب زید نے اس (خاتون) سے اپنی حاجت پوری کر لی تو ہم نے اس خاتون کا نکاح آپ سے کر دیا...”
اور لفظ “نکاح” کے ذریعے نکاح واقع ہونے پر قرآن مجید کی استعمال کردہ تعبیریں دلالت کر رہی ہیں جن میں سے ایک مندرجہ ذیل آیت مجیدہ ہے:
(
وَ لَا تَنكِحُواْ مَا نَكَحَ ءَابَاؤُكُم مِّنَ النِّسَاءِ
...)
“اور ان عورتوں سے نکاح مت کرو جن سے تمہارے باپ نکاح کر چکے ہوں...”
۵ ۔ لفظ “تمتع” کے ذریعے نکاح دائمی کے واقع ہونے میں اختلاف ہے؛ کیونکہ شریعت میں ایسی کوئی روایت ذکر نہیں ہوئی ہے جس میں عقد دائمی کو لفظ “تمتع” سے تعبیر کیا گیا ہو تاکہ اس لفظ کے ذریعے عقد دائمی کے قصد انشاء کے صحیح ہونے کا حکم صادر کیا جاسکے۔ نیز یہ بھی واضح ہے کہ ہر قسم کے لفظ کا سہارا لینا بھی صحیح نہیں ہے ؛ بلکہ شریعت یا عرف میں جو الفاظ رائج اور متداول ہیں انہی پر اکتفا کرنا ضروری ہے۔
اس قول کے مقابلے میں بعض اوقات کہا جاتا ہے کہ لفظ “تمتع” کے ذریعے عقد دائمی واقع ہوسکتا ہے۔ اس قول کی دلیل وہ روایات ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اگر عقد میں مدت ذکر نہ ہو تو وہ دائمی میں بدل جائے گا۔ مثلا عبد اللہ بن بکیر کی روایت موثقہ ہے کہ:
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
“إِنْ سُمِّيَ الْأَجَلُ فَهُوَ مُتْعَةٌ، وَ إِنْ لَمْ يُسَمَّ الْأَجَلُ فَهُوَ نِكَاحٌ بَاتٌّ.
”“اگر عقد م یں مدت کا ذکر کیا جائے تو متعہ ہوگا اور اگر مدت کا ذکر نہ کیا جائے تو وہ عقد دائمی ہوگا۔”
اس کی دلالت واضح ہے۔
۶ ۔ صیغۂ عقد کا عربی زبان میں ہونا ضروری ہونے کی دلیل: اس حکم پر مندرجہ ذیل طریقوں سے استدلال کیا جاتا ہے:
الف)۔ اگر عربی زبان میں نہ پڑھا جائے تو اس پر عقد کا اطلاق نہیں ہوتا۔
ب)۔ صحیح عقد کی قدر متیقن عربی زبان میں عقد کا جاری کرنا ہے اور عربی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان میں بھی عقد کا واقع ہونا محتاج دلیل ہے درحالیکہ دلیل موجود نہیں ہے۔ پس جب عربی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان میں عقد پڑھا جائے تو اصل کا تقاضا یہ ہے کہ اس پر عقد کے آثار مرتب نہیں ہوں گے۔
جیسا کہ ملاحظہ فرمایا کہ یہ دونوں دلیلیں قابل اشکال ہیں:
پہلی دلیل پر اشکال تو واضح ہے( کیونکہ ہر زبان میں پڑھے جانے والے عقد پر عقد کا اطلاق ہوسکتا ہے)۔
دوسری دلیل کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ جب میاں بیوی عربی میں نکاح نہ پڑھ سکیں تو اس بات کا احتمال نہیں دیا جاتا کہ شارع مقدس انہیں شادی سے منع کرے گا۔
اس کے علاوہ قرآن مجید کی آیت(
وَ أَنكِحُواْ الْأَيَامَى مِنكمُ
...)
“اور تم مںق سے جولوگ بے نکاح ہوں...”
سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مقام پر کسی اضافی قید کے بغیر صرف نکاح کے عنوان کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ چونکہ عربی کے علاوہ کسی دوسری زبان میں پڑھے جانے والے عقد پر بھی نکاح کا عنوان صادق آتا ہے ؛لہذا یہ عقد مشروع ہوگا اور شارع بھی اسی پر راضی ہوگا۔
مذکورہ دو اقوال کے علاوہ اس حکم کے بارے میں ایک اور نظریہ ہے کہ اگر زوجین عربی میں عقد پڑھنے کے لئے کسی کو وکیل بنا سکتے ہوں تو ان کے لئے غیر عربی میں عقد پڑھنا جائز نہیں ہے؛ لیکن اگر کسی کو وکیل نہیں بنا سکتے تو ان کے لئے غیر عربی میں عقد پڑھنا جائز ہے۔ مصنف کی نظر میں یہ قول ، بعید ہے ؛ کیونکہ اس قول کی تائید کرنے والی کوئی دلیل نہیں ہے۔
ہاں ! وکیل بنانا ممکن نہ ہونے کی صورت میں احتیاط کرنا مناسب ہے ؛ بلکہ احتیاط کرنا لازمی ہے۔
۷ ۔ عقد کا صیغہ ماضی میں ہونا ضروری ہونے کی دلیل: اس حکم پر مندرجہ ذیل طریقوں سے استدلال کیا جاتا ہے:
الف)۔ عقد صحیح کی قدر متیقن اس کا صیغہ ماضی میں پڑھا جانا ہے۔ ماضی کے علاوہ دوسرے صیغے مشکوک ہیں ؛ لہذا “اصالہ عدم ترتب اثر ” کے مطابق ان صیغوں پر نکاح کے آثار مرتب نہیں ہوں گے۔
ب)۔دوسرے صیغوں کے مقابلے میں ، ماضی ، انشاء میں صریح ہوتا ہے۔
ج)۔ ماضی کے علاوہ کسی اور صیغے میں عقد کو جائز قرار دینا،صیغوں کے منتشر ہونے اور کسی معین حد پرموقوف نہ ہونےکا سبب بنتا ہے۔
مذکورہ دلیلوں کے جوابات:
تیسری دلیل کا جواب : صیغوں کے منتشر ہونے اور کسی حد پر موقوف نہ ہونے سے کوئی محال پیش نہیں آتا۔
پہلی اور دوسری دلیل کا جواب : جس طرح پہلے کہا گیا ہے کہ قرآن مجید کی آیت کے مطابق اس مقام پر کسی اضافی قید کے بغیر ہر اس چیز کا مطالبہ کیا گیا ہے جس پر نکاح کا عنوان صادق آئے۔ چونکہ صیغہ ماضی کے بغیر بھی انشاء پر نکاح کا عنوان صادق آتا ہے ؛ لہذا یہ عقد مشروع ہوگا۔
اس کے علاوہ نکاح متعہ کے بارے میں ذکر ہونے والی روایت “أَتَزَوَّجُكِ
...”
سے بھ ی معلوم ہوتا ہے کہ صیغے کا ماضی میں ہونا ضروری نہیں۔
۸ ۔ ایجاب کا مقدم کرنا ضروری نہ ہونے کی دلیل: اگر ایجاب کومقدم نہ کیا جائے تب بھی اس پر نکاح کا عنوان صادق آتا ہے اور قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ مطلوبہ چیز فقط عنوان نکاح ہے نہ کہ اس سے زیادہ ۔
بلکہ متعہ کے بارے میں موجود روایات ، جن میں سے بعض کی طرف اشارہ ہوچکا ہے، سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ ایجاب کا مقدم کرنا ضروری نہیں ہے ۔ انہی باتوں کے ضمن میں یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ مرد کا ایجاب کرنا اور عورت کا قبول کرنا جائز ہے؛ لیکن احتیاط کی رعایت کرتے ہوئے ایجاب کا پہلے ہونا اور عورت کی طرف سے ہونا ایک لازمی امر ہے۔
۹ ۔ نکاح میں وکالت کے کافی ہونے کی دلیل: پہلی بات تو یہ ہے کہ جیسا کہ وکالت کی بحث میں بیان ہوا وکالت مشروع ہونے کی دلیلیں مطلق ہیں ؛ لہذا اس اطلاق میں نکاح کی وکالت بھی شامل ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ نکاح میں وکالت کے صحیح ہونے پر بعض روایات موجود ہیں۔ مثلا داؤد بن سرحان نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک روایت صحیحہ نقل کی ہے:
“فِي رَجُلٍ يُرِيدُ أَنْ يُزَوِّجَ أُخْتَهُ... فَإِنْ قَالَتْ: زَوِّجْنِي فُلَاناً، زَوَّجَهَا مِمَّنْ تَرْضَى
.”“ا یسے شخص کے بارے میں جو اپنی بہن کی شادی کرانا چاہتا ہے... اگر وہ لڑکی کہے : فلاں کے ساتھ میری شادی کرا دو تو وہ شخص اس کے پسندیدہ لڑکے کے ساتھ اس کی شادی کرا دے گا۔”
اس بنا پر عورت کا وکیل ، مرد کے وکیل سے کہے: “زوّجت موکلتی فلانة موکلک فلانا علی مهر کذا
”۔“م یں نے اپنی موکلہ کو، فلاں(طے شدہ ) مہر پر ،تمہارے موکل کی زوجہ بنایا۔”پھر مرد کا وکیل کہے: “قبلت الزواج عن موکلی علی المهر المذکور
”۔“م یں نے، فلاں مہر پر، اپنے موکل کی طرف سے اس ازدواج کو قبول کیا۔” تو کافی ہے۔
اگر صرف عورت نے کسی کو وکیل بنایا ہے تو وہ مرد سے کہے: “زوجتک موکلتی علی مهر کذا
”۔“م یں نے اپنی موکلہ کو، فلاں مہر پر ،تمہاری زوجہ بنایا۔”پھر مرد کہے: “قبلت الزواج علی المهر المذکور
”۔“م یں نے، فلاں مہر پر ،اس ازدواج کو قبول کیا۔”تو کافی ہے۔
اور اگر صرف مرد نے کسی کو وکیل بنایا ہے تو عورت ، مرد کے وکیل سے کہے: “زوجت نفسی موکلک علی مهر کذا
”۔ “م یں نے، فلاں مہر پر، خود کو تمہارے موکل کی زوجہ قرار دیا۔”پھر مرد کا وکیل کہے: “قبلت الزواج عن موکلی علی المهر المذکور
”۔“م یں نے، فلاں مہر پر ، اپنے موکل کی طرف سے اس ازدواج کو قبول کیا۔” تو کافی ہے۔
۱۰ ۔ مرد اور عورت دونوں کی طرف سے ایک ہی شخص کا وکیل بننا جائز ہونے کی دلیل: وکالت کو مشروع قرار دینے والی دلیلوں کے اطلاق میں نکاح کی وکالت بھی شامل ہونے کے بعد اس کے جواز میں کوئی مانع نہیں ہے۔
ایک مسئلہ باقی رہتا ہے وہ یہ کہ موجب ( ایجاب کرنے والا) اور قابل ( قبول کرنے والا) کے درمیان مغایرت شرط ہے اس شرط کو پورا کرنے کے لئے اعتباری اور فرضی طور پر ہی مغایرت ہو تو کافی ہے۔
یہاں سے مرد اور عورت کا دونوں طرف سے وکیل بننے کا جواز بھی واضح ہوجاتا ہے۔ اگرچہ حقیقی طور پر مغایرت پائی جانے والی صورت پر ہی انحصار کرتے ہوئے احتیاط کرنا ایسا حکم ہے جس کی رعایت کرنی چاہئے۔
۱۱ ۔اجرائے عقد کے یقینی ہونے سے پہلے مرد اور عورت پر لذت اٹھانا جائز نہ ہونے کی دلیل: اس حکم کا ماخذ “استصحاب عدم تحقق عقد” ہے ( کہ عقد کے واقع نہ ہونے کا یقین تھا ۔ اب اس کے واقع ہونے یا نہ ہونے میں شک ہوا تو استصحاب جاری کیا جائے گا)۔
۱۲ ۔ نکاح میں گواہ رکھنا شرط نہ ہونے کی دلیل: اس حکم کو ثابت کرنے کے لئے گواہ رکھنا شرط ہونے کی دلیل کا نہ ہونا ہی کافی ہے۔ جب گواہ کے شرط ہونے کی کوئی دلیل نہ ہو تو نکاح صحیح قرار دینے والی دلیلوں کے اطلاق سے تمسک کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ گواہ ضروری نہ ہونے کی دلیل بھی موجود ہے اور یہ حکم ہمارے مذہب (امامیہ) کی پہچان بن چکا ہے۔
ایک حدیث کے مطابق حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے قاضی ابو یوسف سے فرمایا:
“إِنَّ اللَّهَ أَمَرَ فِي كِتَابِهِ بِالطَّلَاقِ، وَأَكَّدَ فِيهِ بِشَاهِدَيْنِ وَ لَمْ يَرْضَ بِهِمَا إِلَّا عَدْلَيْنِ وَ أَمَرَ فِي كِتَابِهِ بِالتَّزْوِيجِ فَأَهْمَلَهُ بِلَا شُهُودٍ، فَأَثْبَتُّمْ شَاهِدَيْنِ فِيمَا أَهْمَلَ وَ أَبْطَلْتُمُ الشَّاهِدَيْنِ فِيمَا أَكَّدَ
.”“بتحق یق اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں طلاق کا حکم دیتے ہوئے اس میں دو گواہوں پر تاکید فرمائی اور ان گواہوں کو قبول نہ کیا جب تک وہ عادل نہ ہوں۔ نیز اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ازدواج کا حکم دیتے ہوئے اس کو مہمل چھوڑ دیا؛ لیکن تم لوگوں مہمل رکھی گئی چیز میں دو گواہ ثابت کئے اور تاکید شدہ چیز میں گواہوں کو ختم کردیا۔”
۱۳ ۔ کنواری کا نکاح اس کی رضایت کے ساتھ ساتھ ولی کی رضایت پر بھی موقوف ہونے اورغیر کنواری کے نکاح میں اس کی اپنی رضایت کے کافی ہونے کی دلیل: ان احکام کی دلیل بعد میں کی جانے والی بحث میں بیان ہوگی۔