دامادی
دامادی اور اس سے مربوط رشتوں کے بعض احکام مندرجہ ذیل ہیں:
۱ ۔ عقد کے ہوتے ہی ، خواہ عقد منقطع ہی کیوں نہ ہو، باپ اور بیٹے پر ایک دوسرے کی بیوی حرام ہوجاتی ہے ۔اگر چہ باپ کا سلسلہ جتنا اوپر چلاجائے اور بیٹے کا جتنا نیچے چلا جائے۔ نیز باپ اور بیٹے کے نسبی اور رضاعی ہونے میں بھی کوئی فرق نہیں ہے۔
۲ ۔ عقد کے ہوتے ہی شوہر پر بیوی کی ماں اور اس سے اوپر کا پورا سلسلہ حرام ہوجاتا ہے۔ نیز بیوی کی بیٹی اور اس سے نیچے کا سلسلہ بھی حرام ہوجاتا ہے بشرطیکہ وہ بیوی کے ساتھ مجامعت کرے، خواہ وہ بیٹی اس کی گود کی پلی ہو یا نہ ہو۔ ہاں اگر بیوی کے ساتھ مجامعت نہ کرے تو جب تک وہ اس کے عقد میں ہے اس کی بیٹی حرام ہوگی۔
۳ ۔کسی شخص پر اس کی سالی بذات خود حرام نہیں ہے لیکن بیوی کے ساتھ اس سے نکاح کرنا حرام ہے۔
۴ ۔ بیوی کی اجازت کے بغیر اس کی بھتیجی یا بھانجی کے ساتھ نکاح کرنا حرام ہے۔ لیکن اگر پہلے کسی عورت کی بھتیجی یا بھانجی سے نکاح کرے پھر اسی عورت سے (جو بیوی کی خالہ یا پھوپھی شمار ہوتی ہے) نکاح کرے تو بیوی کی اجازت ضروری نہیں ہے۔
۵ ۔ جواپنی خالہ سے زنا کرے اس پر خالہ کی بیٹی کے ساتھ نکاح کرنا حرام ہے۔ کہا گیا ہے کہ یہی حکم پھوپھی کے لئے بھی ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ حکم صرف خالہ یا پھوپھی سے مختص نہیں ؛ بلکہ ہر اس عورت کا یہی حکم ہے جس کی بیٹی سے زنا کیا جائے۔
۶ ۔اگر کوئی بالغ انسان کسی لڑکے کے ساتھ لواط کرے اور دخول متحقق ہوجائے تو اس پر مفعول کی بیٹی ، بہن اور ماں ہمیشہ کے لئے حرام ہوجاتی ہےبشرطیکہ ان سے نکاح کرنے سے پہلے لواط کرے ؛ لیکن اگر پہلے نکاح کیا ہو پھر لواط کرے تو یہ حکم نہیں لگے گا۔
۷ ۔ جو کسی شوہر دار عورت سے نکاح کرے جبکہ اسےشوہر دار ہونے کا علم ہو تو وہ عورت ہمیشہ کے لئے اس پر حرام ہوجاتی ہے۔ اگر اسے شوہر دار ہونے کا علم نہ ہو تو صرف اس کے ساتھ مجامعت کرنے کی صورت میں ہمیشہ کے لئے حرام ہوگی۔
۸ ۔ مشہور کے مطابق اگر کوئی کسی شوہر دار عورت سے زنا کرے تو وہ ہمیشہ کے لئے اس پر حرام ہوجائے گی۔
دلائل:
۱ ۔ باپ اور بیٹے پر ایک دوسرے کی بیوی کے حرام ہونے کی دلیل: یہ ان احکام میں سے ہے جن میں کسی کو اختلاف نہیں ہے ۔ نیز یہ ضروریات فقہ ؛ بلکہ ضروریات دین میں سے ہے۔ اس حکم پر قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیات دلالت کر رہی ہیں:
(
وَ لَا تَنكِحُواْ مَا نَكَحَ ءَابَاؤُكُم مِّنَ النِّسَاءِ
...)
“اور جن عورتوں سے تمہارے باپ نے نکاح کیا ہو ان سے نکاح مت کرنا...”
(
...حَلَائلُ أَبْنَائكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ
...)
“اور تمہارے صلبی بیٹوں کی عورتیں”
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام یا جعفر صادق علیہ السلام سے مروی محمد بن مسلم کی روایت ہے:
“لَوْ لَمْ تَحْرُمْ عَلَى النَّاسِ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ (ص) لِقَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَ
:(
...وَ ما كانَ لَكُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ وَ لا أَنْ تَنْكِحُوا أَزْواجَهُ مِنْ بَعْدِهِ أَبَدا.
..)
حَرُمْنَ عَلَى الْحَسَنِ وَ الْحُسَيْنِ بِقَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَ:
(
وَلَا تَنكِحُواْ مَا نَكَحَ ءَابَاؤُكُم مِّنَ النِّسَاءِ
...)
وَ لَا يَصْلُحُ لِلرَّجُلِ أَنْ يَنْكِحَ امْرَأَةَ جَدِّهِ
.”“اگر فرمان پروردگار:“تمہں یہ حق نہیںر کہ اللہ کے رسول کو اذیت دو اور ان کی ازواج سے ان کے بعد کبھی بھی نکاح نہ کرو”
کی وجہ سے لوگوں پر رسول اکرم ؐ کی ازواج حرام نہ ہوتیں تو حسنین علیہما السلام پر اس آیت : “اور جن عورتوں سے تمہارے باپ نے نکاح کیا ہو ان سے نکاح مت کرنا...”
کی وجہ سے حرام ہو جاتیں۔ اور کوئی شخص اپنے جدّ (دادا یا نانا) کی زوجہ سے نکاح نہیں کر سکتا۔”
حرام کے حکم کے لئےمجامعت کے بغیر عقد کرنا ہی، خواہ منقطع ہی کیوں نہ ہو، کافی ہونے کی دلیل: گزشتہ دلیلوں کے اطلاق سے یہ حکم ثابت ہوتا ہے۔
باپ کے حکم میں اس سے اوپر والا سلسلہ اور بیٹے کے حکم میں اس سے نیچے والا سلسلہ شامل ہونے کی دلیل:یہ حکم بھی گزشتہ دلیلوں کے اطلاق کے ساتھ ساتھ محمد بن مسلم کی روایت صحیحہ سے ثابت ہوتا ہے جو جدّ کے بارے میں گزر چکی ہے۔
رضاعی باپ بیٹے کے اس حکم میں شامل ہونے کی دلیل: اس حکم پر رسول اکرم ؐ کا مندرجہ ذیل فرمان دلالت کر رہا ہے:
“يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعِ مَا يَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ
.”“جو افراد نسب کی وجہ سے حرام ہوجاتے ہیں رضاع سے بھی حرام ہوجاتے ہیں۔”
۲ ۔ ساس کے مطلَقا ً حرام ہونے اور بیوی کی بیٹی کے دخول کی شرط پر حرام ہونے کی دلیل: قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیت کی وجہ سے یہ حکم ان احکام میں سے ہے جن میں کوئی اشکال نہیں:
(
حُرِّمَتْ...وَأُمَّهَاتُ نِسَائكُمْ وَ رَبَائبُكُمُ اللَّاتىِ فىِ حُجُورِكُم مِّن نِّسَائكُمُ اللَّاتىِ دَخَلْتُم بِهِنَّ فَإِن لَّمْ تَكُونُواْ دَخَلْتُم بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ
)
“تم پر تمہاری مائیں...اور ساسیں حرام کر دی گئی ہیں اور جن عورتوں سے تم مباشرت کر چکے ہوان کی لڑکیاں جنہیں تم پرورش کرتے (ہو وہ بھی تم پر حرام ہیں) ہاں اگر ان کے ساتھ تم نے مباشرت نہ کی ہو تو (ان کی لڑکیوں کے ساتھ نکاح کر لینے میں) تم پر کچھ گناہ نہیں”
آیت مجیدہ کے جملۂ(
...وَأُمَّهَاتُ نِسَائكُمْ
...)
کے اطلاق کا تقاضا ، ساس کا حرام ہونا ہے خواہ مجامعت نہ بھی کرے؛ لیکن ربیبہ کے حرام ہونے میں اس بات کی شرط لگائی گئی ہے کہ اس کی ماں کے ساتھ مجامعت کی جائے۔
اور(
...مِّن نِّسَائكُمُ اللَّاتىِ
...)
کا(
...وَأُمَّهَاتُ نِسَائكُمْ
...)
کی قید بننا بعید ہے ؛اس لئے کہ اولا: دونوں کے درمیان زیادہ فاصلہ آیا ہے ، ثانیا: قید بنانے کی صورت میں کلمہ “نساء” کا تکرا ر ہونا لازمی تھا( جو نہیں ہوا ہے) اور ثالثا: کلمہ “من” کو دو معانی میں استعمال کرنا لازم آتا ہے ؛ کیونکہ “من ” کا تعلق اگر “ربائب ” سے ہو تو یہ “من نشویہ” ہوگا اور “نساء” سے متعلق ہو تو یہ “من بیانیہ” ہوگا۔ یہ مفروضہ اگرچہ ممکن ہی کیوں نہ ہو؛ لیکن ظاہرِ قرآن کے مخالف ہے۔
۳ ۔ حرام کے حکم میں ساس اور اس سے اوپر کا سلسلہ شامل ہونے کی دلیل: یہ حکم دلیلوں کے اطلاق سے ثابت ہوتا ہے۔
ربیبہ اور اس سے نیچے کے سلسلے پر یہ حکم جاری ہونے کی دلیل:اس حکم کو آیت مجیدہ سے اخذ کرنے پر اشکال کیا جاتا ہے؛ لیکن روایات کا اطلاق اس کے ثبوت کے لئے کافی ہے ؛ کیونکہ روایات میں کلمہ “بنت” مطلق ذکر ہوا ہے۔ مثلا غیاث ابن ابراہیم کی موثق روایت ہے جو انہوں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے انہوں نے اپنے پدر بزرگوار سے نقل فرمائی ہے کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا:
“إِذَا تَزَوَّجَ الرَّجُلُ الْمَرْأَةَ حَرُمَتْ عَلَيْهِ ابْنَتُهَا إِذَا دَخَلَ بِالْأُمِّ فَإِذَا لَمْ يَدْخُلْ بِالْأُمِّ فَلَا بَأْسَ أَنْ يَتَزَوَّجَ بِالابْنَةِ.وَإِذَا تَزَوَّجَ بِالابْنَةِ فَدَخَلَ بِهَا أَوْ لَمْ يَدْخُلْ بِهَا فَقَدْ حَرُمَتْ عَلَيْهِ الْأُمُّ.وَ قَالَ: الرَّبَائِبُ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ، كُنَّ فِي الْحَجْرِ أَوْ لَمْ يَكُنَّ
.”“اگر کوئ ی کسی عورت کے ساتھ ازدواج کرے تو اس کے ساتھ مباشرت کرنے سے اس پر عورت کی بیٹی حرام ہو جائے گی۔ پس اگر عورت کے ساتھ مباشرت نہیں کی ہے تو اس کی بیٹی کے ساتھ ازدواج کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جب وہ بیٹی کے ساتھ ازدواج کرے تو اس کی ماں اس پر حرام ہوجائے گی خواہ اس کی بیٹی کے ساتھ مباشرت کرے یا نہ۔ پھر امام ؑ نے فرمایا: ربائب تم پر حرام ہیں خواہ وہ تمہاری بیویوں کے ساتھ ہوں یا نہ۔”
اس کے علاوہ بھی بعض روایات اسی حکم پر دلالت کرتی ہیں ۔ نیز یہ مسئلہ ایک متفق علیہ مسئلہ ہے۔
۴ ۔ اگر کسی عورت کے ساتھ نکاح کیا جائے تو، خواہ دخول نہ کرے ،اس کی بیٹی کے ساتھ عقدکرنا جائز نہ ہونے کی دلیل: اولاً:اگر اس (بیٹی ) کے ساتھ نکاح کیا جائے تو اس کی ماں پر(
...وَأُمَّهَاتُ نِسَائكُمْ
...)
کا عنوان صادق آتا ہے ۔ آیت کے اطلاق کا تقاضا یہ ہے کہ یہ عنوان جہاں جہاں صادق آئے ، حرام ہونے کا سبب بنتا ہے۔ پس ماں اور بیٹی کے ساتھ اس طریقے سے عقد کرے کہ دونوں کے ساتھ عقد کرنا شرعا صحیح اور جائز ہو یہ ممکن نہیں ہے۔
ثانیا ً:لڑکی کے ساتھ عقدکرنے سے اس کی ماں کے ساتھ کئے جانے والے صحیح عقد کو باطل قرار دینا محتاج دلیل ہے۔جبکہ کوئی دلیل موجود نہیں ہے؛ لہذا لڑکی کے ساتھ عقد کا باطل ہونا معین ہوجائے گا۔
۵ ۔ بیوی کی موجودگی میں اس کی بہن کے ساتھ عقد کرنا حرام ہونے کی دلیل: قرآن مجید کی صریح دلالت کی وجہ سے مسلمانوں کے درمیان اس حکم میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔(
...وَ أَن تَجْمَعُواْ بَينَْ الْأُخْتَين
...)
اس کے علاوہ اس مسئلے کے بارے میں بہت ساری روایات بھی موجود ہیں۔
۶ ۔ بیوی کی اجازت کے بغیر اس کی بھتیجی یا بھانجی کے ساتھ عقد کرنا جائز نہ ہونے نیز پہلے کسی عورت کی بھتیجی یا بھانجی سے نکاح کرےاور بعد میں اسی عورت سے شادی کرنا چاہے تو بیوی کی اجازت ضروری نہ ہونے کی دلیل: اس حکم پربعض روایات دلالت کررہی ہیں جن میں سے ایک محمد بن مسلم کی مندرجہ ذیل موثق روایت ہے:
“لَا تُزَوَّجُ ابْنَةُ الْأَخِ وَ لَا ابْنَةُ الْأُخْتِ عَلَى الْعَمَّةِ وَ لَا عَلَى الْخَالَةِ إِلَّا بِإِذْنِهِمَا. وَ تُزَوَّجُ الْعَمَّةُ وَ الْخَالَةُ عَلَى ابْنَةِ الْأَخِ وَ ابْنَةِ الْأُخْتِ بِغَيْرِ إِذْنِهِمَا
”“جب کس ی لڑکی کی پھوپھی یا خالہ سے عقد کیا جائے تو ان کی اجازت کے بغیر اس لڑکی کے ساتھ نکاح نہیں کیا جا سکتا۔ (لیکن) اگر اسی لڑکی سے نکاح کیا جائے تو اس کی اجازت کے بغیر اس کی خالہ یا پھوپھی سے نکاح کیا جا سکتا ہے۔”
اگر یوں کہا جائے کہ علی بن جعفر نے اپنی کتاب میں اپنے برادر بزرگوار حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سے یہ روایت نقل کی ہے:
“سَأَلْتُهُ عَنِ امْرَأَةٍ تُزَوَّجُ عَلَى عَمَّتِهَا وَ خَالَتِهَا، قَالَ: لَا بَأْس
.”“م یں نے امام ؑ سے سوال کیا: کیا کسی عورت سے نکاح کیا جاسکتا ہے جبکہ اس کی خالہ یا پھوپھی سے ساتھ نکاح کر چکا ہو؟ فرمایا: کوئی حرج نہیں۔ ”
اس روایت کا اطلاق اس بات پر دلالت کررہا ہے کہ بیوی کی اجازت کے بغیر اس کی خالہ یا پھوپھی سے نکاح کرنا جائز ہے۔
اور اس روایت کے مقابلے میں ابو عبیدہ کی ایک روایت صحیحہ ہے:
“سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام يَقُولُ: لَا تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ عَلَى عَمَّتِهَا وَ لَا عَلَى خَالَتِهَا وَ لَا عَلَى أُخْتِهَا مِنَ الرَّضَاعَةِ
.” “م یں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جب کسی عورت کی پھوپھی ، خالہ یا رضاعی بہن تمہارے نکاح میں ہو تو اس عورت کے ساتھ شادہ نہ کرو۔”
یہ روایت مطلَقاً جائز نہ ہونے پر دلالت کر رہی ہے ۔ پس ان دونوں کو باہم کیسے جمع کیا جائے گا؟
اس کے جواب میں ہم کہیں گے: محمد بن مسلم کی گزشتہ موثقہ کے قرینے سے دونوں کے درمیان جمع عرفی ممکن ہے ؛ لہذا پہلی روایت کو اجازت لینے کی صورت پر محمول کریں گے اور دوسری روایت کو بغیر اجازت کی صورت پر ۔ اس طرح ان دونوں کے درمیان تعارض ختم ہوجائے گا۔
۷ ۔ خالہ سے زنا کرنا اس کی بیٹی کے حرام ہونے کا سبب بننے کی دلیل: یہ مشہور فتویٰ ہے جس پر محمد بن مسلم کی روایت صحیحہ دلالت کر رہی ہے:
“سَأَلَ رَجُلٌ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام وَ أَنَا جَالِسٌ عَنْ رَجُلٍ نَالَ مِنْ خَالَتِهِ فِي شَبَابِهِ ثُمَّ ارْتَدَعَ، يَتَزَوَّجُ ابْنَتَهَا؟ قَالَ: لَا. قُلْتُ: إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ أَفْضَى إِلَيْهَا إِنَّمَا كَانَ شَيْءٌ دُونَ شَيْءٍ، فَقَالَ: لَا يُصَدَّقُ وَ لَا كَرَامَةَ
.”“ایک شخص نے میری موجودگی میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا جس نے اپنی جوانی میں اپنی خالہ کے ساتھ زنا کیا تھا پھر توبہ کی تھی، کیا وہ خالہ کی بیٹی سے شادی کر سکتا ہے؟ امام ؑ نے فرمایا: نہیں! میں نے عرض کیا: اس نے دخول نہیں کیا ہے ؛ بلکہ اس سے کمتر یعنی بوسہ وغیرہ دیا ہے ۔ امامؑ نے فرمایا: زانی کی بات کی تصدیق نہیں کی جائے گی اور اس کی کوئی عزت نہیں ہے۔ ”
اس روایت پر متن اور سند دونوں کے لحاظ سے اشکال کرتے ہوئے اس سے حکم اخذ کرنے میں اشکال کیا جاتا ہے۔
متن کے لحاظ سے یہ اشکال کیا جاتا ہے کہ امام ؑ کا فاعل کی بات کو جھٹلانا ایک صغروی اشکال ہے جو مقام امامت کے ساتھ تناسب نہیں رکھتا اور یہ امام کے لائق نہیں ہے۔
سند کے لحاظ سے یہ اشکال ہے کہ اسی روایت کو شیخ کلینی ؒ نے اپنے سلسلہ سند کے ساتھ ابو ایوب سے اور انہوں نے محمد بن مسلم سے نقل کیا ہے: “سَأَلَ رَجُلٌ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام وَ أَنَا جَالِسٌ عَنْ رَجُلٍ
...”“م یری موجودگی میں ایک شخص نے امام ؑ سے پوچھا کہ ...”
جبکہ شیخ طوسی ؒ نے اسی روایت کو اپنے سلسلہ سند کے ساتھ ابو ایوب سے نقل کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ “ان محمد بن مسلم هو الذی سال الامام علیه السلام عَنْ رَجُلٍ
...”“خود محمد بن مسلم نے امام ؑ سے پوچھا۔”
یہ دونوں اشکال بلا وجہ ہیں۔کیونکہ:
صغروی اشکال میں کچھ مصلحت ہوسکتی ہے جس کی امام ؑ کو اطلاع تھی۔
اور روایتوں کے درمیان اس طرح کا اختلاف اس کی صحت پر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔
۸ ۔پھوپھی کے ساتھ زنا کرنے سے اس کی بیٹی کے ساتھ شادی کا حکم: پھوپھی کے حکم کو خالہ کے ساتھ الحاق کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے سوائے اس کے کہ یہ کہاجائے کہ پھوپھی اور خالہ میں کوئی فرق نہیں ہے یا یہ کہ خالہ کی بیٹی حرام ہوجاتی ہے تو پھوپھی کی بیٹی بطریق اولیٰ حرام ہوجائے گی۔ یہ دونوں باتیں قابل اشکال ہیں۔
بنابرایں پھوپھی کے حکم کو خالہ کے ساتھ الحاق کرنے کا فتویٰ نہیں دیا جا سکتااور فتویٰ سے تنزل کرکے احتیاط کا حکم لگانا ضروری ہے کیونکہ دونوں فرق نہ ہونے کا احتمال پایاجاتا ہے۔
۹ ۔زانی پر ہر اس عورت ، جس کے ساتھ زنا کیا ہو، کی بیٹی کے حرام ہونے کی دلیل: اس حکم پر روایات کا ایک مجموعہ دلالت کررہا ہے۔ جیسے محمد ابن مسلم کی روایت ہے جو حضرت امام محمد باقر علیہ السلام یا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے:
“أَنَّهُ سُئِلَ عَنِ الرَّجُلِ يَفْجُرُ بِالْمَرْأَةِ أَ يَتَزَوَّجُ بِابْنَتِهَا
؟ قَالَ: لا.”“ا یسے شخص کے بارے میں سوال کیا گیا جس نے کسی عورت کے ساتھ زنا کیا تھا، کیا وہ اس عورت کی بیٹی سے شادی کر سکتا ہے؟ فرمایا: نہیں!”
اس مجموعۂ روایات کے مقابلے میں ایک اور مجموعہ ہے جو اس کے برعکس حکم پر دلالت کرتا ہے۔ جیسے سعید بن یسار کی یہ روایت:
“سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام عَنْ رَجُلٍ فَجَرَ بِامْرَأَةٍِ، يَتَزَوَّجُ ابْنَتَهَا؟ قَالَ: نَعَمْ، يَا سَعِيدُ، إِنَّ الْحَرَامَ لَا يُفْسِدُ الْحَلَالَ
.”“م یں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا؛ جو کسی عورت کے ساتھ زنا کرے کیا اس عورت کی بیٹی سے شادی کر سکتا ہ؟ فرمایا: ہاں! اے سعید ! بے شک کوئی حرام کسی حلا ل کو فاسد اورباطل نہیں کرتا۔”
دوسری روایت صراحت کے ساتھ جواز پر دلالت کر رہی ہے لہذا پہلی روایت کو کراہت پر محمول کرکے ان دونوں روایتوں کو باہم جمع کیا جا سکتا ہے۔
۱۰ ۔ لواط کرنے کی صورت میں فاعل پر مفعول کی بہن ، بیٹی اور ماں حرام ہو جاتی ہے۔ اس حکم کے بارے میں فقہاء میں کسی اختلاف کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔
اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ابن ابی عمیر کی مرسلہ روایت بھی اس پر دلالت کر رہی ہے جو ہمارے بعض اصحاب سے نقل کی گئی ہے:
“رَجُلٍ يَعْبَثُ بِالْغُلَامِ، قَالَ: إِذَا أَوْقَبَ حَرُمَتْ عَلَيْهِ ابْنَتُهُ وَ أُخْتُهُ
.”“ا یک شخص نے کسی لڑکے سے لذت اٹھائی ہے۔ فرمایا: اگر وہ دخول کرے تو اس پر مفعول کی بیٹی اور بہن حرام ہوجائے گی۔”
یہ روایت مرسلہ ہے ؛ لیکن یہ اشکال بھی رفع ہوسکتا ہے بشرطیکہ ہم اس قاعدے کو مان لیں کہ ہر وہ روایت موثق ہے جو احمد بن ابی نصیر بزنطی یا ابن ابی عمیر یا صفوان بن یحیی (صفوان جمال) سے مروی ہو۔
بلکہ اس کے بجائے کسی دوسری روایت سے بھی اس حکم کو ثابت کیا جا سکتا ہے۔ وہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ابراہیم بن عمر کی موثق روایت ہے:
“رَجُلٍ لَعِبَ بِغُلَامٍ هَلْ تَحِلُّ لَهُ أُمُّهُ، قَالَ: إِنْ كَانَ ثَقَبَ فَلا
”“کس ی شخص نے ایک لڑکے سے لذت اٹھائی ہے کیا اس پر اس لڑکے کی ماں (کےساتھ نکاح کرنا)حلا ل ہے؟ فرمایا: اگر دخول کیا ہے تو نہیں۔”
اگرچہ اس روایت میں صرف ماں کا ذکر ہوا ہے ؛ لیکن ماں ، بہن اور بیٹی میں کوئی فرق نہیں ہے ؛ لہذا اس حکم کو ماں کے علاوہ بہن اور بیٹی کے لئے بھی ثابت کیا جا سکتا ہے۔
اس بات کی تائید ان روایات سے بھی ہوتی ہے جن میں سے بعض میں صرف بہن کا ذکر ہے اور بعض میں صرف بیٹی کا ذکر ہے۔
البتہ ان روایات کی سندوں کا ضعیف ہونا، تائید کی حد تک ان سے تمسک کرنے میں رکاوٹ نہیں بنتا۔
۱۱ ۔ فاعل کو بالغ اور مفعول کو نابالغ کے ساتھ مقید کرنے کی دلیل: یہ شرط موثقہ سے معلوم ہوتی ہے ؛ کیونکہ روایت میں فاعل کو “رجل” اور مفعول کو “غلام” کہا گیا ہے۔
اگر یہ دعویٰ کیا جائے کہ اس فاعل پر مرد ہونا صادق آتا ہے؛ اگرچہ اس کے بالغ ہونے کے بعد ہی کیوں نہ ہو۔ پس کہا جاتاہے کہ وہ مرد تھا اور اس نے کھیل کود میں دخول کیا ہے۔ اگرچہ یہ کام اس کے بالغ ہونے سے پہلے ہی اس سے سرزد ہوچکا ہو۔ اور دوسری بات یہ کہ حرام کا حکم صرف مورد غالب پر نہیں ہے ؛ بلکہ غیر غالب پر بھی حرمت کا حکم آسکتا ہے۔
یہ دعویٰ صحیح نہیں ہے کیونکہ پہلی صورت خلاف ظاہر ہے ؛ کہ کہنے والے کی بات کا ظاہر یہ ہے اس نے یہ فعل “رجل” ہونے کی حالت میں انجام دیا۔ جیسے ہمارا یہ کہنا: “ مسافر نے نماز قصر پڑھی۔”
اور دوسری بات اس لئے صحیح نہیں ہے کہ جہاں نص نہ ہو وہاں فقط احتمال کا پایا جانا برائت کی طرف رجوع کرنے سے مانع نہیں ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ یہ قید امام ؑ کے کلام میں ذکر نہیں ہوئی ہے تاکہ اس سے یہ نتیجہ لیا جائے کہ فاعل اور مفعول میں مذکورہ قیود ضروری ہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ حکم کو عام کرنا بھی دلیل کا محتاج ہے اور جب کوئی دلیل نہ ہو تو اصل کا تقاضا عام نہ ہونا ہے۔
۱۲ ۔ حرام ہونے کے لئے عقد پر لواط کا مقدم ہونا ضروری ہونے کی دلیل: اگرچہ موثقہ ابراہیم بن عمر اس جہت سے مطلق ہے ؛ لیکن دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عقد کے بعد عارض ہونے والے اسباب کے باعث اس کی گزشتہ حالت (حلال کی حالت) ختم نہیں ہوگی۔ جیسے محمد ابن مسلم کی روایت صحیحہ ہے جو حضرت امام محمد باقر علیہ السلام یا امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے:
“سُئِلَ عَنِ الرَّجُلِ يَفْجُرُ بِامْرَأَةٍ، أَ يَتَزَوَّجُ بِابْنَتِهَا؟ قَالَ: لَا، وَ لَكِنْ إِنْ كَانَتْ عِنْدَهُ امْرَأَةٌ ثُمَّ فَجَرَ بِأُمِّهَا أَوْ أُخْتِهَا، لَمْ تَحْرُمْ عَلَيْهِ امْرَأَتُهُ، إِنَّ الْحَرَامَ لَا يُفْسِدُ الْحَلَالَ
.”“اس شخص کے بارے م یں پوچھا گیا جو کسی عورت کے ساتھ زنا کرتا ہے کیا وہ اس عورت کی بیٹی سے شادی کر سکتا ہے؟ فرمایا: نہیں! لیکن اگر وہ کسی عورت سے شادی کرے پھر اس کی ماں یا بہن کے ساتھ زنا کرے تو اس پر اپنی بیوی حرام نہیں ہوگی۔ کیونکہ کوئی حرام کسی حلال کو فاسد اور باطل نہیں کرتا۔”
اس روایت کا موضوع زنا ہے ؛ لیکن علت کے عموم کی وجہ سے یہ حکم لواط پر بھی جاری ہو سکتا ہے۔
۱۳ ۔شوہر دار عورت کے ساتھ شادی کرنےسے حرام ابدی ہونے کی دلیل: اس حکم پر بہت ساری روایات دلالت کررہی ہیں۔ جیسے ادیم بن حر نے روایت کی ہے:
“قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام: الَّتِي تَتَزَوَّجُ وَ لَهَا زَوْجٌ يُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا ثُمَّ لَا يَتَعَاوَدَانِ أَبَداً
.”“وہ عورت جو شوہر کے ہوتے ہوئے شاد ی کرے ، ان دونوں کے درمیان جدائی ڈالی جائے گی پھر وہ دونوں کبھی بھی ایک نہیں ہوسکیں گے۔”
اس روایت کے اطلاق کا تقاضا یہ ہے کہ اس مر د پر وہ عورت حرام ابدی ہوجائے گی خواہ حکم سے جاہل ہی کیوں نہ ہو اور دخول بھی نہ کرے۔
البتہ اس روایت کے مقابلے میں عبد الرحمن بن حجاج کی روایت صحیحہ کہتی ہے:
“سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام عَنْ رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَةً وَ لَهَا زَوْجٌ وَ هُوَ لَا يَعْلَمُ، فَطَلَّقَهَا الْأَوَّلُ أَوْ مَاتَ عَنْهَا ثُمَّ عَلِمَ الْأَخِيرُ أَ يُرَاجِعُهَا؟ قَالَ: لَا حَتَّى تَنْقَضِيَ عِدَّتُهَا
.”“م یں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا جو لاعلمی میں کسی شوہر دارعورت سے شادی کرتا ہے۔ پس اگر سابق شوہر اس کو طلاق دے یا وہ مرجائے اور دوسرے کو اس کا علم ہوجائے تو کیا وہ رجوع کر سکتا ہے؟ فرمایا: جب تک اس کی عدت ختم نہ ہوجائے وہ رجوع نہیں کرسکتا۔”
یہ روایت جہالت اور لاعلمی کو بیان کر رہی ہے۔ اس کا تقاضا یہ ہے لاعلمی کی صورت میں حرام ابدی واقع نہیں ہوگا خواہ دخول کرے یا نہ کرے۔
بنا بر ایں اس روایت کے ذریعے گزشتہ روایت کو تخصیص دینا ضروری ہوجائے گا۔ نتیجتاً علم کی صورت میں حرام ابدی واقع ہوجائے گا اور لاعلمی کی صورت میں نہیں ہوگا ۔نیز دونوں صورتوں میں دخول کرنے یا نہ کرنے میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔
البتہ عبد الرحمن کی روایت صحیحہ کے مقابلے میں ایک دوسری صحیحہ بھی ہے جو زرارہ نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل کی ہے:
“إِذَا نُعِيَ الرَّجُلُ إِلَى أَهْلِهِ أَوْ أَخْبَرُوهَا أَنَّهُ قَدْ طَلَّقَهَا، فَاعْتَدَّتْ، ثُمَّ تَزَوَّجَتْ، فَجَاءَ زَوْجُهَا الْأَوَّلُ، فَإِنَّ الْأَوَّلَ أَحَقُّ بِهَا مِنْ هَذَا الْأَخِيرِ، دَخَلَ بِهَا الْأَوَّلُ أَوْ لَمْ يَدْخُلْ بِهَا، وَ لَيْسَ لِلْآخَرِ أَنْ يَتَزَوَّجَهَا أَبَداً، وَ لَهَا الْمَهْرُ بِمَا اسْتَحَلَّ مِنْ فَرْجِهَا
.”“کس ی شخص کے گھر والوں کو اس کی موت کی خبر ملے یا یہ خبر ملے کہ شوہر نے اس کو طلاق دی ہے ، وہ عدت گزارنے کے بعد دوسری شادی کرلے۔ پھر اس کا سابق شوہر پلٹ آئے تو سابق شوہر بعد والے شوہر سے زیادہ حقدار ہے، خواہ سابق شوہر نے دخول کیا ہو یا نہ، اور دوسرے شوہر پر ہمیشہ کے لئے اس کے ساتھ شادی کرنا حرام ہو جائے گا اور اس عورت کو دخول کی وجہ سے مہر بھی مل جائے گا ۔ ”
یہ روایت دخول کرنے کی صورت میں بعد والے شوہر پر اس عورت کے حرام ابدی ہونے پر دلالت کرتی ہے۔
اگر دوسری صحیحہ کی طرح اس روایت میں بھی صرف لاعلمی کی جہت کو مد نظر رکھا جائے تو یہ روایت ، دوسری روایت سے اخص مطلق ہوجائے گی۔ پس یہ دخول نہ کرنے کی صورت کے ساتھ خاص ہو جائے گی نتیجتاً لاعلمی اور عدم دخول کی صورت میں حرام ابدی واقع نہیں ہوگا ؛ لیکن لاعلمی کے ساتھ دخول کرنے کی صورت میں حرام ابدی ہوجائے گا۔ علم کی صورت میں حرام ابدی ہونا موثقہ ادیم سے ثابت ہے۔ اس طرح ہم متن میں ذکر کردہ حکم کا نتیجہ لے سکتے ہیں۔
لیکن اگر لاعلمی کی جہت کے لحاظ سے تیسری روایت کو مطلق مان لیا جائے تو دوسری اور تیسری روایت کے درمیان عام و خاص من وجہ کی نسبت ہوگی۔ اور لاعلمی کے ساتھ دخول کرنے کی صورت میں دونوں روایتیں متعارض ہوں گی اور ساقط ہوجائیں گی ۔ دونوں کے ساقط ہونے کے بعد موثقہ ادیم کے اطلاق سے رجوع کرنا ضروری ہوجائے گا ؛ کیونکہ اس کے لئے مقید بننے والی روایت (دوسری روایت) معارض کی وجہ سے ساقط ہوگئی ہے ؛ لہذا اس طرح بھی ہم وہی نتیجہ لے سکیں گے۔
۱۴ ۔ شوہر دار عورت کے ساتھ زنا کرنے کی صورت میں حرام ابدی ہونے کی دلیل: یہ مشہور فتویٰ ہے
؛ بلکہ اس پر اجماع ہونے کا دعویٰ بھی کیا گیا ہے۔ اس حکم کو ثابت کرنے کے لئے مندرجہ طریقوں سے استدلال کیا گیا ہے:
الف) اولویت قطعیہ کے دعویٰ سے تمسک کرنا:
جب شوہر دار عورت کے ساتھ شادی کرنے سے وہ اس مرد پر حرام ابدی ہو جاتی ہے تو اس کے ساتھ زنا کرنے سے بطریق اولیٰ حرام ابدی ہوجائے گی۔
اس استدلال پر یہ اشکال ہوتا ہے کہ شرعی احکام تعبدی ہیں اور ہمارے پاس ان کے ملاک کو معلوم کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے؛ لہذا یہ اولویت صحیح نہیں ہے۔
ب)فقہ رضوی کے مذکورات سے تمسک کرنا:
فقہ رضوی میں کہا گیا ہے کہ جو شخص کسی شوہر دار عورت سے زنا کرے خواہ وہ عورت پاکدامن ہو یا نہ ہو، پھر اس کا شوہر اسے طلاق دے دے یا وہ مرجائے اور زانی اس عورت کے ساتھ شادی کا ارادہ کرے تو وہ اس کے لئے کبھی بھی حلال نہیں ہوگی۔
اس پر یہ اشکال ہے کہ حضرت امام رضا علیہ السلام کی طرف اس کتاب “فقہ رضوی”کی نسبت ثابت نہیں ہوئی ہے تاکہ ہم اس پر اعتماد کریں۔
ج) بعض فقہاء کے نقل کردہ دعوائے اجماع سے تمسک کرنا:
اس بات پر یہ اشکال ہے کہ اجماع کا واقع ہونا ثابت نہیں ہے۔ بالفرض ثابت بھی ہوجائے تو یہ اجماع حجت نہیں ہے ؛ کیونکہ اس کے اجماع مدرکی ہونے کا احتمال ہے۔
جب حرام ابدی کی کوئی دلیل ثابت نہ ہو تو حلال ہونے کو ثابت کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے عموم سے تمسک کیا جا سکتا ہے:(
...وَ أُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَالِكُمْ
...)
“...اور ان کے علاوہ باقی عورتیںد تم پر حلال ہںح...”
لیکن مشہور کی مخالفت سے بچتے ہوئے احتیاط کی رعایت کرنا ایک لازمی امر ہے۔
یہ تمام احکام شوہر دار عورت کے ساتھ شادی کرنے یا اس کے ساتھ زنا کرنے کے احکام تھے ؛ لیکن عدت گزارتی عورت کے ساتھ شادی کرنے یا زنا کرنے کے احکام عدت کی بحث میں بیان کئے جائیں گے۔